Ticker

6/recent/ticker-posts

صدارتی خطاب ✒️ احمد کمال حشمی

صدارتی خطاب
✒️احمد کمال حشمی

آخری دن

بسمﷲ الرّحمٰنِ الرّحیم
حضرات!
آج اس ایونٹ کے پہلے راؤنڈ کے آخری تین افسانچے پیش ہوئے۔ پہلے دن سے آج چھٹے دن تک کاسفر دلچسپ رہا۔ معلم / استاد کے موضوع پر مختلف رنگ اور اسلوب کے افسانچے زیر مطالعہ آئے۔ امید کرتا ہوں کہ میری طرح آپ بھی محظوظ ہوئے ہوں گے۔ نئے نئے موضوعات کے ساتھ نئے نئے ایونٹس منعقد کرکے انور مرزا صاحب نے اس گروپ کو تنوع عطا کیا ہے جس کے سبب یہ گروپ خوب ترقی کررہا ہے۔
آئیے آج کے تینوں افسانچوں پر بات کرتے ہیں۔
آج سب سے پہلے سلیم سرفراز صاحب کا افسانچہ بعنوان "صدقہ" پیش کیا گیا۔ سلیم سرفراز صاحب اپنی شاعری اور افسانہ نگاری کے ذریعہ اپنی پہچان مستحکم کرچکے ہیں۔ افسانچہ نگاری میں بھی انہوں نے اپنے قلم کاجادو خوب جگایا ہے۔ ان کے افسانچوں کا مجموعہ '' وقت خسارے " اہل نظر سے داد و تحسین وصول کرچکا ہے۔
سلیم سرفراز کے بیشتر افسانچوں میں مذہب، مسلک، سیاست اور سماج کی گھناؤنی صورت کی تصویر نظر آتی ہے۔ زیر مطالعہ افسانچے میں بھی معلم کا منفی کردار پیش کیا گیا ہے۔ نعیم الحق کی صورت میں ایک ایسا معلم ہمارے سامنے آتا ہے جسے صرف اپنی تنخواہ اور اپنے بچوں کے مستقبل کی فکر رہتی ہے۔ اسے اپنی قوم کے بچوں سے کوئی غرض نہیں ہوتی ہے۔ ناجائز کمائی کے طفیل اس کے بیٹے کی کامیابی کو قوم کے بچوں کا صدقہ قرار دے کر مصنف نے زبردست طنز کیا ہے۔ یہاں سلیم سرفراز کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ پنچ لائن نے افسانچے کو دھماکے دار بنادیا ہے۔ میں پنچ لائن کو افسانچے کے لئے ضروری تو نہیں سمجھتا مگر اس کا حسن ضرور قرار دیتا ہوں۔ اس افسانچے کا پنچ لائن ہی اس کی جان ہے۔سلیم سرفراز صاحب کو دلی داد و مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
۔۔۔۔۔
"اعزاز" کی شکل میں انور مرزا صاحب نے اپنا فن ہمارے سامنے پیش کیا ۔ اس افسانچے میں معلم کو منفرد زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس افسانچے کا معلم وہ نہیں ہے جو چاک اور ڈسٹر سے بلیک بورڈ پر لکھتا ہے یا کاغذ اور قلم کے سہارے طلبہ کو پڑھاتا ہے۔ اس افسانچے کا معلم وہ ہے جو اسمارٹ فون کے ذریعہ آن لائن کلاس لیتا ہے۔اس افسانچے میں خیال کی جو ندرت اور تازہ کاری ہے اس کی ستائش انور مرزا کے مخالفین بھی کریں گے۔ انور مرزا نے ثابت کردیا کہ وہ تازہ واقعات و واردات کو افسانچے میں برتنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔ اس ایونٹ میں اب تک پیش کئے گئے اٹھارہ افسانچوں میں یہ پہلا افسانچہ ہے جو آن لائن کلاس لینے والے معلم کے حالات بیان کرتا ہے۔
بیٹے کی مدد سے آن لائن کلاس لینے کی جو تصویر مصنف نے دکھائی ہے وہ اتنی سچی ہے کہ اس گروپ میں شامل ہر معلم کو اپنی تصویر لگ رہی ہوگی۔
راوی کے کردار میں قاری کو بیک وقت ایک محنتی معلم اور ایک اچھے باپ کے ساتھ ساتھ ایک ایماندار شخص کی شکل نظر آتی ہے جو بڑی ایمانداری سے برسرمحفل یہ اعتراف کرتا ہے کہ اسے بیسٹ ٹیچر کا اعزاز اپنے بیٹے کی بدولت ملا ہے۔
مجھے یقین ہے کہ انیس رشید خان صاحب اور نعیمہ جعفری صاحبہ کی طرح ہم میں سے بیشتر لوگ اسمارٹ فون کے استعمال کے معاملے میں اپنے بچوں کے "شاگرد" ہوں گے۔
اس افسانچے پر ریحان کوثر صاحب کا یہ کمنٹ مجھے بڑا اچھا اور سچا لگا کہ ۔۔۔۔ عنوان تا اختتام ایسا محسوس ہوا کہ ہم کوئی انتہائی حساس اور خوبصورت شارٹ مووی دیکھ رہے ہیں
میری نظر میں یہ افسانچہ کچھ الگ، کچھ ہٹ کر ہے ۔مجھے کہہ لینے دیجئے کہ اس ایونٹ میں پیش کئے گئے بہترین افسانچوں میں سے ایک ہے۔ میں بھی تنویر رومانی صاحب کی طرح اسے 100/100 دوں گا۔
۔۔۔۔
اس ایونٹ کے پہلے راؤنڈ کے آخری افسانچے کے طور پر انور مرزا صاحب نے محمد رفیع الدین مجاہد صاحب کا افسانچہ "قلم" پوسٹ کیا ہے۔
اس افسانچے میں ایک کامیاب استاد کو اپنے استاد کی عظمت اور احترام کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔خیال اچھا ہے مگر پلاٹ کمزور لگا۔ ہر انعام پانے والا یا تو اپنے والدین یا اپنے استاد کا شکریہ ادا کرتا ہے اور اپنی کامیابی کا کریڈٹ دیتا ہے۔ مگر اس میں افسانچے والی بات کہاں ہے۔مجھے کہانی پن کا فقدان محسوس ہوا۔
زبان اور تراکیب کی غلطیاں بھی ہیں۔۔۔۔
سرپرستوں کی ایک انجمن کے ذریعہ۔۔۔ (ایک انجمن کے سرپرستوں کے ذریعہ)
وباء ۔۔۔۔ (وبا)
دوست و احباب ۔۔۔(دوست اور احباب)
کانا پھونسی ۔۔۔ (کانا پھوسی)
افسانچے کا آخری جملہ بھی ساخت کے اعتبار سے غلط ہے۔ ''ان مبارک ہاتھوں '' سے ایسا لگتا ہے جیسے استاد محترم کے کچھ اور ہاتھ بھی ہیں۔
جملہ یوں ہونا چاہئے تھا۔۔۔۔
''مجھے میرے استاد محترم کے مبارک ہاتھوں سے اعزاز سے نوازا گیا ہے جنہوں نے عہد طفلی میں مجھے قلم پکڑنا سکھایا تھا۔''
مجھے لگتا ہے افسانچے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
۔۔۔۔۔
آج کے افسانچوں پر اپنے تاثرات تحریر کرنے کے بعد آپ سبھی کی خدمت میں کچھ اور عرض کرنا چاہتا ہوں۔
بہت کم واٹس ایپ گروپ اتنے فعال اور زندگی سے بھرپور ہیں جتنا یہ گروپ ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے ایڈمن بہت فعال ہیں۔ انور مرزا صاحب اس گروپ کی نگہبانی ویسے ہی کرتے ہیں جیسے کوئی باغبان باغبانی کرتا ہے۔
آج کے صدارتی خطبے کے ساتھ اس ایونٹ میں میری ذمہ داری ختم ہوئی۔ مسند صدارت سے آپ تمام لوگوں کو خدا حافظ کہتا ہوں۔ مسند صدارت ضرور چھوڑ رہا ہوں گروپ نہیں۔ مگر اس سے پہلے جناب انور مرزا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے مجھے یہ اعزاز بخشا، میری توقیر بڑھائی۔
آپ تمام احباب کا بھی ممنون ہوں کہ آپ لوگوں نے میری آراء کو افضل جانا اور میری توقع سے زیادہ پذیرائی کی۔میں نے محسوس کیا کہ آپ لوگوں کے توصیفی کلمات رسمی نہیں تھے۔ دل سے نکلے ہوئے تھے جو میرے دل میں گھر کرگئے۔
مسند صدارت پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا تاج تھی۔ہر روز تین افسانچے اور ان پر کئے گئے احباب کے تاثرات پڑھنا، اپنی رائے قائم کرنا اور پھر خطبۂ صدارت لکھنا وقت طلب کام تھا۔مگر احساس ذمہ داری اور انور مرزا صاحب کی محبت نے یہ وقت طلب کام مجھ سے کروالیا۔
میں نے اپنی فہم و فراست کے مطابق غیر جانبدارانہ طور پر افسانچوں پر تبصرے لکھے۔ ایک طرف جہاں نعیمہ جعفری صاحبہ، رونق جمال اور اقبال نیازی صاحبان جیسے سینئر افسانچہ نگار تھے وہیں دوسری طرف محمد علی صدیقی اور سلیم سرفراز صاحبان جیسے میرے گہرے دوست بھی تھے۔ مگر میں نے سینیرٹی اور دوستی سے قطع نظر بےلاگ تبصرہ کرنے کی ہمیشہ کوشش کی۔پہلے تو میں اسے خطرناک عمل سمجھتا رہا کہ پتا نہیں کتنے لوگ مجھ سے ناراض ہوں گے مگر آپ لوگوں کی پسندیدگی اور پذیرائی نے مجھے راحت بخشی۔
پیچھے مڑکر دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ چھ روز مصروف ترین گزرے مگر سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ اچھے گزرے۔
اس ایونٹ کے اگلے راؤنڈ کا منتظر ہوں۔ نئے افسانچوں اور نئے صدر کے خطبوں سے محظوظ ہونا چاہتا ہوں۔
انور مرزا زندہ باد
انور مرزا پائندہ باد
شکریہ ۔۔۔۔۔۔۔ ﷲ حافظ
احمد کمال حشمی


پانچواں دن

بسم ﷲِ الرّحمٰنِ الرّحِیم
معزز قارئین!
"افسانہ نگار" گروپ کا 26۔ واں ایونٹ پانچویں روز میں داخل ہوچکا ہے۔ آج حسب معمول تین نئے رنگ میں تین افسانے انور مرزا صاحب کے ذریعہ پوسٹ کئے گئے۔. مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہوتی رہی ہے کہ موضوع کی یکسانیت کے باوجود افسانچہ نگار حضرات مختلف رنگ کے افسانچے پیش کررہے ہیں۔
آج کا پہلا افسانچہ مشہور، معروف اور معتبر افسانچہ نگار جناب رونق جمال کا ہے۔ '' عقیدت کا راز '' کے عنوان سے قاری اندازہ لگالیتا ہے کہ افسانچے کی نوعیت کیا ہوگی۔ اس افسانچے میں ایک شاگرد کا اپنے استاد کے تئیں عقیدت کا منظرنامہ پیش کیا گیا ہے۔ ایک کلکٹر اپنے دفتر میں اپنے استاد کا نام لکھے ہوئے فریم کے سامنے روز ایک گلاب رکھ کر کچھ دیر سر جھکا کر کھڑا رہتا ہے۔ چپراسی کے پوچھنے پر کلکٹر بتاتا ہے کہ عرفان شیخ سر کی وجہ سے وہ کلکٹر بن پایا ہے اس لئے وہ اس فریم پر روز عقیدت کے گلاب نچھاور کرتا ہے۔
میرا خیال ہے کہ شاگرد کی عقیدت کا جو منظرنامہ پیش کیا گیا ہے وہ حقیقت اور شریعت دونوں کے منافی ہے۔ عقیدت اپنی حدوں سے تجاوز کرکے کہیں اور جا پہنچی ہے۔ استاد کی تصویر کی جگہ استاد کے نام کی بات کہہ کے مصنف نے اعتراض کے پہلو سے دامن بچانے کی کوشش کی ہے مگر کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ ایک مسلمان شاگرد کی حرکت کسی طرح بھی قابل قبول نہیں ہے۔ کئی احباب نے دبے لفظوں میں شاگرد کے اندازِ عقیدت پر اعتراض کیا ہے۔ میں ان کی حمایت کرتا ہوں۔ ارشد خان کی جگہ کوئی غیر مسلم کردار ہوتا تو اس اعتراض کی کوئی جگہ نہیں بنتی۔ مگر افسانچے میں کئی جھول پھر بھی رہ جاتے۔۔۔
1۔ 'عرفان شیخ کے ساتھ لفظ "سر" لکھا دیکھ کر اور اس کے سامنے روز گلاب رکھتے دیکھ کر چپراسی کو سمجھ جانا چاہئے تھا کہ یہ کلکٹر صاحب کے استاد کا نام ہے۔ اس کی حیرت پر مجھے حیرت ہے۔ چپراسی کم پڑھا لکھا ضرور ہوسکتا ہے مگر اتنا کم عقل کیسے ہوسکتا ہے؟
2۔ کلکٹر صاحب اپنے استاد کے نام کے آگے گلاب رکھنے کا کام گھر پر بھی کرسکتے تھے اور عقیدت کا اظہار کرنے کے بعد گھر سے نکلتے۔
3۔ اور اگر دفتر ہی میں اظہار عقیدت کرنا تھا تو گھر سے فریم لے کر آنے کی کیا ضرورت تھی۔ وہ پہلے ہی دن ہیڈ کلکرک کو فریم بنانے کا حکم دے سکتے تھے۔دوسرے ہی دن فریم بن کر آجاتا۔
"فریم" مذکر ہے۔افسانچے میں مونث استعمال کیا گیا ہے۔
۔۔۔
دوسرا افسانچہ "بھیڈو" میری فہم و ادراک سے باہر لگا۔۔۔عنوان بھی اور پلاٹ بھی۔
نعیمہ جعفری صاحبہ کی وضاحت اور ریحان کوثر صاحب کی حمایت کے بعد عنوان تو سمجھ میں آگیا مگر پلاٹ کو اب تک میرا ذہن قبول نہیں کرسکا ہے۔ ایک استاد کو مشاطہ کا کام کرتے پہلی بار سنا/ پڑھا۔ ایک اچھے استاد کا کام پڑھانا اور راہ راست دکھانا ہوتا ہے نہ کہ شادی کروانا۔ اگر شجاع کامل صاحب شادی کروانا بھی چاہتے تھے تو یہ کون سا طریقہ ہوا کہ اپنے شاگرد سے کہاجائے کہ تم پروپوز کرو اور شاگردہ کو حکم دیا جائے کہ تم قبول کرو۔ مناسب طریقہ تو یہ تھا کہ دونوں کے والدین یا کسی رشتے دار سے بات کی جاتی۔
اس افسانچے پر سلیم سرفراز صاحب کے خیالات سے مجھے اتفاق ہے۔قیوم اثر صاحب نے بھی اپنے طریقے سے استاد کے کردار پر بےاطمینانی کا اظہار کیا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ معلم کو کچھ الگ دکھانے کی شعوری کوشش کی گئی ہے۔
مجھے افسانچہ متاثر نہیں کرسکا۔
۔۔۔
میں مایوسیوں کے صحرا میں بھٹک ہی رہا تھا کہ انور مرزا صاحب نے سید محمد نعمت ﷲ صاحب کا افسانچہ ''بےغیرت '' پوسٹ کردیا۔
افسانچہ کیا ہے ایک پٹاخہ ہے۔۔۔ایک ایسا پٹاخہ جس کی گونج دیر تک اور دور تک سنائی پڑے۔
صرف چھیاسی الفاظ کے ساتھ ایک زور دار دھماکا کیا گیا ہے۔
میں نے مڈ ڈے میل کے فنڈ سے ہیڈ ماسٹر صاحبان کو خوب "فائدہ" اٹھانے کی خبریں سنی ہیں۔ اس افسانچے سے اس کی تصدیق ہورہی ہے۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ کچھ معلم حضرات بچوں کے کھانے کے پیسے ہضم کرلینے میں بھی غیرت محسوس نہیں کرتے۔
افسانچے اگر زمینی حقائق سے قریب ہوں تو قاری سے داد وصول کرہی لیتے ہیں۔ اس افسانچے میں یہ خوبی بدرجۂ اتم موجود ہے۔
ہیڈ ماسٹر صاحب کا جواب بےغیرتی کی انتہا ہے جو افسانچے کو بلند کرتا ہے۔ ہیڈ ماسٹر کی شاطرانہ سوچ کی عمدہ تصویر کشی مصنف نے کی ہے۔
ایک اچھے افسانچے کے لئے نعمت ﷲ صاحب کو ڈھیروں داد کا نذرانہ پیش کرتا ہوں۔
احمد کمال حشمی

چوتھا دن
بسم ﷲِ الرّحمٰنِ الرّحِیم
معزز احباب!
"افسانہ نگار" گروپ کا 26 ۔ واں ایونٹ آج چوتھے دن میں داخل ہوگیا۔ آج انور مرزا صاحب نے تین نئے افسانچے لگائے۔ پہلا افسانچہ سامنے آتے ہی دل باغ باغ ہوگیا کیونکہ افسانچے کے ساتھ مصنف کا نام ریحان کوثر جگ مگ کررہا تھا۔ ریحان کوثر کا نام افسانچوں کی دنیا کا جانا، مانا اور پہچانا نام بن چکا ہے۔ سو لفظی افسانچوں کے ذریعہ انہوں نے اپنی ایک الگ شناخت قائم کرلی ہے۔ ان کا آج کا افسانچہ اگرچہ سو لفظوں کی قید سے باہر ہے مگر اس کے قارئین اس کی قید سے باہر نہیں جاسکیں گے۔ 
"لعنت" کے عنوان سے لکھا گیا افسانچہ بہت ہی متاثرکن ہے۔ اگرچہ اس افسانچے کی عمارت بھی قول و فعل میں تضاد کی بنیاد پر کھڑی کی گئی ہے مگر اس کے درو دیوار اس قدر منقش اور رنگ و روغن اس قدر دیدہ زیب ہیں کہ قاری اس کے حسن میں کھوجاتا ہے۔ 
اس بات کے شاکی بہت سارے لوگ ملتے ہیں کہ فلاں شاعر یا اردو کے استاد کا بیٹا انگریزی میڈیم اسکول میں کیوں پڑھتا ہے مگر شکوہ کرنے والے ایک پل بھی یہ نہیں سوچتے کہ وہ خود اپنی روزمرہ کی زندگی میں اردو کا کتنا استعمال کرتے ہیں ؎
برق گرتی ہے تو '' اردو ہی کے استادوں'' پر
کتھنی اور کرنی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ ڈاکٹر الیاس، مولوی محمد شفیع اور ببلو بھائی جیسے لوگ ہمارے معاشرے میں بہت ملیں گے۔ ان کے حوالے سے ریحان کوثر صاحب نے اردو کی روزی روٹی کھانے والوں کا دفاع بڑی چابکدستی سے کیا ہے۔ آئینہ الٹا لے کر گھومنے والے بہت ملتے ہیں۔ایسے لوگ کبھی ائینہ سیدھا کرکے اپنی شکل بھی دیکھتے تو انہیں پتا چلتا کہ ان کا اپنا چہرہ کتنا مسخ شدہ ہے۔
اردو کی روزی روٹی کھانے والوں کے دفاع میں ڈاکٹر الیاس، مولوی شفیع اور ببلو بھائی کی مثالیں تو ٹھیک ہیں مگر سلیم خان اور رؤف شیخ کی مثالیں میری سمجھ سے بالا تر ہیں۔ سرکاری اسپتال کے ڈاکٹر کا اپنے والد کا پرائیوٹ اسپتال میں آپریشن کروانا، کسی مولوی کا اردو کی حق تلفی پر خاموش رہنا، ایڈمن کا اردو کی ہمدردی کی پوسٹ رومن میں لکھنا قابل گرفت تو ہوسکتا ہے مگر سائیکل فیکٹری کے ملازم کا "ایکٹیوا" پر گھومنا اور ریلوے کے ملازم کا ہوائی جہاز پر سفر کرنا قابل گرفت کیسے ہے؟ کیا سائیکل کی فیکٹری میں ملازمت کرنے والے کو ہمیشہ سائیکل ہی چلانی چاہئے؟ کیا ریلوے کے افسر کو ہوائی جہاز سے سفر نہیں کرنا چاہئے؟ یہ تو ویسا ہے جیسے سبزی فروش کے گوشت کھانے پر اعتراض کیا جائے۔
میری نظر میں مذکورہ دونوں مثالیں غیر ضروری ہیں۔ان کے بغیر افسانچہ زیادہ چست ہوتا اور ممکن ہے کہ سو لفظوں کی حد میں بھی سمٹ جاتا۔
"لعنت" کے ذریعہ مصنف نے دوسروں پر لعنت بھیجنے والوں پر بڑے لطیف انداز میں لعنت بھیجی ہے۔ داد تو بنتی ہے۔
۔۔۔۔
دوسرا افسانچہ '' زمین دوز '' اپنے عنوان کے اعتبار سے بہت بلیغ اور معنی خیز. ہے جس میں اقبال نیازی صاحب جیسے پختہ افسانچہ نگار کا فن ببانگ دہل بول رہا ہے۔ افسانچہ شروع سے آخر تک قاری کو اپنے سحر میں مبتلا رکھتا ہے۔ میں غضنفر صاحب کے اس خیال سے اتفاق کرتا ہوں کہ پلاٹ میں نیاپن نہیں ہے مگر پیشکش اتنی شاندار ہے کہ افسانچہ کافی بلندی پر پہنچ گیا ہے۔ یہ اقبال نیازی صاحب کے قلم کا جادو ہے۔
"ثمینہ" کے کردار میں ایک ڈھونگی معلمہ سامنے آتی ہے۔ اس افسانچے میں دو ٹرننگ پوائنٹ مجھے نظر آئے۔ثمینہ کو پہلے ایک جدید فکرو نظر کی آزاد خیال لڑکی دکھایا گیا ہے۔ ایک ٹرننگ پوائنٹ تو وہ جب وہ اسلامی لباس میں نظر آتی ہے۔ قاری یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ شاید وہ راہ راست پر آگئی ہے۔ قاری کو اس سے انسیت ہوجاتی ہے ۔ دوسرا ٹرننگ پوائنٹ وہ ہے جب وہ بتاتی ہے کہ اس نے صرف ہیڈ مسٹریس بننے کے لئے ظاہری طور پر خود کو بدلا ہے اندر سے جینس پہنے والی وہی پرانی ثمینہ ہے جو گھر جاکر عبایہ اتار پھینکتی ہے۔ یہاں قاری کے ذہن کو زور دار جھٹکا لگتا ہے۔ اس کی انسیت یکلخت نفرت اور غصے میں بدل جاتی ہے اور یہی افسانچے کا نقطۂ عروج ہے۔
افسانچے کے آخری جملے میں مصنف نے جس اندھیرے کا ذکر کیا ہے وہ قاری کے ذہن و دل میں پھیل جاتا ہے اور قاری کچھ دیر تک ساکت اور مبہوت رہ جاتا ہے۔ جب وہ خود پر قابو پاتا ہے تو ایک خوش گوار تاثر سے دوچار ہوتا ہے۔اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک زمین دوز راستے سے ہوکر کھلی فضا میں آگیا ہے۔ اس نے اتنا اچھا افسانچہ جو پڑھا۔
ابتدا میں افسانچے کا راوی "میں" ہے مگر آخری حصے میں "وہ" ہوگیا ہے۔نیازی صاحب درست کرلیں۔
۔۔۔۔۔
عارفہ خالد شیخ صاحبہ کا افسانچہ '' کوزہ گر '' آج کے تیسرے افسانچے کی شکل میں موجود ہے۔
اس کا مرکزی خیال بھی وہی ہے جو کل ابوذر صاحب کے افسانچے '' یگ یگ کی باتیں '' کا تھا مگر پیشکش بالکل الگ، انداز یکسر جدا ہے۔ 
نعمان سر کے استاد نے ان کی پیتھ پر اتنے ہاتھ جمائے کہ شین کا تلفظ درست ہوگیا اور پھر کبھی کسی لفظ کی ادائیگی میں انہیں دقت نہیں ہوئی۔
 ایک وہ زمانہ تھا کہ محض ایک حرف کا تلفظ درست کرنے کے لئے پٹائی ہوگئی اور ایک یہ زمانہ ہے کہ طالب علم کو ڈانٹ دینے کے پاداش میں استاد کا گریبان پکڑا جارہا ہے۔ 
 یہ افسانچہ اخلاقی قدروں کی پامالی کا نوحہ ہے۔ مصنفہ نے اپنا مطمحِ نظر سیدھے مگر متاثر کن طریقے سے پیش کیا ہے جس کے لئے عارفہ خالد شیخ صاحبہ کو ڈھیروں داد پیش کرتا ہوں۔
 اطلاعاً عرض ہے کہ شین مذکر ہے۔ 
لیکن میرے منھ سے شین پھسل پھسل جارہا تھا ۔۔۔۔ لکھنا درست ہوگا۔ بڑا/ بڑی لکھنا مناسب نہیں ہے۔ جب بچے اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ وہ "ش" کا تلفظ نہیں کرسکتے ہیں تو انہیں "س" کو چھوٹا سین اور "ش" کو بڑا سین سکھایا جاتا ہے۔ شین کے ساتھ بڑا لکھنے کی ضرورت نہیں۔
احمد کمال حشمی


تیسرا دن

سم ﷲِ الرّحمٰنِ الرّحِیم
معزز اراکین!
آج تین نئے افسانچوں پر اپنے تاثرات لے کر حاضر ہوں۔ میں پہلے بھی اِس گروپ میں پیش کئے گئے سارے افسانچے پوری دلچسپی اور توجہ سے پڑھا کرتا تھا مگر اب کچھ زیادہ ہی توجہ سے پڑھنے لگا ہوں تاکہ جو ذمہ داری انور مرزا صاحب نے مجھے سونپی ہے وہ احسن طریقے سے نبھا پاؤں۔ میری کوشش یہی رہتی ہے کہ فنکاروں کو نہیں بلکہ فن پاروں کو دیکھ کر اپنے تاثرات قلمبند کروں۔
آج جو افسانچہ سب سے پہلے پیش کیا گیا وہ جناب ابوذر کا '' یگ یگ کی باتیں '' تھا۔ اس چھوٹی سی کہانی میں تین نسلوں کی تصویر بڑی خوبصورتی سے دکھائی گئی ہے۔ اگلے وقتوں میں غلطی کرنے پر بچوں کی دو بار پٹائی ہوتی تھی۔ایک بار اسکول کے ٹیچر کے ہاتھوں اور دوسری بار باپ کے ہاتھوں۔ معافی مانگنے کی سزا الگ۔ مگر اب تو بچوں کی پٹائی جرم بن گئی ہے۔ ٹیچر اگر بچے کی شرارت پر ایک طمانچہ بھی رسید کردے تو اس کی خیر نہیں۔ والدین ٹیچر سے لڑنے اسکول پہنچ جاتے ہیں۔زمانہ بدلا، قدریں بدلیں۔اب اخلاق انحطاط پذیر ہے۔کاش ہر گھر میں تیسرے یگ والا منظر دیکھنے کو ملتا۔ابو ذر صاحب کے قلم نے جو تصویر کشی کی ہے اس کی داد نہ دینا بددیانتی ہوگی۔
اس افسانچے پر رخسانہ نازنین صاحبہ کے نکتۂ اعتراض سے میں خود کو متفق پاتا ہوں۔. دو ہتھڑ لگانے کے بجائے ڈانٹ پلانے کی بات کہی گئی ہوتی تو بہتر ہوتا۔ ایک بیٹے کے باپ کو دو ہتھڑ لگانا کچھ غیر فطری لگ رہا ہے۔
۔۔۔۔

"آسیب زدگی" آج کا دوسرا افسانچہ رہا۔ اس کے مصنف نوجوان ادیب خالد بشیر تلگامی ہیں۔ اس افسانچے پر رخسانہ نازنین صاحبہ کے کمنٹ سے مجھے اختلاف ہے۔ میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ رخسانہ صاحبہ کو افسانچہ رپورٹنگ کیوں لگا۔ افسانچے میں پلاٹ ہے، کردار ہیں، ڈائیلاگ ہیں۔ ایک افسانچے میں اور کیا چاہئے؟
بیشتر احباب کی اس رائے سے مجھے اتفاق ہے کہ پلاٹ کافی پامال ہے۔قول اور فعل کے تضاد پر بیشمار افسانچے لکھے جاچکے ہیں۔ ہیڈ ماسٹر صاحب دوسروں کو تلقین کرتے نظر آرہے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو سرکاری اسکول میں پڑھائیں مگر خود ان کا بیٹا پرائیویٹ اسکول میں پڑھتا ہے۔
بار بار کہی گئی بات کو بار بار کہنا فن کے معیار کو مجروح کرتا ہے۔ ایسے افسانچوں پر حوصلہ افزا داد تو مل سکتی ہے مگر ایسے افسانچے متاثرکن نہیں ہوتے اور بہت جلد قارئین کے ذہنوں سے محو ہوجاتے ہیں۔
خالد بشیر صاحب کے لئے نیک خواہشات پیش کرتا ہوں۔میں ان سے اور بہتر افسانچوں کی توقع کرتا ہوں۔
۔۔۔۔
"تعزیت" (مصنف: تنویر اختر رومانی). نے مجھے بہت متاثر کیا۔
میں نے پہلے دن کے خطبے میں لکھا تھا کہ۔۔۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے افسانچہ نگار حضرات "استاد" کو کیسا اور کیسے پیش کرتے ہیں
میں دراصل یہی دیکھنا چاہتا تھا کہ استاد کو فرشتہ بناکر پیش کیا جاتا ہے یا استاد کے اندر بھی کوئی بشری کمزوری ہوتی ہے۔
تنویر اختر رومانی صاحب نے ایک بڑی سچائی کو بڑے فنکارانہ انداز میں افسانچہ بناکر پیش کیا ہے۔
اس سے پہلے کے تمام افسانچوں میں استاد کو ویسا دکھایا گیا جیسا ایک استاد کو ہونا چاہئے۔ زیر نظر افسانچے میں استاد کو ویسا دکھایا گیا ہے جیسا کچھ "استاد" ہوتے ہیں۔ ایک اچھے شاعر یا ادیب کی ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ سماج کا وہ چہرہ بھی دکھائے جو کریہہ ہوتا ہے۔ تنویر اختر رومانی صاحب نے درس و تدریس کے پیشے سے منسلک کچھ کام چور اساتذہ کی تصویر اپنے افسانچے میں دکھائی ہے۔
ایک ٹیچر کی موت پر دوسرے ٹیچر کا محض اسلئے خوش ہونا کہ ایک روز کی چھٹی ملے گی ایک درد ناک اور افسوس ناک منظر پیش کرتا ہے۔ کام چور طلبہ کی طرح کچھ کام چور اساتذہ بھی ہوتے ہیں۔ ایسے کچھ ٹیچر ہر شہر میں مل جائیں گے۔
"تعزیت" ایک ٹیچر کی موت کا تعزیت نامہ نہیں بلکہ اخلاق کی موت کا تعزیت نامہ ہے۔
تنویر اختر رومانی صاحب کا افسانچہ "تعزیت" میری نظر میں قابل صد داد ہے۔

احمد کمال حشمی


دوسرا دن

بسم ﷲِ الرّحمٰنِ الرّحِیم
حضرات!
کل پیش کئے گئے تینوں افسانچوں پر میرے تاثرات کو جن احباب نے سراہا میں تہہ دل سے ان کا ممنون و شاکر ہوں۔جناب انور مرزا نے مسند صدارت پر مجھے بٹھاکر مجھ پر یہ فرض عائد کردیا ہے کہ دن بھر میں پیش کئے گئے تینوں افسانچوں پر اپنی بےلاگ اور غیرجانبدارانہ رائے پیش کروں۔ سو اپنی فہم و بساط بھر اپنی رائے پیش کرتا ہوں۔
آج پیش کیا جانے والا پہلا افسانچہ 'گرودکشنا' تھا جس کی مصنفہ نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ ہیں۔. نعیمہ جعفری صاحبہ سے میں اسی گروپ میں متعارف ہوا۔ انکے افسانچے پڑھے۔ ان کے بیشتر افسانچے صنف افسانچہ کے تمام لوازمات سے مزین ہوتے ہیں۔ افسانچہ نویسی میں انہیں وقار حاصل ہوچکا ہے۔
زیر نظر افسانچہ '' گرو دکشنا '' ایک کامیاب افسانچہ ہے۔
علمیت کے خزانے بٹورنے کے بعد انسان کا مغرور ہوجانا فطری ہے۔مگر یہی غرور ساری علمیت کا ستیا ناس کردیتا ہے۔ بڑا اور بھلا انسان وہی ہوتا ہےجو ثمردار شاخ کی طرح خمیدہ رہے۔ افسانچے کے گرو نے اپنے شاگرد کو علم کی دولت سے مالا مال کردینے کے بعد آخر میں ایسی بات کہہ دی جس نے "غبارے" سے ہوا نکال دی۔انہوں نے گرو دکشنا میں اہنکار، کرودھ اور اسہن شیلتا کا مطالبہ کیا تاکہ وہ انہیں جلاکر بھسم کرسکے۔. بندھے ہوئے سامان کا کھل جانا ظاہر کرتا ہے کہ طالبعلم کے دل و دماغ میں اہنکار، کرودھ اور اسہن شیلتا آگئی تھی اس لئے اس نے آشرم چھوڑنے کا ارادہ ترک کردیا یعنی تعلیم نامکمل رہ گئی تھی۔
مصنفہ نے بڑی ہنرمندی سے یہ پیغام دیا ہے کہ جب تک تکبر دل و دماغ میں ہے تعلیم نامکمل کہلائے گی۔ اس افسانچے میں استادوں کے لئے بھی سبق ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کے دل و دماغ سے تکبر نکالنے کی کوشش کریں۔ اس خوبصورت افسانچے کے لئے مصنفہ کو داد و مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
گرو کی زبان سے شدھ ہندی اور شاگرد کی زبان سے شستہ اردو کا استعمال غیر فطری لگتا ہے۔
۔۔۔
اس کے بعد پرویز انیس صاحب کا افسانچہ '' خان سر '' پیش کیا گیا۔ افسانچہ قدرے گنجلک ثابت ہوا۔ کچھ قارئین اس کی تفہیم سے قاصر رہے۔ سراج عظیم صاحب نے اسے "عجیب" افسانچہ قرار دیا ۔رونق جمال صاحب بھی اسے سمجھنے سے قاصر رہے۔سلیم سرفراز صاحب نے تو اسے سرے سے بے ربط اور گنجلک روداد کہہ دیا اور یہ فیصلہ سنا دیا کہ ۔۔۔
"۔۔۔۔۔۔۔۔جسکی کوئی تفہیم بھی نہیں ہوسکتی"
سلیم سرفراز بڑے اچھے افسانچہ نگار ہیں۔ مگر جتنے اچھے افسانچہ نگار ہیں اتنے اچھے مبصر نہیں ہیں۔ان کے اکثر تبصرے بڑے جارحانہ ہوتے ہیں۔ اگر انہیں افسانچے کی تفہیم میں دشواری ہورہی تھی تو انہیں اپنی کم فہمی کا اعتراف کرنا چاہئے تھا۔ یہ کہہ دینا قطعی مناسب نہیں کہ اس کی کوئی تفہیم نہیں ہوسکتی۔ انیس رشید خان صاحب اور نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ نے افسانچے کی تفہیم کردی نا۔
مجھے لگتا ہے کہ سلیم سرفراز صاحب تبصرہ کرنے میں عجلت سے کام لیتے ہیں۔ ان کے تبصرے کا یہ فقرہ بھی غیر ذمہ دارانہ ہے کہ ۔۔۔۔ زبردستی عجلت میں لکھوائے گئے موضوعاتی افسانچے
کسی ایونٹ کے لئے گروپ میں موضوع دیا جاتا ہے کسی سے افسانچہ زبردستی نہیں لکھوایا جاتا ہے۔ اس سے پہلے کے ایوینٹس میں سلیم سرفراز صاحب شامل ہوچکے ہیں۔کیا ان سے افسانچے 'زبردستی' لکھوائے گئے تھے؟
مذکورہ افسانچے میں ابہام ضرور ہے مگر افسانچہ گنجلک نہیں ہے۔ اس افسانچے کا مطلب میں نے وہی سمجھا جو انیس رشید خان صاحب نے لکھا ہے۔ اس افسانچے میں شریر بچوں کو پڑھائی کی طرف راغب کرنے کا ایک منفرد طریقہ مصنف نے پیش کیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ عملی طور پر یہ طریقہ کارگر ثابت نہ ہو مگر ایک نئی سوچ کی داد مصنف کو ملنی چاہئے۔
اس افسانچے کے متعلق غضنفر صاحب کے باتوں سے میں خود کو متفق پاتا ہوں۔
۔۔۔۔
انیس رشید خان صاحب کے افسانچے "با ادب" نے دل خوش کردیا۔ بہت عمدہ افسانچہ لکھا ہے۔ استاد کی مار کھا کر پڑھائی ترک کرنے والے طالبعلم اور استاد کی مار کھاکر بری عادتیں ترک کرنے والے طالبعلم کی زندگی کے فرق کو بڑی مہارت اور فنکاری سے اجاگر کیا گیا ہے۔ مصنف نے اپنی بات براہ راست نہ کہہ کر اکرم اور پروفیسر وقار کی زبان سے ڈائیلاگ کی شکل میں جو کچھ کہلوایا ہے وہی افسانچے کی جان ہے۔ پروفیسر وقار کا اپنی بیٹی کو غیاث سر کے بارے میں فخر سے بتانا یہ پیغام بھی دیتا ہے کہ بیٹی کو بھی اپنے استاد سے مار کھانے کے باوجود ان کی تعظیم کرنی چاہئے۔
سید محمد نعمت ﷲ صاحب نے سچا واقعہ بیان کرکے مذکورہ افسانچے پر سچائی اور اچھائی کی مہر ثبت کردی ہے۔
آج کے تینوں افسانچے قارئین کے ذہنوں دیر پا اثر چھوڑنے والے ہیں۔ ایک اچھے افسانچے کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہوتی ھے کہ وہ پڑھنے والوں کے ذہنوں میں بہت دنوں تک محفوظ رہ جائے۔
احمد کمال حشمی

پہلا دن

بسم ﷲِ الرّحمٰنِ الرّحِیم
تم نے کرم سے اپنے اسے کردیا نہال
ورنہ غریب دل تھا بھلا کس شمار میں
(ن۔م)
حضرات!
میں صمیم قلب سے جناب انور مرزا کا شکرگزار ہوں کہ مجھ جیسے کم علم کو مسند صدارت پر براجمان کرکے میری عزت افزائی کی۔ من آنم کہ من دانم
اس بات کی مبارک باد بھی دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ وہ '' افسانہ نگار '' گروپ کو بڑے سلیقے سے چلارہے ہیں۔وہ جتنا وقت گروپ میں دیتے ہیں اتنا وقت بہت کم ایڈمنس کو میں نے کسی گروپ میں دیتے ہوئے دیکھا ہے۔
اس ایونٹ کا موضوع استاد/معلم /ٹیچر ہے۔ ہم سب جانتے اور مانتے ہیں کہ معلمی ایک مقدس پیشہ ہے۔ اساتذہ کو معمار قوم کہا جاتا ہے کیونکہ وہ مستقبل کی عالیشان عمارت کی بنیاد رکھتے ہیں۔ مگر کچھ "استاد" اپنے فرائض سے غفلت بھی برتتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے افسانچہ نگار حضرات "استاد" کو کیسا اور کیسے پیش کرتے ہیں۔
اس ایونٹ کا آغاز غضنفر صاحب جیسے معروف اور معتبر افسانہ نگار کے افسانچے سے ہوا۔
عنوان "پاؤ بھر کی بوتل" قاری کو متجسس کرتا ہے۔ افسانچہ خوب ہے۔ ایک چھوٹے سے طالب علم کی ذہنی پیچیدگی اور ایک ٹیچر کے مشفقانہ مزاج کی تصویر کشی کرتا ہوا کامیاب افسانچہ ہے۔
سلیم سرفراز صاحب کا خیال ہے کہ یہ موضوع قدرے مختلف انداز سے پہلے بھی برتا جاچکا ہے۔ ارے بھائی! موضوع تو ایڈمن نے دیا ہے۔انداز مصنف کا ہے جو '' قدرے مختلف '' ہے تو شکایت کیسی؟ طوالت کا شاکی میں بھی ہوں۔ افسانچہ مزید مختصر کیا جاسکتا تھا۔
اس افسانچے میں بھلے ہی کسی کو "استاد" نظر نہیں آیا ہو مجھے تو نظر آیا۔۔۔سامنے نہ سہی پس منظر میں سہی۔ استاد اسکول کے باہر بھی نظر آسکتا ہے۔
غضنفر صاحب افسانچے کی تشریح اور تاویل پیش نہیں کرتے تو اچھا تھا۔ اپنے تاثرات کے پہلے حصے میں تنقید کے تعلق سے جو باتیں انہوں نے کہی ہیں وہ بڑی کار آمد ہیں مگر کسی اور وقت کہتے تو ان کا اثر زیادہ ہوتا۔ افسانچے کے دفاع میں وہی باتیں ان کی خفگی کا تاثر دے رہی ہیں۔
۔۔۔
دوسرا افسانچہ محمد علی صدیقی صاحب کا ہے جن کی افسانچہ نویسی تیزی سے نکھر رہی ہے۔ان کے کچھ افسانچے سخت سے سخت انتخاب میں شامل کئے جانے کے لائق ہیں۔ انہوں نے بہت سارے معیاری افسانچے اس گروپ کو دیئے ہیں اور خوب داد وصول کی ہے مگر زیر نظر افسانچہ '' ستّار صاحب '' مجھے ایک کمزور افسانچہ لگا۔ اس افسانچے میں ان کے "استاد" ستّار صاحب کا ذکر اور تعارف تو ہے مگر کہانی پن ندارد۔
کچھ ہفتوں قبل گروپ میں ایک بحث چھڑی تھی کہ اﷲ تعالیٰ کا کوئی صفاتی نام اگر کسی شخص کا ہوتو اسے "عبد" کے بغیر نہیں پکارنا چاہئے۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ محمد علی صدیقی صاحب نے اس خیال کی پرزور تائید کی تھی مگر آج انہوں نے اپنے استاد کا ذکر صرف ستّار کے نام سے کیا ہے۔انہیں عبدالستار لکھنا چاہئے تھا۔
۔۔۔
آج کا تیسرا افسانچہ 'نوجوان' ڈاکٹر یاسمین اختر صاحبہ کا ہے۔ یہ ایک سیدھا سادہ بیانیہ ہے جس کی بنیاد ایک ذہین بچے کی معاشی مسئلے کے سبب تعلیم کا سلسلہ منقطع ہونے اور استاد کی طرف سے مالی تعاون دیئے جانے پر ہے۔ پلاٹ میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔میری نظر میں اس کا شمار افسانچۂ اطفال میں ہونا چاہئے۔
"پھر میں نے اس کو فون کرنے سے منع کردیا۔میں اس کی پڑھائی میں خلل ڈالنا نہیں چاہتا تھا۔"
یہ بات میری سمجھ میں نہیں آئی۔
کسی کو فون کرنا اس کی پڑھائی میں خلل ڈالنا تو ہوسکتا ہے لیکن کسی کا فون کرنا اس کی پڑھائی میں خلل ڈالنا کیسے ہوسکتا ہے؟
پڑھائی کرنے والا وقت نکال کر فون کرہی سکتا ہے۔
آج پیش کئے گئے تینوں افسانچوں میں مجھے ایک ہی افسانچہ متاثر کرسکا۔
موضوع کی پابندی ہر افسانچہ نگار کا ذہن قبول نہیں کرپاتا ہے۔ میں تینوں افسانچہ نگاروں کو ایونٹ میں شمولیت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ھے کیا
احمد کمال حشمی


تاثرات:
بہترین صدارتی خطبوں کے لئے محترم احمد کمال حشمی صاحب کو دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں.
جب پہلا افسانچہ پوسٹ کیا جاتا تھا، اسی وقت سے صدر صاحب کے خطبے کا انتظار شروع ہوجاتا تھا. ہر خطبہ میں بہترین زبان وبیان کے ساتھ سچائی اور بے باکی سے بات کو پیش کیا جاتا تھا لیکن ہر خطبہ اصلاحی نوعیت کا ہوتا تھا۔
محترم انور مرزا صاحب نے اس ایونٹ کو منعقد کرکے ایک بہترین تاریخ رقم کردی ہے۔۔
محترم ریحان کوثر صاحب نے اس ایونٹ کے ایک ایک لمحے کو الفاظ ہند کے بلاگ پر پیش کرکے ایک بہترین تاریخی قدم اٹھایا ہے جو آنے والے نئے زمانے میں اردو زبان کی تاریخ میں ایک درخشاں ستارے کی مانند چمکتا رہے گا۔
میں محترم احمد کمال حشمی صاحب کو، محترم انور مرزا صاحب کو، محترم ریحان کوثر صاحب کو اور ان تمام افسانچہ نگاروں کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں جن کی تحریریں اس ایونٹ میں شامل ہوئیں۔
ڈاکٹر انیس رشید خان

شاندار، جاندار اور ایمانداری سے پیش کئے گئے خطبوں کے لئے احمد کمال حشمی صاحب کو دلی مبارک باد۔
پہلے افسانچے کے پیش ہوتے کمال صاحب کے خطبے کا انتظار شروع ہوجاتا تھا. کیا زبان , بیان کی جادوگری، بیباکی، رہنمائی اور اصلاح کا پہلو خطبہ پڑھ کر دل خوش ہوجاتا۔
مبارک باد۔
افسانہ نگار دنیا کا پہلا گروپ ہے جو انور مرزا صاحب کی کپتانی میں قاعدے سے چل رہا ہے۔
ریحان کوثر کے بلاگ نے تیز رفتاری کے ریکارڈ تو توڑ ہی دیئے لیکن گروپ کو نئی سمت بھی عطا کی ہے
دونوں کو صمیم قلب سے مبارک باد۔
رونق جمال

ایوینٹ26 افسانہ نگار گروپ کے صدر(اٹھارا افسانچوں کے)محترم احمد کمال حشمی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھ نادر خطبات کی روشنی میں؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایسا لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایسا لگا
یقیناً ایسا لگا
معلم نیم کی چھڑی 
ہاتھ میں لیے
درس دے رہا تھا
بچوں کے دل
دہلے نہیں تھے
اس کی شیرین کلامی سے
کلاس متاثر تھی
وہ چھڑی۔۔۔۔بس نچا رہا تھا
صبر کا پیمانہ لبریز ہوا
بچوں نے
لکھنا سیکھا
پڑھنا سیکھا
نقد و تبصرے بھی سمجھے
تازہ واردوں کے حوصلے بڑھے
کبھی تیز
کبھی نرم
گفتگو بھی کرتا
پھر یوں ہوا
کلاس میں بہار آنے لگی
فکر گنگنانے لگے
بڑا بھی خوش 
چھوٹے چھوٹے نہیں تھے
مگر خوش
تحریروں کی پروازیں بلند ہوٸیں۔
وہ مطمٸن بھی ہوا
لیکن
کلاس میں ایک شریر بھی تھا
”میں“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد کمال حشمی صاحب کا تہہ دل سے شکریہ
قیوم اثر

افسانہ نگار گروپ کے ایڈمن محترم انور مرزا نے "ایونٹ صدر " کے طور پر ایک نیا تجربہ کیاـ تجربات کام کرنے والے ہی کرتے ہیں جو کبھی کامیاب ہوتے ہیں تو کبھی ناکامـ مجھے بھی اس تجربے سے چند خدشات تھے کیونکہ منصب صدارت پر فائز ہونا تو بھاری بھرکم ذمہ داری کا کام ہے لیکن اپنے ملکی صدر کی نظیر سے اس خیال کو تقویت ملتی تھی کہ صدر محض "ربر اسٹامپ " ہوتا ہے اور آخر میں صدارتی خطبہ کے نام پر سب کو خوش کرنے کا کام کرتا ہےـ مجھے اپنے خیال کے غلط ثابت ہونے پر خوشی ہوئی۔ محترم احمد کمال حشمی میرے عزیز ہیں۔ وہ معتبر شاعر اور عمدہ افسانچہ نگار ہونے کے علاوہ شعروادب کے زبردست پارکھ ہیں۔ زبان وبیان پر بھی ان کی اچھی گرفت ہے۔ اس ایونٹ میں انہوں نے جس غیرجانبداری اور تفصیلی انداز میں افسانچوں پر تبصرے پیش کیے، اس سے ممکن ہے کہ کچھ قلم کار بدظن ہوئے ہوں لیکن انہوں نے منصب صدارت کے وقار و اعتبار کو خاصی بلندی بخشی۔
میں انہیں اس کامیاب صدارت کے لیے مبارکباد دیتا ہوں اور انور مرزا صاحب کی دیدہءبصیرت کی داد دیتا ہوں۔
سلامتی ہو
سلیم سرفراز

بہترین، اثر انگیز صدارتی خطبہ ۔ مبارکباد پیش ہے ۔ مجھے افسوس ہے کہ اس ایونٹ میں میں اپنے افسانچے کے ساتھ حاضر نہ ہوسکی ۔ مگر تمام احباب کے افسانچوں پر اپنی ادنی سی رائے کا اظہار کیا اور صدر محترم کے خطبات سے بھی فیض یاب ہوتی رہی ۔ اللہ کرے یہ بزم یونہی آباد رہے ۔
رخسانہ نازنین

پتہ نہیں کیوں؟
لیکن!
آنکھیں نم ہو گئیں!
خوشی کے مارے؟
یا
کسی درد کے سبب!
بہر حال!
آنکھیں نم ہو گئیں!
ہو سکتا ہے دل سے نکلے 
الفاظ
سیدھے سیدھے دل میں اتر گئے!
ہوسکتا ہے....
کچھ چھوٹ جانے کا غم ہے
یا 
پتا نہیں کچھ اور بات ہے۔۔۔
یہ چھے دن
یہ چھے خطبات!
وللہ وللہ مبارک باد 🌹
احمد کمال حشمی صاحب کا اس یادگار صدارت کے لیے 
از حد شکریہ 🍁
ریحان کوثر

Post a Comment

0 Comments