Ticker

6/recent/ticker-posts

اپریل مئی 2020ء

اپریل مئی 2020ء

لوگ مرتے ہیں زندگی کے لیے
ریحان کوثر
اپریل مئی 2020ء

ہم انسان ہیں اور ہمیں اشرف المخلوقات ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ جانے ہمیں کون کون سی خوبیوں سے نوازا ہے جس کا علم سوائے اللہ کے خود ہم انسانوں کو بھی نہیں معلوم۔ آج ہم جس نازک دور سے گزر رہے ہیں، ہمارے تین خوائص پر سے پردہ اٹھا دیا ہے۔ انسانی زندگی کے میدان میں انسانوں کی فطرت، عادت اور قوت یہ تینوں داؤں پر لگی ہوئی ہے۔ ان تینوں خوائص پر وقت کی روشنی اس طرح پڑی کہ ان خصوصیات کے ہر ایک زاویے نظر آرہے ہیں۔ اب ہمارے پاس چھپانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ گزشتہ دہائیوں پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنی فطرت اور عادت سے مجبور ہو کر اپنی قوتوں کا صرف اور صرف غلط استعمال کیا ہے جس کے نتائج آج ساری دنیا بھگت رہی ہے۔ ان دہائیوں میں ہم نے اپنی قوت، صلاحیت، قابلیت اور طاقت کے نشے میں قدرت کے ماحولیاتی نظام کا خوب مذاق اڑایا ہے۔ ہم ان کا جتنا نقصان پہنچا سکتے تھے اتنا نقصان پہنچا چکے۔ شاید اب خالق کائنات کی باری ہے۔ اب قدرت ہمیں سبق سکھا رہی ہے۔ بقول سلمان اختر ؎
چاند سورج کی طرح تم بھی ہو قدرت کا کھیل 
جیسے ہو ویسے رہو بننا بگڑنا چھوڑو 
آج ساری دنیا کورونا وائرس وبا کی زد میں ہے۔ چاہے دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر ہو یا کوئی غریب مزدور، اِس کرۂ ارض پر ہر شخص حیران و پریشان ہے۔ اِس چھوٹے سے جرثومے نے انسانوں کے ذریعے کھینچی گئی ہر لکیر کو لانگ کر اپنا قہر برپا کیا ہوا ہے۔ اس نے نہ تو کسی مذہب میں تمیز کی نہ ہی کسی کے سیاسی، سماجی اور معاشی رعب و جلال یا رتبے کا احترام کیا۔ ہر کسی کو یکساں طور پر چوٹ پہنچایا ہے۔ 
کورونا وائرس یہ قدرتی وبا یا عذاب ہے یا پھر کسی سر پھرے کی سازشیں؟ اس پر سارے عالم میں زبردست بحث و مباحثے جاری ہیں۔ وائرس تو وائرس ہے! لیکن اس کے بچاؤ کے لیے جو اقدامات کئے جا رہے ہیں وہ بھی کسی عذاب سے کم نہیں۔ ان اقدام میں سر فہرست جو قدم ہے وہ بیشک’لاک ڈاؤن‘ ہے۔ ایک طرف بیماری اور موت کا ڈر تو دوسری طرف بے روزگاری اور بھوک کی تکلیفوں کے درمیان حضرتِ انسان خوف اور دہشت کے سائے میں زندگی کی تما م چھوٹی بڑی لڑائیاں لڑتے نظر آ رہا ہے۔ تاریخ میں شاید ہی اس سے قبل کبھی اس طرح کے قدم اٹھانے کی نوبت پیش آئی ہو لیکن اب تو یہ صاف ظاہر ہو چکا ہے کہ اِس کورونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے انسانوں کے غرور و گھمنڈ کے پرخچے اڑا دیے ہیں۔ زمین پر آج سب سے مظلوم و محکوم اگر کوئی مخلوق ہے تو وہ اشرف المخلوقات کہے جانے والے انسان ہی نظر آرہا ہے۔
 بقول عرش ملسیانی
موت ہی انسان کی دشمن نہیں 
زندگی بھی جان لے کر جائے گی
 وائرس کی آمد اور اس کے پھیلاؤ کے سبب ان گنت سوالات بھی ابھر آئے ہیں۔ بڑے بڑے سورماؤں کی پول کھل گئی ہے۔ دنیا کی تمام قومیں بے بس اور لاچار نظر آرہی ہیں۔ اس وبا کے آغاز سے ہی ہندوستانی مسلمانوں کے ذہنوں میں اس خیال کو اچھی طرح بٹھا دیاگیا تھا کہ یہ عذاب صرف اور صرف غیروں پر ہی نازل ہوا ہے۔ کچھ لوگوں نے تو اسے عذاب ماننے سے بھی انکار کر دیا ہے اور مختلف دلائل کے ذریعے اپنی بات کو ثابت کرنے کی کوششیں بھی جاری رکھی ہوئی ہے۔ عبرت لینے کی جگہ اس پر خوب لطیفے بنائے گئے اور ان بے تکے اور واہیات لطیفوں کو سوشل میڈیا پر خوب پھیلایا بھی گیا۔ جہاں کچھ قومیں اس خطرناک وائرس کی ویکسین بنانے میں مصروف تھی وہیں ہم میں سے کچھ لوگ لطیفوں کی تخلیق میں مصروف تھے۔ 
 کسی نے کہا یہ شامی بچے کی بد دعائیں اور شکایتیں ہیں۔ کچھ لوگوں نے اسے فلسطین کی آو و فغاں قرار دیا۔ کچھ لوگ جو کشمیر کے نو مہینے سے جاری لاک ڈاؤن سے خود بے خبر تھے وہ بھی کہتے گھوم رہے ہیں کہ یہ کشمیریوں پر ظلم و ستم کا انجام ہے۔ جبکہ جموں و کشمیر کو دو ٹکڑے کر کے ریاستی درجات ختم کیا گیا اور 5 اگست 2019 کو لاک ڈاؤن لگایا گیا تھا۔ یہ لاک ڈاؤن، ہمارے یہاں نافذ کیے گئےلاک ڈاؤن سے کافی الگ اور سخت تھا۔ یہ لاک ڈاؤن بندوق کی نوک پر لگایا گیا تھا اور کشمیر میں اس دوران نیٹ بھی بند تھا۔ چند ہفتے ہوئے وہاں انٹرنیٹ دوبارہ شروع کیا گیا ہے۔ خدا نخواستہ اگر ہمارے علاقوں کے بھی انٹرنیٹ بند کر دیے جائے تو لوگوں کو دال روٹی کا بھاؤ یاد آجائے گا۔ سارے ثواب کے کام جو واٹس ایپ پر لوگ کرتے ہیں وہ سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔
ہم کتنا بھی دل کو بہلا لیں لیکن یہ گمان دل سے نکالنا ہوگا کہ یہ عذاب صرف غیروں پر ہی آیا ہے۔ یہ کسی مظلوم کی آہ تو ضرورہے لیکن اب ہم میں سے کچھ اپنے آپ کو پاک صاف ثابت کرنے میں شدت سے جٹے ہوئے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے جب کشمیر کو لاک ڈاؤن کیا گیا تھا تو وہ کھانا پینا ترک کر چکے تھے۔ حقیقت میں جب کشمیر لاک ڈاؤن تھا تو باقی دنیا عیش و آرام میں مصروف تھی۔ آج خود گھروں میں قید کر دیے گئے ہیں تو نکلے ہیں عذاب کا حساب کتاب کرنے ۔ کشمیر کے لوگ جان ہتھیلی پر لیے ایک ایک دانے کے لیے ترس رہے تھے۔ سارا کاروبار بند تھا اور جان کا بھی خطرہ تھا ۔ اب سوال یہ ہے کہ ہم نے کتنی مرتبہ ان کے لیے دعائیں کیں؟ وہاں مسجدیں بند تھیں ہم نے کتنی مرتبہ دس بجے چھتوں پر اذانیں دیں؟ ان کے لیے کتنا روزہ رکھا؟ کتنی مرتبہ روئے؟ آج خود پر آن پڑی ہے تو یہ سب کچھ کیا باقائیدگی اور بڑے ہی اہتمام سے کیا جا رہا ہے۔ درحقیقت ہمارا بدترین عمل یہ تھا کہ جب کشمیریوں پر ظلم و ستم ہو رہا تھا ، ہم عیش و عشرت میں غرق زندگی کا مزہ لوٹ رہے تھے۔
بات صرف کورونا وائرس کی نہیں اس کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن ہوا ہے اس کے سبب عوام الناس کی کمر ٹوٹ جائے گی۔ برسوں لگ جائیں گے سنبھلنے کے لیے۔ صرف کچھ فی صد سرکاری ملازم ہی تھوڑا بہت ری کور کر لیں گے لیکن باقیوں کو آگے لوہے کے چنے چبانا ہے۔ کورونا کی یہ وبا کچھ مہینوں میں ختم ہو جائے گی لیکن ساری دنیا میں جو معاشی بدحالی کی وبا پھیلی رہی ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ کروڑوں لوگ بے روزگار ہوں گے۔ کروڑوں لوگ مزید غربت کے دلدل میں پھنستے چلے جائیں گے۔ لاکھوں کاروبار کے بند ہو جانے کے اندیشے بڑھتے جا رہے ہیں۔ کئی ممالک کا معاشی نظام درہم برہم ہو سکتا ہے۔ بینکوں سے پیسے اور معاشرے سے خوشیاں غائب ہو سکتی ہیں۔ 
دوستو! شاید ہم نہیں دیکھ پا رہے ہیں کہ یہ لاک ڈاؤن کیا کیا تباہی مچا ئے گا۔ ہمیں آج سچی پکی توبہ کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف توبہ کروانے کے میسج فارورڈ کرنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ ہمیں توبہ کرنے کی ادا کاری بند کرنی ہوگی اور سچے دل سے توبہ کرنی ہوگی۔ سچے دل سے توبہ ہم اسی وقت کر پائیں گے جب ہمیں اس بات کا علم ہو کہ ہم نے انفرادی اور اجتماعی طور پر کیا کیا غلطیاں کیں ہیں۔ حالانکہ یہ غلطیوں کا نظر آنا اتنا آسان بھی نہیں ہے ۔ جب تک ہم ہر بات میں سازشیں ڈھونڈنے کی خوردبین اپنی آنکھوں سے نہیں ہٹائیں گے تب تک ہمیں حقیقت دکھائی نہیں دے گی۔ 
ہم ہندوستانی مسلمانوں کو چند سوالوں کے جوابات تلاش کرنا ہوگا۔ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ آج نہ تو ہماری دعا اثر کر رہی ہے نہ بددعا؟ ہم دن رات حکومت کی غلط پالیسیوں اور دلال میڈیا کو بے نقاب کرتے نہیں تھکتے، لیکن کیا وجہ ہے کہ وہ مزید طاقتور ہوتے جارہے ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ گزشتہ چھے برسوں سے ہماری حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے نہیں آرہے ہیں؟ اور ہاتھوں کی مٹھی سے ریت کی طرح ہماری عزت و آبرو، شان و شوکت، راحت و آرام، سکون اور آزادی پھسلتے چلے جا رہے ہیں؟ ہمارے چہرے اور ہمارے کردار پر کیچڑ اور گندگی اچھالی جا رہی ہے، لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم اسے ’کامیابی‘ کے ساتھ پاک اور صاف نہیں کر پا رہے ہیں؟ ہمارے اعمال کسی ’روبوٹ‘ کی طرح کیوں ہوتے جا رہے ہیں؟ ہمارے بچے بچے کو معلوم ہے کہ ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ ہم انھیں ناکام نہیں کر پا رہے ہیں؟
آج ہمارے علاقوں سے یہ خبریں سر اٹھا رہی ہیں کہ بیشتر مقامات پر محکمۂ صحت کے عملہ پر پتھر برسائے جارہے ہیں۔ چاہے وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ عمل صرف اور صرف ہمارے چہروں پر بدنما داغ ثابت ہوگا۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سوشل میڈیا پر چل رہے افواہوں کا سلسلہ ہی ہے۔ معاشرے میں جھوٹ کی کثرت ہے اور سچ ناپید ہے۔ ہم نبی کریم ﷺ کی صرف ایک حدیث پر عمل کرکے ملک و معاشرے کو سوشل میڈیا کے جھوٹ، جعلی خبروں اور افواہوں سے محفوظ کرسکتے ہیں وہ حدیث یہ ہے کہ”آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ ہر سنی سنائی بات آگے پھیلا دے۔ “
( صحیح مسلم )
اپریل کا آخری ہفتہ ہے اور مئی شروع ہونے والا ہے اور موسم کی یہ تبدیلی ان لوگوں پر زوردار طمانچہ ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ”ارے کچھ نہیں ہوتا گرمی آتے ہی یہ وائرس ختم ہو جائے گا۔“ سوال یہ ہے کہ کب آئے گی گرمی؟ یہ تمام غور و فکر ماہر ِ ماحولیات اور موسمیات پر چھوڑ کر ہمیں خود کیا کرنا ہے اس کی فکریں کرنی چاہیے۔ 
 کچھ لوگ اب بھی سنجیدہ نہیں ہے! اور بے احتیاطی اور لاپرواہی برت رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر انھیں علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہونا پڑ ے تو وہاں ان کا دامادوں جیسا اعزاز و اکرام کیا جائے گا۔ وہ اس گمان میں ہیں کہ چاندی کے چمچ سے دوائی پلائی جائے گی اور سونے کے پالنے میں انھیں جھلایا جائے گا اور وہ چست درست اور تندرست ہو کر واپس آئیں گے۔
خیر! لاک ڈاؤن کی وجہ سے لوگ گھروں میں قید ہیں لیکن ہمارے ادبا ،شعرا اور مضمون نگار ان تاریخی لمحات کا بڑی ہی باریک بینی سے مشاہدہ کر رہے ہیں۔ کمال کی تخلیقات صفحۂ قرطاس پر منتقل ہو رہی ہیں۔ ادارۂ الفاظ ہند نے طے کیا تھا کہ مئی 2020ء کا شمارہ کہانی نمبر ہوگا لیکن اس اعلان کے بعد ہی دنیا میں بڑی ہی تیزی سے تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ تقریباً دو تہائی آبادی اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے محدود دائرے میں قید ہے۔ ہمارے ادیبوں اور شاعروں نے جن لمحات کو جیا ہے، جس کا جائزہ بڑی ہی خوبی سے لیا ہے، ان تمام تجربات کو محفوظ کرنا ادارے کا اولین فریضہ ہے اس لیے ادارے نے اس خصوصی شمارے کی اشاعت کا فیصلہ کیا۔ حالانکہ بیشتر لوگوں کا خیال تھا کہ کچھ دنوں بعد جب یہ لاک ڈاؤن ختم ہو جائے گا تو ان تخلیقات کی کوئی اہمیت نہ ہوگی۔ کچھ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ جتنا لکھا جانا تھا سب کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اسی طرح کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب ہم اپنی تخلیقات اس دوران کسی نشست میں سنا ہی نہیں سکتے تو لکھنے سے کیا فائدہ ہے۔ اس تعلق سے ہماری رائے مختلف ہے۔ اس شمارے کی ترتیب و تدوین کے دوران میں حیران تھا کہ اس موضوع پر اتنے مختلف خیالات کس طرح ابھر رہے ہیں۔ میں یہ سوچ کر حیران ہوں کہ آخر اس موضوع میں کتنی گنجائش اور باقی ہے۔ 
دوسری بات یہ کہ تقسیم ہند کے دوران بھی ہمارے ادیبوں نے خوب لکھا اور آج تک اسے پڑھا اور پسند کیا جاتا ہے کیوں کہ درد کم یا زیادہ ہو سکتا ہے اور کبھی کبھی یہ درد ختم بھی ہو جاتا ہے لیکن اس کا احساس ہمیشہ باقی رہتا ہے۔ ہمارے ادبی پارے سے یہ درد نسل در نسل منتقل ہوتا جاتا ہے۔ ان دنوں جنھوں نے لکھا وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے صفحات پر درج ہو چکے ہیں۔ ہمارا مقصد ان تخلیقات کو تاریخی دستاویزات کی شکل دینا ہے۔ اس میں کتنی کامیابی حاصل ہوئی یہ وقت کی کوکھ میں قید ہے بالکل اسی طرح جس طرح فی الحال ہم لوگ اپنے اپنے محدودیت میں قید ہے۔۔۔
 آپ کو ماہنامہ الفاظ ہند کا یہ شمارہ کیسا لگا ہمیں ای میل یا فون یا واٹس ایپ کے ذریعے ضرور بتائیں۔ لیجیئے پیش خدمت ہے لاک ڈاؤن پر خصوصی شمارہ اس بات کی یاد دہانی کے ساتھ کہ ؎ 
موت انجام زندگی ہے مگر
لوگ مرتے ہیں زندگی کے لیے
٭٭٭


Post a Comment

0 Comments