پانی پہ پانی لکھنے والا ناول نگار: غضنفر
✍️ریحان کوثر
نام کتاب: آبیاژہ(غضنفر کے ناول)
مرتب/ناشر: ڈاکٹر رمیشا قمر
زیر اہتمام: بزم صدف انٹرنیشنل، دوحہ قطر
مطبع: روشان پرنٹرس، دہلی
کمپوزنگ: مہتاب عالم ندوی
سر ورق : نعیم یاد (پاکستان)
تعداد : 500
ْٰقیمت: 1200 روپے
سن اشاعت: 2022
ملنے کے پتے:
• رمیشا قمر: نزد مہندرا شو روم ، سٹر روڈ گلبرگہ کرناٹک
• مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، اردو بازار،جامع مسجد، دہلی
• کتب خانہ انجمن ترقی اردو، جامع مسجد، دہلی
• ایجو کیشنل بک ہائوس ، شمشاد مارکیٹ ، علی گڑھ
• بک امپوریم، اردو بازار، سبزی باغ، پٹنہ
یہ اتفاق ہے یا معجزہ! مجھے معلوم نہیں ! لیکن جب ودربھ، بندیل کھنڈ اور کالا ہانڈی کے کھیتوں کی زمین شدت پیاس سے پھٹی جا رہی تھی، مانسون بے رخی سے منہ پھلائے بیٹھا تھا اسی دوران جون کے دوسرے ہفتے میں شہر کامٹی میں پہلی بارش ہوئی اور اسی روز پوسٹ مین مجھے ’آبیاژہ‘ دے گیا۔
’آبیاژہ‘ دراصل غضنفر صاحب کے ناولوں کا مجموعہ ہے جس کی ناشر و مرتبہ ڈاکٹر رمیشا قمر ہیں۔ 904 صفحات پر مشتمل اس ضخیم کتاب میں کل نو ناول پانی، کینچولی، کہانی انکل، دویہ بانی، فسوں ، وِش منتھن، مم، شوراب اور مانجھی شاملِ اشاعت ہیں۔ میں نے ناول پر کبھی تنقیدی نظر نہیں ڈالی اور میں اس بات کا بھی اعتراف کرتا ہوں کہ یہ میرا پہلا موقع ہے کہ میں ناولوں پر کچھ لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ناول پر تنقیدی ٹولز سے میں بالکل ہی ناواقف ہوں۔ ویسے بھی آج کل ناول لکھے بھی کم جا رہے ہیں اور پڑھے بھی کم! ان پر تنقید تو بہت دور کی بات ہوئی۔ بہرحال! ناول پر تنقید کرنے کے لیے اس کے مرکزی موضوعات کا ایک مختصر جائزہ فراہم کرکے مواد پر بحث کرنا ہوتا ہے۔ ناول میں زیر بحث مسائل کا وسیع احاطہ لازمی اور اہم ہوتا ہے اور یہ ناول پر تنقید کا سب سے لازمی مرحلہ ہے۔ تجزیہ نگار کو اپنا تجزیہ اور تبصرہ پیش کر ناول کے مواد اور نتائج کا تجزیہ کرنا بھی مقصود ہوتا ہے۔
یہ تمام اوزار کسی ناول پر تبصرے اور جائزے کے ہیں، لیکن یہاں ہاتھ میں آبیاژہ ہے۔ ’آبیاژہ‘ کوئی معمولی مجموعہ نہیں کل نو ناولوں کا مجموعہ ہے۔ اب ناولوں کے مجموعے پر تنقیدی نگاہیں کس طرح ڈالی جائیں مجھے بالکل نہیں معلوم! کیوں کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ اول آج کل ناول کم شائع ہو رہے ہیں۔ دوم اس طرح کا ناولوں کا مجموعہ اس سے قبل میری مطالعے کی میز پر کبھی نہیں آیا تھا۔
غضنفر سر کے ناولوں کا مجموعہ ”آبیاژہ“ ہاتھ میں آتے ہی میرے مطالعے کی پیاس بھڑک اٹھی، قرآت کے لب خشک ہو گئے، حافظے کی تشنگی بڑھنے لگی اور غضنفر کے ایک یادگار ناول ’پانی‘ کی یادیں بخارات بن کر دل و دماغ سے اٹھنے لگیں اور مطالعے کی میز کے ارد گرد ٹوٹ کر برسنے پر آمادہ بادلوں کی شکل میں جمع ہونے لگیں۔ مجموعے کا عنوان کسی صحرا میں چمکتے دلربا سراب کی مانند تھا۔۔۔ یا پہلی بارش کی بوندوں اور پیاس کے لیے تڑپتی زمین کے ملاپ سے اٹھنے والی سوندھی خوشبو کی مانند نظر آیا، وہ خوشبو جسے محسوس تو کیا جا سکتا ہے مگر لفظوں میں اسے بیان نہیں کیا جا سکتا۔ قاری کے مطالعاتی تالاب میں اکثر عنوانات معنی کے لیے اوپر ہی اوپر تیرتے رہتے ہیں۔ جب تک عنوان کی معنی کی چھاپ ذہن کے پردے پر نقش نہ ہو جائے قاری کی بے چینی ختم نہیں ہوتی۔دوران مطالعہ بار بار اس کا ذہن عنوان کی جانب جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے جو اس کتاب کا عنوان یہ رکھا گیا؟ میں عنوان کی معنی جاننے کے لیے تڑپ اٹھا۔ آخر کار میری یہ بے چینی کتاب کے صفحہ نمبر 13 کے مطالعے سے فرار ہو گئی۔ ڈاکٹر رمیشا قمر لکھتی ہیں ،
”پتا چلا کہ پیاس بھڑک نہ جائے، کیفیت تشنگی سیماب نہ بن جائے، اضطراب اشتعال میں نہ بدل جائے، ضرورت کا تموج تلاطم نہ پیدا کر دے،اس امکانی صورت حال سے بچنے کے لیے آبیاژہ پیش کیا جا تا ہے۔ یہ بھی محسوس ہوا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے جو طرح طرح کے آبیازے پیش کیے جاتے ہیں ان میں فنون لطیفہ بھی ہیں۔اور ان فائن آرٹ والے آبیاژوں کی بھی کئی قاشیں ہیں جن کا اپنا اپنا روپ ہے، اپنا اپنا رنگ ہے، اپنا اپنا نور ہے۔جن کے کچھ عکس غضنفر کے پانی اوران کے دیگر ناولوں میں بھی منعکس ہوئے ہیں۔“
پانی اردو ادب میں مختلف قسم کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کے لیے علامت کے طور پر استعمال ہوتا رہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علامت کے طور پر اس کے استعمال کے واضح اور مقررہ اصول اردو ادب میں موجود نہیں ہیں۔ لیکن’آبیاژہ‘ کے تمام ناولوں کے مطالعے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ غضنفر جیسے زبان کے جادوگر کی طرزِ تحریر، اسلوب اور انداز بیان کسی خودساختہ اصول سے کم نہیں ! آپ نے تقریباً تمام ناولوں میں ناول کے تمام تر لوازمات کے ساتھ ساتھ پانی کو بطور علامت استعمال کرنے کے واضح اور روشن اصول بھی مرتب کیے ہیں اور بے شمار تخلیقی مکالمے اور جملے تحریر کیے ہیں۔ اسی تعلق سے کتاب میں شامل رمیشاؔ قمر کی نظم کے یہ دو اشعار ملاحظہ فرمائیں ،
جہاں پانی کے ہیں پانی مسائل
وہاں مشکل کے ہیں بانی مسائل
کہا ”شوراب“ نے آنسو بہا کے
نہ سکھ آیا چمن سے دور جا کے
ویسے پانی کو دیگر زبانوں میں مصنفین اسے مختلف طریقوں سے استعمال کرتے ہیں۔ مختلف چیزوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اور مختلف نکات بنانے کے لیے پانی کو پاکیزگی، وضاحتی، تازگی، اسرار اور زرخیزی کا عالمگیر اور آفاقی لہجہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی طرح تاریخ میں پانی کو حکمت، طاقت، فضل، موسیقی اور غیر متفاوت افراتفری کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جس نے مادی دنیا کو جنم دیا۔ غضنفر کا یہ معجزہ ہے کہ ان تمام خوبیوں کو ناول ’پانی‘ کی اس عبارت میں سمیٹ کر رکھ دیا ہے، ملاحظہ فرمائیں ،
ماں پانی پلانے کے بجائے اسمٰعیل اور آب زمزم کی کہانی سنانے لگی۔ آہستہ آہستہ بچے کی آنکھیں پھر بند ہو گئیں۔
پانی، صفحہ نمبر33
میری نظر میں ناول پانی کا یہ اقتباس مائیکرو فکشن یا افسانچے کا بہترین اور مکمل نمونہ ہے۔ اس جملے میں افسانچے کے تمام تر لوازمات کے ساتھ ساتھ ”آنکھیں پھر بند ہو گئیں “ یہ پنچ لائن موجود ہے۔ جہاں تک اس اقتباس میں کہانی کا تعلق ہے، اس میں صدیوں پر محیط ایک لمبی داستان موجود ہے۔ اسماعیلؑ اور آب زم زم کے ذکر سے اس تحریر کو آفاقیت اور عالمگیریت حاصل ہوئی۔ ماں کا پانی پلانے کے بجائے کہانی سنانا درد و الم کی داستانیں سنانے کی مانند ہے۔ کرب و بلا دردناک کہانی ہے۔ ناول میں اس طرح کے بیشمار افسانچے اور افسانے موجود ہے۔اسی صفحے پر پانی پہ پانی لکھنے کی عمدہ مثال ملاحظہ فرمائیں ،
آنکھیں پھیل گئیں۔ پتلیاں ڈولنے لگیں۔ نگاہیں پانی ڈھونڈنے لگیں۔بیاباں میں بھٹکنے لگیں۔جھاڑیوں میں جھانکنے لگیں۔غاروں میں اتر نے لگیں۔چٹانوں پر چڑھنے لگیں۔ وادیوں کے دامن ٹٹولنے لگیں۔گھاٹیوں کی مٹی کریدنے لگیں۔آخر کار پتھروں سے سر ٹکراٹکراکر نا مراد واپس آگئیں۔
درج بالا اقتباس میں پانی کی تلاش کی شدت کو محسوس کریں۔ آنکھیں ، پتلیاں اور نگاہیں سارے ہی اسی کام میں مشغول نظر آ رہے ہیں۔ تلاش کی اصطلاح اور اس عمل کا احاطہ بیاباں ، جھاڑیوں ، غاروں ، چٹانوں ، وادیوں سے گزر کر گھاٹیوں کی مٹی کریدنے تک ہی محدود نہیں ! اور اس تلاش کا انجام ایسا کہ جیسے دل پتھروں سے ٹکرا ٹکرا کر چکنا چور ہو گیا ہے۔
غضنفر کے ناول پانی میں پانی کا ایک اور رنگ دیکھیں ،
جھاڑیوں سے الجھتا، کانٹوں سے جوجھتا، گر تا پڑتا ہوا ایک کنارے پہنچا۔ دورایک تالاب دکھائی پڑا۔ ہونٹوں کی پپڑیوں میں بہتے ہوئے پانی کی سر سراہٹ محسوس ہو ئی۔ لڑ کھڑا تے ہوئے پیروں میں چاق و چوبند بیساکھیاں بندھ گئیں۔ وہ تالا ب کی طرف دوڑ پڑا۔
پانی، صفحہ نمبر33
یہاں مرکزی کردار کو پانی کی سرسراہٹ محسوس کروائی گئی ہے۔ غضنفر کی زبان کا جیتا جاگتا ثبوت ہے کہ پانی کی سرسراہٹ کو سانپ کے رینگنے کی آواز کے مانند پیش کیا گیا ہے۔ اس اقتباس میں ایک کمال یہ بھی ہے کہ یہ سرسراہٹ ہونٹوں کے پپڑیوں کے ذریعے محسوس کروایا گیا ہے۔ پانی کا رنگ و آہنگ اس سے بہتر انداز میں شاید ہی کسی نے پیش کیا ہوگا۔
دھیرے دھیرے بے نظیرتالاب کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے دونوں ہاتھ کی ہتھیلیوں کو نہوڑا کر پیالہ بنایااور جھک کر اسے پانی میں ڈال دیا۔ پیالہ پانی سے پُر ہوا چاہتا تھا کہ نہنگ کی چوکنی پتلیاں پیالے میں کو د پڑیں۔
پانی، صفحہ نمبر33
موصوف نے زبان کی جادو گری سے زیر نظر اقتباس میں پہلے تو ہتھیلیوں کا پیالہ بنوایا اور اس کے بعد چوکنی پتلیوں کو اس پیالے میں کودنے کی فن کارانہ جرآت کا مظاہرہ کیا۔ آپ یہاں پتلیوں کے پانی میں کودنے سے جو چاہے مراد لیں تحریر کے رنگ و آہنگ مزید خوبصورت اور دلکش نظر آئیں گے۔
ناول پانی بیشک ایک شاہکار ناول ہے اس میں غضنفر اپنے مخصوص انداز و اطوار میں ہر ہر سطور اور بین السطور میں نظر آتے ہیں۔ ناول میں پانی کے متعلق بے شمار تخلیقی جملے اور مکالمے نظر آتے ہیں ، چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں ،
پیالہ ٹوٹ گیا۔ ہاتھ آیا ہوا پانی ہاتھ سے نکل گیا۔
پانی، صفحہ نمبر34
’’نہنگ پر پتھر نہ مارو کہ پانی میں آگ لگ جائے گی۔ زندگیا ں جل کر راکھ ہو جائیں گی!‘‘
پانی، صفحہ نمبر34
’’ عجیب ہیں آپ لوگ بھی !اس نے میرا پانی روک دیا اور آپ میرا ہاتھ روک رہے ہیں۔! کیا میں پوچھ سکتا ہوں…… ‘‘
پانی، صفحہ نمبر34
پانی میں طو فان آگیا۔ لہریں اچھلنے لگیں۔ نہنگ کا دہانہ کچھ اور پھیل گیا۔
پانی، صفحہ نمبر34
بے نظیر نے ان کی طرف سے آنکھیں پھیر کر تالاب کی جانب موڑ لیں۔ سیکڑوں نہنگ پانی کی سطح پر گردن اٹھائے، منہ پھاڑے، آنکھیں پھیلائے کھڑے تھے۔ دانتوں سے بجلیاں نکل رہی تھیں۔ آنکھیں چنگاریاں اگل رہی تھیں۔
پانی، صفحہ نمبر35
’’ممکن ہے آپ درست فرما رہے ہوں لیکن آزمائش کے بغیر مجھے آپ کی باتوں پر یقین نہیں آئے گا ……اور یوں بھی میری بھڑکی ہوئی پیاس ان کی غفلت کا انتظا ر نہیں کر سکتی۔ ایسی صورت میں میرے لیے ان کی طاقت اور اپنی ہمت کے امتحان کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جا تا مگر میں اس امتحان سے قبل آپ سے کچھ پو چھنا چاہوں گا ……کیا آپ بتا سکیں گے کہ یہ مگر مچھ ہمیں پانی تک آنے کیوں نہیں دیتے؟ ہمیں پانی پینے سے رو کتے کیوں ہیں ؟ ہمارے پانی پی لینے سے تالاب خشک تو نہیں ہو جائے گا اور پھر پانی پر پابندی لگانے سے انھیں کیا ملے گا ؟ہاں ، ہم اگر مچھلیاں پکڑ نا چاہتے تو بات اورتھی۔ !‘‘
پانی، صفحہ نمبر36
’’سوال تو معقول ہیں۔ بیشک ہمارے پانی پینے سے تالاب خشک نہیں ہو گا اور نہ ہی پانی رو کنے سے انھیں کچھ حاصل ہو گا ……یہ بات بھی سچ ہے کہ ہم صرف پانی چاہتے ہیں ، مچھلیاں نہیں ……لیکن یہ باتیں تو وہ سوچے جس کے دھڑ پر نرم، ملائم بھیجے والاسر ہو۔ جانور کے سخت دماغ میں تو بس ایک بات گھستی ہے کہ اس کا اپنا مسکن ہر حال میں محفوظ رہے۔ اور وہ جانور تو اور بھی محتاط رہتا ہے جس کے سر میں تاج وری کا سو دا بھی سمایا ہو۔ ‘‘
پانی، صفحہ نمبر36
’’ٹھیک ہے وہ اپنی جگہ پر تاج دارسہی لیکن آخر ہم بھی تو کچھ ہیں ……تالاب پر نہ سہی پانی پر ہمارا بھی تو کچھ حق ہے۔ اور ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ ہمیں ہمارا حق ملے… یوں نہ سہی تو یوں سہی۔
پانی، صفحہ نمبر37
خشک خاموش لبوں پر فتح مندی کے زمزمے سج گئے۔ زرداداس چہروں پر سرخ جھنڈیاں لہرانے لگیں۔ بے نور ویران آنکھو ں میں قندیلیں جل اٹھیں۔ نشۂ کا مرانی میں جھو متے ہو ئے سر شار قدم پانی کے بالکل قریب پہنچ گئے۔ کچھ مضطرب ہو نٹ قر یب پہنچتے ہی پانی پر ٹوٹ پڑے۔ اچانک پانی سے لگے لبوں کو ایک جھٹکا سا محسوس ہوا۔ جھکے ہوئے جسم چکر کھا کر لڑھک پڑے۔ اعضا ساکت ہو گئے۔ ہونٹوں کا رنگ نیلا پڑگیا۔ آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ کنارے کھڑے باقی لوگوں کی آنکھیں دریائے استعجاب میں ڈوب گئیں۔ زبانیں گنگ ہو گئیں۔ زمزے ہونٹوں پر جم کررہ گئے۔ مسرور چہر ے مد قو ق ہو تے چلے گئے۔
پانی، صفحہ نمبر37
بوڑھے کی جہا ں دیدہ نگاہیں پانی میں کود پڑیں۔
پانی، صفحہ نمبر37
’’دھوکا ! بہت بڑا دھو کا ! پانی میں زہر …‘‘ جملہ بوڑھے کے خشک لبوں تک آتے آتے بجھ گیا۔
پانی، صفحہ نمبر37
بے نظیر کی نگاہیں تالاب کے نیلے پانی سے نکل کر بوڑھے کے زرد پر فکر چہرے پر مر کوز تھیں … چند لمحے بعد بوڑھے کی ویران آنکھوں میں روشنی سی جھلملائی اور اس کی مٹ میلی پیشانی چمک اٹھی۔
پانی، صفحہ نمبر38
زرد چہرے، سرخ جھنڈیاں ، ہونٹوں کا رنگ نیلا، تالاب کا نیلا پانی، مٹ میلی پیشانی جیسے علامتوں اور استعاروں سے ناول پانی کا آغاز ہوتا ہے۔ زبان کی چاشنی اور بیان کے مختلف رنگوں کے پانی میں قاری ڈوبتا نہیں بلکہ بہتا چلا جاتا ہے۔ پانی بلاشبہ ایک شاہکار ہے۔
ہندوؤں کی مقدس کتابوں کے مطابق زمین کے تمام باشندے قدیم سمندر سے نکلے ہیں۔ ان کے مطابق ابتدائی زندگی کی شکلیں پانی میں نمودار ہوئیں اور وہی تمام زندگی کا سرچشمہ ہے۔ زمین بڑی حد تک پانی پر مشتمل ہے اور اسی لیے اس کے بغیر اس کا وجود ناممکن ہے۔ لیونارڈو ڈاونچی کا خیال ہے کہ 'پانی فطرت میں محرک قوت ہے۔' تھوریو کے مطابق 'ہماری زندگی دریا میں پانی کی طرح ہے۔'
پانی نے ہمیشہ انسانوں کو مسحور کیا ہےنتیجتاً یہ ادب میں ایک نمایاں اور اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ تخیل کی آگ کو مستقل ایندھن فراہم کرتا ہے۔ اسی آگ سے غضنفر نے اپنے سارے ناولوں میں انگنت دیپ جلائے ہیں۔ پانی پھیرنا مشہور کہاوت ہے لیکن اس کو نبھانے کا خوبصورت انداز ملاحظہ فرمائیں ،
ڈاکٹر کا فیصلہ سن کر مینا پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اسے پوری امید تھی کہ دانش ٹھیک ہوجائے گا۔ اسی امیدپر تو اس نے راتوں کی نیند اور دن کا چین گنوایا تھا۔ اپنی صحت اپنے آرام یہاں تک کہ بھوک پیاس کی بھی پرواہ نہ کی تھی۔ لیکن آج اس کی تمام تر امیدوں ، محنتوں ، کوششوں اور قربانیوں پر پانی پھر گیا تھا۔
کینچلی ، صفحہ نمبر105
ہاں ! مینا تم جھوٹی ہو۔ وشواش گھاتی ہو۔ تم گناہ گار ہو۔ تم نے گھنائونا پاپ کیا ہے تم خونی بھی ہو۔ تم نے اپنے شوہر کے یقین اوربھروسے کا خون کیا۔ تم نے ایک بے بس اور مجبور انسان کو دھوکا دیا ہے۔ اس کی مجبوری اورلاچاری کا ناجائز فائدہ اٹھایا ہے۔ اپنی غرض کے لیے اپنی تمام تر قربانیوں پر پانی پھیر دیا ہے —مینا! تم انسانیت کا گیت گاتی ہو۔ ہمدردی ا ور مذہب کی روح کی باتیں کرتی ہو۔ کیا یہی انسانیت ہے؟ کیا اسی کو مذہب کہتے ہیں ؟ کیا ہمدردی کا مفہوم یہی ہے۔
کینچلی ، صفحہ نمبر161
گلاس کی کرچیاں ، دانش کا جھولتا ہوا ہاتھ اور پانی کا بہنا، تحریر کی روانی دیکھیں
فرش پر پانی بہہ رہا تھا۔ ارد گردگلاس کی کرچیاں بکھری پڑی تھیں۔ دانش کا ہاتھ چارپائی سے لٹک کر جھول رہا تھا۔
کینچلی ، صفحہ نمبر115
دکھ کو دور کرتا اور خدا کا شکر کرواتا پانی ملاحظہ فرمائیں ،
’’کیوں اس طرح کی باتیں کرکے خود کو دکھی کرتے ہو— لو، پانی پیو! خدا جو کرتا ہے، ا چھا ہی کرتا ہے۔‘‘
کینچلی ، صفحہ نمبر137
آبیاژہ کے تمام ناولوں کے مطالعے سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں شامل ہر ایک ناول کسی رواں دواں دریا کے مانند ہے اور اس دریا کا ہر قطرہ چھوٹے بڑے افسانے سے کم نہیں ! مثلاً آپ کہانی انکل کے کسی بھی صفحہ پر انگلی رکھ کر پڑھنا شروع کر دیں آپ کو پچھلے صفحات پڑھنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوگی یعنی ادھورا پن قطعی محسوس نہیں ہوگا۔ ہاں لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ آپ میں مزید پڑھنے کی چاہت بھڑک اٹھے گی۔ غضنفر کے ہر ناول میں کئی کئی فسانے ہیں ،
بقول بشیر بدر
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
٭٭٭
0 Comments