Ticker

6/recent/ticker-posts

پاؤ بھر کی بوتل (افسانچہ) ✒️ غضنفر

1️⃣
پاؤ بھر کی بوتل
افسانہ نِگار ✒️ غضنفر
ایونٹ نمبر 26 🧑‍🏫 ٹیچر/معلم
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 1

پاؤ بھر کی بوتل (افسانچہ) ✒️ غضنفر


بچّے کے رونے کی آواز سُن کر میں پڑوسی کے گھر کی طرف دوڑا پڑا۔
اندر داخل ہوا تو دیکھا کہ ڈانٹ ڈپٹ اور رونے دھونے کا سلسلہ جاری ہے۔
’’کیوں بچّے کو مار رہے ہیں بھائی صاحب؟ ‘‘ میرے پوچھنے پر پڑوسی بولا:
’’ماسٹر صاحب ! ماروں نہیں تو کیا کروں۔ کم بخت امتحان میں سڑا ہوا نمبر لایا ہے۔
جی کرتا ہے اس کا دماغ پھوڑ دوں۔‘‘
’’کیا محنت نہیں کرتا؟‘‘
’’کرتا ہے، خوب کرتا ہے بھائی صاحب ! ‘‘
اِس بار بچّے کی ماں بول پڑی۔
’’محنت کیا خاک کرتا ہے۔ کرتا تو یہ نوبت نہیں آتی۔ ماسٹر صاحب ! آپ تو ٹیچر ہیں ۔آپ ہی بتایے یہ محنت کرتا ہے اور میں اس کی پڑھائی پر اپنی بساط سے زیادہ خرچ کرتا ہوں، پھر بھی نمبر اتنے کم ! ‘‘
’’ ضروری نہیں کہ اس میں بچّے کا ہی قصور ہو۔‘‘
’’ تو پھر کس کا قصور ہے؟‘‘
’’ آپ نے کبھی اس کے اسکول بیگ کی طرف دھیان دیا ہے۔ کبھی سبجیکٹ گِنے ہیں ؟ ‘‘
’’ نہیں ۔‘‘
’’ بھائی صاحب! میَں نے گِنے ہیں، دس سبجیکٹ ہیں۔‘‘
بچّے کی ماں پھر بول پڑی۔
’’ کبھی بیگ کو تول کر بھی دیکھیے گا، وہ بھی نو دس کلو سے کم نہیں نکلے گا۔ ‘‘
’’ماسٹر صاحب، بیگ کے وزن اور کتابوں کی گنتی سے بھلا نمبروں کا کیا تعلق ؟ ‘‘
’’ ہے۔ اور گہرا ہے۔ آپ تو تیل بیچتے ہیں نا؟‘‘
’’ جی۔‘‘
’’ اگر آپ سے کوئی کہے کہ ایک پاؤ کی بوتل میں ایک کلو تیل ڈال دیجیے تو کیا ہوگا؟ ‘‘
’’کوئی ایسا کیوں کہے گا بھلا ؟ ‘‘
’’مان لیجیے کسی سرپھرے نے ایسا کرنے کو کہا تو کیا ہوگا؟‘‘
’’ہوگا کیا، ایک پاؤ تیل اندر جائے گا، باقی سب اِدھر اُدھر بہہ جائے گا۔‘‘
’’یہی ہو رہا ہے اس بے چارے بچّے کے ساتھ۔ اس کا دماغ تو پاؤ بھر کا ہے اور ہم زبردستی اس میں علم کا ایک کلو تیل انڈیلنا چاہتے ہیں۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔‘‘
’’ مطلب ؟ ‘‘
’’مطلب بھابی جی سے پوچھ لیجیے گا اور سنیے ،بچّے کو ماریے گا نہیں، اس میں قصور اس بے چارے کا نہیں بلکہ اس کے ننھے سے دماغ میں تیل انڈیلنے والے کا ہے۔‘‘
✍️✍️✍️
تاثرات: غضنفر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ فرمائش پر یا کسی کے دیے گئے کسی مخصوص موضوع پر کوئی کہانی ،یا نظم لکھنا آسان نہیں ہے۔ تخلیق داخلی ارج کے سبب وجود میں آتی ہے اسی لیے ہنگامی موضوعات یا فرمائشی عنوانات پر اکثر اچھی تخلیقات خلق نہیں ہو پاتیں ۔بھائی انور مرزا کا حکم تھا کہ میں بھی کوئی افسانچہ پیش کروں سو میں نے کوشش کی کہ انگلی کاٹ کر شہید ہو جاوں۔
اچھا لگا کہ کہانی کی صرف تعریف نہیں ہو بلکہ اس پر ایک آدھ ترچھی نظریں بھی پڑیں۔
شکریہ ان کا جنھوں نے اس افسانے کو سیدھی ‌نظر سے دیکھا، جہاں سیدھی نظر رکھنی چاہیے،ٹیڑھی نہیں کی۔ سنجیدگی سے پڑھا ،اپنے حساب سے سنجھا،معروضی نقطۂ نگاہ سے پرکھا اور پسند کیا اور ان کا بھی شکریہ جنھوں نے ٹیڑھی نظر سے دیکھا۔اور عجلت میں فیصلہ سنایا۔
اپنی تخلیق اور اس پر ہوئی تنقید سے پرے ہٹ کر میرا جی چاہتا ہے کہ اس موقعے پر یہ بات کہوں کہ اچھی اور معیاری تنقید وہ ہوتی ہے جو اپنے دعوے کے حق میں دلیلیں بھی پیش کرے ۔ اپنے فیصلے کو منطقی بناۓ۔اسے ثابت بھی کرے ۔ اس کا جواز بھی پیش کرے۔ایسا کرنے سے اس کا اعتبار تو بڑھتا ہی ہے،فن کار کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔اس کی رہنمائی ہو جاتی ہے‌۔ نقاد یہ جوکھم اس وقت اٹھاتا ہے جب اس کی نیت ٹھیک ہوتی ہے اور مقصد مثبت رویے کا حامل ہوتا ہے۔ جو ایسا کرتا ہے وہ دوسروں کی نظر میں بھی سرخ رو ہوتا ہے اور جو اس کے برعکس رویہ اپناتا ہے وہ خود اپنی نگاہ میں بھی رو سیاہ ہو جاتا ہے۔
ادب وفن اور نقد و انتقاد میں تو کچھ زیادہ ہی خلوص،ایمان داری اور معروضیت کی پاس داری ضروری ہے ،کیوں کہ ان کے بنا ہم ادب پارے کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے۔
 ہمیں کسی فن پارے یا فن کار پر لکھتے وقت ان لوگوں کی مثالیں سامنے رکھنی چاہییں جنھوں نے اپنے دشمن کی تخلیق پر بھی محبت کی ‌نظر ڈالی۔
اب ایک دو باتیں ان سوالوں پر بھی جو اس کہانی پر اٹھاۓ گئے:
ایک سوال یہ اٹھایا گیا کہ پھر تو سبھی بچوں کے نمبر کم آنے چاہییں. کیا سبھی بچوں کے نمبر کم آتے ہیں؟ اس مسٔلے پر ذرا معروضی نقطۂ نظر ڈالیے تو جواب مل جاۓ گا کہ کمزور بچے صرف وہ ہوتے ہیں جن کے ماں باپ کی مالی حالت اچھی نہیں ہوتی اور اکثریت ایسے ہی بچوں کی ہوتی ہے مگر بستوں کے بوجھ کا اثر تو مال دار لوگوں کے بچوں بر بھی پڑتا ہے جن کا تعلق دیہاتوں اور پہاڑی علاقوں سے ہوتا ہے اور جنھیں پیدل چلنا پڑتا ہے۔ ان کی جسمانی صحت پر اس بارِ گراں کی ضرب کو کوئی بھی حساس انسان محسوس کر سکتا ہے۔
کسی تبصرے میں یہ بھی اشارہ ‌کیا گیا ہے کہ افسانچے میں تعلیمی سسٹم وغیرہ پر زور زیادہ ہے،معلم کی بات کم کی گئی ہے یا اس کا ذکر ایک یا دوبار آیا ہے اور کسی نہ یہ خواہش بھی ظاہر کی ہے کہ اس میں استاد ذرا اور نظر آتا تو اس سلسلے میں بس اتنا عرض کرنا ہے کہ اس کہانی کو معلم کی آنکھ سے ہی دیکھا گیا ہے۔وہی مرکز میں ہے۔ بس دیکھنے والی ‌نظر کا فرق ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ کچھ لوگ استاد اسی کو سمجھتے ہیں جو کلاس روم میں ہوتا ہے۔اسکول سے باہر ان کی نگاہ میں وہ شاید استاد نہیں رہ پاتا مگر معلم کا رینج بہت بڑا ہے ۔وہ کہیں بھی رہ کر معلم کا کردار نبھا سکتا ہے۔ اس کہانی میں اس بڑے دائرے والے استاد کو پیش کیا گیا ہے۔اسے اس میں ایک اہم کردار بنایا گیا ہے تاکہ صورتِ حال کو صحیح ڈھنگ سے اور صحیح تناظر میں سے وہ سامنے رکھ سکے کیوں کہ معلم ہی تعلیمی ‌نظام کو زیادہ قریب سے دیکھتا ہے۔سبجیکٹ کی زیادتی،کتاب اور کاپیوں کے بوجھ،بچوں کی ذہنی سطح ،ان کے بیک گراونڈ،ان کی تعلیمی مشکلات وغیرہ کو اس سے زیادہ اچھی طرح شاید ہی کوئی اور سمجھ سکے لہذا معلم نظر نہ آتے ہوے بھی یہاں موجود ہے اور وہ وہاں ہے جہاں سے زیادہ اچھی طرح گارجین کے سامنے نظام تعلیم کی کمیوں اور کمزوریوں کو رکھ سکتا ہے۔
یہ بھی کہا گیا کہ ماں نے طرف داری کی ہے اور اسے نہیں کرنی چاہیے تو اس سلسلے میں یہ کہنا ہے کہ اس کہانی میں ماں طرف داری نہیں کر رہی بلکہ وہ سچ بتا رہی ہے جسے باپ اس لیے نہیں جان پاتا کہ اسے اپنے گھر کی معاشی حالت کوسدھارنے کے چکر میں گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے
ایک بار پھر سے سبھی کا شکریہ۔
انور مرزا کا خاص طور سے جنھوں نے اس
صنف کی جانب میری توجہ مرکوز کرائی
۔۔۔۔۔۔۔‌‌
غضنفر

Post a Comment

0 Comments