🔟
لعنت
افسانہ نِگار ✒️ ریحان کوثر
ایونٹ نمبر 26 🧑🏫 ٹیچر/معلّم
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 10
لعنت
افسانہ نِگار ✒️ ریحان کوثر
ایونٹ نمبر 26 🧑🏫 ٹیچر/معلّم
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 10
اُس واٹس ایپ گروپ میں محلے ہی نہیں بلکہ شہر کے معززین بطور ممبران شریک تھے۔ بڑا ہی متحرک گروپ تھا۔ سارے پڑھے لکھے لوگ مختلف موضوعات پر خوب بحث و مباحثہ کیا کرتے۔
اس روز کسی نے پوسٹ شیئر کی کہ
’’اُردو کی روزی روٹی کھانے والے اساتذہ اپنے بچوں کو انگریزی اسکولوں میں تعلیم حاصل کروا رہے ہیں... ان پر لعنت ہے۔‘‘
لعنت بھیجنے والوں میں پہلا نام ڈاکٹر الیاس کا تھا جو سرکاری ہسپتال میں میڈیکل آفیسر تھے۔ پچھلے مہینے انھوں نے اپنے والد کی بائے پاس سرجری شہر کے ایک بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں کروائی تھی۔
دوسرے ریلوے میں کلاس ون آفیسر سلیم خان تھے وہ اکثر ملک بھر میں ہوائی جہاز سے سفر کیا کرتے تھے۔
تیسرا نام رؤف شیخ کا تھا جو ہیرو سائیکل کمپنی میں ملازم تھے لیکن ہمیشہ’ ایکٹیوا ‘ سے گھومتے دکھائی دیتے تھے۔
چوتھا نام مولوی محمد شفیع کا تھا جنھوں نے تائید کے لیے انگوٹھا دکھایا تھا۔ وہ غضب کے مقرر تھے لیکن جب ریاست میں اردو زبان کو بطور سرکاری زبان منسوخ کیا گیا اس ہفتے بھی جانوروں کی کھال کے تعلق سے بڑا ہی دلپزیر بیان دیا تھا۔ پہلی صف میں ان کا اکلوتا بیٹا عدنان بھی بیٹھا تھا جو انگریزی میڈیم اسکول میں دسویں جماعت میں زیر تعلیم تھا۔
اس تحریری مذاکرے میں ایک اہم نام بھی شامل تھا جو اس گروپ کے ایڈمن ببلو بھائی کا تھا۔ وہ وارڈ کے میونسپل کارپوریٹر تھے۔ اس مسلم اکثریتی وارڈ سے سب سے بڑی جیت حاصل کر چکے تھے۔ ببلو بھائی میونسپل کارپوریشن میں شعبہ تعلیم و تدریس کے چیرمین بھی تھے۔ انھوں نے لعنت بھیجنے کے بعد لکھا،
”ye sale mastar log hote hi aise hain.... 😁”
✍️✍️✍️
نوٹ: اِس افسانچے کے افسانہ نگار پیشے سے ایک تکنیکی ادارے یعنی آئی ٹی آئی کے پرنسپل ہیں۔ ادارے کا ذریعۂ تعلیم مراٹھی اور ہندی زبان ہے۔
✍️
تبصرہ و تجزیہ:
لوگ اپنا محاسبہ نہیں کرتے بلکہ دوسروں کی طرف انگشت نمائی کرنا نہیں بھولتے ہیں. ایک منفرد انداز میں پیش کیا ہوا افسانچہ ہے جسے باربا قرآت کرنے کو جی چاہتا ہے. ریحان بھائی جس میدان میں اترتے ہیں اپنی انفرادیت کا لوہا منوا ہی لیتے ہیں... الفاظ ہند کا بلاگ ایک عمدہ مثال ہے.
ریحان بھائی! آپ کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارک باد.
✍️ سید محمد نعمت اللہ
بہت ہی خوبصورت افسانچہ! بہت ہی خوبصورتی کے ساتھ یہ سچائی بتائی گئی ہے کہ ذاتی معاملات میں انسان وکیل بن جاتے ہیں لیکن جب بات دوسروں کی ہوتی ہے تب وہ جج بن کر فیصلے سنانے لگتے ہیں۔۔۔۔۔ بہترین افسانچہ! محترم ریحان کوثر صاحب کو بہت بہت مبارک باد
✍️ ڈاکٹر انیس رشید خان
موضوع معلم کو ایک نئے اور منفرد انداز سے افسانچہ بناکر پیش کرنے پر ریحان کوثر صاحب کو مبارک باد ڈھیروں داد ۔
بہت عمدہ پر کشش انداز بیان ۔
✍️ شمیم جہانگیری
بہت خوب افسانچہ
دوسروں پر تنقید کرنا آسان ہوتا ہے
✍️ ڈاکٹر شیخ طاہرہ
ریحان کوثر صاحب نے لوگوں کے قول و عمل کے تضاد کی بہت عمدہ اور سچی تصویر کشی کی ہے۔
لیکن جب اردو نہ پیٹ بھر رہی ہو، تن ڈھکنے کے اہل نہ، سر پر چھت نہ مہیا کرواسکے، بچوں کو اچھا مستقبل نہ دے سکے تو اردو کا عاشق صادق بھی کیا کرے۔
بس ایک کام کر سکتا ہے کہ دوسروں پر اعتراض نہ کرے۔ اگر اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آتا تو دوسروں کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرکے اس کی تشہیر نہ کرے۔
ہمیشہ کی طرح ایک عمدہ اور معنی خیز افسانچے کے لیے ریحان میاں کو مبارکباد اور دعائیں۔
✍️ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
دوسروں پر لعنت بھیجنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اُن پر بھی لعنت بھیجی جاتی ہوں گی۔
لوگ سرکاری نوکریاں حاصل کرنے کے لئے جی جان کی بازی لگا لیتے ہیں۔ سرکار کی جانب سے دی جانے والی ساری رعایات کا فائدہ اُٹھانے کے لئے ا یڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں۔ بیٹی بیاہنے کے لئے سرکاری داماد ڈھونڈتے ہیں۔
اتنا ہی نہیں بلکہ زِندگی کے ہر شعبے میں سرکاری نوکر کو فوقیت دی جاتی ہے۔ لیکِن جب بات آتی ہے ۔
سرکاری اسپتالوں میں علاج کی۔۔۔
سرکاری ذرائع حمل و نقل کے استعمال کی۔۔۔
سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کی۔۔۔۔ اور سرکار سے اپنے حق کے لئے ، اپنی تہذیب و تمدن اور اپنی زبان کی حفاظت کے لئے بات کرنے کی تو اثر و رسوخ رکھنے والے بڑ بول لوگ اپنی بغلیں جھانکنے لگ جاتے ہیں۔
انسان بڑا بہروپیہ ہے۔ یہ کہتا کچھ ہے۔کرتا کچھ ہے اور سوچتا کچھ اور ہی ہے۔ اس کے قول و فعل میں ہی نہیں بلکہ عمل میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے۔
زیرِ نظر افسانچے میں اردو کی بقاء کے نعرے لگانے والوں پر گہرا طنز کیا گیا ہے۔
اُن سے تو اچھے ہمارے وہ بھائی ہیں جو دوسری زبانوں کے حامل ہوتے ہوئے بھی اردو اور دیگر زبانوں کی بقاء کے لئے کوشیشیں کرتے رہتے ہیں۔
بہت ہی عمدہ افسانچہ۔
✍️ عارفہ خالد شیخ
ریحان کوثر صاحب ایک مرتبہ پھر اپنے منفرد انداز میں اس موضوع پر لکھنے میں کامیاب ہیں ۔
ہمارے معاشرے کی برائیوں کو بہت موثر انداز میں پیش کیا ہیے ۔
شاید ہم سب کے ہی قول وفعل میں تضاد ہے ۔ہم صرف گفتار کے غازی ہیں ۔عملی زندگی ہمارا دوسرا روپ ہوتا ہے ۔
سر سید احمد خان نے کہا تھا کہ "شخصی برائ اجتماعی برائ بن جاتی ہے"
اس سوچ پر ریحان کوثر صاحب نے اچھا طنز کیاہے
✍️ ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
واہ!شاندار افسانچہ۔
کم لفظوں میں ایک ساتھ کئی باتوں کو افسانچہ میں سمیٹا گیا ہے۔لوگوں کے قول و فعل میں فرق کو بتاتا ہوا خوبصورت افسانچہ۔۔۔ڈھیروں مبارکباد
✍️ تبسم اشفاق شیخ
اردو زبان میں بچوں کو تعلیم نہ دلوانے پر دوسروں پر لعنت بھیجنا آسان ہے مگر خود عمل کرنا منظور نہیں ۔ ! موضوع وہی پرانا ہے مگر اسے دلچسپ انداز سے پیش کیا گیا ہے ۔ ہمیشہ کی طرح قاری کو مسحور کردینے والا افسانچہ ۔ آخری جملہ تو کمال کا ہے ۔ اور نوٹ کے ذریعہ تعارف۔۔۔ شاید ہی کسی نے آج تک خود اپنا اتنا کڑا تجزیہ کیا ہوگا! بہت خوب ۔ مبارک ہو
✍️ رخسانہ نازنین
ریحان کوثر کی کہانی کا موضوع جتنا پرانا ہے ٹریٹمنٹ اتنا ہی نیا ہے۔۔۔کیا خوبی سے کیمرے کی آنکھ سے الگ الگ تصویریں دکھا کر۔۔۔اور واٹساپ کے messages کو طنز کا پیرایہ بنا کر، ریحان صاحب نے اسلوبیاتی فکشن میں کمال دکھا دیا۔۔ریحان کوثر صاحب کا یہ افسانچہ پڑھ کر بلا مبالغہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ شخص کسی بھی موضوع کو ہیتی تجربه کی بھٹی میں پکا کر بڑے تخلیقی انداز میں پیش کر سکتا ہے۔۔۔ مبارکاں۔۔۔ جیتے رہو۔۔۔شاد رہو۔۔۔
✍️ اقبال نیازی
ایک جیسا کام کرنے کے باوجود جس طرح باقی لوگوں پر گرفت نہیں کی جاتی۔۔
اسی طرح ٹیچرز پر بھی نہیں کرنی چاہئے۔۔
لیکن مجھے پورا یقین ہے اگر ایڈمن ببلو جیسے لوگوں میں فرق آیا بھی تو صرف اتنا آئے گا۔۔۔۔
کہ وہ کہیں گے۔۔۔۔
Saale.. sab ki sab aik jaise hain
اس شاندار افسانچہ کے لیے ریحان کوثر صاحب کو ڈھیروں مبارکباد
✍️ پرویز انیس
منفرد افسانچہ
نیا انداز.رواں بیانیہ
سادہ سلیس زبان
اور کڑوی حقیقت کو خوبصورتی سے پیش کردیا
آخر میں نوٹ نے جان ڈال دی
واہ بہت خوب
ڈھیروں مبارک باد
✍️ رونق جمال
ایک نئے انداز میں دلچسپ افسانچہ ریحان کوثر صاحب مبارکباد
✍️ محمد رفیع الدین مجاہد
محترم ریحان کوثر صاحب نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی خوب دعوت دی ہے۔
✍️ محمد علی صدیقی
ریحان کوثر نے منافقانہ رویے کی نبض اچھی طرح پکڑی ہے
اور اس نبض کی حرکت اور حرارت کو دوسروں کے دل و دماغ تک پہنچایا بھی ہے بڑے سلیقے سے۔
داد اور مبارک باد
✍️ پروفیسر غضنفر علی
انگشت نمائی آسان ہے لیکن فیلڈ میں رہ کر کام کرنا آسان نہیں ہے، جن لوگوں نے ٹیچر پر لعنت ملامت کے ڈونگرے برسائے ہیں، وہ کیا کم لعنتی ہیں، اپنے گریبان میں نہ جھانک کر دوسروں کے گریبان میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں، سماج میں ایسے عناصر بہت موجود ہیں، ایسے عناصر سے نقاب نوچنے کا کام کیا ہے افسانچہ نگار نے... بہت خوب مبارکباد
✍️ سراج فاروقی
ریحان کوثر کا منفرد انداز اور اپنے آس پاس کا گہرائی سے مشاہدہ اس کے بعد ایک مالا میں سلیقے سے الفاظ کے موتیوں کو پرونا کہ ہر موتی اپنی ادا سے واحد متکلم کی شکل میں بیان کرے۔ ایک خوبصورت افسانچہ کے لئے ڈھیروں مبارکباد
✍️ محمد سراج عظیم
ڈاکٹر الیاس سرکاری اسپتال کا میڈیکل آفیسر ہے۔ وہ اپنے باپ کی باۓ پاس سرجری کسی پرائیویٹ اسپتال میں کرواتا ہے۔ کیوں نہ کرے؟اسے اندر کا حال معلوم ہے نا۔
سلیم خان ریلوے آفیسر ہونے کے باوجود ہوائی سفر کرتا ہے۔اعتراض کیوں؟اس کی مرضی۔
مولوی شفیع کا بیٹا انگریزی اسکول میں پڑھتا ہے۔کسی کو کیوں برا لگے؟
مجھے کہنا یہ ہے کہ جہاں فائدہ دکھائی دے گا آدمی اسی جانب جاۓ گا نا۔۔۔؟ سرکاری اسکولیں،سرکاری اسکولیں خوامخواہ واویلا مچایا جانے لگا۔۔۔ اندر سب جگہوں پر عیاں ہے۔
ریحان کوثر ہمہشہ اپنی تحریروں میں نیا پن لاتے ہیں۔ان کی سوچ وفکر کے دائرے بہت وسیع ہیں۔
بلکل نۓ انداز پر محترم کو ڈھیروں مبارک باد
✍️ قیوم اثر
0 Comments