افسانہ نمبر : 14| کچے رنگوں کی محبت| ناہید طاہر

بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 14
کچے رنگوں کی محبت
ناہید طاہر
محفلِ مشاعرہ، جس پر رنگینی چھائی ہوئی تھی یہاں ہر طرح کے غزل گو شاعر مدعو تھے۔کسی نے انقلابی کلام پیش کیا اور کسی نے نیم رومانوی اشعار سے سامعین کے دلوں کے تار چھیڑ دیے تھے۔ لیکن فائزہ پروین کے آتے ہی ایک پُرکیف سماں بندھ گیا۔ وہ ہمیشہ کی طرح محفل پر چھا گئی۔سامعین اور معزز صدر کی جانب سے اتنی پذیرائی اور دادِ تحسین حاصل ہوئی کہ وہ مغرور ہونے لگی۔اس کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔ 
مشاعرہ جب اختتام کو پہنچا تو مختلف الالوان ضیّافتوں سے سجے میز پر پروین نے ڈنر کیا۔ کچھ ساعتوں بعد ہاتھ میں پیپسی کی ٹن لیے لان میں چلی آئی۔
لان کی کھلی فضا بدن کے ساتھ جیسے روح کو معطر کرگئی۔وہ پیپسی کے چھوٹے چھوٹے سِپ لیتی ہوئی ٹہل رہی تھی، اچانک کہیں سے خوبصورت آواز سماعت سے ٹکرائی۔آواز میں اتنا سحر تھا کہ وہ مبہوت ہو کر اس سمت کھینچی چلی گئی۔ پتا نہیں کون تھا جو اس کا کلام نہایت خوبصورت ترنم میں پڑھ رہا تھا۔
سُر کی تان ٹوٹی تو اس پر چھایا سحر بھی ٹوٹا اور وہ بے اختیار تالیاں بجانے لگی۔
وہ شخص بدحواسی کے عالم میں کھڑا ہوا اور دوسرے ہی پل حیرت ومسرت سے کہہ اٹھا۔
” فائزہ پروین آپ ؟“
جواب میں پروین دلفریب انداز میں مسکرائی اور کچھ توقف کے بعد گویا ہوئی۔
” آپ کی آواز بہت خوبصورت ہے !“
دوسرے ہی لمحے پروین کے چہرے پر حیرت کی پرچھائیاں لہرا گئیں۔ اس غیر متوقع طور پر رونما معجزے سے وہ حیرت کے سمندر میں غوطہ زن تھی۔
دل و دماغ پر یادوں کا دھواں پھیلنے لگا۔’معاذ ‘ وجود کے تئیں ایک طوفان سا اٹھا۔ وہی جاذب نظر، بلند قد، خوبرو نوجوان جس کی آنکھوں پر صرف عینک کا اضافہ ہوا تھا۔وہ خاموش تھی، اس کی سماعت سے اس شخص کی گھمبیر آواز ٹکرائی۔
”یقین کریں، میں آپ کا بہت بڑا مداح ہوں۔“
جواب میں پروین دلفریب انداز میں مسکراتی ہوئی شیریں آواز میں اجازت طلب کی،
”کیا میں یہاں بیٹھ سکتی ہوں۔؟“
” شرمندہ نہ کریں یہ تو میری خوش نصیبی کہلائے گی“
اس کا لہجہ پُرمسرت تھا۔
پروین شکریہ ادا کرتی ہوئی اُس کے پہلو میں بیٹھ گئی۔کچھ لمحات تعارفی گفتگو کے نذر ہوئے پھر معاذ، اجازت طلب کرتا ہوا پروین کی پہلی غزل اپنی خوبصورت آواز میں سنانے لگا جو ابتدائی دنوں میں بہت ہی مشہور ہوئی تھی۔
فلک پہ چمکتا چاند اور لان کے کناروں پر کیاریوں میں سجے پھولوں کی بھینی بھینی خوشبو نے دل ودماغ کو معطر کیا۔آواز کاجادو تھا یا ماحول کا سحر، دونوں کے وجود پر سرور آمیز کیفیت طاری ہونے لگی۔ معاذ کے پاس پروین کے کلام کا ایک ذخیرہ موجود تھا، پروین کی سانسیں سینے میں الجھنے لگیں۔جس کی یاد اور ہجر میں قید، اس نے بے شمار اشعار لکھے تھے۔وہی شخص ساری امانتیں سنبھالے، حقیقت کا روپ دھارے اس کے پہلو میں آبیٹھا تھا۔
” مجھے آپ کے کئی اشعار یاد ہیں۔“
” اچھا “
” آپ استادِسخن ہیں۔ “
یہ سن کرپروین دوبارہ مسکرائی اور شکریہ ادا کیا۔
” آپ کا آٹوگراف چاہتا ہوں۔“
اس نے ڈائری پیش کی۔پروین کچھ تذبذب کا شکار رہی، پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر ڈائری تھام لی اور لکھا۔
”اس حقیقت کے نام، جسے میں نے سراب سمجھا۔“
نیچے اپنا نام لکھ دیا۔خوبصورت عبارت کا مفہوم سمجھنے سے قاصر معاذ کے چہرے پر مسرت خیز تبسم کِھلا۔
”بہت بہت شکریہ۔۔۔!!
” آپ شملہ سے تعلق رکھتی ہیں؟“
”جی!“
” میرا آبائی وطن بھی وہی ہے۔“
” مجھے پتا ہے !“
 ”کیا مطلب ؟“
معاذ حیرت سے پروین کو دیکھنے لگا۔
” ہم کبھی پڑوسی ہوا کرتے تھے۔“
” واقعی؟ تعجب کا مقام ہے؟ مجھے اس بات کا علم ہی نہیں ؟“
وہ ایک بار پھر حیرت سے اچھل پڑا۔
” مرتضٰی احمد خان میرے والد محترم تھے “
پروین نے انکشاف کیا تو وہ کُھل کر مسکرایا۔
”اوہ! بالکل پڑوس میں ان کا مکان تھا۔لیکن میں نے آپ کو کبھی نہیں دیکھا۔؟جبکہ ان کے ایک فرزند، علی میرے ہم عمر تھے۔ان سے رسمی تعلقات تھے۔“
” جی۔۔! ابو کی خواہش تھی کہ علی بھائی آپ جیسے ہونہار انسان بنیں۔“
”اوہ۔۔! “
معاذ، پروین کی باتیں بڑی دلچسپی سے سنتا ہوا مسکرائے جارہا تھا۔
” محلے میں سب آپ سے متاثر تھے۔“
” یہ بات قابلِ قبول نہیں!“
اس نے شرمندگی سے ہنستے ہوئے کہا۔اس طرح گفتگو کا سلسلہ تقریب کے اختتام تک جاری رہا۔
” کل کی شام آپ کے ساتھ گزارنا چاہتا ہوں، کہیں آپ مصروف تو نہیں؟“
”میں نے تو زندگی سونپ رکھی ہے، ایک شام کی بات کررہے ہو ؟ “
پروین کی دھڑکنیں شکوہ کرگئیں۔ پروین کو خاموش پاکر اس نے دوبارہ اصرار کیا۔
”ان شاءاللہ میں کوشش کرتی ہوں۔ “
معاذ ایک سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ سلجھا ہوا، قابل انسان، محلے کے بزرگ چاہتے تھے کہ ان کی اولاد بھی معاذ کی روش اختیار کرے۔ خود پروین کے والدین کی آرزو تھی کہ ان کا بیٹا علی، معاذ جیسا ہونہار بنے۔
گھر میں صبح وشام صرف معاذ اور اس کی خوبیوں کا ذکر ہوتا تھا۔ پروین، معاذ کی خوبیوں سے واقف تو نہیں تھی ہاں دن رات کے ذکر نے اس کے دل میں معاذ کے لیے حسین و رنگین جذبات بیدار کردیے۔دل ہولے ہولے دھڑکنے لگا اور ان دھڑکنوں پر معاذ کا نام لکھا جانے لگا۔وہ ہر پل اسے سوچتی اور تنہائی میں اس کے تصور سے ڈھیر ساری باتیں کرتی۔خوبصورت جذبات و احساسات سے مزین وقت کھلکھلاتا ہوا آنکھ مچولی کھیلتا تیزی سے گزرگیا۔ معاذ، ترقی کی منازل طے کرتا چلاگیا۔اس کے برعکس پروین کی زندگی کسی کچھوے کی مانند رینگنے پر مجبور تھی۔مفلسی، بے روزگاری، آہیں اور تفکرات نے گھر کے آنگن میں بسیرا کر رکھا تھا۔امن اور سلامتی کے کبوتر کا یہاں گزر ہی نہیں ہوتا۔ان حالات میں پروین کی شادی بہت بڑا مسئلہ تھی۔ غریبی اس قدر تھی کہ بیاہ کے تئیں سوچنا جیسے جرم تھا۔ اکثر وہ خیالوں کی مہکتی راتوں میں معاذ کے ساتھ ایک زندگی جی لیتی، احساس کے دھویں کو ڈائری میں تحلیل کرنے کی کوشش کرتی۔اسی کا نتیجہ تھا کہ وہ ایک شاعرہ بن کر دنیا کے سامنے ابھر آئی۔ بے رحم وقت نے کوئی کروٹ نہیں بدلی، صرف یہ احسان کیا کہ اسے وقت کی معروف ترین شاعرہ بنا دیا۔
معاذ نے کسی امیرزادی سے شادی کرلی اور یہ خبر پروین پر بجلی بن کر گر پڑی تھی۔وہ جیسے غم و یاس کے سمندر میں ڈوبتی چلی گئی۔ اس کے اشعارمیں یاسیت، ہجر اور تنہائی کے رنگ اترنے لگے۔پھر ایسا ہوا کہ شادی کے چند ہی ہفتوں بعد وہ اپنی بیوی کو لے کر کہیں روپوش ہوگیا۔
معاذ کی گاڑی وسیع سڑک پر فراٹے بھرتی ہوئی منزل کی جانب کوشاں تھی۔دونوں کے درمیان بوجھل سی خاموشی طاری رہی۔ہاں دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دے رہی تھیں۔ خوبصورت جھیل کے کنارے پہنچ کر معاذ نے گاڑی پارک کی۔
گنگناتی ہوئی سرمئی شام کا منظر بہت حسین اور دلفریب تھا۔پرندے، رنگ برنگی، شوخ مچھلیوں کا شکار کرتے ہوئے مغرور دکھائی دے رہے تھے۔ بطخوں کے خوبصورت جوڑے ایک دوسرے سے چونچیں ملاتے ہوئے جیسے عہدِ وفا کی پاسداری کرتے نظر آئے۔۔۔ یہ نظارہ سیاحوں کی دلچسپی کا خصوصی مرکز بنا ہوا تھا۔ سیاحوں کے موبائل سیلفی کے ذریعے ان کی معصوم محبت کے گواہ عینی بنتے ہوئے مسکرا رہے تھے۔
سرسراتی ہوائیں اور ان ہواؤں سے اڑتے خشک زرد پتے، ڈوبتے سورج کی سنہری کرنیں، ماحول کو ایک جادوئی کیفیت بخش رہی تھی۔
معاذ پروین کی کئی غزلیں خوبصورت ترنم میں سناتا چلا گیا
”آپ کی فیملی اور بچے کیسے ہیں ؟“
اس اچانک کیے گئے سوال پر معاذ بجھ گیا۔پروین نے محسوس کیا، شاید ذاتیات پر مبنی سوال معاذ کو ناگوار گزرا تھا۔
” آپ سنائیں آپ نے شادی کیوں نہیں کی؟ آئے دن یہ موضوع میڈیا پر خوب گردش میں رہتا ہے۔“
معاذ نے سوال کے جواب میں سوال داغا تو پروین ہنس پڑی۔
”آپ میرا سوال تو حذف کرگیے۔۔۔
خیر! شادی نہیں کرنے کی وجہ، مجھے کسی راجکمار سے عشق ہوگیا تھا“
”کہیں وہ، میں تو نہیں؟“
”خوش فہمی !“
پروین زور سے ہنسی، معاذ بھی ہنسنے لگا۔
” مجھے اکثر ڈوبتے سورج کی کرنیں اداس کر دیتی ہیں، حیرت ہے آج میں اداس نہیں“ 
پروین سنہری بوجھل کرنوں کو دیکھتی ہوئی گنگنائی۔ معاذ اس کی جھیل سی گہری آنکھوں میں کھو گیا۔
فطرت کا لطف اٹھاتے ہوئے دونوں نے اس شام کو یادگار بنایا۔
دوسری شب معاذ نے پروین کو ڈنر پر مدعو کیا۔اس کی نگاہیں معاذ کی بیگم اور بچوں کو تلاش کررہی تھیں۔ معاذ نے اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے ہنسا۔
” شاید آپ میری بیگم اور بچوں کو ڈھونڈھ رہی ہیں؟“
” جی ہاں“
” میری بیوی میرے ساتھ نہیں رہتی “
”میں سمجھی نہیں؟“
” شادی کے صرف چند ماہ بعد ہی اس نے مجھ سے خلع لے لیا تھا۔“ 
پروین حیرت سے معاذ کو دیکھنے لگی۔ معاذ ایک قابل انسان تھا۔دنیا کی ہر آسائش اس کے قدم چوم رہی تھی۔بیوی کا خلع لینا
یقینا ایک معمہ تھا۔
کھانا،معاذ نے خود بنایا تھا، جو بے حد لذیذ تھا۔اس حسین شام کی ملاقات نے ہجر کی چادر اوڑھے دونوں کو جدا ہونے پر مجبور کیا۔یادوں کے خوشنما پھول سمیٹے وہ شملہ لوٹ آئی۔
دونوں کے درمیان گہری دوستی ہوئی،اکثر رات بھر بے شمار موضوعات پر تبادلہء خیال ہوتا لیکن ذاتیات پر مبنی گفتگو سے دونوں ہی پرہیز کرتے۔
یوں وقت تیزی سے آگے بڑھتا چلا گیا۔اس دوران پروین کے والدین کا انتقال ہوگیا، بھائی اپنے سسرال ممبئی شفٹ ہوا۔
پروین کی تقرری کسی کالج میں بطورِ پروفیسر ہوگئی۔ 
ایک شام ڈور بیل پر پروین نے دروازہ کھولا تو سامنے معاذ کو پاکر حیران رہ گئی۔
”آپ۔۔۔؟“
”جی۔۔۔! “
اس نے مسکراتے ہوئے پروین کی آنکھوں میں جھانکا۔
” سرپرائز، بنا کسی اطلاع ؟“
”آفس کے کام سے شملہ آیا ہوں، سوچا اپنی دوست کی خیریت پوچھ آؤں۔“
” اچھا کیاکچھ تو حوصلہ دکھایا۔“
”آپ چوٹ کررہی ہیں؟“
جواب میں پروین کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
”گزشتہ ملاقات کو کتنا عرصہ بیت گیا لیکن ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے کل ہی کی بات ہے۔“ 
معاذ کے اس جملے پر پروین اداسی سے مسکرائی اور نہایت کرب انگیز لہجے میں کہنے لگی۔
”رب نے جھوٹ سے منع کیا ہے۔پھر کیوں جھوٹ بولتے ہو؟ ہجر کی لمبی و سیاہ راتوں کو گن گن کر گزرا گیا ہے۔۔۔
یاسیت میں ڈوبی غزلوں کا ہر مصرع اس بات کا گواہ ہے!“
یہ سن کرمعاذ دکھ سے مسکرایا۔ڈھیر ساری باتیں انہوں نے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی کرلی تھیں۔ شاید دونوں ہی اس ملاقات کے سحر میں تھے۔
باہر برف گر رہی تھی۔پروین نے آتش دان میں لکڑیوں کو سلگایا۔اس کے باوجود کمرے کی یخ بستہ خنکی میں کوئی فرق نہیں آرہا تھا۔شاید دونوں کے وجود میں ماضی برف بن کر جم گیا تھا۔
”آتش دان کے قریب اس صوفے پر بیٹھ جائیں“
پروین نے آتش دان میں لکڑیوں کا اضافہ کرتے ہوئے اشارہ کیا۔ وہ اٹھا اور آتش دان کے قریب صوفے پر بیٹھ گیا۔دونوں نے وہیں بیٹھ کر خاموشی سے ڈنرکیا۔ اس کے بعد پروین نے کافی بنائی اور کافی کی چسکیوں کے دوران شاعری پر بات چیت ہونے لگی۔اشعار پر تبصرے بھی ہوئے لیکن ذراسی دیر میں وہ پروین کی غزل گنگنانے لگا۔ پروین پر ایک سحر طاری ہوا۔ گویا خود کا کلام پہلی بار سن رہی تھی ہرلفظ دل اور روح کی گہرائیوں میں پیوست ہوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔
دنیا و مافیہا سے بے خبر، سلگتے وجود کے اطراف شاعری کی کئی کتابیں پھیلی ہوئی تھیں۔ان کتابوں سے کوئی کتاب اٹھا کر جب وہ معاذ کو دینے لگتی اس دوران لمس کا ننھا سا شبنمی قطرہ جو دل پر چھائے ریگستان کو چھو کر اسے سیراب کرنے کی کوشش کرتا۔۔۔
پروین جب شاعری سے اکتاگئی تو اس نے پہلو بدلتے ہوئے بنا کسی تمہید کے سوال کیا۔
”شریکِ حیات کی یاد آتی ہے؟ “
پروین کے اچانک سوال پر معاذ چونکا!
”کچھ یادیں صرف یادیں نہیں بلکہ زندگی کا اثاثہ ہوتی ہیں جیسے آپ کے ساتھ گزرے مسوری کے وہ حسین لمحات۔۔۔ 
کچھ یادیں ایسی بھی ہوتی ہیں جو سوائے درد اور زخموں کے کچھ نہیں دیتیں۔ شریکِ حیات سے منسلک یادیں تو صرف زخموں سے پُر ناسور بنی ہوئی ہیں۔“
پروین نے اسے غم کے دریا میں غوطہ زن پاکر نہیں چھیڑا اور چپ چاپ سنتی رہی۔
”بے وفا چاہتیں ! “
وہ اپنی زندگی کی کتاب کے اوراق اُلیٹتے ہوئے گہرے کرب سے بول رہا تھا۔
پروین دھیرے سے بھیگی پلکوں کی جھالر اٹھاتے ہوئے نم آواز میں گویا ہوئی۔
” چاہتیں کبھی بے وفا نہیں ہوسکتیں !“
”ممکن ہو لیکن میری بد نصیبی کہہ لیں کہ تقدیر کی سیاہی نے اس المیہ کو میری پیشانی پر پیوست کردیا۔ آزمائش کی بھٹی میں جل رہا ہوں۔ایک آگ کا دریا ہے جس میں ڈوب چکا ہوں مگر اب دم گھٹ رہا ہے۔“ 
معاذ کی آنکھیں چھلک گئیں۔پروین بس خاموش نگاہوں سے اسے دیکھتی رہی۔
”اختلاف اور نفرتیں زیادہ ہوں تو محبت کی دلیلیں کارآمد ثابت نہیں ہوتیں۔ایسے میں خاموشی کے دریا میں خود کو غرق کردینا چاہیے نفرت اور اختلاف کی آگ خود بخود بجھ جائے گی، سو میں نے خاموشی کی چادر تان لی، تقدیر کے فیصلوں کے آگے کبھی لب کشائی نہیں کی لیکن اب تھک گیا ہوں“
آتش دان کی دھیمی تپش محسوس کرتے ہوئے پروین نے پہلو بدلا اور نہایت سنجیدگی سے استفسار کیا۔
”علیحدگی کی کوئی وجہ ؟ مناسب سمجھیں تو اس غم میں اپنا شریک بنائیں۔کیونکہ دکھ بانٹنے سے کچھ کم ہوتے ہیں۔“
”صحت کے کچھ مسائل تھے۔“
معاذ شرمندگی سے نظریں چرانے لگا۔
”اوہ! “
خواہ مخواہ اس نے معاذ کی دکھتی رگ پر انگلی رکھی تھی۔وہ شرمندگی محسوس کرنے لگی۔
”علاج کی کچھ ضرورت تھی سب ٹھیک ہوسکتا تھا لیکن اس نے انتظار نہیں کیا اور صرف چند ہفتوں میں خلع کا تقاضہ کردیا۔دنیا کے سامنے مجھے اتنا رسوا کیا کہ میں کئی مہینوں تک اپنا چہرہ چھپائے بیٹھا رہا۔“
”اوہ۔“
”پروین ! تم بتاؤ، تم نے شادی کیوں نہیں کی ؟ “
معاذ آپ سے تم پر اتر آیا اور نہایت اپنائیت سے سوال کیا تھا۔معاذ کے اس سوال پر پروین دھیرے سے اٹھی اور پانی کی بوتل اٹھائی۔پیاس سے اس کا گلہ خشک ہو رہا تھا۔ باہر برف میں تیزی آگئی تو پروین نے بوتل تھامے ہوئے آتش دان کے قریب پہنچ کر اس میں مزید لکڑیاں ڈال دی۔ 
کھڑکیوں کے گلاس پر کمرے کی حرارت اور باہر کی خنکی کے باعث بھانپ کے قطرے ایک عجب انداز میں رقص کرتے دکھائی دیے۔خاموشی بوجھل ہونے لگی تو پروین نے بوتل کے اطراف انگلیوں کی گرفت تنگ کرلی۔گلے کو تر کیے بنا جیسے خود کو سزا دیتی ہوئی معاذ کے سوال کا جواب دینے کی کوشش کی
” زندگی میں کئی مواقعے آئے، کئی ایک نے قدموں میں دل بچھایا لیکن اس دل نے کہیں قرار نہیں پایا۔کیونکہ وہ کسی اور کی امانت تھا۔“
معاذ خاموش دھڑکتے دل کے ساتھ سن رہا تھا۔ پروین کچھ توقف کے بعد سوزِ جگر میں ڈوبی آواز میں گویا ہوئی۔
” آپ نے اپنے پڑوس میں کبھی ایک نگاہ بھی نہیں ڈالی۔جبکہ میں گھنٹوں اسی امید میں کھڑی رہتی کہ وقت کا کوئی مہربان لمحہ ایسا ضرور آئے گا کہ آپ کی نگاہ ِعنایت ہوگی۔ لیکن افسوس۔۔۔ “ 
پروین جیسے روح سے چمٹی ہجر کی چنگاریاں کو بجھانے کی کوشش کرتی، بوتل ہونٹوں سے لگا کر گھٹاگھٹ پانی پی گئی۔ معاذہونقوں کی مانند دیکھتا رہا ایسا لگا جیسے اسے سانپ سونگھ گیا ہو۔ جب بوتل ختم ہوئی تو وہ ہولے ہولے رونے لگی۔
معاذ دھیرے سے اٹھا اور پروین کو تھام لیا۔
”یہ عجیب داستانِ محبت ہے۔تم مجھے دن رات دیکھتی رہی، مجھ سے محبت کرتی رہی جبکہ میں تم کو بِنا دیکھے، تم سے عشق کرنے لگا۔تمہاری شاعری میری روح میں سرایت کرگئی“ 
کچھ توقف کے بعد وہ گہری سانس لیتا ہوا دوبارہ لب کُشاہوا۔
” تمام راز عیاں ہونے کے باوجود ہم ادھورے ہیں ادھوری محبتیں ہیں۔کیونکہ ہماری تقدیر کا لکھا بھی ادھورا ہے!
اگر ہم ایک ہوئے بھی تو شاید تمھاری تشنگی کم نہ ہوگی۔ ہوسکتا ہے، نا آسودہ خواہشات تمہارے دامن میں ایسی محرومیاں اور قنوطیت بھر دیں،جس کے باعث تم ہوش وخرد سے بیگانہ پاگل وحشی بن جاؤ۔کیونکہ میں ایک ادھورا انسان ہوں میرے پاس زندگی کے سب رنگ کچے ہیں اور میں کچے رنگوں کی محبت میں بھلا کیسے مبتلا ہوسکتا ہوں؟“
”یہاں کوئی مکمل نہیں ہر انسان کسی نہ کسی اعتبار سے ادھورا ہوتا ہے ! “
پروین نے سسکاری کے درمیان کہا۔
”پیار، محبت، عشق ان سب پر میرا کوئی حق اور اختیارنہیں۔“ 
معاذ کی آواز بھراگئی۔
”کون کہتا ہے؟“
پروین ہولے سے چیخی۔
” یہ کہو کون نہیں کہتا؟“
وہ کرب سے مسکرایا۔
” جب ہم نے اتنے سال ایک تصوراتی خاکے میں مقید، محبت کی ہے، تو کیا اسے حقیقت پا کر محض ادھوراجان کر کنارہ کشی اختیار کرلیں۔۔۔؟جبکہ زندگی نے ایک عرصے تک تہی دامن رکھا تو بھلا آگے کی کیا پرواہ کریں؟“
معاذ کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔
”جسموں کی پیاس عشق کے آگے ایک حقیر سی شے ہے۔ اگر بجھ گئی تو عشق کہیں دور کھڑا رہ جائے گا پھر معشوق اسے زندگی بھر تلاش کرتا رہے گا۔۔!“
”فیصلے آسمان سے اتر رہے ہیں تو انھیں کسی دلائل سے شرمندہ نہ کریں!“
پروین کی سسکاری ابھری۔معاذ نے مسکرانے کی کوشش کی تو پروین نے آگے بڑھ کر اس کی پلکوں سے گرتے ہوئے آنسو اپنی انگلیوں کی پوروں میں جذب کر لیے۔
”روح کی پیاس بجھانا چاہتی ہوں جو پتا نہیں کتنی صدیوں سے پیاسی ہے۔“
وقت کا فیصلہ ہے جو شاید ایک عرصے بعد ان کے قدموں سے خود ہی آکر لپٹ گیا یا شاید محبت کے سمندر کی تیز لہریں،ویران جزیروں سے ٹکرا کر انہیں سیراب کرنا چاہتی تھیں۔دونوں نے سوچا۔
” یادوں کی مزار پر دیپ جلا کر زیست کو روشنی بخشی نہیں جا سکتی بلکہ حقیقت کی پگڈنڈیوں پر شمع جلاکر زندگی میں اجالا ضرور پھیلایا جا سکتا ہے!“
ختم شدہ 
تبصرے و تاثرات
ہارون اختر
کچے رنگوں کی محبت ایک خوبصورت رومانی افسانہ ہے ۔ صرف صحت کے مسائل پر
خلع لینا
کچھ عجیب سا لگ
ایک خوبصورت شاعرہ جو محفل مشاعرہ میں آتے ہی مشاعرہ لوٹ لے
اس طرح بے رنگ زندگی کیسے گزار سکتی ہے
پروین کے آتے ہی ایک پر کیف سماں بند جا تا تھا
افسانے کی زبان عمدہ ہے
ناہید طاہر صاحبہ کے لئے نیک خواہشات اؤر ڈھیر ساری دعائیں
٭
شہناز فاطمہ
"یادوں کے مزار پر دیپ جلاکر زیست کو روشنی نہیں بخشی جاسکتی بلکہ حقیقت کی پگڈنڈیوں پر شمع جلاکر زندگی میں اجالا ضرور پھیلا جاسکتا ہے"
زندگی کا یہ خوب صورت فلسفہ محترمہ ناہید طاہر صاحبہ نے اپنے فنکارانہ ڈھنگ سے افسانہ
26/07/22، 10:46 am - اسرار گاندھی صاحب: ناہید طاہر کی کہانی پڑھ لی۔ یہ کہانی رومانی کہانی ہونے کے تمام تقاضے پورا کرتی ہے۔
کہانی قدرے طویل ہونے کے باوجود بور نہیں کرتی بلکہ ایک سرشاری پیدا کرتی ہے۔ یہ کہانی تو صرف اپنی خوبصورت زبان کے لیے ہی पढ़ी جا سکتی ہے۔
میری طرف سے ناہید کو ڈھیروں داد۔
٭
اقبال حسن آزاد
زبان و بیان کی چند غلطیوں سے اگر صرف نظر کیا جائے تو اچھا رومانی افسانہ ہے۔ بے جا طوالت کسی بھی تحریر کو بوجھل بنا دیتی ہے۔ناہید طاہر نے پچھلے چند برسوں سے لکھنا شروع کیا ہے اور اس عرصے میں کئی فنی مدارج طے کیے ہیں لیکن فن میں پختگی حاصل کرنے کے لیے انہیں اور مشق کی ضرورت ہے۔
نیک خواہشات کے ساتھ
٭
نصرت شمسی
ایک اچھا رومانی افسانہ ہے۔درمیان میں کچھ کمیاں شاید ٹائپنگ کے سبب ہیں اگر تھوڑا سمیٹ کر لکھیں تو بہت اچھا افسانہ ہو جائے گا۔قلم کے لیے دعائیں
٭
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
”جسموں کی پیاس عشق کے آگے ایک حقیر سی شے ہے۔ اگر بجھ گئی تو عشق کہیں دور کھڑا رہ جائے گا پھر معشوق اسے زندگی بھر تلاش کرتا رہے گا۔۔!“
”فیصلے آسمان سے اتر رہے ہیں تو انھیں کسی دلائل سے شرمندہ نہ کریں!“
یہ حملہ پورے افسانے کا حاصل ہیں۔
ناہید طاہر صاحبہ کا خوبصورت جزبوں سے مزین افسانہ،عمدہ زبان میں سحر انگیز بیانیہ۔
اعلیٰ کردار نگاری کا نمونہ۔ 
روماںویت کی خوشبو سے مہکتا افسانہ۔ 
ناہید طاہر صاحبہ کو مبارکباد
٭
اکبرعابد
افسانہ کچے رنگوں کی محبت کہانی رومانیت سے بھری کہانی ہے بوریت نہیں ہوتی کہانی کی زبان خوبصورت ہے طوالت کے باوجود کہانی میں قاری کھوجاتا ہے کیوں کہ ایک عجیب سا نشہ اور سرشاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے یہ کہانی رومانیت کے تمام تقاضے پورے کرتی ہوئی کامیابی کیطرف قدم بڑھاتی ہوئی بہترین کوشش کے لئے محترمہ ناہید طاہر صاحبہ کو ڈھیروں مبارکباد اور نیک خواہشات
٭
رفیع حیدر انجم
ایک رومانی افسانہ میں قاری جن عناصر کی تلاش میں رہتا ہے، یہ افسانہ اسے پورا کرتا ہے. بیانیہ کی شگفتگی نے طوالت کا احساس کم کر دیا. مکالمے محبت کے خوبصورت جذبات و احساسات کی ترجمانی کرتے ہیں. احساس محرومی کی ایک دھیمی آنچ افسانے پر سایہ فگن ہے جو قاری کے انہماک کو جگائے رکھتی ہے. اختتام پر سکون لمحوں پر ہوتا ہے. انسان کی کشاکش بھری اس زندگی میں یہ افسانہ چند ساعت کے لئے ذہن ودل کو آرام و اطمنان پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے. ادب میں ایسے افسانوں کی پزیرائی یقینی طور پر ہونی چاہئے.
٭
رخسانہ نازنین
یکطرفہ محبت میں مبتلا ایک لڑکی جسے اس محبت نے شاعرہ بنادیا اور حسین اتفاق کہ وہی محبت اسکی شاعری کی مداح تھی۔ ! سچے جذبوں کی جیت ہوئی اور مرادیں پوری ہوگئیں۔ ایونٹ کے موضوع سے مطابقت رکھتا رومانی افسانہ۔ مبارکباد اور نیک خواہشات
٭
شہناز فاطمہ
"کچے رنگوں کی محبت" میں ایسے خوب صورت رومانٹک دلکش جزبات و احساسات کا اظہار کیا ہے کہ قاری اکدم مسحور ہوکر اسی کا ہوکر رہ جائے اسکے ہرحرف سے محبت کی پھوار قاری کو ایک جزباتی رومانی ماحول میں پہنچا دیتی ہے
بیحد حساس قلم سے لکھا گیا افسانہ دل کی گہرائیوں میں اتر گیا محترمہ ناہید طاہر صاحبہ کے اس شاہکار افسانے کے لئے بہت داد اور تحسین و ستایش کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں گر قبول افتد زہے عزو شرف
٭
آسیہ رئیس خان
خوبصورت الفاظ اور نازک و حسین احساسات سے لبریز اچھا رومانی افسانہ۔ 
وہ پڑوسی تھے تب ہی معاذ انجینئر بن چکا تھا اس کے بعد دوسری ملاقات اتنا وقت گزرنے کے بعد ہوئی کہ وہ مقبول شاعرہ اور لیکچرر بن گئی، والدین انتقال کر گئے، یعنی یہ طویل دورانیہ تھا۔ اس لحاظ سے دونوں کرداروں کی عمر اچھی خاصی ہوگی، مجھے ان کے مکالمات میں رومان تو ملا لیکن عمر اور تجربے والی میچورٹی نہیں تھی۔ دوسرے معاذ نے خود کہا بیوی نے جلد بازی کی، علاج سے سب ٹھیک ہو سکتا تھا لیکن پھر بعد میں خود اسی وجہ سے انکار بھی کر رہا تھا۔ 
کئی جملے بہت خوبصورت ہیں۔ مبارک باد اور داد۔ 
رد و قبول تسلیم
٭
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
محبت کے پکے رنگوں میں شرابور کچے رنگوں کی محبت لایق ستایش ہے۔
اکا دکا مستثنیات کو چھوڑ کر خوبصورت رومانی زبان و بیان میں گندھا افسانہ اپنے موضوع سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔ تہذیب محبت کی بھی پاسداری کی گئی ہے۔
ناہید صاحبہ کم لکھتی ہیں لیکن خوب لکتھی ہیں۔
مبارکباد۔
٭
فوزیہ اختر ردا
افسانوی رنگ سے بھرپور اور ناول کا مزہ دیتا ہوا افسانہ پسند آیا- ناہید صاحبہ کا پہلا افسانہ میں نے پڑھا ہے- لیکن اس واحد تحریر سے ہی بہت متاثر ہوئ- مصنفہ نے اسلوب، بیانیہ اور کیفیات پر اپنی مظبوط پکڑ رکھی ہے- تسلسل بھی خوب ہے- کرداروں کی جذبات کی عکاسی اور ان کی نفسیات کی پیچیدگیوں کو سلجھاتی ہوئی ایک خوبصورت تخلیق کے لئے ناہید طاہر صاحبہ کو بہت مبارکباد
٭
سراج انور
لازم ہے اب یہی کہ جلائیں چراغ جاں
اپنے لئے تو مہر نہیں ماہ بھی نہیں
اقبال خلش کا یہ شعر افسانے کے کردار پروین اور معاز پر پوری طرح صادق آتا ہے۔طویل عرصہ گزرنے کے باوجود دونوں کرداروں نے چراغ جاں جلانا جاری رکھا۔ رشتوں کی محرومی، یکطرفہ محبت میں ناکامی کا احساس دونوں کی زندگی میں بیڑی نہ بن سکا۔ حالات مایوس کن ہونے کے باوجود دونوں کرداروں کا اپنی اپنی زندگی میں آگے بڑھتے رہنا قابل تحسین ہیں۔ بہترین منظر نگاری، جذبات نگاری اور رومانی زبان و بیان کے لیےافسانہ نگار مبارکباد کی مستحق ہیں۔
٭
انور مِرزا
اچھا خاصہ رومانی افسانہ...
بنیادی خیال’ بولڈ‘ قسم کا ہے...
جا بجا تخلیقی جملے متاثر کرتے ہیں
مگر طوالت... وحدتِ تاثر کو
مجروح کر رہی ہے
نظرِ ثانی سے طوالت اور 
تصنّع/تکلف کم کرکے
افسانے کی رفتار 
بڑھائی جا سکتی ہے...
ناہید طاہر صاحبہ کیلئے
مبارکباد اور نیک خواھشات
٭
سیدہ تبسم ناڈکر
خوبصورت رومانی افسانہ ہے۔
افسانہ کچے رنگوں کی محبت کہانی رومانیت سے بھری ہوئی کہانی ہے۔ کہانی کی زبان و بیان خوبصورت ہے طوالت کے باوجود کہانی میں قاری کھوجاتا ہے۔ بہترین افسانے کے لئے ناہید طاہر صاحبہ کو ڈھیروں مبارکباد دعائیں اور نیک خواہشات۔
٭
انیس رشید خان
بہت ہی خوبصورت رومانی افسانہ ہے۔
پڑھنا شروع کیا تو بس پڑھتا چلا گیا۔ ایک ایک لفظ رومانیت سے لبریز ہے۔ 
واقعی اگر دلوں میں محبت سچی ہو تو ایک نا ایک دن اپنی منزل تک ضرور پہونچتی ہے۔ 
خوبصورت افسانے کے لئے محترمہ ناہید طاھر صاحبہ کو بہت بہت مبارک باد 🌹
٭
سلام بن رزاق
بزم افسانہ کے ساتھیو، 
آداب
ناہید طاہر کا افسانہ،"کچے رنگوں کی محبت"
رومانیت سے بھرپور دل کو چھو لینے والا افسانہ ہے۔
 زبان وبیان کے اعتبار سے اس ایونٹ میں پیش کئے گئے بہترین افسانوں میں اس کا شمار ہوتا ہے۔
شہناز فاطمہ،نثار انجم وغیرہ نے افسانے کے رومانیت سے بھرپور
خوبصورت۔ تخلیقی جملوں کی نشاندھی کی ہے۔
افسانے میں موتیوں کی طرح پروے ہوے یہ جملے نہ صرف عبارت کو وقیع اور مؤثر بناتے ہیں بلکہ افسانے کے مطعالیاتی وصف میں اضافہ کرتے ہیں۔
کلائمکس میں معاذ کےذاتی درد اور پروین کے ہجر و فراق کے کرب سے قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ 
اگرچہ افسانے کی طوالت مطالعہ میں مانع نہیں آتی تاہم شارپ ایڈیٹنگ سے افسانہ مزید خوبصورت بن سکتا ہے۔ایک بات اور افسانے کا عنوان افسانے کی طرح پر کشش اور جاذب نظر نہیں ہے۔اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔
بہر حال اس عمدہ افسانے پر افسانہ نگار ناہید طاہر کو دلی مبارکباد اور دعائیں اور مبصرین کے لیے نیک خواہشات۔
 شکریہ
٭
محمد قمر سلیم
رومانیت سے بھرپور ایک خوبصورت افسانہ۔ بہت پیاری دل کو چھو لینے والی زبان۔خوبصورت جملے اور بیان۔ طویل ہونے کے باوجود طوالت گراں نہیں گزری۔ تجسس بھی برقرار رہا۔سلام بھائی نے جن نکات کو اٹھایا ہے اس سے متفق ہوں۔ اس سحر انگیز تحریر کے لیے محترمہ ناہید طاھر صاحبہ کو بہت بہت مبارکباد
٭
فوزیہ نسرین
پھر کچھ کہنے اور کچھ سننے کو مل گیا.... کچے رنگوں کی محبت ایک رومانی افسانہ ہے. افسانہ کی زبان بہت عمدہ ہے خوبصورت جملے ہے۔طوالت ہوتے ہوئے بھی قاری اس میں کھو جاتا ہے۔وقت کی کمی ہے ڈھیروں محسوسات ہے... بس اتنا کہوں گی ایونٹ کا نمائندہ افسانہ ہے 
میری طرف سے محترمہ ناہید صاحبہ کو ڈھیروں مبارکباد۔
٭
ناہید طاہر
سب سے پہلے تو بزم افسانہ کے منتظمین اور محترم سلام رزاق صاحب کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرنا چاہوں گی جنھوں نے مجھے اس لائق سمجھا۔۔
 مصروفیات کے باعث میں نے گروپ سے کنارہ کشی کرلی تھی اسے نظر انداز کرتے ہوئے مجھے دوبارہ سے اس خوبصورت ایونٹ کا حصہ بننے کی دعوت دی۔۔۔ 
انڈیا چھٹی پر ہونے کے سبب کچھ مصروف ہوں لیکن میں نے مخلص عقیل وسیم کی آواز پر گروپ میں اپنے افسانے کے ساتھ حاضر ہوئی۔۔
یہاں احباب نے اپنے تاثرات اور تبصروں سے اتنی پزیرائی اور محبت سے نوازا کہ میں مغرور ہونے لگی۔
مجھے آپ احباب کے تبصروں سے اس قدر مسرت ہوئی پوچھئے مت میں فردً فردً جواب دینا چاہوں گی۔۔
ایک اور اچھی بات اس افسانے کو لے کر آپ احباب سے شئیر کرنی تھی کہ الحمدللہ اس افسانے کو پاکستان کا ماہنامہ رسالہ " دوشیزہ " نے مجھے بسٹ رائٹر ایوارڈ دیا تھا
میں بینر کی تعریف کرنا چاہوں گی۔
 بہترین بینر !!
طاہر انجم صدیقی نے اسے بنایا ہے تخلیق کی نوعیت بھی ذہن میں رکھی گئی۔۔شاندار۔۔
 آپ مبارکباد کے مستحق ہیں
افسانہ کو pdf میں تبدیل کرنا بھی ایک محنت کش مرحلہ ہے۔میں یہاں گروپ کا تمام عملہ کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے مبارکباد پیش کرتی ہوں کہ آپ تمام منتظمین ادب کی بہترین خدمات انجام دے رہے ہیں۔۔رب آپ تمام کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین
ہارون اختر صاحب ؛
آپ نے لکھا 
صرف صحت کے مسائل پر خلع لینا کچھ عجیب سا لگا۔۔۔
دنیا ہے جناب ایسے حالات،حادثات ہوتے رہتے ہیں۔۔۔یہاں کسی بات پر تعجب ہی عجیب لگنے لگتا ہے 
آپ نے تحریر کو وقت دیا ممنون ہوں۔
۔۔۔
شہناز فاطمہ صاحبہ؛
آپ لکھتی ہیں؛
"کچے رنگوں کی محبت" میں ایسے خوب صورت رومانٹک دلکش جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے کہ قاری اکدم مسحور ہوکر اسی کا ہوکر رہ جائے اسکے ہرحرف سے محبت کی پھوار قاری کو ایک جذباتی رومانی ماحول میں پہنچا دیتی ہے
بیحد حساس قلم سے لکھا گیا افسانہ دل کی گہرائیوں میں اتر گیا۔۔۔
محترمہ شہناز صاحبہ آپ کی محبتوں کی قرض دار ہوں 
آپ نے پانچ میسیجز پوسٹ کیے۔۔۔ہر مسیج میں ایک الجھن۔۔۔یہ الجھی کیفیت کسی پریشانی کی وجہ نہیں تھی بلکہ آپ کی وہ محبت تھی جو میری تخلیق کے تئیں باہر نکلنے کو برقرار تھی۔۔۔
مجھے اچھا لگا۔۔۔
آپ کا ہر لفظ میں نے محفوظ کرلیا ہے۔۔۔
بہت بہت شکریہ۔
۔۔۔
اسرار گاندھی صاحب ؛
محترم! میں نے آپ کی بہت سی تخلیقات پڑھی ہیں۔۔
آپ استادِ سخن ہیں۔۔۔آپ کی جانب سے حوصلہ افزائی ملی ہے تو جیسے قلم کو ایک تقویت ملی ہے۔
بہت شکریہ
۔۔۔
محترم اقبال حسن آزاد
آپ نے لکھا، مشق کی ضرورت ہے۔
جی محترم مشق کی تو ضرورت ہے اور بہت زیادہ ضرورت ہے۔۔
آپ استاد کا درجہ رکھتے ہیں۔
الحمدللہ ثالث رسالے میں آپ نے میری اب تک تین تخلیقات کو شامل کیا ہے۔
بہت بہت شکریہ 
۔۔۔
نصرت شمسی صاحبہ
آپ نےقلم کے لیے دعائیں لکھی ہیں یہ ایک بہترین دعا ہے۔۔
شاد رہیں 
۔۔۔
فرخندہ ضمیر صاحبہ؛ 
آپ نے افسانے سے دو خوبصورت اقتباس کوڈ کیے ہیں۔۔۔پھر آپ نے لکھا
"یہ جملے پورے افسانے کا حاصل ہیں"
یہ میرے لیے اعزاز ہے
افسانے کی پسندیدگی کا شکریہ 😊
۔۔۔
جناب اکبرعابد صاحب 
 آپ نے لکھا کہانی کی زبان خوبصورت ہے طوالت کے باوجود کہانی میں قاری کھوجاتا ہے ایک عجیب سا نشہ اور سرشاری کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔۔۔
جناب آپ کے تبصرے نے مجھے بےحد مسرور کیا۔
شاد رہیں 
۔۔۔
 جناب رفیع حیدر انجم ؛
 "انسان کی کشاکش بھری اس زندگی میں یہ افسانہ چند ساعت کے لئے ذہن و دل کو آرام و اطمینان پہنچانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے."
 بس جناب رفیع صاحب مجھے قاری کے خیالات جانکر بے انتہا مسرت ہورہی ہے یہ احساس قلم کو تقویت پہنچارہا ہے۔
بہت شکریہ
۔۔۔
رخسانہ نازنین صاحبہ
آپ نے ہمیشہ حوصلہ بڑھایا ہے۔
شکریہ۔۔!!
۔۔۔
محترم نثارانجم؛
 نثار انجم صاحب ایک کہنہ مشق نقاد ہیں۔ان کا تبصرہ وتجزیہ ہمیشہ بہترین وعمدہ ہوتا ہے میرے اس افسانے پر آپ نے اتنی گہرائی و باریکی سے تجزیہ کیا ہے کہ عقل حیراں ہے۔۔۔
بہت خوبصورتی سے افسانے سے اقتباس لیتے ہوئے تجزیہ کیا ہے جس کے لیے بے اختیار وااہ نکلتی ہے۔
"ہجر درد کے پھول، اور یاسیت کے دکھ کے پس منظر میں لذت وصال کی دھیمی أنچ پر پکتے ہوئے پروین کے فلسفہ عشق کی یہ تڑپ اور عمل کا تضاد دیکھیں کیسے جگر پارہ پارہ ہوتا ہے۔۔"
میں آپ کے قلم اور خیالات کی دھار کی دل سے قائل ہوں۔۔
اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ۔
۔۔۔
آسیہ رئیس خان صاحبہ
 آپ کو افسانہ پسند آیا لیکن چند نکات ایسے محسوس ہوئے جن میں آپ الجھ کر رہ گئیں۔۔۔
آپ نے لکھا
 وہ پڑوسی تھے تب ہی معاذ انجینئر بن چکا تھا اس کے بعد دوسری ملاقات اتنا وقت گزرنے کے بعد ہوئی کہ وہ مقبول شاعرہ اور لیکچرر بن گئی، والدین انتقال کر گئے، یعنی یہ طویل دورانیہ تھا۔ اس لحاظ سے دونوں کرداروں کی عمر اچھی خاصی ہوگی،؟؟؟
 
 آسیہ رئیس صاحبہ سبھی کام اپنے وقت اور رفتار سے انجام پاتے ہیں۔۔۔
بعض اوقات ایک وقت،ایک ساتھ کئی کام انجام پاتے ہیں۔۔
 افسانے کی پسندیدگی کا شکریہ 
۔۔۔
 نعیمہ جعفری صاحبہ
افسانے کی پسندیدگی کا بےحد شکریہ
آپ کی محبتیں۔۔۔
رب آپ کو صحت وعافیت کے ساتھ دراز عمر عطا فرمائے آمین
بہت شکریہ
۔۔۔
محترمہ فوزیہ اختر صاحبہ
آپ نے لکھا
افسانوی رنگ سے بھرپور اور ناول کا مزہ دیتا ہوا افسانہ پسند آیا- ناہید صاحبہ کا پہلا افسانہ میں نے پڑھا ہے- لیکن اس واحد تحریر سے ہی بہت متاثر ہوئ-
فوزیہ مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ آپ کی نظروں سے میری دوسری تحاریر گزر نہ سکیں۔
۔۔۔
محترم سراج انور صاحب۔
سب سے پہلے تو آپ کے نام کے ساتھ مجھے میرا پسندیدہ ناول نگار سراج انور یاد آگیا۔۔۔جنکی میں بہت بڑی فین تھی۔
"شیشے کی چٹان "،"دوڑتا جنگل" کالج دور میں دیوانگی کی عالم میں پڑھا تھا۔۔۔اس سلسلے میں امی کی بہت ڈانٹ بھی کھائی لیکن راتوں کو جاگ کر پڑھنا نہیں چھوڑا۔۔۔
 افسانے کی پسندیدگی کا بے حد شکریہ
۔۔۔
 انور مِرزا صاحب
 تخلیقی جملوں نے آپ کو متاثر کیا ہے میرے لیے مسرت کا مقام ہے
شاد رہیں
۔۔۔
سیدہ تبسم ناڈکر
افسانہ کی پسندیدگی کا شکریہ 
۔۔۔
 انیس رشید خان صاحب
آپ نے افسانے کو پسند کیا، حوصلہ افزائی کی ہے، جس کے لیے ممنون ہوں۔
۔۔۔
محترم سلام بن رزاق صاحب آپ کا شکریہ تو سب سے پہلے ادا کر چکی۔۔۔ایک اور مرتبہ شکریہ۔
جزاک اللہ خیرا
۔۔۔
محترم قمر سلیم صاحب وقت کی کمی کے باعث آپ کے مکمل تبصرے سے محروم رہی۔۔۔
بہت شکریہ جو تحریر کو وقت دیا۔
۔۔۔
فوزیہ نسرین آپ کا بھی بے حد شکریہ
آپ تمام کی خدمت میں
نیک خواہشات
ناہید طاہر

Post a Comment

0 Comments