Ticker

6/recent/ticker-posts

آصف اقبال کی سو لفظی کہانی "کوشش" بیداری کی کہیں آخری کوشش تو نہیں! | وسیم عقیل شاہ

 آصف اقبال کی سو لفظی کہانی "کوشش" بیداری کی کہیں آخری کوشش تو نہیں! 
آصف اقبال کی سو لفظی کہانی "کوشش" بیداری کی کہیں آخری کوشش تو نہیں!
وسیم عقیل شاہ
شولا پور مہاراشٹر کا ایک مشہور علمی و ادبی شہر ہے، جہاں ادب کی صورت حال ہمیشہ سے خوش گوار رہی ہے۔ ہر چند کہ شولا پور ڈراما کی زرخیز زمین کہی جاتی ہے مگر وہاں اچھے شاعر بھی پیدا ہوئے ہیں۔ انھی میں سے ایک جانا مانا نام آصف اقبال کا ہے۔ آصف اقبال بنیادی طور پر شاعر ہیں اور بہت سلیقے سے شعر کہتے ہیں۔ ان کا ایک شعری مجموعہ "نیا آسمان'' کے عنوان سے منظر عام پر آچکا ہے، جسے ادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھا گیاـ
آصف اقبال کی دلچسپی ادب میں شاعری کے ساتھ ساتھ صنف افسانہ سے بھی غیر معمولی ہے۔ ابھی انھوں نے کوئی کہانی تو نہیں لکھی لیکن افسانوی نشستوں میں ان کی شرکت، ملک کے قد آور افسانہ نگاروں سے ان کی رسم و راہ اور ان کا افسانوں کا گہرا مطالعہ امکان روشن کرتا ہے کہ وہ جلد ہی افسانے ضرور تحریر کریں گے۔ البتہ سو لفظی کہانی یا آپ اسے افسانچہ کہہ سکتے ہیں، آصف اقبال نے لکھنا شروع کر دیا ہے۔ دراصل ان دنوں معروف رسالہ 'الفاظ ہند' کے مدیر اور اردو کے ایک بہ صلاحیت افسانہ نگار ریحان کوثر نے سو لفظی کہانیوں کی جیسے ایک تحریک چھیڑ رکھی ہے۔ انھوں نے بذات خود فکشن کے اس فارم میں کئی کہانیاں لکھیں اور ایک کتاب بہ عنوان "100 لفظوں کی سو کہانیاں (2021ء)" بھی اسی فارم میں شایع کی۔ ریحان کوثر نے اپنے رسالے الفاظ ہند کے دس برس مکمل ہونے پر ایک نمبر سو لفظی کہانیوں کے سیٹ کے طور پر جاری کیا ہے۔ جس میں انھوں نے اپنے قلم کار رفقائے کار کے ساتھ ہی ادب میں دلچسپی رکھنے والوں سے بھی سو لفظی کہانیاں لکھنے کی تحریکی طور پر فرمائش کی۔ غالباً اسی تحریک پر آصف اقبال نے بھی کمر کس لی ہے اور فکشن کے اس فارم میں جو ان دنوں سو لفظی کہانی کے طور پر مقبول عام ہے، اپنے تخلیقی جوہر دکھانے شروع کر دیے ہیں۔
آصف اقبال نے ابھی چند ہی سو لفظی کہانیاں لکھیں تاہم جتنی بھی لکھیں قابل مطالعہ ہیں اور قاری کو سوچ فکر کے گہرے سمندر میں اتارنے کے لیے کافی ہیں۔ آصف اقبال کی ان کہانیوں میں ایک کہانی "کوشش" ہے۔ جس کا عنوان ہمیں ساحل سمندر پر بے چارگی کے عالم میں کھڑے قوم کی نیا کو ہچکولے کھاتے دیکھنے کے احساس سے دو چار کرواتا ہے۔ 
فن کے اعتبار سے دیکھیں تو یہ ایک مکمل کہانی ہے۔ اس کا موضوع اچھا ہے، ایک طرح سے اس موضوع میں جدت ہے۔ اس طرح کے موضوع تقریباً ہر ایک افسانہ نگار نے برتا ہوگا لیکن اسے جس انوکھے انداز سے آصف نے پیش کیا وہی اس میں جدت پیدا کرتا ہے۔ کہانی کا زبان و بیان رواں ہے اور اس کا کلائمکس سب سے حیران کن ہے۔ اسی طرح اس مختصر کینوس کی کہانی میں تواتر اور تسلسل عمدہ ہے جو کہ اس فارم کی کہانیوں میں اہم سمجھا جاتا ہے۔
اگر ہم الفاظ ہند کے مدیر ریحان کوثر کی تحریک، جسے ہم تحریک کہہ رہے ہیں اس سے زرا ادھر نظر کریں تو ہمیں کئی نام ملتے ہیں جن میں شہرت مبشر علی زیدی نے پائی، انھوں نے اس فارم میں بے مثال کہانیاں لکھیں۔ البتہ اہم سوال سو لفظوں کی کہانیوں سے متعلق یہ ہے کہ فکشن کی اس ہیت نے کس مقصد کے تحت ادب میں جگہ بنائی؟ بہر حال اس کا جواب ملے نہ ملے یا اس کے نامور لکھنے والے بھی نابلد ہوں، لیکن اس فارم میں آ رہی کہانیاں اپنے اختصار کے سبب پڑھنے کے لیے زیادہ سہولت بخش ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسی بھاگ دوڑ بھری زندگی میں اور اسی زندگی کے بے تہا جھمیلوں میں ان سو لفظی کہانیوں کا اختصار ہی ہماری توجہ کو اپنی طرف مبذول کرواتا ہے۔ اور یہ بھی کتنی خوبصورت حقیقت ہے کہ واقعی صرف سو لفظوں میں ہمارے لکھنے والے کمال ہنر مندی سے نہ صرف علم و حکمت اور دانش مندی کی بڑی اہم باتیں کہہ جاتے ہیں بلکہ مختلف عصری منظر ناموں کو بھی ہمارے سامنے عیاں کر دیتے ہیں۔
آصف اقبال کی اس کہانی کو دیکھیں، اس کا مختصر متن ہی کس چابکدستی سے ہمارے سامنے پوری اردو اساتذہ برادری کا منہ بولتا، حقیقی منظر نامہ پیش کر دیتا ہے۔ اور افسوس ناک صورت حال تو یہ ہے کہ یہ منظر نامہ صرف اردو اساتذہ برادری ہی کا نہیں بلکہ پورے اردو معاشرے کا بھی یہی حال ہے۔
تاہم اس پر بھی ہمارا المیہ اور خاص طور پر ان لوگوں کا المیہ جو اردو زبان کی وساطت اپنا رزق حاصل کر رہے ہیں، یہ ہے کہ ہمیں اپنی زبان کی کم سے کم لفظوں والی کسی تحریر کو بھی پڑھنا گوارا نہیں۔ (اللہ خیر کرے) ہاں مفت میں مل جائے تو پڑھ بھی لیتے ہیں، لیکن اس میں بھی اپنی دلچسپی کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس ضمن میں کہانی سے مصنف کا یہ جملہ کس قدر معنی خیز ہے: 
"سبھی اپنی اپنی پسند کے مطابق عنوان دیکھ کر پڑھنے لگے۔"
یہ ایک دل سوز المیہ ہے۔ (اور المیے تو سب دل سوز ہی ہوتے ہیں اسی لیے وہ المیے ہوتے ہیں) بہر حال اس المیہ میں شدت اس وقت آ جاتی ہے جب اس کہانی کے کلائمکس جیسی صورت حال ہمارے سامنے آتی ہے: 
"شکریہ سر ،ہم نے پہلی مرتبہ سو لفظوں کی کہانی پڑھی ـ" 
اس کلائمکس میں تین چیزیں ہیں، ایک تو پہلی مرتبہ اردو اساتذہ کے ذریعے اردو زبان کی کوئی مختصر تحریر پڑھ لی گئی، دوسرے یہ کہ مفت میں ملی تو پڑھی گئی وگرنہ کبھی پڑھنے کی توفیق نہ ہوتی، اور تیسری بات مصنف کے بیان کے مطابق کہ اساتذۂ اردو نے سو لفظوں کی کہانیوں کی صرف پچاس روپیے والی کتاب جو کہ مفت میں میسر آئی ہے، میں سے صرف ایک ہی کہانی پڑھی۔
واقعی اگر اس افسانوی المیہ کو آج ہمارے اردو معاشرے اور بالخصوص حلقہء اردو اساتذہ کی حقیقی منظر نامے پر منطبق کیا جائے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ آصف اقبال کی یہ سو لفظی کہانی "کوشش" بیداری کی کہیں آخری کوشش تو نہیں.....!

Post a Comment

1 Comments