1️⃣3️⃣
گھر کب آؤ گے؟
افسانہ نِگار ✒️ رخسانہ نازنین
(بیدر ۔کرناٹک)
ایونٹ نمبر 27 🇮🇳 حُبّ الوطنی/دیش بھکتی
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 13
گھر کب آؤ گے؟
افسانہ نِگار ✒️ رخسانہ نازنین
(بیدر ۔کرناٹک)
ایونٹ نمبر 27 🇮🇳 حُبّ الوطنی/دیش بھکتی
افسانہ نگار
واٹس ایپ گروپ کی پیشکش
افسانچہ نمبر 13
"مفت کی روٹیاں توڑنے بیٹھ گیا کم بخت ۔ ! سارا دن گاؤں کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ مٹر گشت کرتا ہے اور کھانے کے وقت حاضر ہوجاتا ہے ۔ !"
بڑے بھیا نے طنز کے تیر چلائے جو سلیم کے ساتھ ماں کے دل میں بھی گڑ گئے ۔ وہ چپ چاپ دستر خوان سے اٹھ گیا اور کھیتوں کی طرف جانے لگا ۔ راستے سے گزرتے ہوئے اسکی سماعتوں میں وہی سریلی دھن رس گھولنے لگی ۔ ببلو بھیا کی ہوٹل میں ریڈیو پر اسکا پسندیدہ گیت بج رہا تھا۔۔۔۔
"گھر کب آؤ گے؟
گھر کب آؤ گے؟"
اپنے دوست رامو کے ساتھ شہر جاکر اس نے یہ فلم دیکھی تھی اور بہت متاثر ہوا تھا۔
جب بھی یہ گیت سنتا اسکے دل میں یہ خواہش جاگ اٹھتی کہ وہ بھی اپنی بے کار زندگی وطن پر قربان کردے۔
پڑھائی میں اسکا دل نہیں لگتا تھا۔ جیسے تیسے دسویں جماعت میں کامیاب ہوگیا تھا ۔ بابا اور بھائی کھیتوں میں کام کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ وہ بھی انکا ہاتھ بٹائے مگر وہ اپنی لاابالی فطرت سے مجبور تھا۔ کسی کام میں اس کا دل ہی نہیں لگتا تھا۔ بابا ، بھائی، بھابیاں سبھی کڑوی کسیلی باتیں کرتے اور اسے نکمے پن کا طعنہ دیا کرتے۔
اور پھر ایک دن اسکی دلی تمنا پوری ہوئی ۔ گاؤں کے کچھ لڑکے فوج میں بھرتی ہونے شہر جارہے تھے ۔ وہ بھی ان میں شامل ہوگیا ۔ کڑے امتحانوں سے گزرنے کے بعد آخرکار وہ فوجی بن گیا اور سرحدوں پر تعنیات ہوگیا۔
اب گھر سے سندیسے آتے تھے، اسے تڑپاتے بھی تھے۔ اور سبھی پوچھتے تھے کہ
"گھر کب آؤ گے؟"
اچانک سرحد پر کشیدگی پھیل گئی اور فائرنگ کے تبادلے ہونے لگے جن کی زَد میں سلیم بھی آگیا۔۔۔
سرخ گلابوں سے سجا اسکا جسد خاکی گاؤں پہنچا تو ہر آنکھ نم تھی ۔ آج اس نے گاؤں کی شان بڑھا دی تھی ۔ ببلو بھیا کی ہوٹل میں وہی گیت بج رہا تھا۔۔۔۔
"گھر کب آؤ گے؟"
وہ گھر آگیا تھا مگر مادر وطن کی گود میں سونے کے لئے۔۔۔ !!
✍️✍️✍️
0 Comments