Ticker

6/recent/ticker-posts

صدارتی خطاب ✒️ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

صدارتی خطاب
✒️ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
ساتواں دن

السلام علیکم
آج ایوینٹ نمبر 26 ؍ بنام ٹیچر / معلم کی سات روزہ نشست کا آخری دن ہے۔ یوں تو میں گروپ پر پیش ہونے والے افسانچے ہمیشہ ہی پڑھتی ہوں لیکن ان سات دنوں کی تخصیص یہ رہی کہ زیادہ پابندی اور توجہ سے پڑھے۔ پرت در پرت افسانچوں کے محاسن بہتر طور پر کھلے اور فاضل مبصرین کے عالمانہ تبصروں نے تفہیم میں معاونت کی۔ سفر دلچسپ اور خوشگوار رہا۔
آج کی نشست کا پہلا افسانچہ ’’سزا‘‘ سراج عظیم صاحب کے زور قلم کا نتیجہ ہے۔ سراج عظیم صاحب نے ’’بچپن‘‘ کی پرورش کرکے ادب اطفال میں کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں۔ دہلی کی ٹکسالی زبان کی روایتوں کے امین ہیں اور فن افسانچہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں۔ لیکن زیر نظر افسانچہ طوالت کے باعث مختصر افسا نے کے زمرے میں داخل ہوتا نظر آتا ہے۔ کسی مبصر نے صحیح کہا ہے کہ یہ پلاٹ ناول کا تھا اور تفصیل کا متقاضی تھا۔ مختصر کرنے کی وجہ سے بنت کی بعض کمزوریاں درآئی ہیں۔ اس لیے بعض تفصیلات اور کم کردی جائیں تو بہتر ہوجائے۔ اعراب کی غلطیاں (کوما، وقفہ وغیرہ) تحریر کی کمزوری ہیں زبان کی نہیں۔
جہاں تک کہانی کا تعلق ہے یہ میرے دوران تحقیق کا واقعہ ہے جو ہر ایک زبان پر تھا۔ سراج صاحب نے اس میں کوئی مبالغہ نہیں کیا ہے۔ اس لیے میں کہانی پر کوئی Comment نہیں کروں گی۔ مرحومین کو یوں بھی بخش دینا چاہیے۔
آج کا دوسرا افسانچہ رخسانہ نازنین صاحبہ کا ’’کفر توڑ‘‘ ماحول میں خوشگوار تبدیلی کا نقیب ثابت ہوا۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ رخسانہ نازنین افسانچہ نگاری میں فنی اور لسانی خوبیوں کے ساتھ بہتری کی طرف گامزن ہیں اور اچھے افسانچے تحریر کر رہی ہیں۔ زیر نظر افسانچے میں دادا کی عظمت اور پوتی کی محنت دونوں کا عمدہ بیان ہے۔ پوتی نے دادا کی تمنا پوری کی اور وزیر صاحب نے دادا کو بحیثیت عمدہ ٹیچر تسلیم کرکے تعظیم دی۔ یہاں ایک بات بتانا چاہتی ہوں کہ UPSC کے امتحان میں اول رینک حاصل کرنے والے / والی کو نہ گولڈ میڈل ملتا ہے اور نہ ہی کوئی سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ ان کا انعام یہی ہوتا ہے ٹاپ رینک حاصل کرنے والے امیدواروں کو IAS کے لیے تقرری کا پروانہ مل جاتا ہے۔ امتحان IAS کا نہیں ہوتا UPSC کا ہوتا ہے۔ رینک کے حساب سے IAS، IFS، IPS وغیرہ کی کٹیگری میں رکھ کر تقرری کی جاتی ہے۔ 
آج کا تیسرا اور آخری افسانچہ ’’دادی‘‘ قیوم اثر صاحب کے طلسماتی اسلوب میں گندھا ہوا دلچسپ افسانچہ جو ٹیچر کی عظمت سے زیادہ دادی کی عظمت کا نقش جما رہا ہے۔ آج کے دور میں ایک ایسا مشترکہ خاندان جہاں دادی کا سکہ چلتا ہو۔ بیٹا، بہو، پوتا سب فرماں بردار۔ پڑھ کر اچھا لگا کہ اب بھی ایسا ہوتا ہے۔ دادی نے پوتے کی کامیابی کا سارا کریڈٹ ٹیچر کو دیا۔ اور اولاد نے بجا آوری میں سر تسلیم خم کردیا۔ قیوم صاحب نے واقعی ٹیچر کی عزت و توقیر بڑھا دی۔ بہت بہت مبارکباد۔ دلچسپ انداز بیان نے طوالت کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ایوینٹ کا عمدہ اختتام اور استاد کو شاندار خراج عقیدت۔
آخری پیراگراف میں غالباً ’’زاہد خاں کے فرشتہ صفت ٹیچر عبدالقیوم کے بجائے ٹائپ کی غلطی سے فرشتہ صفت زاہد خاں…‘‘ ہوگیا ہے۔ 
میں انور مرزا صاحب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ انھوں نے مجھے ایک ایسی خوشگوار ذمہ داری سونپی جس کی میں اپنے آپ اہل نہیں سمجھتی۔ نا کوئی قابلیت، نہ صلاحیت اور نہ علم۔ پھر بھی میں نے اپنی سمجھ کے مطابق ایمانداری اور غیر جانب داری سے اس ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہونے کی کوشش کی۔
اس نشست میں شریک سب ہی افسانچہ نگاروں اور مبصرین کو میری دلی پرخلوص مبارکباد پیش ہے۔
بقول امیر مینائی ع
امیر جمع ہیں احباب حالِ دل کہہ لو۔
کچھ جملے عرض کرنا چاہوں گی۔ سمع خراشی کے لیے پیشگی معذرت۔
افسانہ نگار گروپ کا جو قافلہ انور مرزا صاحب کی قافلہ سالاری میں کامیابی کے جھنڈے گاڑتا ہوا رواں دواں ہے اس میں عصر حاضر کے بہت سے نامور اور سینئر فکشن نگار شامل ہیں جن کی شمولیت نے گروپ کو مزید وقار بخشار ہے۔ اور نوواردان بساطِ افسانچہ نگاری کی ہمت و حوصلہ افزائی کی ہے۔ یہ صرف افسانچہ نگاری کی ترویج و اشاعت ہی نہیں ہے بلکہ اردو زبان کی بقا کی ناقابل فراموش کوشش ہے۔ یہاں افسانچہ نگاری، تنقید اور تبصرے وتجزیے سب ہی کا ارتقا ہورہا ہے اور ریحان کوثر صاحب نے ان تخلیقات کو الفاظ ہند میں شامل کرکے کارنامہ انجام دیا۔ تیز رفتاری کا ریکارڈ قائم کرلیا۔
ہمارے عالم اور فاضل اراکین واقف ہیں کہ تنقید میں تحسین اور تنقیص دونوں شامل ہوتی ہے لیکن اکثر تحسین میں مبالغہ اور تنقیص میں تحقیر شامل ہوجاتی ہے، جس سے بچنا چاہیے۔ مثلاً تعریف میں Superlative degree کا استعمال (بہترین شاہکار) خوب سے خوب تر کی کوشش میں بریک لگا دیتا ہے، کیونکہ شاہکار تو ہر فنکار زندگی میں ایک ہی تخلیق کرتا ہے۔
اسی طرح اگر کسی فن پارے کی کمیوں کی طرف توجہ دلانی ہو تو متوازن الفاظ کے استعمال سے تنقید بھی خوشگوار ہوجاتی ہے۔
ایک واقعہ پیش ہے۔ ایک بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے ہیں۔ اس نے اپنے دربار کے تعبیر خواب بتانے والے دو لوگوں کو بلایا الگ الگ۔ پہلے شخص سے تعبیر پوچھی تو اس نے کہا ’’آپ کے سارے رشتہ دار آپ کے سامنے مرجائیں گے‘‘ بادشاہ آگ بگولا ہوگیا اور اس کے قتل کا حکم جاری کردیا۔ پھر دوسرے کو بلایا، اس نے تعبیر بتاتے ہوئے کہا ’’آپ کی عمر خاندان میں سب سے لمبی ہوگی۔‘‘ بادشاہ نے خوش ہوکر انعام و اکرام سے نوازا۔
ایڈمن اور اراکین کے لیے مبارکباد ، دعائیں اور نیک خواہشات۔
سراج عظیم صاحب کو اگلے ایوینٹ کی صدارت مبارک۔
حق بحق دار رسید۔
والسلام
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

6واں دن

السلام علیکم
آج کل دہلی کا موسم غیر مستقل چل رہا ہے۔ کسی دن رم جھم کی پھوار تو کسی دن سورج کی تمازت ، یعنی (Unpredicted) اسی طرح افسانہ گروپ کے 26 ایوینٹ میں پیش کیے افسانچوں کا موسم اور لب و لہجہ بھی آج مختلف ہے۔ کچھ نرم کچھ گرم۔ ٹیچر / معلم کا کردار اور افعال بھی مختلف نظر آئے۔
بعض تحریریں بہت ہلکی پھلکی لیکن راحت افزا ہوتی ہیں۔ سیدھے سادے انداز اور اختصار لفظی کے ساتھ ایک عام سی بات کہہ دی جاتی ہیں لیکن اس عام سی بات میں اتنی گہرائی اور گیرائی چھپی ہوتی ہے کہ وہ بات بے حد خاص ہوجاتی ہے جس کے دور رس نتائج ہوتے ہیں اور اس کی کئی جہتیں ہوتی ہیں۔ یہ ہنر ریحان کوثر صاحب کے اکثر افسانچوں میں پایا جاتا ہے۔
زیر نظر افسانچے ’’مجھ کو چھٹی نہ ملی ‘‘ کا مرکزی کردار یعنی خود افسانچہ نگار اپنے مدرس کی سیکھ کو آج تک نہ بھول پائے، نہ الفاظ کے صحیح تلفظ کو اور نہ مسجد کے حوالے سے مذہب کی اہمیت کو۔
رونق جمال صاحب نے صحیح کہا کہ یہ پہلا افسانچہ ہے جس میں ٹیچر مدرسے کا حافظ ہے۔ اس پر کسی قلم کار نے توجہ نہیں دی کہ حافظ بھی ٹیچر ہوتا ہے اور زیادہ محترم ہوتا ہے کیونکہ وہ کتاب ﷲ کا درس دیتا ہے۔
قیوم اثر صاحب ، عارفہ شیخ صاحبہ اور سلیم سرفراز نے اپنے اپنے طور پر افسانچے کی تفہیم کی ہے۔
ندرت موضوع اور ندرت بیان کے ساتھ فصیح زبان برتنے پر ریحان کوثر کو داد اور نیک خواہشات۔
دوسرا افسانچہ اقبال نیازی صاحب کا تحریر کردہ ’’حکم نامہ‘‘ ہے۔ افسانے کے درون میں ڈرامائی انداز کے ساتھ گہرا طنز چھپا ہے۔ یہ طنز کئی طرح سے اثر انداز ہورہا ہے۔ پہلا طنز حکومت پر، لاک ڈائون ہے، وبا کاخوف ہے، بازار بند ہیں، روزگار بند ہے۔ اس کے لیے کچھ نہیں کیا جارہا ہے، لیکن سرکاری جیب بھرنے کے لیے شراب کی دوکانیں کھول دی گئیں۔ دوسرا طنز عوام پر، پیٹ کو روٹی نہیں ہے، لیکن شراب کی دوکان پر بھیڑ بے قابو ہے۔
تیسرا طنز حکومت پر کہ لاک ڈاؤن میں تمام سرکاری ادھیکاری گھر بیٹھے تنخواہ لے رہے ہیں، لیکن حکومت کی نظر میں ٹیچر ہی کھٹکتے ہیں اور انہیں متعلق یا غیر متعلق ہر کام پر لگادیا جاتا ہے۔
اور چوتھا نئی نسل کی بے حیائی اور ڈھٹائی پر کہ استاد مجبوری میں ایک نامناسب جگہ آکر شرمندگی محسوس کرتا ہےاور اپنا منہ ماسک سے چھپا لیتا ہے لیکن شاگرد بغیر ماسک کے ڈھٹائی سے مسکراتے رہتے ہیں اور استاد کو غلط سمجھتے ہیں۔
یہاں شراب کی دکان پر استادوں کی ڈیوٹی لگانا استعاراتی انداز ہے کہ استاد کو ہر جگہ جھونک دیا جاتا ہے چاہے وہ کام ان کے مرتبے کے منافی ہی کیوں نہ ہو۔ زبان کی صحت کے ساتھ پیش کئے گئے افسانچے کے لیے نیازی صاحب کو مبارکباد۔
افسانچہ نگاری کے میدان کے شہسوار ہیں انور مرزا صاحب، آج پیش ہونے والی ان کی تخلیق تین محاذوں پر کامیاب ہے۔
اول تو عمدہ زبان، دلچسپ اسلوب اور افسانچے کے فنی تقاضوں پر پوری اترتی ہے۔
دوسرے یہ معلومات فراہم کرتی ہے کہ ہوائی جہاز کا بلیک باکس کالا نہیں اورینج یا نارنجی رنگ کا ہوتا ہے، جو لوگوں کے عام تصور سے مختلف ہے۔
تیسرے منترالیہ یا وزارت تعلیم کی بے راہ روی اور زور زبردستی جو اسکول کے مالک یا پرنسپل کو ایک دھمکی کے طور پر دی گئی کہ اگر اسکول کی عمارت خالی نہیں کروگے تو تمہارے اسکول کی قسمت میں بھی ایک بلیک آسکتا ہے۔ لیکن اسکول کے پرنسپل/راوی ان سے بھی دو ہاتھ آگے نکلے جنہوں نے گزشتہ رات ہونے والی وزیر صاحب کے پی اے کی گفتگو ریکارڈ کرلی تھی۔ یعنی سیر کو سوا سیر۔
مرزا صاحب نے استاد کے موضوع پر استاد کے ایک بالکل مختلف کردار کے گوشے کو پیش کیا ہے۔ مبارکباد اور نیک خواہشات۔
ایوینٹ کے چھٹے دن کی خصوصیت یہ رہی ہے کہ تینوں افسانچے ڈگر سے ہٹ کر موضوع پر لکھے گئے اور کامیاب رہے۔
آخر میں دو لفظ کہنا چاہوں گی کہ ’’افسانہ نگار‘‘ گروپ کے سب ہی اراکین اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ حساس قلم کار بھی ہیں جو دوسروں کے جذبات کا احترام کرتے ہیں اور کرنا جانتے ہیں۔ میری گروپ کے ہر رکن سے پرخلوص گزارش ہے کہ تہذیب کا دامن نہ چھوڑیں اور تنقید کرتے ہوئے تناسب لفظی کا خیال رکھیں تاکہ گروپ کے معیار پر کوئی حرف نہ آئے۔
والسلام
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

پانچواں دن
السلام علیکم
’’وجہ‘‘ رفیع الدین مجاہد صاحب کا عمدہ جذباتی افسانہ ہے۔ اس مختصر سی تحریر میں کردار نگاری بھرپور ہے۔ ایک ریٹائر ہونے والے شخص کی جسمانی، ذہنی اور جذباتی کیفیات کی عمدہ عکاسی کی گئی ہے۔ عموماً یہ کیفیت اور یہ درد ہر اس شخص کے درون میں ابھرتا ہے جو ایک لمبی کارآمد زندگی جینے کے بعد نہ صرف خود محسوس کرتا ہے بلکہ گھروالے بھی اس احساس کو ہوا دیتے ہیں کہ اب وہ عضو معطل کی طرح ہے۔ زیر نظر افسانے کی تخصیص یہ ہے کہ ٹیچر جس نے زندگی بھر علم کی روشنی پھیلائی، خود اندھیروں میں ڈوبے جارہا ہے۔ خالی پن کے احساس کے ساتھ اضافی غم یہ ہے کہ پنشن کم ہونے کی وجہ سے گھر میں بھی اس کی حیثیت اضافی ہوجائے گی۔
زبان و بیان بہتر ہے۔ خاتمہ بھی خوب ہے۔ عنوان ’’ڈوبتا سورج‘‘ بھی ہوسکتا تھا۔
یہ فیصلہ قارئین اور مبصرین پر چھوڑا جاسکتا ہے کہ یہ افسانچہ ایوینٹ کے عنوان ٹیچر/ معلم کے زمرے میں کس حد تک آتا ہے!!!
محمد عرفان ثمین صاحب نے اچھا سوال اٹھایا ہے۔ ۲۰۰۵ء میں سروس میں آنے والے تو ۲۰۳۵ءمیں ریٹائر ہوں گے۔ یہ غم کچھ بیش از افتاد لگ رہا ہے۔
افسانچے کی عمدہ بنت اور زبان و بیان کی خوبی کے لیے مجاہد صاحب کو مبارکباد۔
آج کا دوسرا افسانچہ ’’گرودکشنا‘‘ ہے جو سید محمد نعمت اللہ صاحب کی فکر کا نتیجہ ہے۔ اس افسانے کی پہلی قرأت کے ساتھ ہی مجھے قرآن کریم کی وہ آیتیں یاد آگئیں جن میں کہا گیا ہے کہ ’’تمہارا مال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے فتنہ ہیں۔‘‘ دوسری جگہ آیت کا مفہوم ہے ’’جان لو تمہارا مال اور اولاد یہ ہی خرابی ڈالنے والے ہیں۔‘‘ اس سچائی سے ہم انکار کیسے کرسکتے ہیں۔ پرنسپل نیازی صاحب نے برسوں کی تپسیا کے بعد جو نیک نامی کمائی تھی اولاد کی محبت نے پل بھر میں اسے مٹی میں ملادیا۔ بقول شاعر:
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
سامان لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
کہانی کی بنت مناسب ہے۔ زبان اور اسلوب بھی عمدہ ہے۔ خاتمہ اگر چہ پنچ لائن نہیں ہے لیکن تاثر بھرپور ہے۔ نعمت اللہ صاحب کے لیے نیک خواہشات اور مبارکباد۔
یاسمین اختر صاحبہ ’’افسانہ نگار‘‘ گروپ کی فعال اور لائق ممبر ہیں۔ ان کے تفصیلی، تمثیلی اور اجتماعی تبصرے تمام اراکین کو محظوظ کرتے ہیں جن کا ایوینٹ کے خاتمے پر سب ہی کو انتظار رہتا ہے۔ ان کا افسانچہ ’’کہاں کا دستور‘‘ صد فی صد حقیقت کا عکاس ہے اور ایک ایسے زوال آمادہ معاشرے کی تصویر کشی کررہاہے جہاں استاد جیسی محترم شخصیات میں بے راہ رویاں اور بدعنوانیاں فروغ پارہی ہیں۔ میں نے خود ایک خاتون سرکاری ٹیچر کے گھر میں طالبات کے لیے آئے ہوئے یونیفارم کے کپڑوں کے پلنگ پوش اور پردے پڑے دیکھے ہیں۔
موضوع میں ندرت ہے ،کہانی پن بھی ہے، لیکن افسانچہ جلد بازی کا شکار معلوم ہوتا ہے۔ ابتدائی تفصیل کم کرکے طوالت گھٹائی جاسکتی تھی۔ اس کے ساتھ زبان کی اغلاظ نے افسانچے کے حسن کو متاثر کیا ہے۔ عارفہ شیخ نے اس کی طرف اشارہ بھی کیا ہے۔ احمد کمال حشمی صاحب کا تبصرہ اور مشورہ افسانچے کی طوالت کے تناظر میں ، بہت مناسب ہے۔ اگلے ایوینٹ میں یاسمین صاحبہ سے ان شاء اللہ زیادہ بہتر تخلیق کی امید رہے گی۔ (فنی اور لسانی جہت میں) نیک خواہشات۔ مبارکباد۔
مبصرین کی تعداد آج پانچویں دن کچھ کم نظرآئی۔ اللہ آپ سب کو بعافیت رکھے۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

چوتھا دن
السلام علیکم،
ایوینٹ نمبر ۲۶ کے سیکنڈ رائونڈ کے چوتھے دن کی صبح خوشگوار موسم کے ساتھ ماہرانہ قلم سے لکھے ہوئے افسانچے کی نوید بھی لے کر آئی۔ رونق جمال صاحب عہد حاضر میں اردو افسانچہ نگاری کے مشعل برداروں میں سے ہیں۔ میں یہ واضح کرتی چلوں کہ ضروری نہیں ہے کہ کسی نامور قلم کار کی ہر تخلیق شاہ کار ہو۔ دوسری بات یہ ہے کہ نفس مضمون یا موضوع افسانچہ / افسانہ نگار کا ذاتی حق ہے کہ وہ کیا لکھے، کیسے لکھے! ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک مرتبہ تخلیق قارئین اور مبصرین کے سامنے پہنچ جاتی ہے تو ان کا بھی حق ہوتا ہے کہ اظہار خیال کریں اور مفید مشوروں سے نوازیں۔ رونق جمال صاحب کے افسانچے ’’خوراک‘‘ پر اچھے تبصرے آئے اور ہر پہلو سے جائزہ لیا گیا۔
جہاں تک میں سمجھ سکی ہوں ، افسانچے کا موضوع لاک ڈائون اور کورونا کی وبا کے تناظر میں فی سبیل اللہ ضرورت مندوں کی مدد کا بیان نہیں ہے بلکہ اس باپ کے جذبات اور عمل کا احساس ہے جس نے کورونا کی وبا میں اپنا بیٹا کھودیا اور اب وبا کے شکار بیٹے اکرم کی یاد میں یا اس کی روح کو سکون پہنچانے کے لیے اپنے اسکول کے ایک لڑکے کی فیس بھر کر تسکین قلب حاصل کی ہے۔ اگر یہ آخری لائن نکل جائے تو افسانچہ اپنی روح کھو دے گا۔
البتہ عنوان ’’خوراک‘‘ اس سنجیدہ اور رنجیدہ تحریر کے لیے موزوں نہیں ہوتا کیونکہ اس سے شدت جذبات کا اظہار نہیں ہوتا۔
محترم احمد کمال حشمی صاحب ، قیوم اثر صاحب، سراج عظیم صاحب، پینٹر نفیس ودیگر مبصرین نے افسانچے کی بہتر تفہیم کی ہے۔ رونق جمال صاحب کو اس حساس افسانچے کے لیے مبارکباد۔
آج کے ایوینٹ کی دوسری پیش کش ابوذر صاحب کا تحریر کردہ افسانچہ ’’ٹیچر‘‘ ہے۔ ابوذر صاحب بھی سینئر اور پختہ قلم کار ہیں۔ افسانہ نگار گروپ پر ان کے کئی عمدہ افسانچے پیش ہوچکے ہیں۔ حالیہ افسانچے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ایک گائوں کے ٹیچر رنجیت کو جب عالمی ادارے کے ذریعہ بہترین استاد کا انعام ملتا ہے تو وہ انعام کی آدھی رقم ان نوٹیچرز کوبانٹ دیتا ہے جو اس کے ساتھ ہی نامزد ہوئے تھے۔ یہاں تک پہنچ کر قاری کو محسوس ہوتا ہے کہ شاید اس نے کسی سیاسی مرتبے کے لیے یہ ناٹک کیا تھا لیکن جب وہ سیاسی پارٹی کا آفر ٹھکرا کر اسکول ٹیچر ہی رہنے کو ترجیح دیتا ہے تو قاری ایک خوشگوار حیرت سے دوچار ہوتا ہے۔ رنجیت نے یہ دکھادیا کہ استاد کا مرتبہ ہر اعزاز، ہر عہدے اور ہر سیاسی مفاد سے اونچا ہوتا ہے۔ یہاں استاد کی جے جے کار ہونی چاہئے۔
ٹائپ کی بعض غلطیاں افسانچے کے لسانی حسن کو متاثر کررہی ہیں جو دور کی جاسکتی ہیں۔
ابوذر صاحب کے لیے داد وستائش۔
’’سسکتے آنسو‘‘ از ڈاکٹر انیس رشید خان صاحب ایک نوحہ ہے اس قابل تعظیم عہدے کی بے عزتی وناقدری کا جسے استاد کہا جاتا ہے آج کی نااہل اور کم علم حکومتیں ، جس کی قدر وقیمت سے ناواقف ہیں۔ ایک سرکاری ملازمت دے کر کس کس طرح بے عزت نہیں کیا جاتا۔ مردم شماری ہے تو ٹیچر گھر گھر جاکر خوار ہورہے ہیں، الیکشن ڈیوٹی ہے تو ٹیچر ڈیوٹی دے رہے ہیں، پولیو کی مہم چل رہی ہے تو ٹیچر کی شامت ہے اور اب کورونا کے زمانے میں مردوں کی گنتی کروائی جارہی ہے۔ اس میں مذہب و ملت اور مرد و زن کی تخصیص نہیں ہے۔ خواتین بھی مستثنیٰ نہیں رہتیں۔
یہ آج کے زوال پذیر معاشرے کے انحطاط کی حد ہے کہ سماج میں جس کا مرتبہ سب سے اونچا ہونا چاہیے اسے قعرِ مذمت میں ڈھکیلا جارہا ہے۔
انیس رشید صاحب نے اس درد کو محسوس کیا اور پورے جذبے کے ساتھ بیا ن کیا ۔مبارکباد۔ بس ایک بات ضرور ہے کہ اردو یا کسی مضمون کی تخصیص نہیں ہے ۔ برتائو عام ہے۔
مبصرین کے تجربات تو مجھ سے کہیں زیادہ ہیں۔ فرخندہ ضمیر صاحبہ کا تبصرہ پڑھ کر تو رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ ارسطو نے غالباً اسی لیے جمہوریت کو جاہلوں کی حکومت کہا ہے۔
والسلام
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

تیسرا دن
السلام علیکم
ایوینٹ نمبر ۲۶؍ کے سیکنڈ رائونڈ کے تیسرے دن کا پہلا افسانچہ پرویز انیس صاحب کا ’’گرودکشنا‘‘ ہے۔ بہت سادگی اور سلاست سے لکھا مختصر اور عمدہ افسانچہ اپنے اندر گہرائی اور گیرائی رکھتا ہے۔ اس نظام حکومت کی دھجیاں بکھیررہا ہے جس میں اوپر سے لے کر نیچے تک بدعنوانی اور بے ایمانی رچی بسی ہے، جہاں سچے ہنر کو پنپنے کا موقع نہیں دیا جاتا ہے، جہاں محنت بھی خراج مانگتی ہے، جہاں اہل مسند کے ایک اشارے پر تقدیریں بدل جاتی ہیں جہاں آج کے ترقی یافتہ جمہوری نظام میں بھی ہر ایک لاویہ کو اپنا انگوٹھا دان کرنا پڑتا تاکہ کسی ارجن کا نام سنہری الفاظ میں لکھا جاسکے۔
پرویز انیس صاحب کو اس عمدہ اور بامعنی افسانچے کی پیشی پر مبارکباد اور ایوینٹ میں شمولیت کے لیے نیک خواہشات۔ پرویز انیس صاحب فن افسانچہ نگاری کے میدان میں ترقی اور کامیابی کی طرف گامزن ہیں۔
ایوینٹ کا دوسرا افسانہ شمیم جہانگیر پوری صاحب کا افسانچہ ’’برین واش‘‘ ہے۔ اچھا موضوع ہے لیکن کہانی کی بنت کمزور اور غیر مؤثر ہے۔ ٹیچر کا خود اپنے بارے میں اتنی تفصیل سے بات کرنا مناسب نہیں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ مبصرین نے بھی ظاہر کیا ہے۔
افسانچے کا عنوان ’’برین واش‘‘ بھی بامعنی نہیں ہے۔ برین واش عموماً اچھے یا مثبت معنی میں استعمال نہیں ہوتا۔ استاد طلبا کی تربیت کرتا ہے ان کا برین واش نہیں کرتا۔
ابوذر صاحب ،سراج عظیم صاحب اور اقبال نیازی صاحب نے اچھے تبصرے کیے کہ افسانچے میں کہانی کی کمی محسوس ہوئی۔ میں یہ مانتی ہوں کہ ہر قلم کار خود اپنا نقاد بھی ہوتا ہے۔ اگر اپنی تخلیقات پر نظر ثانی بلکہ نظر ثالث بھی ڈال لی جائے تو بہت سی خامیاں خود ہی دور ہوجاتی ہیں۔ بس بقول غالب اپنے آپ کو اپنا غیر تصور کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اچھی نصیحتوں کی ترسیل کے لیے شمیم جہانگیرپوری صاحب کو مبارکباد۔ 
ایوینٹ کا تیسرا اور آج کا آخری افسانچہ تبسم اشفاق صاحبہ کے زورقلم کا نتیجہ ہے۔ ’’سمارٹ ٹیچر‘‘ جدیدترین موضوع پر لکھی ہوئی عمدہ تحریر ہے۔ گوگل وہ ٹیچر ہے جس کے پاس ہر سوال کا جواب ہے۔ لیکن جس نے کتابوں کی، لغات کی اور اسناد کی قدر و قیمت کو کم کردیا ہے۔ آج کل ہر معلومات انگلیوں کی ٹپ پر موجود ہوتی ہے، لیکن جتنی جلدی حاصل ہوتی ہے اتنی ہی جلدی ذہن سے محو بھی ہوجاتی ہے۔ ریحان کوثر صاحب نے افسانچے میں چھپے طنز کو بجا طور پر محسوس کیا ہے۔
تبسم صاحبہ نے دلکش اسلوب اور بہتر زبان کے استعمال سے افسانچے کو مزید نکھار عطا کیا ہے۔ محترمہ مبارکباد کی مستحق ہیں۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

دوسرا دن

اراکین بزم کو میرا پرخلوص سلام اور قیوم اثر صاحب کو بیٹی کی شادی کی دلی مبارکباد اور بہت سی دعائیں۔

ایوینٹ نمبر ۲۶ کے دوسرے دن کی ابتدا دو ایسے افسانچوں سے ہوئی جن میں ٹیچر/معلم کی شخصیت کا منفی پہلو پیش کیا گیا ہے۔ اگر انصاف کی نظر سے دیکھا جائے تو استاد یا ٹیچر بھی انسان ہی ہوتا ہے۔ نفی اور اثبات کا مجموعہ ۔ وہ اساطیری داستانوں کے ہیرو کی طرح خوبیوں اور نیکیوں کا پیکر نہیں ہوسکتا۔ اس لیے وہ اگر اپنے بچوں کو بہتر اسکولوں میں تعلیم دلواتا ہے، اگر اپنی آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیوشن پڑھاتاہے، اگر کبھی اسکولی طلبا کی طرف کم توجہ دیتا ہے یا طلبا کے ساتھ سخت گیری سے پیش آتا ہے، تو وہ ناپسندیدہ ہونے کے باوجود قابل معافی گردانا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر کوئی ٹیچر یا معلم اپنی بیٹی جیسی طالبات پر غلط نظر ڈالتا ہے یا ان کا جنسی استحصال کرتا ہے تو وہ نہ صرف ناقابل معافی ہے بلکہ مستحق نفریں ہے۔ ایسے شخص کو استاد کی مقدس و معظم مسند پر بیٹھنے کاکوئی حق نہیں ہے۔
ایک حساس قلم کار ہی ان ان تلخ اور گھنائونی حقیقتوں کو افسانوی روپ میں ڈھال کر فنی چابکدستی کے ساتھ عوام کے سامنے پیش کرسکتا ہے۔ یہ اس کا تخلیقی فرض ہے کہ وہ سماج کے ان ناپسندیدہ گوشوں پر سے پردہ ہٹا کر طشت از بام کرے اور اپنے قارئین کے اندر شعور و آگہی کی افزائش کرے۔
آج کا پہلا افسانچہ شارق عباسی صاحب کا ’’ٹیوشن ‘‘پر ہے ۔ اس افسانچہ میں بھی ایک ایسے ہی ٹیچر راکیش کا خاکہ پیش کرتے ہوئے اس کے کردار کے تاریک پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جو امیر و کبیر اور آزاد خیال لڑکیوں کو ریاضی کی تعلیم دینے کے پردے میں بے اندازہ دولت بھی لوٹ رہا ہے اور ان کا استحصال بھی کررہا ہے۔ یہ وہ کم ظرف شخص ہے جس نے معلم کا مقدس پیشہ نیک نیتی سے نہیں بلکہ بدکاریوں کے پیش نظر اپنایا تھا۔ مصنف نے دور جدید کی صارفیت، آزاد خیالی اور مغرب کی اندھی تقلید کے نتائج خوش اسلوبی سے بیان کیے ہیں۔ اس سلسلے میں کہیں مبالغہ آمیزی بھی در آئی ہے۔ ٹیوشن فیس ٹیچر چاہے کتنی بھی وصول کرلے لیکن کسی کروڑپتی صنعت کار کی سی زندگی نہیں گذار سکتا ہے جیسی راکیش کی زندگی پیش کی گئی ہے ۔ دوسرے ٹیوشن ٹیچر کا اپنی طالبہ کو تنہا غیر ممالک کی سیر کے لیے لے جانے کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
جیسا کہ بعض مبصرین نے اشارہ کیا ہے۔ انگریزی الفاظ کا بے محابہ استعمال تحریر کے حسن کو گہنا دیتا ہے۔
بہر حال ایک بصیر ت افروز اور چشم کشا تحریر کے لیے جس میں ایک بے کردار ٹیچر کی قلعی کھولتے ہوئے مکافات عمل کا نظارہ بھی کروایا گیا ہے۔ میں شارق عباسی صاحب کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
آج کا دوسرا افسانچہ ’’روباہی‘‘از محمد عرفان تزئین میں بھی اتفاق سے ٹیچر کی شخصیت کا منفی پہلو ہی دکھایاگیا ہے جو آج کل بہت عام ہے یعنی قول و عمل کا تضاد جس کے لیے مثل مشہور ہے ’’خود را فضیحت دیگراں نصیحت‘‘ راکیش شرما جو خود دوسرے بچوں کے امتحانات کی نگرانی کرتے ہوئے سخت گیری اور ایمانداری کے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں۔ اپنے بیٹے کو نقل کروانے کے لیے بھاری رشوت دیتے نظر آتے ہیں۔ افسوسناک حقیقت ہے لیکن عام ہے۔
پیش کش اچھی ہے۔ زبان و بیان بھی بہتر ہے۔ محمد عرفان صاحب کے لیے داد اور نیک خواہشات۔
آج کا تیسرا افسانچہ ’’مثالی اساتذہ‘‘ ہے جس کی افسانچہ نگار ڈاکٹر شیخ طاہرہ ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا افسانچہ کسی استاد یا ٹیچر کو مرکزیت نہ دیتے ہوئے پورے نظام (سسٹم) کی قلعی کھول رہا ہے۔ اس انتظامیہ کے منہ پر طمانچہ ہے جو قابل لائق لیکن شریف النفس شخصیات کو نظرانداز کرکے غیر مستحق افراد کو انعامات اور اعزازات سے نوازتی ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ نے ان کا پورا تعارف کیے بغیر ہی ان کی شخصیت سے متعارف کروا دیا اور ان کے ساتھ ہوئی ناانصافی کا نوحہ بھی بیان کردیا۔
اچھا افسانچہ ہے، موضوع میں بھی ندرت ہے لیکن نظرثانی نہ ہونے کی وجہ سے ٹائپ کی غلطیاں رہ گئی ہیں جس سے تاثر مجروح ہورہا ہے۔ ڈاکٹر صاحبہ کو مبارک باد اور نیک خواہشات۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا



پہلا دن

سب سے پہلے تو میں انور مرزا کا شکریہ ادا کرنا اپنا فرض سمجھتی ہوں کہ انھوں نے مجھ جیسی بے بضاعت شخصیت کو ’’افسانہ نگار‘‘ جیسے معتبر گروپ میں پیش کیے جانے والے موجود ایوینٹ بنام ٹیچر/معلم کی اس ہفتے کی بزم کا صدر مقرر کیا۔ میں تو اپنے آپ کو اس لائق نہیں سمجھتی کہ شریک بزم نامور افسانہ نگاروں کی تخلیقات پر خامہ فرسائی کرسکوں۔ خصوصاً اس تناظر میں کہ گزشتہ ہفتے احمد کمال حشمی صاحب جیسی محترم اور قابل ہستی نے اس ایوینٹ کی صدارت کی اور بہترین، بے لاگ ، متوازن اور بلیغ خطبات سے نواز کر ایک نئی تاریخ رقم کی ، نیز پیچھے آنے والوں کی رہنمائی کے لیے علمی بصیرت اور بصارت کے چراغ روشن کردیئے ہیں۔
لیکن انور مرزا صاحب کی نوازش کرم، عنایت سے انکار بھی ممکن نہ تھا۔ کوشش رہے گی میں یہ ذمہ داری اپنی فہم کے مطابق ایمان داری سے ادا کروں۔ ساتھ ہی اراکین بزم سے بھی گزارش ہے کہ میری کم علمی کے باعث کچھ بھول ہوجائے تو درگزر کردیں۔
اس ایوینٹ کا موضوع جیسا کہ گزشتہ ہفتے دیکھا جاچکا ہے ’’استاد‘‘ ہے۔ یہ موضوع بجائے خود قابل احترام ہے۔ استاد کا مرتبہ قوموں کی زندگی میں بڑا اہم بھی ہوتا ہے اور محترم بھی کیونکہ استاد کئی نسلوں کے ذہنوں کی آبیاری کرتے ہوئے نہ صرف طلبا کا بلکہ پوری قوم اور ملک کا مستقبل سنوارتا ہے۔ اسی لیے اس کی ذرا سی لغزش بھی بھاری پڑسکتی ہے۔
دوسرے ایوینٹ کا پہلا افسانچہ سراج فاروقی کا ’’ذہانت‘‘ ہے۔ موضوع عام ڈگر سے ہٹ کر ہے جہاں بچے والد؍استاد کو سکھانے کے عمل کی طرف مراجعت کررہے ہیں اور استاد/والد بھی اسے خندہ پیشانی سے قبول کررہے ہیں۔ گزشتہ ایوینٹ میں بھی انور مرزا صاحب نے اپنے خوبصورت افسانچے میں ایسا ہی مضمون پیش کیا تھا۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ ثنا کے والد جو مدرس تھے ان کے پاس پڑوس کی لڑکی معلوم کرنے آئی کہ لال قلعہ کس نے بنوایا تھا۔ ان کا جواب ’ہمایوں نے‘ سن کر ثنا دوڑی ہوئی آئی اور اپنی کتاب کھول کر صحیح جواب دکھایا۔ والد پہلے حیران ہوئے پھر شرمندہ ہوئے اور پھر اشک آلود نظروں سے دیکھتے ہوئے بیٹی کا ماتھا چوم لیا۔‘‘
افسوس کا مقام یہ تھا کہ خود مدرس ہوتے ہوئے والد کو معلومات عامہ (GK) کے اس آسان سے سوال کا جواب معلوم نہیں تھا جس سے خود ان کی تدریسی قابلیت پر حرف آتا ہے کہ وہ درجے کے بچوں کو کیا سکھاتے ہوں گے؟ دوسری بات بیٹی ثنا کی معلومات کا نہ صرف والد سے زیادہ بہتر ہونابلکہ یہ تمیز اورتہذیب کہ پڑوسن لڑکی کے سامنے شرمندہ کرنے کے بجائے اس نے کتاب کھول کر صحیح جواب دکھادیا۔ والد نے بیٹی کی ذہانت اور تہذیب سے متاثر ہوکر اپنی غلطی مان لی۔
ایک اچھے موضوع پر لکھا گیا افسانچہ بعض کمزوریوں کی وجہ سے کوئی گہرا تاثر نہیں چھوڑ سکا۔ افسانچے کی طوالت کم کی جاسکتی تھی۔ پنچ لائن نے کوئی نیا انکشاف نہیں کیا اور جیسا کہ سلیم سرفراز صاحب نے اشارہ کیا زبان کی صحت کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ چند جملے جیسے ’’ابا جلدی سے اس سطر کی طرف دیکھے‘‘
صحیح۔ ابا نے جلدی سے اس سطر کی طرف دیکھا۔
’’اندر کمرے سے لپکی آئی‘‘
صحیح: اندر کمرے سے لپک کر آئی۔
’’آواز دیا‘‘
صحیح۔ آواز دی وغیرہ۔
سراج فاروقی صاحب اچھے افسانچہ نگار ہیں۔ یہ افسانچہ نظر ثانی کا متقاضی ہے۔ ایوینٹ میں شرکت کے لیے فاروقی صاحب کو مبارکباد۔
ایک اور بات کی طرف میں توجہ دلانا چاہوں گی کہ افسانہ یا افسانچہ لکھتے وقت زبان کی صحت اور فصاحت کا دھیان رکھنا بھی ضروری ہے۔ یوں تو زبان صرف ذریعہ ابلاغ ہے اور اصل چیز خیال یا نفس مضمون ہے، لیکن زبان خیال کے لیے لباس کا کام کرتی ہے جیسے معمولی خدوخال کے مالک کی شخصیت نفیس عمدہ اور مناسب لباس سے سنور جاتی ہے اسی طرح صحیح اور دلکش زبان معمولی سے خیال کی قدروقیمت بڑھادیتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی حقیقت ہے کہ فکشن میں علاقائی رنگ زبان کے دامن کو وسیع کرتا ہے خاص طور پر مکالموں میں علاقائی زبان کے الفاظ تاثر کو بڑھادیتے ہیں لیکن جب بات زبان کے قواعد ، تذکر و تانیث یا جملوں کی ساخت کی ہوتو تحریری زبان میں عموماً اور ادبی زبان میں خصوصاً سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے۔

آج کا دوسرا افسانچہ فرخندہ ضمیر صاحبہ کا ’’مقدس رشتہ‘‘ ہے۔ اب تک اسی ایوینٹ میں اسکول کے طلبا اور اساتذہ کی بات ہوئی تھی۔ یہ پہلا افسانچہ ہے جو کالج کے پس منظر میں ٹیچر بنام پروفیسر لکھا گیا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ کالج کے بعض اساتذہ ایسے بھی ہوتے ہیں جو استاد کے مقدس کردار کو مجروح کر کے طالبات کے اعتماد کو ریزہ ریزہ کردیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ وہ خود بھی کسی طالبہ کے باپ ہیں۔
فرخندہ صاحبہ نے اس تلخ حقیقت کو خوبصورتی سے بیان کیا ہے۔ افسانچہ فنی اور لسانی خوبیوں سے مزین ہے اور انجام /پنچ لائن بھی خوب ہے۔
افسانچے میں اختصار لفظی کے تناظر میں عروج اور خاتمے کے لیے الگ الگ بیان کی سہولت نہیں ہوتی اس لیے اکثر پنچ لائن اہم ہوجاتی ہے۔
فرخندہ ضمیر صاحبہ کو ایک بہتر افسانچے کے لیے مبارکباد۔

تیسرا اور آج کا آخری افسانچہ پینٹر نفیس صاحب کا "31 میء " ہے۔ پینٹر نفیس صاحب ایک پختہ کار افسانچہ نگار ہیں۔ انکے کیء عمدہ افسانچے فورم پر پڑھ چکی ہوں۔ ان افسانچوں میں سماجی سروکار سے متعلق موضوعات خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں۔
زیر نظر افسانچہ بےحد جذباتی تحریر ہے جہاں ایک ایسے ٹیچر کی ذہنی اور جسمانی کیفیات بیان کی گیء ہیں جو اپنی 33 سال کی تدریسی خدمات کے بعد 31میء کو ریٹائر ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ تین دہائیوں کی بےحد مصروف اور کارآمد زندگی گذارنے کے بعد اکثر لوگ ڈیپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اپنی زندگی انھیں بے کار و بے مقصد نظر آنے لگتی ہے۔ ماسٹر نور الدین غالباً لاک ڈاؤن کے زمانے میں سبکدوش ہو رہے ہیں اس لیے اس زیادہ غمزدہ ہیں کہ کویء کندھے پر تسلی کا ہاتھ رکھنے والا نہیں ہے ورنہ سبکدوش ہونے والے اساتذہ کو رخصتانہ تو ضرور دیا جاتا ہے۔
یہاں چند باتیں وضاحت طلب ہیں۔ جب اسکول بند تھا تو ماسٹر صاحب اسکول کیوں گیے ؟ اسکول کی چابی انتظامیہ کے پاس رہتی ہے ،ٹیچر کے پاس کیوں تھی ،؟ ماسٹر صاحب کو کلاس روم میں یا اسٹاف روم میں اپنی کرسی پر بیٹھنے جانا چاہیے تھا ،آفیس روم میں کیوں گیے ! 
افسانے کا اسلوب متاثر کن ہے۔ الفاظ کا انتخاب خوب ہے سواےء ایک دو جگہ کے۔ مثلاً بجھے قدموں کے بجائے بوجھل قدموں رائج ہے۔
دل کے لیے کیا سامان کروں کے بجائے دل کے بہلنے کا کیا سامان کروں۔ زیادہ مناسب ہوتا۔
افسانچے کے موضوع میں ندرت ہے۔ پینٹر نفیس صاحب کو ایک ایسی کہانی پیش کرنے کے لیے مبارکباد جو بہت سے لوگوں کو اپنی کہانی محسوس ہوگی۔
خدا حافظ۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا

Post a Comment

0 Comments