Ticker

6/recent/ticker-posts

فنِ خطاطی میں تابانیاں بِکھیرنے والا فنکار : امتیاز انصاری ✍️ خواجہ کوثر حیات

فنِ خطاطی میں تابانیاں بِکھیرنے والا فنکار :  امتیاز انصاری ✍️ خواجہ کوثر حیات
فنِ خطاطی میں تابانیاں بِکھیرنے والا فنکار : امتیاز انصاری
فنِ خطاطی میں تابانیاں بِکھیرنے والا فنکار :  امتیاز انصاری ✍️ خواجہ کوثر حیات
✍️ خواجہ کوثر حیات
اورنگ آباد (دکن) انڈیا
Email:khwaja.kauser@gmail.com

کچھ علاقے قدرتی مناظر و دلکشی کی اور کچھ تاریخی خصوصیات سے پہچانے جاتے ہیں مگر مہاراشٹر کا شہر شہادہ جسے وہاں کے رہنے والوں نے ایک منفرد شناخت عطا کی ہے۔ ان شخصیات نے اپنے فن میں مہارت کے ذریعہ خود کے ساتھ شہادہ کا نام بھی روشن کیا اور دوسروں کیلئے مشعل راہ بنیں۔ جیسے شہادہ شہر نشاط شہادوی کا شہر کہلاتاہے۔ نشاط شہادوی کی کتاب”امربیل“ میں مشہور شاعر ساحر لدھیانوی نے ’میرا ہمدم میرا دوست‘عنوان سے شہادہ و نشاط کی شاعری پر5 صفحات پر مشتمل مضمون لکھا ہے۔ اسی طرح شہادہ کے مرحوم پروفیسر احمد انصاری صاحب ممبئی یونیورسٹی میں دو دہائی سے زائد عرصے تک بحیثیت پروفیسر خدمات انجام دیں۔ وہ ممبئی یونیورسٹی میں شعبہ فارسی کے صدر شعبہ رہ چکے ہیں۔ نشاط ہائی اسکول شہادہ کے ہونہار طالب علم ”فخرِ نشاط“ 2013ء میں یو پی ایس سی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے شہادہ شہر کا نام روشن کیا۔ فی الوقت شکیل انصاری صاحب شہر جلگاؤں میں بحیثیت ڈپٹی کمشنر آف اِنکم ٹیکس آفیسر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر اور بھی چمکتے ستارے ہیں ان میں 2005 ء، 2008 ء اور 2011 ء میں ’ینگ سائنٹسٹ ایوارڈ‘ منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور بابا ایٹومک ریسرچ سینٹر کی جانب سے ڈاکٹر سیّد ریاض علی ظفر علی صاحب، شہادہ کو ایوارڈز تفویض ہوئے جنہوں نے مائکرو بائیلوجی میں پی ایچ ڈی کی جس کا عنوان”زمین میں موجود بیکٹیریا“ تھا۔ ڈاکٹرسید شجاعت علی عبداللطیف نے بعنوان ”اردو میں قرآنی تفاسیر و تراجم کا ارتقاء“ نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی جلگاؤں سے 2006ء میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔اسی طرح ڈاکٹر خلیل احمد عبد الغفار شاہ جن کا پی ایچ ڈی کا موضوع”اردو ناول میں عصری زندگی کی عکاسی و ترجمانی“ کے تحت سن 2006ء میں نارتھ مہاراشٹر یونیورسٹی جلگاؤں سے پی ایچ ڈی مکمل کی۔ شہادہ میں پہلی اردو اسکول کا قیام 1971 میں بنام نیشنل ہائی اسکول، عمل میں آیا۔اس اسکول کی تحریک کے روح رواں کے طور پر مرحوم قاری مولانا محمد ایوب اعظمی صاحب کی محنتوں کا ثمرہ کہا جا سکتا ہے۔ مزید یہ کہ اسکول کی بنیاد میں صدر پٹھان یعقوب خاں عزیز خان صاحب و ادارے میں مزید پختگی ومستحکم بنانے میں مرحوم اختر منصوری صاحب کی کاوشیں بھی قابل قدر تھیں۔
آج ہم جس فنکار کو روبرو کروارہے ہیں ان کا مکمل نام انصاری امتیاز محمد ایاز ہے۔ مگر فن خطاطی کی دنیا ان سے ”امتیاز انصاری“کے نام سے مانوس ہے۔ ”امتیاز انصاری“نفیس قلم اور اعلیٰ پایے کے خوش نویس ہیں۔چابک دست اور حساس قلم ان کے الفاظ کے حسن کو دوبالا کر دیتا ہے۔ان کی فنکارانہ صلاحیت نے فن خطاطی کو مزید نادر فنی نمونوں سے مالا مال کیا ہے۔یہ فن جناب امتیاز انصاری کو بچپن ہی سے رہا۔ آپ نے خوشخط تحریر کے بنا پر دسویں بورڈ کے امتحان 1992ء میں اسکول میں اوّل مقام حاصل کیا۔اور یہ سلسلہ بچوں نے بھی جاری رکھا۔ یعنی فرزند’مَلِک انصاری‘اور دختر ’سیما پروین‘نے بھی دسویں بورڈ کے امتحانات میں اسکول سطح پر اوّل مقام حاصل کیے۔
آپ تدریس کے مقدس پیشہ سے وابستہ ہے۔ نشاط ہائی اسکول وجونیئر کالج آف سائنس،شہادہ میں بحیثیت معلم 1997ء سے اپنی تدریسی سفر کا آغاز کیا۔ مسلسل 15 سال تک شہادہ شہر سطح پر خوشخطی مقابلے کا کامیاب انعقاد جس میں ہر سال 700 سے زائد طلباء کی شرکت ہوتی ہیں۔ادارہ نیوز، شہادہ کی جانب سے ”نالج ڈے“ کے موقع پر شہادہ شہر کی نیشنل ہائی اسکول، ایس زیڈ قاضی گرلس ہائی اسکول، سر سید ہائی اسکول، نشاط ہائی اسکول، صفہ پرائمری اسکول، سٹی ہائی اسکول کے طلباء کا مشترکہ خطاطی ورکشاپ کا انعقاد عمل میں آیا۔اور آج شہر شہادہ کو جناب انصاری امتیاز صاحب نے فن خطاطی کے اعلی نمونوں کے ذریعہ نہ صرف ملک بھر میں بلکہ بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
بیشک انسان اگر اپنے شوق کو توجہ و مشق سے انجام دیں تو یہی شوق مسلسل ریاضت سے نکھر کر ہنر بن جاتا ہے اور نہ صرف اپنا لوہا منواتا ہے بلکہ پہچان بن جاتا ہے۔انصاری امتیاز کو بچپن ہی سے خوشخط تحریر کا شوق تھا۔ ابتدا میں ان کے چچازاد بھائی حاجی محمد اسلم انصاری کی خوشخط تحریر نے ان کی دلچسپی میں مزید اضافہ کیا۔ پھر اسی دورانِ انہیں شہر دھولیہ میں محترم توّاب انصاری صاحب کے ادارے ”سیوا گروپ ولی پورہ“ کی جانب سے خط نستعلیق کلاس میں شرکت کا موقع ملا جہاں انہوں نے یکسوئی سے مشق کی وہیں نستعلیق کے پہلے استاد مرحوم قیس سرفرازی صاحب سے نوک پلک سیکھنے کا موقع ملا۔ اور وہیں سے اس شوق نے جنوں کی شکل اختیار کی۔ اس کے علاوہ دھولیہ کے استاد جناب نعیم ابن علیم صاحب سے بھی اصلاح لی۔ امتیاز انصاری نے خطاطی کا باضابطہ آغاز 18 /سال کی عمر سے شروع کیا۔حروف اور لفظ کا رکھ رکھاو اسکی بندش، تناسب و توازن کا کچھ اس طرح خیال رکھتے ہیں جو تحریر کو پرکشش اور جاذب نظر بنادیتا ہے۔
ویسے تو فن خطاطی کی ترقی کا سہرا بعض مخصوص علاقوں اور قوموں کے سر ہے۔ خطاطی کو چینی، جاپانی، مصری اور عرب جیسی طباع قوموں نے آرائشی آرٹ کے درجہ پر پہنچا دیا۔مغلیہ دور میں اس فن کی بڑی قدر شناسی ہوئی۔ ہر عمارت اور مسجد کو خوبصورت نقاشی و خطاطی سے مزین و آراستہ کیا جاتا۔ فن خطاطی نے عالمی سطح پر مسلمانوں کو تہذیبی و ثقافتی شناخت بخشی۔ جہاں مغلوں نے اس فن کو نکھارا وہیں، ایرانیوں نے اسے آرائش و جلا بخشی۔
ہندوستان میں نستعلیق،نسخ اور ثلث کا عموما استعمال ہوتا ہے۔ البتہ اسلامی ممالک میں خط ثلث جلی و خفی نیز ایرانی نستعلیق و خط دیوانی خفی و جلی کا مگر عام طور پر خطاطی میں خط نستعلیق، خط ثلث، خط نسخ، خط دیوانی میں کام کیا جاتا ہے۔ خط دیوانی ہی امتیاز انصاری کا پسندیدہ خط فن میں رہا۔آپ کے فن کی قدر شناسی میں ’مرحوم قیس سرفرازی دھولیوی‘یہ پہلی اعزازی نستعلیق سند سیوا گروپ،ولّی پورہ، دھولیہ کی جانب سے عطا ہوئی۔ جناب امتیاز انصاری صاحب آبروئے قلم فاؤنڈیشن، شہادہ (انڈیا) اس ادارہ کے صدر ہیں۔اور اس کے تحت وہ خطاطی مقابلوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ ''کائنات خوشنویساں آن لائن خطاطی گروپ کے ذریعے ہندوستان سے تمام شوقین خطاطی کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کروائے۔ ان کی فنکارانہ صلاحیت کو دیکھتے ہوئے کرناٹک ریاست سے محترم عابد برقع پوش اور محترم افسر مُلّا صاحب نے انھیں کرناٹک کے سو سے زائد اساتذہ کو آن لائن خطاطی کی باریکیاں سکھانے کے لیے بطور خطاطی استاد منتخب کیا۔
آج بھی قدیم شاہی عمارتوں اور مساجد کے ستونوں پر بنائے گئے طغرے ہمارے جمالیاتی ذوق کو تسکین بخشتے ہیں۔ امتیاز انصاری کے ذریعہ ویٹا ضلع سانگلی کی ”عرفہ مسجد“کے منبر پر کی گئی کلمہ طیبہ کی خطاطی ہر کسی کے لیے دلچسپی کا مظہر بن گئی ہے۔ جناب امتیاز صاحب کو فن خطاطی کے جوہر ملک اور بیرونی ملک پیش کرنے کے سنہرے مواقع ملے۔ اسی ضمن میں جئے پور انٹرنیشنل خطاطی فیسٹیول جو کہ فروری 2020 میں منعقد ہوا تھا اس میں شرکت کی اس فیسٹیول میں ایران، دبئی، ترکی، عمان، بحرین، الجیریا، بنگلہ دیش نیپال وغیرہ کے آرٹسٹ بھی شامل تھے۔ اس فیسٹیول میں آپ کی فنکارانہ خطاطی کے نمونوں کو پسندکرکے مِسز کِرن سونی صاحبہ (آئی اے ایس) ڈی جی جواہر کلا کیندر جئے پور کے ہاتھوں مومینٹو اور انٹرنیشنل سرٹیفیکٹ سے سرفراز کیا گیا۔
امتیاز صاحب کو ایس سی ای آر ٹی گوا کی جانب سے اردو خطاطی کی بنیادی مہارتوں پر مبنی تین روزہ ورکشاپ میں بطور خطاط منتخب کیا گیا۔اس موقع پر گوا کے 45/ اردو میڈیم کے اساتذہ شامل تھے۔ اس ورکشاپ میں جناب محترم این جی ہوننیکری ڈائریکٹر آف ایس سی ای آرٹی گوا کی دستخط شدہ سند و اعزازت سے سرفراز کیا گیا۔
امتیاز انصاری کی خطاطی کی دلکشی اور تابانیاں ہمیں ان کے تیار کردہ کتابوں کے دلکش ٹائٹل، خوشنما کتبے اور دل آویز طغروں میں نظر آتی ہیں۔ان کے فن کا مظاہرہ کئی عظیم ہستیوں کے نام کی خطاطی اور اداروں کے مونو گرامس اور چینل کے Logoمیں نظر آتا ہے۔ جسکی چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔ آپ کے خطاطی کا نمونہ’نسبت آنلائن‘ آرٹ فیسٹیول دہلی کے آفیشل صفحہ کیلئے منتخب کیا گیا یہ اعزازکی بات ہے۔ اسی طرح امتیاز انصاری کی برو سے جناب ڈاکٹر حبیب الرحمن نیازی صاحب کی کتاب جو راجستھان کے شعرا اور ادبا کے مضامین کا مجموعہ ہے اس کا عنوان ’نقوش افکار‘ بہت خوبصورتی سے بنایا گیا۔
بہترین خطاطی کی پیشکش پر حال ہی میں انہیں ایران کلچر ہاؤس نئی دہلی کے ثقافتی مشیر کے ذریعے ایک توصیفی سند ایران سے موصول ہوئی ہے۔ اس سند کی خاصیت ہے کہ خالص فارسی زبان کا استعمال کیا گیا ہے اور ایرانی نستعلیق میں لکھا گیا ہے۔معروف شاعر سلیمان جاذب (دبئی) کی ویب سائٹ ”آن لائن اردو ڈاٹ کام“ کے Logo ڈیزائن سیلیکشن کے بعد اعزازی سرٹیفکیٹ سے امتیاز انصاری کو نوازا گیا۔یہی نہیں کلچرل آرٹ آف انڈیا کی جانب سے منعقدہ ”انڈیااورجارڈن“کی مشترکہ انٹرنیشنل نمائش میں امتیاز انصاری کو شرکت کا موقع ملا اور واعزاز سے نوازا گیا۔انٹرنیشنل قرآن خطاطی نمائش میں 30 ممالک کے خطّاطین کی شمولیت ہوئی۔جس میں ہندوستان سے امتیاز انصاری کی خطاطی کا انتخاب بھی عمل میں آیا ہے۔
اسی طرح بنگلور کی جانب سے ”Callithon“عربی خطاطی مقابلہ میں شرکت کرکے سند حاصل کی۔کلچرل ٹو آرٹ آف انڈیا کی جانب سے جولائی 2021 ء میں منعقد پہلی آن لائن انٹرنیشنل قرآن خطاطی نمائش میں شرکت کی۔ بہترین خطاطی کا ایوارڈ سے سرفراز کیا گیا۔معروف ڈرامہ نگار ومصنف محترم وجاہت عبد الستار صاحب شولاپور کی طنزو مزاح کتاب بنام ”گستاخیاں“ کے سرِ ورق کی خطاطی کی۔محترم عارف حُسین نیازی صاحب جے پور راجستھان کے چینل جہان محبوب کے نعت و منقبت کی خطاطی کی۔ ادبی انجمن و ادبی چینل بزم تلمیذ ادب،اورنگ آباد(دکن) اور نعمت اردو اسکول وجونیر کالج خلد آباد(اورنگ آباد) کا خوبصورت مونوگرام LOGO ڈیزائن نیز خانم آرٹ گیلری الہ آباد یوپی کی آرٹ گیلری کے لیے قرآنی آیتوں پر مبنی خطاطی طغروں کا انتخاب نیشنل سطح کی نمائش کے لئے کیاگیا۔ خطاطی میں مہارت اور اس خوبصورت وضع ترتیب کے متعلق امتیاز انصاری سے پوچھا گیا تو وہ کہتے ہیں ؎
نامی کوئی بغیر مشقت نہیں ہوا
سو بار جب عقیق کٹا تب نگیں ہوا
”فن خطاطی کی اصل روح مسلسل مشق و جدوجہد ہے۔ خطاطی کا ذوق رکھنے والے احباب بہترین قسم کی قلم و روشنائی کے ذریعے صفحہ قرطاس پر اپنے ہنر بکھیر سکتے ہیں۔جیسے سیلی قلم، جاوی قلم، ہینڈم قلم یہ خطاطی کے لیے سب سے اعلیٰ و مفید قلم ہیں۔ دیگر یہ کہ شہرت روشنائی، ایران و ترکی کی روشنائی بھی قابل قدر ہے۔ آہار پیپر، سنہیم پیپر، جوٹ پیپر نیز ہینڈمیڈ پیپر کے علاوہ چمڑے پر بھی اعلیٰ خطاطی کی جا سکتی ہے۔“
بیشک دلکش، پرکشش اور خوبصورت خطاطی ہمارے جمالیتی ذوق کو تسکین بخشتی ہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کے اس برق رفتار عہد میں بھی امتیاز انصاری طغروں اور کتبوں پر اپنی انگلیوں کی جو فنکاری پیش کی ہیں اسے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر نہ صرف سراہا گیا بلکہ اعزازات سے بھی نوازا گیا ہے۔امتیاز انصاری کے بنائیں ان نایاب شاہکار طغروں کو علمی، دینی اور ادبی حلقوں میں خوب پذیرائی ملی۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں ہر کام مشینوں کی بدولت تیزی سے انجام پارہا ہے۔ پھر بھی فن خطاطی کی دلکشی اور تابانیاں اپنی منفرد جاذبیت قائم ودائم رکھے ہوئے ہیں۔
خطاط اپنے فن کے اعلی نمونے طغروں اور کتبوں پرنقش کرکے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر پذیرائی حاصل کررہے ہیں۔ ان نایاب شاہکار طغروں کو نہ صرف زینت کے طور پر آراستہ کیا جاتا ہے۔ آج اس فن کو ذریعہ رزوگار کے طور پر بھی فروغ مل رہا ہے۔اوراس ہنر کی باضابطہ تربیت حاصل کرکے سینکڑوں بہترین خطاط اور خوش نویس تیار ہو رہے ہیں۔
٭٭٭

Post a Comment

14 Comments

  1. "محنت اتنی خاموشی سے کریں کہ کامیابی شور مچادے ۔"
    کسی دانشور کے اس قول کو عملی شکل میں پیش کرنے والی محنت کش شخصیت ہیں رفیقِ محترم امتیاز انصاری سر شہادہ ۔ برسوں پہلے کالج کے زمانے میں والد صاحب کے پاس دوات قلم لے کر مشق میں منہمک امتیاز انصاری سے ملاقات ہوئی ۔ اس کے بعد سے آج تک مختلف وجوہات کے ساتھ مسلسل رابطہ رہا ۔ شہر دھولیہ ہو ، شہادہ ہو یا پھر ادارہء بال بھارتی ۔ ہر ملاقات پر فنِ کتابت اور خطاطی کا جنون امتیاز انصاری کے ساتھ ساتھ ملا ۔ مسلسل محنت اور شوق انھیں اپنے فن میں امتیاز عطا کرتا گیا ۔ آج وہ جس مقام پر ہیں اسے راحت کے اس شعر کی عملی تفسیر کہا جائے تو بےجا نہ ہوگا کہ
    میں اپنے فن کی بلندی سے کام لے لوں گا
    مجھے مقام نہ دو خود مقام لے لوں گا

    خواجہ کوثر حیات کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے ایک سچے فنکار کی شخصیت کا اجمالی خاکہ پیش فرمایا ۔ ماہنامہ الفاظِ ہند کا بھی خصوصی شکریہ کہ اس شمارے کے ذریعے گمنام فنکاروں کے تعارف کا سلسلہ شروع فرما کر بے مثل خدمت انجام دی جارہی ہے ۔ اخیر میں اس دعا کے ساتھ اپنا قلم روکتا ہوں کہ امتیاز انصاری کے قلم کا فیضان یوں ہی جاری رہے ۔ نیز آپ کے زیرِ سایہ قوم کے طلبہ کے اندر رفتہ رفتہ دم توڑنے والے اِس فن کے تئیں محبت اور محنت کا جذبہ پیدا ہو ۔

    تحریر : ندیم ابن نعیم دھولیہ
    28 ستمبر 2021 منگل

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت ممنون و مشکور ہوں عالیجناب ندیم صاحب ۔یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے ناچیز کی کہ ادب اور فن کی قدآور شخصیات کے ہنر کی قدرشباسی کا حق ادا ہوسکے ۔

      Delete
  2. ہمیں آپ پر فخر ہے عالیجناب امتیاز انصاری صاحب تمام کرناٹک کے خوش نویس اساتذہ ٹیم کے طر ف سے مبارکباد قبول فارما ئیں الله آپ کو اور بھی ترقی عطا فرمائے

    ReplyDelete
  3. بہت شکریہ محترم ریحان کوثر صاحب کہ آپ نے اپنے بلاگ کے ذریعے پذیرائی کی۔ فن خطاطی کے موضوع کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کروایا۔ دیگر یہ کہ کوثر حیات صاحبہ نے مضمون کو صفحہ قرطاس پر اتنی خوبصورتی سے پرویا ہے کہ قارئین کے ذہن میں فن خطاطی کےتئیں قوس قزح تیار ہوتی ہے۔ اور وہ ذہن و دل میں رچ بس جاتی ہے۔ شکر گزار ہوں محبّی ندیم ابن نعیم صاحب کا کہ ان کے زرّین آرا و حوصلہ افزائی کلمات نے ایک نیا جوش بھر دیا ہے۔ محترم ضیا صاحب نیز محترم سید زین العابدین عرف عابد برقع پوش صاحب کے خیالات و محبتیں بھی قابل قدر ہیں ۔

    ReplyDelete
  4. امتیاز صاحب کا ٹیلی فون نمبر مل سکتا ہے ؟ برائے مہربانی عناعت فرما دیں

    ReplyDelete