Ticker

6/recent/ticker-posts

حقیقتِ انجم۔۔۔ فسانۂ نیاز ✍️ریحان کوثر

حقیقتِ انجم۔۔۔ فسانۂ نیاز
ریحان کوثر
مدیر: ماہنامہ الفاظ ہند
فکشن رائٹر، شاعر، تنقید نگار

مختلف مصنفین میں شرح اموات کا مشاہدہ کرنے کے لیے چند مطالعات میں سے ایک سائمنٹن (1975) ہیں، جنھوں نے پایا کہ شاعر افسانہ نگاروں کے مقابلے میں کم عمری میں انتقال کر جاتے ہیں۔ اس کے مطالعے میں مختلف ثقافتوں میں مخصوص فرقوں کی تمام ثقافتوں کے مصنفین شامل تھے۔ لڈوِگ (1995) نے پایا کہ شاعر افسانہ نگاروں، غیر افسانہ نگاروں اور تھیٹر کے لوگوں سے کم عمر میں انتقال کر جاتے ہیں، حالانکہ اس کا مطالعہ جدید مصنفین کی طرف تھا۔ اس نے 1960 اور 1990 کے درمیان لکھی گئی سوانح عمریوں کے مضامین کو بطور نمونہ استعمال کیا۔ دیگر مطالعات میں مختلف قسم کے مصنفین کی ذہنی اور جسمانی صحت میں فرق کا جائزہ لیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر، اگرچہ لڈوِگ (1995) نے مصنفین کے دو گروہوں کا براہِ راست موازنہ نہیں کیا، لیکن نامور افراد کے بارے میں ان کے مجموعی اعداد و شمار کا جائزہ لینے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ افسانہ نگاروں اور شاعروں میں غیر افسانہ نگاروں کے مقابلے میں نفسیاتی کیفیات کی شرح زیادہ ہوتی ہے۔
نامور شاعروں کا دوسرے ادیبوں سے کم عمر ی میں انتقال کر جانے کی ایک اور وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ کم عمری میں ہی شہرت حاصل کر لیتے ہیں۔ سائمنٹن نے بار آوری، تخلیقی صلاحیتوں اور عمر کے تناسب پر وسیع تحقیق کی ہے۔ اس نے پایا ہے کہ فنون لطیفہ میں لوگ سائنس کے لوگوں سے پہلے عروج پر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر، شاعر، ناول نگاروں کے مقابلے میں نمایاں طور پر عروج پر ہوتے ہیں (سائمنٹن، 1975، 1989)؛ درحقیقت، شاعر اپنی بیسویں دہائی میں اپنی زندگی کا دوگنا حصہ ناول نگاروں کے مقابلے میں پیدا کرتے ہیں (سائمنٹن، 1984)۔ نامور ادیبوں کے مطالعے میں صرف ان مصنفین کو شامل کیا گیا ہے جنہوں نے عظیم کام تخلیق کیے ہیں۔ ایک شاعر مختلف قسم کے ادیبوں سے زیادہ پُر امکان ہوتا ہے کیونکہ وہ کم عمری میں اپنا تخلیقی سفر مکمل کر لیتا ہے۔ یقینی طور پر یہ نتائج نامور مصنفین پر مرکوز ہیں جن کی کم از کم ایک کتاب ہے اور وہ کافی مشہور ہے۔
بہرحال زندگی اور موت یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ کچھ مصنف اپنی عمر کی آٹھ نو دہائیوں کو پار کر لیتا ہے لیکن نہ تو وہ ادب میں اپنا مقام بناتا ہے اور نہ ہی وہ کسی قسم کی شناخت ہی قائم کر پاتا ہے۔ لیکن چند ایسے مصنفین گزرے ہیں جنھوں نے عالم جوانی میں ہی اس دنیا کو الوداع کہہ دیا لیکن آج انھیں بڑے ادب و احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور اس کا لوہا ساری دنیا مانتی ہے۔ شہر کامٹی کے بدنصیبی کی اندھیری شب میں تین ایسے چراغوں کی روشنی نظر آتی ہے جو وقت سے پہلے بجھ تو گئے لیکن جن کی روشنی جگنوؤں میں تبدیل ہو گئی۔ خورشید نادر، اقبال اشہر اور نیاز انجم، یہ تین نوجوان ادیب جنھوں نے اردو ادب کے دامن کو اپنے لفظوں کے چاند ستاروں سے کچھ اس طرح روشن کیا کہ دل میں ایک درد اٹھتا ہے کہ کاش یہ تینوں چند برس اور ہمارے درمیان ہوتے تو شہر کامٹی کی ادبی فضا کس قدر خوش نما اور خوبصورت ہوتی۔ نیاز انجم صاحب کا شعری مجموعہ "عارضِ گل" 2019ء میں شائع ہوا۔ اس اہم اور ضروری کام کو آپ کے فرزندِ ارجمند جناب اشفاق انجم صاحب نے بخوبی انجام دیا۔ مجھے جب معلوم ہوا کہ نیاز انجم صاحب صرف ایک باکمال شاعر ہی نہیں بلکہ ایک ہنر مند افسانہ نگار بھی تھے مجھے بطور افسانہ نگار ذاتی طور پر بے انتہا خوشی ہوئی۔ نیاز انجم کی سن پیدائش 1924ء اور وفات 1959ء ہے گویا آپ 35 سال حیات رہے۔ اس مختصر سی زندگی میں انھوں نے اپنے فن کا جو مظاہرہ کیا ہے وہ کامٹی کی ادبی تاریخ میں ایک سند کا درجہ رکھتی ہے۔
ان کے افسانوں اور کہانیوں کا مجموعہ فسانۂ نیاز کی پہلی کہانی جو پہلی نظر میں ایک طویل سفر نامے کا ایک مختصر حصہ معلوم ہوتی ہے اپنے اسلوب اور طرزِ بیان کے اعتبار سے لاجواب اور شاندار ہے۔ مختصر سفر نامے کی شکل میں لکھی گئی یہ کہانی پڑھ کر قاری کے چہرے پر مسکراہٹ کا رونما ہونا لازمی ہے۔ چونکہ مصنف ایک عمدہ ڈراما نگار بھی تھے اس لیے اس کہانی میں ڈرامائیت در آئی ہے۔ اسے ایک عمدہ اسٹیج ڈراما بھی بنایا جا سکتا ہے کیوں اس میں اسٹیج ڈرامے کی تمام تر خوبیاں مثلاً کرداروں کی کم تعداد، ایک ہی مقام کا منظر، چست اور جامع مکالمے وغیرہ موجود ہیں۔ کہانی' دلی کا سفر' میں تین کردار ہیں ایک برکت اللہ، دوسرا رفیق عرف نسیم گلستانی اور تیسرا راوی جو اپنا نام کلیم کوہ طوری بتاتا ہے۔ اس کہانی میں نام کے تعلق سے طنز و مزاح سے بھرپور مکالمہ قلم بند کیا گیا ہے جو راوی کا دوست رفیق عرف نسیم گلستانی نے ادا کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں،
”آج کل بچوں کے نام ان کے والدین ایسے بے تکے رکھتے ہیں کہ بس مت پو چھئے ارے بھئی! کچھ مناسبت تو ہونی چاہیے اس کی ذات سے۔ پچھلے وقتوں کے لوگ حالانکہ جاہل تھے لیکن جہاں تک بچوں کے نام رکھنے کا تعلق ہے کافی سمجھ بوجھ سے کام لیتے تھے۔ کسی بچے کی پیدائش جمعہ کے دن ہوئی اس کا نام ’جمن‘ رکھ دیا۔ بدھ کو پیدا ہوا ’بدھو‘ کہنے لگے۔ پیر کو ہوا تو ’پیرو‘، کوئی کالا ہوا تو ’کلوا‘ یا ’کلو‘ اور کوئی گورا چٹا بچہ پیدا ہوا تو ’بھورا‘ نام رکھ دیا۔ اور دراصل نام رکھنے کا صحیح مقصد بھی یہی ہے۔ جیسے آپ کا نام ہی لے لیجیے آپ کی پیدائش ضرور کوئی برکت والے دن ہوئی ہوگی۔ اور یوں بھی کسی گھر میں بچہ کا پیدا ہونا ایک برکت ہی ہے۔ اس لیے آپ کے والدین نے آپ کا نام برکت اللہ رکھ دیا۔ یعنی اللہ کی برکت۔ اب ہمارا نام لیجیے۔ یہ ہیں کلیم احمد، دبلے پتلے رنگ گہرا سانولا کیا موسیٰ علیہ السّلام کا رنگ ایسا ہی تھا؟ ماں باپ کو تو صرف نام رکھنا تھا رکھ دیا۔ نہ کوئی موزونیت دیکھی نہ کوئی خوبی، ہمارے والد بزرگوار کا بھی کیا کہنا نسیم رکھ دیا۔ اب بھلا بتائیے مجھے جیسے لحیم شحیم کے لیے نسیم جیسے نازک نام کہاں زیب دیتا ہے۔ ہاں! اگر میری پیدائش کسی باغ میں ہوتی اور وقت صبح کا ہوتا تو وہ بھی اک بات ہوتی۔ رات کے بارہ بجے پیدا ہوا اور وہ بھی جوار کے کھیت میں۔ ہمارے والد کا شتکاری کرتے تھے اور ہمارا مکان بھی کھیت میں ہی ہے۔“
اس مکالمے کے بین السطور میں مومن انصاری برادری میں ناموں کے تعلق سے صدیوں پر محیط ان کی مختلف داستانیں رقم کی گئی ہیں اور اس طرح کا نام رکھنے والوں پر زبردست طنز کیا گیا ہے۔ معروف بین الاقوامی کالم نویس ریحانہ بستی والا، بی بی سی اردو ڈاٹ کام پر اتر پردیش سے نقل مکانی کرنے والوں، جو بعد میں کامٹی، مالیگاؤں اور بھیونڈی میں مقیم ہوئے ان پر لکھی گئی اپنی ایک رپورٹ ’1857 اور مسلمانوں کی نقل مکانی‘ میں لکھا ہے،
’زمیندار کسانوں پر بہت ظلم کرتے تھے۔ انہیں اپنے بچوں کے نام بھی رکھنے کا حق حاصل نہیں تھا۔ کسان کے گھر اگر بچہ پیدا ہوتا تو وہ زمیندار کی چوکھٹ پر پہنچتا اور زمیندار انہیں بدھو، کلو، بھکاری جیسے نام رکھنے کا حکم صادر کرتا۔ اگر اس روز زمیندار خوش ہوتا اور پوچھ لیتا کہ آج کون سا دن ہے اور اگر اس روز جمعہ ہوتا تو بچے کا نام جمن رکھ دیا جاتا‘۔
یہ رپورٹ 11 مئی 2007ء میں شائع ہوئی لیکن اس تحریر کے بین السطور میں پوشیدہ دردناک کہانی کو نیاز انجم نے دہائیوں قبل اس منفرد لب و لہجے میں لکھ کر طنز کا کیا ہی غضب کا نشتر چھبو دیا ہے کہ بے ساختہ داد نکل آتی ہے۔
اسی طرح فرضی نام کوہ طوری اور گلستانی کے تعلق سے بھی مصنف نے کیا ہی عالیمانہ گفتگو کی ہے ملاحظہ فرمائیں،
”۔۔۔۔ کہ اس نام میں ہماری جدت پسند طبیعت کا بڑا دخل ہے۔ ہم نے عام روش سے ہٹ کر یہ نام اختیار کیے ہیں۔ ان کا نام ہے کلیم احمد، ان کے والد بزرگوار کا نام ہے کفایت اللہ۔ اب بتلائیے یہ دنیا کی روش پر چلتے تو ان کا نام ” کلیم کفایتی“ ہوتا۔ کتنا بھونڈا معلوم دیتا ہے۔ اس لیے انھوں نے اس کو مناسب نہیں سمجھا اور پھر کلیم اور کفایت میں کوئی لفظی یا معنوی مناسبت بھی تو نہیں ہے پھر کافی غور و خوض کے بعد انھوں نے اپنے استاد (جو بڑے بھاری شاعر ہیں) کے ساتھ اپنے نام کو ملا دیا جن کا تخلص ” کوہ طور“ تھا۔ اب دیکھئے کلیم یعنی موسیٰ علیہ السّلام اور کوہ طور میں اتنی گہری مناسبت ہے اور یہ نام کس قدر شاعرانہ ہو گیا ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کسی نے کوئی اچھا سا شعر پڑھ دیا ہو۔ اب رہا میرا نام تو اس میں بھی کچھ ایسی ہی مجبوریاں تھیں۔ قصہ مختصر یوں کہ میں نے ” گلستان سعدی، ختم کرتے ہی شاعری شروع کر دی اس لیے "گلستانی" بن گیا۔ میرا نام نسیم ہے اور اس کے ساتھ گلستانی "نسیم گلستانی“۔ اب دیکھئے کتنا موزوں ہوا یہ نام ؟ اور کتنی شعریت ہے اس میں؟ نسیم کو گلستان سے جو تعلق اور مناسبت ہے وہ ایک بلند پایہ شاعر ہی سمجھ سکتا ہے۔“
مجموعے کی دوسری کہانی کا عنوان ایک ہی پاؤں کے دو جوتے ہے۔ یہ کہانی پرلطف اور مزےدار ہے۔ اس کی سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ یہ ہر عمر کے قاری کو متاثر کرنے والی ایک عمدہ کہانی ہے۔ اس کہانی میں واقعات اور حالات مزاح کو توقعیت دیتے ہیں۔ اس کا بیانیہ عمدہ اور قابل فہم ہے۔ کہانی میں جوتوں کے تعلق سے عمدہ طنز پیش کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر راوی اور اس کے دوست ریلوے اسٹیشن سے نکلتے ہوئے کسی انجان شخص سے ٹکرا جاتے ہیں اور نوبت ہاتھا پائی اور گالی گلوج تک پہنچ جاتی ہے۔ لیکن جب اسی شخص سے انھیں مطلب ہوتا ہے تب واقعات اور حالات کی تبدیلی سے قاری کو گدگدانے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے، ملاحظہ فرمائیں،
”چونکہ ہم دونوں بہت تیزی سے جا رہے تھے راستے میں پھر ایک آدمی سے ٹکر ہوگئی رات کی وجہ سے اس کی شکل برابر سمجھ میں نہ آئی۔ اور قصور اس کا ہی تھا لیکن پھر بھی ہم نے گالیاں نہیں دی۔ لیکن جب اسے اچھی طرح دیکھا تو معلوم ہوا یہ وہ نہیں ہے۔“
طنز و مزاح ادب کا ایک وسیع شعبہ ہے جو انسانی خامیوں پر تنقید کرتا ہے۔ اس کا مقصد افراد اور گروہوں کو ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی طرف توجہ مبذول کر کے خود کو بہتر بنانے میں یکساں طور پر شرمندہ کرنا ہے۔ اس طرح طنز کو سماجی تنقید کی ایک شکل کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اور اس طرح کے سٹائر اس کہانی میں بہت ہی عمدگی سے پیش کیا گیا ہے۔
اس میں تیسری کہانی بعنوان 'نتیجہ اور انجام' ہے۔ ذاتی طور پر اس کہانی کی قرآت کے سبب بطور قاری میری آنکھیں بھیگ گئیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ اس کہانی کے تین مرکزی کرداروں میں سے دو کو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ کہانی کے غالباً باقی سارے ہی کردار حقیقی ہے۔ مصنف کے علاؤہ خلیل انجم صاحب اور وکیل انجم صاحب سے میں بخوبی واقف ہوں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آغاز سے اختتام سے کچھ سطور قبل ہلکے پھلکے مزاحیہ اندازِ بیان کو اپنایا گیا ہے لیکن آخر سطور یعنی اختتام پر چھوٹے اور بڑے بھائیوں کی محبت اور خلوص کا سیلاب امڑ پڑتا ہے۔ تیسری وجہ کہانی میں تین بھائیوں کا ذکر ہے (ویسے مصنف کے کل چار بھائی تھے جن میں سے دو کا ذکر اس کہانی میں نہیں ہے) اور خوش قسمتی سے ہم لوگ بھی تین بھائی ہیں ! رضوان کوثر، ریحان کوثر اور فرحان کوثر! لیکن افسوس رضوان بھائی اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ اور انتقال کے وقت ان کی عمر بھی وہی تھی جو نیاز انجم صاحب کی تھی۔ وہ بے ساختہ یاد آگئے۔ چوتھی وجہ اس میں درس گاۂ ربانی اور دہائیوں پہلے کے تعلیمی و تربیتی ماحول کو بڑی ہی خوبصورتی سے کہانی میں پیش کیا گیا ہے اور سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ کہانی کا منظر اور پس منظر کامٹی ہے۔
یہ کہانی حقیقی ہے یا فکشن؟ مجھے نہیں معلوم! لیکن میرا نظریہ یہ ہے کہ کہانی اگر حقیقی زندگی پر مبنی ہے تو پڑھتے ہوئے سو فی صد فکشن معلوم ہونی چاہیے اور اگر کہانی خالص خیالی یا فکشن ہے تو اس کہانی کا انداز بیان اور طرزِ تحریر کچھ اس طرح کا ہو کہ وہ حقیقی معلوم ہو! میری نظر میں یہی کامیاب اور مکمل کہانی کی پہچان ہے۔ اسی نظریے کے سبب میں تمام تر کرداروں سے واقفیت کے باوجود یہ ایک مکمل اور شاہکار کہانی ہے۔ اس میں جزیات اور منظر نگاری اپنے عروج پر ہے۔ کہانی کا اسلوب، اردو لفظیات، جملوں کی ساخت اور تشکیل کا عمدگی سے استعمال کیا گیا ہے۔ بطور رکن بال بھارتی اردو لسانی کمیٹی میں نے برسوں نصاب اور نصابی کتب کی ترتیب و تدوین اور اشاعت سے وابستہ رہا، میں بڑی ہی ذمہ داری سے کہنا چاہتا ہوں کہ یہ کہانی نصاب میں شامل کی جا سکتی ہے۔
مجموعے کی چوتھی تحریر ایک مکمل اور خوبصورت افسانہ ہے۔ اسے پڑھ کر غلام عباس کا شاہکار افسانہ ’اوور کوٹ‘ یاد آ گیا۔ یہ میرے چند پسندیدہ افسانوں میں سے ایک ہے۔ افسانہ ’ایک ہی ناؤ پر‘ مجموعے کی چند اہم تحاریر میں سے ایک ہے۔ دہلی شہر کی منظر نگاری بڑی ہی خوبصورتی سے کی گئی ہے۔ دونوں مرکزی کرداروں کی کردار نگاری بھی عمدہ ہے۔ جزیات نگاری کا پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ اگر یہ افسانہ اُس وقت کہیں شائع نہیں ہوا تو مجھے حیرت ہے کہ ایسا کیوں ہوا؟ اگر یہ افسانہ اپنے وقت میں شائع ہوا ہوتا تو شاید آج اس کی قدر و قیمت وصول ہو جاتی۔ بہر حال یہ انسانی نفسیات اور جذبات میں پوشیدہ جھوٹی شان و شوکت کو بڑی ہی ہنر مندی اور چابک دستی سے اجاگر کیا گیا ہے۔ مصنف نے کہانی کے باریک سے باریک پہلوؤں کا احاطہ بڑے ہی دلچسپ انداز میں کیا ہے۔ دونوں کردار کے مکالمے بڑی چاکبدستی کے ساتھ قلم بند کیے گئے ہیں۔ دہلی کے مختلف مقامات، اس وقت کے سیاسی حالات اور آزادی کے بعد مختلف ریاستوں پر کافی تحقیق کے بعد اسے لکھا گیا ہے۔جبکہ یہ حیران کن ہے کہ افسانہ نگار کبھی دہلی نہیں گئے، باوجود اس کے انھوں نے شہر دہلی کی منظر نگاری کچھ اس انداز میں کی ہے کہ قاری شاید یقین ہی نہ کریں کہ موصوف کبھی دہلی گئے ہی نہیں اور یہ ’فیکٹ‘ نہیں بلکہ خالص ’فکشن‘ ہے۔ اسی طرح آزادی کے بعد ملک کی مختلف آزاد ریاستیں جنھیں ملک میں مختلف اقتدام سے ضم کرنے کے بعد انھیں سرکاری خزانے سے وضائف دیے جاتے تھے، ان کا ذکر بھی بڑی ہی خوبصورتی سے کیا گیا۔ افسانے کا اختتام بے انتہا متاثر کن اور شاندار ہے۔
اس کے بعد شاہین اور شاہد کی محبت کا حسرت ناک انجام مختصر لیکن متاثر کن افسانہ ہے۔ ہند و پاک تقسیم اور اس بعد رونما دردناک حالات کے پس منظر میں قلم بند اس افسانہ کی صحیح نشر واشاعت اور تشہیر کی جائے تو ہند و پاک تقسیم پر لکھے گئے نثری ادب میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔
کھلا ہوا دروازہ ماہنامہ الفاظ ہند، کامٹی کے خصوصی شمارے کہانی نمبر میں آصفہ انجم صاحبہ کی توسط سے شائع کی گئی تھی۔ اس کہانی کا مرکزی کردار ایک بچہ ہے اور یہ عمدہ نفسیاتی کہانی ہے جو ہر عمر کے قاری کے لیے لکھی گئی ہے۔ چونکہ اس میں افسانوی رنگ نمایاں اور گہرے ہیں اس لیے کہانی کے اختتام پر قاری مرکزی کردار کی طرح سوچ وفکر میں گم ہو جاتا ہے۔
بدمعاش ایک معصوم لڑکی کامنی کی درد بھری کہانی ہے۔ جسے شیخ سعدی رباعی کے امتزاج سے پر اثر اور خوبصورت بنا دیا گیا ہے۔ شاید افسانہ نگار کو نام کامنی کچھ زیادہ ہی پسند تھا۔ اسی لیے اس نام کا ذکر مجموعے کے تین افسانوں میں کیا گیا ہے۔
اجیت، دیپک آشا اور رمولا ان چار کرداروں کے اردگرد محیط ’بھول‘ ایک قدرے طویل افسانہ ہے۔ مصنف کے پاس خیالات اور فکشن کا بھرپور ذخیرہ موجود تھا، یہ افسانہ اس بات کا شاہد و ناظر ہے۔
رمولا اس کے لیے صابن پانی اور ہوا سے بنا ہوا ایک رنگین، دل فریب، مچلتا ہوا، تیرتا ہوا غبارہ ہے۔ جسے بچے اکثر اپنی دلچسپی کے لیے بناتے ہیں اور جسے دیکھا تو جاسکتا ہے لیکن چھوا نہیں جاسکتا۔ اس کی رنگینیوں کو دل کی تسکین کا سامان تو بنایا جا سکتا ہے لیکن محسوس نہیں کیا جاسکتا۔ جب کوئی نادان بچہ خوش ہو کر اس کو پکڑ لینے کے لیے (بالکل اسی طرح جیسے وہ دوسرے کھلونوں کو آسانی سے اپنے ہاتھ کی گرفت میں لالیتا ہے ) ہاتھ بڑھاتا ہے تو.... وہ کچھ بھی نہیں رہ جاتا، مگر ایک قطرہ آب، جواچانک زمین پر ٹپک پڑے۔“
 طوالت کے باجود انداز بیان اور اسلوبِ بیان اس قدر دلکش ہے کہ سارے مناظر آنکھوں کی پتلیوں میں تیرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔ منظر نگاری، کردار نگاری اور جزیات نگاری بہت عمدہ ہے۔ ویسے یہ ناول کا پلاٹ معلوم ہوتا ہے۔ یعنی افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ مصنف کے اندر ایک ناول نگار بھی موجود تھا۔ جسے باہر نکلنے کا شاید موقع نہیں ملا۔
نوری کی کہانی دھوپ چھاؤں میں بڑی ہی ذہانت اور فطانت سے بیان کی گئی ہے۔ عنوان تا اختتام لاجواب ہے۔ ایک نہایت نازک موضوع پر لکھا گیا افسانہ دھوپ چھاؤں میں نوری کی کردار نگاری اور اس افسانے کی جزیات نگاری لاجواب ہے۔ افسانہ نگاری کے طالب علموں کو اس میں دونوں موقعوں پر نوری کی کردار نگاری کو پڑھنا چاہیے اور کس طرح کردار نگاری کی جائے اسے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس افسانے میں ایک ہی کردار کی دو مختلف حالات میں محتلف انداز میں کردار نگاری کی گئی ہے۔
 نوری کے کردار کو آغاز میں کچھ اس طرح پیش کیا گیا ہے،
میں نے نوری کو آواز دی بادامی رنگ کے سوٹ میں ملبوس ایک ہلکے دھانی دوپٹے کے بیچ میں ایک دلکش اور تابناک چہرہ، پیشانی آئینہ کی طرح صاف لیکن عرق آلود، بڑی بڑی نشہ خیز آنکھیں مگر کسی قدرستوان ناک گل نو دیدہ کی پنکھڑیوں کی مانند نرم و نازک ہونٹ، رخسار پر احساس شرم سے ابھر آنے والی سرخی، میں وہیں ٹھٹھک کر رہ گیا۔ ”کہیے؟ اس نے ایک دلکش انداز میں کہا میں چونک سا گیا مجھے یاد نہیں رہا کہ کیا کہنا چاہتا ہوں میں نے اپنی نگاہیں اس کے حسین چہرے سے ہٹالی اور کتاب آنکھوں کے سامنے آگئی۔
اب یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں،
اور اس کے پاس ہی ایک خاتون نیلے رنگ کے ریشمی برقعے میں ملفوف بیٹھی ہوئی گود کے بچے کو تھپکیاں دے رہی تھی۔ چہرے سے نقاب ہٹا ہوا تھا زروزرد چہرہ، گال پچکے ہوئے سیاہ حلقوں کے درمیان خوبصورت سی آنکھیں، پان کے کثرت استعمال سے پھٹے پھٹے بھدے سے ہونٹ۔ عجب مدقوق سی حالت تھی۔ عمر کا اندازہ ۳۵ کے قریب، گلے میں موتیوں کا ایک بیش قیمتی ہار، کانوں میں سونے کے بندے، سوکھے سوکھے ہاتھوں میں سونے کی چمکدار بار یک چوڑیاں۔ غرض یہ کہ بادی النظر میں ہی ہر شخص کہہ سکتا تھا کہ کسی رئیس گھرانے کی خاتون ہیں۔
افسانہ بدمعاش کے مرکزی کردار کی طرح افسانہ انتقام میں بھی ایک کردار کا نام کامنی ہے۔ افسانہ بدمعاش میں کامنی کے مختلف بگڑی ہوئی عرفیت کا ذکر کیا گیا ہے۔ رگھو چڑھانے کے لیے اسے کمینی کہہ کر بلاتا ہے۔ لیکن یہاں کامنی کا کردار کچھ اس طرح کا ہے کہ یہاں یہ بات درست ثابت ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ شیام کی کامنی کے لیے تڑپ اور آس کو ریل گاڑی کے ڈبے میں تفصیل سے بیان کیا گیا اور اختتام واقعی کہانی کے نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔
روٹی کے ٹکڑے اس مجموعے کا سب سے زیادہ متاثر کن افسانہ ہے۔ کبھی کبھی محسوس ہوتا ہے کہ’اشتراکیت‘، ’اشتمالیت‘ اور ’مساوات‘ وغیرہ محض اصطلاحات ہیں۔ یہ اصطلاحات دل کو بہلانے کے لیے ہیں جو انسانوں نے انسانوں کے لیے کسی جھوٹی کہانیوں کی طرح گھڑ رکھی ہیں۔ اُن پریوں کی کہانیوں کی طرح جہاں سوائے خوشیوں کے کچھ نہیں ہوتا۔ جہاں چہروں پر مسکراہٹ کھیلتی ہیں۔ جہاں مسرتوں کے میلے لگائے جاتے ہیں۔ جہاں ہر کسی کے سینوں میں بے پناہ سکون اور اطمینان ہوتا ہے۔ جہاں دکھ، درد اور تکلیف کا کوئی تصور ہی نہیں ہوتا۔ ہزاروں برسوں کی انسانی مکاریوں نے ان تمام نظاموں کو صرف انسانوں کو بہلانے کے لیے رکھا ہے۔
مجموعے کی قرآت کے دوران میں بارہا سوچتا رہا کہ یورپ سے شروع ہوئی ترقی پسند تحریک کی رسائی ہندوستان کے کونے کونے میں پہنچ چکی تھی، میں یہ دیکھنا چاہ رہا تھا کہ اس تحریک کا جادو شہر کامٹی میں کتنا اور کہاں تک بول رہا تھا؟ کیا نیاز انجم صاحب بھی اس تحریک سے متاثر تھے یا نہیں! اس افسانے کو پڑھنے کے بعد سارے سوالات کے جوابات مل گئے۔ یہ افسانہ واقعی لاجواب اور جاندار ہے۔ سارا افسانہ بیانیہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ افسانے میں زبردست روانی ہے۔ اس افسانے کو منظر نگاری اور جزیات نگاری کی معراج کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ ترقی پسند تحریک کا ہر ہر باب اس میں موجود ہے۔
وہ بھیگی ہوئی زمین کو اپنے پاؤں سے مسلتا ہوا شہر کی تنگ و تاریک گلیوں سے گذر رہا تھا۔ وہ کہاں چوری کرے گا ؟ کس طرح چوری کرے گا؟ اور کیا چرا کر لائے گا ؟ ان سوالوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ اسے بالکل خبر نہ تھی وہ تو ایک کٹے ہوئے پتنگ کی طرح تھا جسے ہوا کے جھونکے اپنے بازوؤں میں تھامے ہوئے ایک طرف لیے جا رہے ہوں۔ اور وہ یہ نہ جانتا ہو کہ کہاں گرے گی بہر حال اسے انھیں جھونکوں میں کہیں جانا تھا۔ وہ ایک ایسا مسافر تھا جسے نہ تو منزل کی سمت ہی معلوم ہو اور نہ منزل تک پہنچنے کا راستہ۔ بہر حال اسے کس قدر چلنا تھا۔
افسانہ پڑھ کر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آگیا،
جس کھیت سے دہقاں کو میسر نہیں روٹی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلا دو
ایک محنت کش لیکن خوشحالی مزدور سے بے روزگار بن جانا، بے روزگار سے مجبوراً بھیک مانگنا اور بھیکاری سے چور بننے کا سفر نہایت ہی دردناک واقعات پر محیط ہے۔ اختتام قاری کا سینا چیر کر رکھ دے کچھ ایسا ہے۔
پشیمانی ایک ہلکا پھلکا مختصر لیکن خوبصورت افسانہ ہے۔ کبھی زندگی اس طرح بھی امتحان لیتی ہے کہ زندگی کی گھڑی کا کانٹا گھوم کر دوبارہ اسی مقام پر پہنچ جاتا ہے جہاں سے شروع ہوا تھا! لیکن اس طرح وقت کا پہیہ زندگی کو خوبصورت اور دلکش موڑ پر اختتام پذیر ہو سکتا ہے۔
'نقاب اٹھ جانے کے بعد' ایک ایسے نازک موضوع پر لکھا گیا ہے کہ اس دور میں، میرے جیسا بے باک افسانہ نگار بھی ہمت نہ کریں۔ اس افسانے کا راوی محض دس سال کا ہے اور اسی عمر کے لحاظ سے وہ کہانی بیان کرتا ہے۔ یہ ایک مشکل اور پیچیدہ بیانیہ ہے۔ کیوں کہ اس بیانیے میں دس سال کے بچے کی عمر اور اس کی نفسیاتی اور جذباتی سطح پر کہانی بیان کرنا ہوتا ہے۔ عصمت چغتائی نے لحاف افسانے میں اس طرح کا اسلوب استعمال کیا ہے۔ اس افسانے میں بھی نیاز انجم صاحب نے اسے بخوبی نبھایا ہے۔ اپنے سے دو سال بڑی رشیدہ کی دردناک کہانی کو بڑے ہی منظم انداز میں بیان کیا ہے۔
چھٹی کے بعد رشیدہ کہنے لگی کہ
"میرے لیے خواہ مخواہ تم کو مار کھانی پڑی۔
تو میں نے کہا،
”ہم سب پہلے کب اپنے لیے یا اپنی غلطی پر مار کھاتے تھے۔ تم ہی تو مار کھلاتی تھیں، اگر آج بھی تمہاری وجہ سے یا تمہارے لیے مجھے مارکھانی پڑ گئی تو کیا ہوا؟
وہ بہت شرمندہ ہوئی لیکن پھر اس نے ہم لوگوں سے التجا کی کہ جب بھی مولوی صاحب ایسی چھٹی دیں تم ہر گز با ہر مت جانا!
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے اس لیے میں نے پوچھا ” تم اپنے لیے کیوں ہماری چھٹیوں کی دشمن ہو رہی ہو!"
تو وہ بڑے درد بھرے لہجے میں ہماری منت سماجت کرنے لگی جیسے رو رہی ہو۔ ناچار ہم لوگوں کو کی بات مان لینی پڑی لیکن بہت سوچنے کے باوجود ہماری سمجھ میں یہ بات نہیں آئی اور نہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟“
”بنامِ جہاندار و جاں آفریں“ چھتیس صفحات پر مشتمل ایک طویل رومانی افسانہ ہے۔ اس افسانے میں لفظ لفظ سے رومانیت ٹپک رہی ہے۔
وہ گھبرا کر پلٹی مجھے اپنی گذشتہ حالت پر شرم ہی آنے لگی جیسے میں نے کوئی غیر مہذب اور ناشائستہ حرکت کی ہو لیکن اس کے باوجود نہ جانے کیوں میں برابر دیکھتا ہی رہا۔ آخر اس کے دھانی دوپٹہ کا ہوا میں اڑتا ہوا حصہ بھی میری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کے بعد مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے مجھے اس کے نقش قدم کی سخت تلاش ہے۔ اور میں اونچی نیچی زمین کے باریک ذروں سے ایک حسین نقش قدم تعمیر کر رہا ہوں۔
افسانے کا اختتام چونکانے والا ہے۔ بیانیہ انداز میں لکھا گیا افسانہ اپنی زبان و بیان اور اسلوبِ نگارش کے لیے حلقہ ادب میں سو فی صد مقبول و معروف ہوگا۔ طرزِ تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ افسانہ نگار نے اسے آج ہی قلم بند کیا ہے۔
لیکن دل کی آواز اس سے زیادہ حلاوت آفریں اور خوش آئند تھی۔ میں اسی کے پیچھے بھاگ رہا تھا اس کی آواز مجھے کھینچے لئے جارہی تھی حتی کہ میں پند و نصائح کے حدود سے بہت دور نکل چکا تھا اور ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں عقل کی دسترس ہی نہیں تھی اور اگر تھی بھی تو دل کے دکھائے ہوئے تحیر زا انمول خزانے اور فردوس بداماں مناظر کی پر کیف رنگینیاں... فرحت بخش اور مسرور کن ہوا ئیں۔ مترنم اور خنک خنک کیف آگئیں فضا۔ عقل کی آواز کے حق میں پنہ گوش بن گئی تھیں۔ وہ شباب ہی کیا جو رات بھر تڑپا نہ سکے۔ وہ دل ہی کیا جس میں درد و کرب کا ایک بحر نا پید کنار متلاطم نہ ہو۔ وہ انسان ہی کیا جو عشق کا بیمار ہی نہ ہو۔ میں بڑھتا ہی گیا اور اس بحر مواج میں ڈوبتا ہی گیا یہاں تک کہ مجھ پر غنودگی طاری ہونے لگی۔ جیسے میں کسی گہرے کنویں میں تہہ کی طرف بڑھتا جارہا ہوں۔
پاکیزہ اور مقدس محبت اور اس میں گرفتار ایک عاشق کے جذبات و احساسات کی ترجمانی نہایت خوبصورت اور دلکش انداز میں کی گئی ہے۔ روانی اور بہاؤ ایسا کہ کوئی صاف و شفاف ندی کل کل کرتے بہے جا رہی ہو۔ ایک نوجوان کی نفسیات اور فلسفے کو مکالمات میں ماہرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ طوالت کے باجود یہ افسانے خود کو پڑھوانے کی تمام تر خوبیاں لیے ہوئے ہے۔
افسانہ پیشہ پڑھ کر دورِ جدید کا ایک بہت بڑا فتنہ یعنی سوشل میڈیا پر مختلف اقسام کی مکاری اور فریبی یاد آ گئی۔ اس کہانی کو مکتوبات کی شکل میں لکھا گیا ہے۔ اس طرح کا تجربے کرنے والے افسانہ نگار کو ہاتھوں کی انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے۔ مجھے بے حد افسوس ہے کہ یہ اپنے وقت پر شائع نہیں ہوا کاش یہ شائع ہوا ہوتا تو یہ افسانہ نہ جانے کتنے مقالات میں بطور مثال اور حوالہ جات کے طور پر پیش کیا جاتا۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments