گرو دکشنا
افسانہ نِگار ✒️ نعیمہ جعفری پاشا
ایونٹ نمبر 26 👩🏫 ٹیچر/معلّم
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 4
طلب علم میں بھٹکنے والے شہری لڑکے کو گروجی نے اپنے آشرم میں پناہ دی اور اسے وہ سب سکھایا جس کی طلب لے کر وہ گروجی کے پاس آیا تھا ۔بارہ برس آشرم میں گذارنے کے بعد آج رخصت کا وقت آگیا تھا اور وہ گروجی کی کٹیا کے باہر ان کے آشیرواد کا منتظر تھا۔
گروجی نے کٹیا سے باہر قدم رکھا۔ ان کا ماتھا انوکھے تیج سے چمک رہا تھا ۔وہ مسکرائے اور پوچھا ’’جانے کی تیاری ہوگئی؟‘‘
طالب علم نے سر جھکا کر کہا ’’ جی گروجی۔ آپ نے مجھے علم کے سمندر میں شرابور کردیا۔ علم و ہنر ،شعور و آگہی ،خدا شناسی و خود شناسی، سیاست، مشقت اور عدم تشدد کے ہتھیاروں سے لیس کردیا۔ میری عقل و دانش ،ذہانت و فطانت ،فہم و فراست اور صلاحیتوں پر سیقل کردی۔ اب میں زندگی کی رزم گاہ میں اترنے کے لئے تیار ہوں ...
اب گرو دکشنا پیش کرنے کا وقت آگیا ہے۔
ایکلاویہ نے اپنے گرو کو اپنا انگوٹھا پیش کردیا ،کورووں نے گرو کو سینا پتی بنادیا ،ارسطو برسوں اپنے استاد کے گھوڑے کے پیچھے چھتری لے کر دوڑا ۔ میں ایک غریب کمزور طالب علم آپ کو کیا پیش کروں!‘‘
گروجی مسکرائے ’’بالک نہ مجھے تمھارا انگوٹھا چاہیے نہ کوئی سمان نہ تمہاری چاکری ۔میں چاہتا ہوں جو میں نے تمھیں دیا ہے اسے سدا یاد رکھو۔ یاد رکھو کہ گیان ایک ساگر ہے ۔ہم اور تم تو ایک بوند کو ترس رہے ہیں۔ جو پایا وہ بوند سے بھی کم ہے۔اس پیاس کو کبھی مرنے نہ دینا ۔جس نے سمجھا کہ اس نے پیالہ بھر لیا ،سمجھو وہ مر گیا۔ آلوچنا کا سواگت کرو ۔آلوچنا نیم کی پتی کے سمان ہے ،انتر آتما کو شدھ کردیتی ہے۔
اگر گرو دکشنا دینا ہی چاہتے ہو تو اپنا گھمنڈ ، اہنکار ، کرودھ ، امانشتا اور اسہن شیلتا مجھے دان کرتے جاو تاکہ میں اسے بھسم کردوں ۔ ‘‘
غبارے کی ہوا نکل گئی اور بندھا ہوا سامان کھل گیا۔
✍️✍️✍️
تاثرات:
جب میں نے یہ افسانچہ رقم کیا اسوقت بھی مجھے ان اعتراضات کی توقع تھی جن کا اظہار مبصرین نے کیا اور میں چاہتی تھی کہ سوال کیا جاےء تاکہ میں اپنا موقف واضح کر سکوں۔
1۔آشرم میں رہنے والا اتنی اچھی اردو کیسے بول رہا تھا جبکہ گروجی شدھ ہندی میں بات کر رہے تھے۔
ماہر لسانیات کے مطابق ہر بچہ زبان اپنی ماں سے سیکھتا ہے اور بارہ سال کی عمر تک اسے اپنی مادری زبان پر عبور حاصل ہوچکا ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ چاہے کتنی ہی زبانیں کیوں نہ سیکھ لے ،اگر وہ شعوری کوشش نہیں کرےگا تو اس کی مادری زبان متاثر نہیں ہوگی۔
طالب علم شہری تھا ،جب وہ طلب علم میں نکلا تو تو اس کا مادری زبان سیکھنے کا عمل پورا ہوچکا تھا۔ اس کے بعد ذریعہ تعلیم کے طور پر کویء بھی زبان سیکھے ،بول چال کی زبان وہی رہتی ہے۔
2۔شاگرد نے رخصت کے وقت اپنی علمیت کے بارے میں الفاظ ادا کیے ان سے غرور و تکبر کی بو آرہی تھی ۔ اس لیے گروجی کو آخری گیان دینا پڑا۔
3۔ غبارے کی ہوا نکلنا استعاراتی طور پر عقل ٹھکانے آجانا کہ وہ بزعم خود اپنے کو عالم کامل سمجھ رہا تھا ،وہ غلط تھا۔
4۔ بندھا ہوا سامان کھل جانے کا مطلب یہ نہیںکہ وہ آشرم میں ہی رہ پڑا بلکہ زندگی بھر طالب علم رہنے کا اعادہ کیا۔
5۔ ایک اعتراض یہ بھی تھا کہ اسکول چھوڑتے وقت بچے استاد کی طرف مڑ کر نہیں دیکھتے دوستوں میں مصروف ہوجاتے ہیں۔
میرا تجربہ اس کے برعکس ہے ۔گریجویشن ڈے کی تقریب میں بچے ایک ایک ٹیچر سے ملتے ہیں ،آشیرواد لیتےہیں اور حسب حثیت تحائف ،پھول ،کارڈز (گرو دکشنا ) بھی دیتے ہیں ۔حلانکہ انھوں نے بارہ سال فیس دے کر پڑھا ہوتا ہے۔
6۔آشرم یہاں سو سال پرانا آشرم نہیں ہے بلکہ تعلیمی ادارے کا استعارہ ہے۔
بہرحال میرے ابلاغ و ترسیل میں کمی رہی اس لیے احباب کو کہانی غیر فطری یا بعید از قیاس لگی۔
آیندہ بہتری کی کوشش رہےگی ۔ان شا ء اللہ
0 Comments