Ticker

6/recent/ticker-posts

مِٹّی کی خوشبو(افسانچہ ) ✒️ نعیمہ جعفری پاشا

1️⃣
مِٹّی کی خوشبو
افسانہ نِگار ✒️ نعیمہ جعفری پاشا
ایونٹ نمبر27 🇮🇳 حُبّ الوطنی/دیش بھکتی
سیکنڈ راؤنڈ
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر1
مِٹّی کی خوشبو(افسانچہ ) ✒️ نعیمہ جعفری پاشا

انجینیرنگ پاس کرنے کے بعد بھی نوکری نہ ملی۔ لوگوں نے کہا ’’ ایم بی اے کرلو ۔انجینیر تو آجکل تھوک کے بھاؤ ملتے ہیں۔ ‘‘
رامش کو بات میں صداقت نظر آئی ۔کئی مثالیں تھیں جہاں اس مرکب کے ذریعے لوگ اچھا کما رہے تھے۔
رو دھو کے mba بھی ہوگیا اور درجنوں درخواستیں بھی دیدیں ۔ اماں کو تو کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ مارے چاؤ کے پاؤں میں بیڑی بھی ڈال دی کہ آنے والی اپنے نصیب کا لے کر آئے گی۔
سال گذرا تو ہاتھ میں ہتھکڑی بھی پڑ گئی لیکن نصیب نہیں کھلا بلکہ نبیلہ جس غیر تسلیم شدہ اسکول میں پڑھاتی تھی ،بیٹا ہونے کے بعد وہاں سے بھی چھٹی مل گئی ۔اماں کی قلیل فیملی پینشن اور چار کھانے والے۔
رامش کے ایک کینیڈا میں بسے دوست نے اصرار کیا تو رامش اماں کے جہیز کے کڑے بیچ کر پردیس پہنچ گیا۔ تقدیر نے یاوری کی ،وہاں اچھی نوکری مل گئی۔دوسال میں اتنا ہوگیا کہ خاندان کو بھی لے جاسکتا تھا۔
چھٹی لے کر گھر آیا ۔ماں، بیوی، بچے کا ویز ا لگوایا۔
اماں نے سنا تو صاف انکار کردیا۔
’’بیٹا تم بیوی بچے کے ساتھ سدھارو ۔میں کہیں نہیں جاؤں گی ۔اس مٹی میں میرا نال گڑا ہے ، میرے ماں باپ دفن ہیں ، تمہارے ابّا کی قبر ہے ۔اس مٹی کی خوشبو میری سانسوں میں بسی ہے ۔‘‘
نبیلہ امّاں کا سامان پیک کر رہی تھی ۔رامش نے مزاحاً کہا
’’ سنو ایک تھیلی میں اماں کے لیے یہاں کی مٹی بھی پیک کردو ۔اماں کو جب وطن کی یاد آئے گی تو سونگھ لیا کریں گی ۔‘‘
لیکن امّاں ٹس سے مس نہیں ہوئیں ۔روانگی میں ایک دن رہ گیا تھا ۔رامش سمجھا کر ہار گیا تھا ۔تب ہی ننھا عروج آکر امّاں کے پاؤں سے لپٹ گیا ۔امّاں نے آنسو بھری آنکھوں سے اسے دیکھااور اٹھا کر کلیجے سے لگالیا ۔’’ٹھیک ہے بیٹا ، لے چلو جہاں چاہو ۔‘‘
رامش نے سکھ کی سانس لی اور بیٹے کو لے کر خوابگاہ میں چلا گیا۔
اگلی صبح نبیلہ اماں کے لیے چائے لے کر گئی تو امّاں سکون کی نیند سو رہی تھیں۔
مِٹّی کی محبت پوتے کی محبت پر غالب آچکی تھی۔
✍️✍️✍️

Post a Comment

0 Comments