Ticker

6/recent/ticker-posts

ریختہ (افسانہ) ✍️ ریحان کوثر

افسانہ:ریختہ
ریحان کوثر

”آئیے سر۔۔۔!“ مرلی نے صدر دروازہ کھولتے ہوئے انسپکٹر سے کہا۔
”ڈیوٹی پر چار کانسٹیبل تھے نا؟" انسپکٹر نے پان کی پیک تھوکتے ہوئے پوچھا اور اندر داخل ہوگیا۔
"ہاں ساب ۔۔۔۔ وہ کملیش کچھ لانے گیا ہے۔“ 
انسپکٹر نے ایک سرسری نگاہ کمرے میں دوڑائی،
”میڈیا والوں نے کل بہت پریشان کیا!“
مرلی نے ہاں میں ہاں ملائی، 
 ”ہاں ساب۔۔۔ ویسے آج ابھی تک تو کوئی آیا نہیں۔۔۔ ایک بات پوچھوں سر؟“
”ہاں “
”یہاں کل جو مرا وہ کون تھا؟“
”اسی بات کی تفتیش کے لیے تو ہم آئے ہیں۔ مکان برسوں سے بند پڑا ہے۔ مکان مالک کینیڈا میں رہتا ہے۔ عرصے سے یہاں کوئی دکھائی نہیں دیا! بس اتنا ہی معلوم ہے۔۔۔ دیکھتے ہیں اور کیا ملتا ہے۔“ انسپکٹر نے میز پر رکھا چائے کا گلاس اٹھایا اور ایک پالی تھن میں ڈال کر بیگ میں رکھ لیا۔
”وہ دیکھو صاحب وہاں کچھ ہے!“
”کہاں؟“
”اجی وہاں دیکھیں شراب کی بوتلیں رکھی ہوئی ہیں۔ لگتا ہے صاحب وہ کوئی بیوڑا تھا۔۔۔ شراب پی پی کر مر گیا۔“
”نہیں۔۔۔ امپوسیبل۔۔۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے اس بات کی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ مرنے والے نے شراب پی تھی ۔“
”ہممم۔۔۔“ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد مرلی پھر اچانک بول پڑا،
”لیکن صاحب وہ اس مکان کا مالک نہیں تھا تو یہاں آیا کیسے؟“
”مرلی۔۔۔یہ دیکھو پچھلے دروازے کی کانچ ٹوٹی ہوئی ہے شاید یہیں سے وہ داخل ہوا ہو۔“
”ہاں صاحب، صحیح کہا آپ نے ، مجھے لگتا ہے وہ چور تھا کوئی !! کوئی شاطر چور۔۔۔!“
”نہیں چور بھی نہیں تھا کیونکہ یہاں ایسا کچھ ہے ہی نہیں جسے چرایا جا سکے۔ ویسے بھی اسے مرے ہوئے تین دن سے زیادہ ہو گئے تھے۔ پڑوسیوں نے بدبو کے سبب پولیس کو اطلاع دی تب پتہ چلا کہ یہاں کسی کی موت ہوئی ہے۔“
”ہمم، تو یہ بات ہے۔“
”مرلی ذرا نیچے دیکھو وہاں پلنگ کے نیچے کچھ نظر آ رہا ہے۔ شاید کوئی تھیلی ہے۔“
”صاحب یہ تھیلی نہیں تھیلا ہے ! شاید اسی کا ہو؟“
”ہاں! ہاں! تھیلی تھیلا جو بھی ہے نکالو اور کھولو۔ دیکھیں کیا ہے اس میں؟ شاید کچھ پتہ چلے!“
”ارے۔۔۔! صاحب اس میں تو بہت سارے ٹوٹے ہوئے آئینے ہیں ۔۔۔ ارے ہاں! اس میں ایک نوٹ بک بھی ہے۔“ 
”ہاں نکالو اسے باہر اور یہ تھیلا لے کر چلو پولس اسٹیشن!“
”صاحب جی اس نوٹ بک میں کیا ہے؟ شاید یہ اسی کی ہے جو مرا تھا!“
”لیکن مرلی! اس میں تو اردو میں لکھا ہوا ہے!“
”جی صاحب جی! پڑھ کر سنائیں کیا لکھا ہے ویسے بھی آپ بڑی کھوب اردو بولتے ہیں! “
”کھوب نہیں خوب! اور ہاں میں صرف بولتا ہوں! پڑھنا مجھے بھی نہیں آتا۔۔۔ اسے اور باقی تمام چیزوں کو پولس اسٹیشن لے کر چلو! آج امن کمیٹی کی میٹنگ بھی ہے کافی سارے اردو جاننے والے وہاں مل جائیں گے۔ وہاں کسی سے پڑھوا لیں گے۔۔۔!“
دونوں پولیس اسٹیشن پہنچے تو دیکھا کافی لوگوں کی بھیڑ جمع ہے۔ پولیس اسٹیشن میں امن کمیٹی کی میٹنگ کے پہلے یہ لوگ جامع مسجد کے امام صاحب کے آنے کا انتظار کر رہے تھے۔ 
انسپکٹر بنسل نے وہیں پر کھڑے ایک شخص سے دریافت کیا تو وہ کہنے لگا،
”میں؟ جی میں امام صاحب کا ڈرائیور ہوں۔ ان کے فون کا منتظر ہوں۔ امام صاحب کے فون آنے پر انھیں لانے جانا ہے۔“
مرلی نے اس سے پوچھا کہ کیا اسے اردو پڑھنا آتا ہے؟ جواب میں اس نے اثبات میں سر ہلایا،
انسپکٹر بنسل اس ڈرائیور کو اپنے کیبن میں لے آیا اور نوٹ بک تھما کر کہا،
”اس میں جو کچھ بھی لکھا ہے ہمیں پڑھ کر سناؤ!“
ڈرائیور نے نوٹ بک کے صفحات پر سرسری نگاہ ڈالی اور کہنے لگا، 
”لیکن سر! مجھے تو امام صاحب کو لانے جانا ہے۔“ 
مرلی نے پانی کا گلاس اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہا،
 ” ان کے فون آنے تک پڑھو! فون آتے ہی چلے جانا۔“
ڈرائیور نے بآواز بلند پڑھنا شروع کیا،
”اسلام پور کی ٹرین آخر میں نے کسی طرح پکڑ ہی لی۔ ٹرین میں اپنی سیٹ نمبر 24 پر بیٹھ گیا۔ میں نے بیگ کو نیچے کھسکا دیا اور جیسے ہی گردن اوپر کی ایک صاحب سامنے وارد ہوئے۔ اپنے ماتھے کا پسینہ رومال سے پوچھ رہے تھے۔ ان کے ماتھے پر سجدے کا نشان بھی صاف دکھائی دے رہا تھا۔ ان کی سانسیں بھی قدرے پھول رہی تھیں۔ شاید وہ بھی دوڑ بھاگ کے ٹرین میں چڑھ پائے تھے، بس فرق یہ تھا کہ میں سیٹ نمبر 1 سے اور وہ سیٹ نمبر 72 کی جانب سے اس طرف چلے آئے تھے۔ رومال اپنے کاندھے پر رکھتے ہوئے گویا ہوئے، 
"السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ ، جناب!!“
مجھے حیرت ہوئی کہ یہ صاحب مجھے سلام کیوں ٹھوک رہے ہیں؟ میں نے پوچھا،
”جی بولیں کیا بات ہے؟“
”آپ شاید میری سیٹ پر براجمان ہیں!“ انھوں نے اپنا بیگ نیچے رکھتے ہوئے کہا۔
”جی میری سیٹ نمبر 24 ہے اور میں بالکل صحیح سیٹ پر بیٹھا ہوں!“
”جی نہیں! محترم آپ 26 پر بیٹھے ہیں، آپ کی 24 نمبر سیٹ وہ رہی بازو والے کمپارٹمنٹ کی سائیڈ والی سیٹ!“
میں نے گردن گھما کر پیچھے دیکھا 26 نمبر لکھا تھا۔ میں نے اٹھتے ہوئے معذرت کا اظہار کیا اور اپنی اصل سیٹ پر آکر بیٹھ گیا۔ جب سانسوں کے ساتھ میرے ہوش و حواس بحال ہوئے تو میں نے ایک بڑی عجیب بات محسوس کی۔ اس بوگی میں سارے لوگ شکل و صورت، حرکات و سکنات اور لباس سے مسلمان ہی نظر آ رہے تھے۔ میں نے دوسری طرف گھوم کر نظریں دوڑائیں، اس جانب بھی سارے مسافر مسلم ہی تھے۔ ایک اور دلچسپ بات یہ تھی کہ کوئی کسی کو نہ تو دیکھ رہا تھا اور نہ ہی وہ ایک دوسرے سے کچھ باتیں ہی کر رہے تھے۔ پوری 72 سیٹیں سنگل ریزرویشن سیٹ معلوم ہو رہی تھی۔ بوگی میں موجود تمام مسافر کھڑکی کی طرف ہی دیکھ رہے تھے۔ اس پر حیرت یہ کہ تمام کھڑکیاں پردوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ اس دیکھنے دکھانے اور تمام تر مشاہدات کے دوران ٹی سی ہمارے کمپارٹمنٹ میں آیا اور حاضری شروع ہوئی۔
سترہ ،اٹھرہ، انیس، بیس، اکیس، بائیس، تئیس اور چوبیس۔ چوبیس نمبر پر میں نے اپنا پورا نام پریاگ راج بتایا دیا۔ وہ مجھ سے پہلے تک سارے لوگوں کے نام پر بغیر نظریں اٹھائے اور بغیر کسی کا آئی کارڈ چیک کیے اپنے ہاتھ کے کاغذ پر صرف نام کی تصدیق پر ٹک کرتا گیا۔ جبکہ ایسا اتفاق بہت کم ہوتا ہے۔ وہ مجھے عجیب نگاہوں سے دیکھنے لگا۔ ناک کی نوک پر لگے چشمے کے اوپر سے مجھے گھورتے ہوئے بولا،
”جی۔۔۔ اور۔۔۔ میں شاہ رخ خان! دیجیئے اپنا کوئی آئی کارڈ دیجیے۔“
یہ جواب مجھے تمسخر اڑاتا ہوا محسوس ہوا۔ میں نے اپنے جینس پینٹ کی پچھلی جیب سے پین کارڈ نکال کر اسے دے دیا۔ اس نے جھٹکے سے میرا پین کارڈ دیکھا اور واپس کرتے ہوئے کہنے لگا،
”بیٹا سرکاری ملازمین سے اس طرح مسخرہ پن ٹھیک نہیں۔۔۔! کبھی کبھی بھاری پڑ سکتا ہے۔“
ایسی ذلت آمیز گفتگو سے زیادہ مجھے اس کی چشمے کے اوپر سے جھانکتی ہوئی آنکھوں پر غصہ آ رہا تھا۔ دل کر رہا تھا کہ دو انگلیاں اس کی آنکھوں میں ڈال کر پھوڑ دوں۔ کاغذ پر ٹک کرنے کے بعد ٹی سی نے اتنے ہی جھٹکے سے میرے طرف آئی کارڈ بڑھایا جتنے جھٹکے سے لیا تھا۔ میں پین کارڈ کو شرٹ کی جیب میں رکھ کر اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ جیب سے موبائل نکال کر دیکھا تو اس کی حالت مجھ سے زیادہ خراب تھی یعنی اس کی چارجنگ پوری طرح اتر چکی تھی۔ پھر بھی بند موبائل پر انگلیاں پھیرتا رہا۔ میں نے کنکھیوں سے جب اپنے اطراف دیکھا تو مجھے اپنی یہ بے عزتی ذرا کم محسوس ہوئی۔ کیوں کہ آس پاس کے سارے ہی لوگ ہم دونوں کو نہیں بلکہ کھڑکی کی طرف ٹکٹکی باندھے ہوئے خاموش بیٹھے تھے۔ ہماری باتوں پر کسی نے کوئی منفی یا مثبت تاثر نہیں دیا۔
کچھ دیر ایسے ہی بیٹھے ہوئے گزر گئے ۔ اسلام پور آنے میں ابھی کافی وقت تھا ۔ میں نے گھڑی دیکھی تو رات کے دس بجنے کو تھے۔ میں نے فریش ہونے کے لیے ٹوائلیٹ کا رخ کیا ۔ پیشاب کے بعد پانی کا استعمال کیا اور کھڑے ہو کر جب جینس کی چین لگانے لگا تو بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا کہ
”ارے یہ کیا۔۔۔؟ یا اللہ میں مسلمان ہوں؟“
سیکنڈ کے دسویں حصے میں فلیش بیک نظر آیا؟ یہ میں مسلمانوں کے طریقے سے استنجا کیوں کر رہا ہوں؟ ارے ہاں اسے استنجا ہی کہتے ہیں ۔ لیکن میں تو راج ہوں ایک پراوڈ ہندو ، میں ابھی ابھی بیٹھا تھا! یعنی میں بیٹھ کر اٹھا؟ اور میں یا اللہ بھی بول رہا ہوں؟ کیا میں مسلمان ہوں؟
میں نے فوراً وہاں لگے آئینے کی طرف پلٹ کر دیکھا، لیکن یہ کیا؟ یہاں تو آئینہ تھا ہی نہیں! یہاں پر آئینے کی جگہ عجیب سی تصویر تھی! دھندلی سی تصویر! جس میں دعا کے لئے اٹھائے گئے ہاتھوں کے سوا باقی کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا! ہاں ایک ہاتھ پر تسبیح لپٹی ہوئی تھی ۔ آڑی ترچھی لکیریں اور ایک بڑا سا ڈریگن تھا۔ میں نے فوراً اپنا پین کارڈ نکالا، دیکھا اور حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔ اس میں تو میرا نام مسلم خان لکھا تھا، کیا میں مسلمان ہوں! مطلب میں یہی ہوں جو اس پین کارڈ میں نظر آ رہا ہے ۔ لیکن میری تو اینگری ہنومان کے جیسے داڑھی تھی اس میں یہ کیسی داڑھی ہے؟ یہ داڑھی تو مسلمانوں جیسی ہے! تو کیا میں مسلمان ہوں؟
میں فوراً ٹوئلیٹ سے باہر آیا ۔ واش بیسن کے پاس لگے آئینے پر نگاہ ڈالی لیکن یہ کیا !؟ یہاں تو سیریا اور عراق کے جنگ سے بدحال مسلمانوں کی تصویر ہے ۔ تصویر ایسی تھی کہ میرا دل بھر آیا۔ میں جلدی سے دوسری طرف کے واش بیسن کی جانب دوڑا لیکن وہاں بھی مایوسی ہاتھ لگی۔ وہاں روہنگیا مسلمانوں کی تصویر چسپاں تھی۔ میری آنکھیں بھر آئیں ۔ میں بھاگتا ہوا آیا اور اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔ مجھے خیال آیا کہ کمپارٹمنٹ کی سیٹوں کے درمیان بھی ایک آئینہ ہوتا ہے ۔ میں فوراً اس کے سامنے کھڑا ہو گیا یہاں فلسطین کے مسلمانوں کی تصویر تھی ۔ اب میں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا ۔ میرے رونے سے وہاں کسی کا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ میں اپنے چاروں طرف گھوم کر دیکھنے لگا کہ سارے مسافر اپنی اپنی برتھ پر سو رہے ہیں اور سارے یکساں طور پر سفید چادر میں لپٹے نظر آ رہے ہیں ۔ مجھ میں ایک عجیب جھرجھری سی دوڑ گئی ۔ ہمت کر کے اپنے سامنے والی برتھ پر لیٹے ہوئے مسافر کو دیکھنے کے لیے چادر سرکائی لیکن یہاں چہرہ نہیں بلکہ اس کے پیر تھے ۔ پھر ہمت جٹا کر آگے بڑھا اور دوسرے طرف کی چادر سرکائی تو حیران ہو کر پیچھے ہٹ گیا ، یہ کیا !؟ یہاں بھی پیر ہی تھے! دونوں طرف پیر! یہ کیا ماجرا ہے؟ دونوں طرف پیر؟ تو سر کہاں ہے؟ منہ کہاں ہے؟ دو منہ تو سنا تھا لیکن یہ دونوں طرف پیر کیسے؟
اچانک ایک جھٹکے سے ٹرین رکی، شاید میرا اسٹیشن اسلام پور آ گیا تھا۔ میں بیگ اٹھایا اور دروازے کی طرف بھاگا ۔ دروازے سے دیکھا تو پلیٹ فارم بالکل خالی تھا ۔ نہ آدم نہ آدم زاد! یہ تھا تو اسلام پور ہی لیکن کہیں کوئی بورڈ نظر نہیں آ رہا تھا ۔ میں نے اس جانب زیادہ توجہ نہیں دی ۔ دراصل میں جلد از جلد اس ویران اسٹیشن سے باہر آنا چاہتا تھا اور جلدی جلدی ریلوے اسٹیشن سے باہر آ گیا۔ پلیٹ فارم پر تو کوئی نہیں تھا لیکن اس گہری کالی رات میں اسٹیشن کے باہر بہت سی لڑکیاں سبز رنگ کی یکساں فراک ، جس پر چاند ستارے بنے ہوئے تھے اور سفید شلوار سفید دوپٹے میں ملبوس دف بجا کر کچھ پڑھ رہی تھیں۔ شاید کسی کے استقبال کے لیے کھڑی تھیں۔ مجھے محسوس ہوا وہ
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا 
ایک خوبصورت ترنم میں گا رہی ہیں ۔
لیکن جیسے جیسے میں ان کے قریب پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ
چین و عرب ہمارا ہندوستاں ہمارا
مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا
گا رہی تھی۔ کیا خوبصورت ترنم، کیا میٹھی آوازیں، کیا جوش، کیا خلوص۔۔۔ میں کچھ دیر وہیں کھڑا پوری نظم سننے میں محو تھا۔ میں نے وقت دیکھا، پتہ نہیں وقت کتنا ہوا تھا گھڑی بند تھی۔ جیب سے موبائل نکالا تو یاد آیا کہ اس کی تو چارجنگ پوری طرح اتر چکی ہے ۔ میرے موبائل سے نظریں اٹھانے تک وہ لڑکیاں آنکھوں سے اوجھل ہو گئی تھیں۔ “
یہاں تک پڑھ کر ڈرائیور اچانک رک گیا۔ مرلی اور انسپکٹر بنسل دونوں ایک ساتھ بول پڑے،
”آگے کیا ہوا؟“
انسپکٹر بنسل نے آگے کہا، ”پڑھو جلدی آگے!“
ڈرائیور نے جہاں تک پڑھا تھا وہاں اپنی شہادت والی انگلی رکھ کر نوٹ بک بند کر دی اور کہنے لگا،
”سر پیش امام صاحب کو لانے جانا ہے!“
مرلی نے بے صبری سے کہا، ”تم پڑھو میاں! جب فون آئے تو چلے جانا! پڑھو! پڑھو!“
ڈرائیور نے نوٹ بک کھولی اور ورق پلٹ کر آگے پڑھنا شروع کیا۔
”میں چلتا رہا چلتا رہا لیکن مجھے محسوس ہوا کہ یہ اسلام پور نہیں ۔ یہ تو کوئی اور ہی مقام ہے۔ یہاں پر نصب تمام سائن بورڈ اور تحاریر پڑھنا میرے لیے ناممکن تھا۔ کیوں کہ وہ بڑی عجیب لکھاوٹ تھی۔ میں چلتا ہوا ایک چوراہے پر کھڑا ہو گیا۔ عجیب کالی گہری رات تھی۔ وقت کا اندازہ لگانا بھی میرے لیے ممکن نہ تھا۔ میں وہیں فٹ پاتھ پر لگے ہوئے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ میں نے پیر سیدھے کیے اور میری آنکھ کب لگ گئی پتہ ہی نہیں چلا۔
صبح جب آنکھ کھلی تو سامنے ایک بزرگ شخص زمین پر گرا ہوا اپنا چشمہ ڈھونڈ رہا تھا۔ ڈھونڈنے کا کام تو تیز آنکھوں والے کیا کرتے ہیں وہ بے چارا تو اپنی آنکھوں کی دھندلی نظروں کے سہارے ٹٹول رہا تھا۔ چشمہ میرے پیروں کے قریب ہی تھا۔ اس کا ہاتھ بار بار چشمے کے قریب پہنچ کر دور چلا جاتا۔ مجھ سے رہا نہ گیا تو میں نے چشمہ اٹھا کر انھیں تھما دیا۔ انھوں نے مجھ سے کچھ کہا لیکن ان کی زبان مجھے بالکل سمجھ نہ آئی۔ ہاں لیکن! انھوں نے اللہ اللہ کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو دعا کی طرز پر اٹھا دیا۔ اس شخص کے ہتھیلی پر ایک تسبیح لپٹی ہوئی تھی۔ مجھے اچانک ٹرین کی وہ دھندلی سی تصویر یاد آ گئی۔ سامنے ایک بہت بڑے بینر ہولڈنگ پر وہی ڈریگن کی تصویر بھی تھی۔ اس شخص نے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ پتہ نہیں کیوں میں اس کے ساتھ چلنے لگا۔ 
سڑک پر کچرا ڈھونے والی گاڑیاں سر پٹ دوڑ رہی تھیں۔ کچھ میں بہت ساری ٹوپیاں بھری ہوئی تھی۔ کچھ میں اسلامی لباس نظر آئے۔ پیچھے کچھ گاڑیوں میں انسانی بال نظر آئے ۔ اتنے بال کہ جیسے لاکھوں لوگوں کی داڑھی ایک ساتھ صاف کر دی گئی ہو۔ وہ بزرگ آگے تھے اور میں ان کے پیچھے پیچھے چلا جا رہا تھا۔ 
تھوڑی دور چلنے کے بعد ایک بہت بڑا ہاسٹل نظر آیا جہاں پہلی مرتبہ انگریزی میں کچھ لکھا ہوا نظر آیا۔ اندر سے موسیقی کی آوازیں آ رہی تھی۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ بہت سارے لوگ ایک ساتھ اجتماعی طور پر ناچ رہے ہیں۔ہاسٹل کے دائیں جانب مفت میں ترمیم شدہ قرآن پاک تقسیم کیے جا رہے تھے۔ ہاسٹل کے سامنے بہت وسیع کھیت تھا، جہاں بہت سارے نوجوان کسی روبوٹ کی طرح مزدوری کر رہے تھے۔ میں حیران تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ نہ میں نے کبھی دیکھی! نہ کبھی سنی! نہ کہیں اس کا ذکر ہی رہا۔ کیا یہ کسی جغرافیائی نقشے میں موجود ہے؟ ہوسٹل کے صدر دروازے سے جھانکنے پر انگریزی سائن بورڈ کی وجہ سمجھ آئی۔ دراصل وہاں بہت سے غیر ملکی صحافیوں کو بلایا گیا تھا۔ لیکن بڑی عجیب بات یہ نظر آئی کہ ان کے ہاتھوں میں موجود تمام کیمروں کے لینس پر ڈھکن لگا ہوا تھا اور صحافیوں کے منہ کالے کپڑوں سے بند تھے۔ میں نے دوبارہ دروازے پر لگے بڑے سے سائن بورڈ کو دیکھا، وہاں ’وکیشنل ٹریننگ سینٹر فار اویغور مسلمز‘ لکھا ہوا تھا۔“
ڈرائیور نے آخری صفحہ پڑھنے کے بعد نوٹ بک بند کر کے مرلی کو دیتے ہوئے کہا،
”انسپکٹر صاحب میں چلتا ہوں۔ پیش امام صاحب کو لے کر آتا ہوں۔“
 اتنا کہہ کر ڈرائیور باہر نکل گیا اور کیبن کا دروازہ بند ہوتے ہی فوراً پھر سے کھل گیا ۔ جب سامنے پیش امام صاحب نظر آئے تو انسپکٹر بنسل اور مرلی دھر حیرتوں میں ڈوب گئے ۔ انھیں دیکھ کر مرلی نے اپنی کرسی سے اٹھتے ہوئے قدرے تجسس سے دریافت کیا،
”ارے امام صاحب؟ آپ آ گئے؟ آپ کا ڈرائیور تو بس ابھی ابھی نکلا ہے آپ کو لینے کے لیے!“
”میرا ڈرائیور! جناب ہماری اتنی استعداد کہاں؟ ہمارے لیے تو ہماری ایکٹیوا ہی کافی ہے اور ٹو ویلر کے لیے ڈرائیور کہاں رکھا جاتا ہے۔!“ پیش امام صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تو پھر وہ جو ابھی باہر نکلا وہ کون تھا؟ وہ تو کہہ رہا تھا کہ وہ آپ کا ڈرائیور ہے!“ مرلی نے دریافت کیا ۔
”وہ جو ابھی ابھی باہر گیا، جس سے میں ٹکراتے ٹکراتے بچا؟ وہ،؟“ پیش امام صاحب نے الٹا سوال کرتے ہوئے حیرت سے پوچھا ۔
”ہاں ہاں وہی! دراصل اسے یہ کاپی پڑھنے کے لئے کیبن میں بلوایا تھا۔ اس میں اردو میں عجیب سا سفر نامہ یا قصے جیسا کچھ لکھا ہوا ہے۔“ انسپکٹر بنسل نے وضاحت کی۔
امام صاحب نے نوٹ بک کے اوراق کا سرسری جائزہ لیتے ہوئے کہا،
 ”یہ تو اسکول کے تاریخ و جغرافیہ کے نوٹس معلوم ہوتے ہیں ۔“ 
مرلی نے اٹکتے ہوئے کہا، ”پھر یہ اتنے سارے ٹوٹے ہوئے آئینے اور وہ اویغور مسلم۔۔۔!“
”مرلی! ڈال دو اسے ڈسٹ بن میں!“ انسپکٹر بنسل نے کہا
امام صاحب چونکے لیکن دوسرے ہی پل باہر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے، ”چلیے صاحب۔۔۔ اویغور مسلمان۔۔۔ کوئی دیوانہ رہا ہوگا۔۔۔“
٭٭٭
.

Post a Comment

0 Comments