Ticker

6/recent/ticker-posts

اردو ادب کے افق پر نمودار ہوتا ایک افسانہ نگار: وسیم عقیل شاہ | از قلم: افسانہ جونپوری

اردو ادب کے افق پر نمودار ہوتا ایک افسانہ نگار: وسیم عقیل شاہ
از قلم: افسانہ جونپوری


اکیسویں صدی کو اردو ادب میں فکشن کی صدی کے نام سے جانا جا رہا ہے۔ اس صدی میں فکشن لکھنے کا رجحان بڑھا ہے۔ اکیسویں صدی کا دو دہائی سے بھی زیادہ کا عرصہ گذر چکا ہے، اگر اس بائیس سالہ افسانوی ادب پر نگاہ ڈالیں تو ایک خوشگوار مسرت کا احساس ہوتا ہے۔ اکیسویں صدی کے افسانہ نگاروں نے ایک بار پھر کہانی کا رشتہ عام قارئین سے جوڑا ہے۔ اس نئی صدی میں پرانے لکھنے والوں کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں نے بھی اس صنف میں زور آزمائش کی ہے۔ چنانچہ انہوں نے نئے موضوعات اور نئے انداز سے افسانے لکھے ہیں۔ اور انہیں نئے افسانہ نگاروں میں ایک نام وسیم عقیل شاہ کا بھی ہیں۔
وسیم عقیل شاہ افسانوی ادب کے افق پر نمودار ہوتا وہ ستارہ ہے جو اپنی قلم کی جادو بیانی سے قاری کے دل کے احساسات کو چھو لیتے ہیں۔ ان کی نظر معاشرے کے ان تمام مسائل کا بخوبی جائزہ لیتی ہے جو مسائل معاشرے کو اکثر متاثر کرتے ہیں۔ اور انہیں وجوہات کے سبب وہ اردو ادب کے نوجوان افسانہ نگاروں میں منفرد مقام رکھتے ہیں۔
 وسیم عقیل شاہ بیک وقت درس و تدریس، افسانہ نگار، تحقیق نگار بھی ہیں۔ ساتھ ہی تنقید و تبصرے پر بھی رسمی و غیر رسمی دونوں طرح سے دسترس حاصل ہے۔ انہوں نے کالج کے ابتدائی زمانے سے ہی لکھنا شروع کر دیا تھا اور مسلسل آج بھی انکی قلم رواں دواں ہے۔ حالانکہ ادب میں داخل ہوئے ابھی انہیں کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا لیکن اپنی تحریری فکر،فنی صلاحیتوں اور دیگر ادبی سرگرمیوں کی وجہ سے اردو ادب میں انھوں نے اپنا ایک اہم مقام بنا لیا ہے۔
وسیم عقیل شاہ مہاراشٹر کے شہر جلگاؤں (خاندیش) میں ایک مہذب خاندان میں پیدا ہوئے۔ اور یہیں سے اپنی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ان کے گھر میں رسائل و جرائد اور کتابوں کی اچھی خاصی ریل پیل تھی۔ جس کی بنا پر ان کے گھر کا علمی ماحول کافی حد تک ادبی بھی ہو گیا تھا۔ اسی ادبی ماحول کی وجہ سے وسیم شاہ کا رجحان ادبی کتابوں اور رسالوں کی طرف بچپن سے مائل رہا۔ انہیں مطالعے کا شروعات سے ہی شوق تھا۔ کالج تک آتے آتے ان کی ذہنی صلاحیت پختگی کی طرف بڑھنے لگی۔ اور پھر دھیرے دھیرے ان کی قلم نے جادو بیانی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ اور شروعاتی دور میں ہی انھوں نے آدھا درجن سے زائد افسانے لکھ ڈالے اور تقریباً اتنے ہی مضامین بھی لکھے۔ ان کا پہلا افسانہ"رنگ گل" شہر اورنگ آباد سے نکلنے والے ایک معروف روزنامہ اخبار کی زینت بنا تھا۔
وسیم عقیل شاہ پچھلے چودہ برس سے ممبئی کے محکمہ تعلیم میں بطور مدرس وابستہ ہیں۔ بطور مدرس ان کا تقرر 2008 میں ہوا۔ یہاں پر انہیں ساجد رشید، م۔ناگ، مظہر سلیم، سلام بن رزاق، قمر صدیقی، قاسم ندیم جیسے ادباء کی رفاقت و رہنمائی میسر ہوئی۔ جس نے ان کی شخصیت میں چار چاند لگا دئیے۔ اسی دوران نہ صرف ممبئی بلکہ ہندوستان بھر کے ادبی حلقوں میں بطور افسانہ نگار ان کی شناخت بنی۔ یقیناً شہر ممبئی انہیں راس آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پچھلے چودہ برسوں میں ان کے ایک درجن سے زائد افسانے ملک و بیرون ملک کے مختلف ادبی معیاری رسالوں میں نہ صرف شائع ہوئے بلکہ گفتگو کے بھی موضوع بنے۔ انہوں نے کئی سرکاری اور غیر سرکاری پلیٹ فارم پر اپنے افسانوں کے ساتھ شرکت بھی کی۔ ملک کے کئی ادبی شہروں میں انہوں نے اپنے افسانے سنائے اور سامعین کو متاثر بھی کیا۔
افسانے کے علاوہ وسیم عقیل شاہ کی دلچسپی اسکرپٹ رائٹنگ اور ترجمہ نگاری میں بھی ہے۔مراٹھی زبان کے "ساہتیہ اکادمی" انعام یافتہ "آسارام لومٹے" کی ایک طویل کہانی'اوز' کا اردو ترجمہ 'بوجھ' کے عنوان سے کیا۔ فی البدیہہ بھی لکھتے ہیں اور خاصی تیز رفتاری سے لکھتے ہیں لیکن بہت سنبھل کر سوچ سمجھ کر لکھتے ہیں۔ ہر دو تین مہینوں کے درمیان ان کے تحقیقی مضامین مختلف رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ اسی حوالے سے آپ کئی نیشنل، انٹر نیشنل کانفرنس اور پروگراموں میں شرکت کرتے رہتے ہیں۔ خاطر شان ہے کہ موصوف فی الحال ممبئی یونیورسٹی کے شعبہء اردو میں پی۔ایچ۔ڈی کا مقالہ "خاندیش میں اردو افسانہ کا تحقیقی وتنقیدی مطالعہ" کے عنوان سے لکھ رہے ہیں۔ ابھی چند سال قبل ہی انہوں نے مہاراشٹر اسٹیٹ کا سخت ترین امتحان Urdu Set نمایاں نمبروں سے پاس کیا ہے۔
اس کے علاوہ وسیم شاہ کی کل سرگرمیوں میں ادبی تنظیموں اور انجمنوں سے جڑے رہنا بھی قابل تحسین و مبارکباد ہے۔ اردو چینل، خاندیش اُردو رائٹرز فاؤنڈیشن اور معمار فاؤنڈیشن جیسے مزید چند اداروں سے عملی طور پر وابستہ ہیں اور موقع محل سے مختلف نشستوں اور چینل کی برقی ادبی خدمات میں ڈاکٹر قمر صدیقی کے شانہ بہ شانہ کھڑے رہتے ہیں۔ سلام بن رزاق کی نگرانی میں صنف افسانہ کے حوالے سے ہندوستان کا سب سے معروف واٹس ایپ گروپ "بزم افسانہ" کے ایڈمن پینل میں شامل ہیں اور پوری دل جمعی سے فعال رہتے ہیں۔ عرض یہ کہ وسیم عقیل شاہ نے ادب کو ہی کلی طور پر اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔
وسیم عقیل شاہ کو اپنی زبان و بیان پر اپنی عمر سے بڑھ کر قدرت حاصل ہے۔ وہ اس معاملے میں اپنے ہم عصروں سے چند قدم آگے ہیں۔ ان کے افسانوں میں فن، تکنیک، کردار، اسلوب، زبان و بیان، ماجرائیات اور پیش کش میں جو خوبیاں ہوتی ہیں وہ سب کچھ موجود ہیں اور یہی خوبیاں بڑی حد تک افسانے کو کامیاب اور متاثر کن بنا دیتی ہیں۔ ان کا بیانیہ بھی مضبوط اور دلچسپ ہوتا ہے۔ ان کے مکالمے اور منظر بھی بڑی حد تک موقع اور محل کے لحاظ سے مناسب اور موزوں ہوتے ہیں۔ ان کے کچھ افسانوں جیسے، آہ بے صدا، دوسرا جنم م، آسواشن، روایت، طرفہ تماشا، نشان میں انھوں نے بہت ہی عمدہ منظر کشی کی ہے۔ افسانہ ’آہِ بے صدا‘ سے یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
’’فکر کے یہ گہرے سائے آج اُس کے پر کشش سانولے چہرے پر خوف بن کر چھائے ہوئے تھے۔اُس کے دائیں بائیں اور پشت کی طرف کتابوں کا انبار لگا ہوا تھا۔ اِس انبار میں کچھ کتابیں ترتیب سے تو اکثر بے ترتیب پڑی اُسی کی طرح غمگین نظر آ رہی تھیں۔ اوپری خانوں میں ساری چھوٹی بڑی کتابیں دھول مٹی میں اِس قدر اٹ چکی تھیں کہ اب اُن کے عنوان تک گرد کی تہوں میں دفن ہو چکے تھے۔ البتہ نیچے کے خانوں میں رکھی ہوئی اور نائلون کی رسی سے معلق کتابیں گرد و غبار سے پاک تھیں۔ اِس کے علاوہ سامنے رکھے تختے پر مختلف رسائل، کتابچے اور ٹیبل فین کی ہوا سے پھڑپھڑاتے ہوئے مختلف زبانوں کے اخبار بھی صاف ستھرے تھے۔ اپنے اس محدود مڑے تڑے، پڑے، لٹکے، شکستہ سے اثاثے کے درمیان اُس کا نظر آتا متفکر چہرہ پلیٹ فارم سے منعکس ہوتی ڈھلتے سورج کی ترچھی شعاعوں سے گویا کندن ہو رہا تھا۔‘‘
ان کے افسانے اپنے اندر ایک الگ ہی انفرادیت سموئے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں منظر کشی اس طرح کی ہے کہ مانو سارے منظر قاری کے سامنے فلم کی مانند چل رہے ہو اور قاری اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہو۔ اسی طرح ان کا ایک افسانہ ’دوسرا جنم‘ جس میں زندگی موت و معاشرت میں پیش آنے والے ایک اہم مسئلے کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ معاشرے میں عصمت پرستی، زندگی و معاشرت کے بدلتے حالات اور تہذیبی و تمدنی اور اخلاقی اقدار کی شکست و ریخت اور اخلاقی اور غیر اخلاقی تضادات اور کشمکش کی بعض ایسی کیفیات بھی پیش کی ہیں جس سے ان کے افسانے موثر اور قابل توجہ ہوگئے ہیں۔
افسانہ دوسرا جنم سے یہ مکالمہ ملاحظہ فرمائیں:
’’جا پاٹل، چلا جا یہاں سے، گھن ہے مجھے تیرے سے اور تیرے پیسے سے۔۔۔ ہم کو اب کچھ نہیں چاہیے تجھ سے، نیچ، تیری کرنی کو بھگوان کبھی معاف نہیں کرے گا۔۔۔۔ اور یاد رکھ پاٹل، بھگوان کے گھر دیر ہے۔۔۔۔ جنموں جنم، جنم لیتا رہے گا مگر تیرے پاپ نہیں دھلیں گے نردئی۔‘‘
’’تیرے پاپ نہیں دھلیں گے۔‘‘
’’نہیں دھلیں گے۔۔۔۔۔‘‘
سیما کے یہ جملے پاٹل کے کانوں میں رات بھر گونجتے رہے۔"
وسیم عقیل شاہ نے اپنے افسانے ’دوسرا جنم‘ کے ذریعہ معاشرے کا وہ رخ دیکھانے کی کوشش کی ہے جو آئے دن کسی نہ کسی سیما پر گزرتی رہتی ہے۔ ان کے افسانے میں وہ درد وہ کرب کا احساس ہے کہ قاری اس سے متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکتا۔ 
ان کا ایک اور افسانہ ’آسواشن‘ ہے۔ جس میں انہوں نے معاشرے کے غریب دبے کچلے طبقے کے لوگوں کی پریشانیوں کو قلم برداشتہ کیا ہے۔ ہم اپنے معاشرے میں ایسے معاملات سے اکثر دو چار ہوتے رہتے ہیں کہ غریب کی بیٹیوں کی ڈولیاں بغیر جہیز کے اٹھنا مشکل ہو جاتی ہیں۔ ایسے ہی اپنے آس پاس کے تمام مسائل کو اپنے افسانوں میں پیش کرنے والا افسانہ نگار ہی قاری کی دلچسپی کا باعث بنتا ہے۔ افسانہ آسواشن کے چند جملوں پر دیکھیے:
 ”کتنا بھلا آدمی ہے سمادھان، پرانی دوستی کا مان رکھ لیا اور میری اتنی بڑی پریشانی بھی دور کردی۔“ وہ اس دن کا تصور کرنے لگا جس کا آشواسن سمادھان نے دیا تھا کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ سندھیا کا ہاتھ مانگنے اس کے گھر آئے گا اور وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔ اچانک ایک منحوس سا خیال اس کے ذہن میں بجلی کی طرح کوندا ”کہیں سمادھان کا آشواسن بھی سرکاری آشواسن کی طرح صرف انتظار، انتظار اور انتظار ہی بن کر نہ ر ہ جائے!“
افسانہ نگار نے معاشرے کی اس کڑوی حقیقت کو قاری کے رو برو کیا ہے جس سے وہ اکثر و بیشتر نظر انداز کرتا رہتا ہے۔ اسی طرح ان کا ایک اور افسانہ 'روایت' بھی ہے جس میں انہوں نے معاشرے کی اس روایت کو بیان کرنے کی کوشش کی ہے جو ایک بہو اپنی ساس سے سیکھتی ہے اور اس کی اس روایت کو اس کے گزر جانے کے بعد بھی بخوبی نبھاتی ہے۔ جسے انہوں نے اپنے افسانے 'روایت' میں پیش کیا ہے۔
"اب کی دفعہ بابا سلیم کا خطاب پہلے کی طرح مختصر نہیں تھاـ انھوں نے بہت دیر تک اپنی رشد ہدایت میں دین و دنیا اور اس کی جزیات کو سموئے رکھا۔ اس وعظ میں تہذیبوں کے بکھرنے کا نوحہ اور روایت کے قائم رکھنے کا عزم اور ہدایت بھی صاف تھی۔ ریحانہ کہا کرتی تھی، عقیدہ مضبوط ہو تو جو کہا نہیں گیا وہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے۔ دوران خطاب بابا سلیم نے پردے کے پیچھے کھڑی میری بہو فوزیہ سے بھی تخاطب کیا، اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور دیر تک اس کے ہاتھوں کے بنے کھانے کی تعریف کرتے رہے۔ اسی اثنا مجھے یہ خوشگوار احساس ہوا کہ پردے کے پیچھے فوزیہ نظر جھکائے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگی اور اپنے ڈوپٹے کے کنارے کو شہادت کی انگلی پر لپیٹ رہی ہوگی۔ اور ایسا کرتے ہوئے وہ بالکل ریحانہ کی طرح لگ رہی ہوگی۔"
وسیم عقیل شاہ کے افسانے 'طرفہ تماشا' میں جہاں ایک طرف رومان ہے وہیں دوسری طرف ان نوجوان طبقوں پر بھی گہری چوٹ ہے۔ جو گمراہی کے سبب اپنے والدین کے حقوق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ ان کا افسانہ 'طرفہ تماشا' اسی بات کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اقتباس دیکھیے۔
"ماں کو آج سو دیڑھ سو بھی نہ دے تب بھی ان چند سو روپیوں میں بھلا کیا سنیچر کی شام بن پائے گی؟ اور سونل ــــ! ایک بار پھر سونل کا پر کشش سراپا اس کے حواس پر چھا گیاـ سونل کے خیال ہی سے اس کے پورے بدن میں جنسی آگ بھڑک اٹھتی اور وہ گویا بے قابو ہونے لگتاـ لیکن اگلے ہی پل سونل کی رومان خیز باتیں اس کے اندرون میں تسکین و انبساط کی گداز لہریں متحرک کر دیتیں۔ وہ آج شام واقع ہونے والے پلوں کو سوچ سوچ کر آہیں بھی بھر رہا تھا اور بے چین بھی ہوا جا رہا تھا کہ کسی طرح روپیوں کا کچھ کا جُگاڑ ہوجائےـ"
افسانہ 'نشان' میں انہوں نے انسان کے ضمیر کو ہی نشان زدہ انسانی شکل دے کر پیش کیا ہے اور اس افسانے کے ذریعے حق و باطل اور روشنی و تیرگی کے تضاد اور کشمکش کی بھی فنکارانہ تصویر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
"میں نے ترقی کی ہر سیڑھی پر جانے کتنے ارمان قربان کیے تھے۔ کتنے ہی معصوم جذبوں کا استحصال کیا تھا۔ راہ میں حائل کسی بھی شخص کا گلا گھوٹنا میرے لیے کبھی جھجک اور تکلیف کا باعث نہ بنا۔ مگر نہ چاہتے ہوئے بھی اب پیچھے دیکھتا ہوں تو مجھے ہر قدم پر میرے اپنوں کے ساتھ ہی خود کے ضمیر کی مروڑی ہوئی گردن بھی دکھائی دیتی ہے۔ خود پسندی، خود غرضی اور حرص و طمع جیسی متعدد خصلتوں نے میری شخصیت کو سخت گیر بنا دیا تھا، لیکن تب بھی میں انسانیت کا پیروکار کہلایا۔ اور یہ سچ ہے کہ جب میرا کسی مذہب سے واسطہ تھا، اور جب میں نے چار کتابیں نہیں پڑھی تھیں، ان پر دانشورانہ انداز میں غور و فکر کیا تھا، نہ ہی اس جگمگاتی دنیا کی چکا چوند نے میری آنکھوں کو خیرہ کیا تھا، تب میں کون سا پارسا اور متقی رہا تھا، میں نے مذہب کو تو صرف اپنی سہولت کے لیے اپنایا تھا۔ مذہب کو ہمیشہ مادی کسوٹی پر رکھا تھا......"
وسیم عقیل شاہ کے افسانے دور حاضر کے حالات و مسائل اور انسانی زندگی میں پیش آنے والے واقعات، بدلتی قدریں، اخلاقی، مذہبی، روحانی اور معاشرتی انحطاط پر واقع ہیں۔ جن پر ان کی گہری نظر اور غیر معمولی گرفت اور کہانی کی تخلیق میں ان کی مہارت نے ان کی افسانہ نگاری کو معتبر اور قابل قدر بنا دیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ ادب اور قاری کے رشتے کی گہرائی اور حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ اور یہی فکری و نظری اور فنی اوصاف ان کی افسانہ نگاری کو معتبر بھی بناتے ہیں۔ بلاشبہ وسیم عقیل شاہ اردو ادب میں حال اور مستقبل کا تابندہ ستارہ ہیں۔

Post a Comment

0 Comments