Ticker

6/recent/ticker-posts

اور سورج ڈوب گیا ( عارفہ خالد شیخ )

بزم افسانہ کی پیش کش
چھٹا ایونٹ : عصری افسانہ

اور سورج ڈوب گیا

افسانہ نگار: عارفہ خالد شیخ

تعارف:
عارفہ خالد شیخ کا تعلق ہندوستان کے مشہور شہر ممبئی سے ہے۔ موصوفہ نے اپنے لکھنے کی ابتدا ابھی چند مہینوں پہلے ہی کی اور ابھی ابھی ہی انھیں افسانہ نگاری سے شغف پیدا ہوا۔ اگرچہ افسانے، ناول پڑھنے کا ذوق شروع سے رہا ہے۔ آپ افسانہ کے ساتھ ہی افسانچے اور ادبی تبصرے و تجزیے بھی لکھ رہی ہیں۔ موصوفہ بزم افسانہ کی مستقل لکھنے والی ہیں اور اس بزم کے سب سے زیادہ تبصرے و تجزیے کرنے والے اراکین میں شامل ہیں۔ تقریباً ہر افسانے پر انھوں نے اپنے تاثرات پیش کیے ہیں۔ عارفہ خالد شیخ کی تحریریں انقلاب، ڈیلی کشمیر اور صدائے بسمل جیسے روزناموں میں شایع ہوتی ہیں۔ آپ کی اب تک کوئی کتاب منظرِ عام نہیں آئی لیکن جلد ہی ایک ناول شایع ہوگا۔ ان شاءاللہ۔ پیشے سے آپ ماضی میں درس و تدریس سے وابستہ تھیں تاہم اب فارغ ہیں اور خاتون خانہ کی زندگی بسر کر رہی ہیں۔ پیش کردہ افسانہ "اور سورج ڈوب گیا" روزنامہ صدائے بسمل میں شایع ہو چکا ہے۔
سید اسماعیل گوہر

شام بڑی اداس تھی۔۔۔۔آج پھر وہ سمندر کے کنارے
اپنے دل کے بوجھ کو پیروں تلے روندنے آیا تھا۔۔۔۔
ہاں ! اب یہ اس کا روز کا معمول بن چکا تھا۔۔۔۔
دن بھر یہاں وہاں۔۔۔بھٹکنے اور۔وقت گزارنےکے بعد وہ سیدھا یہاں چلا آتا۔۔
سمندر کی اونچی اٹھتی لہریں۔۔۔۔اس کے اندر پنپتے جذبات کے تلاطم کو کم کرنے میں اہم رول ادا
کرتیں۔۔۔
عنبرین۔۔۔ ہاں یہی نام تھا۔۔۔پکارنے والے نے،اس گل اندام کو اسی نام سے مخاطب کیا تھا۔۔۔
ساجد کے سامنے والے اپارٹمنٹ میں۔۔۔سامانوں کی نقل و حرکت نے اس کی توجہ اپنی جانب مبذول 
کر وائی۔۔۔
ابھی ابھی آفس سے آنے پر وہ سیدھا کچن میں گیا
اور اپنے لئے ایک اسٹرونگ کافی تیار کی۔۔۔۔
شاید وہ آفس کے کام کی تھکن کافی کی چسکیوں سے دور کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔
کافی کا مگ ہاتھوں میں لئے وہ بالکنی میں آ گیا۔۔
اور یہیں اسے اس مہ پار ے کا دیدار نصیب ہوا۔
"عنبرین تم یہ بیگ اندر لے جاؤ۔"۔۔
غالباً یہ موصوفہ کی ماں تھیں۔۔۔
عنبرین نے سر اٹھا کر ایک طائرانہ نظر ,۔اطراف میں ڈالیں۔۔۔۔تو ایک حسین خوبرو نوجوان کو اپنی جانب متوجہ پایا۔۔۔
نظریں ملیں۔۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہوئیں۔۔۔
نظروں کے تصادم نے ،دل تک رسائی حاصل کر لی۔۔۔
دلوں کے فاصلے،لمحوں میں طے ہونے لگے۔۔۔
ساجد نے فوراً نظروں کا زاویہ بدل دیا۔۔۔۔
اورفطرت حیا سے عنبرین نےبھی سر جھکا لیا۔۔
یہی وہ پہلی ملاقات تھی،جو ازلی ثابت ہوئی۔۔۔۔
کبھی کبھی،محبت ہونے میں برسوں لگ جاتے ہیں۔
اور کبھی ایک پل،ایک نظر ہی کافی ہو تی ہے۔۔۔۔
ساجد کے لئے،یہ لمحہ جان فروزاں ثابت ہوا۔۔۔
۔ تعلیم سے عدم دلچسپی ،دوستوں کے ساتھ
مٹر گشتیِ،اور بے مقصد زندگی گزارنے والا ساجد
ابھی تک کنوارا تھا۔۔۔
زندگی کی پینتیس بہار یں دیکھ لینے پر بھی ،
محبت کے لطیف جذبے سے وہ نا آشنا تھا۔۔۔
اس کی وجہ،شا يد،اس کا لا ابا لی پن تھا۔۔
جو ہر چیز اور ہر شے سے عدم دلچسپی کو اجاگر
کرتا تھا۔۔۔
والد،بیماری کی وجہ سے وقت سے پہلے ریٹائر ہو
چُکے تھے۔۔۔۔
چار افراد کی زندگی پر مشتمل خاندان کی ذمّے داری ساجد پر تھی۔۔۔
معمولی تعلیم ،نوکری کی حصولیابی میں زبردست رکاوٹ تھی ۔۔۔۔
مالی پریشانی،بے روزگاری نے ساجد کو خود سر۔ضدی اور کرخت بنادیا۔۔۔۔
گھر کے حالات سرد گرم کا شکار ہونے لگے۔۔۔
مجبوراً،اسے کلرک کی نوکری کرنی پڑی۔۔۔جو اس
کی طبیعت پر گراں قدر بار محسوس ہو تی۔ ۔
مگر مجبوری اچھے اچھوں،کے ہوش ٹھکانے لگا دیتی ہے۔۔۔ ۔
ساجد،جہاں رہائش پذیر تھا،وہ گھر دراصل اس کےپھو پا کا تھا،انکے اِنتقال کے بعد پھوپھو اکیلی ہو گئیں۔۔
چونکہ ان کی کوئی اولاد نہیں تھی،اس لئے وہ ساجد کو اپنی اولاد کی طرح چاہتی تھیں ۔۔۔ ،انہوں نے ساجد کے ابا کوساتھ رہنے کا ،مشورہ دیا۔
جسے ساجد کے ابا نے فوراً قبول کر لیا۔
اور یوں وہ سب ساتھ رہنے لگے۔۔۔۔
یوں تو بظاھر سب مل بھی جل کر ایک خاندان کی طرح زندگی گزار رہے تھے۔۔۔مگر کبھی کبھی،بھائی،بہن میں وہ خانہ جنگی ہوتی کہ اللہ ماں امان۔۔۔۔
جس کی گونج دور دور تک سنائی دیتیں۔۔۔۔
پھر بھلا سامنے کا اپارٹمنٹ،اس فیض سے
کیسے محروم رہتا۔۔۔
کئی مرتبہ،وہ خود خجل محسوس کرتا۔۔۔۔
زندگی اپنی ڈگر پر رواں دواں تھی۔۔۔۔
مگر ساجد کو قرار کہاں۔۔۔
آج دو دِن ہوگئے۔۔۔۔اس پری وش کا دیدار نصیب نہ ہوا۔۔۔
وہ بے چین سا،بالکنی میں ٹہل رہا تھا کہ،۔۔۔
اچانک اپنے گیلے بالوں کو خشک کرتی ہوئی ۔عنبرين ،نمودار ہوئی۔۔۔۔
اس کی مراد بر آئی۔۔۔۔
مشرق سے نکلتے سورج کی سنہری کر نوں نے،روپہلی بدن کو کندن کی طرح
دمکا دیا۔۔۔ 
اس کی آنکھیں چندھیا نے لگی۔۔۔۔ایک معطر سا جھونکا اس کے وجود کو سرشار کر گیا۔۔۔۔۔
دل میں عجیب سی گُدگُدی ہونے لگی۔۔
۔نظروں نے پیام کے در وا کئے۔۔۔۔
بے باک محبت نے كچھ کہنا چا ہا۔۔ ۔
مگر دونوں طرف خاموشی ،چھائی رہی۔۔۔
لیکن خاموشی کی بھی تو زبان ہوتی ہے۔۔۔۔
ان کی محبت پسندیدگی تک ہی محدود رہی۔۔
وقت اپنے قائم مقام پر چلتا رہا ۔۔۔۔
موسم بدلنے لگے۔۔۔۔
ساجد کے حالات ،سدھرنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔۔۔
ایسی صورت میں،وہ اپنی محبت کا اقرار کرے
بھی تو کس منہ سے۔۔۔۔۔
انسان گردشِ ایام کا محتاج ہوتا ہے۔۔۔۔
جہاں دیدہ،عنبرین نے ،ساجد کے حالات کا اندازہ لگا لیا۔۔۔۔
جان بوجھ کر،مشکلوں میں گھرنا عقلمندی نہیں۔۔
اس کی نظر میں محبت،وقتي جذبات کی روانی ہے۔۔۔۔
زندگی ،حقیقت کی سنگلاخ راہوں کا نام ہے۔۔۔
اور سچّائی،جب آئینہ دکھا تی ہے،تو اپنے ہی چہرے بد نما نظر آتے ہیں۔۔۔۔۔
اس دوران اس کے کئی دوستوں کی شادیاں
ہو گئیں۔۔۔۔۔
ڈھیر سا ری مایوسی اور یاسیت اس کی زندگی میں در آئیں۔۔۔
اور ایک دن،خاموشی سے عنبرین کے گھر والوں نے
اپارٹمنٹ خالی کردیا۔۔۔۔۔
جس کا پتہ ۔اسے کئی دنوں بعد چلا۔۔۔۔
وہ بے حد اُداس تھا۔۔۔
ایسی زندگی کا کیا فائدہ،جو سوائے محرومی اور
نا کا می کے كچھ نہیں۔۔۔
بے سرو ساما نی کی حالت میں اس کے قدم ساحل کی طرف اٹھنے لگے۔۔۔
اونچی اور تیز اٹھتی ہوئی لہروں نے ہواؤں کے دوش پر صد آئے احتجاج بلند کر رکھا تھا۔۔۔جو اس کے اندرونی ہیجان کی ترجمانی کر رہی تھیں۔۔۔۔
وہ بوجھل قدموں سے آگے بڑھنے لگا۔۔۔۔مگر
"ارے! ایسے نہیں۔۔۔ برابر پکڑو ممّی کا ہاتھ۔ "
۔۔کنارے پر کھڑے،ایک جوڑے پر اس کی نظر پڑی۔۔۔
جو کنارے کی موجوں،سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔۔۔
ان کے ساتھ ایک چھوٹا سا بچہ تھا۔۔۔
۔۔جس نے ابھی ابھی چلنا شروع کیا تھا۔۔۔اور جس
کے پیروں میں نرم اور ملائم۔۔ریت ،گد گدی پیدا کر رہی تھی۔۔اور جسے ایک طرف سے اس کی ممّی نے پکڑ رکھا تھا اور دوسری طرف سے،اس کے پا پا نے۔۔۔۔
۔اور جب اس کے معصوم قدموں سے سمندر کی چھوٹی چھوٹی لہریں ٹکراتی تو وہ خوشی سے جھوم اٹھتا۔۔۔چیختا،کلکاریاں مارتا۔۔۔۔ہنستا۔۔۔۔
اور اس کی یہ خوشی،یہ سرور،اس کے ممّی،پاپا میں ڈھیر ساری خوشیاں بھر دیتیں۔۔۔ان کا چہرہ خوشی سے چمکتے لگتا۔۔۔آنکھوں میں چمک پیدا ہو جاتی۔۔۔۔۔ 
وہ کافی دیر تک اسی منظر میں کھویا رہا۔۔۔۔
دور افق کے پار،سورج، اپنی گلابی کرنیں بکھیر
کر غروب ہو رہا تھا۔۔۔۔
پل بھر کو و ہ رُکا۔۔۔
مسکرا یہ۔۔۔
اور آہستہ آہستہ۔۔ قدم رکھتے ہوئے گھر کی طرف
چل پڑا ۔۔۔۔۔۔

اور سورج ڈوب گیا۔۔۔
عارفہ خالد شیخ
⁦✍️ریحان کوثر

شاید عنوان ہی اس افسانے کا سب سے بڑا مسئلہ اور تفہیم و تعبیر میں سب سے بڑا روڑا ہے۔ سورج کا طلوع ہونا صبح اور روشنی کی نشانی سمجھی جاتی ہے اور سورج کا غروب ہونا رات کی دستک اور تاریکیوں کی آہٹ ہوتی ہیں۔ طلوع آفتاب مثبت اور غروب آفتاب منفی تاثر دینا ہے اور کہنے بولنے اور لکھنے کے لیے انہی دونوں معنی میں استعمال کیا جاتا ہے۔ افسانہ پڑھنے کے بعد ذہن میں سب پہلا سوال یہ ابھرتا ہے کہ ”اور سورج ڈوب گیا۔۔۔“ سے مراد کیا ہے؟
جہاں تک افسانہ نگار کی بات کریں تو یہ ان کا ابتدائی دور ہے۔ ابتدا دیکھ کر یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عارفہ خالد شیخ صاحبہ کا افسانوی سورج طلوع ہو چکا ہے۔ جس کی کرنیں نرم و ملائم ہوتے ہوئے بھی کافی روشن ہیں۔ اب اگر میں ڈھیر ساری دعائیں اور تعریفوں کے بعد کہوں کہ افسانہ نگار کا افسانوی سورج ڈوب رہا ہے تو اسے آپ کیا کہیں گے؟ بس ایسا ہی کچھ اس افسانے کے ساتھ بھی ہوا ہے کہ افسانے کا عنوان اسے لے ڈوبا۔۔۔ کولگیٹ ٹوتھ پیسٹ پر پتانجلی کا لیبل لگا ہو تو کیا ہر کوئی اسے خرید لے گا؟
اسے کسی اور عنوان کے ساتھ پیش کیا جاتا تو اس کا تاثر اور جلوہ کچھ اور ہی ہوتا۔ افسانے کی زبان عنبرین اور ساجد کی محبت کی طرح خوبصورت ہے لیکن اختتام ساجد کی محرومیوں کی طرح تشنہ رہ گیا۔ باوجود اس کے اس افسانے کے متعلق صرف اتنا کہ کر فیصلہ سنا دینا کہ اس سے کوئی تاثر پیدا نہیں ہوتا، افسانہ اور افسانہ نگار کے ساتھ زیادتی ہے۔ اگر تبصرے کی جگہ فیصلہ ہی پیش کرنا ہے تو وہ مدلل ہونا چاہیے۔
افسانے میں محرومیوں کے اندھیرے کے باوجود ساجد کی محبت قاری کو نظر آ سکتی ہے بشرطیکہ قاری کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل اور مچلتے ہوئے جذبات باقی ہوں! لیکن محرومیوں کی چادر بچھا کر افسانہ بنا جائے تو وہ پھر مشتاق احمد نوری صاحب کے افسانے چھت پر ٹھہری دھوپ کی طرح ہونا چاہیے۔ بیشک رومانی افسانے ہر دور میں پسند کیے گئے اور آگے بھی کیے جائیں گے۔ افسانہ نگار جس طرح تبصرہ کرتی ہیں بس اسی طرح افسانے بھی کھل کر لکھیں تو وہ رومانی افسانے کے نئے دور میں اہم رول ادا کر سکتی ہیں۔ ایک اچھے آغاز اور افسانے کے لیے افسانہ نگار کو مبارکباد اور ایوینٹ میں شمولیت کے لیے نیک خواہشات۔ شاد رہیں۔

Post a Comment

1 Comments

  1. تاثرات۔۔۔۔۔۔۔۔نثار انجم
    اور سورج غروب ہو گیا ۔
    بہترین جملے تاثراتی کلمات' پیکر تراشی کے ہیولے سے اٹھتی ہوئی کہانی ایک رومانی احساس کے ساتھ بالکنی میں اسٹرانگ کافی کے ساتھ شروع ہوتی ہےاور ساحل کی ریت پرسورج کی گلابی کرنوں کی اوٹ میں دم توڑ دیتی ہے ۔لاابالی پن ، کم تعلیم ،روزگار کے لئے سرگرراں کلرک کی نوکری پر نیم رضامند ساجد محبت کے لطیف بے سے نا آشنا بھی ہے لیکن ایک سیکنڈ کے چوتھائی حصے میں پہلی آنکھوں کی ملاقات میں کسی ماہ پارے کادل اچک لیتا ہے ۔
    "نظریں ملیں، دھڑکن تیز ہوئیں، نظروں کے تصادم نے دل تک رسائی حاصل کر لی"
    بلاشبہ مصنفہ کے کی یہاں ایك اچھے کہانی کار کی طرح کہانیوں كا فریم تخلیق کرنے کا ہنر بھی ھے ۔کہانی کے لوازم کو برتنے کے لیے الفاظ بھی ہیں ۔
    "پھر بھلا سامنے کاا پارٹمنٹ اس فیض سے کیسے محروم رہتا ہے وہ خود خجل محسوس کرتا"۔۔ کہانی یہاں ایک نیا روپ اختیار کرنے جا رہی تھی ۔زندگی اور اس کے کے فلسفے سے قریب تر ہونے کی کوشش کر رہی تھی۔لیکن بہت جلد موسم کی عجلت پسندی نے کہانی کو ساحل کی طرف ڈھکیل دیا جہاں نا آسودہ ارمانوں کو کچلنے کے لئے ریت بھی موجود اور نقش پا بھی۔جذبوں کے تلاطم کا جبر دکھانے کے لئے سمندر بھی موجود تھا ۔اورسورج اپنی گلابی کرنے کو بکھیر کر غروب ہو جانے کو تیارایسے میں کہانی کا سرا ریت کی طرح سرک گیا۔ ایک اچھی کہانی کے باوجود تا ثر کی تشنگی با قی رہ گئ۔اس نا چیز کے خیال کے مطابق
    کہانی کے آخری پیرا میں
    " پل بھر وہ رکا "
    کے بعد چند جملوں کے اضافے کہانی کو ایک نیا رنگ دے سکتے ہیں ۔اجازت چاہتا ہوں ۔
    ریت پر چلتے ہوئے دو جوڑے اور قریب آتے گئے' پھر ایک معطر سا جھونکا اس کے وجود کو سرشار کر گیا ۔ننھے سے بچے کی ممی پر اچٹی نگاہ پڑی اور جم گئں۔ سمندر کی لہریں لیتی ہوئی موجوں میں تلاطم سرد پڑنے لگا ۔پہلی بار ساجد کے لا ابالی پن پر ایک سنجیدہ مسکراہٹ رینگ گئ۔

    ReplyDelete