Ticker

6/recent/ticker-posts

لکڑ ہارا اور شیر (منظوم حکایت سعدی شیرازیؒ) ✍️ ریاض انور بلڈانوی

لکڑ ہارا اور شیر
(منظوم حکایت سعدی شیرازیؒ)
ریاض انور بلڈانوی

ہےسعدی ؒکی یہ اک انوکھی حکایت
کہانی بھی دلچسپ ہے یہ نہایت
کسی شہر میں ایک تھا لکڑ ہارا
کہ جو لکڑیاں بیچ ، کرتا گزارا
چلا ایک دن لکڑیاں بن سے لانے
مناظرتھے جنگل کے بے حد سہانے
صدا شیر کی اس کو آئی بھیانک
رکا چلتے چلتے وہ ڈر کر اچانک
نظر سہم کر اپنی جونہی گھمائی
تو پنجرا بڑا سا دیا اک دکھائی
لگا کانپنے دیکھ کر وہ یہ منظر
تھااک شیرخونخوارپنجرےکےاندر
کہاشیرنے ،مجھ سےہرگز نہ تو ڈر
نہ گھبرا ، میں ہوں بند پنجرے اندر
یہ احسان کرمجھ پہ اےنیک بھائی
مجھے قید سے تو دلا دے رہائی
نہ بھولوں گا تا عمر احسان تیرا
ہوں بھوکا بہت ، ہے برا حال میرا
لکڑ ہارا بولا کہ تو ہے درندہ
نہ چھوڑےتوہرگزکسی کوبھی زندہ
بھلاہے،جو ہے قید پنجرے کےاندر
مری جان لے گا ، جو نکلا تو باہر
ہوا شیر گویا ، نہ رکھ ڈر ذرا سا
ترس کھا مرےحال پر کچھ خدارا
کرو رحم مجبور پر تو بھلا ہے
جو نیکی کرو، اجر اس کا بڑا ہے
نہ رکھ خوف نقصاں کادل میں ذرا تو
چھڑا قید سے،،کر یہ احساں بڑا تو
غرض رحم آ ہی گیا اس جواں کو
کہا ،کریہ وعدہ کہ بخشے گا جاں کو
ملی شیر کو قید سے جب رہائی
تو خوش ہوکے لی اس نے اک انگڑائی
کہا، بھوک سے حال ابتر ہے میرا
تجھے کھاؤں گا،خون پینا ہے تیرا
تو ڈر کر جواں نے کہا نیک بھائی
چھڑایا تجھے قید سے ،کی بھلائی
صلہ خوب نیکی کا تو دے رہا ہے
یوں جاں اپنے محسن کی جولے رہاہے
کہا شیر نے، فیصلہ ہے یہ پکّا
ہوں بھوکا بہت تجھ کو کھاؤں گا کچّا
جواں نے کہا گر یہ مرضی ہے تیری
خدا کے لیے شرط اک مان میری
چلو ، ہم کسی پیڑ کے پاس جائیں
یہ جو ماجرا ہے اسے سب سنائیں
جوہو فیصلہ ، میں اسے مان لوں گا
کہے پیڑ گر، شوق سے جان دوں گا
غرض پیڑ سے جا کے قصہ کہا سب
یہ کی التجا ، فیصلہ تو سنا اب
وہ بولا ، بجا شیر کا فیصلہ ہے
تجھے گروہ کھالے تو بالکل بجا ہے
میں کرتاہوں انساں پہ احسان اکثر
مگر مجھ پہ برسائے وہ خوب پتھر
مجھے کاٹ دیتا ہے، ظالم بڑا ہے
ہے احساں فراموش ، بے حد برا ہے
مجھی سےیہ پھل اورلکڑی بھی پائے
میں نیکی کروں ،مجھ پہ آری چلائے
ہےخود غرض بےحد ، یہ انسان پاگل
یہ اپنی غرض کے لیے کاٹے جنگل
ہے ناداں، مگرخود کوسمجھے یہ دانا
بڑا مطلبی ہے، غرض کا دِ وانہ
سزا سخت دینا اسے لازمی ہے
بُرا جان داروں میں یہ آدمی ہے
یہ بولا جواں دل میں ، ہو خیر یارب
بچا لے کہ تو ہی مدد گار ہے اب
یوں گویا ہوا، یہ غلط ہے سراسر
چلو پوچھ لیں ، بہتے دریا سے جاکر
سنایا جو قصہ تھا ، دریا کو سارا
کہا فیصلہ تم کرو اب ہمارا
تو دریا بھی بولا کہ ہے شیر حق پر
یہ لے جان تیری ، یہی بس ہے بہتر
مرے آب سے فیض پاتا ہے انساں
مجھی کومگرخوب پہنچائے نقصاں
مرےدم سےسیراب ہواس کی کھیتی
جئیں میرےپانی سےاس کےمویشی
یہ ڈالے مگر گندگی مجھ میں لاکر
کرےظلم مجھ پریہ احساں بھلاکر
سزا اب یہ پائے ، یہ تو بجا ہے
کہ احساں فراموش انساں بڑا ہے
کہا نو جواں نے یہ دریا ہے ناداں
کہے جو ہے احساں فراموش انساں
غلط کہہ رہا ہے یہ دریا سراسر
نہ مانوں گا میں فیصلہ یہ برادر
چلو گاے سےپوچھ لیتےہیں چل کر
سنیں فیصلہ ماجرا یہ بتا کر
کہا گاے نے ، شیر بالکل ہے سچّا
بھلا ہے کہ کھائے اسے شیر کچّا
یہ ظالم ہے ایسا بھلا دےجواحساں
برائی کرے ، بدلے نیکی کے ناداں
مری ذات سے فیض کرتا ہے حاصل
مگر دور کرتا نہیں میری مشکل
دہی ،دودھ،مکّھن ،مجھی سےیہ پائے
مددسےیہ بچھڑوں کی ،فصلیں اگائے
یہ پائے غذا مجھ سے، پیسہ کمائے
جو ہوجاؤں لاغر ، تو پھربیچ کھائے
یہ فطرت ہے تیری ، بھلا دے احساں
ہیں بدظن سبھی تجھ سےنادان انساں
کسی سے نہیں تیرا برتاؤ اچھا
بجا ہے جو کھائے ،تجھے شیر کچّا
سنی گاے کی بات بولا جواں یوں
یہ باتیں ہیں جھوٹی،میں مانوں انہیں کیوں
کہاشیر سے ،مجھ پہ کررحم تھوڑا
نہ مجھ پر چلا ،یوں ستم کا ہتھوڑا
تھی آفت میں جاں ،پھربھی ہمت نہ ہاری
کہا شیر سے، بات ہےجھوٹ ساری
مجھے آخری ایک موقع تو دے دے
نہ ہو فیصلہ اب ،تو پھر جان لے لے
اچانک دیا آدمی اک دکھائی
حقیقت جواں نےاسے سب سنائی
سنی غور سےبات اس نےجواں کی
کہا شیر سے ، ہانکتے ہو کہاں کی
وہ پنجراکہاں ہے،ذراچل کےدیکھوں
تھےتم بندکیسے؟ذرامیں بھی سمجھوں
کہا شیرنے ، ٹھیک ہے، چل کے دیکھو
میں جھوٹانہیں ہوں،مری بات سمجھو
غرض اس نے وہ پنجرا آ کے دیکھا
مخاطب ہوا شیر سے ، ہنس کے بولا
معمّہ ہے میری سمجھ سے یہ باہر
سمایا تو کس طرح پنجرے کے اندر
نہ آئےگا دل کو یقیں میرے تب تک
تجھےبندپنجرےمیں دیکھوں نہ جب تک
کہا شیر نے بات سچّی ہے میری
نہ جانے سمجھ کو ہوا کیا ہے تیری
یہ کہہ کرگھساجونہی پنجرےکے اندر
کیا آدمی نے اسے بند بڑھ کر
یہ دیکھا تو غرّا کے یوں شیر بولا
کیا خوب تو نے مرے ساتھ دھوکا
کہا آدمی نے کہ تو ہے درندہ
نہیں چھوڑتاجوکسی کو بھی زندہ
اسےبھی نہ بخشے، تجھےجو بچائے
کہ تو اپنے محسن کو بھی مارکھائے
رہے قید میں تو اسی میں بھلا ہے
مناسب ترے واسطے یہ سزا ہے
غلط ہے یوں موذی پہ احسان کرنا
گو خود موت کا اپنی سامان کرنا
اٹھاتا ہے احساں فراموش ذلّت
یہ ہے غیر ممکن کہ پائے وہ عزّت


Post a Comment

0 Comments