سم ﷲِ الرّحمٰنِ الرّحِیم
معزز اراکین!
آج تین نئے افسانچوں پر اپنے تاثرات لے کر حاضر ہوں۔ میں پہلے بھی اِس گروپ میں پیش کئے گئے سارے افسانچے پوری دلچسپی اور توجہ سے پڑھا کرتا تھا مگر اب کچھ زیادہ ہی توجہ سے پڑھنے لگا ہوں تاکہ جو ذمہ داری انور مرزا صاحب نے مجھے سونپی ہے وہ احسن طریقے سے نبھا پاؤں۔ میری کوشش یہی رہتی ہے کہ فنکاروں کو نہیں بلکہ فن پاروں کو دیکھ کر اپنے تاثرات قلمبند کروں۔
آج جو افسانچہ سب سے پہلے پیش کیا گیا وہ جناب ابوذر کا '' یگ یگ کی باتیں '' تھا۔ اس چھوٹی سی کہانی میں تین نسلوں کی تصویر بڑی خوبصورتی سے دکھائی گئی ہے۔ اگلے وقتوں میں غلطی کرنے پر بچوں کی دو بار پٹائی ہوتی تھی۔ایک بار اسکول کے ٹیچر کے ہاتھوں اور دوسری بار باپ کے ہاتھوں۔ معافی مانگنے کی سزا الگ۔ مگر اب تو بچوں کی پٹائی جرم بن گئی ہے۔ ٹیچر اگر بچے کی شرارت پر ایک طمانچہ بھی رسید کردے تو اس کی خیر نہیں۔ والدین ٹیچر سے لڑنے اسکول پہنچ جاتے ہیں۔زمانہ بدلا، قدریں بدلیں۔اب اخلاق انحطاط پذیر ہے۔کاش ہر گھر میں تیسرے یگ والا منظر دیکھنے کو ملتا۔ابو ذر صاحب کے قلم نے جو تصویر کشی کی ہے اس کی داد نہ دینا بددیانتی ہوگی۔
اس افسانچے پر رخسانہ نازنین صاحبہ کے نکتۂ اعتراض سے میں خود کو متفق پاتا ہوں۔. دو ہتھڑ لگانے کے بجائے ڈانٹ پلانے کی بات کہی گئی ہوتی تو بہتر ہوتا۔ ایک بیٹے کے باپ کو دو ہتھڑ لگانا کچھ غیر فطری لگ رہا ہے۔
۔۔۔۔
"آسیب زدگی" آج کا دوسرا افسانچہ رہا۔ اس کے مصنف نوجوان ادیب خالد بشیر تلگامی ہیں۔ اس افسانچے پر رخسانہ نازنین صاحبہ کے کمنٹ سے مجھے اختلاف ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ رخسانہ صاحبہ کو افسانچہ رپورٹنگ کیوں لگا۔ افسانچے میں پلاٹ ہے، کردار ہیں، ڈائیلاگ ہیں۔ ایک افسانچے میں اور کیا چاہئے؟
بیشتر احباب کی اس رائے سے مجھے اتفاق ہے کہ پلاٹ کافی پامال ہے۔قول اور فعل کے تضاد پر بیشمار افسانچے لکھے جاچکے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب دوسروں کو تلقین کرتے نظر آرہے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھائیں مگر خود ان کا بیٹا پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا ہے۔
بار بار کہی گئی بات کو بار بار کہنا فن کے معیار کو مجروح کرتا ہے۔ ایسے افسانچوں پر حوصلہ افزا داد تو مل سکتی ہے مگر ایسے افسانچے متاثرکن نہیں ہوتے اور بہت جلد قارئین کے ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں۔
خالد بشیر صاحب کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔میں ان سے اور بہتر افسانچوں کی توقع کرتا ہوں۔
۔۔۔۔
"تعزیت" (مصنف: تنویر اختر رومانی). نے مجھے بہت متاثر کیا۔
میں نے پہلے دن کے خطبے میں لکھا تھا کہ۔۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے افسانچہ نگار حضرات "استاد" کو کیسا اور کیسے پیش کرتے ہیں
میں دراصل یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ استاد کو فرشتہ بناکر پیش کیا جاتا ہے یا استاد کے اندر بھی کوئی بشری کمزوری ہوتی ہے۔
تنویر اختر رومانی صاحب نے ایک بڑی سچائی کو بڑے فنکارانہ انداز میں افسانچہ بناکر پیش کیا ہے۔
اس سے پہلے کے تمام افسانچوں میں استاد کو ویسا دکھایا گیا جیسا ایک استاد کو ہونا چاہئے۔ زیر نظر افسانچے میں استاد کو ویسا دکھایا گیا ہے جیسا کچھ "استاد" ہوتے ہیں۔ ایک اچھے شاعر یا ادیب کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سماج کا وہ چہرہ بھی دکھائے جو کریہہ ہوتا ہے۔ تنویر اختر رومانی صاحب نے درس و تدریس کے پیشے سے منسلک کچھ کام چور اساتذہ کی تصویر اپنے افسانچے میں دکھائی ہے۔
ایک ٹیچر کی موت پر دوسرے ٹیچر کا محض اسلئے خوش ہونا کہ ایک روز کی چھٹی ملے گی ایک درد ناک اور افسوس ناک منظر پیش کرتا ہے۔ کام چور طلبہ کی طرح کچھ کام چور اساتذہ بھی ہوتے ہیں۔ ایسے کچھ ٹیچر ہر شہر میں مل جائیں گے۔
"تعزیت" ایک ٹیچر کی موت کا تعزیت نامہ نہیں بلکہ اخلاق کی موت کا تعزیت نامہ ہے۔
تنویر اختر رومانی صاحب کا افسانچہ "تعزیت" میری نظر میں قابل صد داد ہے۔
تم نے کرم سے اپنے اسے کردیا نہال
ورنہ غریب دل تھا بھلا کس شمار میں
(ن۔م)
حضرات!
میں صمیم قلب سے جناب انور مرزا کا شکرگزار ہوں کہ مجھ جیسے کم علم کو مسند صدارت پر براجمان کرکے میری عزت افزائی کی۔ من آنم کہ من دانم
اس بات کی مبارک باد بھی دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ '' افسانہ نگار '' گروپ کو بڑے سلیقے سے چلارہے ہیں۔وہ جتنا وقت گروپ میں دیتے ہیں اتنا وقت بہت کم ایڈمنس کو میں نے کسی گروپ میں دیتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس ایونٹ کا موضوع استاد/معلم /ٹیچر ہے۔ ہم سب جانتے اور مانتے ہیں کہ معلمی ایک مقدس پیشہ ہے۔ اساتذہ کو معمار قوم کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مستقبل کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مگر کچھ "استاد" اپنے فرائض سے غفلت بھی برتتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے افسانچہ نگار حضرات "استاد" کو کیسا اور کیسے پیش کرتے ہیں۔
اس ایونٹ کا آغاز غضنفر صاحب جیسے معروف اور معتبر افسانہ نگار کے افسانچے سے ہوا۔
عنوان "پاؤ بھر کی بوتل" قاری کو متجسس کرتا ہے۔ افسانچہ خوب ہے۔ ایک چھوٹے سے طالب علم کی ذہنی پیچیدگی اور ایک ٹیچر کے مشفقانہ مزاج کی تصویر کشی کرتا ہوا کامیاب افسانچہ ہے۔
سلیم سرفراز صاحب کا خیال ہے کہ یہ موضوع قدرے مختلف انداز سے پہلے بھی برتا جاچکا ہے۔ ارے بھائی! موضوع تو ایڈمن نے دیا ہے۔انداز مصنف کا ہے جو '' قدرے مختلف '' ہے تو شکایت کیسی؟ طوالت کا شاکی میں بھی ہوں۔ افسانچہ مزید مختصر کیا جاسکتا تھا۔
اس افسانچے میں بھلے ہی کسی کو "استاد" نظر نہیں آیا ہو مجھے تو نظر آیا۔۔۔سامنے نہ سہی پس منظر میں سہی۔ استاد اسکول کے باہر بھی نظر آسکتا ہے۔
غضنفر صاحب افسانچے کی تشریح اور تاویل پیش نہیں کرتے تو اچھا تھا۔ اپنے تاثرات کے پہلے حصے میں تنقید کے تعلق سے جو باتیں انہوں نے کہی ہیں وہ بڑی کار آمد ہیں مگر کسی اور وقت کہتے تو ان کا اثر زیادہ ہوتا۔ افسانچے کے دفاع میں وہی باتیں ان کی خفگی کا تاثر دے رہی ہیں۔
۔۔۔
دوسرا افسانچہ محمد علی صدیقی صاحب کا ہے جن کی افسانچہ نویسی تیزی سے نکھر رہی ہے۔ان کے کچھ افسانچے سخت سے سخت انتخاب میں شامل کئے جانے کے لائق ہیں۔ انہوں نے بہت سارے معیاری افسانچے اس گروپ کو دیئے ہیں اور خوب داد وصول کی ہے مگر زیر نظر افسانچہ '' ستّار صاحب '' مجھے ایک کمزور افسانچہ لگا۔ اس افسانچے میں ان کے "استاد" ستّار صاحب کا ذکر اور تعارف تو ہے مگر کہانی پن ندارد۔
کچھ ہفتوں قبل گروپ میں ایک بحث چھڑی تھی کہ اﷲ تعالیٰ کا کوئی صفاتی نام اگر کسی شخص کا ہوتو اسے "عبد" کے بغیر نہیں پکارنا چاہئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ محمد علی صدیقی صاحب نے اس خیال کی پرزور تائید کی تھی مگر آج انہوں نے اپنے استاد کا ذکر صرف ستّار کے نام سے کیا ہے۔انہیں عبدالستار لکھنا چاہئے تھا۔
۔۔۔
آج کا تیسرا افسانچہ 'نوجوان' ڈاکٹر یاسمین اختر صاحبہ کا ہے۔ یہ ایک سیدھا سادہ بیانیہ ہے جس کی بنیاد ایک ذہین بچے کی معاشی مسئلے کے سبب تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے اور استاد کی طرف سے مالی تعاون دیئے جانے پر ہے۔ پلاٹ میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔میری نظر میں اس کا شمار افسانچۂ اطفال میں ہونا چاہئے۔
"پھر میں نے اس کو فون کرنے سے منع کردیا۔میں اس کی پڑھائی میں خلل ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔"
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔
کسی کو فون کرنا اس کی پڑھائی میں خلل ڈالنا تو ہوسکتا ہے لیکن کسی کا فون کرنا اس کی پڑھائی میں خلل ڈالنا کیسے ہوسکتا ہے؟
پڑھائی کرنے والا وقت نکال کر فون کرہی سکتا ہے۔
آج پیش کئے گئے تینوں افسانچوں میں مجھے ایک ہی افسانچہ متاثر کرسکا۔
موضوع کی پابندی ہر افسانچہ نگار کا ذہن قبول نہیں کرپاتا ہے۔ میں تینوں افسانچہ نگاروں کو ایونٹ میں شمولیت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ھے کیا
جب پہلا افسانچہ پوسٹ کیا جاتا تھا، اسی وقت سے صدر صاحب کے خطبے کا انتظار شروع ہوجاتا تھا. ہر خطبہ میں بہترین زبان وبیان کے ساتھ سچائی اور بے باکی سے بات کو پیش کیا جاتا تھا لیکن ہر خطبہ اصلاحی نوعیت کا ہوتا تھا۔
محترم انور مرزا صاحب نے اس ایونٹ کو منعقد کرکے ایک بہترین تاریخ رقم کردی ہے۔۔
محترم ریحان کوثر صاحب نے اس ایونٹ کے ایک ایک لمحے کو الفاظ ہند کے بلاگ پر پیش کرکے ایک بہترین تاریخی قدم اٹھایا ہے جو آنے والے نئے زمانے میں اردو زبان کی تاریخ میں ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکتا رہے گا۔
میں محترم احمد کمال حشمی صاحب کو، محترم انور مرزا صاحب کو، محترم ریحان کوثر صاحب کو اور ان تمام افسانچہ نگاروں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کی تحریریں اس ایونٹ میں شامل ہوئیں۔
0 Comments