Ticker

6/recent/ticker-posts

ریحان کوثر کے افسانے ریختہ پر تبصرہ ✍️ ڈاکٹر ریاض توحیدی

افسانہ پڑھتے کے لیے درج ذیل 👇 لنک پر کلک کریں

افسانہ”ریختہ“ کے عنوان سے ذہن فی الفور اردو زبان کے ابتدائی نام ”ریختہ“ کی طرف چلا جاتا ہے تاہم اس لفظ کے کئی معنی ہیں جن میں ”عمارتی مسالہ“ ”جھڑا ہوایا گراہوا‘ گرا پڑا‘ ڈھایا ہوا“ ”مختلف اجزا کو ملا کریا جوڑ کر بنایا ہوا‘ مخلوط“ وغیرہ۔ تو لفظ کے اس قسم کے مختلف معنوں اور مفاہیم کا اثر پیش نظر افسانے کی علامتی اساس میں واضح دیکھا جاسکتا ہے تاہم مرکزی موضوع اور بنیادی کہانی کو دیکھ کر میں سمجھتا ہوں کہ اس افسانے کا نام ہی ”اویغور“ (Uyghurs) ہونا چاہئے تھا‘ کیونکہ پورے افسانے کا موضوعاتی کینوس اسی لفظ یا اصطلاح کے اردگرد گھومتا ہے۔
ایغور دراصل ترکی نسل کے وہ مسلمان ہیں جنہیں چین کے علاقہ سکیانگ میں ووکیشنل تربیتی مراکز میں اس طرح کی ذہن سازی (خصوصا ان کی نئی نسل کی ذہن سازی) کی جاتی ہے کہ وہ اپنے مذہبی اور ثقافتی رشتوں سے کٹ کر صرف وہی مسلمان بن جائیں جو چینی تہذب و ثقافت اور سیاست کے مطابق ہو۔ ایک طرح سے ان کے ذہنوں سے اپنے مذہب کی روح نکال دی جاتی ہے۔ ایک محتاط انداز کے مطابق ان کی آبادی بیس ملین ہے۔
پیش نظر افسانہ”ریختہ“ کی کہانی کا پورا منظر نامہ اسی قسم کی صورتحال پر تشکیل ہوا ہے تاہم مرکزی کردار جو کہ بنیادی طور پر تخیل کی پیداوار ہے‘ بھی ایک طرح سے ایغور مسلمان ہے جو کئی برسوں کے بعد ڈائری کے ذریعہ فلیش بیک میں ہندوستانی مسلمانوں کی نسل کشی اور ان کی دینی ثقافت کی ختم شدہ داستان الم سنا رہا ہے۔ وہ باتھ روم میں اچانک خود کو مسلمان پاتا ہے اور ٹرین میں ایک شخص کی سلام سن کر وہ حیران ہوجاتا ہے کہ وہ تو ہندو ہے۔ پھر شناختی کارڈ جو کہ ایک علامت ہے اس کے ماضی کی‘ میں بھی وہ اپنا نام ”مسلم خان“ ہی لکھا دیکھتا ہے۔
مولوی صاحب بھی ڈائری کو تاریخ وجغرافیہ کہہ کر اسے قصہ پارینہ کہہ جاتا ہے یعنی وہ بھی اویغور مسلمان ہی ہے۔ افسانہ دراصل ہندوستانی مسلمانوں کی عصری کرب ناک صورتحال کے مستقبل والے نتائج پر ارتکاز کرتا ہے کہ اگر یہی صورتحال رہی تو اگلی نسلیں کس قسم کی ہونگیں یا ہندوستان میں مسلمانوں کا کیا مستقبل بننے جارہا ہے۔
افسانہ تخیل اور تصور کے ساتھ ساتھ مشاہدہ اور تفکر کی عمدہ عکاسی کرتا ہے۔ شروع میں ڈرامائی انداز اپنایا گیا ہے اور پھر ڈائری کے ذریعہ ٹرین کی منظر نگاری اور پھر ٹرین سے اتر کر وکیشنل ٹریننگ سنٹر فار اویغور مسلمز وغیرہ تک علامتی اسلوب نے افسانوی فضا کو تخلیق کرنے میں اہم رول نبھایا ہے۔ نہیں تو اگر یہ کہانی راست بیانیہ میں لکھی جاتی تو اس میں فسوں خیز رچاؤ برقرار نہیں رہ پاتا۔
یہاں پر اویغور بطور اصطلاح بھی اپنی معنویت ظاہر کررہا ہے یعنی مسلم تہذیب وثقافت کا خاتمہ جیسا کہ ترمیم شدہ قرآن کا اشارہ وغیرہ۔ تکنیکی طور پر دیکھیں تو افسانے کی اٹھان ڈرامائی تکنیک کی عکاسی کرتی ہے جس میں بند پڑے مکان میں نامعلوم لاش کی تفتیش کے دوران پولیس کے مکالمے اور پھر ڈائری کی برآمد۔ ڈائری بھی افسانے کی کہانی اور مرکزی کردار کی تفہیم میں اہم رول نبھا رہی ہے۔
کردار کا سبز رنگ ملبوسات کی لڑکیوں کا ”سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا“ اور پھر”چین وعرب ہمارا ہندوستان ہمارا۔۔۔مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا“ اور پھر”اسلام پور“کا آنکھوں سے اوجھل ہوجانا‘ سائن بورڈ پر عجیب قسم کی لکھاوٹ (یعنی اردو زبان کا مٹ جانا) اور پھر تسبیح والے شخص کو دیکھ کر ٹرین کا واقعہ اور اس کے بعد ہاسٹل میں ترمیم شدہ قرآن پاک کی تقسیم وغیرہ سب کچھ مسلم تہذیب و تشخص کو مسخ کرکے دکھانا‘ انڈین مسلموں اور دنیا کے کئی دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف رچائی جاری متعصبانہ رویوں اور انہیں ایغور مسلمان بنانے کی سازش کا فنی اشارہ کیا گیا ہے۔
افسانہ تاریخی اور عصری سماجی مشاہدے کے پیش نظر مستقبل میں مسلمانوں کی امکانی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے اگر باطل قوتوں کی تہذیبی سازشیں اور سیاسی حربے کامیاب ہوتے رہے۔ ایک طرح سے افسانہ مسلم امہ خصوصا انڈین مسلمانوں کی مستقبل کی سماجی و تہذیبی اور شناختی بحران (Socio- Cultural Identity crises) کو علامتی ڈسکورس بنارہا ہے۔ بہرحال‘ افسانہ فنی تکنیکی اور موضوعاتی برتاؤ میں کامیاب نظر آتا ہے۔ مسکراہٹ
٭٭٭

Post a Comment

1 Comments