بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 12
گزرے موسم کی تپش
ترنم جہاں شبنم
’’میں کب سے تمہارا منتظرتھا شفّو! اور آج مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ تم میرے سامنے کھڑی ہو۔‘‘ خوشی سے کھلکھلاتی سامنے کھڑی لڑکی سے یہ کہتے ہوئے لڑکے نے بانہیں پھیلاکر اسے خوش آمدید کہا۔ لڑکی دوڑ کر اس کی بانہوں میں جھول گئی۔ میں جو مراقبوں میں رہنے کی عادی ہو چکی ہوں ابھی کچھ دیر پہلے ہی تو اپنے ماضی کے بھنور سے باہر آئی تھی اور اب اس منظر پر غش کھا کر پیچھے گرنے کو تیار تھی۔ مگر اس سے پہلے ہی میں نے خود پہ قابو پا لیا تھا۔ ان کھنڈرات میں جہاں انجانے سکون کی تلاش میں بھٹکتے لوگوں کی بھیڑ ہے۔ جس میں ایک طرف ایک دوسرے سے سر جوڑے محبت کو ایک نیا عنوان دیتے جوڑے ہیں، جو جابجا یہاں بکھرے ہوئے ہیں اور بھیڑ میں بھی تنہائی کا احساس لئے اپنی دنیا میں مست ہیں اور سکون محسوس کر رہے ہیں۔ تو وہیں دوسری طرف یہاں مجھ جیسے بیچین لوگ بھی موجود ہیں۔ جو بھیڑ اور تنہائی دونوں کے شور سے پریشان ان کھنڈرات میں بھٹک رہے ہیں۔ میں اکثر ہی سکون کی تلاش میں بے سکون ہونے میں یہاں آتی ہوں۔ بڑا گہرا اور پرانا رشتہ ہے میرا اس ویرانے سے۔۔۔ ماضی کی ورق گردانی کرتے ہوئے اکثر میں کانوں میں لگے ایئر فون پر غلام علی، جگجیت سنگھ کی غزلیں یا کبھی رفیع، لتا کے نغمے سنتے ہوئے گھنٹوں اپنا وقت یہاں گزارتی ہوں اور ورق ورق بے سکون ہوتی ہوں۔ لیکن یہاں بیٹھے جوڑوں سے مجھے کبھی کوئی خاص دلچسپی نہیں رہی اور نہ ہی کبھی کوئی مجھے اپنی طرف متوجہ کرسکا۔ مگر اس جوڑے میں ایسا کچھ تھا کہ جو میری توجہ کا مرکز بن گیا۔ ماضی کے کبوتر نے پھر میرے سر پہ پھڑ پھڑانا شروع کیا تھا،گھبرا کے میں نے اپنا سارا ذہن ان دونوں کی طرف لگا دیا۔ ’’ شفّو جان! مجھے یقین نہیں آ رہا ہے کہ تم ہمیشہ ہمیشہ کے لئے میرے پاس آ گئی ہو، کبھی نہ جانے کے لئے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے لڑکے نے آہستہ سے لڑکی کے کاندھوں کو چھوکر خواب اور حقیقت کا یقین کر لینا چاہا۔
اُف کتنا تڑپا ہوں میں تمہارے لئے! تمہیں معلوم ہے مجھے میلوں کے فاصلوں نے نہیں سرحدوں کے فاصلوں نے تڑپایا ہے۔ میلوں کے فاصلے تو میں نے نا جانے کب کے عبور کئے ہوتے مگر اس سرحد کا کیا کرتا؟‘‘ آخری جملہ گہری سانس لیتے ہوئے اس نے ادا کیا۔ اور پھر کبھی وہ لڑکی کو چھو کر تو کبھی لڑکی اسے چھو کر ایک دوسرے کے ہونے کا یقین کراتے ہوئے ساتھ ہونے کے احساس سےکھلکھلانے لگے۔ خوشی کی کرنیں دونوں کے چہرے سے پھوٹ رہیں تھیں۔ دونوں اپنی اپنی محبت کا ا ظہار کر رہے تھے۔ ’’ شفّو میں تمہارے حوصلے کو سلام کرتا ہوں جو تم نے اتنا بڑاقدم اٹھایا۔‘‘ ’’یہ میرا حوصلہ نہیں منیر، تمہاری محبت ہے جس نے مجھے اتنا بڑا فیصلہ کرنے پر مجبور کیا ورنہ مجھ میں اتنی ہمت کہاں تھی؟ ‘‘ لڑکی کے اس محبت بھرے جواب پر لڑکے نے اسے اپنے کچھ اور نزدیک کر لیا تھا۔ لڑکی لڑکے کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اپنے کتنے ہی خوابوں کی تعبیر پا لینا چاہتی تھی، بے اختیار اس کی آنکھوں کو چومتی تو کبھی لڑکے کے ہاتھوں کو چوم کر اپنی آنکھوں سے لگاتے ہوئے گہرے سکون کا احساس کرتی۔ کبھی لڑکا لڑکی کی پیشانی اور آنکھوں کو چومتا۔ کتنی ہی دیر دونوں یقین اور بے یقینی کے درمیان گھرے ایک دوسرے کو خود کے ہونے کا احساس کراتے ہوئے خوش ہوتے اور کھلکھلاتے رہے، جہاں ان کے قہقہوں کا ترنم فضاء کو نغمگی احساس بخشتا ہوا کھنڈرات کو بھی تازگی کا احساس کراتا رہا۔ مگر اچانک دونوں کے درمیان پھر ایک گہری سوچ نظر آئی جس کے ساتھ چہرے کی خوشی ڈوبتے سورج کی طرح اندھیرے میں تحلیل ہوتی چلی گئی۔
’’شگفتہ بتاؤ نا! یہ سرحد اب تو ہمارے بیچ نہیں آے گی ناں؟‘‘ ایک انجانے خوف سے سہما ہوا لڑکا ڈوبتے لہجے میں بڑی معصومیت سے سوال کر رہا تھا۔’’ نہیں آے گی ناں، اتنا پریشان کیوں ہوتے ہو منیر؟‘‘ لڑکی نے اسے تسلّی دی تھی مگر فکر کی لکیریں اس کی پیشانی پر بھی گہری ہو گئیں تھیں. تمہیں اپنے گھر اور اپنے وطن کی یاد آئی تو؟‘‘ لڑکے نے دوسرے سوال کے ساتھ سامنے بیٹھی لڑکی کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے نامعلوم کیا تلاش کرنے کی کوشش کی۔ لڑکی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھی۔ مگر ایسا لگتا تھا کہ جیسے وہ فکرات میں پڑ کر ان خوشگوار لمحوں کو گنوانا نہیں چاہتی تھی فوراً ماحول کو تبدیل کرنے کی غرض سے چہرے پر ایک شوخ سی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولی۔’’سنو منیر فیس بک، یاہو، جی میل، اور اسکائپ وغیرہ کے ذریعہ ہی تو ہماری محبت پروان چڑھی ہے انہی کے ذریعہ گھر والوں سے بھی ملیں گے، بات کیا کریں گے۔‘‘ ’’واقعی اب تم واپس نہیں جاؤ گی؟‘‘ لڑکے نے بے یقینی سے پھر سوال کیا۔ ’’پاگل ہوئے ہو کیوں جاؤں گی واپس؟ رخصت ہو کر ایک دن تو ہر لڑکی کو اپنی سسرال جانا ہوتا ہے۔ اب میں اپنی سسرال سے کہاں انے والی ہوں؟‘‘ اس بار لڑکی نے لڑکے سے سوال کیا تھا۔ اور اس کے اس سوال کے ساتھ سب کچھ بھول کر دونوں ہنستے کھلکھلاتے ہوئے اس ملن پہ سر شار مستقبل کے سنہرے خواب بننے لگتے۔ انہیں یوں خوش دیکھ کرمجھے بھی ایک عجیب سے سکون کا احساس ہو رہا تھا۔ آج نا جانے کتنے عرصہ بعد میں نے سکون محسوس کیا تھا۔ شاید اس لئے کہ وہاں سر جوڑے بیٹھے ان جوڑوں سے یہ جوڑا کچھ مختلف تھا۔ یا پھر میری اس کہانی کا دوسرا حصہ جسے میں یاد کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے پھر اپنے ذہن کو جھٹکا تھا۔
اچانک لڑکے کو پھر کچھ یاد آیا۔ جس کے ساتھ فضاء میں گونجتے قہقہے کہیں گم ہو گئے۔ ایسا لگا مانو جیسے اُونچی اُڑاان کے پرندوں کے پر کہیں پھنس گئے ہیں اور حادثے کے خوف سے وہ پھڑپھڑا رہے ہوں۔ اس پھڑپھڑاہٹ میں پسینے کی بوندیں دونوں کی پیشانی پر نظر آنے لگیں تھیں۔ میں کان میں ایئرفون لگائے ان سے کچھ فاصلے پہ بیٹھی بظاہر توان سے بے نیاز سی تھی مگر میری توجہ کا مرکز وہ دونوں ہی تھے۔ جو مجھے کہیں گم ہوئی اپنی ُاس کہانی کا دوسرا حصہ نظر آئے تھے جو سرحدوں میں کہیں گم ہو گئی تھی۔ انہیں دیکھتے ہوئے میری وہ محبت میرے اندر تڑپنے لگی تھی جسے سیاست نے ملکوں اور سرحدوں میں بانٹ دیا تھا۔ ماضی کی وہ کہانی جس نے مجھے مراقبوں کا عادی بنا دیا تھا، جسے میں یاد کرنا نہیں چاہتی تھی آج ایک مختلف انداز میں میرے سامنے آ کھڑی ہوئی تھی۔ ان ہی کھنڈرات میں تو کل وہ کہانی گزری تھی اور یہیں آج مجھے اس جیسی یہ دوسری کہانی نظر آرہی تھی۔
یہ قطب مینار کے آس پاس کے وہی کھنڈر ہیں جہاں کبھی قمر نیازی اور میں سکون کی تلاش میں آتے تھے اور گھنٹوں اپنا وقت ان ویران کھنڈروں میں بتاتے۔ یہ وہی جگہ ہے جہاں ایک بار قمر نیازی نے مجھ سے کہاں تھا۔ ’’ نشاط میری تعلیم مکمل ہونے والی ہے۔‘‘ ’’اچھا ! تو اس میں کونسی نئی خبر ہے، مجھے معلوم نہیں ہے کیا جو مجھے اطلاع دے رہے ہو؟‘‘ میں نے قمر کے عجیب سے انداز پہ جھنجلا کر کہا تھا۔ ’’ارے تم سمجھی نہیں نشاط، چند ماہ بعد میں اپنے وطن واپس لوٹوں گا، پھر تمہارا کیا ارادہ ہے؟‘‘ اس نے کسی گہری سوچ میں ڈوب کر اپنی بات کہی تھی۔ ’’اُوہ !‘‘ اور میرے منھ سے صرف ’’اُوہ‘‘ نکلا تھا اور پھر موت کا سا سناٹا ٹریفک کے شور سے آباد اس ویرانے میں چھا گیا تھا۔ گھبراکے میں نے قمر نیازی کو دیکھا تھا جو آنکھوں میں ناجانے کتنی التجائیں لئے میرے سامنے کھڑا تھا۔ اس کی ملتجی نظروں کو دیکھ کر میں نے ہی کہا تھا۔ ’’قمر تم یہی رہ جاؤ ناں! اور پھر ابھی میرا فائنل ایر بھی باقی ہے۔‘‘ ’’ٹھیک ہے نشی پھر اس کے بعد؟‘‘ قمر نے مجھ سے سوال کیا تھا۔ اس کے بعد گہری سوچ اور ایک گہری خاموشی تھی۔ قمر نے ہی اس خاموشی کو توڑا تھا۔ ’’سنو نشی ہم دونوں میں زبردست ذہنی مطابقت ہے۔ اس وجہ سے کہ مزاجاً ہم ایک سے ہیں، اور ہر لڑکی کو ایک نہ ایک دن رخصت ہو کر اپنے شوہر کے دیس جانا ہی ہوتا ہے۔ ایسے میں، میں تمہیں اپنی دلہن بنا کر اپنے ساتھ لے جانے کی اُمید کر سکتا ہوں؟‘‘ اس کے اس سوال پر اب کی بار میں نے اسے ملتجی نظروں سے دیکھا تھا۔ اور یہ وہی سوال تھا جہاں آکر ہم دونوں ہی خاموش ہو جاتے تھے۔کیونکہ ہم دونوں کو ہی اس کا جواب معلوم تھا۔ وہ بھی جانتا تھا کہ مجھے اپنی مٹی کی سوندھی مہک کتنی عزیز ہے، یہاں سے دور جانے کاتصور بھی میرے لئے عذاب ہے۔ اور میں نے اسے بھی اس کے مٹی کی یاد میں تڑپتے ہوئے دیکھا تھا۔ حصولِ تعلیم کے لئے وہ یہاں موجود ضرور تھا۔ مگراس کا دل و دماغ بھی کہیں اس کی مٹی کی مہک ہی تلاش کرتا تھا۔ اس دن ان کھنڈرات میں بیٹھے ہوئے ہم گھنٹوں اپنے احساسات سے لڑتے رہے۔ جہاں اس نے ایک سرد آہ کے ساتھ مجھ سے کہا تھا۔ ’’نشاط! کاش یہ مٹی سر حدوں میں نا بٹی ہوتی۔ اب میں کیا کروں مجھے جانا ہی ہوگا اور اگر تم۔۔۔‘‘ میری آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب دیکھ کر اس نے جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔۔۔ اور پھر ہم دل بھر کے روئے تھے۔۔۔ اس دن ہمارے دونوں کے بزرگ یہ کھنڈر۔۔۔ مجھے بہت غمگین نظر آئے تھے۔ اور ہمیں تسلّی دیتے ہوئے ہمارے آنسوؤں کو اپنے سینے میں دفن کرتے گئے تھے۔ آنسوؤں کی نمی سے فضاء میں جو سوندھی مہک پھیلی تھی اس نے ان کھنڈرات کے بھی کتنے زخموں کو تازہ کیا تھا۔ امیر خسرو کی رباعیوں کی روحانی موسیقی سے گونجتے اس شہر کے یہ کھنڈر کتنے ہی دؤر کے گواہ ہیں۔ جو کتنی ہی محبتوں کو اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہیں۔ شاید رضیہ سلطان اور یاقوت کی محبت بھی ان کھنڈر ہوئی عمارتوں میں پروان چڑھی ہو؟ اور مغلوں تک آتے آتے سلیم و انار کلی، شاہ جہاں اور ممتازکا دؤر بھی ان کھنڈرات ہوئی عمارتوں نے دیکھا ہو۔ کتنی ہی محبتیں ان کے کلیجے میں دفن ہیں۔ گواہ ہیں یہ کھنڈرات اپنے دور کے کہ محبت میں تو سرحدیں کبھی اس کے درمیان نہیں رہیں۔ اب کیوں اس مٹی کو اس کی محبت کو، قید کر دیا گیا ہے؟
سوچوں کے حصارسے باہر آتے ہوئے میں نے ایک نظر پھر ان دونوں پر ڈالی۔ جو پیشانی سے پیشانی ملائے بہت ہلکی آواز میں باتیں کر رہے تھے۔ پریشانی ان کے چہرے پر صاف نظر آ رہی تھی۔ مجھ میں بھی یہ جان لینے کا تجسس بڑھ گیا تھا کہ دونوں کے درمیان اب کیا چل رہا ہے۔ کان سے ایئر فون نکال کر بالوں کے پیچھے چھپانے ہوئے میں نے بظاہر تو خود کو مصروف دکھانے کی کوشش کی تھی مگر حقیقتاً میرا پورا دھیان ان دونوں کی طرف تھا۔ ’’شگفتہ تم نے جو طریقہ اختیار کیا ہے وہ کسی صورت بھی درست نہیں ہے۔ تم ٹورسٹ ویزا پر یہاں آئی ہو ہماری مہمان ہو ایسے میں تم اچانک اپنے غائب ہونے کا مطلب سمجھتی ہو؟ نہیں ناں؟‘‘ ’’لڑکا لڑکی سے پوچھ رہا تھا اور کچھ سمجھانے کی کوشش بھی کر رہا تھا۔ مانو جذباتی لمحات سے نکل کر اب وہ حقیقت کی زمین پر آ کھڑا ہوا تھا اور اسے سمجھا رہا تھا۔ "سنو تمہیں ابھی اپنے ٹور کے ساتھ واپس جانا ہوگا۔ پھر میں اپنے بزرگوں کے ساتھ تمہارا ہاتھ مانگنے تمہارے گھر آؤں گا۔ لیکن اِس وقت تمہیں جانا ہی ہوگا۔‘‘ ’’نہیں منیر نہیں میں اب واپس نہیں جاؤں گی میں فیصلہ کر کے آئی ہوں۔ تمہیں معلوم نہیں منیرمیرے گھر والے اس رشتے کے لئے راضی نہی ہوں گے۔ ‘‘ ’’کیوں شگفتہ انہیں مجھ سے کیا پرابلم ہے؟‘‘ ’’تم سے نہیں ان سرحدوں سے پرابلم ہے۔ یہاں بہت کچھ کھو دینے کا غم ان لوگوں میں ابھی بھی باقی ہے۔ اگر میں واپس گئی تو پھر ہم کبھی نہیں مل پائیں گے۔ پلیز منیر مجھے خود سے جدا مت کرو۔‘‘ ’’نہیں شفّو تمہیں اس وقت تو واپس جانا ہی ہوگا تم سمجھ نہیں رہی ہو۔‘‘ ’’نہیں منیر نہیں میں نہیں جاؤں گی۔ اور ابھی کچھ دیرپہلے تو تم بھی مجھ سے مل کر بہت خوش تھے۔ مجھے چھو کر میرے ہونے کا یقین کر رہے تھے مجھ سے جدا ہونے کے خوف سے کانپ رہے تھے اب کیا ہوا کہ۔۔؟‘‘ لڑکی اس سے الجھ رہی تھی اور اپنی دھن میں بولے جا رہی تھی۔ لڑکا برابر اسے منانے اور سمجھانے میں لگا تھا۔
شام کی بڑھتی دھند کے ساتھ مجھے گھر کی یاد آئی اور گھر سوچتے ہوئے میں خود پہ ہنس دی تھی۔ ہم تنہا لوگوں کی یہی تو ایک خاص بات ہے کہ ہم گھر میں نہیں مکان میں رہتے ہیں جہاں ہمارا انتطار کرنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ ان دونوں کو الجھتا چھوڑ میں نے چلنے کی تیاری شروع کی۔ لڑکا اب بھی لڑکی کو سمجھا رہا تھا۔ ’’ شفّو !جان میرا یقین کرو مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔ اور جو کچھ میں نے تم سے کہا، سچ ہے۔ مگر اس طریقہ سے ہم کسی طور بھی نہیں مل سکتے۔ سنو! تمہیں معلوم ہے جس مذہب سے ہم تعلق رکھتے ہیں وہ مہمان کو اللہ کی رحمت مانتا ہے۔ اورجس مٹّی کی خوشبو میں میں بسا ہوں میری وہ مٹی اتیتھی دیو بھوا کے ساتھ مہمان میں خدا کو دیکھتی ہے۔ میں اپنی مٹیّ کی سوندھی مہک کو خاک میں کیسے۔۔۔‘‘ اچانک لوگوں کو کنارے لگاتے شور کے ساتھ لڑکے کا جملہ درمیان میں چھوٹا تھا۔ اور ایک زلزلہ محبت کے گواہ ان کھنڈرات میں نمودار ہوا تھا۔ جس کا مرکز سرحدوں میں بٹی سوندھی مٹّی کی مہک تھی۔۔
ختم شدہ
ایس معشوق احمد
محبت پروان چڑھتی ہے چاہیے بیچ میں فاصلے ہوں یا سرحد۔افسانہ گزرے موسم کی تپش میں نئے جوڑے کو دیکھ کر نشاط کو گزرے لمحات یاد آتے ہیں۔وہ بھی تو قمر نیازی کو اسی شدت سے چاہتی تھی۔منیر اور شفو کے پیار کی شروعات سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتی ہے اور فاصلوں کو طے کرکے شفو منیر سے ملاقات کرنے آتی ہے۔ایک بہترین افسانہ رواں زبان و بیان، دلکش منظر نگاری لیکن رموز اوقاف کا خیال نہیں رکھا گیا۔اکثر" اور "سے پہلے وقفے کا استعمال کیا گیا ہے۔عشق اندھا سہی لیکن ہوش مند منیر شفو کو واپس جانا کا مشورہ دیتا کہ وہ اس سے ملنے ٹورسٹ ویزا پر آئی تھی۔وہ اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ رشتہ طے کرنے کے لیے گھر کے بزرگ کو بھیج دے گا۔سوشل میڈیائی عشق کامیاب نہیں رہتا لیکن جذبہ سچا ہو تو منیر اور شفو جیسی کہانی وجود میں آتی ہے۔ترنم صاحبہ کے اسلوب میں روانی بھی ہے اور ترنم بھی۔افسانے کے بعض جملے بہترین ہیں جن میں تخیل اور تخلیقیت کا امتزاج ملتا ہے۔۔۔ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو مبارک باد اور نیک خواہشات۔۔۔
٭
انجم قدوائی
محبت کے خوبصورت رنگوں میں ڈوبا، درد کے سمندر میں ابھرتا افسانہ بے حد خوبصورت لگا۔عمدہ زبان و بیان ہزاروں بار دہرائی جانے والی کہانی اس منفرد انداز سے لکھی گئی ہے کہ ایک ایک لفظ متاثر کرتا ہے۔ ایک مخصوص ماحول کے پس منظر میں لکھا ہوا یہ افسانہ بہت دنوں تک یاد رہے گا۔ترنم جہاں شبنم کے لئے دعائیں۔
٭
ناصر ضمیر
گورکی نے کہا تھا
"ہم سب پیار کے بھوکے ہیں اور بھوک میں جلی ہوئی روٹی بھی اچھی لگتی ہے "
یہ کہانی کسی بھی صورت میں جلی ہوئی روٹی نہیں ہے ہاں ہم سب پیار کے بھوکے ضرور ہیں شاید اسی لیے ہم کہانیوں میں داستانوں میں پیار ڈھونڈتے ہیں۔
اچھا افسانہ بلکہ ایک اچھا رومانی افسانہ
پڑھنے میں لطف آیا
ترنم جہاں شبنم کو بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات
ایڈمن پینل کو مبارک باد
٭
غیاث الرحمٰن
ایک اچھا رومانی افسانہ ھے۔ پڑھ کر لطف آیا۔ محبت کی دھیمی آنچ میں سلگتے ھوئے جذبات، درد کی لذت بڑھاتے ھوئے خیالات اور پھر یہ پر کشش انداز بیان۔ قاری خود کو راوی کے ساتھ بہتا ھوا محسوس کرتا ھے۔ محبت بھرے دلوں کی، جدا ھوتے ھوئے بےچین دھڑکنوں کو اپنے سینے میں لرزتے ھوئے محسوس کرتاھے۔ اور خود اپنے دل کو آہستہ پگھلتے ھوئے کرب کی لذت سے لطف اندوز ھوتا ھے۔
اس خوب صورت افسانے کےلئے ترنم جہاں شبنم کو بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات۔
منتظمین بزم کو بھی بہت مبارک باد۔
٭
شہناز فاطمہ
"محبت" کے خمیر میں گندھا افسانہ جسکے ہر لفظ سے محبت پھوٹی پڑ رہی تھی ہر حرف جزبات کا آءینہ بنا ہوا تھا لیکن پتہ یہ چلا کہ ان جزبات سے بھی بڑھ کر اپنے وطن عزیز کی مٹی سے "محبت" ہے اور یہ عظیم جزبہ محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ نے بہت ہی خوبصورتی سے اپنے افسانے میں سمویا ہے جسمیں دل کی بے تاب دھڑکنیں بھی ہیں اور احساسات لزت بھی جہاں پہنچ کر انسان سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن منیر کو اسوقت بھی احساس ہے کہ شگفتہ اسوقت اس ملک کی مہمان ہے اور مہمان خدا کی طرح ہوتا اگر اسطرح رک گئی تو گناہ کی مرتکب ہو جائے گی سرحد کی زمیں وہ اپنے پر قابو پاتاہے اور جزبات سے ذیادہ سرزمیں کو اہمیت دیتے ہوئے شگفتہ کو سمجھاتا ہے کہ اسوقت تو تمہیں واپس جانا ہوگا میں بہت جلد تمہیں تمہاری سر زمیں سے باقاعدہ لینے آوں گا بیحد خوبصورت انداز سے لکھا گیا افسانہ دل کی گہرائیوں میں پیوست ہو گیا عنوان بھی بہت زبردست ہے اور محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کا قلم بھی محبت کی چاشنی میں ڈوبا ہوا ہے ایک ایک حرف دل میں پیوست ہو گیا ایک بہترین پیغام دیا ہے اس افسانے نے کے دل اور جزبات سے بڑھ کر اپنے وطن کی مٹی سے محبت اور اسکی عظمت کو بچانا اس لاجواب اور بہترین افسانے کے لئے محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کی خدمت میں بہت داد و تحسین و ستایش کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں گر قبول افتد زہے عزو شرف
٭
انیس رشید خان
آج پہلی بار محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کا افسانہ پڑھا۔ بہترین افسانہ ہے۔ یہ افسانہ کہانی در کہانی کی بہترین مثال ہے۔ ایک ہی افسانے میں دو مختلف کہانیاں ایک دوسرے سے متوازی اس طرح چلتی رہتی ہیں کہ قاری کا دل و دماغ دونوں کہانیوں کے انجام و اختتام سے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ افسانے کے آخری حصے میں پہونچتے پہونچتے لاشعوری طور پر محسوس ہونے لگتا ہے کہ موجودہ نسل کی کہانی کا انجام بھی پچھلی نسل کی کہانی کے انجام جیسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس انجام کو کچھ مبہم چھوڑ کر افسانے کی کشش کو کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے۔
اس افسانے کی زبان و بیان بہترین ہیں۔ منظر نگاری اتنی شاندار ہے کہ قطب مینار کے آس پاس کے کھنڈرات، جن کو بہت عرصے پہلے دیکھا تھا، نظروں کے سامنے اس طرح آگئے جیسے
ابھی بھی میں وہیں موجود ہوں۔ یہ افسانہ یقیناً اس ایونٹ کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔
محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو اس بہترین افسانے کے لئے بہت بہت مبارک باد 🌹
٭
آسیہ رئیس خان
محبت کے بیچ سرحدیں اور پھر جدائی کی کہانی۔ اسلوب کی روانی اور چاشنی نے قرأت کا لطف دوبالا کر دیا۔ اختتام میں کسک کی دھیمی آنچ قاری بھی محسوس کرتا ہے، یہ افسانے کی کام یابی ہے۔ کردار بدلے زمانہ بدلا مگر ان کھنڈرات نے عشق کی داستان کا انجام کم و بیش ایک سا دیکھا۔
پرکشش زبان و بیان اور خوبصورت افسانے کے لیے ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو داد اور مبارک باد۔
٭
نصرت شمسی
بہت خوبصورت اور عین موضوع پر لکھا گیا ایک بہترین رومانی افسانہ جس میں سب کچھ ہے۔ترنم اپ کو بہت مبارک باد۔اللہ سلامتی عطا فرمائے
٭
اقبال حسن آزاد
خوب صورت اور رواں اسلوب میں تحریر کردہ ایک عمدہ رومانی افسانہ۔آجکل ایسے واقعات اکثر سننے کو ملتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پیار ہوا اور لڑکا یا لڑکی اپنے معشوق سے ملنے اس کے پاس پہنچ جاتا ہے لیکن پیار کرنے والوں کے درمیان اکثر دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔۔۔ کبھی مذہب کی۔۔۔ کبھی ذات کی۔۔۔ کبھی علاقے کی اور کبھی ملک کی۔
بہر کیف! افسانے کا تانا بانا عمدگی کے ساتھ بنا گیا ہے اور دلچسپی از اول تا آخر موجود رہتی ہے۔
اس ایونٹ سے مطابقت رکھتا ہوا واقعی ایک رومانی افسانہ
٭
فرخندہ ضمیر
عشق کی مدّھم راگنی پر تحریر کردہ افسانہ۔
نئے زمانے کے تقاضوں سوشل میڈیا کے ذریعے عشق کی نئی داستان لکھی جا رہی ہے۔جو سرحدوں سے پرے ہے۔عشق ہے ہی ایسا قوی جزبہ جو تا قیامت قائم رہے گا۔عشق ہمیشہ اندھا ہوتا ہے، جذبات سے بھرپور وہ قاعدے قانون کچھ نہیں دیکھتا لیکن یہ ہی بعد میں عشق کی راہ میں حائل ہوتا ہے، اور ہجر وفراق کے اندھیروں میں یہ محبت کرنے والے تڑپتے رہتے ہیں۔
قطب مینار کے کھنڈرات میں ایسی ہزاروں عشق کی داستانیں رقم ہیں۔ ترنّم جہاں صاحبہ کو اس عشقیہ کہانی کے لئے مبارک باد
٭
محبت پروان چڑھتی ہے چاہیے بیچ میں فاصلے ہوں یا سرحد۔افسانہ گزرے موسم کی تپش میں نئے جوڑے کو دیکھ کر نشاط کو گزرے لمحات یاد آتے ہیں۔وہ بھی تو قمر نیازی کو اسی شدت سے چاہتی تھی۔منیر اور شفو کے پیار کی شروعات سوشل میڈیا کے ذریعے ہوتی ہے اور فاصلوں کو طے کرکے شفو منیر سے ملاقات کرنے آتی ہے۔ایک بہترین افسانہ رواں زبان و بیان، دلکش منظر نگاری لیکن رموز اوقاف کا خیال نہیں رکھا گیا۔اکثر" اور "سے پہلے وقفے کا استعمال کیا گیا ہے۔عشق اندھا سہی لیکن ہوش مند منیر شفو کو واپس جانا کا مشورہ دیتا کہ وہ اس سے ملنے ٹورسٹ ویزا پر آئی تھی۔وہ اسے یقین دلاتا ہے کہ وہ رشتہ طے کرنے کے لیے گھر کے بزرگ کو بھیج دے گا۔سوشل میڈیائی عشق کامیاب نہیں رہتا لیکن جذبہ سچا ہو تو منیر اور شفو جیسی کہانی وجود میں آتی ہے۔ترنم صاحبہ کے اسلوب میں روانی بھی ہے اور ترنم بھی۔افسانے کے بعض جملے بہترین ہیں جن میں تخیل اور تخلیقیت کا امتزاج ملتا ہے۔۔۔ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو مبارک باد اور نیک خواہشات۔۔۔
٭
انجم قدوائی
محبت کے خوبصورت رنگوں میں ڈوبا، درد کے سمندر میں ابھرتا افسانہ بے حد خوبصورت لگا۔عمدہ زبان و بیان ہزاروں بار دہرائی جانے والی کہانی اس منفرد انداز سے لکھی گئی ہے کہ ایک ایک لفظ متاثر کرتا ہے۔ ایک مخصوص ماحول کے پس منظر میں لکھا ہوا یہ افسانہ بہت دنوں تک یاد رہے گا۔ترنم جہاں شبنم کے لئے دعائیں۔
٭
ناصر ضمیر
گورکی نے کہا تھا
"ہم سب پیار کے بھوکے ہیں اور بھوک میں جلی ہوئی روٹی بھی اچھی لگتی ہے "
یہ کہانی کسی بھی صورت میں جلی ہوئی روٹی نہیں ہے ہاں ہم سب پیار کے بھوکے ضرور ہیں شاید اسی لیے ہم کہانیوں میں داستانوں میں پیار ڈھونڈتے ہیں۔
اچھا افسانہ بلکہ ایک اچھا رومانی افسانہ
پڑھنے میں لطف آیا
ترنم جہاں شبنم کو بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات
ایڈمن پینل کو مبارک باد
٭
غیاث الرحمٰن
ایک اچھا رومانی افسانہ ھے۔ پڑھ کر لطف آیا۔ محبت کی دھیمی آنچ میں سلگتے ھوئے جذبات، درد کی لذت بڑھاتے ھوئے خیالات اور پھر یہ پر کشش انداز بیان۔ قاری خود کو راوی کے ساتھ بہتا ھوا محسوس کرتا ھے۔ محبت بھرے دلوں کی، جدا ھوتے ھوئے بےچین دھڑکنوں کو اپنے سینے میں لرزتے ھوئے محسوس کرتاھے۔ اور خود اپنے دل کو آہستہ پگھلتے ھوئے کرب کی لذت سے لطف اندوز ھوتا ھے۔
اس خوب صورت افسانے کےلئے ترنم جہاں شبنم کو بہت بہت مبارک باد اور نیک خواہشات۔
منتظمین بزم کو بھی بہت مبارک باد۔
٭
شہناز فاطمہ
"محبت" کے خمیر میں گندھا افسانہ جسکے ہر لفظ سے محبت پھوٹی پڑ رہی تھی ہر حرف جزبات کا آءینہ بنا ہوا تھا لیکن پتہ یہ چلا کہ ان جزبات سے بھی بڑھ کر اپنے وطن عزیز کی مٹی سے "محبت" ہے اور یہ عظیم جزبہ محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ نے بہت ہی خوبصورتی سے اپنے افسانے میں سمویا ہے جسمیں دل کی بے تاب دھڑکنیں بھی ہیں اور احساسات لزت بھی جہاں پہنچ کر انسان سب کچھ بھول جاتا ہے لیکن منیر کو اسوقت بھی احساس ہے کہ شگفتہ اسوقت اس ملک کی مہمان ہے اور مہمان خدا کی طرح ہوتا اگر اسطرح رک گئی تو گناہ کی مرتکب ہو جائے گی سرحد کی زمیں وہ اپنے پر قابو پاتاہے اور جزبات سے ذیادہ سرزمیں کو اہمیت دیتے ہوئے شگفتہ کو سمجھاتا ہے کہ اسوقت تو تمہیں واپس جانا ہوگا میں بہت جلد تمہیں تمہاری سر زمیں سے باقاعدہ لینے آوں گا بیحد خوبصورت انداز سے لکھا گیا افسانہ دل کی گہرائیوں میں پیوست ہو گیا عنوان بھی بہت زبردست ہے اور محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کا قلم بھی محبت کی چاشنی میں ڈوبا ہوا ہے ایک ایک حرف دل میں پیوست ہو گیا ایک بہترین پیغام دیا ہے اس افسانے نے کے دل اور جزبات سے بڑھ کر اپنے وطن کی مٹی سے محبت اور اسکی عظمت کو بچانا اس لاجواب اور بہترین افسانے کے لئے محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کی خدمت میں بہت داد و تحسین و ستایش کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص مبارکباد پیش کرتی ہوں گر قبول افتد زہے عزو شرف
٭
انیس رشید خان
آج پہلی بار محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کا افسانہ پڑھا۔ بہترین افسانہ ہے۔ یہ افسانہ کہانی در کہانی کی بہترین مثال ہے۔ ایک ہی افسانے میں دو مختلف کہانیاں ایک دوسرے سے متوازی اس طرح چلتی رہتی ہیں کہ قاری کا دل و دماغ دونوں کہانیوں کے انجام و اختتام سے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ افسانے کے آخری حصے میں پہونچتے پہونچتے لاشعوری طور پر محسوس ہونے لگتا ہے کہ موجودہ نسل کی کہانی کا انجام بھی پچھلی نسل کی کہانی کے انجام جیسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس انجام کو کچھ مبہم چھوڑ کر افسانے کی کشش کو کئی گنا بڑھا دیا گیا ہے۔
اس افسانے کی زبان و بیان بہترین ہیں۔ منظر نگاری اتنی شاندار ہے کہ قطب مینار کے آس پاس کے کھنڈرات، جن کو بہت عرصے پہلے دیکھا تھا، نظروں کے سامنے اس طرح آگئے جیسے
ابھی بھی میں وہیں موجود ہوں۔ یہ افسانہ یقیناً اس ایونٹ کے بہترین افسانوں میں سے ایک ہے۔
محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو اس بہترین افسانے کے لئے بہت بہت مبارک باد 🌹
٭
آسیہ رئیس خان
محبت کے بیچ سرحدیں اور پھر جدائی کی کہانی۔ اسلوب کی روانی اور چاشنی نے قرأت کا لطف دوبالا کر دیا۔ اختتام میں کسک کی دھیمی آنچ قاری بھی محسوس کرتا ہے، یہ افسانے کی کام یابی ہے۔ کردار بدلے زمانہ بدلا مگر ان کھنڈرات نے عشق کی داستان کا انجام کم و بیش ایک سا دیکھا۔
پرکشش زبان و بیان اور خوبصورت افسانے کے لیے ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو داد اور مبارک باد۔
٭
نصرت شمسی
بہت خوبصورت اور عین موضوع پر لکھا گیا ایک بہترین رومانی افسانہ جس میں سب کچھ ہے۔ترنم اپ کو بہت مبارک باد۔اللہ سلامتی عطا فرمائے
٭
اقبال حسن آزاد
خوب صورت اور رواں اسلوب میں تحریر کردہ ایک عمدہ رومانی افسانہ۔آجکل ایسے واقعات اکثر سننے کو ملتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر پیار ہوا اور لڑکا یا لڑکی اپنے معشوق سے ملنے اس کے پاس پہنچ جاتا ہے لیکن پیار کرنے والوں کے درمیان اکثر دیواریں کھڑی ہو جاتی ہیں۔۔۔ کبھی مذہب کی۔۔۔ کبھی ذات کی۔۔۔ کبھی علاقے کی اور کبھی ملک کی۔
بہر کیف! افسانے کا تانا بانا عمدگی کے ساتھ بنا گیا ہے اور دلچسپی از اول تا آخر موجود رہتی ہے۔
اس ایونٹ سے مطابقت رکھتا ہوا واقعی ایک رومانی افسانہ
٭
فرخندہ ضمیر
عشق کی مدّھم راگنی پر تحریر کردہ افسانہ۔
نئے زمانے کے تقاضوں سوشل میڈیا کے ذریعے عشق کی نئی داستان لکھی جا رہی ہے۔جو سرحدوں سے پرے ہے۔عشق ہے ہی ایسا قوی جزبہ جو تا قیامت قائم رہے گا۔عشق ہمیشہ اندھا ہوتا ہے، جذبات سے بھرپور وہ قاعدے قانون کچھ نہیں دیکھتا لیکن یہ ہی بعد میں عشق کی راہ میں حائل ہوتا ہے، اور ہجر وفراق کے اندھیروں میں یہ محبت کرنے والے تڑپتے رہتے ہیں۔
قطب مینار کے کھنڈرات میں ایسی ہزاروں عشق کی داستانیں رقم ہیں۔ ترنّم جہاں صاحبہ کو اس عشقیہ کہانی کے لئے مبارک باد
٭
شمع افروز زیدی
افسانہ:گزرے موسم کی تپش مصنفہ:ترنم جہاں شبنم تاثرات:شمع افروز زیدی ترنم کے افسانے نے زہن و دل پر سحر کر دیا بے ساختہ زبان سے واہ نکل گئی افسانے کا لفظ لفظ محبت میں گندھا ہوا - دراصل محبت ایسا الوہی جزبہ ہے جو ہر انسان کے خمیر میں ودیعت کر دیا گیا ہے کسی میں کم کسی میں زیادہ کائنات کے ذرے ذرے میں محبت کی کارفرمائی نظر اتی ہے بس دیکھنے والی آنکھ اور محسوس کرنے والا دل چاہیئے سادگئی بیان زبان کی چاشنی، اسلوب کی روانی و بے ساختگی نے افسانے کے حسن میں اضافہ کیا ہے کہانی میں اہم بات جو مجھے اچھی لگی یہ کہ دو دل محبت کے جزبے سے لبریز ہیں لیکن انہیں خاندانی قدروں کا پاس بھی ہے ساتھ ہی وطن سے محبت انہیں آگے بڑھنے سے روک رہی ہے لڑکی کی چاہت اگر چہ بڑھی ہوئی ہے اور وہ محبت کی تکمیل چاہتی ہے لیکن لڑکا رسان رسان اسے سمجھاتا ہے اور اس کی چاہت کا غلط فائیدہ نہیں اٹھاتا میں سمجھتی ہوں موجودہ دور میں ایسی اصلاحی تحریروں کی بیحد ضرورت ہے رومان کی چاشنی سے لبریز اس کہانی کے لئے ترنم کو بہت بہت مبارکباد ڈھیر ساری داد، دعائیں اور پیار بھی
٭
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
عصر حاضر کی خواتین افسانہ نگاروں میں ترنم جہاں شبنم کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔کچھ عرصے تک وہ ادبی منظر نامے سے غیر حاضر رہیں۔ان کی واپسی بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ہویء ہے۔آجکل انکا رخش قلم مہمیز پر ہے۔بہت اچھے افسانے لکھ رہی ہیں۔
زیر نظر افسانہ ایوینٹ کے موضوع سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔خوبصورت رومانی زبان، رواں دواں بیانیہ، جذبات و احساسات کی دھیمی دھیمی آنچ نے افسانے کے معیار کو بلندی عطا کی ہے کہ موضوع پرانا ہوتے ہوئے بھی نیء آب وتاب کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔
ترنم کو بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات۔
٭
مشتاق احمد نوری
گزرے موسم کی تپش ترنم جہاں شبنم بھی محسوس کررہی ہے اور یہ محبت کی جیت ہے۔
محبت پہلے آہوں سے شروع ہوکر بانہوں تک پہنچتی تھی لیکن شوسل میڈیا نے شرم و حیا کی چادر کھینچ لی ہے اب بے دھڑک بے حجابانہ محبت کا ظہار ہوتا ہے لیکن یہ برقی محبت اصلی محبت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ترنم نے بڑے سلیقے سے دیکھایا ہے کہ جو ابھی والہانہ ایک دوسرے کی بانہوں میں قید تھے انہیں فکر فردا نے نڈھال کردیا جبکہ سچی محبت میں نہ ذات نہ برادری نہ مذہب اور نہ ہی سرحد آڑے آتی ہے لیکن یہ نٸے جوڑے سرحد کو ناقابل عبور بنا کر دراصل اپنی برقی محبت سے اسکیپ کررہے ہیں اور ترنم اسی نکتے پر فوکس کرنا چاہتی ہے کیونکہ راوی کی اپنی زندگی اسی ” اسکیپ “ سے گزری ہے۔
ترنم دراصل یہ بتانا چاہتی ہے کہ آج کے دور کی محبت بس جزوقتی اور وقت گزاری کا ایک ذریعہ ہوکر رہ گٸی ہے اسی لٸے ناپٸیداری اس کا مقدر ہے۔اس نے بڑے سلیقے سے اپنی بات اور وقت کی اس تلخ سچاٸی کو اپنے قاری تک پہونچانے میں کامیاب ہوٸی جس کے لٸے میں اسے مبارکباد پیش کرتا ہوں
٭
اکبرعابد
گزرے موسم کی تپش محبت کے جذبے سے سرشارافسانہ، بے حدخوبصورت انداز میں لکھے گئے افسانے نے دل کی گہرائیوں کو چھو لیا ہے اوریہ بات واضح ہو گئی کہ محبت ایک دوسرے کے اندر بسنے کا نام ہے محبت کی روشنی ازلی وابدی ہوتی ہے یہ جس دل سے پھوٹتی ہے اپنے محبوب کے سارے غم اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اس کی روشنی بے غرض اور سچی ہوتی ہے۔ایک بہترین اور پرتاثر افسانے کے لئے محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔۔۔
٭
افشاں ملک
ترنم جہاں شبنم کی افسانہ نگاری سے کافی پہلے سے واقف ہوں۔ وہ نئی نسل کی ایسی منفرد افسانہ نگار ہیں جن کی مخصوص پہچان سادہ اور اچھی زبان نیز گٹھا ہوا بیانیہ ہے۔ ادھر دوایک سال میں ان کا کوئی افسانہ پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن آج بزم افسانہ میں ان کا پیش کردہ افسانہ ” گزرے موسم کی تپش “ پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔
یہ ایک خوبصورت اور مکمل طور پر ایسا رومانی افسانہ ہے جس میں محبت کے جذبات و احساسات کو مصنفہ نے فنی چابک دستی سے پرویا ہے۔ کہانی در کہانی یعنی محبت کی دوکہانیاں ہیں جو کبھی تو بین بین چلتی محسوس ہوتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے میں ضم ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔افسانہ نگار کی یہ فنی مہارت ہے کہ محبت کی ایک کہانی کا ماضی دوسری کہانی کے حال سے اس طرح پیوست کر دیا کہ نہ وحدت تاثر کمزور پڑا نہ ترسیل و ابلاغ میں کوئی کمی آئی۔۔۔
دو دلوں کی محبت جو سچی بھی تھی اور پاکیزہ بھی ہر بار مٹی کی محبت کے سامنے کمزور پڑ گئی۔۔۔! ملکوں اور سرحدوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔قصور کسی کا بھی نہیں لیکن ہجر سب کامقدر ٹھہرا۔۔۔!
محبت کو موضوع بناکر لکھی گئی اس خوبصورت کہانی کے لیے ترنم جہاں شبنم کو دلی مبارکباد۔
٭
محمد قمر سلیم
گزرے موسم کی تپش رومان سے بھر پور ایک خوبصورت افسانہ جو اس ایونٹ کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے۔ شفو اور منیر، نشاط اور قمر چار کردار، دو زمانے ماضی اور حال، دو کہانیوں، بلکہ اگر یہ کہوں کہ متعدد کہانیاں جو صدیوں پر محیط ہیں، کو ایک مالا میں خوبصورتی سے پرویا ہے۔ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے اور اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے عاشق سے معشوق کا ملن لیکن کبھی مذہب، کبھی سرحدیں، کبھی حالات، کبھی ذات، کبھی برادری تو کبھی دوسری مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں۔ یوں تو افسانے کے تین کرداروں میں محبت کے ساتھ اپنی مٹی سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے لیکن چوتھے کردار میں اس کا فقدان ہے لیکن اس میں، میری نظر میں، سچی محبت کا جذبہ ہے جبھی تو شفو سرحدوں کی فکر کیے بنا میلوں کا سفر طے کرکے اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لیے اپنے عاشق سے ملنے آتی ہے۔ آج کے دور میں یہ اس کا پاگل پن ہے یا جنون ہی ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کی محبت ایک فراڈ ہی ہوتی ہے کیوں کہ افسانے میں بھی ترنم صاحبہ نے بظاہر تو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ منیر خوش ہے لیکن اس طرح شفو کا یہاں رکنے کی ضد کرنا ٹیڑھی کھیر کی مانند ہے۔ نوری بھائی نے بالکل صحیح فرمایا کہ سچی محبت سرحد، ذات، برادری یا مذہب نہیں دیکھتی۔ یہ تو اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ زبان سادہ اور سلیس، رواں دواں ہے۔ منظر نگاری بھی اچھی ہے۔
ترنم شبنم صاحبہ کو بہت بہت مبارکباد
٭
رفیع حیدر انجم
ترنم جہاں شبنم کے کئی افسانے پہلے بھی پڑھ چکا ہوں. انہیں فن افسانہ نگاری کے اسرار و رموز سے پوری واقفیت ہے اور وہ اپنے افسانوں میں انہیں قرینے اور سلیقے سے برتنے کا ہنر بھی جانتی ہیں. محترمہ افشاں ملک صاحبہ نے اس افسانے کے حوالے سے وہ سب کچھ لکھ دیا جو میں کہنا چاہتا تھا.پھر بھی میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ افسانہ رومانی پس منظر میں اپنے وطن کی محبت پر فوکس کرتا ہوا حقیقت پسندی پر مبنی ایک بہترین افسانہ ہے.
٭
فریدہ نثار احمد انصاری
"محبت قربانی چاہتی ہے۔"
"محبت زمان و مکان، فاصلے، مذہب، عمر کچھ نہیں دیکھتی۔"
اس دیوی کے آنکھوں پر کوئی پٹّی نہیں باندھتا بلکہ محبت خود پٹّی باندھ کر خوش ہو جاتی ہے۔
مذکورہ افسانہ اسی محبت کی مٹی سے گوندھا گیا جس میں وطن کی مٹی کی بھی سوندھی سوندھی خوشبو ملا دی گئی۔
ماضی اور حال کے تانے بانے پروتے رواں تحریر میں قاری گم ہو گیا۔
حالاں کہ کہیں کہیں یہ دونوں حالات گڈ مڈ ہوئے کیوں کہ درمیان میں سپیس نہیں دیا ہوا تھا۔
ایک لڑکی اپنا سب کچھ تیاگ کر محبوب کی بانہوں میں کھو جاتی ہے تب وقتی طور پر تو سب اچھا ہی لگتا ہے لیکن جہاں حالات کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے لڑکا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ایسا کیوں??
کیا سوشل میڈیا کی محبت بھی صرف وائی فائی کے شانوں پر سوار سفر کرتی ہے?
٭
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
عصر حاضر کی خواتین افسانہ نگاروں میں ترنم جہاں شبنم کا نام محتاج تعارف نہیں ہے۔کچھ عرصے تک وہ ادبی منظر نامے سے غیر حاضر رہیں۔ان کی واپسی بڑے تزک و احتشام کے ساتھ ہویء ہے۔آجکل انکا رخش قلم مہمیز پر ہے۔بہت اچھے افسانے لکھ رہی ہیں۔
زیر نظر افسانہ ایوینٹ کے موضوع سے پوری طرح مطابقت رکھتا ہے۔خوبصورت رومانی زبان، رواں دواں بیانیہ، جذبات و احساسات کی دھیمی دھیمی آنچ نے افسانے کے معیار کو بلندی عطا کی ہے کہ موضوع پرانا ہوتے ہوئے بھی نیء آب وتاب کے ساتھ متاثر کرتا ہے۔
ترنم کو بہت بہت مبارکباد اور نیک خواہشات۔
٭
مشتاق احمد نوری
گزرے موسم کی تپش ترنم جہاں شبنم بھی محسوس کررہی ہے اور یہ محبت کی جیت ہے۔
محبت پہلے آہوں سے شروع ہوکر بانہوں تک پہنچتی تھی لیکن شوسل میڈیا نے شرم و حیا کی چادر کھینچ لی ہے اب بے دھڑک بے حجابانہ محبت کا ظہار ہوتا ہے لیکن یہ برقی محبت اصلی محبت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ترنم نے بڑے سلیقے سے دیکھایا ہے کہ جو ابھی والہانہ ایک دوسرے کی بانہوں میں قید تھے انہیں فکر فردا نے نڈھال کردیا جبکہ سچی محبت میں نہ ذات نہ برادری نہ مذہب اور نہ ہی سرحد آڑے آتی ہے لیکن یہ نٸے جوڑے سرحد کو ناقابل عبور بنا کر دراصل اپنی برقی محبت سے اسکیپ کررہے ہیں اور ترنم اسی نکتے پر فوکس کرنا چاہتی ہے کیونکہ راوی کی اپنی زندگی اسی ” اسکیپ “ سے گزری ہے۔
ترنم دراصل یہ بتانا چاہتی ہے کہ آج کے دور کی محبت بس جزوقتی اور وقت گزاری کا ایک ذریعہ ہوکر رہ گٸی ہے اسی لٸے ناپٸیداری اس کا مقدر ہے۔اس نے بڑے سلیقے سے اپنی بات اور وقت کی اس تلخ سچاٸی کو اپنے قاری تک پہونچانے میں کامیاب ہوٸی جس کے لٸے میں اسے مبارکباد پیش کرتا ہوں
٭
اکبرعابد
گزرے موسم کی تپش محبت کے جذبے سے سرشارافسانہ، بے حدخوبصورت انداز میں لکھے گئے افسانے نے دل کی گہرائیوں کو چھو لیا ہے اوریہ بات واضح ہو گئی کہ محبت ایک دوسرے کے اندر بسنے کا نام ہے محبت کی روشنی ازلی وابدی ہوتی ہے یہ جس دل سے پھوٹتی ہے اپنے محبوب کے سارے غم اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے اس کی روشنی بے غرض اور سچی ہوتی ہے۔ایک بہترین اور پرتاثر افسانے کے لئے محترمہ ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔۔۔
٭
افشاں ملک
ترنم جہاں شبنم کی افسانہ نگاری سے کافی پہلے سے واقف ہوں۔ وہ نئی نسل کی ایسی منفرد افسانہ نگار ہیں جن کی مخصوص پہچان سادہ اور اچھی زبان نیز گٹھا ہوا بیانیہ ہے۔ ادھر دوایک سال میں ان کا کوئی افسانہ پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا لیکن آج بزم افسانہ میں ان کا پیش کردہ افسانہ ” گزرے موسم کی تپش “ پڑھ کر جی خوش ہوگیا۔
یہ ایک خوبصورت اور مکمل طور پر ایسا رومانی افسانہ ہے جس میں محبت کے جذبات و احساسات کو مصنفہ نے فنی چابک دستی سے پرویا ہے۔ کہانی در کہانی یعنی محبت کی دوکہانیاں ہیں جو کبھی تو بین بین چلتی محسوس ہوتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے میں ضم ہوتی محسوس ہوتی ہیں۔افسانہ نگار کی یہ فنی مہارت ہے کہ محبت کی ایک کہانی کا ماضی دوسری کہانی کے حال سے اس طرح پیوست کر دیا کہ نہ وحدت تاثر کمزور پڑا نہ ترسیل و ابلاغ میں کوئی کمی آئی۔۔۔
دو دلوں کی محبت جو سچی بھی تھی اور پاکیزہ بھی ہر بار مٹی کی محبت کے سامنے کمزور پڑ گئی۔۔۔! ملکوں اور سرحدوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔قصور کسی کا بھی نہیں لیکن ہجر سب کامقدر ٹھہرا۔۔۔!
محبت کو موضوع بناکر لکھی گئی اس خوبصورت کہانی کے لیے ترنم جہاں شبنم کو دلی مبارکباد۔
٭
محمد قمر سلیم
گزرے موسم کی تپش رومان سے بھر پور ایک خوبصورت افسانہ جو اس ایونٹ کے تقاضوں کو پورا کر رہا ہے۔ شفو اور منیر، نشاط اور قمر چار کردار، دو زمانے ماضی اور حال، دو کہانیوں، بلکہ اگر یہ کہوں کہ متعدد کہانیاں جو صدیوں پر محیط ہیں، کو ایک مالا میں خوبصورتی سے پرویا ہے۔ کہتے ہیں محبت اندھی ہوتی ہے اور اس کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے عاشق سے معشوق کا ملن لیکن کبھی مذہب، کبھی سرحدیں، کبھی حالات، کبھی ذات، کبھی برادری تو کبھی دوسری مجبوریاں آڑے آجاتی ہیں۔ یوں تو افسانے کے تین کرداروں میں محبت کے ساتھ اپنی مٹی سے محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہے لیکن چوتھے کردار میں اس کا فقدان ہے لیکن اس میں، میری نظر میں، سچی محبت کا جذبہ ہے جبھی تو شفو سرحدوں کی فکر کیے بنا میلوں کا سفر طے کرکے اپنی محبت کو حاصل کرنے کے لیے اپنے عاشق سے ملنے آتی ہے۔ آج کے دور میں یہ اس کا پاگل پن ہے یا جنون ہی ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ سوشل میڈیا کی محبت ایک فراڈ ہی ہوتی ہے کیوں کہ افسانے میں بھی ترنم صاحبہ نے بظاہر تو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ منیر خوش ہے لیکن اس طرح شفو کا یہاں رکنے کی ضد کرنا ٹیڑھی کھیر کی مانند ہے۔ نوری بھائی نے بالکل صحیح فرمایا کہ سچی محبت سرحد، ذات، برادری یا مذہب نہیں دیکھتی۔ یہ تو اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے۔ زبان سادہ اور سلیس، رواں دواں ہے۔ منظر نگاری بھی اچھی ہے۔
ترنم شبنم صاحبہ کو بہت بہت مبارکباد
٭
رفیع حیدر انجم
ترنم جہاں شبنم کے کئی افسانے پہلے بھی پڑھ چکا ہوں. انہیں فن افسانہ نگاری کے اسرار و رموز سے پوری واقفیت ہے اور وہ اپنے افسانوں میں انہیں قرینے اور سلیقے سے برتنے کا ہنر بھی جانتی ہیں. محترمہ افشاں ملک صاحبہ نے اس افسانے کے حوالے سے وہ سب کچھ لکھ دیا جو میں کہنا چاہتا تھا.پھر بھی میں اتنا ضرور کہنا چاہوں گا کہ یہ افسانہ رومانی پس منظر میں اپنے وطن کی محبت پر فوکس کرتا ہوا حقیقت پسندی پر مبنی ایک بہترین افسانہ ہے.
٭
فریدہ نثار احمد انصاری
"محبت قربانی چاہتی ہے۔"
"محبت زمان و مکان، فاصلے، مذہب، عمر کچھ نہیں دیکھتی۔"
اس دیوی کے آنکھوں پر کوئی پٹّی نہیں باندھتا بلکہ محبت خود پٹّی باندھ کر خوش ہو جاتی ہے۔
مذکورہ افسانہ اسی محبت کی مٹی سے گوندھا گیا جس میں وطن کی مٹی کی بھی سوندھی سوندھی خوشبو ملا دی گئی۔
ماضی اور حال کے تانے بانے پروتے رواں تحریر میں قاری گم ہو گیا۔
حالاں کہ کہیں کہیں یہ دونوں حالات گڈ مڈ ہوئے کیوں کہ درمیان میں سپیس نہیں دیا ہوا تھا۔
ایک لڑکی اپنا سب کچھ تیاگ کر محبوب کی بانہوں میں کھو جاتی ہے تب وقتی طور پر تو سب اچھا ہی لگتا ہے لیکن جہاں حالات کی سنگینی کا احساس ہوتا ہے لڑکا پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ایسا کیوں??
کیا سوشل میڈیا کی محبت بھی صرف وائی فائی کے شانوں پر سوار سفر کرتی ہے?
کیا سرحدیں / حکومتیں حائل ہو جاتی ہیں.?
یا وہ محبت سچی ہوتی پی نہیں جسے کھرے کھوٹے کے میزان میں تولا جائے!
پھر تو یہ محبت سرے سے ہوئی ہی نہیں صرف جذبوں کا ہیجان !
عینی مشاہدے گواہ ہیں کہ دو مختلف ممالک کے مقیم، محبت و شادی کے بندھن میں ماضی میں بندھے اور حال کی کہانی بھی دُہراتے ہیں۔پھر ان کے ملن میں اتنی مشکلیں تو حائل نہیں ہونی چاہئے تھیں۔
دونوں کردار بخوبی واقف تھے کہ مختلف ممالک میں رہتے ہیں، فاصلے، سرحدیں سبھی آئیں گی۔۔پھر بھی آگے بڑھتے رہے اور جب لڑکی آ جاتی ہے پھر اسے اپنانے میں اس قدر سوچ، اتنا تردد کیوں? یعنی یک طرفہ محبت ہی ہوئی!
پھر محبت قربانی کیسے چاہتی ہے?
میم نے اسی بات کو قاری کے آگے رکھا ہے کہ وقتی محبت کچھ نہیں ہوتی۔
ایک خوبصورت افسانے پر دلی مبارکباد و نیک خواہشات۔
٭
محمد علی صدیقی
ایک ناکام محبت
دوسری ناکام ہونے والی محبت
کا نظارہ کرتے ہوئے۔ دونوں ناکامیوں کی وجہ مٹی اور سرحد۔
عمدہ زبان و بیان کے ساتھ تسلسل اور روانی قاری کو باندھے رکھتی ہے۔
"اتیتھی دیوو بھوا" سے منیر کا تعلق ظاہر کرتا ہے کہ منیر ہندستان کا ہے اور شگفتہ کے والدین کا یہاں بہت کچھ کھونے کا غم بتا رہا ہے کہ شگفتہ ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں کہانیوں میں بس یہی فرق ہے کہ پہلی کہانی میں قمر نیازی پاکستان کا تھا جب کہ دوسری کہانی میں شگفتہ پاکستان کی ہے۔ ان دو ممالک کے جو حالات ہیں ان میں ایسی کہانیوں کا جنم لینا عین ممکن ہے۔
منیر کا یہ اعتراف تو ٹھیک ہے کہ ہم مہمان کو اللہ کی رحمت مانتے ہیں لیکن منیر کے منہ سے اس کے وطن کی مٹی کا "اتیتھی دیوو بھوا" کے ساتھ مہمان میں خدا کو دیکھنے کا حوالہ غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔
اور شاید مکان وہ جس میں مکین ہوں اور گھر وہ جو محض چہار دیواری اور چھت ہو۔
ایونٹ میں شمولیت کے لئے فاضل قلم کار کو داد و مبارک باد پیش ہے۔
٭
رخسانہ نازنین
"گزرے موسم کی تپش " جتنا خوبصورت عنوان ہے اتنا ہی خوبصورت افسانہ بھی ہے. ایک درد آشنا دل جو ان کرداروں میں اپنی کہانی تلاش کررہا تھا۔ اس کہانی کا بھی انجام وہی ہونے والا تھا کہ سچی محبت خود غرض نہیں ہوتی۔ خود سے وابستہ رشتوں کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ اس محبت کے مقدر میں جدائی ہی ہوتی ہے۔ سرحدوں کے اِس پار اور اُس پار ایسی ہزاروں کہانیوں کے تڑپتے، سسکتے کرداروں کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرتا بہترین افسانہ دل کو چھو گیا۔ ایک خوبصورت افسانے کی تخلیق اور پہلی بار " بزم افسانہ " میں افسانے کی پیشکش پر مبارکباد اور نیک خواہشات
٭
محمد سراج عظیم
زندگی میں یادوں کا شور اس قدر ہوتا ہے کہ انسان بظاہر سکون کی تلاش میں ویرانوں، کھنڈرات اور سبزہ زاروں کارخ کرتا مگر درون ذات وہ زمانے سے دور ان یادوں کو دوبارہ سے جینے کی خواہش لئے وقت کو گھسیٹ کر لانے کی سعیِ لاحاصل کرتا ہے جسکو وہ سکون کہتا ہے اصل میں وہ زندگی کے اسی گذرے ہنگام وقت سے خود کو محظوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے نتیجتاً ایک تکلیف دہ حقیقت کے درد نہاں سے سابقہ ہوتا ہے جو زخموں کو ہرا کرکے زندگی کے درد کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ شائد اس کو ہی Sadistic Situation or Nature کہتے ہیں۔ یہ افسانہ اسی مخصوص حال کا بیانیہ ہے۔
راوی جو برسوں پہلے اسی طرح کی صورت حال سے گزر چکی ہے آج انھیں یادوں کو تلاشنے ان کھنڈرات میں آئی تھی جو کئی صدیوں سے عشق و محبت کی متعدد لافانی قصوں کے گواہ تھے۔ جنھوں نے کتنے شاہوں اور گداؤں کو اپنے احاطہ میں برداشت کیااور ان کی داستانوں کو ایک انمول خزانے کی طرح اپنے وجود میں دفن کرلیا۔ اتفاق سے راوی اپنی اسی داستان کو جیتی جاگتی صورت میں سائنس و ٹیکنالوجی کی نئی شکل میں دیکھ کر اتنی ہی تیزی اور برق رفتاری سے اپنے ماضی کے واقعات کو رونما ہوتے دیکھ کر سکون محصوص کرتی ہے بظاہر وہ لاتعلق ہے مگر وہ دانستاً اس کی جانب متوجہ ہے کیوں کہ اپنی یادوں کی دل پر ٹپکتی بوندوں کے کرب میں سکون محسوس کرتی ہے۔ بہت خوبصورت، زبان شستہ اور مدھر، ایک خوبصورت اور دل میں ٹیس پیدا کردینے والی رومانی کہانی۔ ترنم کا بیانیہ اور چابکدستی سے ہینڈل کیا پلاٹ، بہترین فضا بندی نے افسانہ کو بلندی پر پہنچا دیا۔ ترنم کے لئے اتنے خوبصورت افسانہ پر دل سے دعائیں اور ڈھیروں مبارکباد
٭
انور مِرزا
موضوع کے اعتبار سے مناسب افسانہ ہے…
زبان و بیان میں سلاست و روانی بھی ہے
ترنم جہاں شبنم صاحبہ
کیلئے پُرخلوص مبارکباد نیک خواہشات
مجھے موسم کی تپش اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ
پورا افسانہ ایک نان اسٹاپ میراتھن ریس کی طرح پیش کیا گیا…
نہ صرف بیانیہ اور مکالمے ساتھ ساتھ چلتے ہیں…
بلکہ کردار اور منظر تو بدل جاتے ہیں…
مگر پیراگراف پر کسی موسم کا اثر نہیں ہوتا!
٭
عرفانہ تزئین شبنم
محبتوں سے لبریز ایک خوبصورت افسانہ جس میں جدائی کی کسک شامل ہے جدائی کا اپنا حسن ہوتا ہے جو زندگی کی آخری سانسوں تک اپنا آپ منواتا ہے اپنی مٹّی کی خاطر محبت کی قربانی دینے والی نشاط بے چین و بے قرار کھنڈرات میں دراصل اپنی ادھوری محبت کی پرچھائیں ڈھونڈتی ہے جہاں اسے شگفتہ اور منیر کی صورت میں اپنا ماضی دکھائی دیتا ہے ادھوری اور ناکام محبتیں وہ دھیمی آنچ ہیں جس میں انسان تا عمر جلتا رہتا ہے خوبصورت اور رواں بیانیہ کے ساتھ محبت کی چاشنی میں ڈوبا افسانہ جس کے لئےترنم جہاں شبنم کو دلی مبارکباد ❤
٭
رضیہ حیدر خان
سب سے پہلے ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو افسانہ ایوینٹ میں شرکت کے لئے مبارکباد۔۔۔
افسانہ ایوینٹ کے موضوع کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا ایک خوبصورت افسانہ مصنفہ نے پیش کیا ہے۔۔بہت عمدہ بیانہ اور بہترین منظر نگاری نے افسانے میں چار چاند لگا دئے۔۔ ترنم جہاں کے بہت سے افسانے پڑھے ہیں۔۔انکے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ طوالت بلکل نہیں ہوتی۔۔کم الفاظ میں خوبصورت انداز سے وہ اپنے افسانے کو اختتام تک لے آتی ہیں۔ جہاں قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ زیر نظر افسانہ بھی مصنفہ کے فن کا ایک نمونہ یے۔۔۔ محبت کی دو داستانوں کو ایک ساتھ بیان کیا ہے جبکہ ایک داستان ماضی کی ہے اور ایک وہ جسکی منظر کشی مصنفہ نے افسانے میں وقفے وقفے سے کی ہے
محبت کی چاشنی سے لبریز زیر نظر افسانے نے بہت متاثر کیا۔۔۔ دو ممالک کے محبت کرنے والے دلوں کی داستانیں جن پر پہلے بھی متعدد کہانیاں لکھیں جا چکی ہیں۔ لیکن ترنم جہاں شبنم کے منفرد انداز میں لکھا افسانہ گزرے موسم کی تپش خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مصنفہ کے لئے بیشمار داااد اور نیک خواہشات منتظمین بزم افسانہ کے کامیاب ایونٹ کے لئے مبارکباد 🌹 💐❤️
٭
نگار عظیم
"گزرے موسم کی تپش"محبت سے لبریز دھیمی دھیمی آنچ میں سلگتا ایک موئثر رومانی افسانہ دو محبتیں دو ملک مٹی کی خوشبو انجام وہی۔۔۔اختتام پر دل میں کسک محسوس ہوئی۔ انداز بیان مناسب زبان سلیس۔ موضوع پر پورا اترتا ایک اچھا افسانہ پڑھنے کو ملا۔ افسانہ نگار کو ڈھیر ساری مبارکباد نیک خواہشات۔
معافی چاہتی ہوں مہمان داری اور مصروفیت کے باعث وقت پر راےء نہیں دے سکی۔ اتنے خوبصورت افسانے پر اظہار نہ کرنا بد دیانتی ہوتی۔ معزرت
٭
ترنم جہاں شبنم
منتظمین و اراکین بزم افسانہ و سلام بن رزاق سر ..
السلام وعلیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔۔
پہلی بار بزم افسانہ کی اس محفل میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے وہ بھی رنگ و بوئے باراں (محبت کے افسانے) کے ساتھ۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے چھوٹے بھائی وسیم عقیل شاہ نے جب اس گروپ میں مدعو کیا تو اس سے پہلے میں اس گروپ سے ناواقف تھی اور کہیں افسانے کو لے کر ایک تشنگی تھی یہاں آ کر اردو افسانہ کے شائقین کی جو محفل اور معیار نظر آیا اس نے طبیعت بحال کر دی۔ مجھے افسوس رہا کہ افسانے پر کام کر رہے اتنے فعال گروپ سے میری رسائی اتنی دیر سے کیوں کرر ہوئی؟ لیکن اللہ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے اور شاید یہی مناسب وقت تھا۔ میں منتظمین بزم افسانہ کی شکر گزار ہوں کہ نے میری ادنیٰ سی کاوش گزرے موسم کی تپش کو اس ایونٹ کے لئے منتخب کیا گیا۔ جس پر قابلِ قدر مبصرین اور ناقدین نے ایونٹ کی مناسبت افسانے کو پسند کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس کے لئے میں منتظمین بزم افسانہ اور ان سبھی مبصرین ناقدین کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں اپنا قیمتیں وقت نکال کر افسانہ پڑھا اور اپنی آراء سے نوازا خاص کر۔۔۔
ایس معشوق احمد صاحب
انجم قدوائی صاحب
ناصر ضمیر صاحب
غیاث الرحمن صاحب
شہناز فاطمہ صاحبہ
ڈاکٹر انیس رشید صاحب
آسیہ رئیس خان صاحبہ
نصرت شمسی صاحبہ
اقبال حسن آزاد صاحب
فرخندہ ضمیر صاحبہ
شمع افروز زیدی صاحبہ
نعیمہ جعفری صاحبہ
مشتاق احمد نوری صاحب
اکبر عابد صاحب
افشاں ملک صاحبہ
قمر سلیم صاحب
رفیع حیدر انجم
فریدہ انصاری صاحبہ
محمد علی صدیقی صاحب
نثار انجم صاحب
محمد علی صدیقی صاحب
رخسانہ نازنین صاحبہ
سراج عظیم صاحب
انور مرزا صاحب
عرفانہ تزئین شبنم صاحبہ
رضیہ حیدر خان صاحبہ
نگار عظیم صاحبہ
اور میں ان تمام لوگوں کی بھی شکر گزار ہوں جو خاموش قاری رہے۔۔۔ رنگ و بوئے باراں کے کامیاب ایونٹ کے لئے منتظمین بزم افسانہ کو دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں اور آئندہ کے لئے دعائیں و نیک خواہشات۔۔۔
ترنم جہاں شبنم
یا وہ محبت سچی ہوتی پی نہیں جسے کھرے کھوٹے کے میزان میں تولا جائے!
پھر تو یہ محبت سرے سے ہوئی ہی نہیں صرف جذبوں کا ہیجان !
عینی مشاہدے گواہ ہیں کہ دو مختلف ممالک کے مقیم، محبت و شادی کے بندھن میں ماضی میں بندھے اور حال کی کہانی بھی دُہراتے ہیں۔پھر ان کے ملن میں اتنی مشکلیں تو حائل نہیں ہونی چاہئے تھیں۔
دونوں کردار بخوبی واقف تھے کہ مختلف ممالک میں رہتے ہیں، فاصلے، سرحدیں سبھی آئیں گی۔۔پھر بھی آگے بڑھتے رہے اور جب لڑکی آ جاتی ہے پھر اسے اپنانے میں اس قدر سوچ، اتنا تردد کیوں? یعنی یک طرفہ محبت ہی ہوئی!
پھر محبت قربانی کیسے چاہتی ہے?
میم نے اسی بات کو قاری کے آگے رکھا ہے کہ وقتی محبت کچھ نہیں ہوتی۔
ایک خوبصورت افسانے پر دلی مبارکباد و نیک خواہشات۔
٭
محمد علی صدیقی
ایک ناکام محبت
دوسری ناکام ہونے والی محبت
کا نظارہ کرتے ہوئے۔ دونوں ناکامیوں کی وجہ مٹی اور سرحد۔
عمدہ زبان و بیان کے ساتھ تسلسل اور روانی قاری کو باندھے رکھتی ہے۔
"اتیتھی دیوو بھوا" سے منیر کا تعلق ظاہر کرتا ہے کہ منیر ہندستان کا ہے اور شگفتہ کے والدین کا یہاں بہت کچھ کھونے کا غم بتا رہا ہے کہ شگفتہ ہندستان سے پاکستان ہجرت کرنے والے خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ دونوں کہانیوں میں بس یہی فرق ہے کہ پہلی کہانی میں قمر نیازی پاکستان کا تھا جب کہ دوسری کہانی میں شگفتہ پاکستان کی ہے۔ ان دو ممالک کے جو حالات ہیں ان میں ایسی کہانیوں کا جنم لینا عین ممکن ہے۔
منیر کا یہ اعتراف تو ٹھیک ہے کہ ہم مہمان کو اللہ کی رحمت مانتے ہیں لیکن منیر کے منہ سے اس کے وطن کی مٹی کا "اتیتھی دیوو بھوا" کے ساتھ مہمان میں خدا کو دیکھنے کا حوالہ غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔
اور شاید مکان وہ جس میں مکین ہوں اور گھر وہ جو محض چہار دیواری اور چھت ہو۔
ایونٹ میں شمولیت کے لئے فاضل قلم کار کو داد و مبارک باد پیش ہے۔
٭
رخسانہ نازنین
"گزرے موسم کی تپش " جتنا خوبصورت عنوان ہے اتنا ہی خوبصورت افسانہ بھی ہے. ایک درد آشنا دل جو ان کرداروں میں اپنی کہانی تلاش کررہا تھا۔ اس کہانی کا بھی انجام وہی ہونے والا تھا کہ سچی محبت خود غرض نہیں ہوتی۔ خود سے وابستہ رشتوں کو دھوکہ نہیں دے سکتی۔ اس محبت کے مقدر میں جدائی ہی ہوتی ہے۔ سرحدوں کے اِس پار اور اُس پار ایسی ہزاروں کہانیوں کے تڑپتے، سسکتے کرداروں کے جذبات واحساسات کی ترجمانی کرتا بہترین افسانہ دل کو چھو گیا۔ ایک خوبصورت افسانے کی تخلیق اور پہلی بار " بزم افسانہ " میں افسانے کی پیشکش پر مبارکباد اور نیک خواہشات
٭
محمد سراج عظیم
زندگی میں یادوں کا شور اس قدر ہوتا ہے کہ انسان بظاہر سکون کی تلاش میں ویرانوں، کھنڈرات اور سبزہ زاروں کارخ کرتا مگر درون ذات وہ زمانے سے دور ان یادوں کو دوبارہ سے جینے کی خواہش لئے وقت کو گھسیٹ کر لانے کی سعیِ لاحاصل کرتا ہے جسکو وہ سکون کہتا ہے اصل میں وہ زندگی کے اسی گذرے ہنگام وقت سے خود کو محظوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے نتیجتاً ایک تکلیف دہ حقیقت کے درد نہاں سے سابقہ ہوتا ہے جو زخموں کو ہرا کرکے زندگی کے درد کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ شائد اس کو ہی Sadistic Situation or Nature کہتے ہیں۔ یہ افسانہ اسی مخصوص حال کا بیانیہ ہے۔
راوی جو برسوں پہلے اسی طرح کی صورت حال سے گزر چکی ہے آج انھیں یادوں کو تلاشنے ان کھنڈرات میں آئی تھی جو کئی صدیوں سے عشق و محبت کی متعدد لافانی قصوں کے گواہ تھے۔ جنھوں نے کتنے شاہوں اور گداؤں کو اپنے احاطہ میں برداشت کیااور ان کی داستانوں کو ایک انمول خزانے کی طرح اپنے وجود میں دفن کرلیا۔ اتفاق سے راوی اپنی اسی داستان کو جیتی جاگتی صورت میں سائنس و ٹیکنالوجی کی نئی شکل میں دیکھ کر اتنی ہی تیزی اور برق رفتاری سے اپنے ماضی کے واقعات کو رونما ہوتے دیکھ کر سکون محصوص کرتی ہے بظاہر وہ لاتعلق ہے مگر وہ دانستاً اس کی جانب متوجہ ہے کیوں کہ اپنی یادوں کی دل پر ٹپکتی بوندوں کے کرب میں سکون محسوس کرتی ہے۔ بہت خوبصورت، زبان شستہ اور مدھر، ایک خوبصورت اور دل میں ٹیس پیدا کردینے والی رومانی کہانی۔ ترنم کا بیانیہ اور چابکدستی سے ہینڈل کیا پلاٹ، بہترین فضا بندی نے افسانہ کو بلندی پر پہنچا دیا۔ ترنم کے لئے اتنے خوبصورت افسانہ پر دل سے دعائیں اور ڈھیروں مبارکباد
٭
انور مِرزا
موضوع کے اعتبار سے مناسب افسانہ ہے…
زبان و بیان میں سلاست و روانی بھی ہے
ترنم جہاں شبنم صاحبہ
کیلئے پُرخلوص مبارکباد نیک خواہشات
مجھے موسم کی تپش اس لئے بھی محسوس ہوئی کہ
پورا افسانہ ایک نان اسٹاپ میراتھن ریس کی طرح پیش کیا گیا…
نہ صرف بیانیہ اور مکالمے ساتھ ساتھ چلتے ہیں…
بلکہ کردار اور منظر تو بدل جاتے ہیں…
مگر پیراگراف پر کسی موسم کا اثر نہیں ہوتا!
٭
عرفانہ تزئین شبنم
محبتوں سے لبریز ایک خوبصورت افسانہ جس میں جدائی کی کسک شامل ہے جدائی کا اپنا حسن ہوتا ہے جو زندگی کی آخری سانسوں تک اپنا آپ منواتا ہے اپنی مٹّی کی خاطر محبت کی قربانی دینے والی نشاط بے چین و بے قرار کھنڈرات میں دراصل اپنی ادھوری محبت کی پرچھائیں ڈھونڈتی ہے جہاں اسے شگفتہ اور منیر کی صورت میں اپنا ماضی دکھائی دیتا ہے ادھوری اور ناکام محبتیں وہ دھیمی آنچ ہیں جس میں انسان تا عمر جلتا رہتا ہے خوبصورت اور رواں بیانیہ کے ساتھ محبت کی چاشنی میں ڈوبا افسانہ جس کے لئےترنم جہاں شبنم کو دلی مبارکباد ❤
٭
رضیہ حیدر خان
سب سے پہلے ترنم جہاں شبنم صاحبہ کو افسانہ ایوینٹ میں شرکت کے لئے مبارکباد۔۔۔
افسانہ ایوینٹ کے موضوع کے تقاضوں کو پورا کرتا ہوا ایک خوبصورت افسانہ مصنفہ نے پیش کیا ہے۔۔بہت عمدہ بیانہ اور بہترین منظر نگاری نے افسانے میں چار چاند لگا دئے۔۔ ترنم جہاں کے بہت سے افسانے پڑھے ہیں۔۔انکے افسانوں کی خاص بات یہ ہے کہ طوالت بلکل نہیں ہوتی۔۔کم الفاظ میں خوبصورت انداز سے وہ اپنے افسانے کو اختتام تک لے آتی ہیں۔ جہاں قاری متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ پاتا۔ زیر نظر افسانہ بھی مصنفہ کے فن کا ایک نمونہ یے۔۔۔ محبت کی دو داستانوں کو ایک ساتھ بیان کیا ہے جبکہ ایک داستان ماضی کی ہے اور ایک وہ جسکی منظر کشی مصنفہ نے افسانے میں وقفے وقفے سے کی ہے
محبت کی چاشنی سے لبریز زیر نظر افسانے نے بہت متاثر کیا۔۔۔ دو ممالک کے محبت کرنے والے دلوں کی داستانیں جن پر پہلے بھی متعدد کہانیاں لکھیں جا چکی ہیں۔ لیکن ترنم جہاں شبنم کے منفرد انداز میں لکھا افسانہ گزرے موسم کی تپش خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مصنفہ کے لئے بیشمار داااد اور نیک خواہشات منتظمین بزم افسانہ کے کامیاب ایونٹ کے لئے مبارکباد 🌹 💐❤️
٭
نگار عظیم
"گزرے موسم کی تپش"محبت سے لبریز دھیمی دھیمی آنچ میں سلگتا ایک موئثر رومانی افسانہ دو محبتیں دو ملک مٹی کی خوشبو انجام وہی۔۔۔اختتام پر دل میں کسک محسوس ہوئی۔ انداز بیان مناسب زبان سلیس۔ موضوع پر پورا اترتا ایک اچھا افسانہ پڑھنے کو ملا۔ افسانہ نگار کو ڈھیر ساری مبارکباد نیک خواہشات۔
معافی چاہتی ہوں مہمان داری اور مصروفیت کے باعث وقت پر راےء نہیں دے سکی۔ اتنے خوبصورت افسانے پر اظہار نہ کرنا بد دیانتی ہوتی۔ معزرت
٭
ترنم جہاں شبنم
منتظمین و اراکین بزم افسانہ و سلام بن رزاق سر ..
السلام وعلیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ۔۔
پہلی بار بزم افسانہ کی اس محفل میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے وہ بھی رنگ و بوئے باراں (محبت کے افسانے) کے ساتھ۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے چھوٹے بھائی وسیم عقیل شاہ نے جب اس گروپ میں مدعو کیا تو اس سے پہلے میں اس گروپ سے ناواقف تھی اور کہیں افسانے کو لے کر ایک تشنگی تھی یہاں آ کر اردو افسانہ کے شائقین کی جو محفل اور معیار نظر آیا اس نے طبیعت بحال کر دی۔ مجھے افسوس رہا کہ افسانے پر کام کر رہے اتنے فعال گروپ سے میری رسائی اتنی دیر سے کیوں کرر ہوئی؟ لیکن اللہ کی طرف سے ہر کام کا ایک وقت مقرر ہے اور شاید یہی مناسب وقت تھا۔ میں منتظمین بزم افسانہ کی شکر گزار ہوں کہ نے میری ادنیٰ سی کاوش گزرے موسم کی تپش کو اس ایونٹ کے لئے منتخب کیا گیا۔ جس پر قابلِ قدر مبصرین اور ناقدین نے ایونٹ کی مناسبت افسانے کو پسند کرتے ہوئے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور میری حوصلہ افزائی فرمائی۔ اس کے لئے میں منتظمین بزم افسانہ اور ان سبھی مبصرین ناقدین کا شکریہ ادا کرتی ہوں جنہوں اپنا قیمتیں وقت نکال کر افسانہ پڑھا اور اپنی آراء سے نوازا خاص کر۔۔۔
ایس معشوق احمد صاحب
انجم قدوائی صاحب
ناصر ضمیر صاحب
غیاث الرحمن صاحب
شہناز فاطمہ صاحبہ
ڈاکٹر انیس رشید صاحب
آسیہ رئیس خان صاحبہ
نصرت شمسی صاحبہ
اقبال حسن آزاد صاحب
فرخندہ ضمیر صاحبہ
شمع افروز زیدی صاحبہ
نعیمہ جعفری صاحبہ
مشتاق احمد نوری صاحب
اکبر عابد صاحب
افشاں ملک صاحبہ
قمر سلیم صاحب
رفیع حیدر انجم
فریدہ انصاری صاحبہ
محمد علی صدیقی صاحب
نثار انجم صاحب
محمد علی صدیقی صاحب
رخسانہ نازنین صاحبہ
سراج عظیم صاحب
انور مرزا صاحب
عرفانہ تزئین شبنم صاحبہ
رضیہ حیدر خان صاحبہ
نگار عظیم صاحبہ
اور میں ان تمام لوگوں کی بھی شکر گزار ہوں جو خاموش قاری رہے۔۔۔ رنگ و بوئے باراں کے کامیاب ایونٹ کے لئے منتظمین بزم افسانہ کو دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں اور آئندہ کے لئے دعائیں و نیک خواہشات۔۔۔
ترنم جہاں شبنم
0 Comments