Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ نمبر : 13 |سر پرائز گفٹ| ڈاکٹر اسلم جمشید پوری

بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 13
 سر پرائز گفٹ
 ڈاکٹر اسلم جمشید پوری
لکھنؤ سے میرٹھ کے لیے ٹرین کے زیادہ متبادل راستے نہیں ہیں۔ لکھنؤ سے سیدھا میرٹھ آنے کے لیے پہلے صرف ایک ریل گاڑی نو چندی ہی تھی۔ ابھی پچھلے برسوں راجیہ را نی نام کی ایک چیئر کار ٹرین چلنے لگی ہے۔ یہ لکھنؤ سے ڈھائی بجے دن میں چلتی ہے۔ رات11؍ بجے میرٹھ کا ٹا ئم ہے۔ اکثر یہ ٹرین لکھنؤ میرٹھ کچھ قبل ہی پہنچ جاتی ہے۔ اس کے برعکس نو چندی اکثر کئی کئی گھنٹے لیٹ چلتی ہے۔ کبھی5؍ گھنٹے تو کبھی آ ٹھ اور دس گھنٹے بھی۔ دوسرے دنوں کا نظام ٹھیک کرنے کو کئی بار اسے رد کرنا پڑتا ہے۔ اس کے با وجود یہ کبھی اپنی عادت سے باز نہیں آئی۔لکھنؤ سے میرٹھ آنے کے لیے کئی ٹرین ایسی ہیں، جن سے ہاپوڑ اتر کر بس کے ذریعے میرٹھ پہنچا جا سکتا ہے۔ ہا پوڑ جنکشن ہے۔ یہاں کئی لائنیں دلّی، مراد آباد، بلند شہر، میرٹھ، مراد آ باد، میرٹھ کا جوڑ ہے۔ اسی لیے یہاں ہر دو منٹ پر گاڑیاں آتی رہتی ہیں۔ ویسے لکھنؤ سے میرٹھ کے لیے ایک اور راستہ ہے اور وہ ہے پہلے لکھنؤ سے کا نپور اور پھر کانپور سے سنگم کے ذریعے میرٹھ۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ میں آپ کو میرٹھ، لکھنؤ مارگ کے لیے یہ سب کیوں بتا رہا ہوں۔ در اصل میری کہانی کا اس روٹ سے گہرا تعلق ہے۔ ویسے اگر آپ بس کے سفر سے نفرت نہیں کرتے ہیں تو اس روٹ پر اے سی سلیپر بسیں بھی چلتی ہیں۔ لکھنؤ چار باغ سے یہ بسیں آپ کو رات9؍ اور10؍بجے ملیں گی اور رات بھر کی محنت و مشقت اور بھاگ دوڑ کے بعد یہ علی الصبح یعنی6؍ اور7؍ بجے آپ کو میرٹھ میں گڈھ بس اڈے پر اتار دیں گی۔ آرام سے سو تے ہوئے خواب خرگوش کے مزے لیتے ہوئے آپ میرٹھ پہنچ جائیں گے۔ آج سے آٹھ دس برس قبل سڑک کے راستے میرٹھ جانا آ نا آسان نہیں تھا۔ہائی وے پر جگہ جگہ ریلوے کراسنگ کی وجہ سے اکثر جام لگ جایا کرتا تھا۔ خاص کر رام پور کی ریلوے کرا سنگ تو بہت پریشان کیا کرتی تھی۔ اسی ریلوے کراسنگ پر آج سے پانچ سال قبل ایک ایسا حا دثہ ہوا جو میری زندگی کا ایک اہم حادثہ بن گیا۔میں انتظار لکھنوی، ایک شاعر لکھنؤ کے امین آ باد کا رہنے والا، ایک مشاعرے کے سلسلے میں میرٹھ جا رہا تھا۔ میری گاڑی میں ڈرا ئیور کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا۔ مجھے نوچندی کے مشاعرے میں شر کت کرنا تھی۔ نو چندی کے مشاعرے اکثر دیر رات شروع ہوا کرتے ہیں اور ساری رات شعرا اور سامعین کے درمیان رسہ کشی میں گذر جاتی ہے۔ میں لکھنؤ سے شام 4؍ بجے ایک پرائیویٹ ٹیکسی میں نکلا تھا۔ ڈرا ئیور بہت ماہر اور زمانہ شناس تھا۔ اس نے مجھے9؍ بجے رام پور پہنچا دیا تھا۔ رام پور سے میرٹھ کے لیے تین اور زیادہ سے زیادہ چار گھنٹے کا سفر با قی رہتا ہے۔ رام پور میں جام نے ہمارا استقبال کیا۔ رکے رکے جب زیا دہ دیر ہوگئی تو میں کار سے نیچے اترا۔ ایک بھر پور انگڑا ئی لی۔ اپنا لباس درست کیا اور گاڑیوں کے درمیان چلتے ہوئے ادھر اُدھر ٹہلنے لگا۔ ابھی میں کچھ ہی دور گیا تھا کہ ایک نسوانی آ واز میرے کانوں سے ٹکرائی۔
’’ انتظار لکھنوی صاحب۔۔۔انتظار لکھنوی صاحب۔۔۔‘‘
میں نے گھوم کر آ واز کی سمت کا تعین کر نے کی کوشش کی۔ اتنے میں ایک کار سے ایک خو بصورت ادھیڑ عمر کی عورت جس کی عمر یہی کوئی 35؍ برس رہی ہو گی، تیزی سے میری طرف آ ئی۔
’’انتظار صاحب۔۔۔آپ انتظار لکھنوی صاحب ہی ہیں نا۔۔۔‘‘ وہ بہت خوش تھی۔
’’جی۔۔۔پر۔۔۔میں نے آپ کو نہیں پہچانا محترمہ۔۔۔‘‘ میں حیران و پریشان تھا۔
’’ آپ۔۔۔شاعر ہیں نا۔۔۔میں نے آپ کی غزلیں سنی ہیں۔ آپ کو کئی بار ٹی وی اور نو چندی کے مشاعروں میں سنا ہے۔۔۔میں آپ کو دیکھ کر پہچان گئی۔۔۔آپ تو نوچندی کے مشاعرے میں جا رہے ہوں گے۔ آج نو چندی کا مشاعرہ ہے۔۔۔‘‘ وہ عورت بو لے جارہی تھی۔ اس نے ابھی تک اپنا نام نہیں بتایا تھا۔ اس سے قبل کہ میں اپنا سوال دہراتا، عورت کے منہ سے پھول جھڑنے لگے۔
’’ میں۔۔۔کاشفہ دُرّانی ہوں۔۔۔ضلع میرٹھ کی بہوجن وکاس دل کی صدر ہوں۔۔۔میں بھی مشاعرے میں جا رہی ہوں۔‘‘ میں حیران تھا کہ کا شفہ درانی میری شاعری کی فین ہیں۔ میں نے نام سنا تھا۔ مغربی اتر پردیش کی ایک بڑی شخصیت تھی۔ سیاست خاندا نی وراثت تھی۔ بڑی نفیس، خوب رو، دلکش نین نقش کی مالک کاشفہ درا نی کی شہرت سے سب واقف تھے۔
’’ میڈم۔۔۔آئیے۔۔۔ ہم نے راستہ بنوا دیا ہے۔ ہما ری گاڑی نکل جائے گی۔‘‘ میڈم کاشفہ کے باڈی گارڈ پولس والوں نے آکر خبر دی۔ میں نے دیکھا ٹریفک آہستہ آہستہ سرکنے لگا تھا، گویا ادھ مرا سانپ کچھ دیر بعد پھر حرکت میں آگیا ہو۔ میرے ڈرائیور نے بھی کہا۔
’’ سر بیٹھیں۔۔۔‘‘
اس سے قبل کہ میں اپنی گاڑی کی طرف چلتا، کا شفہ درا نی نے کہا:
’’ایسا کریں آپ میری گاڑی میں میرے ساتھ بیٹھیں۔۔۔آپ کا ڈرا ئیور گاڑی پیچھے پیچھے لے آ ئے گا۔‘‘ میرے منع کرنے کا بھی کوئی فائدہ نہیں تھا۔ مجھے کاشفہ صا حبہ کے ساتھ ان کی گاڑی میں بیٹھنا پڑا۔ صو بے میں انہیں کی سر کار تھی۔ پچھلی بار کاشفہ درا نی کچھ ہی ووٹ سے اسمبلی الیکشن ہا ری تھیں۔ شاعری، سیاست سے لے کر ہر طرح کے موضوع پر گفتگو ہو تی رہی۔ وہ بھی لکھنؤ سے لوٹ رہی تھیں۔ انہوں نے باتوں کے درمیان بتایا۔ان کے باپ دادا آزادی کے بعد سے ہی مغربی اتر پردیش کی سیاست میں سر گرم رہے ہیں۔ میرٹھ کے معروف قصبہ کٹھور میں ان کی زمینیں، باغات، کو ٹھیاں وغیرہ تھیں۔ گا ڑی رکنے پر پتہ چلا کٹھور آ گیا ہے۔ راستے میں باتوں باتوں میں وقت کا احساس نہیں ہوا۔ گھڑی دیکھی 11؍ بج رہے تھے۔
’’ انتظار صا حب! ذرا سی چا ئے لے لیں۔۔۔‘‘
میں نے سوچا مشا عرے میں اب دیر تو ہوہی گئی ہے پھر انکار سے کچھ حاصل نہیں ہو گا۔کاشفہ صاحبہ کب ماننے والی ہیں۔
’’ جلدی کر لیں۔۔۔مشاعرے میں دیر نہ ہو جائے۔‘‘
’’کوئی بات نہیں۔ یہاں سے آدھے گھنٹے میں پہنچ جائیں گے۔ پھر آپ نے تو کچھ کھایا بھی نہیں ہو گا۔۔۔‘‘
اور انہوں نے اپنے لوگوں کو کھانا لگانے کا حکم دیا۔
بڑی عا لیشان کو ٹھی تھی۔ رات11؍ بجے بھی چہل پہل تھی۔ کوٹھی کے با ہر گھاس کا خو بصورت لان۔۔پورٹیکو۔۔۔ جگہ جگہ لائٹ پوسٹ۔۔۔ڈرا ئنگ روم کا کیا کہنا۔۔۔با لکل سفید دو دھ میں نہائے دیدہ زیب صو فے۔۔۔ اسی منا سبت سے سفید سنٹرل ٹیبل، کرسیاں۔۔۔گلدا نوں میں سفید پھول۔۔۔سفید دودھیا روشنی ما حول کو مزید خوا ب آ ور بنا رہی تھی۔ تھوڑی دیر میں ہی ڈرائنگ روم سے ملحق ڈائننگ ہال میں آگئے۔ ایک مرکزی بڑی سی ٹیبل۔۔۔جس کے دو طرف دس دس کرسیاں، دو نوں سروں پر ایک ایک کرسی۔۔۔کمرے کی سجاوٹ میں ایک خاص نفاست موجود تھی۔ ٹیبل پر خوبصورت بون چائنا کے سنہری دھاریوں والے سفید برتن۔۔۔ایک سے ایک قسم کا مرغن کھانا۔ میں نے جلدی جلدی کھانا کھایا۔۔۔ کھانے کے بعد ہم لوگ میرٹھ کے لیے روا نہ ہو گئے۔
’’ انتظار صا حب۔۔۔آپ کون سی غزل سنائیں گے۔۔۔‘‘
’’کوئی سی بھی سنا دوں گا۔۔۔‘‘
’’نہیں وہ۔۔۔چاند والی۔۔۔ وہی پیلا چا ند۔۔۔والی۔‘‘
’’ اچھا۔۔۔وہ۔۔۔ نہ کوئی موج نہ حسرت، ستم نہ کوئی کرم بسیط نیلگوں ساگر ہے اور پیلا چاند‘‘
’’ہاں۔۔۔ہاں۔۔۔یہی۔۔۔‘‘
’’ کاشفہ صا حبہ۔۔۔یہ تو سامعین دیکھ کر طے کروں گا۔۔۔‘‘
باتوں باتوں میں نو چندی کا شور ہما رے قریب آ چکا تھا۔ رات اپنا نصف سفر طے کرچکی تھی۔ نو چندی کا میلہ اپنے شباب پر تھا۔ رو شنی، آ واز، شور شرا بے نے میلے کی رو نق میں بے حد اضا فہ کردیا تھا۔
نو چندی میلہ ہندو ستان کے قدیم میلوں میں سے ایک ہے۔ بتاتے ہیں یہ مغل عہد سے قائم ہے۔ اس میں ہر سال کل ہند سطح کا بڑا مشاعرہ ہو تا ہے۔ ان مشاعروں کی بھی تاریخی حیثیت ہے۔ آزادی سے کافی قبل سے نوچندی کے مشاعروں کی دھوم رہی ہے۔ بیسویں صدی کے پہلے ربع کے بعد کا شاید ہی کوئی بڑا شاعر ایسا ہو جو یہاں نہ آ یا ہو۔ یہ مشاعرہ شاعر کی کامیابی کی دلیل مانا جاتا ہے۔انتظار لکھنوی گذشتہ کئی برسوں سے نو چندی کے مقبول شاعر تھے۔ ان کے چاہنے وا لے ان کے نام پر پنڈال بھر دیتے تھے۔ 
 پٹیل منڈپ کے با ہر بھی بہت بھیڑ تھی۔ با ہر بڑی سی اسکرین پر ہال کے اندر کا نظا رہ زندہ تھا۔ مائک پر پاپو لر میرٹھی تھے۔ شعری بہار آ رہی تھی۔ بھیڑ کو کاشفہ صا حبہ کے گارڈز نے ادھر ادھر کیا۔ کسی طرح ہم لوگ مشاعرہ گاہ میں پہنچے۔ پا پولر میرٹھی رک گئے تھے۔ لوگوں نے مجھے پہچان کر شور شروع کردیا۔ نا ظم مشاعرہ کی آ واز بلند ہوئی۔
’’ جن کا ہمیں انتظار تھا وہ معروف شاعر انتظار لکھنوی صاحب تشریف لے آ ئے ہیں۔۔۔ ان کے ساتھ ہماری محبوب سیاسی شخصیت۔۔۔آپ سب کی منظور نظر محترمہ کاشفہ درانی صا حبہ بھی تشریف لے آئی ہیں۔ ہم دو نوں کا استقبال کرتے ہیں۔‘‘ پورے ہال میں تالیوں کا شور تھا۔کچھ دیر بعد پاپو لر میرٹھی نے اپنا کلام پو را کیا۔ سامعین کی طرف سے
’’انتظار۔۔۔انتظار۔۔۔کی آوازیں آ رہی تھیں۔
ناظم مشاعرہ شور شرا بہ کم کر نے اسٹیج کے مرکز میں قد آدم مائک پر آ ئے۔
’’ آپ صبر کریں۔۔۔انتظار لکھنوی صاحب کو ذرا آ رام کر نے دیں۔۔۔دو ایک کے بعد انہیں زحمت کلام دوں گا۔‘‘
مگر عوام کہاں ماننے والی تھی۔۔۔ ہر طرف سے انتظار، انتظار کو کورس بلند ہورہا تھا۔۔۔ مجبو راً ناظم نے میرا نام پکارا۔
لوگوں کی فرمائش بھی ساتھ ساتھ آرہی تھیں۔ پھر بھی میں نے ایک نئی غزل پیش کی۔ غزل کے مطلع سے جو داد و تحسین کا طوفان اٹھا تو اس کی گرد بیٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔
نقش گہرا تھا کچھ اتنا کہ مٹایا نہ گیا
ایک لمحہ بھی اسے دل سے بھلایا نہ گیا
ایک ایک شعر پر لوگ جھوم رہے تھے۔ میں نے دیکھا کا شفہ صا حبہ جھوم جھوم کر داد دے رہی تھیں۔ لمحے بھر کو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ شاعری کے جنون کو کنارا مل گیا ہے۔ اگلے ہی لمحے میرا خیال کہیں رو پوش ہو گیا تھا۔کیو نکہ رات کے تین بج چکے تھے۔ ہم لوگ میرٹھ سے کٹھور آ گئے تھے۔ میں نے بہت رخصت چاہی۔۔۔کاشفہ صا حبہ نے دو تین گھنٹے آرام کا وعدہ کیا اور صبح ناشتے کے بعد رخصت کرنے کی بات کہی__کا شفہ صا حبہ کی کوٹھی میں رات ٹھہر سی گئی تھی__ شاید وہ بھی کاشفہ صاحبہ کی بات نہیں ٹال سکی۔ ڈرائنگ رو م میں کافی دیر مشاعرے پر تبصرہ ہو تا رہا۔
انتظار صاحب! وہ شعر سنائیں ذرا۔۔۔کیا کہہ دیا آپ نے۔۔۔وہی تعلق والا شعر۔۔۔‘‘
’’ اچھا وہ تعلق والا۔۔۔
وہ تعلق کہ نفی کا نہ کچھ اثبات کا رنگ
اس سے تو ڑا نہ گیا مجھ سے بھلا یا نہ گیا
’’آ ہا۔۔۔کیا۔۔۔کہہ دیا آپ نے۔۔۔غضب۔۔۔‘‘ کا شفہ صا حبہ سر دھن رہی تھیں۔’’ایک اور شعر سنائیں۔‘‘ مجھے نیند اشارے کررہی تھی۔ لیکن یہ معا ملہ کچھ مختلف تھا۔ میں نے شعر سنایا ؎
اپنے احساس کو الفاظ بنا بھی نہ سکوں
دل وہ دنیا ہے کہ چاہوں تو دکھا بھی نہ سکوں
’’واہ۔۔۔بھئی۔۔۔کیا غضب۔۔۔
 پھر وہ اچا نک اٹھیں۔۔۔
’’ اچھا اب آپ آرام کریں۔۔۔میں بھی ذرا کمر سیدھی کرلوں۔۔۔‘‘اور چلتے چلتے انہوں نے مصافحے کو ہا تھ آگے بڑھا یا۔ میں نے بھی ہاتھ ملا یا۔ وہ اندر چلی گئیں۔ مجھے ڈرا ئنگ روم کے برا بر والے کمرے میں پہنچا دیا گیا۔ رات پہروں چلنے کے بعد ہانپنے لگی تھی۔ کسی بھی وقت تھک کر بیٹھ سکتی تھی۔ نیند سے بوجھل آنکھوں میں ہا تھوں کا لمس سر مے کی مانند گھل رہا تھا۔ تصور نیند کی آ غوش میں سماتے سماتے خواب بن کر زندہ ہو چکا تھا۔ کا شفہ درا نی نے جیسے ہی ہاتھ ملانے کو آ گے بڑھایا،میں نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگا لیا تھا۔ دو ستاروں کا ملن ہو رہا تھا۔ ساری کائنات۔۔۔رات میں ڈوبی ساری کائنات۔۔۔محوِ نظارہ تھی۔ ہر طرف ہم دونوں تھے۔ ایسا لگ رہا تھا مغل اعظم اکبر کا در بار ہو۔ جس میں ہر طرف دیواروں پر آئینے نصب تھے اور ہر آ ئینے میں، میں اور کاشفہ گلے ملتے نظر آ رہے تھے۔
’’انتظارصاحب۔۔۔انتظار صاحب۔۔۔‘‘
کاشفہ درا نی کی آ واز پر میرا خواب چکنا چور ہو گیا تھا۔
گھڑی پر نظر ڈا لی۔
’’ ارے9بج گئے۔۔۔سلام علیکم۔۔۔‘‘
میں نے کاشفہ درا نی کو سلام کیا۔ وہ ہلکے پیلے رنگ کے لباس میں غضب کی لگ رہی تھیں جیسے سرسوں کے درخت کا ہجوم حرکت کررہا ہو۔ میں جلدی سے واش روم میں داخل ہو گیا۔
ناشتے وغیرہ سے فارغ ہو کر میں نے رخصت لی۔ رخصت کے وقت ایک بار پھر مصا فحہ ہوا۔۔۔مجھے ایسا لگا گویا روئی کا نرم گا لہ میرے ہاتھوں کے درمیان آ گیا ہو۔ واپسی کے سفر میں، کاشفہ درانی میرے ذہن پر سوار ہر وقت میرے ساتھ تھیں۔ میں ایک شاعر۔۔۔خدا کا شکر ہے کہ اس نے عزت، شہرت، دولت، ہر شے سے نوازا تھا۔ ہندو ستان کے معروف شعرا میں مجھے شامل کیا جاتا تھا۔ مشاعروں میں اچھی خاصی رقم ملتی تھی، میری کئی غزلیں معروف غزل سنگرز نے گائی تھیں جن سے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ دور درشن، آ کاش وانی اور دیگر سر کاری چینلوں پر اکثر بلا یا جاتا تھا۔پھر سال میں دو تین اور کبھی چار پانچ بار غیر ملکی دورے۔ہمارے ساتھ اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ فین مل جاتے ہیں۔کوئی آٹو گراف لیتا، کوئی اپنے گھر چائے پر لے جاتا۔ کوئی تحفہ دیتا۔ کوئی کوئی تو کافی دنوں تک رابطے میں رہتا۔ میں ان سب کا عادی تھا۔ کبھی کسی فین کی طرف رجحان نہیں ہوا۔ نہ اتنی فرصت تھی اور نہ دل کسی لمحے بے قرار ہوا۔ برق رفتار کپوٹر جیسی زندگی۔ مشاعروں پہ مشاعرے، سما جی جلسے، ٹی وی، ریڈیو کے پرو گرام،۲۶؍ جنوری، ۱۵؍ اگست، عظیم لوگوں کی یوم پیدائش وغیرہ کے مواقع پر مشاعروں اور شعری محفلوں کا انعقاد۔ ایسا شاید پہلی بار ہوا ہے کہ انتظار لکھنوی، ایک شاعر کسی غزل کے لیے مضطرب ہو گیا تھا۔ کا شفہ درا نی وا قعی غزل ہی تو تھی۔ بات کرتی تو متعدد اشعار کا استعمال کرتی۔جب مجھے میرے شعر سناتی تو مجھے ایسا لگتا گویا کا شفہ درا نی کا شفہ نہیں بلکہ انتظار بن گئی ہے۔ کبھی لگتا میں کاشفہ اور کاشفہ، مجھ میں، تحلیل ہو گئی ہے۔ ایک مصرعہ زندگی، دسرے سے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہو کر خو بصورت مطلع بن گئی ہے۔
میرٹھ سے آ ئے کئی ماہ گذر چکے ہیں۔ اس دوران اکثر کاشفہ درا نی سے گفتگو ہوتی رہی۔ اکثر ان کے فون آتے۔ طویل طویل باتیں ہوتیں۔اکثر مجھ سے میرے اشعار کی فرمائش کرتیں۔ابھی کچھ دن قبل ہی مجھ سے شعر سنانے کی فرمائش کر نے لگیں۔۔۔جب میں نے شعر سنایا ؎
کہاں سے لائوں وہ بچپن کا عہدِ گم گشتہ
جہاں میں جائوں مرے ساتھ ساتھ چلتا چاند
تو بہت دیر تک واہ واہ کرتی رہیں۔پھر اچا نک ایک عجیب سا سوال کر بیٹھیں۔
’’ انتظار صاحب ! آپ کی غزلوں کے پس پردہ کون ہے جس کی محبت کی کرنیں لفظوں کو منور کرتی رہتی ہیں۔‘‘
مجھے ہنسی آ گئی۔
’’ ارے آپ بھی کن چکروں میں پڑ گئیں۔ یہ شاعری ہے۔ زندگی اور شاعری میں خاصا فرق ہو تا ہے۔ہم لوگ تصور میں زیا دہ زندگی کرتے ہیں۔ ایسا کچھ نہیں۔۔۔ جیسا آپ سوچ رہی ہیں۔۔۔‘‘
’’پھر بھی آپ کی غزلوں میں ایک عجیب سا درد ہے۔ مجھے آپ کے اشعار کا یہ رنگ بہت پسند ہے۔‘‘
’’اور میں۔۔۔؟‘‘ میں زور سے ہنسا۔۔۔فون کٹ گیا تھا۔۔۔شا ید کوئی آ گیا تھا۔
۔۔۔
کا شفہ درا نی خا ندا نی عورت تھیں۔ میں نے ان کے بارے میں معلومات کی تھیں۔مغربی اتر پردیش میں ان کا اور ان کے خاندان کا اچھا خاصا نام تھا۔ ان کے دادا مرحوم عامردرا نی ایم پی ہوا کرتے تھے۔ ان کے والد قصبے کے چیئرمین رہ چکے تھے۔ بھائی بھی سیاسی جما عتوں سے جڑے رہے۔ وہ خود پچھلے دس بارہ برسوں سے سیاست میں دخل رکھتی تھیں۔ اسی سیاست کی وجہ سے انہوں نے شادی نہیں کی۔ کا شفہ درا نی دوسرے سیاست دانوں سے قدرے مختلف تھیں۔ وہ غریبوں اور پسماندہ طبقات کی مدد کے لیے ہروقت تیار رہتی تھیں۔ پو رے علاقے میں ان کی شخصیت کو احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ ابھی گذشتہ اسمبلی الیکشن میں ملک کی سب سے بڑی پارٹی نے انہیں اپنا امید وار بنایا تھا۔ ان کی فتح یقینی تھی۔لیکن وہ صرف200ووٹوں سے ہار گئی تھیں۔ متعدد لوگوں کا خیال تھا کہ ان کے ساتھ بے ایمانی ہو ئی تھی۔ خود ان کی پارٹی کے کئی لیڈروں نے دوسری پارٹی کی اندر اندر طرف داری کی تھی۔ اسی دن سے ان کی اپنی پارٹی سے دوری بھی شروع ہو گئی تھی۔بعد میں انہوں نے بہو جن سماج دل میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ سیاسی مصروفیت سے انہیں اکثر لکھنؤ آ نا ہو تا تھا۔ لکھنؤ میں بھی انہوں نے ایک مکان گو متی نگر میں لے رکھا تھا۔ جب وہ لکھنؤ آتیں،اپنے کاموں سے فارغ ہو کر مجھے فون کرتیں اور ہم لوگ کسی بڑے فائیو اسٹار ہوٹل میں چائے یا کا فی کی چسکیاں لیتے اور شعرو شاعری سنتے سناتے۔ ان کا ادبی ذوق بڑا لطیف تھا۔ میرے اشعار بھی یاد تھے۔ میں خود حیران رہ جاتا۔ میرے اشعار کی ایسی تشریح کرتیں کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ ہو تا۔ میں جانے انجانے کاشفہ کی طرف بڑھتا جا رہا تھا۔کئی بار تو میں مغالطے میں پڑ جاتا کہ کاشفہ میری فین ہیں یا میں کا شفہ کا،کاشفہ کو میرا انتظار ہے یا مجھے کاشفہ کا۔۔۔کاشفہ کی گفتگو میں الگ کشش ہوتی۔ وہ بڑی نفیس اردو بولتی تھیں۔ایک بار مجھے ان کے گومتی نگر والے مکان میں رکنے کا اتفاق ہوا۔ ہوا یہ کہ لکھنؤ میں ایک پارٹی میٹنگ سے فارغ ہو کر انہوں نے مجھے فون کیا۔
’’ انتظار صاحب۔۔۔کہاں ہیں۔ فری ہوں تو آ جائیں۔۔۔گھر پر ہی ڈنر کریں گے۔ میں ڈرا ئیور بھیج رہی ہوں۔‘‘ اور میں دو گھنٹے بعد ان کے دو لت کدے پر تھا۔ ان کے اس عارضی رہائش پر ان کے آ نے پر ایک ملازم اور ایک ملازمہ نجانے کہاں سے آ جاتے تھے۔ ایک ڈرا ئیور۔۔۔اور بس ہر طرح کی سہولت وہاں موجود ہوتی۔ ڈرا ئنگ روم میں بیٹھے بیٹھے نجانے انہیں کیا سوجھی۔ مجھ سے غزل کی فر مائش کر نے لگیں:
’’ایک غزل سنادیں۔۔۔کوئی سنجیدہ سی۔۔۔‘‘
میں نے تھو ڑی دیر ذہن پر زور دیا اور ایک غزل کا مطلع پیش کیا ؎
زخم تازہ تھا، تو گہرا ئی کا اندازہ نہ تھا
اب گماں ہو تا ہے، اس کو چاہنا اچھا نہ تھا
’’ ارے واہ۔۔۔کیا مطلع ہے۔۔۔ انتظار صاحب آپ نے دل نکال کر رکھ دیا ہے۔۔۔واہ واہ۔۔۔‘‘
’’ شکریہ۔۔۔شکریہ!‘‘
اچا نک مو بائل پر کوئی کال آ ئی تو وہ ہوں۔۔۔ہاں۔۔۔کرتے کرتے کھڑی ہوگئیں۔۔۔
’’ انتظار صا حب۔۔۔ایک ایمر جنسی آ گئی ہے۔ میں ایک گھنٹے میں یوں گئی اور یوں آ ئی۔آپ بیٹھیں بلکہ آپ میرے کمرے میں آ رام کریں۔ وہاں کچھ اردو کتابیں بھی ہیں۔ میں ابھی آ ئی۔‘‘
اور انہوں نے جاتے جاتے ملازم سے کہہ دیا’’ صا حب کو میرے کمرے میں پہنچا دو۔۔۔چائے وغیرہ پلائو،میں آرہی ہوں۔۔۔‘‘
یوں میں کا شفہ درا نی کے کمرے میں داخل ہوا۔ کمرہ کیا تھا، اچھا خا صا اسٹو ڈیو بنا ہوا تھا۔ دیواروں پر ہر طرف کاشفہ درا نی کی خو بصورت تصاویر، ایک سے ایک انداز، خوبصورت لباس، مختلف ادا ئیں۔پورے کمرے کی دیواروں پر کا شفہ ہی کا شفہ___ ایسا محسو س ہو نے لگا کہ میرے چاروں طرف کاشفہ کے کلون زندہ ہو کر رقص کررہے ہیں۔سامنے بک شیلف میں دیکھا، میرے تینوں مجمو عے رکھے تھے۔میں نے ادھر محسوس کیا تھا کہ کا شفہ مجھے پسند کرتی ہیں۔ اکثر فرصت کے لمحات مجھ سے بڑے خلوص اور اپنائیت سے بات کرتیں۔ سیاسی تعلقات ہو نے کے سبب مجھے بڑے بڑے مشاعرے دلواتی رہتیں، میں یہ سب ہوتے ہوئے بھی کبھی کھل کر کچھ نہیں کہہ سکا۔ویسے میرے جذبات اور ارمانوں سے بھرے محبت آمیز جملے، اکثر میری زبان کی نوک پر رکھے ہوتے، کسی بھی لمحے زبان کی نوک سے لفظ پھسل سکتے تھے۔ ویسے کا شفہ بھی اتنی نا سمجھ نہیں تھیں۔وہ میرے دل کی حالت سمجھ گئی تھیں لیکن فاصلہ ایک خاص حد تک جوشروع سے قائم تھا۔وہ قائم ہی رہا۔معاملا ت میں خلوص، اپنا ئیت اور رحمدلی ایسی ہوتی کہ لگتا اگلے لمحے محبت کا آبشار پھوٹ پڑے گا۔ایک دن ایک عجیب جملہ مجھ تک آ یا
’’انتظار صاحب آپ کی دلی خوا ہش پو ری ہو نے والی ہے۔‘‘
میں محو حیرت انہیں دیکھتا ہی رہتا__سوچتا رہ جاتا،کیا وہ میرے دل کے حال سے واقف ہو گئی ہیں۔ کیا میری بے قراری اور اضطراب ان پر عیاں ہو گیا ہے۔ ٹھیک ہی ہے اگر ایسا ہے تو۔۔۔زما نہ ہو گیا ریل کی دو پٹریوں کی طرح زندگی گذارتے گذارتے،ایک دوسرے کے قریب بھی ہیں مگر برا بر فاصلے پر۔یہ بھی کوئی بات ہوئی،نہ ہجر ہے،نہ وصال۔ یہ کیسا عشق ہے۔شاید یہ الگ قسم کی محبت ہے۔شاید دنیا میں سب سے الگ، سب سے مختلف۔ میری شاعری پر جان چھڑکنے والی کاشفہ آخر کب تک نہاں رہے گی۔ایک دن تو اسے منکشف ہو نا ہی تھا۔شاید میری قسمت مجھ پر مہربان ہو رہی ہے۔ مجھے وہ سب کچھ ملنے والا ہے جس کی میں نے تمنا کی تھی۔ جو خواب میں سوتے جاگتے دیکھتا تھا، وہ شرمندۂ تعبیر ہونے والے تھے۔ اگلے ہی پل دل کے کسی ویران کو نے میں دبکا بیٹھا ایک منفی خیال مجسم ہو کر سامنے آ جاتا، جو مجھ سے سوال بھی کرتا اور سمجھاتا بھی۔وہ کسی بڑے ایوا رڈ کی بات کررہی ہوں گی۔ہوسکتا ہے اردو اکا دمی کا اس سال کا شاعری کا بڑا ایوارڈ آپ کو ملنے والا ہو__اس نے یہ تو نہیں کہا نا کہ وہ آپ کے دل کی تمنائوں کے دیے جلائیں گی۔ارے ہوش کے ناخن لو۔وہ بہت مہذب،شریف سیاست داں ہے، وہ تمہاری نہیں ہو سکتی ہے۔ تمہاری شاعری کی دیوانی ہو سکتی ہے۔ وہ کسی بھی شاعر کو اپنا دیوانہ بنالے گی۔۔۔ہاہاہا۔۔۔ خوا بوں کی دنیا سے واپس آ جائو__اس کی عمر چالیس کے آس پاس ہے۔تم کیا سمجھتے ہو وہ اب تک تمہارے لیے کنواری بیٹھی ہوئی ہے۔
 چپ ہو جائو۔۔۔
میں آپ ہی آپ بڑ بڑا تا اور زور سے اپنے دل کو جھٹکتا۔ نہیں نہیں۔۔۔کاشفہ میری ہے۔۔۔کیا کوئی کسی کو بغیر کسی قریبی معاملے کے،اپنے ذاتی کمرے میں لے جاتا ہے۔ایک بار کاشفہ خود مجھے اپنے کمرے میں لے گئی تھی۔مجھے اپنی تصویریں دکھا کر مجھ سے پو چھاتھا۔
’’آپ کو، ان میں سے کون سی پسند ہے۔۔۔؟
میں نے ایک نیلی ساڑی میں ملبوس تصویر کی طرف اشارہ کیا تھا۔
’’ تو آپ اسے لے جاسکتے ہیں۔۔۔‘‘میں حیران سا دانتوں میں انگلی دبائے انہیں دیکھتا رہ گیا تھا۔ مجھے تو یوں محسوس ہوا تھا گویا کہہ رہی ہوں کہ آپ اس کا شفہ کو لے جائو۔ لے جائو اپنے گھر اور میرا روم روم رقص کناں ہو گیا تھا۔ پو را کمرہ میرے رقص میں شامل ہو گیا تھا۔دیواروں پر آ ویزاں تصاویر سے نکل کر بہت ساری کاشفائیں میرے ہم قدم ہوگئی تھیں__موسیقی خود بخود بجنے لگی تھی۔ سارا ماحول خواب آ ور ہو گیا تھا۔
۔۔۔
 اسمبلی الیکشن کی تیاریاں زوروں پر تھیں۔ کاشفہ بہوجن سماج دل سے انتخاب لڑ رہی تھیں۔ہر طرف ان کے چرچے تھے۔ انتخا بی جلسوں میں،میں نے بھی شرکت کی تھی۔میں نے شاعری کو ان کی الیکشن پر قربان کردیا تھا۔ وہ میرے جذبے، دوستی اور محنت سے بہت متاثر تھیں۔ایک دن الیکشن ریلی سے واپسی پر ہم لوگ دیر سے گھر پہنچے۔ کھانے وغیرہ سے فارغ ہو کر جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو پیچھے سے کمرے میں داخل ہو تے ہی میرے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔
’’انتظار صاحب۔آپ کا یہ احسان میں کبھی نہیں بھو لوں گی۔‘‘ ان کے ہاتھ اب تک میرے ہاتھوں میں تھے۔
’’ یہ احسان نہیں۔میرا پیار ہے۔‘‘ میری محبت ہے جو صرف کاشفہ کے لیے ہے۔ آپ کی فتح میری فتح ہے۔۔۔‘‘
میں نے کاشفہ کے ہاتھوں کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔لیکن میرے الفاظ منہ کی گپھا میںادھر ادھر ٹکراتے رہے، با ہر نہیں آئے۔
’’انتظار صاحب!الیکشن جیتنے کے بعد میں آپ کو سر پرائز گفٹ دوں گی۔‘‘
میرے دماغ کے گھوڑے پھر رو مان کی سڑک پر سر پٹ دوڑنے لگے تھے۔ نجا نے کیسے کیسے خیالات آرہے تھے۔ ایک چا لیس سالہ خوبصورت فتنہ، مجسم خواب بہت جلد میری گرفت میں ہوگا۔ میری محبت کو منزل مل جائے گی۔ میری غزلوںمیں تغزل کا رنگ مزید گہرا ہوجائے گا۔ میں اور کا شفہ، کا شفہ اور میں۔۔۔انتظار ختم،کاشفہ منکشف۔۔۔دو دل ایک قالب۔
۔۔۔
انتخابات کا رزلٹ آ گیا تھا۔ ہم سب کی محنت رنگ لائی تھی کا شفہ نے اپنے قریبی حریف کو کئی ہزار ووٹوں سے ہرا دیا تھا۔ پورے اسمبلی حلقے میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اخبارات، ریڈیو، ٹی وی، سوشل میڈیا پر کا شفہ کے ہی چرچے تھے۔ میں لکھنؤ میں کا شفہ کی آمد کا منتظر تھا۔ کاشفہ کو جلد ہی حلف برداری کے لیے لکھنؤ آ نا تھا۔ سو نے پہ سہاگا، کاشفہ کی پارٹی بھی اکثریت میں آگئی تھی۔قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ کاشفہ کو ضرور وزارت ملے گی اور ہوا بھی ایسا ہی۔ کا شفہ کو اقلیتی امور کی وزارت ملی تھی۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکا نہ نہیں تھا۔میں تو کاشفہ کے گھر اس کا انتظار کررہا تھا۔ اندر،باہر ہر طرف بھیڑ ہی بھیڑ تھی۔ میرے خواب پورے ہونے والے تھے۔سر پرائز گفٹ کا مجھے بے صبری سے انتظار تھا۔رات تقریباً ۱۱؍ بجے کا شفہ کا قافلہ گومتی نگر داخل ہوا۔ شور شرا بہ، سائرن،لال نیلی بتی لگی گاڑیاں۔۔۔لوگوں کا اژدہام۔۔۔ کاشفہ کے ساتھ پچا سوں لوگ ڈرائنگ روم میں داخل ہو ئے۔اچا نک کاشفہ کی نظر مجھ پر پڑی۔۔۔میں نے مبارک باد کی شکل میں پھولوں کا گلدستہ پیش کرنا چا ہا۔
’’شکریہ۔۔۔انتظار صاحب۔۔۔‘‘ کہتی ہوئی کا شفہ اپنے کمرے کی طرف چلی گئی تھیں۔
اتنی بھیڑ میں، میں نے کا شفہ کے کمرے میںجانے کی ہمت نہیں کی۔پھولوں کا گلدستہ میرے ہاتھوں میں اب بھی مسکرا رہا تھا اور میں بجھے دل، بھا ری قدموں واپس ہولیا۔
اگلے دن اچا نک فون آ یا۔ نمبر کا شفہ ہی کا تھا۔میں نے بے صبری سے مو بائل اٹھا لیا۔
’’ہیلو۔۔۔جی کا شفہ۔۔۔‘‘
’’ جی میڈم بزی ہیں۔انہوں نے آ ج رات آپ کو ڈنر پر مدعو کیا ہے۔۔۔رات ۱۱؍ بجے میڈم کے نئے بنگلے ودھایک آواس پر آجائیے گا۔‘‘
مجھے خوشی تو ہوئی لیکن کا شفہ کی آ واز نہ سن پانے کا دکھ بھی۔ لیکن میں نے سوچا۔ اب کا شفہ کی مصروفیت میں اضا فہ ہو گیا ہے۔ یہ سب کچھ دن کی بات ہے پھر سب ٹھیک ہو جائے گا اور ایک دن وہ سب۔۔۔وہ سارے خواب پو رے ہوں گے۔
۔۔۔
ڈنر پارٹی بہت بڑی تھی۔ ہزاروں لوگ مدعو تھے،جب کاشفہ محفل میں آئیں تو بہت دلکش لگ رہی تھیں۔انہوں نے کالے رنگ کی گولڈن بارڈر اور گولڈن اسٹار والی ساڑی زیب تن کی تھی۔ وہ کیسی لگ رہی تھیں کیا بتائوں۔۔۔میں اسے کالی ناگن سے تشبیہ دے سکتا ہوں، جس پر روشنی پڑنے پر اس کے جسم کے ہر حصے سے سنہری کرنیں سی پھوٹتی دکھائی پڑتی ہیں۔مجھے دیکھتے ہی میری طرف آئیں۔
’’ انتظار صا حب!۔۔۔آپ ذرا رک جائیے گا۔ آپ سے اطمینان سے بات کروں گی۔۔۔وہ سر پرائز گفٹ۔۔۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ مسکرائی بھی تھیں۔ اس مسکرا ہٹ نے ناگن کی پھنکار جیسا اثر کیا تھا۔ میرے اندر مسکرا ہٹ کا زہر گھلنے لگا تھا۔ وہ تو دوسری طرف مڑ گئی تھیں لیکن مجھے مسکراہٹ کے زہر نے ساکت و جامد کردیا تھا۔
مہمان رخصت ہو رہے تھے۔ رات کا پچھلا پہر شروع ہو گیا تھا۔ میں لان سے ڈرا ئنگ روم میں آ کر ایک صوفے میں دھنس چکا تھا۔ نیند کا غلبہ، آنکھیں بند ہوتیں لیکن امید وںکے چرا غوں کی رو شنی سے پھر کھل جا تیں۔ نجانے کب میری قوتِ مدافعت نے دم توڑ دیا تھا۔ نیند کی فتح، خوابوں کی آمد۔۔۔منظر بدل گیا تھا۔ کاشفہ۔۔۔نہیں سیاہ ناگن۔۔۔میرے رو برو تھی۔ اس کی قاتل ادائیں۔۔۔کمرے میں دیواروں پر لگے فوٹو نئے تھے۔ رہائش بھی نئی تھی،لیکن سلیقہ وہی تھا۔ کاشفہ کا بیڈ روم ایسا تھا کہ بیان سے با ہر۔ کا شفہ بیڈ پر دراز تھی۔ اچانک آواز ابھری۔
’’انتظار۔۔۔آئو نا۔۔۔‘‘ آواز کا نشہ،زہر آلود تھا۔میں خود کو روک نہیں پایا۔میرا سر پرائز گفٹ حاضر تھا۔ اس کی پیکنگ جو بڑی دیدہ زیب تھی،نظروں کو خیرہ کررہی تھی۔ مجھے بڑی احتیاط سے اس کی پرتیں اور فیتے کھو لنے تھے۔میں پیکنگ کھولنے میں مصروف تھا کہ اتنے میںزور کی آ واز ہوئی۔ میری آنکھیں کھل گئی تھیں۔ سامنے گھڑی میں تین بج رہے تھے۔ڈرائنگ روم میں اب بھی اکا دکا مہمان بیٹھے تھے۔ سامنے مرکزی نشست پر کاشفہ بیٹھی باتیں کررہی تھیں۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی بو لیں۔۔۔
’’انتظار صاحب۔۔۔ارے آپ اونگھ رہے تھے۔۔۔آپ کا سر پرائز گفٹ میرے بیڈ روم میں رکھا ہے۔ آپ چلے جائیں۔۔۔میں ابھی آ رہی ہوں۔۔۔‘‘
کاشفہ کا بیڈ روم،دیواروں پر نئی نئی رنگوں، ادا ئوں اور پوز میں بڑی بڑی تصویر میں کہیں بال کھلے ہوئے،کہیں جینز ٹی شرٹ، کسی تصویر میں نیلی سا ڑی، کسی میں سرخ رنگ، میں عجیب کیفیت کا شکار ہو رہا تھا۔ کا شفہ کے حسن کے مخفی گوشے منکشف ہورہے تھے۔میں راز ہائے حسن کی بھول بھلیوں میں بھٹک گیا تھا۔
بیڈ روم کی سائڈ ٹیبل پر ایک لفا فہ رکھا تھا جس پر میرا نام تحریر تھا۔میں نے لفافہ چاک کیا۔ایک کاغذ با ہر نکلا۔۔۔یہ ایک سرکاری حکم نامہ تھا۔ ہندی میں تھا۔میں نے پڑھنا شروع ہی کیا تھا کہ اچا نک خوشبو کا ایک جھو نکا اندر داخل ہوا۔ میرے مساموں کے دریچے کھل گئے تھے۔
’’انتظار صاحب۔مبارک ہو۔آپ کو اتر پردیش اردو اکا دمی کا چیئر مین بنا دیا گیا ہے۔‘‘
اچھا مجھے نیند آ رہی ہے۔ آپ کو گاڑی گھر چھوڑ دے گی اور کل سے تو آپ کی اپنی گاڑی آپ کے پاس ہو گی۔‘‘
’’ خدا حا فظ۔۔۔‘‘
چلتے چلتے میں نے مصافحے کے لیے ہاتھ آ گے بڑھایا تو کا شفہ نے دور سے ہاتھ ہلا دیا اور پیچھے سے کا شفہ کے گارڈ نے مجھے باہر کی طرف آنے کا اشارہ کیا۔
’’سر۔۔۔اب میڈم سونے جارہی ہیں۔۔۔‘‘
مجھے اکادمی کا چیئر مین بنے تقریباً دو ماہ ہو گئے ہیں۔میری حیثیت،وقعت اور رتبے میںخاصااضافہ ہو گیا ہے۔لیکن کاشفہ سے ملاقاتوں کاسلسلہ برائے نام رہ گیا۔ایک دن اخبار کی سرخی نے مجھے حیران و پریشان کردیا تھا۔
’’معروف سیاسی رہنما اوروزیر برائے اقلیتی امور محترمہ کاشفہ درانی اپنے بچپن کے دوست سے شادی کریں گی۔‘‘
میرے ہاتھ میں چا ئے کا کپ دیر تک لرزتا رہ گیا ؎
وقت مجھ کو چھوڑ کر،صحرا میں،کب کا جاچکا
اب کو ئی طوفان آئے یہ گھروندا توڑ دے
(افسانے میں استعمال کیے گئے اشعار معروف شاعر سید احمد شمیم کے ہیں) 
ختم شدہ
تبصرے و تاثرات
ڈاکٹرسلیم خان
عمدہ کہانی۔ شاندار۔ بہت بہت مبارک ہو اسلم جمشید پوری صاحب۔ ایک سانس میں کہانی ختم۔ ماشاءاللہ۔ بزم افسانہ کا شکریہ۔
٭
اقبال حسن آزاد
یک طرفہ محبت کی دلچسپ کہانی جس میں برجستہ اور بر محل اشعار ستاروں کی طرح ٹانکے گئے ہیں۔پڑھ کر لطف آیا۔
٭
زاہد مختار
اے میری شہناذ تخیل یہ بتا دے مجھ کو...یا تجھے الفت نہیں یا جراءت اظہار نہیں..تیری باتوں سے تو ہوتا ہے محبت کا گماں..تیرے ہونٹوں پہ مگر پیار کا اقرار نہیں. (انتخاب)
٭
ایس معشوق احمد
سرپرائز گفٹ نے "سرپرائز" تو نہیں کیا البتہ ایک اچھی عشقیہ کہانی پڑھنے کا "گفٹ" ضرور ملا جس میں مشاعرے کی روداد خوب ہے لیکن وہ تعلق والا شعر۔۔۔وہ اشعار بھی ہوتے جن پر داد دی گئی تو خوب ہوتا۔۔
٭
غیاث الرحمٰن
ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری ایک کہنہ مشق قلمکار ہیں۔ نہایت تجربہ کار اور جہاں دیدہ شخصیت کے مالک ہیں۔ ان کے قلم سے نکلی ہوئی ہر تحریر دعوت فکر دیتی ہے۔ زیر نظر افسانہ، نہایت لطیف رومانی فضا میں ملبوس افسانہ ہے۔ دونوں کردار بڑی فہم و فراست کے مالک ہیں۔ تاہم عشق وہ آگ ہے۔۔۔" جو لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے"
انتظار لکھنوئ، عرصہُ دراز سے مشاعروں کا مشہور و معروف اور کامیاب شاعر ہے، تو یقیناً عمر رسیدہ بھی ہوگا۔ وہ شادی شدہ تھا یا نہیں یہ ایک معمہ ہی رہا، لیکن مرض عشق میں، حادثاتی طور پر مبتلاع ہوجاتاہے۔ جس سے اس کی معصومیت پر ترس آتا ہے۔ کاشفہ اتنی حسین و جمیل تھی، پھر بھی اپنی عمر کے چالیس سال گزار نے کے بعد اپنے بچپن کے ایک غیر معروف شخص سے شادی کرتی ہے، یہ اشارہ بھی اس کی پراسرار شخصیت اور مصروف زندگی کا غماز ہے۔
افسانے میں برمحل اشعار کا استعمال، لطف دیتا رہا۔ افسانہ پڑھ کر یونہی ایک شعر ذہن میں گردش کرنے لگا،" میں جسے پیار کا انداز سمجھ بیٹھا ہوں،
وہ تبسم وہ تکلم تیری عادت ہی نہ ہو۔"
ایک صاف ستھرے رومانی افسانے کے لئے ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری صاحب کو دلی مبارکباد۔
٭
ڈاکٹر کہکشاں عرفان
پروفیسر اسلم جمشید پوری کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ وہ بےحد فعال اور متحرک شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں میں میں نے دیکھا ہے سفر، شہر، تاریخ و جغرافیہ اور میلہ، کرتب، نمائش اور ٹرین بالخصوص، نو چندی، سنگم، اہم کرداروں کی طرح استعمال ہوے ہیں۔ شاید اسلم جمشید پوری کی زندگی سفر میں زیادہ گزری ہو حالانکہ یہ زندگی ایک سفر کا ہی نام ہے۔ اس افسانے کے دو مرکزی کردار انتظار لکھنوی اور کاشفہ درانی کے رومان میں جو مقناطیسیت ہے افسانے میں سرپرائز گفٹ کا جو تجسس ہے وہ قاری کو افسانہ چھوڑ کر ہٹنے نہیں دیتی۔ افسانہ کی فضا بڑی لطیف اور پر کشش ہے حسن اور عشق اور شاعری نے افسانے کو بہت دلچسپ، اور لطیف بنادیا ہے۔ اس افسانے میں محبوب کا سیاسی شخصیت ہونا معشوق شاعر کے لئے ہی نہیں ہر اس شخص کے لئے سبق ہے کہ سیاست میں انسان کا بھر استعمال اور استحصال کیا جاتا ہے۔اس کی محنت کا، غربت کا، محبت کا شہرت کا کاشفہ درانی نے شاعر کی شہرت و مقبولیت سے خوب خوب فائدہ اٹھایا اور بدلے میں سرپرائز گزٹ کے طور پر اردو اکادمی کا چئر مین بنادیا، کیا خوب سودا نقد ہے اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے، مگر سیاست کی چال میں غرض ہمیشہ پوشیدہ رہتی ہے۔ کاشفہ درانی خوش اخلاقی اور انکساری کے ساتھ سے شاعر کی مقبولیت کا استعمال کرتی رہیں۔یہاں حسن تو ہے عشق نہیں شاعر کو شہرت، دولت، مقبولیت چاہیے تھی سو مل گئی۔ شاعر کو بیڈ روم تک پہنچا کر بھی کاشفہ نے انتظار لکھنوی کو تشنہ و منتظر ہی رکھا۔ سیاسی داؤں پینترے اور انسانی نفسیات کا راز افشا کرتا ہوا افسانہ جس میں تاثر بھر پور ہے۔بہت عمدہ افسانہ افسانے کی بنت بڑی شاندار ہے۔ اور اشعار نے چار چاند لگا دئے ہیں 
اسلم جمشید پوری تجربہ کرنے میں ماہر ہیں وہ اپنے افسانوں میں قسم قسم کے تجربے کرتے رہتے ہیں۔ بڑا لطیف افسانہ قاری محظوظ ہوے بغیر نہیں رہ سکتا۔
٭
نگار عظیم
"سر پرائز گفٹ" اسلم جمشید پوری صاحب کے میں نے بہت سے افسانے پڑھے ہیں کچھ نیا اور منفرد پیش کرنا ان کا خاصہ ہے۔ اس میں وہ کامیاب بھی ہوتے ہیں۔ ادھر پچھلے کئی برس سے ان کے افسانوں میں مقامیت یعنی شہر، دیہات، قصبہ، اسٹیشن میلے ٹھیلے بڑی خصوصیت سے جگہ پاتے رہے ہیں لیکن رومانی موضوع کا یہ انداز یہ رنگ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ اس افسانے میں یکطرفہ ہی سہی محبت کے سارے رنگ اسلم صاحب نے بھر دےء ہیں۔ سر پرائز گفٹ نے دل کی دھڑکن میں اضافہ کر دیا تھا۔ کیا ہی رواں دواں، احساس سے بھر پور، سلیس، شائستہ افسانوی نثر میں تخلیقی موتی پروےء ہیں۔ دونوں کردار اپنی تخلیقی پیرہن میں حسین لگتے ہیں۔ شعروں کا انتخاب بھی خوب کیا ہے احمد شمیم صاحب
میرے بھی پسندیدہ شاعر ہیں۔ اس خوبصورت افسانے کے لےء دلی مبارکباد دعائیں آپکی صحت و سلامتی کے لےء۔ افسانے کی پیسّکش کے لےء بزم افسانہ کے تمام اراکین کا شکریہ اور مبارکباد۔ 
٭
مشتاق احمد نوری
اسلم جمشید پوری ایک بے حد شریف شخص ہیں اور یاروں کے یار ہیں۔اپنی یونیورسیٹی میں مختلف موضوعات پر برابر سیمی نارمل بھی کرتے رہتے ہیں۔ان کی کہانیوں میں گاٶں کی زندگی دیکھنے کو ملتی ہے یہ اچھی بات ہے۔
مذکورہ کہانی ” سرپرائز گفٹ “ رومانی کہانی تو ہے لیکن یہ اسلم جمشید پوری کے شایان شان نہیں ہے۔ اس میں کئی جگہ جملوں کی ساخت متاثر ہوئی ہے۔ایک شاعر کا تخیلی عشق جیسا چھچھوڑا ہوسکتا ہے اس کی عمدہ عکاسی ملتی ہے لیکن ایک بڑے گھر کی پختہ سیاست داں سے محبت کی امید رکھنا نادانی کے سوا کچھ نہیں۔ کہانی میں تجسس بنا ہوا ہے جس سے دلچسپی بنی رہتی ہے۔
میں اسلم بھائی سے اس سے بہتر کہانی کی توقع رکھنے میں حق بہ جانب ہوں۔
ان کی کاوش کی داد تو بنتی ہے۔
میری طبیعت مہینوں سے ناساز ہے اسلئے نیٹ پر کم رہتا ہوں بزم افسانہ میں بھی حاضری کم ہوتی ہے لیکن دلچسپی بنی ہوئی ہے۔
٭
نصرت شمسی
اسلم جمشید پوری ایک اچھے ادیب اور مبصر ہیں۔ان کا ایک افسانہ جس کا عنوان یاد نہیں کچھ "عید۔۔"کے حوالہ سے تھا۔بہت ا چھا افسانہ تھا لیکن یہ افسانہ مجھے ذرا کم۔متاثر کر پایا جس کی پہلی وجہ تو رومانیت کا فقدان رہی جو بہت اگے جاکر یک طرفہ محبت میں نظر آئی دوسری اس کی طوالت 
مجھے تو ا بتدا میں سفر نامہ سا لگا جس کی شاید افسانے کو ضرورے نہ تھی۔میرا تعلق چونکہ میرٹھ سے ہے اس لیے ان تمام پریشانیوں کو اچھی طرح محسوس کیا ہاں اس تفصیل میں مجھے ان کی شہر میرٹھ سے محبت محسوس ہوئی ساتھ ہی جس نو چندی ملیے کا ذکر کیا ہے اس کی منظر کشی نے سارے منظر آنکھوں کے سامنے لادئے۔افسانہ میں انھوں نے خود کو شامل کر لیا جس سے افسانہ طویل بھی ہوا اور وہ رنگ بھی نہ چڑھا سکا جو چاہیے تھا۔لیکن ان کے اور بھی افسانے پڑھیں ہیں جو آج بھی کسی نہ کسی نقش کے ساتھ ذہن میں موجود ہیں۔
ان کی صحت و سلامتی کی دعائیں اور قلم کے لیے مبارک باد
٭
اکبر عابد
اسلم جمشیدپوری ایک نامور ادیب ومبصر ہیں ان کا نام ہی کافی ہے افسانے کی کامیابی کے لئے۔۔۔ان کے کئی افسانے پڑھے ان کے افسانوں میں شہر، دیہات، قصبہ،مقام کو بڑے اچھے انداز میں پیش کیا ہے زیر نظر افسانہ سرپرائز گفٹ میں موصوف نے محبت کے سارے رنگ بھر دئے ہیں یہ افسانہ پڑھتے ہوئے دل میں عجیب طرح کی جل ترنگ ہونے لگی۔۔اس خوبصورت افسانے کے لئے دلی مبارکباد اور نیک خواہشات۔۔۔
٭
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
اسلم جمشید پوری صاحب فن افسانہ نگاری کے ماہر اور میدان افسانہ کے شہسوار ہیں۔چنانچہ افسانے کی نوک پلک، رموزاوقاف پر کویء حرف نہیں ہے۔دوآبے کےعلاقے کی دھلی دھلائی سلیس اور دلکش زبان ہے۔جذبات نگاری، جزییات نگاری، منظر نگاری اور کردار نگاری سب چست و درست ہے۔ منظر نگاری تو اس غضب کی ہے کہ قاری کبھی سڑک کے جام میں پھنسا انتظار صاحب کے ساتھ سڑک پر ٹہلتا ہے تو کبھی نوچندی کے مشاعرے کی ہڑبونگ سے گذرتاہوا انتظار صاحب کے اشعار سے محظوظ ہوتا نظر آتا ہے۔کبھی کاشفہ درانی کے ڈراینگ روم کی نفاست و تزئین وآرائش سے مسحور ہوجاتا ہے، کبھی ان کے بیڈ روم میں آویزاں مختلف رنگوں میں ملبوس ان کی تصویروں میں کھو جاتا ہے تو کبھی انتظار صاحب کی والہانہ جذباتی کشمکش میں خود کو گرفتار محسوس کرتا ہے۔
موضوع سے مطابقت رکھتی ہویء خالص رومانی کہانی ہے گو کہ اس میں محبت نہیں ہے۔ایک طرف خودغرضانہ التفات ہے تو دوسری طرف ایک خوبصورت صنف مخالف کی کشش ہے، بیڈ روم تک رسائی جس کا مقصود ہوتی ہے۔
افسانے کا لفظ لفظ رومان میں شرابور ہے۔رومانیت کا مطلب صرف محبت کی کہانی نہیں ہوتا بلکہ رومان نام ہے ایک ایسی کیفیت کا جس میں تصور کی رنگ آمیزی، تخیل کی کرشمہ سازی، حسن کی فتنہ سازی اور جذبات کی فضا بندی ہو، تخلیقی زبان ہو، لفظوں کی جادوگری ہو اور احساس کی میٹھی میٹھی دھیمی دھیمی کسک ہو۔
اور ان خوبیوں سے زیرنظر افسانہ مزین ہے۔
اسلم صاحب کو مبارکباد پیش ہے۔
٭
انیس رشید خان
محترم ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب بہترین افسانہ نگار ہیں۔ آج اس افسانے کو پڑھتے ہوئے ایک اور افسانے کی یاد آگئی جس میں کسی نوچندی ایکسپریس کا ذکر کیا گیا تھا۔ 
یہ بہت خوبصورت افسانہ ہے۔ سارے افسانے میں تجسّس بنا رہا کہ آخر وہ سرپرائز گفٹ ہے کیا؟۔۔۔ لیکن جب وہ سر پرائز گفٹ سامنے آیا تو دل کھٹٹا ہو گیا۔ محبت کی اڑانیں بہت اونچی ہوتی ہیں اور سیاست کا میدان صرف وقتی طور پر فائدے حاصل کرنے کے لئے ہوتا ہے۔ اس افسانے میں یک طرفہ پیار دکھایا گیا ہے جو کہ کسی بھی مشہور (سیاسی یا کسی بھی فیلڈ کی) شخصیت سے، کسی بھی عام انسان کو ہوسکتا ہے۔ بڑے ہی دلنشین انداز میں درانی صاحبہ نے ایک مشہور و معروف کامیاب شاعر کو اپنے سیاسی پروپیگنڈا میں استعمال کیا اور بدلے میں ایک ایسا انعام دے دیا جو واقعی کئی کئی لوگوں کے لئے بڑی کشش کا باعث ہوسکتا ہے۔ لیکن مجھے تو شاعر صاحب کی حیثیت صرف اس شعر جیسی لگی
بڑے بے آبرو ہو کر، ترے کوچے سے ہم نکلے
ایک طویل لیکن خوبصورت افسانہ کے لئے محترم ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب کو بہت بہت مبارک باد 🌹
٭
فرخندہ ضمیر
سنیچر اور اتوار راجستھان میں REET امتحان کا میلہ تھا۔اسکے باعث افسانہ پڑھنے کی فرصت نہیں ملی۔ 
اب جو وقت ملا تو افسانہ پڑھنے لگی اور افسانے کا تجسّس بڑھتا گیا۔ افسانے کے اسلوب اور انداز بیان ایک ادبی فضا بھی قائم کی اور عشق کے رموز سے بھی آشنا کیا، سیاست کی نیرنگیاں بھی جلوہ گر ہوئیں اور بےچارے انتظار صاحب خوابوں کی کہکشاں سجائے انتظار ہی کرتے رہ گئے۔نام کی مناسبت سے انجام ہوا۔ کاشفہ درّانی کا کردار بڑی مشّاقی سے قلم بند کیا گیا۔ سیاست کے چہرے ایسے ہی ہوتے ہیں۔ 
جا بجا موقع محل کی مناسبت سے اشعار پیش کئے گئے جنھوں نے افسانے میں تغزّل کا رنگ بھر دیا۔ 
لیکن ایک جگہ انھوں نے کاشفہ کی عمر ۳۸سال اور ایک جگہ چالیس سال لکھی ہے۔ خیر یہ معمولی سا خم ہے۔ افسانہ بہت عمدہ ہے۔
بہت مبارکباد اسلم صاحب
٭
اسلم جمشید پوری
بزم افسانہ
کے تمام اراکین اور شرکاء کو اسلم جمشید پوری
کا سلام
سر پراءز گفٹ
کی پسندیدگی کے لیئے
ڈاکٹر سلیم خان
ڈاکٹر اقبال حسن آزاد
زاہد مختار صاحب
جی آر سید صاحب
نگار عظیم صاحبہ
کہکشاں عرفان صاحبہ
مشتاق احمد نوری بھائی
نصرت شمسی صاحبہ
اکبر عابد بھائی
نعیمہ جعفری بہن
ڈاکٹر انیس رشید
نثار انجم بھائی
فر خندہ ضمیر صاحبہ
آپ تمام کی محبت کا شکریہ
دراصل رومانی کہانی صرف عشق و محبت کی کہانی نہیں ہوتی۔رومانی کہانی دل دماغ کو تازگی بخشتی ہے۔قاری کے اندر ایک کسک، کشمکش اور تجسس سرایت کر جاتی ہے۔بظاہر کہانی ختم ہو جاتی ہے مگر یہ قاری کے اندر شروع ہو جاتی ہے۔ اسے متحرک کر دیتی ہے۔کہا اور ان کہے کے درمیان جذبات کو انگیز کر تی ہے۔
بزم افسانہ کے ذمہ دار وں سلام بن رزاق، طاہر انجم صدیقی،وسیم عقیل شاہ، علیم اسما عیل وغیرہ کو مبارکباد کہ یہ اردو افسانے کی بڑی خدمت ہے۔
اس ایونٹ سے نءے افسانہ نگار بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ یہ ادب کی خدمت کے ساتھ نیا ادب وجود میں لانے کا موجب بھی بنتا ہے۔
کہانی سے اختلاف کرنے والوں کا مخصوص شکریہ کہ اختلاف کرنا بہت بڑے جگر کی بات ہوتی ہے۔ مگر اختلاف دلیل کے ساتھ ہو۔بہت سے لوگ اختلاف برائے اختلاف کر تے ہیں۔ یہ اچھی اور صحت مند تنقید نہیں ہے۔ محبت یک طرفہ بھی ہو سکتی ہے۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ افسانہ بنا کہ نہیں۔۔ سفر کا ذکر افسانے میں ہوتا رہا ہے۔ افسانہ ایک ہی ڈھرے پر نہیں لکھا جاتا۔ ہر افسانہ اپنی ہییت اور اسلوب سا تھ لے کر آتا ہے۔
افسانے پر بات پھر کبھی۔۔
آپ کا 
اسلم جمشید پوری

Post a Comment

0 Comments