Ticker

6/recent/ticker-posts

ماہنامہ الفاظ ہند اکتوبر(خصوصی گوشہ: معمار ادبِ اطفال :انور مرزا) 2022ء

ماہنامہ الفاظ ہند اکتوبر(خصوصی گوشہ: معمار ادبِ اطفال :انور مرزا) 2022ء

ماہنامہ الفاظ ہند کی نئی ڈسٹریبیوشن پالیسی کے تحت
📌 آپ کو الفاظ ہند اپنے گھر کے پتے پر چاہیے تو آپ کو الفاظ ہند کے گوگل پے اکاؤنٹ پر کل 46 روپے (شمارے کی قیمت 25 + رجسٹرڈ ڈاک خرچ 21 روپے) ٹرانسفر کرنا ہوگا۔
📌 آپ کو صرف سافٹ کاپی چاہیے تو آپ کو الفاظ ہند کے گوگل پے اکاؤنٹ پر 25 روپے ٹرانسفر کرنا ہوگا۔گوگل پے کے ذریعے ہی آپ کو پی ڈی ایف کا پاس ورڈ بھیج دیا جائے گا۔
📌 الفاظ ہند کے دفتر سے شمارہ حاصل کرنے والوں کو پچیس روپے آف لائن یا آن لائن دینا ہوگا۔
ماہنامہ الفاظ ہند گوگل پے موبائل نمبر
9326669893
Google Pay Mobile Number
9326669893
alfaazkamptee-1@oksbi

ڈونلوڈکریں
میرے الفاظ
الفاظِ ہند اور انور مرزا
ریحان کوثر
سترہویں تا بیسویں صدی کے دوران ادب نے امن اور ثقافت کی توسیع میں اہم کردار ادا کیا، جس میں فرد یا معاشرے دونوں پر تشدد، تنازعات اور جنگ و جبر کے اثرات کو بخوبی ظاہر کیا اور صفحہ قرطاس پر بڑی ہی کامیابی کے ساتھ منتقل کیا گیا ہے۔ اس کے برعکس کئی موقعوں پر دورِ جدید میں سوشل میڈیا پر مختلف شناختوں اور نسلوں کے لوگوں کے درمیان تشدد، ثقافتی تصادم اور نسلی منافرت کو ہوا دینے کا الزام لگایا گیا ہے۔ یہ الزام کسی حد تک درست بھی ہے لیکن کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کے دوران سوشل میڈیا نے ادب بطور خاص اردو ادب کی ترویج و ترقی میں جو کردار ادا کیا وہ قابل تحسین ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک نئی نسل ابھر کر سامنے آئی جو ادب کی خدمت اور ترویج میں فی الحال پہلے سے زیادہ کوشاں اور متحرک نظر آرہی ہے۔
اس وقت سوشل میڈیا سماجی تعاملات کے ایک وسیع حصے پر قابض ہے اور ادب کا پرانا طور طریقہ عصری معاشرے میں ایک بااثر آلے کے طور پر اپنی حیثیت تقریباً کھو چکا ہے۔ یہ بات شاید چند لوگوں کو ہضم نہ ہو لیکن سوشل میڈیا نے تقریباً کئی پہلوؤں سے ادب کی جگہ گھیر لی ہے۔ یعنی ادب میں جو خلاء تھی وہ بخوبی پُر ہو رہی ہے۔ مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز، خاص طور پر فیس بک، واٹس ایپ، ٹیلی گرام، انسٹا گرام اور ٹویٹر نے اردو ادب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔
ماہنامہ الفاظ ہند کی ترویج و اشاعت میں بھی اس دوران سوشل میڈیا نے اہم کردار ادا کیا۔ یوں تو لاک ڈاؤن اور کورونا وائرس وبا کے پہلے بھی الفاظ ہند مسلسل جاری تھا لیکن یہ حقیقت ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے ودربھ کے علاقے سے جاری اس واحد اردو زبان کے رسالے کی علاقۂ ودربھ کے علاوہ اندرون ملک مقبولیت اور شہرت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔
اس دوران سوشل میڈیا کے ذریعے ادارے کو کئی ایسے رفقاء نصیب ہوئے جنھوں نے اس کی آبیاری، نشر و اشاعت اور تشہیر میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان میں انور مرزا بھی ایک اہم نام ہے۔
انور مرزا صاحب سے میری پہلی ملاقات آن لائن ہوئی تھی۔ فاروق سید صاحب کا عالمی شہرت یافتہ بچوں کا ماہنامہ ’گل بوٹے‘ کا دہلی میں ادبِ اطفال پر چار روزہ بین الاقوامی سیمینار کامیابی کے ساتھ منعقد کیا گیا۔ یہ بعد میں معلوم ہوا کہ اس بین الاقوامی سیمینار میں انور مرزا صاحب ممبئی سے شرکت کرنے والے تھے مگر ذاتی مصروفیات کی وجہ سے شریک نہ ہوئے۔ اسی دوران سراج عظیم صاحب نے اس بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کرنے والے تمام معزز قلم کاران کا ایک واٹس ایپ گروپ ’بچپن‘ تشکیل دیا۔ یہ عالمی وبا کے کچھ ہفتوں پہلے کی بات ہے، سراج عظیم صاحب کے ایک پوسٹ پر میں نے سراج عظیم صاحب کو سہواً سراج انور لکھ دیا۔ تبھی گروپ پر ایک میسج نمودار ہوا کہ
”ریحان صاحب آپ نے میرے اور سراج عظیم صاحب کے ناموں کی کھچڑی بنا دی۔“
مرسل کا نمبر موبائل میں محفوظ نہیں تھا۔ ٹروکالر سے معلوم ہوا کہ یہ انور مرزا صاحب کا موبائل نمبر ہے۔ یوں آپ سے میری گفتگو کا آغاز پر لطف انداز میں ہوا۔ کسی بھی گروپ پر آپ کے میسجز بالکل نپے تلے اور بے حد دلکش ہوا کرتے ہیں اور اس کی تزئین و ترتیب بھی بے انتہا خوبصورت ہوا کرتی ہے۔ آپ کے تاثرات میں کمال کا طنز اور مزاح کی چاشنی کی مہین سی پرت دل کو گدگدا کر رکھ دیتی ہے۔
بعد میں معلوم ہوا کہ آپ ایک بہترین گرافِکس ڈیزائنر ہیں اور کئی برس مکہ مکرمہ میں وہاں کے مؤقر اخبارات و رسائل کے لیے ڈیزائننگ کا فریضہ انجام دے چکے ہیں اور کئی مرتبہ حج اور عمرے کا فیض بھی حاصل کر چکے ہیں۔ دھیرے دھیرے سوشل میڈیا کے ذریعے آپ سے تعلقات بڑھنے لگے۔ ہم دونوں کا مزاج میں یکسانیت کے سبب یہ تعلقات مزید مضبوط ہوتے گئے۔ بعد میں دھیرے دھیرے آپ کے کارناموں اور ادبی خدمات کے دریچے مجھ پر کھلتے چلے گئے۔ ان دریچوں سے ادب کی تازگی اور انفرادیت کی روشنی سوشل میڈیا کے ذریعے مجھ تک آنے لگی۔ ایک دن معلوم ہوا کہ ’دوردرشن‘ کی رامانند ساگر کی مشہور زمانہ ٹیلی ویژن سیریز ’الف لیلیٰ‘ اور سب ٹی وی کی سیریز ’رامانند ساگر کی الف لیلہ‘(113 ایپی سوڈ ) دونوں کی اسکرپٹ آپ نے لکھی۔ اسی طرح زی ٹی وی کی مشہور و مقبول ٹیلیویژن سیریز ’الہ دین‘ کی تمام کہانیاں اور اسکرپٹ آپ نے تحریر کی۔ ادب اطفال کے تعلق سے یہ تینوں آپ کا سب سے اہم اور عظیم کارنامہ ہے۔ اسی بات پر خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ہزار افسانچوں کی جو کتاب میں اور انور مرزا صاحب نے ترتیب دی اس کا نام ’افسانچوں کی الف لیلیٰ‘ ہی رکھا گیا۔ الفاظ پبلی کیشن اینڈ ودربھ ہندی اردو پریس کامٹی سے شائع یہ کتاب بھی کسی عظیم کارنامے سے کم نہیں!
’ایرا کا جادوئی بستہ‘،’اکبر بیربل‘،’پنچ تنتر‘،’چنٹو بنٹو‘ (اب تک کل 60 ایپی سوڈ) اور دیگر ادب اطفال پر بنائی گئی اینی میٹیڈ ویب سیریز کی اسکرپٹ آپ نے لکھی۔ اسی طرح کئی شارٹ فلم کی کہانی اور اسکرپٹ آپ نے لکھی جو بطور خاص بچوں کے لیے بنائی گئی تھی۔ بہت سے انیمیشن کارٹون ویب سیریز بھی آپ کی ماہرانہ اور باکمال قلم کے سبب مقبول ہوئی۔ ادب اطفال میں آڈیو ، ویڈیو اور ٹیکسٹ فارمیٹ میں آپ نے جتنا کام کیا وہ شاید ہی برصغیر میں کسی نے کیا ہو۔ 2021ء میں گل بوٹے نے دہلی کے قابل ادیب الاطفال اور دہلی اسمبلی کے رکن محترم دلیپ پانڈے اور معروف ہندی کہانی کار چنچل شرما کی کہانیوں کا مجموعہ ’ٹپکی اور بوندی کے لڈو‘(15 کہانیوں کا مجموعہ) شائع کیا۔ جس کا خوبصورت ترجمہ اور کتاب کی تزئین کاری انور مرزا صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں کیا۔ ان کہانیوں کو پڑھنے کے بعد محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ مترجم کہانیاں ہیں بلکہ اس پر اصل کا گمان ہوتا ہے۔
بچوں کا رسالہ ’گل بوٹے‘ کے اولین شمارے سے اب تک تقریباً 26 برسوں سے آپ بحیثیت لے آؤٹ ڈیزائنر اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح ایک سال تک ’گل بوٹے ہندی‘ کے ایڈیٹر بھی رہے۔ آپ برسوں روز نامہ اردو ٹائمز ممبئی میں بچوں کے صفحہ گل بوٹے کے مرتب بھی رہے۔
اس کے علاوہ آپ کی اینی میٹیڈ شارٹ فلم 'ریما کی دیوالی' اور ’شادی کے لڈو‘، ’فیملی ڈرامہ‘، ’تین فل تین ہاف‘ جیسی مقبول ویب سیریز بھی ریلیز ہو چکی ہے۔
آپ نے ’افسانچوں کی الف لیلیٰ‘ کے علاوہ ’عصری افسانچے‘ اور ’ ‘خالد طور کے دو ناولٹ ‘ یہ دو کتابیں بھی ترتیب دی ہے۔ کتاب ’عصری افسانچے‘ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی کے مالی تعاون سے شائع کی گئی ہے۔
ادب اطفال کے تحت ’اوز کا جادوگر ‘ (بچوں کے لیے پانچ ناول) ، ’گل بکاؤلی : قصہ طلسمی پھول کا‘، ’اکبر اور نو رتن ‘ اور اکبر بیربل کی 10کہانیاں زیرِ طبع ہیں اور بہت جلد آپ کا افسانوی مجموعہ بھی شائع کیا جائے گا۔
آپ جب بچوں کے لیے لکھتے ہیں تو آپ نے اندر بچپن جھولنے لگتا ہے۔ جب نوجوانوں کے لیے لکھتے ہیں تو آپ کے اندر جوانی انگڑائیاں لینے لگتی ہے۔ اسی طرح جب آپ پختہ اور بزرگوں کے لیے لکھتے ہیں تو آپ کے اندر سے سنجیدگی اور متانت کی روشنی نکلنے لگتی ہے۔ آپ چھوٹے چھوٹے جملوں کے ذریعے بڑی بڑی باتیں لکھنے میں ماہر ہیں۔ لفظوں کی اٹھاپٹک سے قاری کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ لفظوں کی جادو گری اور اس کے برتاؤ سے تحریر میں غضب کی گہرائی اور گیرائی پیدا کر دیتے ہیں۔ یہ تمام خوبیاں دراصل آپ کے اندر موجود ایک نہایت مکمل اور متوازن اسکرپٹ رائٹر کے سبب ہے۔ بیشک! ادب تخلیق کرنے سے کئی گنا زیادہ مشکل کام اسکرپٹ رائٹنگ ہے۔ فلموں کے لیے اسکرپٹ لکھنا سب کے بس کی بات نہیں! اسکرپٹ رائٹنگ کے چند نمونے گوگل اور یوٹیوب پر سرچ کر کے سمجھے جا سکتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ مبصرین آپ کے طرزِ تحریر کو ہی اسکرپٹ رائٹنگ سمجھ بیٹھے ہیں یہ ان کی نادانی ہے یا انھیں معلوم ہی نہیں کہ اسکرپٹ رائٹنگ کس چڑیا کا نام ہے۔
آپ جس خوبصورت انداز میں لکھتے ہیں وہ دراصل خالص آپ کا اسلوب ہے۔ سو کی سیدھی ایک بات کہ منفرد اسلوب ہر کسی کے نصیب میں نہیں! بقول اعتبار ساجد
مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غم حالات لیے پھرتے ہیں
آپ نے بچوں کے لیے خوبصورت نظمیں اور کہانیاں بھی لکھیں جو بے انتہا مقبول بھی ہوئی لیکن آپ بہت زیادہ شائع ہونے کے چکر یا چکروہیو میں کبھی نہیں پھنسے! یہ ماہنامہ الفاظ ہند کے لیے مسرت اور فخر کا مقام ہے کہ ادب اطفال سے متعلقہ آپ کی منتخب تخلیقات شائع کی جا رہی ہے۔ انور مرزا صاحب پر یہ خصوصی گوشہ آپ کو کیسا لگا ہمیں واٹس ایپ یا ای میل کے ذریعے ضرور اطلاع فرمادیں۔
٭٭٭
اپنی بات
ماہنامہ الفاظ ہند کے گزشتہ دو شمارے ’میرا بچپن‘ اور ’معمار ادب اطفال: ڈاکٹر محمد اسداللہ‘ خصوصی نمبر کے طور پر پیش کیے گئے تھے جس کی ملک بھر میں خوب پذیرائی ہوئی اور دونوں شمارے مشہور و مقبول ہوئے۔ لیکن اسی دوران دو بری خبریں بھی آئیں۔ پہلی یہ کہ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی نے نئے سالانہ پروگرام میں ترمیم کرتے ہوئے رسائل و جرائد کی بلک پرچیز اسکیم کو منسوخ کر دیا ہے۔ دوسری خبر دراصل موجودہ صورت حال ہے جو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ یوں تو پہلے ہی لاک ڈاؤن سے ڈاک کا نظام درہم برہم ہو گیا تھا جو ابھی بھی ٹھیک نہیں ہو سکا، سادہ ڈاک سے بھیجیے گئے شمارے لوگوں تک ٹھیک طرح سے پہنچ نہیں رہے ہیں اور دن بدن شکایات کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی کے سبب پہلے سے پریشان ادارۂ الفاظِ ہند کا خسارہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نے رواں سال سے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ڈاک خانے سے لائبریریوں کو بھیجی گئی کاپیوں کی رسید کونسل کو بھیجی جائے۔ یہ کامٹی جیسے چھوٹے سے شہر کے ڈاک خانے میں ممکن نہیں! ہمارے یہاں رجسٹرڈ ڈاک یا اسپیڈ پوسٹ کی ہی رسید دی جاتی ہے۔ یعنی اب کونسل کی بلک پرچیز اسکیم کے تحت موصول ہونے والی امداد پر بھی خطرے کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔
اسے اتفاق کہیں یا بد قسمتی کہ سادہ ڈاک سے شمارے انہی لوگوں تک نہیں پہنچتے جو ٹیلی فون یا واٹس ایپ کے ذریعے بہت زیادہ پریشان کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ وہ کاپیاں قیمتاً نہیں خریدتے بلکہ انھیں اعزازی کاپی بھیجی جاتی ہے لیکن ان کے بار بار کے میسج اور فون کی وجہ سے ذہن منتشر ہو جاتا ہے اور دل کرتا ہے کہ اسے بند ہی کر دیا جائے۔ جبکہ ادارے کا یہ معمول رہا ہے کہ جب ڈاک سے شمارے پوسٹ کئے جاتے ہیں تو متعلقہ حضرات کے واٹس ایپ پر ان کے پتے کے ساتھ شمارے کی تصویر بھیج دی جاتی ہے۔ اتنا کچھ نقصان برداشت کرنے اور احتیاط کے باوجود لوگ ان سب مسائل کی کوئی فکر نہیں کرتے۔ کچھ لوگ تخلیقات بھیج کر ہر دو چار دن میں یاد دہانی کا ہتھوڑا چلاتے رہتے ہیں۔ نہ انھیں ادارے کی کسی پریشانی سے مطلب ہے نہ ہی مشکلات اور رکاوٹوں کی فکر!
بہرحال ادارے نے اس مرتبہ سے ڈسٹریبیوشن کی پالیسی میں کچھ ترمیم کی ہے۔ جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔
ناگپور اور آس پاس کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو آئندہ شمارے الفاظ ہند کے دفتر سے قیمتاً حاصل کرنا ہوگا۔
سالانہ ممبر سازی کئی ماہ سے رکی ہوئی ہے اور یہ رکی ہوئی ہی رہے گی۔ قارئین کو ہر ماہ شمارہ قیمتاً ہی خریدنا ہوگا۔
پیمنٹ کا ٹرانسفر گوگل پے سے ہی کیا جائے۔
جنھیں شمارہ رجسٹرڈ ڈاک سے چاہیے انھیں شمارے کی قیمت کے ساتھ اکیس روپے گوگل پے کے ذریعے ٹرانسفر کرنا ہوگا۔
کونسل کی لائبریریوں کے علاوہ کسی کو بھی شمارہ سادہ ڈاک سے نہیں بھیجا جائے گا۔
جنھیں الفاظ ہند کی سافٹ کاپی چاہیے انھیں آن لائن بھیج دی جائے گی۔ سافٹ کاپی کی قیمت بھی گوگل پے کے ذریعے ادا کرنی ہوگی۔ پیمنٹ ٹرانسفر ہونے کے بعد انھیں پی ڈی ایف مع پاس ورڈ بھیج دیا جائے گا۔
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments