Ticker

6/recent/ticker-posts

اکتوبر 2020ء

ماہنامہ الفاظ ہند خصوصی شمارہ تھوڑا سا فسانہ اکتوبر 2020ء



اداریہ تھوڑا سا فسانہ
ریحان کوثر
الفاظ ہند اکتوبر ۲۰۲۰
قطرہ قطرہ سے دریا بنتا ہے۔ جب وہ دریا کوزے میں سما جائے، اسے اختصار اور جامعیت کی آنچ پر پکائیں تب کہیں صفحۂ قرطاس پر ایک معیاری اور آفاقی افسانچہ رونما ہوتا ہے۔ افسانچوں کی مقبولیت اور شہرت کی سب سے اہم وجہ اس کا اختصار ہے۔ دور حاضر میں یہ اختصار وقت کی ضرورت ہے۔ غرض یہ کہ آج سوشل میڈیا کے اس دور میں قاری کے پاس طویل تحریریں پڑھنے کا وقت ہی کہاں رہا۔ فلمیں تین گھنٹوں کی ہوا کرتی تھیں۔ انھیں قسطوں میں تقسیم کر کے آدھے گھنٹے کی سیریز میں بدل دیا گیا۔ اب تو نوبت بیس سیکنڈ کے ویڈیوز تک پہنچ گئی ہے۔ ٹک ٹاک جس پر ابھی کچھ ہفتوں پہلے ہندوستان میں پابندی عائد کی گئی اس کی مقبولیت کی اہم وجہ اس کا اختصار ہی تھا۔ یعنی آج کہانیاں تین گھنٹوں کی فلموں کی جگہ بیس سیکنڈ کے ویڈیوز میں قید کی جانے لگی ہے۔ یہ شارٹ موی، ویب سیریز ، یوٹیوب اور آن لائن ریلیز کا زمانہ ہے۔
جہاں تک واٹس ایپ کی ترسیلات کے مطالعے کا سوال ہے تو قاری سب سے پہلے وہ ترسیل پر مور (More..)۔۔۔ کر کے یہ دیکھتا ہے کہ وہ کتنی طویل ہے۔ اکثر لوگ’مور‘ آپشن کے آتے ہی ترسیل کا مطالعہ قطع کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح سے ٹویٹر پر بذات خود لفظوں کی بندش رکھی گئی ہے اور لفظوں کی ان بندشوں کے سبب ٹویٹر پر بھی اختصار کا بول بالا ہے۔ سوشل میڈیا پر مختصر اور جامع تحریریں زیادہ شیئر کی جاتی ہیں اور وہ وائرل بھی ہوتی ہیں۔ ادب میں سوشل میڈیا کے عمل دخل کو انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اسی سوشل میڈیا کے ذریعے آج افسانچے کافی مقبول ہو رہے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بعض افسانہ نگار اس صنف افسانچہ سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے، باوجود اس کے یہ صنف مسلسل ترقی اور فروغ حاصل کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے۔
جب مارچ میں لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تو ملک میں حلقہ ادب میں ایک ہلچل سی مچ گئی تھی اور مختلف سوشل میڈیا گروپ عمل میں آئے اور بے حد مقبول ہوئے۔ سب سے پہلا گروپ جو معروف افسانہ نگار سلام بن رزاق صاحب کی قیادت میں عمل میں آیا جس کا نام ’بزم افسانہ‘ ہے۔ اس گروپ کے ذریعے افسانہ نگاری، تخلیق و تنقید میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ بلاشبہ لاک ڈاؤن کے دوران یہ وقت کا بہترین استعمال تھا۔ اسی طرح ادبِ اطفال کے فروغ و ترویج کے لیے محمد سراج عظیم صاحب کا 'بچپن' گروپ بھی ان دنوں اپنی رونق و رعنائیوں کے لیے مشہور ہے۔ اسی گروپ سے تحریک حاصل کرتے ہوئے ادارۂ الفاظ ہند نے خصوصی شمارے ’لاک ڈاؤن زندگی‘ کی اشاعت کی تھی۔ آن لائن اشاعت کے بعد اس خصوصی شمارے کو خاطر خواہ داد و تحسین اور پذیرائی حاصل ہوئی۔
ممبئی شہر سے تعلق رکھنے والے معتبر شاعر و ادیب اور فلموں کی معروف اسکرپٹ رائٹر انور مرزا صاحب نے گروپ ’افسانہ نگار‘ کی بنیاد رکھی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ گروپ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گیا۔ اس کی مقبولیت کا سبب یہ تھا کہ یہاں مختصر کہانیاں پیش کی جانے لگیں۔ اب تک اس گروپ میں چار کامیاب ایوینٹ منعقد ہو چکے ہیں۔ ماہنامہ الفاظ ہند کے اس خصوصی شمارہ 'تھوڑا سا فسانہ' میں انہی ایوینٹ میں سے منتخب افسانچے اور منتخب تبصرےو تجزیے پیش کیے گئے ہیں۔
تخلیقات کی کثیر تعداد کی وجہ سے اس خصوصی شمارے کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ آپ کے ہاتھوں میں اس کا اول حصہ ہے اسی طرح بقیہ حصّہ نومبر 2020ء میں شائع کیا جائے گا۔ گروپ افسانہ نگار میں پہلے ایوینٹ میں کل چالیس افسانہ نگاروں کے تین تین یعنی کل 120 افسانچے، منی کہانیاں، سو لفظوں اور پچاس لفظوں کی کہانیاں پیش کی گئیں ہیں۔ اسی طرح مہاتما گاندھی پر ایک خصوصی ایوینٹ بھی شامل اشاعت ہےجس میں گاندھی جی اور ان کے نظریات پر کل چھبیس افسانچوں کو پیش کیا گیا اور یہ تمام افسانچے اور ان پر تبصرے و تجزیے اس شمارے شامل ہیں۔ ان کی ترتیب ویسی ہی رکھی گئی ہے جس ترتیب میں انھیں گروپ میں پیش کیا گیا تھا۔ اسی طرح تیرہ مختلف افسانہ نگاروں کے تین تین افسانچے مع مختصر تعارف اس شمارے میں شامل کیے گئے ہیں۔ باقی افسانہ نگاروں کے تین تین افسانچے مع تعارف ان شاءاللہ اگلے مہینے شائع کیے جائیں گے۔ 
اس کاوش پر اپنے تاثرات اور رائے ضرور ارسال کریں۔
٭٭٭

تبصرے و تاثرات
حقیقت در فسانہ
ریحان کوثر صاحب گوناگوں صلاحیتوں کے مالک ہیں۔ وہ مختلف النوع اور متضاد کاموں میں اپنے آپ کو ہمہ تن مصروف رکھتے ہیں۔ اپنے پیشہ ورانہ تکنیکی معمولات کے علاوہ اپنے ذوق شاعری، ڈرامے، منی کہانی یا سو لفظوں کی کہانی غرضیکہ مختلف ادبی اصناف پر طبع آزمائی کرتے رہتے ہیں۔ آپ مشہور فنکاروں پر مشتمل اعلیٰ معیاری ادبی گروپوں سے بھی وابستہ ہیں، ان سے استفادہ بھی کرتے ہیں اور ان کی فیض رسانی بھی۔ انھیں نہ صرف اپنی بات کہنے کا ہنر ہے بلکہ دوسروں کی تخلیقات کو جدید وسائل کے ذریعے وسیع پیمانے پر لوگوں تک پہنچانے کا سلیقہ بھی۔ اپنی مقبولیت کے سبب ابھی حال ہی میں رسالہ "الفاظِ ہند" کو مشہور ویب سائٹ "پنجند ڈاٹ کوم" اور "پنجند بْکس ایپ" جیسے مقتدر اور معتبر ویب سائٹ گروپ میں شامل کیا گیا ہے۔ اسی کے ساتھ "افسانہ نگار" گروپ کے 39 مشہور افسانہ نگاروں کے 65 چنندہ افسانوں پر مشتمل یہ عظیم الشان شمارہ نہ صرف آپ کے سامنے ہے بلکہ بین الاقوامی پلیٹ فارم پر بھی آن لائن نشر ہو چکا ہے۔ 
موقع بہ موقع مختلف آن لائن تقریبات کا انعقاد اس کے علاوہ ہے۔ ریحان کوثر وقت کی دھڑکنوں کے ہمراز ہیں۔ ادب میں کب اور کیا تبدیلی ہو رہی ہے اس کو فوراً محسوس کرلیتے ہیں اور اس کو، مثبت قدروں کے ساتھ اپنی حسن تدبیر سے خوبصورت اور مناسب شکل و صورت دینے میں دیر نہیں لگاتے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے جو صورتحال پیدا ہوئی اس سے پورا معاشرہ تعطل کا شکار ہوگیاتھا۔ ادب اور فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والا حساس طبقہ مایوسی میں مبتلا تھا۔ عام قاری سے لے کر قلمکار تک سب کے ذہنوں پر جمود طاری ہو گیا تھا۔ مگر کچھ لوگوں نے اپنے قلم کو زنگ آلود ہونے سے بچایا اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے مختلف وسیلوں سے اپنے خیالات کی ترسیل کی۔ ریحان کوثر بھی ان سے ہم آہنگ تھے، وہ اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے لیس نئی تکنیک کے اپنے ہنر کے ساتھ میدان عمل میں سرگرم رہے۔ انھوں نے اپنے طور پر حبس کی اس فضا کو ختم کرنے میں اہم رول ادا کیا۔ دلوں سے اضطراب اور انتشار کودور کیااور خیالات کو تازگی بخشی۔ وہ افسانوں اور کہانیوں کے مرد میدان ہیں۔ اس ضمن میں انھوں نے مختلف افسانچہ گروپوں سے تال میل بنائے رکھاہے، جس میں "افسانہ نگار" جیسا موقر واٹس ایپ گروپ بھی شامل ہے، جس میں سلام بن رزاق، انور مرزا، ، ڈاکٹر نعیمہ جعفری ، قیوم اثر، سراج عظیم، نثار انجم، ڈاکٹر اشفاق احمد، ایم مبین، وقاص سعید،رونق جمال،ابوذر، شاہ تاج، نفیس پینٹر، ڈاکٹر فرخندہ ضمیر، خان حسنین عاقب، خالد بشیر تِلگامی، شارق اعجاز عبّاسی، فریدہ انصاری، وغیرہ جیسے منجھے ہوئے قلم کار شامل ہیں جو بڑی توجہ اور محنت سے ادب اطفال کی اس درس گاہ میں نئے افسانہ نگاروں کی تربیت کر رہے ہیں۔ ریحان کوثر بھی ان کے دوش بدوش ہیں۔ 
انھی سرگرمیوں کے نتیجے میں "الفاظ ہند" کا عدیم المثال آن لائن "لاک ڈاؤن۔ زندگی" شائع ہوا تھا، جسے نہ صرف ملک گیر پیمانے پر سراہا گیا بلکہ بیرون ملک بھی اس کی گونج سنی گئی۔ یہ نمبر اپنی طرز کا منفرد شمارہ تھا، جس میں اردو دنیا کے نامور لکھنے والوں کی شمولیت تھی۔ اس شمارے میں قلمکاروں نے کھل کر اپنے دلی جذبات کا اظہار کیاتھا۔ گویا یہ لوگوں کے دلوں کی آواز تھی جس کی ترجمانی اس شمارے کے ذریعے ہوئی۔ اس کے بعد بھی جب صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی تو انھوں نے اب دوسرا دھماکا کیاہے۔ 
حالات کچھ اس تیزی سے بدل رہے ہیں گویا وقت برسوں کا سفر مہینوں میں طے کررہا ہے۔اب طول طویل داستانوں کے دن لد گئے۔ ناولوں اور فکشن کے لیے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔ اب چند سطور میں لوگ کام کی بات چاہتے ہیں۔ بلکہ بین السطور میں ہی لوگ مطلب کی بات تلاش کر لیتے ہیں۔ یہ منی کہانی کا زمانہ ہے۔ اب دل بے قرار کے لمبے لمبے افسانوں کی تاب کسی میں نہیں۔ افسانہ سمٹ کر افسانچہ بن گیا ہے۔ اب تحریریں صفحۂ قرطاس کی محتاج نہیں رہیں۔ برقی صفحات کے دوش پرسوار تخلیقات چشم زدن میں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جاتی ہیں۔ جام جمشید اور جادوئی آئینوں کی جگہ طلسمی مو بائل ہر کہہ و مہ کے ہاتھوں میں ہے۔ ریحان کوثر صاحب ان طلسمی/ تکنیکی رموز سے بخوبی واقف ہیں۔ اس لیے انھوں نے اس کا فائدہ اٹھایا اور دور حاضر کے نمائندہ افسانچہ نگاروں کی تخلیقات کو یکجا کرکے ایک خوبصورت اور جامع افسانچہ نمبر، "تھوڑا سا فسانہ…" ترتیب دیا جو اپنی مثال آپ ہے۔ معمول کے دوسرے شماروں کی طرح اس کو بھی کاغذی پیرہن عطا کر کے انھوں نے اسے نقش فریادی بننے سے بچالیا۔ 
افسانچوں کے انتخاب کی داد نہ دینا نا انصافی ہوگی۔ اس کا اداریہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے انھوں نے منی کہانی افسانہ اور اب مقبول عام صنف افسانچہ پر جو روشنی ڈالی ہے وہ حال سے مستقبل میں جھانکنے والی ان کی گہری بصیرت اور بصارت کی غماز ہے۔ اختصار کے ساتھ بچوں کی کہانیوں سے لے کر بڑوں کی کہانیوں تک کی تاریخ بیان کردی ہے۔ صوری و معنوی دونوں لحاظ سے یہ نمبر قابل ستائش ہے، جس کے لیے وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
 محمد ایوب

میں ،میرا ادبی سفر اور الفاظ ہند
آج میں بے حد خوش ہوں۔اس کی وجہ ریحان کوثر صاحب کی وہ کاوش ہے جو ابھی ابھی موصول ہوئی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ مجھ جیسی کم فہم،نہ تجربہ کار کو،اہل علم اس خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے۔ مجھے وہ دن آج بھی یاد ہے،جب لاک ڈاؤن نے ہر چیز مقید کر میرے خیالوں کو چھوٹ دے رکھی تھی۔میں نے قلم اٹھایا اور اپنی سوچ کی اڑان کو رقم کرنے لگی۔
شاید کاتب تقدیر کو اسی کا انتظار تھا۔میری خوش نصیبی دیکھیے،کہ انقلاب کی خبروں میں میری نظریں وہیں جا کر تھم گئی۔جہاں سلام بن رزاق صاحب کی سرپرستی میں ایک گروپ تشکیل دیا گیا تھا، اور میں نے طاہر انجم صاحب سے بات کی،انھوں نے میری ادبی سرگرمیوں کے بابت پوچھا،
ناچیز تو معمولی خاتونِ خانہ ہے، کیا بتاتی،صرف اتنا ہی کہاادب میرا اوڑھنا بچھونا تو نہیں ہے،پر ادبی شوق ضرور رکھتی ہوں۔ انھوں نے بغیر کسی تردد کے مجھے بزم میں شامل کر دیا۔ یہاں طبیعت ملک ارض و سما کے سامنے سرنگوں ہو گئی۔ معزز و معتبر اراکین کے غیر معمولی افسانے پڑھنے ملیں گے۔ یہ سوچ طبیعت سر شا ر ہو اٹھی۔ علم کی پیاس شروع سے رہی، بس زندگی سےالجھنا نہیں آیا۔ وقت کے دھارے کے ساتھ وہیں بہتی چلی گئی جہاں اورجس اور بہا لے گئی۔۔
بزمِ افسانہ میں ،افسانوں پر اپنی رائے دینی ہوگی۔اس کا پتا آگے چلا۔میں کہاں!؟ اور ہمارے ادیب کہاں؟ میں بھلا ان شاہکاروں پر کیا کہہ سکتی ہوں۔ اپنی ناقص سوچ و فکر کے تحت،زیر نظر افسانوں پر ڈرتے ڈرتے اپنے خیالات پیش کئے۔ میں دل میں ڈری ہوئی تھی،یہ سوچ کر کہ پتا نہیں اب کیا ہو گا؟؟ اور قربان جائیں ایسی معززین اراکینِ بزم پر جنہوں نے نہ صرف میری طرف خوش اسلوبی سے ہاتھ بڑھایا،بلکہ میری تحریروں کو بھی اپنی مشفق حرارت دی۔
انہی معتبر حضرات کے حوصلوں نے مجھ میں نئی روح پھونک دی اور میں اب تک بزم کے ساتھ رواں دواں رہی۔ بزم کی شمولیت اور یہاں موجود،ایک سے بڑھ کر ایک مایہ ناز ہستیوں کی صحبت نے میرے خیالات کو وسعت دی،اور میں افسانوں پر طبع آزمائی کرنے لگی۔انہی دنوں انور مرزا صاحب اور ریحان کوثر صاحب کے افسانہ نگار گروپ کے متعلق معلوم ہوا۔ جس کے تحت افسانچوں کو فروغ دینا مقصود نظر آیا۔ میں کم عقل افسانچوں کی بنت کیا جانوں،پِھر بھی اس گروپ میں شامل ہونے کا اشتیاق رہا۔ بزم میں اتنے دنوں کے ساتھ نے انور مرزا صاحب اور ریحان کوثر صاحب کے تئیں ان کے اعلیٰ اخلاق و اخلاص کا گرویدہ بنا دیا۔اور مجھ پر یہ واضح کر دیا کہ ایسی ادبی محفل سے دوری علم و ادب سے دوری ہو گی اور اس خلا و خسارے کے لیے میں تیار نہیں تھی۔ انور مرزا صاحب کی ممنون ہوں، جنھوں نے اس خاکسار کو اپنے گروپ کی زینت بنایا اور نہ صرف گوشہ دیا بلکہ میرے افسانچوں کو ایونٹ میں پیش کر، ناچیز پر بہت بڑا احسان کیا۔ میں اپنی اس خوشی کو الفاظ میں بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ کہتے ہیں ادیب مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔ میں ادیبہ تو نہیں مگر اتنا جان گئی ہوں کہ میری تحریروں کو آب حیات مل گیا۔
ابھی میں ان خوشیوں کو اپنے تنگ دامن میں سنبھال ہی رہی تھی کہ ایک اور خوش خبری میری منتظر تھی اور وہ تھی، الفاظ ہند کی طباعت۔ اوپر کہیں کوئی مجھ سے بہت خوش تھا۔ جیسے ہی ماہنامہ تھوڑا سا فسانہ ملا۔فوراً کھولا،پڑھا،اپنے تبصرے پڑھے۔یقین ہی نہیں آیا کہ میری تحریریں شائع ہوئیں ہیں۔ میری تحریریں معتبر شخصیات اور مشہور و معروف اشخاص کے ساتھ رقم تھیں،یہ دیکھ،تشکر کے اشک قطر وں کی صورت ملک کائنات کے ساتھ ساتھ، اُن تمام حضرات کے لیے بہہ نکلے،جنہوں نے نا چیز کو اس قابل سمجھا۔
الفاظ ہند،کی خوبصورت تزئین و تدوین،دیکھ روح کھل اٹھی۔ اس میں ریحان صاحب کا اداریہ بہت خوب ہےسچ ہے،آج کی اس بھاگتی دوڑتی زندگی میں جہاں نت نئے وسائل مہیا ہیں منٹوں کا کام لمہوں نے لے لیا ہے،اس کے باوجود لوگوں کے پاس وقت کم ہے۔ ہر شخص جلدی میں ہے۔پتا نہیں انھیں جلدی جلدی کہاں جانا ہے۔ لوگ نہ زیادہ سننا پسند کرتے ہیں اور نہ زیادہ بولنا،ضرورت ہے ایسی تکنیک کی جہاں کم الفاظ کے پیرائے میں اپنی بات کہی جائے،جو کسی پر گراں بار نہ ہو۔ ادبی دنیا میں اس تشنگی کا مداوا افسانچوں کے روپ میں پیش کیا گیا۔جہاں مدّعی اپنا مدّعا بیان کر سب کو چونکا جاتا ہے۔ ادب اس ترکیب سے واقف تھا۔مگر کچھ حد تک اس سے غافل بھی تھا۔
شکر ہے آج ہمارے بیچ ایسے اعلیٰ ذہانت افراد موجود ہیں، جنہوں نے اس طرف لوگوں کو راغب کیا اور افسانچوں کی شکل میں ادبی خدمات انجام دینے کا بیڑہ اٹھایا۔ میری طرف سے انور مرزا صاحب کو،ریحان کوثر صاحب کو اور اُن تمام خدام ادب کو ڈھیروں مبارک باد، جو ہم جیسوں کو خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اپنے قافلے میں شامل کر تے چلے جا رہے ہیں۔ آخر میں اتنا ہی کہ اللہ ان کو دِن دونی رات چوگنی ترقی دے۔ایک بار پھر انور مرزا صاحب کو اور ریحان کوثر صاحب کو دل کی اتھاہ گہرائیوں سے شکریہ پیش کرتی ہوں۔
عارفہ خالد شیخ

سنہری الفاط
قطرہ قطرہ سے لے کر شائع کیے جائیں گےتک۔۔ ایک ایک لفظ کھرا ہے۔الفاظ ہند مل گیا۔کڑی محنتوں کے بعد ایسے نادر صلے ملتے ہیں اور یہ کمال ریحان کوثر ہی کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ تخلیقیت بھی خیر خواہوں اور بہی خواہوں کو جانتی ہے۔ امید ہے کہ سالانہ خریداروں کی فہرست تکمیل کو پہنچ رہی ہوگی۔ ادبی عملی خدمات پر مبارک
قیوم اثر

الفاظ ہند کی تزئین کاری اور دلکش اداریہ۔کیا کہنے محنت شاقہ سےتیار کیا گیا رسالہ قابل تعریف ہے۔اللہ اسی طرح آپ کوادب کی دنیا میں ترقی سے نوازے۔ہم سب کی دعائیں آپ کےساتھ ہیں۔بہت مبارکباد
سیدہ نوشاد بیگم

بے شک 'تھوڑا سا فسانہ' ایک یادگار شمارہ ثابت ہوگا۔ اس کی تزئین و ترتیب میں ریحان کوثر صاحب نے جو عرق ریزی کی ہےاور اپنی تمام صلاحیات کا بہترین استعمال کیا ہے۔جس کے لیے ان کی جتنی بھی ستائش کی جائے کم ہے۔ خوبصورت اداریہ نے اس میں چار چاند لگا دیے۔ الله کرے زورِ قلم اور زیادہ۔ نیک خواہشات کے ساتھ بہت بہت مبارک باد۔اب بے تابی سے کتابی نسخہ کا انتظار ہے۔
شارق اعجاز عبّاسی

اداریے میں آپ نے اختصار کی طرف معلوماتی انداز میں متوجہ کیا ہے. تھوڑا سا فسانہ اور قطرہ قطرہ سے۔۔۔ افسانچہ کی طرف بڑا معنی خیز اشارہ ہے۔ مبارکباد قبول فرمائیں ریحان کوثر صاحب
رفیع الدین مجاہد

ماہنامہ الفاظ ہند کے خصوصی شمارے تھوڑا سا فسانہ کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ خاکسار کے افسانچوں کو شائع کرنے پر بھی ممنون ہوں۔ جزاک اللہ خیرا و کثیرا۔ آپ نے اداریہ بھی زبردست لکھا ہے۔ بہت مبارک باد۔ افسانچوں کی اہمیت پر اچھی روشنی ڈالی آپ نے۔ ساتھ میں لوگوں کے نکتہ نظر کا بھی خوبصورتی سے احاطہ کیا۔ واقعی آج کل یہی صورتحال ہے۔ آپ نے اداریہ میں خصوصی شمارے لاک ڈاؤن زندگی کا ذکر کیا ہے۔ اس کا تذکرہ دیکھ اس شمارے کو پڑھنے کی خواہش جاگ اٹھی ہے۔ امید ہے کہ آپ اس کی ڈیجیٹل کاپی روانہ فرمائیں گے۔ بہت شکریہ۔
اسید اشہر

یہ تو کما ل کردیا آپ نے ریحان کوثر بھائی۔ بہتر ین او ر پر مغز اداریہ۔ سلیقے سے ،ترتیب دیا گیا عنوان اور ایونٹ سے ہم آہنگ برمحل تصویریں،رنگوں کا بہترین انتخاب،رنگو ں کی آمیزش اور تزئین کاری کے شاہکار نمونے۔بہترین سیٹ اپ اور لے أؤ ٹ، ریڈایبل فانٹ،بہترین ڈیسک ٹاپ پبلی کشن کا کمال ہنر کوریل ڈرا کے حسین قوس و قزح سے آراستہ الفاظ ہند کا ایک یادگار ادبی مجلہ مبارک ہو۔
نثار انجم

حالیہ برسوں میں جب کچھ وہاٹس اپ گروپس میں شامل ہوئی تو میرے ادبی سفر کی نئی راہیں کھل گئیں ۔ رسالوں اور اخبارات میں شائع ہونے کی اہمیت اپنی جگہ ہے لیکن سوشیل میڈیا کی بدولت ہماری تحریریں بیک وقت بے شمار قارئین اور ناقدین تک پہنچ جاتی ہیں اور فوری طور پر ان کی قیمتی آراء سے بھی فیض یاب ہونے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی "افسانہ نگار" گروپ بھی ہے۔ اس گروپ کی انفرادیت یہ ہے کہ محترم انور مرزا صاحب اور محترم ریحان کوثر صاحب وہاٹس اپ کی ان غیر محفوظ ترسیلات کو کتابی شکل میں محفوظ کرنے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں ۔ یہ بے لوث خدمت قابل تحسین ہے اور قابل تقلید بھی ۔ اشاعتی اداروں کے لیے باعث تحریک ہیں ۔ کسی بھی اردو رسالے یا اخبار کی اشاعت آسان نہیں۔ یہ وہ جنون ہے جو ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی جائے بلکہ دامے، درمے، سخنے ان کا بھرپور تعاون کیا جائے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالی ان کے وسائل میں اضافہ فرمائے اور ان کی کاوشوں کو قبول کرے ۔ بہت ساری دعائیں اور نیک تمنائیں ۔
رخسانہ نازنین

یہاں سرِورق ہی نہیں ہر صفحہ دلکش و مرغوب ہے۔ ڈیزائن کی آراستگی و پیراستگی تحریر پر چاندنی بکھیرتی ہے۔ عنوان کی ترتیب منظم، منصوبہ بند طرز پر ہے۔ تصویرکی منظر کشی قارئین کو مائل کرتی ہے۔ محترم ریحان کوثر صاحب نے چشمہ کو ساگر بنادیا۔ ان کی نہایت عمدہ ، موثر اور جامع پیش کش پر پُرخلوص مبارکباد پیشِ خدمت ہے۔
حسین قریشی

آپ کے پیش نظر ہے اب جو یہ الفاظ ہند
ان دنوں ہے ایک بچوں کا رسالہ معتبر
پنجند کے پورٹل پر اس کو پڑھ سکتے ہیں آپ
جس کے مندرجات ہیں آئینہ نقد و نظر
یہ رسالہ کرتا ہے بچوں کی ذہنی تربیت
علم و دانش کے ہیں جو ان کے لیے لعل و گہر
داد اور تحسین کے ہیں مستحق اس کے مدیر
ہے دعا ان کی یہ کاوش خوب سے ہو خوب تر
در حقیقت علم سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں
علم سے نوع بشر بنتی ہے برقی دیدہ ور
احمد علی برقی اعظمی
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments