Ticker

6/recent/ticker-posts

علاقہ خاندیس کےافسانوی ادب کا درخشاں ستارہ وسیم عقیل شاہ | معین الدین عثمانی

علاقہ خاندیس کےافسانوی ادب کا درخشاں ستارہ وسیم عقیل شاہ
معین الدین عثمانی
معین الدین عثمانی
برصغیر ہندوپاک میں فکشن کے ارتقاء پر جب بھی بات ہوگی علاقہ خاندیس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔دراصل آج کے اس تشہیری دور میں بعض با صلاحیت افراد ہی نہیں بلکہ علاقوں کو بھی پس پشت ڈال کر گمنامی کے اندھیرے میں دھکیل دیا گیا ہے ۔مگر قدرت کا یہ أصول رہا ہے کہ زمانے کی گرد تا دیر کسی کو بھی پوشیدہ نہیں رکھتی ۔وقت کی آندھی چشم زدن میں زمانے کی گرد کو اڑا لے جاتی ہے اورحقیقت کو آشکارا کر دیتی ہے۔
مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ علاقہ خاندیس کسی دبستان کی دہلیز کو پار تو نہیں کر سکا مگر تاریخ ماضی گواہ ہے کہ علاقے کے بیشتر فنکاروں نے دبستان ادب کے فنکاروں کے ہم پلہ سرمایہ دیکر ادب کی آبیاری کا فریضہ ضرور سر انجام دیا ہے۔
قنبر علی کے مطابق،
"آج فنکار کی تثلیث میں لوگوں کی دلچسپی و شرکت ساینسی اور میکانکی طرز کی وجہ سے فقدان کی صورت جلوہ گر ہوی ہے اور یہ عصری حسیت کا اہم پہلو ہے۔"
اوراق پارینہ جب بھی نظروں سے گزرتے ہیں تو پتہ چلتاہے کہ یہاں (خاندیس میں) ایک عرصے تک نوابین کی حکمرانی رہی جنہوں نے ادب کی آبیاری کو اپنے فرائض منصبی میں شامل رکھا ۔یہی وجہ رہی کہ نامور شعراء نے اپنے فنی کمالات کے جوہر صفحہ قرطاس پر بکھیر کر تار یخ ادب مرتب کرڈالی۔البتہ نثر نگاری اور فکشن کی جانب خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاسکی۔مقام مسرت ہے کہ آزادی کے بعد اس خلاء کو پُر کرنے کے لئے قلم کے جیالوں نے اپنی آمد نیز رشحات قلم سے اس کی تلافی کے لئے کوی دقیقہ نہیں چھوڑا۔
ایسے ہی ایک جنونی قلم کے دھنی سے متعلق چند معروضات یہاں سپرد قرطاس ہیں۔
حیرت اس بات پر ہے کہ اس قلم کار کے ادبی سفر کا ابھی آغاز ہے۔ کوئی 2003 لکھنا شروع کیا مگر قلم کی اٹھان ،مطالعے کی رغبت نیز اساتذہ کی صحبت نے اسے دور دراز کا سفر کروادیا ہے۔ یا یہ کہ وسیم عقیل شاہ اگر چہ کہ نوواردان بساط سے تعلق رکھتے ہیں۔مگر ان کے مطالعہ ومشاہدے کی للک انہیں سسینیئرس کے قریب لاکر کھڑا کردیتی ہے ۔ م ناگ نے کسی موقع پر کہا تھا کہ،
'وسیم عقیل شاہ تازہ دم افسانہ نگار ہیں۔ کے افسانے پڑھ کر لگتا ہے وہ کسی محاذ پر نکلے ہیں اور بڑا معرکہ سر کرنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ اب یہ کہنے میں قباحت نہیں وسیم کو افسانے کا فنی شعور کافی حد تک آ گیا ہے۔ وہ کہانی کہنے کا ڈھنگ خوب رکھتے ہیں۔ خاص کر ان کے بیانیہ سے میں پر امید ہوں۔ میرا خیال ہے ان کی نسل کے جو نوجوان لکھ رہے ہیں ان میں وسیم انفرادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وسیم عقیل شاہ کے مطالعے کی مستقل روش غماز ہے کہ مستقبل میں ان کا شمار اہم افسانہ نگاروں میں ہوگاـ '
آدمی ذاتی تجربات سے بہت کچھ سیکھتا ہے مگر رہبری اور رہنمائی کا خواستگار اوروں سے دو قدم آگے کا سفر طے کرلیتا ہے۔ غالباً اسی خوبی نے وسیم عقیل شاہ کو انفراد کی خصوصیت سے منور کر دیا ہے۔ وسیم عقیل شاہ کی دلچسپی فکشن کے دایرے تک ہی محدود ہے۔یہی سبب ہے کہ وہ پوری دلجمعی سے اس کے برگ وبار سنوارنے کی کوشش میں اپنے دن رات ایک کر رہے ہیں۔ان کی سر گرمیوں کا محور و مرکز افسانہ ہونے کے سبب انھوں نے کسی حد تک اردو ادب کے بیشتر افسانوں کامطالعہ کرلیا ہے۔ اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔افسانہ خوانی اور افسانہ نگاری ہی ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ایسا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پڑھنا خوب خوب اور لکھنا کم کم کے وطیرہ کے سبب فی الحال ان کے افسانوں کی مجموعی تعداد دو درجن بھی نہیں ۔ مگر ایک بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ اب تک انہوں نے جو کچھ بھی صفحہ قرطاس کے حوالے کیا بہت ہی احتیاط سے کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اولین دنوں سے ہی ان کے افسانوں نے معیاری رسائل میں اپنی موجودگی درج کروائی ہیں۔ ان کے افسانوں کے موضوعات قرب وجوار کی دنیا سے ماخوذ ہیں جن کے مطالعے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی سامنے بیٹھا اپنی دلی کیفیات کی روداد بیان کررہا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس میدان کے شیدائیوں نے پہلے رومانیت کا راگ الاپا بعد ازاں ترقی کے نام پر ایک مخصوص تحریک کے ذریعے ادب کو پروپیگنڈا کے طور پر استعمال کیا۔ رہی سہی کسرجدیدیت کے فرمانروا ؤں نے اسے چیستان بنا کر پوری کر ڈالی۔اس سے نقصان یہ ہوا کہ قاری بیزار ہو کر دور چلا گیا۔ مگر بھلا ہو اس نی نسل کا جس نے روایت کی ڈور کو ہلکے سے تھام کر فکشن کے اجڑے دیار میں تازگی کی نی لہر دوڑ ا دی۔آج افسانہ اپنی پرانی ڈگر پر گامزن ہے۔اور مقام مسرت ہے کہ اس سعی جمیل میں وسیم عقیل شاہ کا حصہ بھی شامل حال ہے۔ ان کی بیشتر افسانے اس بات کے شاہد ہیں۔یہاں چند افسانوں کا تذکرہ اس ضمن میں دلچسپی کا باعث ہوگا۔
وسیم کا افسانہ "آہ بے صدا" اپنے برتاؤ کے لحاظ سے نہایت عمدہ ہونے کے ساتھ ایک ایسے موضوع کو پیش کرتا ہے جو دور حاضر کا المیہ بن کر سماج کاناسور بن گیا ہے اور اسے کمزور کر رہا ہے۔موبایل کی آمد نے نی نسل سے مطالعہ کی عادت کو چھین لیا ہے۔ بند الماریوں میں کتابیں صدایں دے رہی ہیں۔اسی سلگتے موضوع پر افسانہ" آہ بے صدا" نے اپنی دنیا آباد کی ہے۔جسے پڑھ کر اپنی گم ہوتی مطالعہ تہذیب کے مٹنے کا درد قاری کو بے چین کیے بنا نہیں رہتا۔اس بنا پر یہ بات پورے وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کے یہاں عصری حسیت کا عنصر موجود ہے۔
اسی طرح دوسرا افسانہ "ابکای"نہایت بے باک موضوع پر تحریر کیا گیا ہے۔ہم جنس پرستی کو معاشرے میں کبھی احسن نگاہ سے نہیں دیکھا گیا ۔بلکہ اس قبیح فعل میں ملوث افراد کی ہمیشہ لعنت و ملامت کی گئی ہیں۔مگر برا ہو زمانے کی گردش کا کہ آج یہ مکروہ فعل قانونی سطح پر قبول کرلیا گیا ہے۔کہانی کے توسط سے وسیم عقیل شاہ نے اس معاملے کو نہایت احتیاط سے برت کر ایک طرح سے معاشرے کی صفائی کی طرف پیش قدمی کی ہے۔ اس افسانے کی قرت سے وسیم کی محنت اور تلاش و جستجو کا پتا چلتا ہے۔ انھوں نے اس افسانے کے لیے میڈکلی لائن سے بہت کچھ اسٹڈی کی اور اپنی بات کو دلیلوں سے پیش کرنے میں کامیاب نظر آتے ہیں۔
"آشواسن"ان کا ایسا افسانہ ہے جو قاراءین کو سیاسی گلیاروں کی سیر کرواتا ہے۔آج کے سلگتے مسلہ کو کسان کی نجی زندگی سے جوڑ کر کہانی کا تانا بانا اس انداز سے بنا کیا گیا ہے کہ مانو لگتا ہے ہم کسی فلم بینی میں مصروف ہیں۔کہانی عصری حسیت کے ساتھ انسانی ہمدردی کا، حکومت و معاشرے کا منہ بولتا آینہ بن گی ہے۔
اسی طرح کہانی "دوسرا جنم"فرد کی بےراہ روی کا منظر نامہ اس انداز میں پیش کرتی ہے کہ آخر میں جواب دہی کے تصور سے قاری کا لرز جانا عین فطری محسوس ہونے لگتا ہے ۔ تاریخ اپنے آپ کو دوہرا تی ہے اس کلیے کو کہانی کی شکل میں پیش کرکے ایک ناقابل فراموش پیغام دینے کی سعی کی گئی ہے۔ دنیا کے ہر ایک مذہب کا اعتقاد موت کے بعد کی زندگی پر ہے۔ لہذا ہر ایک مذہب کی تعلیمات میں یہ بات بنیادی طور پر شامل ہے کہ انسان اس دنیا میں ایسے کرم کرے کہ جس سے کسی ذی روح کو نقصان نہ پہنچے اور جو بھی زندگی وہ اس دنیا میں گزارتا ہے وہ دوسروں کے لیے بھلے ہی سود مند نہ ہو لیکن نقصان دہ بھی نہیں ہونی چاہیے۔ انسانوں کو اسی راہ پر گامزن رکھنے کے لیے مذہب نے موت کے بعد کی زندگی کا فلسفہ دیا ہے۔ وسیم کا یہ افسانہ ان کے مطالعہ کی عمق کو ظاہر کرتا ہے۔
افسانہ "صاءم"پرانی اور نی نسل کی سوچ پر تازیانہ کا کام کرتا ہے۔در اصل انسان کتنی بھی ترقی کی منزلیں طے کرلیں مگر اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ساری ترقی کی منزلیں رو ایتوں کی بنیاد پر ہی ممکن ہوسکتی ہیں۔ اسی موضوع کا ایک افسانہ 'طرفہ تماشا' بھی ہے۔ جس میں وسیم عقیل نے زمانوں کے تبدیل ہوتے منظر نامے کو فوکس کیا ہے اور اس کی وجہ سے پامال ہوتی انسانی اقدار کی طرف توجہ دلائی ہے۔
'گوپھن ' وسیم کا ایک عمدہ افسانہ ہے۔ اگرچہ یہ روایتی انداز کا تہذیبی افسانہ ہے لیکن اس میں رومان کی آمیزش نے اس افسانے کو غیر معمولی بنا دیا ہے۔ یہ افسانہ ہمیں سلسلہ وار ست پڑا پہاڑ کی وادیوں کی سیر کراتا ہے اور یہاں کے ادی باسی کلچر، یہاں کے لوگوں کی حیات، رکھ رکھاؤ اور ان کے مسائل پر کلام کرتا ہے۔ اسے ایک رومانی افسانہ تسلیم کرنے میں برائی نہیں۔ افسانے کی زبان و بیان، منظر نگاری سے قاری محسوس کرتا ہے کہ وہ خود ان پہاڑوں میں گھوم پھر رہا ہے۔
'رنگ گل ' وسیم کا غالباً پہلا شایع شدہ افسانہ ہے۔ اس افسانے میں انھوں نے عورت اور مرد کے درمیان کے سماجی تفریق کو نہایت ہی خوبصورتی سے دکھانے کی کوشش کی ہے۔ بسا اوقات حقیقتیں ہمارے سامنے ہوتی ہیں مگر ہم جانتے نہیں کہ کیا اسباب ہیں کہ کوئی اہم شئے ہمارے مشاہدے میں صرفِ نظر ہو کر رہ جاتی ہے۔ وسیم کے اس افسانے میں ہرچند کہ فن کی کمزوری بھی ہے لیکن یہ کہنے میں تامل نہیں کہ ان کی فکر پہلے افسانے سے ہی یہ باور کروا دیتی ہے کہ انھیں ابھی بڑا افسانہ بھی لکھنا ہے۔ جہاں عورت اور مرد کی تفریق کا ذکر چلا تو یہ جان لینا چاہیے کہ یہ تفاوت مختلف سطحوں پر ہے۔ جنسی سطح پر یہ پہلو ایک اہم مقام رکھتا ہے۔ وسیم کا افسانہ 'لذت' اسی فکر کا حامل ہے۔ راقم الحروف کے مطالعے میں وسیم عقیل شاہ کے جتنے افسانے رہے ان میں یہ افسانہ بہترین ہے۔ اس میں مرد کی جنسی نفسیات کی ایسی گرہ کشائی کی گئی ہے کہ جسے ہم سمجھتے تو ہیں لیکن جانتے نہیں۔ اس کے تمام تر اجزا غیر محسوس طریقے سے ہمارے تجربے میں رہے ہیں۔
حال ہی میں ان کا ایک افسانہ 'روایت' نظر سے گزرا۔ اس افسانے کو پڑھ کر یکسر یہ احساس ہوا کہ وسیم نے صنف افسانہ کے وہ تمام گر سیکھ لیے ہیں جو کسی لکھنے والے کو مستند بناتی ہیں۔ اس افسانے میں بڑی فنی خوبی سے بتایا گیا کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں ماضی کی روایتیں کیا معنی رکھتی ہیں اور ہمیں ان روایتوں کو زندہ رکھنا کس حد تک ضروری ہے۔
غرض کہ ان کے حالیہ افسانے اپنے مطالعاتی وصف کے ساتھ موضوعاتی سطح نیز ٹریٹمنٹ کی بنیاد پر اس قابل ہیں کہ فکشن کی دنیا میں یاد رکھیں جایں گے۔توقع ہے کہ وسیم عقیل شاہ اپنے ادبی سفر کو اسی طرح محنت لگن اور دلسوزی سے آگے بڑھاتے ہوے اپنے اور علاقے کے روشن مستقبل کےلے یہ پیش رفت تادیر جاری رکھیں گے۔

Post a Comment

0 Comments