Ticker

6/recent/ticker-posts

اور روشنی کا مینار بجھ گیا | خواجہ کوثر حیات

اور روشنی کا مینار بجھ گیا
خواجہ کوثر حیات۔ اورنگ آباد۔ دکن
kauserhayat.deccan@gmail.com

ودربھ کی سرزمین ادب کی شادابی کے باعث منفرد شناخت کی حامل ہے۔ اردو ادب کو ودربھ نے بڑے نامور شعراء و ادباء دیے وہیں علاقہ ودربھ ادب اطفال کے لیے بھی بہت مہربان رہا یہاں کے ادبا ادب عالیہ پر جس طرح گرفت مضبوط رکھے ہوے ہیں ویسے ہی ان کا عمیق و گہرا مشاہدہ تاریخ پر بھی رہا۔ خاص بات جو میرے مشاہدہ سے گزری ودربھ اپنے بزرگ شعراء و ادباء کو بے غرض اور بے لوث چاہتا اور ان کا احترام کرتا آیا ہے۔ ادب اطفال میں ودربھ خصوصاً اچل پور کو یاد کرنا لازمی امر ہے۔ شہر اچل پور اور ادب اطفال کی بات ہو اور جناب حیدر بیابانی اور جناب متین اچل پوری صاحب کا ذکر نہ ہو تو ادب اطفال پر بات کرنا بے سود ہوں گا۔
جناب حیدر بیابانی صاحب کا شمار ان قدآور ادباء میں ہوتاہے جنھوں نے ایک وقت ادب عالیہ اور ادب اطفال پر کام کیا جو ادب میں بہترین اضافہ ثابت ہوا۔
حیدر بیابانی صاحب
مشفقانہ و مخلصانہ شخصیت کے مالک تھے۔
بچوں کے ادب پر آپ کی چالیس سے زائد شعری تصانیف موجود ہیں۔ حال ہی میں آپ کی گرانقدر ادبی خدمات کے پیش نظر حیدر بیابانی کی کی شخصیت اور خدمات اس عنوان پر ناگپور یونیورسٹی سے ڈاکٹر اظہر حیات کی نگرانی میں محترمہ شہناز قاضی نےڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ حیدر بیابانی صاحب کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف میں ملک کی کئی ادبی اکادمی اور انجمنوں نے انعامات و اعزازات سے نوازا ہے۔
سادگی و خوش بیانی حیدر بیابانی کے نزدیک کلام و بیان کا بنیادی وصف تھا۔
انھوں نے بچوں کی ذہنی و جسمانی تعلیم و تربیت اور صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لئے صاف، سادہ اور عام فہم زبان میں ادب قلمبند کیا۔
ان کی نظر میں بچے ملک کا وہ قیمتی اثاثہ ہوتے ہیں جن سے آنیوالا معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ جب بچوں پر محنت کی جاتی ہے ان کے لیے صحت مند ادب تخلیق کیا جاییں تو اس دور کے معمار قابل ستائش اور قابل احترام ہے ان ہی بصیرت انگیزی کے مظہر حیدر بیابانی جنھوں نے بچوں کی ذہنی تربیت اور اخلاقی اقدار کی تعلیم کے لئے اپنا قلم ایسی کہانیاں اور نظمیں لکھنے میں لگایا جس کے ذریعہ نہ صرف بچوں کی بہتر تربیت آسان ہوتی گئی ساتھ ہی بچہ ماحول دوست بنتا گیا اور اللہ رب العزت کی عظمتوں اور اس کی دی ہوئی بیش بہا نعمتوں کا بھی ادراک کرنے کے قابل بنے لگا۔ آج کے مسابقتی جدید تکنیکی دور میں بھی روایات۔ تہذیب اور کردار سازی و شخصیت سازی کو مقصد بناکر مسلسل ادب اطفال برائے زندگی تشکیل کرنا حیدر بیابانی کا خاصہ رہا۔ ادب اطفال میں بہترین ثمر آور اضافہ کرنے والی شخصیت آج بتاریخ 19 جنوری صبح صادق پانچ بجے ادب دنیا کو مغموم و سوگوار کرکے چلی گئی۔
ادب میں یہ خلا ایک ستون کے ہل جانے کے مصداق ہے جس کا پورا ہونا ناممکن ہے۔
اس سانحہ ارتحال پر نہ صرف شہر اچل پور یا ودربھ رنجیدہ ہے بلکہ یہ ادب دنیا کا بڑا نقصان ثابت ہوا۔ اس خبر کو سننے والا ہر فرد غمزدہ ہوگیا اس سانحہ کی خبر سے ادبی حلقے کی ادب نواز شخصیات بھی بہت متاثر ہوئیں۔
اس سانحہ کی خبر سن کر فعال و سرگرم ادیب اطفال سراج عظیم صاحب مغموم ہوکر لکھتے ہے کہ۔
"میرے لئے ذاتی نقصان ہے۔ ادب اطفال کا ایک مضبوط ستون ڈھے گیا۔ آج ادب اطفال میں اتنا بڑا خلاء پیدا ہوگیا ہے کہ اس کا پر ہونا بہت مشکل ہے۔ مگر حیدر بیابانی نے ادب اطفال میں اپنا بہت بڑا سرمایہ چھوڑا ہے۔ جو ادب اطفال میں ان کا نام زندہ رکھے گا۔ "
معروف ادیب محقق اور نقاد غلام علی بیابانی حیدر بیابانی کے انتقال کو ادب اطفال میں ایک خلا مانتے ہے۔
ادب اطفال کے لئے ہوے اس عظیم سانحہ پر حافط کرناٹکی اس طرح حیدر بیابانی کے خدمات کا اعتراف کرتے ہیں کہ۔
"ادب اطفال کے بے لوث خدمت گار حیدر بیابانی کی وفات سے ادب اطفال کا آسمان سُونا ہوگیا۔ وہ ادب اطفال کے آسمان کے روشن ستارے تھے۔ "
جناب رونق جمال صاحب نے حیدر بیابانی صاحب کے اس دارفانی سے کوچ کرنے کو اردو ادب کا بہت بڑا نقصان کہا۔ اسی طرح حیدر بیابانی صاحب کو جناب امان الحق بالاپوری خراج عقیدت پیش کرتے ہوے آپ کے اوصاف حمیدہ کو قلمبند کرتے ہے ملاحظہ فرمائیں۔
ذہنوں کی تربیت کا سبب تیری شاعری
بچوں کی ذہنیت کا سبب تیری شاعری
اخلاقیت کا درس قلم سے ترے عیاں
انسانیت کا درس قلم میں ترے نہاں
بخشی ترے کلام نے ذہنوں کو تازگی
لفظوں کے انتخاب میں برتی ہے سادگی
ادیب اطفال جناب أنصار احمد معروفی صاحب حیدر بیابانی صاحب کے انتقال پر لکھتے ہے کہ۔
"ادب اطفال لکھنے والوں کےلئے حیدر بیابانی کی شخصیت بہت مشہور و معروف رہی ہے۔ ان کی وفات سے اردو ادب اطفال کا عظیم خسارہ کہاجاۓ گا۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کی بخشش فرمائے آمین."
اس سانحہ ارتحال پر جناب اقبال نیازی صاحب رقمطراز ہے۔
"حیدر بیابانی صحیح معنوں میں ادبِ اطفال کے ایک بے لوث سپاہی تھے۔۔اُن کی رحلت ادب اطفال کا بڑا نقصان ہے۔۔اللہ تعالیٰ اُنہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ عطا فرمائے۔۔۔ آمین۔۔"
ادب دنیا سے وابستہ ہر شخص اس سانحہ پر غمگین ہوگیا ادیب اطفال جناب مشتاق کریمی صاحب کہتے ہیں کہ حیدر بیابانی صاحب نے اپنے قلم سے بیاباں کو گلشن بنادیا تھا۔
شاید ادب کا یہ خلا پورا نہ ہو۔حیدر بیابانی کا ماننا تھا
اللہ راضی ہوجائے کچھ ایسا کام کرجائیں کہ نسل نو میں ہماری قدریں پہنچ جائیں۔ ایسی تعمیراتی سوچ کا ملکہ رکھتے تھے حیدر بیابانی یقیناً ان کا مقصد اور ان کا ادبی اثاثہ نسل نو کے تربیت میں بہترین زادراہ ثابت ہوں گے۔
یہ رشحاتِ رشیدی ادب میں عطیات حمیدی سے کم نہیں ہیں۔
رب کائنات سے دعاگو ہوں کے ان کے آراستہ کی گی ادبی چمن کو ہمیشہ شاداب رکھے اور ان حسنات
کا بہترین اجر عطا فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔

Post a Comment

4 Comments

  1. بہترین خراج عقیدت 🌹

    ReplyDelete
    Replies
    1. عزیزی شبانہ صاحبہ ممنون ہوں۔

      Delete
  2. انتہائی عرق ریزی سے بہترین تبصرہ پیش کیے ہیں کوثر حیات صاحبہ!مبارکباد پیش کرتا ہوں کہ ادب پر آپ کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔ لوگ باگ سوچتے رہتے ہیں اور آپ قلم سے صفحہ قرطاس پر حروف رقم کر دیتے ہیں۔ یقیناً لکھنا اور بر وقت لکھنا یہ آپ ہی کا خاصہ ہے۔
    مرحوم حیدر بیابانی کی ادبِ اطفال کی خدمات یقیناً قابل قدر ہیں ۔زمانہ دیر تک انھیں یاد رکھے گا۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کے پر خلوص کلمات کے لئے متشکر ہوں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا کثیرا

      Delete