Ticker

6/recent/ticker-posts

نومبر 2020ء

ماہنامہ الفاظ ہند خصوصی شمارہ تھوڑا سا فسانہ (حصہ دوم) نومبر 2020ء

اداریہ: اختصار پر تکرار
ریحان کوثر
الفاظ ہند نومبر۲۰۲۰
سب سے پہلے تو خصوصی شمارے تھوڑا سا فسانہ حصہ اول کی پذیرائی کے لیے میں ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے تمام قارئین کا ممنون و مشکور ہوں۔ آن لائن شائع ہونے کے بعد یہ چند روز میں ہی شہرت اور مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچ گیا یعنی آن لائن’وائرل‘ ہو گیا۔ اس کی اشاعت کے بعد بے شمار تاثرات موصول ہوئے۔ لاک ڈاؤن کے بعد الحمدللہ الفاظ ہند کی طباعت و اشاعت اور ڈاک خانے کے ذریعے پوسٹنگ کا کام اب پوری طرح قابو میں آ گیا ہے۔
خصوصی شمارے کے حصہ اول میں ہم نے کل 39 افسانہ نگاروں کے 65 افسانچوں کو پیش کیا۔ جس میں گاندھی جی اور ان کے نظریات کو مرکز مان کر لکھے گئے چھبیس اور تیرہ افسانہ نگاروں کے تین تین افسانچے یعنی 39 افسانچے شامل اشاعت تھے۔ اس دوسرے حصے میں اسی ایوینٹ کے بقیہ 26 افسانہ نگاروں کے تین تین افسانچے پیش کیے جا رہے ہیں یعنی یہ کل 78 افسانچے ہوئے۔ اسی طرح قرطاس و قلم(کانکی نارہ) کے زیر اہتمام شامِ افسانچہ کی پہلی آن لائن نشست میں پیش کئے گئے 21 افسانچے شامل ہیں۔ یعنی اس شمارے میں کل 99 افسانچے شامل ہیں۔ حسب وعدہ تھوڑا سا فسانہ کا حصہ دوم حاضرِ خدمت ہے۔ امید ہے یہ حصہ بھی آپ تمام کو خوب پسند آئے گا۔ یوں تو اختصار کی وجہ اور اس کی اہمیت پر میں نے گزشتہ اداریے میں تفصیل سے گفتگو کی تھی لیکن میں مزید کچھ باتیں کہنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
اس شمارے کی جہاں خوب پذیرائی ہوئی وہاں چند شکایتیں بھی موصول ہوئیں۔ ایک شکایت یہ تھی کہ اس میں ملک کے چند معروف افسانچہ نگاروں کو شامل نہیں کیا گیا۔ دراصل ہمارے انتخاب کا احاطہ واٹس ایپ گروپ افسانہ نگار ہی ہے۔ جو افسانہ نگار اس گروپ میں شامل ہیں اور جن کے افسانچوں کو آن لائن ایوینٹ میں پیش کیا گیا ان کو ہی شامل کیا گیا تھا۔ ایک شکایت یہ بھی رہی کہ اس میں افسانچوں کے تعلق سے کسی کا ایک تفصیلی مضمون بھی شائع کیا جاتا تو بہتر تھا۔ دراصل یہ شکایت شمارے پر بغیر نظر ڈالے ہی کی گئی تھی ورنہ میرا اداریہ اور ملک کے معتبر اور مستند مبصرین کے مختصر لیکن جامع تبصروں میں صنفِ افسانچہ پر سیر حاصل گفتگو کی گئی تھی۔
ادب کا ایک طبقہ افسانہ نگاری سے اختصار کی خاطر علیحدہ ہوا اور کمال یہ ہے کہ اب وہ آپس میں اختصار کے سبب ہی الجھتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اول تو بیشتر افسانہ نگار افسانچوں کو سرے سے ہی خارج کر دیتے ہیں اس پر ستم یہ کہ صنفِ افسانچہ کے میدان میں اب مختلف قسم اور رنگوں کے پرچم نظر آنے لگے ہیں۔ منی افسانہ، منی کہانی، افسانچہ، افسانچۂ اطفال، بچکانچہ، سو لفظی کہانی، پچاس لفظی کہانی، مائیکرو فکشن، مائیکرو کہانی، کہانی چند لفظوں میں وغیرہ وغیرہ بے شمار علم بردار نظر آتے ہیں۔ یہ کوئی بری بات نہیں! بلکہ یہ صحت مند مقابلے کے لیے خوش آئند بات ہے۔ لیکن سب سے حیران کن بات یہ کہ آپس میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بھی جاری ہے۔ جبکہ یہ تمام ہی مختصر کہانیاں ہیں لیکن یہ بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ جہاں متحد ہو کر ایک دوسرے کا ساتھ دینے کی ضرورت ہے وہاں صنفِ افسانچہ کی یہ صورت حال نظر آتی ہے کہ سارے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہاں کسی کو پتہ ہی نہیں کہ مختصر کہانیاں کتنی مختصر ہونی چاہیے۔ کیا باقی زبانوں میں بھی اختصار کے ایسے ہی مسائل موجود ہیں یا یہ صرف اردو زبان کا مسئلہ ہے؟ مختصر کہانی کتنی مختصر ہو سکتی ہے؟پانچ سو الفاظ پر مشتمل؟ سو الفاظ؟ پچاس الفاظ؟ 1987ء میں نیویارک ٹائمز اخبار نے ایک مقابلے کا اعلان کیا، جو بعد میں ’55 فکشن‘کے نام سے مشہور ہوگیا۔ اس مقابلے میں دنیا بھر سے مصنفین کو پچپن الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی جاتی ہے۔ اگر ہندوستان میں اس قسم کی دعوت دی جائے تو کیا ہوگا؟ صورت حال دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ خانہ خرابی ہوگی، سر پھٹول ہوگا !کیوں کہ ہم مختصر اور اختصار لفظ کا مطلب ہی بھول گئے ہیں۔ یا بھولنے کا ’ناٹک‘ کر رہے ہیں؟
مختصر ترین کہانیوں کی اسی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے امریکہ کے مشہور رسالے ’وائرڈ میگزین‘ نے اپنے نومبر 2006ء کے شمارے میں ایک دلچسپ تجربہ کیا ہےاور صرف چھ الفاظ پر مشتمل کہانیاں لکھنے کی دعوت دی۔ رسالے کے پاس بطورِ رول ماڈل نوبل انعام یافتہ امریکی ادیب ارنسٹ ہیمنگوے کی مختصر کہانی موجود تھی۔ خدانخواستہ اگر میں نے یہ مقابلہ رکھ دیا تو کہیں مجھے ملک بدر نہ کر دیا جاتا۔
حال میں ایک صاحب افسانچوں کی مقبولیت سے ’نراش‘ ہو کر ایک افسانچہ ہی لکھ بیٹھے جس میں ’یک لفظی‘ افسانچہ لکھنے کا دعویٰ ٹھونک دیا۔ بقول ڈاکٹر ظفر مراد آبادی اردو شاعری کی تاریخ میں سب سے مختصر نظم لکھنے کا سہرا قتیل شفائی کے سر ہے۔ قتیل شفائی کی ایک نظم جو صرف ایک لفظ پر مبنی ہے۔ قتیل کیونکہ شاعر قبیلہ کے تھے اس لیے اسے نظم کہا گیا وگرنہ تو یہ مختصر کہانی کی اعلیٰ مثال ہے۔
نظم کا عنوان ہے "پیسے" اور نظم
کیسے
لیکن ایسے ادیب بھی ہیں جنہیں پچپن الفاظ بھی بہت زیادہ لگتے ہیں۔ کم از کم ایک مصنف نے تو مختصر کہانی کی آخری حد پار کر ڈالی ہے۔ اس کہانی میں الفاظ کی تعداد صفر ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کہانی میں ایک لفظ بھی نہ ہو؟ ملاحظہ کریں:
عنوان: ’’ تیسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کی تاریخ‘‘
کہانی:دو سادہ صفحے
بھلا ہو اس مصنف کا جو وہ ہندوستان میں پیدا نہیں ہوا ورنہ اختصار کے جرم میں انھیں سر راہ سولی پر چڑھا دیا جاتا یا واقعی ’تیسری جنگ عظیم‘ شروع ہو جاتی!
٭٭٭

Post a Comment

17 Comments

  1. واہ بہت عمدہ
    بہت بہت مبارک باد

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس گراں قدر تاثرات اور خیالات کے اظہار کے لیے ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے از حد شکریہ

      Delete
  2. بہترین۔۔۔پُر مغز۔۔۔
    غور و فکر کی دعوت دینے والا
    اور کچھ سوچنے پر مجبور کردینے والا اداریہ
    بلا شبہ بقول ریحان صاحب
    ہم مختصر اور اختصار لفظ کا مطلب ہی بھول گئے ہیں۔
    یا بھولنے کا ’ناٹک‘ کر رہے ہیں؟

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس گراں قدر تاثرات اور خیالات کے اظہار کے لیے ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے از حد شکریہ

      Delete
  3. اختصار لفظی اور افسانچہ نگاروں کی مختلف آراء کے پیش نظر محترم ریحان کوثر کا اداریہ پر مغز اور دعوت فکر وعمل ہے صحت مند ادب کے لیے اختلاف باعث رحمت بھی ہو تو بہتر ہے
    اداریہ کے لیے مبارکباد

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس گراں قدر تاثرات اور خیالات کے اظہار کے لیے ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے از حد شکریہ

      Delete
  4. This comment has been removed by the author.

    ReplyDelete
    Replies
    1. نثار انجم

      بہترین اداریہ!
      تیز رفتار ڈیجیٹل عہد کی سا نسوں کی ڈور تھامے افسانچہ بھی تیزی سے ایک مقبول صنف بننے کے دوڑ میں شامل ہونے کی تیاری میں مصروف اور اس کی ایک عملی کوشش ریحان کوثر کے ادبی ارادوں اور رجحان ساز اداریوں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
      فن افسانچہ اپنے بالوں و پر ادب کے افق پر اڑان بھرنے کے لیے کسی سر شاری کے تحت پر جھپٹنے کا عمل جاری ہے ۔افسانچہ نئے مکانات کے رنگ لۓ
      لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی ریحان کوثر کی بے لوث ادبی سربراہی میں أسمان ادب کو اپنی فکری اڑان سے ناپنے کی مساعی جمیلہ میں اپنے پروں کو تروتازہ رکھا۔ جن کی عملی کوششوں کا نتیجہ الفاظ ہند کی شکل میں جیو لوکیشن ٹیگ کی ساتھ سامنے ہے۔مصنف جہاں افسانچے کی امکان بھر سانس سے خوش ہیں وہیں افسانچے میں در آئے ایلین اور ٹراجن ہارس کے حملے سے بھی نالاں اور نہ خوش ہیں ۔ بطن افسانچہ کی کوکھ سے جنم لینے والی ان میٹوریڈ unmatured رد عملی تخلیقات اس روایت کے تعاقب میں تجربوں کی اینٹ سے اپنا سر لہو لہان کر رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ایک فن مجروح ہو رہا ہے وقت کی قلت کاشکار افسانہ کے مشترکہ خاندان سے ٹوٹ کر کر الگ ہو جانے والا نیوکلیئر افسانچہ خط مستقیم سے بھٹک کر خط منحنی پر چل پڑا ہے ۔افسانچے کے سامنے اب نئ نئ پگڈنڈیاں اس کے سفر کے راستے پرڈال دی گئی ہیں ۔اس درد کا احساس ریحان کو ثر نے اپنے اداریے میں بڑی خوبی سے کیا ہے۔
      فن افسانچہ کی روح کو ان حملوں سے بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہے ۔تاکہ نت نئے تجربے سے افسانچے کا کا فن مجروح نہ ہو ۔
      ایک بہترین اور پر مغز اداریۓ پرمیری طرف سے مبارکباد
      نثارانجم
      ھوڑہ
      مغربی بنگا لل
      Nesaranjum786 @gmail.com

      Delete
    2. اس گراں قدر تاثرات اور خیالات کے اظہار کے لیے ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے از حد شکریہ

      Delete
  5. خوبصورت سرورق، دیدہ زیب تزئین، بہترین اداریہ اور ویسے ہی خوبصورت سے افسانے۔ تمام افسانہ نگاروں کو مبارک باد۔ خاص طور سے جناب ریحان کوثر صاحب کو شکریہ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس گراں قدر تاثرات اور خیالات کے اظہار کے لیے ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے از حد شکریہ

      Delete
  6. گہما گہمی کے اس دور میں جب ہر کسی کے پاس وقت کم ہے ضرورت تھی ایسے نثری ادب پاروں کی جنھیں کم وقت میں پڑھا جا سکے اور ادبی لطافت میں بھی کوئی کمی نہ آئے۔ ایسے میں مختصر ترین افسانے جنھیں افسانچے کہا جاتا ہے سامنے آئے جنھیں روائیتی افسانہ نگاروں نے سرے سے مسترد کر دیا۔ ایسے وقت میں ریحان کوثر صاحب کا افسانچوں کے مسیحا کے طور پر سامنے آنا کسی نعمت سے کم نہیں ہے۔ موصوف نے الفاظ ہند میں افسانچوں کو شائع کر کے نہ صرف افسانچوں کو شرف قبولیت بخشا ہے بلکہ افسانچہ نگاروں کی بھی کافی حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔ مستقبل میں بھی ایسی پذیرائی اور حوصلہ افزائی جاری رہی تو امید کی جا سکتی ہے کہ وہ افسانہ نگار بھی جنھوں نے افسانچوں کو سرے سے خارج کر دیا تھا افسانچے لکھنے پر مجبور ہو جائیں کہ وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے۔
    مجھے امید ہے کہ افسانچوں کی ترویج و ترقی اور فروغ کے لئے اٹھایا گیا ریحان کوثر صاحب کا یہ قدم تاریخ رقم کرے گا اور مستقبل کے افسانچہ نگار ریحان کوثر صاحب کو افسانچوں کے سرپرست کے طور پر یاد رکھیں گے
    محمد علی صدیقی ( مغربی بنگال )

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس گراں قدر تاثرات اور خیالات کے اظہار کے لیے ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے از حد شکریہ

      Delete

  7. نثار انجم

    بہترین اداریہ!
    تیز رفتار ڈیجیٹل عہد کی سا نسوں کی ڈور تھامے افسانچہ بھی تیزی سے ایک مقبول صنف بننے کے دوڑ میں شامل ہونے کی تیاری میں مصروف اور اس کی ایک عملی کوشش ریحان کوثر کے ادبی ارادوں اور رجحان ساز اداریوں میں دیکھنے کو ملتا ہے ۔
    فن افسانچہ اپنے بالوں و پر ادب کے افق پر اڑان بھرنے کے لیے کسی سر شاری کے تحت پر جھپٹنے کا عمل جاری ہے ۔افسانچہ نئے مکانات کے رنگ لۓ
    لاک ڈاؤن کے زمانے میں بھی ریحان کوثر کی بے لوث ادبی سربراہی میں أسمان ادب کو اپنی فکری اڑان سے ناپنے کی مساعی جمیلہ میں اپنے پروں کو تروتازہ رکھا۔ جن کی عملی کوششوں کا نتیجہ الفاظ ہند کی شکل میں سامنے ہے۔مصنف جہاں افسانچے کی امکان بھر سانس سے خوش ہیں وہیں افسانچے میں در آئے ایلین اور ٹراجن ہارس کے حملے سے بھی نالاں اور نہ خوش ہیں ۔ بطن افسانچہ کی کوکھ سے جنم لینے والی ان میٹوریڈ unmatured رد عملی تخلیقات اس روایت کے تعاقب میں تجربوں کی اینٹ سے اپنا سر لہو لہان کر رہی ہیں۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں ایک فن مجروح ہو رہا ہے وقت کی قلت کاشکار افسانہ کے مشترکہ خاندان سے ٹوٹ کر کر الگ ہو جانے والا نیوکلیئر افسانچہ خط مستقیم سے بھٹک کر خط منحنی پر چل پڑا ہے ۔افسانچے کے سامنے اب نئ نئ پگڈنڈیاں اس کے سفر کے راستے پرڈال دی گئی ہیں ۔اس درد کا احساس ریحان کو ثر نے اپنے اداریے میں بڑی خوبی سے کیا ہے۔
    فن افسانچہ کی روح کو ان حملوں سے بچانے کے لیے حفاظتی تدابیر کی ضرورت ہے ۔تاکہ نت نئے تجربے سے افسانچے کا کا فن مجروح نہ ہو ۔
    ایک بہترین اور پر مغز اداریۓ پرمیری طرف سے مبارکباد
    نثارانجم

    ReplyDelete
    Replies
    1. اس گراں قدر تاثرات اور خیالات کے اظہار کے لیے ادارۂ الفاظ ہند کی جانب سے از حد شکریہ

      Delete
  8. ریحان کوثر صاحب کو اس خوبصورت خصوصی شمارہ کے لیے ڈھیروں مبارکباد۔
    آپ کے اداریے نے تو اس کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیا ہے۔

    ReplyDelete
  9. مؤثر و مشہور ماہنامہ *الفاظِ ہند* موصول ہوا۔ پی ڈی ایف ڈاؤنلوڈ کرتے ہی سرِورق تابکاری سے جھلملاتا ہوا مزین نظر آیا۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ وقت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جو زندگی کے ہر شعبہ میں لازم و ملزوم ہے۔ وقت کے منصوبے انسان کو کامیاب بنانے ہیں۔ ریحان کوثر صاحب کی *اختصار پر تکرار* سے شروع ماہنامہ نہایت ہی دلکش و منظم طریقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔ بہترین سبق آموز ، عمدہ موضوع کے افسانوں کے انتخاب نے شمارے کو چودھویں کا چاند بنادیاہے۔ جس کے اطراف برِصغر کے ستارے اپنی آب و تاب سے چمک رہے ہیں۔ رنگین ڈیزائن سے آراستگی و پیراستگی نے *الفاظِ ہند* کو دوبالا کردیا ہے۔ قارئین کو اپنے‌طرف مائل کرنے‌میں ہر لفظ کامیاب ہوا ہے۔ مختصر کہانیوں کو دلچسپی سے پڑھنے کا جذبہ ابھارنے میں والا شمارہ ہے۔ اردو ادب میں جدید ٹکنالوجی کا بھر پور استعمال کرتے ہوئے *محترم ریحان کوثر صاحب* تاریخی کامیاب کارنامہ انجام دیا ہے۔
    میں پُر خلوص مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

    حسین قریشی بلڈانہ

    ReplyDelete