Ticker

6/recent/ticker-posts

منٹو ،فسادات اور حیوانیت | وسیم عقیل شاہ

منٹو، فسادات اور حیوانیت
وسیم عقیل شاہ
وسیم عقیل شاہ

سعادت حَسن منٹو کی انفرادیت ان کا نظریہ ہے. منٹو نے حقیقت کو جو زاویے عطا کیے، جن پردوں سے اسے دیکھا اور جس فکر پر اسے منتج کیا ہے وہ صرف انھی کا خاصہ ہے. اُنھوں نے زندگی کے کئی رنگوں کو دیکھا اور بیانیہ کے اسکرین سے ایک جہاں کو دکھایا. وقت اور حالات کی سچی تصویر کَشی کی اور آدمی کی درون میں اتر کر نفسیاتی سطح پر اس کا کامیاب تجزیہ کیا. منٹو نے اپنے مطمح نظر کے مناسب اظہار کے لیے اپنے افسانوی فارمیٹ میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی. لیکن ان کے افسانوں کی لینتھ کم زیادہ ہوتی رہی. منٹو کے بعض خیال اور مضامین ان کی طویل تحریر کا تقاضا نہیں کرتے تھے، ممکن ہو اِسی لیے انھوں نے ایسی کہانیوں کو اختصاری صورت بخشی. اور یوں لگتا ہے اُنھوں نے ان مختصر مختصر کہانیوں کو ویسی سنجیدگی سے لکھا نہ شاید انھیں اتنا اہم جانا. البتہ حقیقت یہ بھی ہے کہ ان کی ان چھوٹی چھوٹی کہانیوں میں بعض کہانیاں ان کی طویل کہانیوں کے برابر اہمیت رکھتی ہیں. ان میں سے چند ایک تو اس قدر اہم ہیں کہ منٹو کا حوالہ بن جاتی ہیں. ان مختصر ترین کہانیوں میں بھی اُنھوں نے بڑے اور اہم موضوعات کو برتا ، اور جس فن کاری سے برتا وہ واقعی بڑا کمال ہے. سعادت حسَن منٹو اردو فکشن میں موضوع کے ساتھ ساتھ بیان پر قدرت کے لیے پہچانے جاتے ہیں. انھوں نے عمومی اور گھسے پٹے موضوعات کے برخلاف اپنے لیے نئے موضوعات تلاش کیے. لیکن فکشن صرف موضوعات کے سہارے قائم نہیں ہوتا بلکہ زبان و بیان پر قدرت اور دیگر فنی لوازمات بھی بہت ضروری ہیں. منٹو کی عظمت کا راز بھی یہی ہے کہ انھوں نے موضوعات کے انتخاب کے علاوہ فن پر اپنی قدرت کا مظاہرہ بھی کیا ہے. ان کا یہ اختصاص طویل کہانیوں کے ساتھ ہی "سیاہ حاشیے" میں شایع ان کی مختصر ترین کہانیوں میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔
"سیاہ حاشیے" سعادت حسن منٹو کی منی کہانیوں کا مجموعہ ہے. ان کہانیوں کے متعلق عام خیال ہے کہ یہ مجموعہ فسادات پر لکھی گئی منی کہانیوں کا ایک سیٹ ہے، تاہم بغور مطالعہ کیا جائے تو یہ کہانیاں درحقیقت فسادات سے جھوجھ رہے انسانوں کی دلی کیفیات کا دردمندانہ اظہار ہیں. سیاہ حاشیے کی کہانیوں کو ایک انفرادی اہمیت یہ بھی حاصل ہے کہ یہ کہانیاں اردو کی پہلی منی کہانیاں کہلاتی ہیں. بعد میں اس کے کئی نام بدلے اور آخر میں اس کا ایک نام 'افسانچہ' سب سے زیادہ مقبول ہوا، جو جوگندر پال نے اسے دیا تھا. سیاہ حاشیے کے افسانچے ایک طرح سے اردو میں افسانچہ نگاری کی روایت کا آغاز ہیں. لیکن اس ابتدائی کاوش میں بھی فن کی پختگی بلا شبہ بے مثال ہے. اس مجموعے میں ایک کہانی "حیوانیت "ہے جو منٹو کی فکر اور بے مثال فن کاری کا عمدہ نمونہ پیش کرتی ہے۔
'حیوانیت ' فسادات میں کچھ اثاثہ بچا کر بے گھر ہوجانے والے اور جوان بیٹی کو کھو دینے والے انتہائی مظلوم افراد خانہ کی دلدوز کہانی ہے. ان کے ساتھ ایک گاے بھی ہے جو خوش قسمتی سے بلوائیوں کے ہاتھ نہ لگی، مگر اس کا بچھڑا لاپتہ ہے. ظاہر ہے کہانی کے یہ کردار اور ان کی کہانی فساد کے ہولناکی کا واضح اشارہ دے رہی ہے. نیز اس سے منافرت کے مختلف دل سوز پہلو اور اتحاد و سالمیت کے بکھیرنے کا روح فرسا منظر صاف نظر آتا ہے. ممکن ہے اس میں قاری ہر دور کے فساد کا عکس نہ دیکھ پائے لیکن کرداروں کی نفسیاتی سطح بالکل عمومی چیز ہے، اور ایسے حالات میں انسانوں کا رویہ زیادہ مختلف نہیں ہوتا. اوپر تذکرہ کیا گیا کہ ان منی کہانیوں کا پس منظر فسادات ہے، البتہ ان کا بنیادی تھیم انسانی ذات کی نفسیاتی کشمکش اور ایسے حالات میں اس کے سوچنے سمجھنے اور اس کے درون میں چل رہے انسانی جذبوں کو آشکار کرنے کی ایک جہت ، ایک کوشش ہے. سعادت حسن منٹو جس زاویے سے سوچتے ہیں اور اپنے کردار کو جس پس منظر میں رکھ کر اس کا نفسیاتی معائنہ کرتے وہ ان کی تخلیق کاری کا سب سے امتیازی پہلو ہے۔
کہانی کے یہ چند کردار جہاں چھپے بیٹھے ہیں وہاں گھور اندھیرا ہے. یہ جگہ انھوں نے ہی منتخب کی تھی کہ دنگائیوں کی نظر ان پر نہ پڑ سکے. اس سکوت بھرے اندھیرے میں بیوی کی چھاتی سے لگی چھوٹی بیٹی کے رونے کی آواز جب خاموش فضا میں ارتعاش پیدا کرنا شروع کرتی ہے تو ماں اپنے ہاتھ سے اس کا منہ دبا دیتی ہے، تاکہ بلوائیوں کو خبر نہ ہوجائے کہ یہ لوگ یہاں اپنی جان بچائے چھپے بیٹھے ہیں. اس میں وہ کامیاب بھی ہوجاتی ہے. لیکن کچھ دیر بعد جب آس پاس کہیں سے ایک بچھڑے کی آواز آتی ہے تو گاے بے قابو ہو کر ڈکرانے لگتی ہے. نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دشمن ان تک پہنچنے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
یہاں دو باتیں اہمیت کی حامل ہیں، پہلی، دو مائیں، ایک انسانی ماں اور دوسری جانور کی یا حیوانی ماں. دونوں کا رویہ توجہ طلب ہے. عورت بہ حیثیت ماں بچی کے رونے کی آواز پر اس کا منہ دبا دیتی ہے کہ کہیں بلوائیوں کو ان کی خبر نہ ہوجائے. اس عمل کی انجام دہی میں اس پر خوف طاری ہے اور اسی عالم میں وہ کس زور سے بچی کے منہ کو دبائے ہوئی ہے،اسے اس کا اندازہ نہیں ہے. بھلے ہی خوف کے مارے وہ یہ بھول گئی ہو کہ آیا اس عمل سے بچے کی سانس رک سکتی ہے، دم گھٹ سکتا یا پھر اس کی جان بھی جا سکتی ہے. لیکن کیا کسی ماں پر خوف اس طرح بھی حاوی ہو سکتا ہے کہ اس کا ماں والا احساس ہی متاثر ہو جائے. جبکہ دوسری طرف گاے ہے جو کہ ایک حیوان ہے لیکن ماں کا احساس اور ماں کی مامتا اس کے اندر اس انسانی عورت سے زیادہ نظر آتی ہے. جیسے ہی آس پاس کہیں سے ایک بچھڑے کی آواز گاے کو سنائی پڑتی ہے تو گاے بلا خوف و خطر اپنے بچھڑے کے لیے بے قابو ہو کر ڈکرانے لگتی ہے. دوسری بات، یہاں بیوی کا وہ جملہ بھی ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرواتا ہے جو وہ اپنے شوہر سے کہتی ہے کہ، "تم کیوں اس حیوان کو اپنے ساتھ لے آئے!" یہی ایک جملہ کہانی کا پنچ لائِن ثابت ہوتا ہے۔
حیوان کا معنی ذی روح کا ہوتا ہے. لیکن ہماری لسانی ثقافت میں کسی لفظ کے ایک سے زائد معنی لکھے تو ہوتے ہیں لیکن کچھ مزید معنی صرف سمجھے بھی جاتے ہیں. حیوان کا ایک معنی جو ہم خیال کرتے رہے ہیں وہ یہ کہ حیوان معنی وہ ذی روح جس کا رویہ انسانوں کے فطری رویے کے برخلاف ہو. بظاہر وہ اپنے اندر زندگی رکھتا ہے لیکن اس کی زندگی انسانی حیات ، اس کے معاملات اور انسانوں کی عقل و فہم سے یکسر الٹ ہوتی ہے. اس لفظ کا یہاں ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ہم اپنے مویشیوں کو جن میں گاے، بیل، بکری وغیرہ ہوتے ہیں؛ جانور کہتے ہیں، حیوان نہیں. حیوان کو لے کر ہمارا تصور یہ رہا ہے کہ جو انسانی جان کو نقصان پہنچائے وہ دراصل حیوان ہوتا ہے. اس لیے اکثر ہم خونخوار جنگلی جانوروں ہی کو حیوان کے زمرے میں رکھتے ہیں. منٹو زبان دان تھے. انھوں نے زبان کا مطالعہ اس کی ثقافت کے ساتھ کیا تھا. لہذا کب، کہاں کس لفظ سے نئی تخلیقی معنویت پیدا کرنا ہے، یا کسی لفظ کے معنی کا احیا کرنا ہے، وہ خوب جانتے تھے. بہر حال جو بھی ہو 'گاے' اس عورت کے نزدیک اب اپنا مویشی نہیں بلکہ ایک حیوان ہے۔
فسادات کی وجوہات سے پرے فسادات برپا کرنے والوں کو اس کہانی کا ویلن بتایا گیا ہے. نیز بڑی فن کاری سے یہ بھی باور کروایا گیا کہ فسادی اور فسادات سے متاثر لوگ کسی مذہب سے متعلق نہیں ہے بلکہ وہ صرف انسان نظر آ رہے ہیں. فسادی وہ خواہ سیاسی، سماجی یا کسی بھی نسلی بنیاد پر مشتعل ہیں یا وہ کسی بھی ذات دھرم کے ماننے والے ہوں؛ وہ قطعی خیال نہیں کرتے کہ ان کے ذریعے ہونے والی فسطائیت اور بربریت کا نشانہ عام اور معصوم لوگ بھی بن سکتے ہیں. کسی کی جان جائے، کسی کو جلا دیا جائے، کوئی یتیم ہوجائے، کسی عورت کا سہاگ اجڑ جائے، یا کسی پاکباز خاتون کی عزت لٹ جائے؛ ان کے ضمیر پر کسی بھی چیز کا احساس نہیں ہوتا. بالکل کسی حیوان کی طرح کہ اسے خدا نے عقل دی ہے نہ درد، غم اور نہ کسی کی تکلیف کو محسوس کرنے کی حس؛ بالکل ان لوگوں کی گاے کی طرح جو دراصل ایک حیوان ہے. درحقیقت منٹو نے انسانوں کے افعالِ بد پر حیوانیت کی ایک کامیاب ضرب لگائی ہے۔
بغور جائزہ لیں تو اس افسانچے میں فکشن کی بنیادی شرائط کو بخوبی نبھایا گیا ہے. صرف سات آٹھ سطروں میں منٹوں نے پلاٹ، کردار، مکالمہ اور وحدت تاثر؛ سبھی کچھ سمو دیا ہے. اس چھوٹی سی تحریر میں اس پورے منظر نامے کو سلیقہ مندی سے پیش کر دینا منٹو کی فن کاری کی عمدہ مثال ہے. علاوہ ازیں منی کہانی یا افسانچے کے لیے پنچ لائین بہت اہم ہوتی ہے. منٹو نے اس افسانچے کو جس پنچ لائین کے ساتھ ختم کیا ہے وہ اس کہانی کی سب سے بڑی کامیابی ہےـ
ختم شدہ

Post a Comment

0 Comments