Ticker

6/recent/ticker-posts

مسلمان ہونے کا مطلب✍️ مفتی شہزاد احمد ملی

مسلمان ہونے کا مطلب
✍️مفتی شہزاد احمد، ملی
امام و خطیب۔ ڈاکٹر شیخ بنکر کالونی، کامٹی

اسلام سے پہلے اور اوائل اسلام میں مختلف تقریبات تھیں جن میں قربانی کی جاتی تھی، اونٹنی کا پہلا بچہ خدا کی نذر کیا جاتا تھا، اور اس کی قربانی ہوتی تھی، اس کو 'فرع ' کہتے تھے۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ طریق قبل اسلام کا تھا۔ رجب کے شروع میں بھی قربانی کی جاتی تھی جس کو 'عتیرہ' اور 'رجبیہ' کہا جاتا تھا۔ جہالت میں یہ قربانی بتوں کے آستانوں پر ہوتی تھی اور قربانی کے بعد جانور کے سر کو اس کے خون سے رنگ دیا جاتا تھا اسلام کے اوائل میں بھی اس عشرکانہ رسم کو ختم کر کے اصل قربانی باقی رکھی گئی۔
قربانی کا ثبوت خود قرآن مجید اور احادیث نبوی میں موجود ہے۔ قرآن مجید کی جن آیات میں قربانی کا ذکر ہے ان میں سے دو تو بہت واضح ہیں۔(١) سوره کوثر، میں وانحر۔ یہاں تین ایسے قرائن ہیں جس نے نحر کے معنی قربانی ہونے کو متعین کر دیئے ہیں۔ اول یہ کہ قرآن میں اکثر مقامات پر نماز کے ساتھ والی عبادت مثلاً زکوٰۃ کا ذکر کیا گیا ہے یہاں صلوۃ کے ساتھ 'نحر' کا لفظ ہے اگر اس کے معنی قربانی کے ہوں تو پھر قرآن کی عام ترتیب قائم رہے گی، دوسرے عربی زبان کے عرف میں 'نحر' کے لفظ سے ذہن فوراًقربانی ہی کی طرف منتقل ہوتا ہے، تیسرے سعیدبن جبیر ؓ سے ابن حریر وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ یہ آیت واقعہ حدیبیہ کے موقع سے نازل ہوئی، آپ نے خطبہ دیا، دوگانہ نماز ادا فرمائی اور قربانی کی جو گویا اس آیت کی عملی تفسیر تھی، نیز امام مجاھد ؒاور قتادہؒ جیسے اہل علم بھی اس کے قائل ہیں۔ (١)'نسک 'کا لفظ قرآن میں کئی مواقع پر قربانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔
قربانی اصل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سخت آزمائش کے نتیجہ میں واجب ہوئی جب کہ الله رب العزت نے آپ سے آپ کے اس بیٹے کی قربانی کی درخواست بذریعہ خواب کی جو کہ بڑی تمناؤں اور مسلسل دعاؤں کے نتیجہ میں پیرانہ سالی میں عطا کیا گیا تھا جس کا تذکرہ خود باری تعالیٰ نے سوره صٰفّت میں کھلے الفاظ میں کیا ہے۔
انبیاء کرام علیھم السلام کا خواب رو یا ئے صادقہ اور وحی الہیٰ ہوتا ہے اس لئے رضا و تسلیم کا پیکر بن کر تیار ہو گئے کہ خداکے حکم کی جلد از جلد تعمیل کریں مگر چونکہ معاملہ تنہا اپنی ذات سے وابستہ نہ تھا بلکہ اس آزمائش کا دوسرا فریق وہ بیٹا تھا جس کی قربانی کا حکم دیا گیا تھا اس لئے باپ نے بیٹے کو اپنا خواب اور خدا کا حکم سنایا۔ بیٹا ابراہیم علیہ السلام جیسے مجدد انبیاء و رسل کا تھا فوراً سر تسلیم غم کر دیا اور کہنے لگا خدا کی یہی مرضی ہے تو انشاءاللہ آپ مجھے صبر کرنے والا پاؤں گے۔ اس گفتگو کے بعد باپ اور بیٹے اپنی قربانی پیش کرنے کے لئے جنگل روانہ ہو گئے۔ باپ نے اپنے بیٹے کی مرضی پا کر مذبوچہ جانور کی طرح ہاتھ پیر باندھ دیئے، چھری کو تیز کیا اور بیٹے کو پیشانی کے بل لِٹا کر ذبح کرنے لگے۔ فورا ً خدا کی طرف سے ابراہیم علیہ السلام پر وحی نازل ہوئی۔ اے ابراہیم تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایا بے شک یہ بہت سخت اور کٹھن آزمائش تھی۔ اب بیٹے کے بدلے دوسرا جانور ذبح ہوا۔یہی وہ قربانی ہے جو الله کی بارگاہ میں ایسی قبول ہوئی کہ بطور یادگار کے ہمیشہ ملت ابراہیمی کا شعار قرار پائی اور ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو تمام دنیا ئے اسلام میں یہ شعار اسی طرح منایا جاتا ہے۔
ہم جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یاد بڑی محبت سے مناتے ہیں اور ان کے پر عزم واقعات بڑی فصاحت و بلاغت سے بیان کرتے ہیں تو ہمارے لئے ان واقعات میں عبرت اور غور و فکر کا بڑا سامان ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تو الله تعالیٰ کی رضا پر سب کچھ قربان کردیا تھا۔ باپ کی محبت، قوم کا تعلق، وطن کا ساتھ، بیوی بچے، لیکن ہم بھی الله تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے جذبات و احساسات ذاتی مفادات اور دنیوی رشتوں کی قربانی دے سکتے ہیں، صرف بکرے اور گائے کو ذبح کرنے کو قربانی مت سمجھئے ہم سے تو قدم قدم پر قربانی کا مطالبہ ہوتا ہے۔
میٹھی نیند کا غلبہ ہو اور اذان ہو جائے تو نیند کی قربانی کا مطالبہ، حلال اور حرام کی کشمکش ہو تو مال کی قربانی کا مطالبہ، رسم و رواج اور سنتوں کا ٹکراؤ ہو تو دنیوی تعلقات کی قربانی کا مطالبہ، میدان جہاد سے پکارا جائے تو مال و جان اور اولاد کی قربانی کا مطالبہ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج ہم طوعاوکرہا یہ سالانہ قربانی تو کر لیتے ہیں مگر قربانی کا حقیقی جذبہ نہیں رہا، حالانکہ مسلمان ہونے کا مطلب تو یہی ہے کہ ہر طرح کی قربانی کے لئے تیار ہو جائے۔
رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے
وہ دل وہ آرزو باقی نہیں ہے 
نماز روزہ قربانی اور حج 
یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے 
٭٭٭

Post a Comment

0 Comments