Ticker

6/recent/ticker-posts

ہر ایک رنگ ہے شامل ترے فسانے میں۔۔۔✍️ریحان کوثر

ہر ایک رنگ ہے شامل ترے فسانے میں۔۔۔

✍️ریحان کوثر

 

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ایک ادبی گروپ میں چند مشاہیر ِادب میں مباحثہ شروع ہوا۔ کسی نے اس ادبی گروپ میں ایک نئی ادبی صنف’ مائیکروف‘ یا ’مائیکرو فکشن‘ کے تحت ایک ایونٹ شروع کرنے کی پرزور وکالت کی۔ جب باقی ممبران نے ’مائیکروف ‘ کی تعریف جاننے کی غرض سے سوالات کیے تو پرزور وکالت کرنے والے صاحب کے جواب میں ’جوش، جنون و جذبہ‘ تو سو فی صد موجود تھا لیکن جواب میں ’جواب ‘ موجود نہ تھا! یعنی جواب میں دلائل اور درست مثالوں کا فقدان تھا۔ ان کی جانب سے مائیکروف کی پیش کردہ ساری مثالیں عجیب و غریب تھیں۔وہ صاحب جو بھی تحریر پیش کرتے قاری کو وہ ’افسانچہ‘ ہی نظر آرہا تھا۔ وضاحت کے لیے جب تعریف پوچھی گئی تو گروپ کو مزید کنفیوژ کر دیا گیا۔ آخرکار وہ بحث جوش، جنون و جذبے سے آگے نہ بڑھ سکی۔ ملک عزیز کی آزادی اور افسانچہ نگاری کی عمر تقریباً برابر ہے۔ اس صدی کی تیسری دہائی یعنی یہ موجودہ دور افسانچوں کی تاریخ میں میل کا پتھر ثابت ہوگا۔ نئی نئی اصنافِ ادب بطور خاص افسانچوں کے تعلق سے پیش کیے جا رہے ہیں۔ لیکن میرا خیال ہے کہ یہ تمام ہی افسانچوں کی اقسام ہیں۔ ان میں طرزِ تحریر اور اسلوب کا نیا پن ہے لیکن ان تمام اصناف کو افسانچے کے زمرے میں شامل کیا جانا چاہیے۔

پرویز انیس کی زیر ِنظر کتاب کے ذریعے مجھے بھی موقع عنایت ہوا کہ میں افسانچوں کی اقسام پر دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کر سکوں۔ میرا مقصد افسانچوں کی اقسام پر گفتگو ہے ناکہ قاری کو کنفیوژ کرنا، اس لیے میرےپیش کردہ سارے دلائل اس کتاب ”شری کھنڈ“ میں موجود ہیں۔ پرویز انیس کے پاس موضوعات کی کمی نہیں! لیکن یہ بھی ایک کارنامے سے کم نہیں کہ اس مجموعے میں تقریباً تمام اصناف کی مثالیں موجود ہیں۔


افسانچوں کی اقسام اور پرویز انیس کے افسانچے:

افسانچوں کو نثر کی ایک مختصر شکل تسلیم کیا جاتا ہے۔ یوں تو آج بھی ناولوں، طویل کہانیوں اور افسانوں کو پڑھا اور خوب پسند کیا جاتا ہے، لیکن افسانچوں کا اِن دنوں بول بالا ہے! ہر خاص و عام کو انہیں نہ صرف پڑھنے میں لطف آتا ہے، بلکہ کسی بھی لکھنے والوں کے لیے یہ ایک قسم کے چیلنج یا دلچسپ مشغلے کی طرح ہوتا ہے۔ تحریر مختصر ہونے کے سبب افسانچہ نگار کو قاری کے تاثرات کے لیے انتظار نہیں کرنا پڑتا۔ اسی طرح مصنف کو افسانچوں کے تخلیق کے دوران اپنی مخصوص مہارتوں پر توجہ مرکوز کرنا آسان ہوتا ہے۔ افسانچہ نگار تحریر کو بار بار پڑھ سکتا ہے اور اس کی نوک پلک بآسانی سنوار سکتا ہے جب کہ ناولوں، طویل کہانیوں یا افسانوں میں یہ مرحلہ اتنا آسان نہیں!

میری نظر میں افسانچہ مختصر نثری ادب کا" ایک غیر معمولی ٹکڑا "ہے جو فنی اور تکنیکی لحاظ سے سو فی صد مکمل اور متوازن ہونا چاہیے۔ یہ عام طور پر بیانیہ نثر میں لکھا جاتا ہے لیکن کہیں کہیں نظموں، انشائیوں اور طنز و مزاح کے رنگ بھی شامل کیے جاتے ہیں۔ افسانچے مختلف شکلوں میں لکھے جاسکتے ہیں،اس کی کہانی کسی واحد یا خود ساختہ واقعے پر مرکوز ہوتی ہے۔ افسانچوں میں پلاٹ اور دیگر عام ادبی (افسانوی ) اجزاء کا استعمال ہوتا ہےجو کسی بھی ناول یا افسانے سے کم اور اختصار کے ساتھ بیان کیے جاتے ہیں اور لمبائی میں بھی مختلف اور مختصر ہوتے ہیں۔ میرے نزدیک افسانے کے بعد کی تمام مختصر تحریریں جو افسانے کے دائرے سے باہر ہوں، وہ تمام افسانچے ہیں۔ منی افسانہ، مختصر کہانی، مختصر افسانہ، پچیس، پچاس اور سو لفظی کہانیاں، مائیکروف، فلیش فکشن، مائیکرو فکشن اور مائیکرو فکشن کی اقسام وغیرہ وغیرہ یہ تمام ہی افسانچے ہیں اور انھیں افسانچے کی اقسام کی طرح لکھا جانا چاہیے۔ یعنی ناول، افسانے اور افسانچے یہ تین مختلف اصنافِ ادب ہوئیں اور افسانوں سے مختصر تمام اصناف کو افسانچوں کے زمرے میں رکھا جانا چاہیے۔

میں اپنا نظریہ پیش کرنے اور پرویز انیس کے افسانچوں پر گفتگو سے پہلے مشاہیر ادب اور معتبر و معارف افسانچہ نگاروں کے نظریات پیش کرنا چاہوں گا۔ اسی طرح پرویز انیس نے بھی ”اپنی بات“ میں چند مشاہیر ادب کے نظریات پیش کیے ہیں۔ ان میں ڈاکٹر انیس رشید خان کا نظریہ کافی دلچسپ ہے۔ یہ نظریہ افسانچوں کی سب سے اہم قدر یعنی اختصار کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ اسی نظریے کو انور مرزا نے اپنے منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔اُن کی پیش کردہ تعریف اس قدر آسان ہے کہ ایک عام قاری کو بھی بآسانی سمجھ آجائے۔ ملاحظہ فرمائیں،

”اختصار لفظی کے ساتھ لکھے گئے افسانے کو افسانچہ کہتے ہیں۔“

ڈاکٹر انیس رشید خان

”جس طرح انسان کا بچّہ…..انسان ہی ہوتا ہے….. اُسی طرح افسانچہ بھی افسانہ ہی ہوتا ہے...مگر اختصار کے ساتھ...!

جو اجزاء ایک انسان یا افسانے کی تکمیل کرتے ہیں... اُن میں سے کچھ بھی کم یا زیادہ کر دیا جائے...تو بچّہ یا افسانچہ نا مکمل یا ناقابلِ قبول ہوگا...افسانے یا افسانچے کی روح ہوتی ہے کہانی... اور روح کے بغیر، انسان کی طرح افسانہ یا افسانچہ بھی بے جان ہوگا...! “

انور مرزا

”افسانچہ، جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے، افسانے کی تلخیص ہے۔اس حوالے سے اختصار تو اس کا جزو لاینفک ٹھہرا۔اس کے علاوہ میرے خیال میں اس کے پانچ اجزائے ترکیبی /عناصر خمسہ ہونے چاہئیں۔

  • کہانی پن /افسانویت
  • کردار (ایک یا دو )
  • وحدت تاثر
  • تخلیقی زبان
  • نقطۂ عروج /کلائمیکس

منظر نگاری اور مکالمہ اضافی خصوصیات ہوسکتی ہیں بشرطیکہ اختصار پر گراں نہ ہوں۔ جزیات نگاری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسلوب موضوع کے اعتبار سے متعین ہوتا ہے۔ تخلیقی زبان افسانچے کی معنویت، شدت اور حسن کو بڑھا دیتی ہے۔ افسانچے کو اگر غزل کے شعر سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اس حوالے سے ایجازیت، ایمائیت، اشارہ و کنایہ اور استعارہ وغیرہ صنایع لفظی و معنوی کا محدود استعمال افسانچے کی دلکشی اور دلچسپی میں اضافہ کرتا ہے۔“

ڈاکٹر نعیمہ جعفری

”افسانچہ ان کے لئے ایک خوبصورت تحفہ ہے کیونکہ اس کی کہانیاں چند الفاظ یا جملے میں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ لہٰذاافسانچہ کی کہانیاں چھوٹی بھی ہو تی ہیں اور نصیحت سے بھر پور بھی۔قلم کار موضوعات اور کردار کے ساتھ بھرپور انصاف کرتے ہیں۔”

ڈاکٹر یاسمین اختر

”افسانچہ کو بہت Compact مكتنز یا متراص ہونا چاہیے۔ جزئیات نگاری اور بیانیہ نگارش منی افسانہ ہو سکتی ہے لیکن افسانچہ نہیں!! ڈاکٹر عظیم راہی صاحب کے نئے افسانچوں کی کتاب میں دو، چار، چھ سطور سے زیادہ کے افسانچہ نہیں ہے۔ افسانچہ کی کرافٹ اس بات کا بھی تقاضہ کرتی ہے کہ وہ مسجع اور مقفیٰ ہو جس سے معنیٰ کی تہداری اس فن پارے کی اہمیت کو از خود Carry کرے جو قاری اور اس کے درمیان کا واسطہ بن جائے۔“

ڈاکٹر نورالامین

افسانچوں کا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ مختصر، بہت مختصر ہوتا ہے۔ اگر افسانچہ نگار چاہیں تو افسانچہ ایک جملے جتنا مختصر ہو سکتا ہے۔ کردار کسی بھی کہانی کا بنیادی عنصر ہوتے ہیں۔ اس لیے افسانچوں میں کردار نگاری واقعی اس کردار کے نقظۂ نظر کی انتہائی ٹھوس تصویر کشی کے ذریعے کی جانی چاہیے۔ اس کا اختتام اثر انگیز یا عام طور پر حیران کن ہونا چاہیے۔ آخری سطر دل پر ’وار ‘ یا ’پیار ‘ کرتی ہوئی محسوس ہونی چاہیے۔ زیادہ تر افسانچے اداس یا المناک ہوتے ہیں۔ اختصار کے ساتھ با معنی تحریر کے لیے لفظوں میں جذبات و احساسات کا پوشیدہ ہونا لازمی شرط ہے بالخصوص درد و الم کے جذبات گہرے اور آسانی سے ابھرتے ہیں، لیکن افسانچہ نگار اپنی پسند کے کسی بھی موضوع یا جذبات کا استعمال کر سکتا ہے اور ایک کامیاب افسانچہ تخلیق کر سکتا ہے۔


افسانچوں کی اجزائے ترکیبی:

افسانچوں کی اجزائے ترکیبی مندرجہ ذیل پانچ ہیں۔ ضروری نہیں کہ کسی بھی افسانچے میں یہ تمام اجزائے ترکیبی کی ضرورت پیش آئے۔ اسی طرح یہ فہرست پتھر کی لکیر بھی نہیں! کہ اس میں اضافے کی کوئی گنجائش نہ ہو! اس میں چند ایک اجزاء کا اضافہ ممکن ہے۔

1.  جذبات: یہاں جذبات سے مراد یہ ہے کہ افسانچہ نگار کہانی کے ذریعے کیا پیش کرنا چاہتا ہے؟ قاری اس کی قرآت سے کیسا محسوس کرتا ہے اور اس کے دل میں کون سا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ کامیاب افسانچے کے لیے قاری اور افسانچہ نگار کے جذبات میں یکسانیت لازمی عنصر ہے۔

2.   کردار: افسانچہ کس کی کہانی بیان کر رہا ہے یعنی افسانچے کا کردار کون ہے۔

3.  تصور: افسانچہ نگار کا تصور کیا ہے۔ کامیاب افسانچے کی لازمی شرط ہے کہ وہ اپنے تصورات سے حقیقت کو فسانہ اور فسانے کو حقیقت ثابت کر سکتا ہے یا نہیں؟

4.   اشتعال انگیز واقعہ: افسانچے کی کہانی کہاں سے شروع کی جائے گی؟ اس میں بھی افسانوں کی طرح کہانی دیر سے شروع کی جاتی ہے اور جلد ختم کی جاتی ہے۔ بہتر تو یہ ہے کہ کہانی کو درمیان سے شروع کرنا چاہیے۔ ہو سکتا ہے یہ کچھ عجیب محسوس ہو لیکن اس سے قاری کے دل میں دلچسپی پیدا کی جاتی ہے۔

5.  پنچ لائن: کہانی کا موڑ کیا ہوگا؟ میں نے شروع میں ہی کہا کہ اختتام پر قاری کے دل پر وار یا پیار محسوس ہونا چاہیے! یہ ضروری نہیں کہ اختتام ہمیشہ درد و الم میں ڈوبا ہوا ہو اور قاری کی آنکھیں نم ہو جائیں یا دل تڑپ اٹھے یا اس کا سینا چھلنی ہی ہو جائے۔ یہاں ’پیار‘ محسوس ہونے سے مراد ہے کہ قاری کو اختتام پر خوشی، مسرت، اطمینان اور سکون بھی ایک جھٹکے کے ذریعے مہیا کروایا جا سکتا ہے۔ ان اجزائے ترکیبی کی بنا پر پرویز انیس کی افسانچہ نگاری کے تجزیے سے پہلے ان کا ایک افسانچہ ملاحظہ فرمائیں،

دیوار

پرویز انیس

”کہتے ہیں اس دیوار کے پار ایک دنیا ہے...

جہاں سورج روز خوشیوں کا اجالا لے کر آتا ہے اور چاند ایک پرسکون نیند...

جہاں بس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں اور غم کا نام و نشان نہیں...

میں ایک روز وہاں جاؤں گا“

میں نے اس دیوار کو حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا...

اچانک اس دیوار سے کوئی کودا... میں بھاگ کر اس جگہ پہنچا... تو دیکھا میری ہی عمر کا ایک لڑکا بےہوش پڑا ہے...

میں نے اس کے منھ پر پانی کے چھینٹیں مارے... اس نے آنکھیں کھولیں اور مجھے حسرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا...

”کیا یہ وہی دنیا ہے جہاں غم کا نام و نشان نہیں۔“

اس افسانچے پر گفتگو کرتے ہوئے محمد سراج عظیم نے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے اور ساتھ ہی آپ نے افسانچوں کے اجزائے ترکیبی یا لوازمات کچھ یوں پیش کیا ہے،

”پرویز انیس کا یہ افسانچہ شاہکار ہے۔ ہاں !کوئی کہے نہ کہے، مانے نہ مانے، مگر میں اپنی ہی تان لگاؤں گا۔ جب بھی بہترین افسانچوں کا ذکر ہوگا اس افسانچہ سے کوئی صرف نظر نہیں کرسکے گا۔ اصل افسانچہ تو یہی ہے۔

ا۔(الف): ابتدائیہ: کہتے ہیں اس دیوار کے پار ایک دنیا ہے...

ف۔(فے): فسوں: جہاں سورج روز خوشیوں کا اجالا لے کر آتا ہے اور چاند ایک پرسکون نیند...

س۔(سین): سیاق سباق: جہاں بس خوشیاں ہی خوشیاں ہیں اور غم کا نام و نشان نہیں...

میں ایک روز وہاں جاؤں گا"

میں نے اس دیوار کو حسرت سے دیکھتے ہوئے کہا...

ا۔(الف): ابہام/اظہار: اچانک اس دیوار سے کوئی کودا... میں بھاگ کر اس جگہ پہنچا... تو دیکھا میری ہی عمر کا ایک لڑکا بےہوش پڑا ہے...

ن۔ (نون): نقطۂ عروج: میں نے اس کے منھ پر پانی کے چھینٹیں مارے...

چ۔ (چے): چونکا یہ/چونکنا: اس نے آنکھیں کھولیں اور مجھے حسرت سے دیکھتے ہوئے پوچھا...

ہ۔(ہے): ہیجان: " کیا یہ وہی دنیا ہے جہاں غم کا نام و نشان نہیں۔"

میرے میٹر سے پرفیکٹ افسانچہ۔“

پرویز انیس کے افسانچے دیوار پر میرے بتائے گئے اجزائے ترکیبی کے مطابق میرا تجزیہ ملاحظہ فرمائیں،

جذبات: افسانچہ دیوار میں پرویز انیس نے احساسِ محرومی، احساس کمتری اور جھوٹی امید جیسے جذبات کو ابھارنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔

کردار: یوں تو کہانی میں دو ہی کردار ہیں ایک دیوار کے اِس طرف، دوسرا دیوار کے اُس طرف! لیکن دراصل یہ ہر اُس انسان کی کہانی ہے جو دیوار کے دوسری طرف ایک ایسی دنیا کا تصور کرتا ہے کہ جہاں غم کا نام و نشان نہیں!

تصور: یہ افسانچہ کامیاب اس لیے ہے کہ مصنف نے اپنے تصور یا فکشن فہمی کے ذریعے ایک علامتی کہانی کو عام قاری کے لیے بھی اتنا آسان کر دیا ہے کہ وہ بھی خود کو دیوار کی دونوں جانب پاتا ہے۔ یوں تو یہ افسانچہ پرویز انیس کی خیالی دنیا ہے لیکن انھوں نے اپنی فکشن کی ماہرانہ قدروں کے ذریعے اس عام سے موضوع کو آفاقیت کے دائرے میں لا کھڑا کر دیا ہے۔

اشتعال انگیز واقعہ: افسانچہ دیوار میں پیش کیا گیا واقعہ ہر لحاظ سے اشتعال انگیز ہے۔

پنچ لائن: اس پنچ لائن میں دوسرے کردار کے ذریعے ایک معصوم سوال کو قاری کے دل و دماغ میں کسی کیل کی طرح بس ٹھونک کر چھوڑ دیا گیا ہے۔ یہ سوال دراصل قاری کے لیے فکر و عمل کے در وا کر رہا ہے۔

اب ہم افسانچے کی مختلف اقسام پر بحث کر سکتے ہیں اور یہ تمام اقسام پرویز انیس کی اس کتاب ”شری کھنڈ“ میں موجود ہیں۔ یہ کسی بھی طرح سے ایک جامع فہرست نہیں ہے، کیونکہ افسانچے طول و عرض اور طرز کی وسیع اقسام میں آتے ہیں۔ دراصل یہ ایک عمومی فہرست ہے اور اس میں بھی مزید اضافے کی گنجائش ہے۔ مضمون کی طوالت کے سبب یہاں افسانچوں کا صرف حوالہ مع صفحات نمبر دیا جا رہا ہے۔


قصہ (Anecdote)

افسانچوں کے ذریعے قصہ بھی بیان کیا جاسکتا ہے۔ قصہ دراصل ایک ایسی کہانی کو کہا جاتا ہے جو دلچسپ اور دل فریب لیکن مختصراً بیان کیا جاتا ہے۔ قصے میں عام طور پر کسی حقیقی شخص یا واقعے کے تعلق سے افسانوی لب و لہجے میں جزیات نگاری، منظر نگاری اور مکالمے سمیت باقی ادبی اجزائے ترکیبی کے ساتھ کہانی بیان کی جاتی ہے۔ ہاں۔۔! افسانچوں میں جزیات نگاری اور منظر نگاری کی گنجائش کچھ کم ہے۔ اکثر، کہانیوں کا استعمال کسی مضمون، مضمون یا باب میں کسی نکتے کی وضاحت یا تائید کے لیے کیا جاتا ہے۔ قصہ افسانچوں کے قالب میں ڈھالنے کے لیے اختصار اس کی اولین شرط ہوتی ہے۔

مثال: خدا دیکھ رہا ہے (صفحہ نمبر 38)

بیٹی دودھ میں پانی ملا دینا۔۔۔

روز کی طرح رات میں مدینہ کی گلیوں میں گشت کرتے ہوئے خلیفہ حضرت عمر کے کانوں سے یہ آواز ٹکرائی۔ آپ ٹھہر کر ان کی باتیں سننے لگے۔

ماں۔۔۔ خلیفہ نے تو دودھ میں پانی ملانے سے منع کیا ہے نا؟؟؟

لڑکی نے ماں سے کہا۔

یہاں کون سا عمر دیکھنے آرہا ہے۔۔۔

ماں نے سرگوشی کے انداز میں کہا۔

لیکن عمر کا خدا تو دیکھ رہا ہے نا ماں۔۔۔

لڑکی نے معصومیت سے جواب دیا۔

لڑکی کے اس جواب سے خلیفہ حضرت عمر بہت محظوظ ہوئے اور مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔۔


ڈریبل (Drabble)

سو لفظی کہانی یا ڈریبل(Drabble) ادب کی ایک ایسی صنف ہے جس کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس میں پورے پورے سو الفاظ ہوں۔ضروری نہیں کہ اس میں عنوان کے الفاظ بھی شامل کیے جائے۔ سو لفظی کہانی کا اصل مقصد اختصار ہے اور مصنف کی صلاحیت کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ایک محدود دائرے میں دلچسپ اور بامعنی خیالات کا اظہار کامیابی سے کرے۔

مثال: پاپا (صفحہ نمبر 40)

پاپا۔۔۔ مجھے بڑا ہو کر آپ جیسا بننا ہے۔۔۔

اس کا چھ سالہ بیٹا آنکھوں پر اس کا چشمہ چڑھائے

اور پیروں میں اس کا جوتا پہنے

بڑی معصومیت سے کہہ رہا تھا۔

اس کا سینہ فخر سے چوڑا ہوگیا اور دل محبت سے بھر آیا۔۔

آج پچیس سالوں بعد اولڈ ایج ہوم کے کمرہ میں

اسے وہی جملہ بار بار سنائی دے رہا تھا۔

پاپا۔۔۔ مجھے بڑا ہو کر آپ جیسا بننا ہے۔۔۔

لیکن آج اس کے دل میں فخر کا احساس نہیں۔۔۔

شرمندگی کا بوجھ تھا۔۔

کیونکہ آج اس کا بیٹا بالکل اس کے جیسا بن چکا تھا۔


حکایت (Fable)

اس میں اخلاقیات کے ساتھ کہانی سنانے کے لئے بشری مخلوقات (عام طور پر جانور، بلکہ افسانوی مخلوق، پودے، بے جان اشیاء، یا فطرت کی قوتیں) شامل کی جاتی ہیں۔ اکثر اخلاق کو آخر میں واضح طور پر ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ تمثیل سے ملتا جلتا ہے، لیکن اس حقیقت میں سب سے زیادہ فرق ہے کہ اس میں کہانی سنانے کے

لیے جانوروں کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن تمثیلیں ایسا نہیں کرتیں۔

مثال: نافرمانی کا انجام (صفحہ نمبر 150)

ایک گہرے کنویں میں ایک مینڈک اپنے ماں باپ اور بھائی بہنوں کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کی بہت خواہش تھی کہ وہ کنویں کے باہر کی دنیا دیکھے۔ مگر اس کے ماں باپ نے بلا اجازت بچوں کو کنویں سے باہر نہ جانے کی تاکید کی تھی اور خاص طور پر اسے۔ اس نے کئی بار اجازت طلب کی تھی لیکن اسے یہ کہہ کر منع کردیا جاتا کہ تم ابھی اس کے لیے تیار نہیں ہو۔

اس کے باوجود وہ کئی بار ڈول میں بیٹھ کر اوپر جانے کی کوشش کر چکا تھا۔ لیکن ہر بار پانی بھرنے والے اسے واپس کنویں میں ڈال دیتے۔ اب وہ مایوس ہوچکا تھا۔ لیکن ایک دن موسلادھار بارش ہوئی اور کنواں لبالب بھر گیا۔ وہ سب کی نظر بچا کر باہر آگیا۔ پانی کے بہاؤ کے ساتھ وہ سڑک پر آگیا۔ سڑک پر رک کر اس نے چاروں طرف نظر ڈالی۔ ان نظاروں کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوا۔ وہ خوشگوار ہوا کے جھونکوں سے محظوظ ہو رہا تھا کہ اچانک ایک تیز رفتار گاڑی اسے اپنی طرف آتی دکھائی دی۔ اس نے خوف سے آنکھیں بند کرلی۔ گاڑی اسے چھو کر گز گئی۔ اس کی جان میں جان آئی اور ساتھ ہی نافرمانی کا احساس ہوتے ہی وہ کنویں کی طرف واپس چل پڑا۔


فیگوٹ (Feghoot)

فیگوٹ دراصل افسانچے کی ایک دلچسپ قسم ہے۔ جس میں اختتام کسی مشہور جملے پر کیا جاتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ اکثر مضمون نگار اپنے مضمون کا اختتام کسی شعر یا کسی مصرعے پر کرتا ہے۔ لطیفے اور فیگوٹ کے درمیان ایک مہین سی لکیر ہوتی ہے۔ یہ بہت مختصر ہو سکتا ہے۔

مثال: آلو کے پراٹھے (صفحہ نمبر 38)

اتوار کی ایک صبح وہ کان میں ہیڈفون لگائے،، ایک ہاتھ میں چائے کا مگ دوسرے ہاتھ میں موبائل تھامے کمرے سے باہر آیا۔ کچن میں نوکرانی آلو کے پراٹھے بنا رہی تھی۔۔ پاس رکھے ڈائیننگ ٹیبل کی ایک کرسی پر بیوی بیٹھی چیٹنگ میں مصروف تھی۔

وہ گیلری میں آیا۔۔۔ اریجیت کے گانے اور چائے کی چسکی کے ساتھ وہ اس سہانی صبح کا مزہ لینے لگا۔۔۔

موبائل کی نوٹیفکیشن رنگ بجی تو اس نے پایا کہ اس کی نئی فیس بک فرینڈ نوری کا "گڈ مارننگ" میسیج ہے۔۔۔

وہ خوشی خوشی گیلری میں رکھی آرام کرسی پر بیٹھ کر چیٹنگ میں مصروف ہوگیا۔۔۔

ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ لگتے ہی بیوی نے کئی آوازیں لگائی۔۔۔ لیکن وہ کہاں سنتا۔۔۔ وہ تو نوری کے ساتھ ایک الگ ہی دنیا کی سیر کر رہا تھا اور بیک گراؤنڈ میں اریجیت سنگھ کے نغمے بج رہے تھے۔۔

اچانک نوری کا ایک میسیج پڑھ کر وہ ایسا اٹھا۔۔۔ گویا کسی نے کرنٹ لگا دیا ہو۔

میسیج میں لکھا تھا،

آئیے۔۔۔ پہلے آلو کے پراٹھے کھا لیں۔۔۔ پھر عاشقی کریں گے۔


فلیش فکشن (Flash Fiction) مائکرو فکشن

فلیش فکشن انتہائی اختصار کا ایک خیالی کام ہےجن میں سے اکثر کی تعریف لفظوں کی گنتی سے ہوتی ہے۔ اس میں چھ لفظوں کی کہانی سے لے کر 280 حروف کی کہانی (جسے "Twitterature" بھی کہا جاتا ہے) شامل ہوتی ہے۔

مثال: بغاوت (صفحہ نمبر 36)

اونچے پہاڑ کے دامن میں بسا ایک قبیلہ۔۔۔

برسوں سے عذاب قحط سالی جھیل رہا تھا۔۔۔

بتوں کو منانے کی ہر کوشش ناکام ہوئی۔۔۔

بت بس، بت ہی بنے رہے، راضی نہ ہوئے۔۔۔

ان لوگوں کے ہاتھ سوائے مایوسی کچھ بھی نہیں آیا۔۔۔

سردار کا بیٹا زولو اپنے بزرگوں کی روایت سے بغاوت کر کے چل پڑا۔۔۔

اس پہاڑ کی جانب۔۔۔

چس پر چڑھنے سے قبیلہ کا ہر فرد ڈرا کرتا تھا۔۔۔

اس نے صدیوں سے چلی آئی اس روایت کو توڑا۔۔۔

پہاڑ پر چڑھ کر اس نے۔۔۔

اپنے رب حقیقی کو پکارا۔۔۔

خدا مہربان ہوا۔۔۔۔

اور بارش ہونے لگی۔۔۔

کچھ مبصرین نے تجویز کیا ہے کہ فلیش فکشن ایک منفرد ادبی خوبی کا حامل ہوتا ہے جس میں کسی بڑی کہانی کی طرف اشارہ کرنے یا اس کا اشارہ دینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن میں اسے افسانچہ ہی تسلیم کرتا ہوں۔


فریم کی کہانی (Frame Story)

ایک فریم کہانی کو فریم ٹیل یا نیسٹڈ بیانیہ بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک کہانی کو کہانی کے اندر رکھنے کی ایک ادبی تکنیک ہے، جس کا مقصد ایک مرکزی بیانیہ یا مختصر کہانیوں کی ایک سیریز کو متعارف کروانا یا پلاٹ ترتیب دینا ہے۔

مثال: ایکسیڈنٹ (صفحہ نمبر 112)

ابھی اس کی شادی کو چھ مہینے ہوئے تھے کہ اس کے شوہر ساحل کا کار ایکسیڈنٹ میں انتقال ہوگیا۔ سسرال والوں نے یہ الزام بھی ان کی محبت کی شادی پر ڈال کر اسے مائیکے بھیج دیا۔ اس مشکل گھڑی میں اسے اور اس کی بیوہ ماں کو اگر کسی نے سنبھالا تو وہ تھا عامر۔۔۔ اس کے بچپن کا دوست۔

اس لیے جب عامر نے اس سے شادی کی خواہش ظاہر کی تو وہ انکار نہیں کر پائی۔

شادی کی پہلی رات وہ کمرے میں بظاہر پرسکون بیٹھی تھی مگر

اس کے ذہن میں ایک جنگ جاری تھی۔ اسی وقت عامر کمرے میں آیا۔ اس کے پاس بیٹھ کر آہستہ سے گھونگھٹ اٹھایا۔ اس کی ذہنی بےچینی کو چہرے سے بھانپتے ہوئے کہنے لگا۔۔

میں جانتا ہوں میں تمھارا پہلا پیار نہیں ہوں لیکن تم میرا پہلا اور آخری پیار ہو۔ میں وعدہ کرتا ہوں جب تک تم ذہنی طور پر تیار نہیں ہوتی ہم اس رشتے کو اور آگے نہیں بڑھائیں گے۔

عامر کے ان جملوں نے اس کی ذہن میں چل رہی اٹھا پٹک کو شانت کر دیا اور اس نے پہلی بار اپنے دل میں عامر کی محبت کی چنگاری کو محسوس کیا۔ پھر بہت جلد یہ چنگاری شعلہ بن گئی اور عامر کے لیے اب اس کے وہی احساسات تھے۔ جو ساحل کے لیے ہوا کرتے تھے۔

ایک دن عامر جلد گھر آیا اور اس سے کہنے لگا۔۔۔

چلو جلدی تیار ہوجاؤ۔۔۔ ہم شاپنگ کے لیے جا رہے ہیں۔

وہ جلدی سے کچن کے کام نپٹا کر تیار ہونے چلی گئی۔ تیار ہوکر آئی تو عامر اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ وہ پنک ساڑی میں کچھ زیادہ ہی خوبصورت لگ رہی تھی۔ عامر نے اپنے آپ کو سنبھالا اور چھیڑتے ہوئے کہا۔۔

کس پر بجلیاں گرانی ہیں۔۔۔

ہے کوئی۔۔۔ اس نے بھی ناز و انداز سے کہا

اس غیر متوقع جواب سے عامر کے چہرے پر ناگواری کے اثرات نمودار ہوئے۔۔۔

انھیں بھانپ کر اس نے مزید چھیڑ خانی کرتے ہوئے کہا۔۔

کیوں۔۔ جل گئے۔

عامر کے چہرے کی ناگواری جو اب غصے میں تبدیل ہونے لگی تھی۔ عامر نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا۔۔۔

میں نہیں جلتا۔۔۔ میں اسے اپنی کار سے کچل دوں گا۔۔۔ اور مسکرانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے گھر سے باہرنکل گیا۔

وہ کسی بت کی طرح اپنی جگہ کھڑی ساحل کے ایکسیڈنٹ کے بارے میں سوچنے لگی۔


منی ساگا (Mini-saga)

منی ساگایہ افسانچے کی ایک غیر معمولی قسم ہے جو بالکل 50 الفاظ میں بیان کی جاتی ہے۔ دراصل یہ افسانچہ نگار کے لیے اختصار کا ایک امتحان ہے۔ تھوڑے میں بہت کچھ کہنا اس کی لازمی شرط ہے۔

مثال: ہورڈنگس(صفحہ نمبر 153)

پرانےبرگد کے پیڑ پر دھرما، اس کی بیوی اور نو سالہ بیٹے وکاس کی لاشیں لٹکی ہوئی تھیں۔۔۔

سارا گاؤں دیکھ کر حیرت زدہ تھا۔۔۔

کیونکہ گاؤں میں مختلف مقامات پر "خوشحال کسان پریوار" کے جو سرکاری ہورڈنگس لگے ہوئے تھے۔۔۔

ان میں ان تینوں کی ہی تصویریں چھپی تھیں۔


کہانی کی ترتیب (Story Sequence)

کہانی کی ترتیب دراصل افسانچوں کا ایک سلسلہ ہوتا ہے یا افسانچوں کا ایک گروہ ہے جو ایک طویل سلسلہ بنانے کے لیے مل کر کام کرتا ہے، جبکہ یہ اپنے طور پر مکمل مختصر کہانیوں کے طور پر کام کرتا ہے۔

مثال: حکمت(صفحہ نمبر 39)

خانہ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ حجر اسود کو واپس اپنی جگہ رکھنے کے لئے سرداروں میں جھگڑا ہوگیا۔

آخرکار طے پایا کہ اس دروازہ سے جو پہلا شخص آئے گا سب اس کا فیصلہ مان لیں گے۔

تھوڑی دیر بعد دروازہ سے آپ تشریف لائے۔

سرداروں نے آپ کو مسئلہ بتایا۔ آپ نے ایک چادر منگوا کر سرداروں کو چاروں طرف سے پکڑوائی اور ہجر اسود کو اٹھاکر اس میں رکھا۔ سردار چادر متعین جگہ لے گئے۔ آپ نے ہجر اسود چادر سے اٹھا کر اس جگہ نصب کردیا۔

اس طرح آپ کی حکمت سے جھگڑا ٹل گیا۔


خاکے کی کہانی (Sketch Story)

افسانچوں کی خاکے کی کہانی میں محض ایک کردار یا مقام کی وضاحت ہو سکتی ہے۔ یہ دراصل ایک ایسے کردار کی تخلیق کا ایک عمدہ طریقہ جو کسی طویل کہانی کا

حصہ بن سکتا ہے۔

مثال: پڑوسی(صفحہ نمبر 148)

وہ جب سے اس نئے گھر میں شفٹ ہوئے تھے۔۔ تب سے ان کے بوڑھے پڑوسی نے انھیں پریشان کرنے کی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔۔۔

انھوں نے اس کا دل جیتنے کی ہرممکن کوشش کی لیکن ہر تدبیر رائیگاں گئی۔۔۔ وہ ٹس سے مس نہ ہوا بلکہ اس کی شرارتیں اور بڑھتی گئیں۔۔

ان کے باقی پڑوسیوں کا برتاؤ الگ مذہب سے ہونے کے باوجود بہت اچھا تھا۔۔۔ لہذا انھوں نے اسے ایک تعصبی شخص سمجھ کر نظر انداز کرنا شروع کردیا۔۔۔

ایک دن شہر میں اچانک دنگا ہوگیا۔۔۔ سارے پڑوسیوں نے ان کے لیے اپنے دروازے بند کردیے۔۔۔

لیکن اس بوڑھے شخص نے ہی بڑی مشکل سے انھیں وہاں سے نکلنے میں مدد کی۔۔۔

جاتے وقت انھوں نے بوڑھے شخص کا شکریہ ادا کیا تو بوڑھے شخص نے اپنے سابقہ غلطیوں کی معافی مانگتے ہوئے کہا۔۔۔

میں جانتا تھا ایسا ہی ہوگا۔۔۔ ایسا میرے بچپن میں بھی ہوچکا ہے۔۔

اس کے بعد سے میں نے کبھی اس بستی میں مسلم فیملی کو ٹکنے نہیں دیا۔۔


ویگنیٹ (Vignette)

ویگنیٹ ایک مختصر، تاثراتی ٹکڑا ہوتا ہے جو کسی ایک منظر، کردار، خیال، ترتیب یا شے پر مرکوز ہوتا ہے۔ روایتی تھیٹر یا ادبی ڈھانچے، یا کہانی کی ترقی پر عمل کرنے پر زور کم دیا جاتا ہے۔ ویگنیٹ الگ الگ ٹکڑا یا کسی بڑے پلاٹ کا حصہ ہو سکتا ہے۔

مثال: لمبی زندگی (صفحہ نمبر 162)

وہ سگریٹ پیتے ہوئے کتابوں میں لمبی زندگی کا راز ڈھونڈنے میں محو تھا۔

جہیز (صفحہ نمبر 159)

"ان کی بچی نے بھاگ کر شادی کرلی"

یہ خبر سن غریب ماں باپ من ہی من بہت خوش ہوئے۔

اردو افسانے کی امتیازی خصوصیات میں محدودیت، اختصار، وحدتِ زمان و مکان، وحدتِ کردار، موضوع کی عمدگی، دلچسپی کا عنصر، مربوط انداز، مشاہدے کا عنصر، نظم و ضبط، کردار نگاری، منظر نگاری، جزیات نگاری اور مقصدیت وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح کامیاب اور یادگار افسانچوں کے لیے لازمی ہے کہ تحریر میں ان خوائص میں سے زیادہ سے زیادہ خصوصیات شامل کی جائے۔ دراصل میں پرویز انیس کے افسانچوں کا پہلا قاری ہوں۔ وہ زیادہ تر افسانچے سب سے پہلے مجھے ہی دکھاتے ہیں۔ میں نے بارہا دیکھا ہے کہ وہ افسانے کے پلاٹ پر مظبوط افسانچوں کی عمارت کھڑی کر دیتے ہیں۔ آپ کے الفاظ کسی افسانوی نظریات و عقائد کے پابند نہیں! وہ تو بس لکھتے چلے جاتے ہیں۔ باوجود اس کے ان کی تحریروں میں اول الذکر زیادہ تر خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔

اسی طرح افسانے کے مراحل اور اجزاء موضوع کا انتخاب، عنوان، تمہید، پلاٹ، مکالمے، کشمکش، نقطۂ عروج اور اختتام ہیں۔ کم و بیش یہی افسانچوں کے مراحل اور اجزائے ترکیبی ہیں۔ ان مراحل سے گزرتے ہوئے اگر احتیاط سے کام لیا جائے تو افسانچوں کی امتیازی خصوصیات خود بخود پیدا ہو جاتی ہے۔ افسانچوں کی تخلیق کے دوران ان مراحل اور اجزائے ترکیبی پر بھی پرویز انیس کی گہری نظر رہتی ہے۔

بہر کیف! پرویز انیس کا قلم ان اصولوں اور قاعدوں کے بر خلاف فطری اور غیر معمولی ہے۔ زیر نظر کتاب ” شری کھنڈ “ اس بات کی شاہد ہے کہ آپ کے پاس موضوعات کی طویل فہرست ہے۔ اس کی بھی ایک وجہ یہ ہے کہ آپ موضوعات کا انتخاب نہیں بلکہ انسانی اقدار کا انتخاب کرتے ہیں، اسی کے سبب آپ نے زیادہ تر افسانچوں کے اقسام پر طبع آزمائی کی ہے۔ بقول انور مرزا ؎

ہر ایک رنگ ہے شامل تِرے فسانے میں
ہزار جلوے ہیں تخلیق کے خزانے میں

٭٭٭

Post a Comment

3 Comments

  1. انتہائی طویل اور معلوماتی مضمون دور حاضر میں پسندیدہ اور بہت زیادہ طبع آزمائی کی جانے والی صنف پر جامع احاطہ صاحب کتاب اور صاحب تحریر کو بہت بہت مبارک ۔
    خواجہ کوثر حیات

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت بہت شکریہ خواجہ کوثر حیات صاحبہ

      Delete
  2. یہ ریحان کوثر صاحب سے ملا
    وہ خوبصورت تحفہ ہے
    جس کے لیے میں ہمیشہ
    شکر گزار رہوں گا 🌹
    جزاک اللہ خیرا کثیرا 🌹

    پرویز انیس

    ReplyDelete