Ticker

6/recent/ticker-posts

سزا (افسانچہ) ✒️ محمد سراج عظیم

1️⃣9️⃣
سزا
افسانہ نِگار ✒️ محمد سراج عظیم
ایونٹ نمبر 26 🧑‍🏫 ٹیچر/معلّم
سیکنڈ راؤنڈ
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 19
سزا (افسانچہ) ✒️ محمد سراج عظیم

آج یونیورسٹی میں وائس چانسلر نے ای سی کی ہنگامی میٹنگ کال کی تھی۔ اس میں آرٹس فیکلٹی کے ڈین پروفیسر سارنگ اور ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ پروفیسر سیفی اسپیشل انوائٹی کے طور پر مدوع تھے۔
ایک عجیب واقعہ چار روز پہلے ہوا تھا۔ ڈیپارٹمنٹ کے ہی پروفیسر عثمان نے اپنے یونیورسٹی کے الاٹ کردہ پروفیسرز کالونی کے کوارٹر میں ، ایک کشمیری ریسرچ اسکالر جو غربت کی وجہ سے ان کے یہاں مقیم تھی رات میں اس کے ساتھ دست درازی کی تھی۔ وہ خون کا گھونٹ پی کر خاموشی سے اپنے گھر چلی گئی بھائی کو معلوم ہوا تو وہ اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ کوارٹر پر پہنچ گیا۔ پروفیسر عثمان تو روپوش ہوگئے ملے نہیں البتہ وہ لوگ ان کی لڑکی کو اٹھا کر لے جانے لگے تھے۔پڑوس میں ایکونامکس کے پروفیسر تنویر صاحب نے ان لوگوں کے ہاتھ جوڑ کر بڑی منت سماجت سے بچی کو بچایا اور انھوں نے کہا پروفیسر عثمان کی حرکت کی سزا بچی کو نہ دیں بچی اس کی ذمیدار نہیں۔ ان لوگوں کی جانب سے وائس چانسلر کو دھمکی بھری درخواست دی گئی تھی کہ بدکردار پروفیسر کو برطرف کیا جائے۔ معاملہ کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے۔ وائس چانسلر نے میٹنگ کال کی تھی کیوں کہ اس لڑکی کے بھائی کا تعلق دہشت گرد گروپ سے تھا۔
میٹنگ شروع ہوچکی تھی۔ وائس چانسلر بہت چراغ پا تھا۔ ای سی کے ممبرز بھی برہم تھے۔ پروفیسر سارنگ نے بھی پروفیسر عثمان کی سرویسز ٹرمینیٹ کرنے کے لئے اپنی مہر ثبت کردی تھی۔ وائس چانسلر نے ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ سے پوچھا" جی سیفی صاحب آپ کی کیا رائے ہے کیوں کہ آپکی جانب سے ہی وائس چانسلر کو لیٹر بھیجا جائے گا۔ تب ایکشن ہوگا۔" پروفیسر سیفی تدبرانہ لہجے میں گویا ہوئے۔
"دیکھئے صاحب!! میرے خیال میں ہمیں پروفیسر عثمان کو چھ مہینے کے لئے سسپینڈ کر دینا چاہیے۔ اس طرح سے ان لوگوں کی درخواست پر ایکشن بھی ہوجائے گا۔ یونیورسٹی کا وقار بھی بچ جائے گا ورنہ میڈیا اس کو خوب اچھالے گا اور اس کے اثرات اچھے ثابت نہیں ہوں گے۔ پھر روز اس طرح کی شکائتیں آتی رہیں گی۔طلبأ کی نظر میں استاد کی عزت کچھ نہیں رہے گی۔ یہ تعلیم کے ساتھ سماجی بحران ہوگا، میرا تو یہی مشورہ ہے۔" یہ کہہ کر پروفیسر سیفی خاموش ہوگئے۔
وائس چانسلر نے تھوڑی دیر توقف کرنے کے بعد کہا۔
"ممبران مجھے سیفی صاحب کی رائے سے اتفاق ہے۔" یہ کہہ کر میٹنگ برخواست ہوگئ۔
پروفیسر سارنگ نے باہر نکل کر پروفیسر سیفی سے پوچھا "سیفی صاحب آپ نے ٹھیک نہیں کیا عثمان ہر وقت آپ کے لیے سازشوں اور دشمنی پر اتارو رہتا ہے۔ اس کے ساتھ یہ ہمدردانہ سلوک اس وقت تو موقع تھا آپ کو بدلہ لینے کا۔ "
"دیکھئے صاحب اس کا فعل اس کے ساتھ ہے یہ اپنے اپنے ظرف کی بات ہے۔ اس کی بد فعلیوں کی سزا اس کے بچے کیوں بھگتیں۔آپ جانتے ہیں بدلے کی آگ بہت بری ہوتی ہے وہ لڑکا بری طرح بہن کی وجہ سے غصے میں ہوگا اگر یونیورسٹی عثمان صاحب کو ٹرمینیٹ کردیتی تو وہ لوگ واقعی ان کو ختم کردیتے۔ سسپنشن میں عثمان کے لئے حفاظت کا پہلو ہےاس کا تعلق یونیورسٹی سے رہےگا اور کوئی حادثہ نہیں ہوگا۔ رہ گیا میرے ساتھ اس کی دشمنی وہ میں نے ﷲ کے سپرد کی۔"
سیفی صاحب کی بات کی بھنک پروفیسر عثمان کو لگ گئی تھی۔ وہ سیفی صاحب کے پاس پہنچے۔ آنکھوں میں آنسو لئے انھوں نے بولنا چاہا مگر آواز حلق میں اٹک گئی اور کوشش کے باوجود بھی نہیں نکل سکی، پروفیسر عثمان ہمیشہ کے لئے گونگے ہوگئے۔
✍️✍️✍️

Post a Comment

0 Comments