بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 11
ناقابلِ اعتراف
شاداب رشید
پہلا حصہ : ناقابلِ یقینمیں نے سنتے ہی انکار کردیا۔ ’’نا، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ابھی تو اس نے سیکنڈ ایئر میں داخلہ لیا ہے۔‘‘
’’مگر یہ سچ ہے بھائی!‘‘ جنید اپنی بات پر اڑا ہوا تھا۔
’’کچھ بھی ہو، میں یقین نہیں کرسکتا۔ ابھی عمر ہی کیا ہے اس کی؟ ‘‘ پتا نہیں کیوں میرا دل اس سچ کو ماننے سے انکار کررہا تھا۔
’’دیکھ بھائی! تیرے ’نا‘ بولنے سے اس کی زندگی پھر سے آباد ہونے سے تو رہی۔ پھر توکیوں ضد پر اڑا ہوا ہے؟‘‘ جنید اب اس بحث سے اُکتا گیا تھا۔
متوسط قد اور سانولی سی رنگت والی اس لڑکی نے کالج میں داخل ہوتے ہی میرے دل میں جگہ بنا لی تھی۔ سب سے خاص بات اُس کی سادگی تھی جو اب کالج کی لڑکیوں میں ڈھونڈے سے نہیں ملتی۔ کالج کے گیٹ میں داخل ہونے سے کلاس روم میں آنے تک مجال ہے جو وہ اپنی نظر اُٹھا کر کسی کی طرف دیکھ بھی لے۔ ورنہ آج کل تو لڑکیاں اِس انداز میں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرتی ہیں کہ شرم سے آپ کی نظر جھک جائیں۔ چلتے وقت اگر کوئی مرد سامنے سے آجائے تو مجال ہے جو کترا کے ایک طرف ہوجائے۔ تیور ایسے ہوتے ہیں کہ ہم تو ایسے ہی چلیں گے آپ کو کترا کر نکلنا ہو تو نکل جائیے۔ مجبوراً آپ ہی کو کترا نا پڑتا ہے اور اُس پر طرہ یہ کہ اگر تھوڑا سا کترانے میں تاخیر ہوجائے تو پھر خدا ہی بچائے اُن جناب کو۔
اکثر میں اپنے دوستوں کو آج کل کی لڑکیوں میں آئے ان بدلاؤ کے بارے میں بتاتا تھاجس پر وہ سب میرا مذاق بھی اُڑایا کرتے کہ میں بابا آدم کے زمانے جیتا ہوں، آج کل لڑکے لڑکیاں برابر ہوچکے ہیں، اب وہ دن گئے جب لڑکیاں واقعی پردہ کیا کرتی تھیں۔وہ مجھے ہمیشہ زمانے کے ساتھ چلنے کا طعنہ کستے۔
آج کے زمانے میں رہتے ہوئے بھی میں بہت پیچھے تھا۔
بڑے بڑے کالج کی چھوٹے چھوٹے کپڑے پہننے والی لڑکیاں مجھے بھی اچھی لگتی ہیں لیکن بیوی کا تصور آتے ہی، دماغ میں سادگی سے بھری، کم بولنے والی، میک اَپ پر زیادہ پیسے نہ برباد کرنے اور برقع اوڑھنے والی لڑکی، آجاتی ہے۔مجھے بھی احساس ہونے لگا تھا کہ جیسی بیوی کا میں تصور کیا کرتا ہوں وہ مجھے بیسویں صدی کے افسانوں میں ہی مل سکتی ہے، اصل زندگی میں تو اب اِس کا تصور ہی مضحکہ خیز ہے۔ آہستہ آہستہ مجھ پر بھی اپنے دوستوں کا اثر ہونے لگا، مجھے بھی لگنے لگا کہ واقعی کل یُگ آگیا ہے۔
بچپن ہی سے میرا دل پڑھائی میں نہیں لگتاتھا، جیسے تیسے دسویں پاس تو ہوگیا لیکن کالج کی کتابوں کے سائز دیکھتے ہی پسینہ چھوٹنے لگتا۔ جلد ہی گھ والوں نے احساس دلا دیا کہ بہت تیر مار لیے اب چپ چاپ خاندانی دھندہ سنبھال لو،مگر اتنی کم عمر میں کاروبار میں دل لگانا مشکل تھا۔ یار دوست جیسے تیسے کالج میں داخلہ لے چکے تھے۔ دوستوں سے کالج کے بارے میں کافی کچھ سن رکھا تھا۔کالج کے بغل کے کارخانے میں ہمارے کاروبار کا مال تیار ہوا کرتاتھا۔ مال چیک کرنےکے بہانے میں کالج بھی گھوم لیا کرتا۔ دوستوں کے ساتھ گپ شپ لڑانا، لڑکیاں چھیڑنا، فلمیں دیکھنا سب ہوجاتا تھا۔ زندگی معمول پر تھی بس زندگی کو مکمل کرنے کے لیے ایک ساتھی کی کمی تھی۔ کالج میں بہت سی لڑکیاں میری دوست تھیں۔ مگرنوشین کو دیکھتے ہی لگا کہ ہو نہ ہو یہی وہ لڑکی ہے جو میری شریکِ حیات بنے گی۔
پچھلے دو ہفتوں سے میں برابر اُس پر نظر رکھے ہوئے تھا مگر مجال ہے جو کبھی اُس نے نظر اُٹھا کر مجھے دیکھا ہو۔ مجھے کیا، وہ تو کبھی کسی کو بھی نظر اُٹھا کر نہیں دیکھتی تھی۔جن خوبیوں کا تصور میں کیا کرتا تھا وہ سب نوشین میں موجود تھیں۔
جب میں جنید کو نوشین کی اس ناقابلِ یقین خاصیت کے بارے میں بتانے لگا تو حیران ہونے کے برعکس اُس نے مجھے جو بات بتائی وہ میرے لیے ناقابلِ برداشت تھی۔
’’اس کا طلاق ہوچکا ہے...‘‘جنید کے یہ الفاظ اب بھی میرے کانوں میں گونج رہے تھے۔
جنید سے بعد میں ساری تفصیل بھی پتہ چلی کہ نوشین اُسی کے محلے میں رہتی ہے۔ اسی گرمی کی چھٹیوں میں اس کی شادی ہوئی تھی۔ ابھی چند مہینے بھی نہیں گزرے تھے کہ شوہر نے طلاق دے دیا۔ اِن دنوں تین طلاق کا معاملہ کافی گرم تھا۔ ہرمسلک کا مولوی اپنی اپنی دلیلیں دے رہا تھا۔ کوئی ایک ہی بار میں تین طلاق کو جائز ٹھہرا رہا تھا تو کوئی ناجائز۔ نوشین کا معاملہ بھی اسی طرح کا تھا۔ اُس کے شوہر نے بھی ایک دن غصّے میں کھڑے کھڑے اُسے تین طلاق دے دیا تھا۔
پتا نہیں ہم کب لڑکیوں کے پوری طرح سے باشعور ہونے کا انتظار کرنا سیکھیں گے۔ آج بھی نوشین کے گھر والوں کی طرح نہ جانے کتنے خاندان ہیں جو لڑکی کو بوجھ سمجھتے ہیں، اُس کی شادی اُن کے لیے ایک مسئلہ ہوتا ہے جس سے وہ جلد از جلد چھٹکارا چاہتے ہیں۔ نوشین کے گھر والوں نے بھی یہی کیا، وہ یہ بھی نہیں سمجھ سکے کہ جس لڑکی نے ابھی ڈھنگ سے دنیا بھی نہیں دیکھی اس جلد بازی سے اُس کی دنیا ہی اُجڑ جائے گی۔
خیر نوشین کے گھر والوں نے جب اس معاملےکی شکایت پولیس سے کی تو اُس نے اپنے ہاتھ اُٹھا دیے، کہا یہ آپ کی شریعت کا معاملہ ہے ہم اس میں کچھ نہیں کرسکتے۔ اور جب اِس مسئلے کو مسلم جماعتوں کے ذریعے سلجھانے کی کوشش کی گئی تو مسئلہ سلجھانے کے بجائے وہ آپس ہی میں لڑپڑے تھے۔
اب یہ طلاق جائز ہے یا ناجائز اِس سے کیا فرق پڑتا ہے نوشین پر تو سماج نے مطلقّہ ہونے کا ٹھپّہ لگا ہی دیا ہے۔ اِس طریقے کو جائز اور ناجائز کے ترازو میں تول کر کیا مذہب کے یہ ٹھیکیدار اب اُس پر لگے ہوئے داغ کو دھو سکیں گے؟ شاید نہیں۔ کوئی نہیں دھوسکتا۔ میں بھی اگر اپنے گھر والوں سے اس سے شادی کرنے کی خواہش ظاہر کروں تووہ بھی اِسے طلاق شدہ ہی کہیں گے۔
بہرکیف میں نے اپنا من بنالیا تھا، شادی تو میں اُسی سے کروں گا۔ میں نوشین سے دوستی کرنے کا موقع ڈھونڈنے لگا۔ شروع میں لگا نوشین سے دوستی کرنا اِتنا مشکل نہ ہوگاکیونکہ اُس کی کلاس کی کافی لڑکیاں میری دوست تھیں چنانچہ جلد ہی نوشین سے سلام دعا بھی ہوگئی۔ لیکن مسئلہ تو اب شروع ہوا تھا، اُس کی خوبیاں ہی میرے راستے کا پتھر بننے لگیں۔مگر میری لگن دیکھ کر میرے سارے دوستوں نے اُن پتھروں کو چننے کا خودبیڑہ اُٹھایا۔ بڑی جدوجہد کے بعد ہماری دوستی تو ہوگئی پر وہ ہمیشہ بجھی بجھی سی رہتی۔ کہیں گھومنے یا فلم دیکھنے کی بات تو دور کالج ختم ہونے کے بعد کچھ وقت کیمپس میں گزر جائے وہی بہت ہوتا۔نہ جانے کیوں ہم دوستوں کے بیچ ہوتے ہوئے بھی وہ ہم میں نہ ہوتی۔
جلد ہی مجھے اس بات کا احساس ہوگیا کہ بھلے ہی میں نوشین سے بات تو کرنے لگا ہوں پر شادی کے لیے سیدھے سیدھے پوچھنا میرے بس میں نہیں ہے۔جیسے تیسے یہ بات گھر والوں کے سامنے رکھنی ہی پڑی۔ بڑی ہائے توبہ مچی، مگر میری ضد کے آگے میرے گھر والوں نے اپنے گھٹنے ٹیک دیے۔
’’مجھے قبول ہے، قبول ہے، قبول ہے۔‘‘ کہتے ہوئے یقین کرنا مشکل ہورہا تھا کہ واقعی میری شادی ہورہی اور وہ بھی میری خوابوں کی ملکہ کے ساتھ۔ بہت کم خوش نصیب ایسے ہوتے ہیں جن کے خواب سچ ہوجاتے ہیں۔
حالانکہ جب پہلی بار رشتہ بھیجا گیا تھا تو نوشین کے گھر والوں نے منع کردیا تھا، وہ اتنی جلدی اپنی بیٹی کی دوسری شادی نہیں کرنا چاہتے تھے۔ میرے گھر والوں نے لڑکی والوں کا سارا غصّہ مجھ پر نکالا۔ گھر والوں کی پھٹکار سے زیادہ ملال رشتہ ٹھکرائے جانے کا تھا۔مگراچانک ہی کچھ ہفتوں بعد سامنے سے ہی رشتہ آگیا۔ اب باری میرے گھر والوں کی تھی لیکن میرا منہ دیکھ کر جلد ہی ہمارا منہ میٹھا کر دیا گیا۔
چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کو قابو میں کرتے ہوئے میں اپنے کمرے کی جانب بڑھ رہا تھا جہاں نوشین سر اپا حسن بنی بیٹھی تھی۔
دوسرا حصہ : ناقابلِ برداشت
خوشبو بھرے اس ماحول میں اب مجھے وحشت سی ہونے لگی تھی۔ گلاب کی پنکھڑیاں مانو کانٹوں میں تبدیل ہوگئی ہوں۔
اسے دوہری خوشی کہوں یا عذابِ الہٰی! خوش قسمتی کہوں یا بدقمستی !
خوش قسمت شاید اِس لیے کہ مطلقہ ہوتے ہوئے بھی ایک کنوارے لڑکے سے شادی ہوگئی یا بد قسمت اِس لیے کہ سال بھر کے اندر ہی میں اپنی دوسری سہاگ کی سیج پر بنی سنوری بیٹھی ہوں۔
کالج کے پہلے سال میں قدم رکھتے ہی گھر اور محلے والوں کی نظریں مجھ پر گڑسی گئیں۔ کالج آنے جانے کے اوقات تولے جانے لگے۔ ہینڈ بیگ، برقعے اور موبائیل فون چیک کیے جاتے۔ سہیلیوں کے آنے جانے کی وجوہات سارے خاندان والوں کوفرداً فرداً بتانا پڑتی، مانو میں نے کالج نہیں کسی رنڈی خانے میں داخلہ لے لیا ہو۔ ہمیشہ شک کی نظروں سے دیکھا جاتا۔ اتفاقاً گھر کے سامنے پہنچتے ہی کوئی لڑکا میرے پاس سے گزر جائے تو پچاسوں سوال کیے جاتے۔
مجھے آج بھی یاد ہے جب کاشف میاں کے گھر سے رشتہ آیا تھا تومیری رائے پوچھنے کے بجائے، مجھے خوب پیٹا گیا۔ وجہ کیا تھی یہ تو مجھے شادی کے بعد پتا چلی۔ کاشف میاں کالج کے پاس ہی کسی دفتر میں ملازم تھے۔ دوپہر کے کھانے کے وقت ایک بار مجھ پر نظر پڑگئی، تب ہی سے وہ روز میرا پیچھا کیا کرتے۔ مجال ہے جو کبھی میری آنکھ بھی اُن سے ملی ہو۔ میں نے تو پہلی بار اُنہیں تب دیکھا جب اُنہوں نے میرا گھونگھٹ اُٹھایا تھا۔ مگر میرے گھر والوں کو یہ شک تھا کہ میں نے ہی اُنہیں شہہ دی ہے، تبھی تو کالج سے پیچھا کرتے کرتے وہ گھر تک آن پہنچے۔
میرے نا چاہتے ہوئے بھی میری پڑھائی چھڑوا کر شادی کرادی گئی۔ لڑکا دیکھنا تو دور کی بات اِس موڈرن ایج میں مجھے لڑکے کی تصویر دِکھانا بھی گوارا نہ سمجھا گیا۔ اِس زبردستی کی شادی کے متعلق سوچ سوچ کر ہی دل بیٹھ جاتا تھا۔ ہائے، پتا نہیں وہ دِکھنے میں کیسے ہوں گے، کیسا خاندان ہوگا، کیا شادی کے بعد بھی پڑھائی جاری رکھنے کو ملے گی یا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باورچی خانے کی زینت بن جاؤں گی وغیرہ وغیرہ...
مگر سسُرال میں پہلی صبح کے آغاز نے میرے سارے خوف کر رفع کردیا۔شوہر کی خوش اخلاقی اور سارے خاندان کی اپنائیت دیکھ دیکھ کر میں خوشی سے پاگل ہوئی جارہی تھی۔ ساس نے تو باورچی خانے میں جانے سے صاف منع کردیا، پورے گھر میں اعلان کردیا گیا کہ جب تک دلہن کی مہندی کا رنگ نہ اُڑ جائے اُس کے پاؤں زمین پر بھی نہ پڑنے پائیں۔ خوشی کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی ہونے لگا کہ چلو اب آگے پڑھنے کو ملے یا نہ ملے زندگی تو سکھ چین سے گزر ہی جائے گی۔
مگر حالات ہمیشہ ایک جیسے کبھی نہیں رہتے۔ وقت کا پہیہ کبھی نہیں رُکتا، سیکنڈ اور گھنٹے کے کانٹوں کی طرح دکھ اور سکھ وقت بہ وقت بدلتے رہتے ہیں۔ حالات نے بھی پلٹا کھایا، کچھ ہی دنوں میں بات بات پر بلائیں لینی والی ساس کو اب میرے چھوٹے سے چھوٹے کام میں بھی نقص نظر آنے لگا تھا۔
صبح اُٹھنے میں دیر ہوئی نہیں کہ گھر سر پر اُٹھالیا جاتا، چائے زیادہ کڑک پک جائے تو گیس برباد کرنے کے طعنے کسے جاتے، کام والی کے نہ آنے پر کپڑے دھوتے وقت ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنے کی شکایت کی جاتی، مختصراً راہِ نجات کے سارے دروازے بند تھے۔
بس ایک کاشف میاں کا ہی آسرا رہ گیا تھا۔وہ بہت زیادہ رومانی تو نہ تھے مگر دل بہلانے کے گُر جانتے تھے۔ کبھی کہیں گھمانے لے جاتے تو میری ہر فرمائش پوری کی جاتی۔ کام سے لوٹتے وقت چاکلیٹ، آئس کریم اور جلیبیوں کی فرمائش کبھی درگزر نہیں کی جاتی تھی۔ رات سونے سے پہلے اور صبح اُٹھنے کے بعد کے کچھ منٹ اُن کے ساتھ گزار کر یوں لگتا تھا جیسے زندگی مکمل ہوگئی ہو اور راہِ نجات کے سارے راستے اُن کی آغوش میں آکر ختم ہوگئے ہوں۔
ساسو ماں سے بھی کچھ ڈھکا چھپانہ تھا۔ ہمارے سارے ناز نخروں کی فکر اُنھیں تھی۔ بس ایک بار ہنی مون پر جانے کی فرمائش کرنے کا جرم ہی تھا جس کی سزا میں مجھ پر ’مطلقّہ‘ کا ٹھپّہ لگا دیا گیا۔
’’کمال کی لڑکی ہے! زبان تو دیکھو چھوری کی!! کتنی بے شرمی سے ’ہنی مون پر ‘ جانے کی فرمائش کررہی ہے!!! ارے ہمارے خاندان کی لڑکیاں تو گھر سے باہر بھی نکلتی ہیں تو شوہر سے دو قدم پیچھے ہی چلتی ہیں۔ اور یہ ناس پیٹی شوہر کے ساتھ ’ہنی مون‘ پرجانے کی فرمائش کررہی ہے۔‘‘
’’آج کے زمانے میں تو سبھی جاتے ہیں امّی۔ شادی ہوتے ہی کسی ’ہِل اسٹیشن‘ پر جانے کا تو چلن اب ہر طبقے میں آگیا ہے۔‘‘میں نے اپنا دفع کیا۔
’’لو کر لو بات، اب سسُری ’ہنی مون‘ کو ہمارے ریتی رواج سے جوڑ رہی ہے!‘‘
میں نے خاموش ہوجانے میں ہی عافیت جانی۔ مگر چنگاری تو لگ ہی چکی تھی۔ بس ہوا چلنی باقی تھی اور یہ کام نند سے بہتر اور کون کرسکتا تھا۔ کاشف میاں کے لوٹتے ہی رائی کوپہاڑ بناکر پیش کیا گیا۔ پتا نہیں کیا پٹی پڑھائی گئی تھی جو کاشف میاں کا پارہ ساتویں آسمان پر تھا۔ میں نے سمجھانے کی لاکھ کوشش کی مگر وہ تو ایسے بپھرے ہوئے تھےکہ کسی دلیل پر کان دھرنے کو تیار نہ تھے۔
بس وہ ایک دن تھا جس کے بعد سے کاشف میاں تو جیسے بات بات پر کاٹنے دوڑ پڑتے۔ پیار بھری بات ہو یا کوئی چھوٹی موٹی فرمائش، بس ہوگئی مصیبت۔ سارے میکے کو گالیوں سے نوازدیتے۔ جسے منزلِ مقصود سمجھا تھا اب وہ کھائی بن چکی تھی۔ پتہ نہیں اُن میں اچانک اتنی تبدیلی کیسے آگئی۔ صبر کا مادّہ لبریز ہونے پر میں بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتی۔
میںنہیں جانتی تھی کہ میرا اُن کی باتوں کو کاٹنا او ر ساس اور نند کی مخالفت کرنا اتنا مہنگا پڑسکتا ہے۔ ایک دن پورے گھر کے سامنے کاشف میاں وہ لفظ، کہتے ہیں جسے کہنے سے ساتوں آسمان تک دہل جاتے ہیں، کڑکتی آواز کے ساتھ ایک ہی سانس میں بول گئے۔ وہ ایک لفظ جو تین بار کہنا کسی مرد کے لیے تو بہت آسان ہوتا ہے لیکن کسی عورت کے لیے اُسے سننا اُتنا ہی اذیت ناک۔ پتہ نہیں اوپرایک دو یا ساتوں آسمان دہلےیا نہیں مگر میرے خاندان کی تین پیڑھیاں ضرور لرز گئیں۔
طلاق کے بعد میکے میں دل ہی نہ لگتا تھا۔ گھروالوں سے منتیں کرکے دوبارہ کالج میں داخلہ حاصل کرلیا۔ سوچا اس بار پڑھ لکھ کر اپنے پیروں پر کھڑے ہوجاؤں گی اور زندگی میں پھر دوبارہ شادی نہیں کروں گی۔
کالج میں کچھ دن گزرے ہی تھے کہ معروف کی نظر یں مجھ پر پڑگئیں۔ میری سہیلیوں نے اُس سے میری زبردستی دوستی بھی کروادی۔ میری زندگی میں جو کچھ گزر چکا تھا اُس کے بعد اب ہر لڑکے سے ڈر سا لگتا تھا۔ میں یہ دوستی صرف سلام دعا تک ہی رکھنا چاہتی تھی، اوریہ بات معروف بھی اچھی طرح سے سمجھ چکا تھا۔ اسی لیے اُس نے بھی کاشف میاں کی طرح ہی سیدھے میرے گھر رشتہ بھیج دیا۔ تعجب تو تب ہوا جب اس بار میرے گھر والوں نے مجھے پہلے کی طرح نہ تو پیٹا اور نہ مجھ سے کوئی سوال جواب کیا بلکہ بڑی خاموشی سے صلاح مشورہ کرکے انکار کردیا۔ دراصل ابا اور چاچا، میرے سسرال والوں سے مسلسل رابطہ رکھے ہوئے تھے کہ کسی بھی طرح سے کاشف میاں اپنا من بدل لیں اور اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے مجھے دوبارہ اپنا لیں۔ میں نے بھی سوچا چلو اچھا ہی ہوا کہ معروف کی کہانی جلدہی ختم ہوگئی مگر کاشف میاں سے دوبارہ شادی کے لیے میں اپنے گھرو الوں کی کوششوں کے بھی خلاف تھی۔ چند مہینوںمیں ہی کاشف میاں کی بدلی ہوئی صورت نظر آگئی تھی، پتا نہیں آگے زندگی کیسے کٹتی۔ اب دوبارہ اُس گھر میں جانے سے دل گھبراتا تھا۔ اللہ کرے اُن کی تمام کوششیں رائیگاں جائے۔ آمین۔
مجھے نہیں پتا تھا کہ میری دعا اتنی جگہ قبول ہوجائے گی ورنہ میں کچھ اور ہی مانگتی، اس سے بھی اچھا اور کچھ...
اچانک ہی ایک دن مجھے مطلع کیا گیا کہ میری شادی معروف کے ساتھ طے کردی گئی ہے۔ اس اچانک ہوئے فیصلے سے میں دھک سی رہ گئی۔ یا اللہ ایک دعا تو قبول کرلی لیکن اس کے بدلے میں یہ کیا دے دیا...!ٍ کچھ سوچ سمجھ پاتی اُس کے پہلے ہی میرے ہاتھوں میں ہلدی بھی لگ چکی تھی۔
اب تقریباً چھ مہینوں بعدمیں اپنی دوسری سہاگ کی سیج پر بیٹھی اپنے نئے شوہر کا انتظار کررہی ہوں، جس کے بارے میں مَیں صرف اتنا جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے بھی کم پڑھا لکھا ہے۔
تیسرا حصہ : ناقابلِ معافی
’غصہ انسان کاسب سے بڑا دشمن ہے۔‘ یہ قول کتابوں میں، ای میل پر اور وہاٹس ایپ پر بہت بار پڑھا تھا۔ مگر اس کا اصل مطلب، اپنی زندگی میں گزرے اس طوفان کے بعد ہی پتہ چلا ہے۔ واقعی غصہ عقل کو کھا جاتا ہے اور انسان وہ سب کچھ کرجاتا ہے جسے بعد میں سوچ سوچ کر خود کی کرتوتوں پر شرم کرنے تک کا موقع نہیں ملتا۔
’’طلاق ! طلاق!! طلاق!!!‘‘ کہتے ہوئے زبان ذرا بھی نہیں کانپی مگر اس کے بعد آئی تنہائی سے دل و دماغ تک کانپ اٹھتا ہے۔ اسکول میں اردو کے استاد ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ الفاظ بہت قیمتی ہوتے ہیں اُنھیں سوچ سمجھ کر استعمال کرنا چاہیے۔ ایک لفظ کی طاقت اور اُس کی اہمیت کا اندازہ اب ہورہا ہے۔
والد کے جلد بسترِ مرگ پر آجانے کے بعد جب سے میں نے نوکری کرنے کا فیصلہ کیا تب سے میں صرف اور صرف اپنے خاندان کا ہوکے رہ گیا۔ اُن کے لیے کمانا، اُن کی ضرورتیں پوری کرنا۔ میری اپنی زندگی تو جیسے ختم سی ہوگئی تھی۔ ایسے میں ایک دن جب میںدوپہر کا کھانا کھا کر آفس سے نیچے ٹہلنے اُترا تو سامنے سے گزرتی ہوئی اُس لڑکی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اُسے دیکھتے ہی مانو دنیا رُک سی گئی، سڑک پر چلنے والی ساری گاڑیاں، لوگ، یہاں تک کہ درختوں کے پتوں نے بھی سرسرانا بند کردیا۔ میں ایک ٹک بس اُسے ہی دیکھے جارہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اُس فٹ پاتھ پر صرف دو ہی جاندار شئے ہیں، ایک وہ اور میں! میں اُسے تب تک دیکھتا رہا جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ نظرو ں سے غائب ہوتے ہی اچانک چاروں طرف سے گاڑیوں کے ہارن اور لوگوں کی چیخ پکار کی آوازیں کانوں سے ٹکرانے لگیں، تب مجھے احساس ہوا کہ میں سڑک کے کنارے بے وقوفوں کی طرح کھڑا ہوا ہوں۔
اب میرا یہ روز کا معمول بن گیاتھا، میں جلدی جلدی اپنا کھانا ختم کرتا اور نیچے اُتر کر اُس لڑکی کا انتظار کرنے لگتا۔ آفس کے یار دوست ہمیشہ مجھے روکتے اور آرام سے گپیں ہانکتے ہوئے کھانے کے لیے کہتے لیکن میں اُن سب سے بچ کر چپ چاپ نیچے اُتر جاتا اور سڑک پار کر کے بس اسٹاپ کی آڑ میں کھڑا ہوجاتا۔ دو ہفتے سے لگاتار اُسے دیکھ دیکھ کر میں اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرتا رہا لیکن کبھی اُس کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ اب یہ میری بزدلی تھی یا پرورش کا قصور کہ کبھی کسی لڑکی سے بات کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ بچپن سے لڑکو ںکے اسکول میں تعلیم حاصل کی، یہاں تک کہ جونیئر کالج میں بھی لڑکیاں ساتھ نہیں تھیں۔ سینئرکالج میں جب لڑکیوں کا ساتھ ملا تو ابّا ساتھ چھوڑ گئے۔ کالج بیچ ہی میں چھوڑنا پڑا۔ وہ تو قسمت اچھی تھی کہ ابّا کی جگہ نوکری مل گئی اور گھر سنبھل گیا۔ ان حالات میں کبھی کسی لڑکی کے قریب جانے کا موقع ڈھونڈنا تو دور کسی لڑکی کے بارے میں سوچنا بھی نصیب نہیں ہوا۔ لیکن اُس لڑکی کو دیکھنے کے بعد پتا نہیں دل کے کسی کونے میں ایک ٹیس سی اٹھی اور محبت نے انگرائی لی۔
ایک دن اُسے کچھ اور لڑکے اور لڑکیوں کے ساتھ دیکھا تو احساس ہوا کہ کہیں میں دیر نہ کردوں اور وہ کسی اور کی ہوجائے! کئی بار میں نے سوچا کہ اُس سے جاکر بات کروں لیکن ہمیشہ ہمت جواب دے جاتی تھی۔ ایک بار بڑی کوششوں کے بعد ہمت کر کے میں بلکل اُس کے روبرو آکر کھڑا ہوگیا لیکن وہ اللہ کی بندی نظریں نیچی کیے ہوئے تھوڑا دائیں ہوکر میرے بغل سے ہوتی ہوئی گزرگئی اور میں پتھر کی مورت بنا کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ اُس کے کافی دور چلے جانے کے بعد میری جان میں جان آئی اور اپنی بے وقوفی کا احساس ہوا۔ دو تین بار اور کوشش کی لیکن ہمیشہ وہی ہوتا، میں کھڑا رہ جاتا اور وہ بنا مجھے دیکھے میرے پاس سے گزر جاتی۔
ایک دن میں نے آفس میں اپنا سارا کام جلدی جلدی ختم کیا اور لنچ ٹائم ہی میں گھر کے لیے نکل پڑا۔ سڑک پار کرکے میں بس اسٹاپ پر کھڑا ہوکر اُس کا انتظار کرنے لگا۔ جب وہ بس اسٹاپ سے گزر گئی تو میں اُس کا پیچھا کرنے لگااور پیچھا کرتے کرتے اُس کے گھر تک پہنچ گیا۔
اپنے گھر پہنچ کر رات کو کھانے کے بعد بڑی ہمت جٹا کر یہ بات آپی سے کہہ دی۔ آپی بہت خوش ہوئیں اور اُنھوں نے جیسے تیسے امّاں کو رضامند کرلیا۔ امّاں میرے بتائے ہوئے پتے پر پہنچ گئیں رشتہ لے کر۔ پہلے تو ہم سامنے سے جواب آنے کا انتظار ہی کرتے رہ گئے لیکن جب جواب آیا تو میری خوشی کا ٹھکانہ ہی نہ رہا۔
سہاگ رات کی سیج پر جب میں نے اُسے بتایا کہ ’’امّاں تمھارے گھر رشتہ لے کر گئیں تب جاکر مجھے تمھارے نام کا پتا چلا... نوشین... کتنا پیارا نام ہے، بلکل تمھاری طرح۔‘‘ وہ شرما گئی اور میں خوشی سے پھولا نہیں سمایا۔
پچھلے سال ابّا کے انتقال کے بعد یہ پہلی خوشی تھی جو ہماری زندگی میں آئی تھی۔ نوشین کے آنے کے بعد تو مانو زندگی گلزار ہوگئی۔ ہردن عید کی طرح شروع ہوتا اور دیوالی کی طرح ختم۔
لیکن خوشیوں کو نظر لگتے دیر نہیں لگتی۔ میری خوشیاں بھی چند دنوںکی مہمان تھیں۔
ایک دن جب میں گھرمیں داخل ہوا توفضا میں اُداسی چھائی ہوئی تھی۔ ہر طرف سناٹا پسرا ہوا تھا۔ اپنے کمرے میں گیا تو نوشین بڑے تپاک سے ملی، پانی پوچھا، کھانا لینے باورچی خانےمیں چلی گئی۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا پھر بھی مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہورہا تھا۔ کھانے پر امّاں اور آپی کو آواز دی تو وہ دونوں منہ لٹکائے ہوئے آئیں۔ کسی نے کچھ نہیں کہا۔ مجھے لگا ضرور کچھ ہوا ہے لیکن سب خاموش رہے۔
کھانے کے بعد جب نوشین برتن دھونے باورچی خانے میں چلی گئی تو آپی نے چپی توڑی، ’’نوشین زیادہ اُڑنے کی کوشش کر رہی ہے کاشف! ابھی وقت ہے، پَر کتر ڈالو۔‘‘
میں ایک ٹک اُن کی طرف دیکھنے لگا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہیں۔
’’کیوں؟ ایسے کیوں دیکھ رہے ہو؟ میری بات سمجھ میں نہیں آئی کیا؟‘‘
’’کیا بات ہوگئی آپی؟ امّاں... نوشین نے کچھ بدتمیزی کی ہے کیا؟‘‘
’’نہیں بیٹا ... ابھی تو نہیں کی ہے۔ لیکن کیا ہم کرنے کا انتظار کریں!‘‘
’’ہوا کیا ہے؟‘‘ میں نے جھنجلاتے ہوئے پوچھا۔
’’بیٹا، تمھارے ابّا زندہ ہوتے تو وہ بتاتے ہمارے خاندان کی روایت... اب تم گھر کے مرد ہو تم جانو اور تمھاری بیوی...‘‘
’’کاشف... ابھی تو صرف اماں کے سامنے زبان چلی ہے... کل ....‘‘
’’کیا...‘‘ اتنا سننا تھا کہ میں ہتھے سے اُکھڑ گیا۔’’ نوشین کی اتنی ہمت۔ اُس نے امّاں سے زبان چلائی...‘‘
ابّا کے انتقال کے بعد مجھے امّاں سب سے زیادہ عزیز تھیں اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اُنھیں کبھی بھی ابّا کے جانے کا غم ہو اور وہ خود کو اِس دنیا میں اکیلا سمجھیں۔ میں نے خود کبھی امّاں سے اونچی آواز میں بات نہیں کی تھی... اور ... نوشین....یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا۔
میں نے کمرے میں جاتے ہی نوشین کے ساتھ ساتھ اُس کے سارے خاندان کو اپنے غصّے میں لپیٹ دیا۔ نوشین نے مجھے کافی سمجھانے کی کوشش کی لیکن امّاں کی بے عزتی کے آگے مجھے کچھ سننا منظور نہ تھا۔
کاش... کاش... اُس دن میں نے اپنے غصّے پر قابو رکھ کرنوشین کی بات سن لی ہوتی!
کاش... میں امّاں اور آپی کے ساتھ بیٹھ کر اطمینان سے نوشین کی غلطی جان لیتا!!
کاش... اماں اور آپی نے اُس دن کے بعد آگ میں گھی ڈالنے کا کام نہ کیا ہوتا!!!
جو ہونا تھا وہ تو ہوچکا تھا۔ زندگی کی گاڑی کو پٹری سے اُترنا تھا، اُتر گئی۔ میں نے بھی اُسے سنبھالنے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائی۔ دراصل اماں کے قد کے سامنے میری نظر میں سارے قد بونے تھے۔ نوشین بھی اُسی دن میری نظر سے گِر چکی تھی جس دن اُس نے اماں سے قد بڑھانے کی کوشش کی تھی۔ میں نے یہ بھی نہ سوچا کہ ابھی نوشین کی عمر ہی کیا ہے یہ سب سمجھنے کی۔ محض اٹھارہ سال کی عمر میں زندگی کے اِتنے اُتار چڑھاؤ دیکھنے والی لڑکی کو میں اپنے دماغی شعور کے برابر مان رہا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ وہ بھی اُس سطح پر سوچے سمجھے جس سطح پر میں ہوں۔ لیکن آج سوچتا ہوں کہ آخر... میری سطح تھی کیا؟ کیا واقعی کوئی سطح تھی بھی یا میں خود اپنی سطح سے گرتا جارہا تھا۔ اب احساس ہوتا ہے کہ اُس وقت کی میری تمام حرکتیں بچکانہ تھیں۔
کیا واقعی بچکانہ تھیں؟ بچوں جیسی ضد...
یا بوڑھوں کی طرح ہٹ دھرمی....
اپنی ہی بات پر اَڑ گئے۔ بس میری بات ماننی ہی پڑے گی۔
کیا ابّا کے انتقال کے بعد میں پھر سے بچہ بن گیا تھا یا وقت سے پہلے بوڑھا ہوگیا تھا؟
خیر کچھ بھی ہو۔ چاہے میرا بچپنا ہو یا میری ضرورت سے زیادہ ہٹ دھرمی، خمیازہ تو مجھے ہی بھگتنا پڑا۔ کسی کا کچھ نہیں گیا۔میرا تو سب کچھ لُٹ گیا۔ نوشین کے جانے کے بعد جیسے دنیا ہی ویران ہوگئی۔ سب کچھ خالی خالی سا محسوس ہونے لگا۔ کسی چیز میں دل نہیں لگتاتھا۔ میرے اکیلے پن کو اماں نے بھی محسوس کرلیا تھا۔ وہ بھی اب پچھتا رہی تھیں۔ اور تو اور اس سب کا ذمے دار بھی مجھے ہی ٹھہرایا گیا۔
’’اتنا غصّہ کیوں آتا ہے تجھے؟ ارے تیرے ابّا تو چلے گئے، اپنا غصہ تجھے دے کر چلے گئے۔ ہو گئی تھی کچھ تُو تُو میں میں۔ وہ تو ساس بہو میں تو ہوتی ہی رہتی ہے۔گھر میں دو چار برتن ہوں تو ٹکرائیں گے ضرور۔ ہائے اُس میں یہ کیا کہ سیدھے طلاق ہی دے دی۔‘‘
اماں کے طعنے اب دن بہ دن مجھے ہی سننے پڑتے۔ آپی بھی اماں کا ہی ساتھ دیتیں۔ اور میں خاموشی سے نظریں جھکائے اُن کے طعنے برداشت کرتا رہتا۔ مرتا کیا نہ کرتا آخر اُن کی بات بھی اپنی جگہ صحیح تھی۔ یہ سب میرے غصے کی وجہ سے ہی ہوا تھا۔
نوشین کے ابّا اور چاچا نے آکر اماں سے بات کی کہ معاملہ رفع دفع ہوجائے اور میں اپنا غصہ بھلا کر نوشین کو دوبارہ اپنا لوں۔ اُن کی طرف سے پہل دیکھ کر اُمید کی روشنی بڑھی، اور جان کر دل کو تقویت ملی کہ اماں بھی چاہتی تھیں کہ نوشین گھر میں واپس آجائے لیکن ... لیکن اب معاملہ بگڑ چکاتھا۔
’’حلالہ نہ کروائیں... توبہ توبہ.. . دین کی خلاف ورزی ہم سے نہ ہوگی بھیا... معاف کرو۔‘‘ اماں اپنی بات پر اَڑی ہوئی تھیں۔
’’خالہ ... حلالہ کا ذکر قرآن میں تو ہے لیکن لوگوں نے اُس کا غلط مطلب نکال لیا ہے۔ آپ سمجھ نہیں رہی ہیں...‘‘ نوشین کے جمال چاچا نے اماں کو سمجھانا چاہا۔
’’دیکھیے بھیا... ہم کوئی عالم فاضل تو ہیں نہیں، اس لیے بحث کرنے سے اچھا ہے کہ کسی مولانا سے اس مسئلے کا حل نکلوا لیتے ہیں۔ وہ جو کہیں گے ہمیں منظور...‘‘ اماں نے آخری راستہ بتا دیاتھا۔
یہیں آکر گاڑی پٹری پر آتے آتے دوبارہ پھسل گئی۔ حلالہ ... دینی مسائل.... مسلک نے میری بچی کچھی زندگی بھی عذاب کردی۔ نا اماں ماننے کو تیار تھیں نہ نوشین کے گھر والے۔ ایک مولانا نے حلالہ کو جائز کہا تو دوسرے نے غیر ضروری۔ ایک نے کہا حلالہ کے سوائے کوئی چارہ نہیں تو دوسرے نے حلالہ کو سرے ہی سے خارج کردیا۔ مختصراً دونوں خاندان علماء کے گرد چکر ہی کاٹتے رہ گئے۔
اسی بیچ خبر ملی کہ نوشین نے پھر سے کالج میں داخلہ لے لیا ہے۔میں دوبارہ کالج کے راستے پر اُس کا منتظر رہنے لگا۔ لیکن اس بار نوشین جانتی تھی کہ میں راستے میں اُس سے ضرور ٹکراؤں گا اس لیے شاید اُس نے راستہ بدل لیا تھا۔ صرف راستہ بدلتی تو اِتنا دکھ نہ ہوتا لیکن اُس نے تو اپنا شریکِ حیات ہی بدل لیا تھا۔
جائز ناجائز کی لڑائی کے بیچ کب نوشین کے لیے دوسرا رشتہ آگیا اور کب اُس کے خاندان والوں نے اُسے قبول کرلیا پتا ہی نہ چلا۔ بس کچھ دن پہلے خبر آئی کہ نوشین کی دوسری شادی ہورہی ہے۔ میں، اماں اور آپی اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ اماں ایک بار پھر اس سب کے لیے مجھے ہی ذمے دار ٹھہرا رہی تھیں۔ آپی کا بھی یہی ماننا تھا۔
’’ارے تیرا منہ دیکھ کر ہی تو ہم تیار ہوئے تھے۔ ہمیشہ یہ سڑا ہوا منہ لے کر گھومتا رہتاتھا۔ اب دیکھ لیا کیا کیا اُن لوگوں نے ... ہمارے سامنے تو ناک رگڑ رہے تھے ... ’ہماری بیٹی کی زندگی مت اُجاڑو... اُسے ایک موقع اور دے دو...فلانہ ڈھماکا‘ اور اب چپ چاپ ہمیں بنا بتائے اُس کی دوسری شادی بھی طے کردی...بے ہودےلوگ...‘‘
آپی کی اس بدزبانی پر بھی میں خاموش ہی رہا۔ کیا بولتا ... وہ بھی اپنی جگہ صحیح تھی۔ آج ان سب باتوں کا محاسبہ کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہر کوئی اپنی جگہ صحیح تھا سوائے میرے۔ میں ہی غلط تھا... میری ہی غلطی تھی...
یا اللہ ... یہ رات... عذابوں کی یہ رات... نوشین کی سہاگ رات... یا میری زندگی کی آخری رات ....
ختم شدہ
تبصرے و تاثرات
اقبال حسن آزادتین کرداروں کی محبت کی تکونی کہانی،انہی کی زبانی۔نوشین مشرقی اقدار کی پروردہ ہے جس پر پہلے کاشف نام کا نوجوان فدا ہوتا ہے اور اس سے شادی کر لیتا ہے لیکن مخلوط فیملی میں رہنے کی وجہ سے آپس میں کچھ غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور نتیجتاً کاشف نوشین کو طلاق دے دیتا ہے۔بعد میں اسے اور اسکی ماں بہن کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ لوگ نوشین کو پھر سے اپنے خاندان میں شامل کرنا چاہتے ہیں لیکن تیر کمان سے نکل چکا تھا۔طلاق ہونے کے بعد نوشین دوبارہ کالج میں داخلہ لیتی ہے اور اس بار ایک دوسرا نوجوان اس پر عاشق ہو جاتا ہے اور پھر اسے حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتاہے۔
افسانے کی تکنیک عمدہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ طویل ہونے کے باوجود بور نہیں کرتا۔
٭
زاہد مختار
تکونی کہانی میں کئی موڈ ہیں لیکن طویل ہونا اکتاہٹ کا شکار نہ سہی مگر صبر کا امتحان ضرور لیتا ہے...افسانے کی فلمی کہانی زیادہ متاثر نہ کر سکی
٭
محمد علی صدیقی
جب پتنگ ڈور سے کٹ جاتی ہے تو ہواؤں کے رحم و کرم پر ہوتی ہے۔
ہوائیں اسے کسی باغ میں پہنچا دیں، کیچڑ میں گرا دیں یا وہ بچوں کے ہاتھوں میں پڑ کر اپنی ہستی کھو بیٹھے۔ نوشین کی زندگی بھی کسی کٹی پتنگ کی طرح ہی نکلی۔ خوش قسمتی یہ ہوئی کہ ہواؤں نے اسے کیچڑ میں نہیں گرایا بلکہ ایک خوشنما چمن میں پہنچا دیا۔
کہانی پڑھتے ہوئے یہی محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ہواؤں کی کہانی ہے، ہواؤں میں اڑتے ہوئے چند تنکوں کی کہانی ہے جن کے ساتھ کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے اور قاری اسی "کچھ بھی" کو جاننے کے لئے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے۔
نوشین کے لئے رشتہ آنے پر گھر والوں کا نوشین کو پیٹنا، نوشین کا شوہر کی بجائے ساس اور نند سے "ھنی مون" پر جانے کی بات کرنا اور کاشف کا بغیر وجہ جانے صرف ماں سے زبان چلانے کے الزام میں ارمانوں سے پائی ہوئی بیوی کو تین طلاق دے دینا عجیب لگتا ہے۔ لیکن امکانات کی دنیا بہت وسیع ہے۔ دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہیں۔ کبھی بھی کہیں بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اسی کچھ بھی ہو سکنے کے سلسلے میں معروف کو عشق کا کیڑا کاٹ لیتا ہے اور نوشین کی نیّا پار لگ جاتی ہے۔
کہانی میں عشق تو ہے لیکن رومان نظر نہیں آیا۔
اس میں نوشین کی حیثیت صرف ایک "آبجیکٹ" کی ہے۔
تین حصوں میں بیان کی گئی کہانی مربوط ہے۔ راوی کوئی اور نہیں بلکہ کردار خود ہیں۔ چنانچہ ہر کردار اپنی کہانی خود بیان کرتا ہے۔ اس طرح کرداروں کے جذبات کھل کر قاری کے سامنے آتے ہیں۔
کہانی کی زبان عمدہ ہے۔ بیان میں روانی ہے۔ کہانی ختم ہونے کے بعد قاری کے لئے سوچ کا وسیع میدان کھل جاتا ہے اور قاری ہر کردار کا از سرِ نو جائزہ لینا شروع کر دیتا ہے۔
اس افسانے کے لئے فاضل قلم کار کو ڈھیروں مبارک باد اور نیک خواہشات۔
٭
نصرت شمسی
شاداب رشید صاحب کا پہلا افسانہ اسی بزم میں پزھا تھا جو بہت پسند ایا تھا لیکن یہ افسانہ زہادہ متاثر نہ کرسکا۔مجھے یہ داستانی طوالت لیے ہوئے محسوس ہوا۔جس میں سے بہت کچھ نکالا جا سکتا ہے۔مختصر ہوگا تو خاص افسانہ محسوس ہوگا اور کہانی میں جس نئے پن کو پیش کیا گیا ہے اس میں مذید نکھار پیدا ہوگا۔
رمانیت تو افسانے میں کہیں دور دور تک نہیں البتہ یک طرف محبت ہے۔اور مجھے تو کہیں کہیں ایسا محسوس ہوا کہ جیسے طلاق اور حلالہ کے موضوع کو ذہن میں رکھ کر یہ افسانہ لکھا گیا ہے۔جس طرح مسلم۔ معاشرے میں ان دونوں چیزوں کو مذاق بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور سب سے زیادہ اذیت اور رسوائی عورت کے حصہ میں آتی ہے اس کا اندازہ اس افسانے سے ہوا۔۔اس حوالے سے ایک عمدہ افسا ہ جو مذید عمدہ ہو سکتا ہے لگا۔۔
اسی حوالے سے رشید صاحب کو مبارک باد ا۔۔۔بس ذرا مختصر اور ہو جائے تو کیا کہنے۔۔
بزم کی سلامتی کے لیے بہت سی دعائیں
٭
انیس رشید خان
محترم شاداب رشید صاحب ایک بہترین افسانہ نگار ہیں۔ اس افسانے میں آپ نے ایک کامیاب تجربہ کیا ہے۔ اس افسانے کے تین مختلف کردار ہیں، افسانے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور تینوں کردار اپنی اپنی کہانی خود سنارہے ہیں۔ کیونکہ ہر کردار کی کہانی خود اسی کی زبانی بیان کی گئی ہے اسی لیے قاری کے دل و دماغ تک بڑی آسانی سے پہونچ جاتی ہے۔
اس افسانے کا بنیادی موضوع طلاق، حلالہ وغیرہ شرعی اصطلاحات کا احاطہ کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس مناسبت سے دیکھا جائے تو یہ ایک سماجی افسانہ کہا جاسکتا ہے۔
افسانے کی بنیادی کردار ایک لڑکی ہے۔ لیکن انتہائی معزرت کے ساتھ مجھے یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ لڑکی کا یہ کردار نہایت ہی بناوٹی یا مصنوعی سا لگ رہا ہے۔ جو لڑکی کالج کے زمانے میں نگاہیں تک نا اٹھاتی ہو، جس کے گھر والے محض شک کی بنیاد پر اسے باقاعدہ پیٹتے ہوں، وہ لڑکی سسرال میں جاتی ہے اور وہاں اپنے اچھے برتاؤ کی وجہ سے ساس نند وغیرہ کا دل جیت لیتی ہے۔ ظاہر ہے کہ دل جیتنے کا یہ مرحلہ کچھ ہفتوں پر محیط ہوگا؟۔۔۔ پھر اچانک ایک دن اسے ہنی مون کا خیال آ جاتا ہے۔ ہنی مون عموماً شادی کے فوراً بعد ہوا کرتا ہے ناکہ کئی ہفتوں بعد!۔۔۔ یہی ہنی مون کا خیال اس کی ازدواجی زندگی کو تباہ کر دیتا ہے اور اس کی طلاق ہو جاتی ہے۔ یہ تمام باتیں ناقابل یقین سی لگتی ہیں اور اسی لئے لڑکی کا کردار مصنوعی سا لگنے لگتا ہے۔ طلاق کے بعد لڑکی کے وہی جنگلی قسم کے گھر والے اسے ایک بار پھر کالج پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں! یہ بات بھی نا قابل فہم سی لگتی ہے۔۔۔ اس مرتبہ کالج کا ایک لڑکا، اس طلاق شدہ لڑکی کی جانب اتنا زیادہ کشش محسوس کرتا ہے کہ وہ اس سے فوراً شادی کرلیتا ہے۔
بہت سی پرانی ہندی فلموں میں اس قسم کی کہانی موجود ہے، مثلاً نکاح، آپ تو ایسے نا تھے وغیرہ وغیرہ
ایونٹ میں شمولیت کے لئے محترم شاداب رشید صاحب کو بہت بہت مبارک باد 🌹
٭
افشاں ملک
شاداب رشید کا یہ پہلا افسانہ میرے مطالعے میں آیا ہے۔
پیش نظر افسانے کو رومانی افسانہ کہنے میں مجھے قدرے تامل ہے۔ افسانے میں کاشف، معروف اور نوشین تینوں کردار مرکزی حیثیت میں ہیں۔ رومانی افسانہ کہنے میں مجھے اس لیے تامل ہے کہ دونوں بار کی شادیوں میں نوشین کی طرف سے کوئی پیار محبت وغیرہ کا اظہار نظر نہیں آتا ہے۔ کاشف اور معروف دونوں اپنی طرف سے ہی نوشین کا دم بھرتے ہیں اور اسےحاصل بھی کر لیتے ہیں۔پہلا شوہر خود ہی بغیر وجہ جانے طلاق بھی دے دیتا ہے اور پھر پچھتاتا ہے۔
معروف کی نوشین سے محبت کے اظہار میں دونوں کی کچھ ملاقاتیں اورکچھ رومانی مکالمے بھی اگر ہوتے تو بہتر ہو تا۔ایک نظر میں یہ
کہانی طلاق اور حلالہ کو موضوع بنا کر لکھی گئی معلوم ہوتی ہے جو میری نظر میں مستحسن ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جب جب اللہ کی کتاب کے علم سے دوری ہوگی قوم کم علم مولویوں کے ہاتھوں فٹ بال بنی رہے گی۔ طلاقوں اور حلالوں کا سلسلہ یونہی چلتا رہے گا۔کوئی اسے صحیح اور جائز بتائے گا اور کوئی حرام اور ناجائز۔ عورت کے لیے یہ کتنا اذیت ناک لمحہ ہوتا ہے کہ اسے اس پل صراط پر چل کر اس طلاق دینے والے شوہر کے پاس دوبارہ پہنچنا ہوتا ہے۔
افسانہ مجھے اس لیے بھی اچھا لگا کہ نوشین کو کاشف کے پاس پہنچنے کے لیے اس قبیح رسم سے نہیں گزرنا پڑا اور اس کے سامنے دوسرا راستہ کھل گیا۔۔۔!
دو باتیں سمجھ میں نہیں آئیں پہلی تو یہ کہ افسانہ تین حصوں میں کیوں ہے ؟ کہانی ایک ہے سو اس کو مختصر کر کے ایک ہی حصے میں لکھا جا سکتا ہے۔۔۔
دوسری بات یہ کہ عنوان ”ناقابلِ اعتراف " ہے لیکن اس کہانی میں ناقابل اعتراف ہے کیا ؟
افسانے کے تیسرے حصے میں نوشین کے پہلے شوہر کا اعتراف ہی اعتراف ہے۔
مجموعی طور پر افسانہ اچھا ہے۔ عورت مرد کی ازدواجی زندگی میں خوبصورت موڑوں سے گزرتے ہوئے کب اور کیسے خاردار راستے آجاتے ہیں پتہ ہی نہیں چلتا۔اور جب تک اپنی کوتاہیوں کا احساس ہوتا ہے وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے۔ افسانہ حقیقت کے قریب ان معنوں میں ہے کہ یہ ہمارے معاشرے کی سچی تصویر ہے۔اس طرح کے واقعات فطری ہیں اور ہمارے معاشرے میں رونماہوتے رہتے ہیں۔ایسے معاملات میں عورت ہی نہیں وہ مرد بھی پچھتاوے کی آگ میں ساری زندگی جھلستا رہتا ہے جس نےجلد بازی میں غلط فیصلے کر لیے ہوتے ہیں۔
افسانے کا بیانیہ رواں اور زبان اچھی ہے۔
شاداب رشید کو دلی مبارکباد۔۔۔!
٭
وحید امام
ساجد رشید اور شاداب رشید افسانے کی دنیا میں محتاج تعارف نہیں۔افسانے کی سمت و رفتار متعین کرنے میں ساجد رشید کی کاوشوں کو فراموش نہیں کیا جاسکتا۔افسانہ ''ناقابل اعتراف'' تکنیک کے اعتبار سےانفرادی اہمیت کا حامل ہے مگر میرے خیال میں وحدت تاثر کسی بھی افسانے کی روح ہوتا ہےجواس تکنیک کی وجہ سے مجروح ہوا ہے۔ افسانے میں افسانہ نگار کسی ایک خیال یا کسی واقعے کومختلف کرداروں اور مکالموں کے ذریعے قاری کے ذہن میں نقش کرتا چلا جاتا ہےمگر شاداب رشید نے یہاں تین کرداروں کوتین خانوں میں تقسیم کیا تکنیک کے لحاظ سے یہ جدت ہو سکتی ہے مگر جو افسانے کی قرآت اذہان وقلوب پر اثر انداز ہوتی ہےاس کا فقدان محسوس ہوا۔خودساختہ روشن خیال افراد نے ہمیشہ حلالہ اور دیگر اسلامی فلسفے کا مذاق اڑانے کی دانستہ کوشش کی ہے اس لیے ذہن اس طرف بھی متوجہ ہوتا ہے محترمہ نصرت شمشی صاحبہ اور انیس رشید خان صاحب نے جن نکات کی جانب اشارہ کیا ہے اس موضوع پر مزید اظہار خیال کرنا میرے خیال میں باشعور قارئین کا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔ افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات
٭
آسیہ رئیس خان
رومان تو نہیں بلکہ یہ طلاق اور حلالہ جیسے معاشرتی اور مذہبی موضوع پر لکھا گیا افسانہ ہے۔ عنوان جیسا ’ ناقابل اعتراف ‘ تو کچھ نہ ملا تینوں حصوں میں کرداروں کے اعترافات ہی ہیں۔
نوشین کے گھر والے، معروف کی فیملی اور کاشف کی ماں اور بہن سارے کردار اور پس منظر کلیشے لگے۔ حالات اور تعلیم سے بھی نوشین نے کچھ نہ سیکھا۔
’ پچھلے سال‘ والد کے انتقال کے بعد سینئر کالج اور تعلیم ادھوری چھوڑ کر نوکری والے کاشف کی عمر کتنی ہوگی۔۔۔؟ان حالات میں بڑی بہن کی موجودگی میں چھوٹے کاشف کی پسندیدہ لڑکی سے اس کی شادی کے لیے ماں رضامندی ہوگئی مگر ہنی مون کا سن کر اس قدر واویلا۔۔۔؟ کاشف کی فیملی کے جو حالات تھےاس میں مائیں ہر حال میں پہلے بیٹی کی شادی کی کوشش کرتی ہیں۔
حلالہ کی خواہش رکھنے والی نوشین اور کاشف کی فیملی کے پاس دوسرے نکاح کے بعد موقع تھا کہ وہ یہاں کوشش کرتے دوبارہ طلاق ہو اور اُن دونوں کی شادی ہوجائے، یہاں سے تو اصل کہانی اور محبت کا امتحان شروع ہو سکتا تھا۔
نوشین اور معروف کی ’ بڑی جدوجہد کے بعد دوستی ‘ ہوگئی تھی پھر بھی نوشین کو صرف اتنا ہی علم تھا کہ وہ کم پڑھا لکھا ہے۔۔۔ ایسی کئی باتیں ہیں جو الجھن میں ڈالتی ہیں۔ صبر کا مادہ لبریز بھی پہلی بار پڑھا۔
معروف کے آج کل کی لڑکیوں اور مولویوں کے متعلق خیالات نے افسانے کی طوالت میں اضافہ کیا۔ وہ سارا وقت کالج میں ہی موجود تھا، وہاں دوستیاں بھی تھیں تو اسے کالج کا طالب علم نہ بتانے کی وجہ سمجھ نہیں آئی۔ معروف اور نوشین کی ملاقاتیں اور باتیں افسانے میں رومان بھر سکتی تھیں۔ تین کرداروں کے تین حصے اور عنوان، یہ تکنیک اچھی لگی۔
رد و قبول تسلیم۔
٭
فریدہ نثار احمد انصاری
مذکورہ افسانے میں ایک لڑکی، اہک صنف نازک کی صرف بے عزتی ہی کی گئی ہے کہ اسے ہر بار ایک نئے شوہر کے حوالے کر دیا جاتا ہے بغیر اس کی رائے جانے!
ایسا کیوں?
آج کا دور ایسا تو نہیں۔
ایک بار گر لڑکی طلاق کا جھومر پہن لے تب دوسری بار اس کے گھر والے تک محتاط ہو جاتے ہیں۔مثل مشہور ہے کہ " دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے۔"
پھر کیسے ہر بار اس لڑکی کے ساتھ ایک جیسا ہی سلوک کیا جاتا ہے۔
کیا آج کے دور میں ہنی مون پر جانا کوئی نئی بات ہے اور یہاں تو شادی کے کافی دنوں کے بعد۔سسرال والے محض اتنی سی بات پر کان بھرتے ہیں اور شوہر کیا بے وقوف ہے کہ اتنی سی بات پر طلاق!!! اس کے بعد بھی کچھ اسی طرح معاملہ اور پھر کچھ اسی طرح!!! زبان چلانا! یہ بھی کوئی نئی بات نہیں۔پرانے وقتوں میں بھی چلتی تھی اور آج بھی چلتی ہے لیکن طلاق سے پہلے گھر کے بزرگوں کے درمیان گفتگو ہوتی ہے۔معاملے کو سلجھایا جاتا ہے پھر کہیں یہ فیصلہ لیا جاتا ہے۔
یہاں تو یہ لگ رہا ہے کہ بس میاں بیوی ہی ہیں۔رہنے کو مکمل سسرال لیکن فیصلے کی کنجی صرف میاں کے ہاتھ!!!
عجب دنیا کی غضب بات!
عورت کیا آج بھی اتنی بے وقعت ہے????
دیکھیں ہمیں نصیب کہ پھر ہم کو کیا ملے
جو بھی ملے صنم وہی سب بے وفا ملے
نکاح فلم کی اسٹوری کو کچھ مختلف انداز میں پیش کیا گیا۔
وہی طلاق!!! وہی حلالہ!!!
آخر عورت ہی کو دار پر کیوں چڑھایا جاتا ہے?
کیا حلالہ کی سیج سجا کر وہ خوش رہ پائے گی?
اسی لئے تو یہ سزا دی جاتی ہے۔لیکن مرد کے ساتھ پہلی قربانی عورت دیتی ہے۔
نہایت مشکل کا مقام۔
خیر
تحریر میں کہانی ہے۔مکالمے ہیں، منظر کشی بھی ہے۔وحدت تاثر میں صرف لڑکی ایک اکیلی ہے۔
رومان تو نہیں ہے لیکن اگر ایڈمنز سمجھتے ہیں تو پھر ٹھیک ہی ہے
قلم کار کے لئے نیک خواہشات۔
٭
معین الدین جینا بڑے
ناقابل یقین۔ پہلا راوی ؛عاشق، راوی کے لئیے
ناقابل یقین تھا کہ اس کی شادی اس
لڑکی سے ہو رہی ہے جس سے وہ
شادی کرنا چاہتا ہے۔
ناقابل برداشت۔ دوسر ا راوی ؛بیوی؛ اس کے لئے یہ بات ناقابل
برداشت تھی کہ شوہر نے اس کی بات سنے بغیر
اسے طلاق دے دی۔
ناقابل معافی۔۔ تیسرا راوی شوہر (طلاق دینے کے بعد) پشیمان
ہے، پچھتا رہا ہے کہ وہ غصے میں آکر ایسا
کچھ کر بیٹھا جو کسی صورت قابل معافی نہیں.
افسانے کے ان تین حصوں کو قاری بہ آسانی سمجھ لیتا ہے. مسلۂ ناقابل اعتراف کی تفہیم کا ہے۔اعتراف کے معنی جاننے، تسلیم کرنے کے ہیں
سوال یہ ہے کہ کون سی بات کس کے لئے ناقابل اعتراف ہے؟افسانے کی تفہیم اس سوال کے جواب سے جڑی ہوئی ہے..اس سوال کا جواب آسان نہیں افسانے میں تین کردار کیں اور تین زاویہ ہاے نظر۔بلا تامل کہہ سکتے ہیں کہ ایسی کوئی بات بیان ہونے سے نہیں رہ گئی ہےجس کا جاننا قاری کے لئے ضروری ہو۔اور جس کے نہ جاننے سے افسانہ قاری کے لئیے ناقابل تفہیم ہو.
بظاہر افسانے میں جو کچھ بیان ہوا ہے اسے آج تک نہ جانے کتنی مرتبہ دہرایا گیا ہے.۔(شمع اور بیسویں صدی کے فائیل اس کی گواہی دیں گے ) کیا اس سے پہلے اس موضوع پر ایسا کوئی افسانہ لکھا گیا ہے جس کانام “فورا(ن) “ہمارے ذہن میں آ جاے (میرے ذہن میں تو فورا(ن) کوئی نام نہیں آرہاُہے۔). یہ افسانہ البتہ یاد رہے گا۔اپنے موضوع کی وجہ سے نہیں طرز بیان /تکنیک وجہ سے۔
سوال یہ ہے کہ اس تکنیک کا استعمال افسانہ نگار نے کیوں کیا ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ افسانے کے عنوان میں کوئی رمز ہے۔وہ رمز کیا ہے؟یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔اس رمز تک رسائی بہ آسانی ممکن نظر نہیں آتی۔اس بات کا اندیشہ ہے کہ قاری جھلا کر کہہ دے کہ عنوان غلط ہے، عنوان کچھ اور ہونا چاہئے۔لیکن افسانہ ایسا نہیں ہے کہ اسے قاری کی جھلاہٹ کی بھینٹ چڑھایا جا سکے.افسانہ قاری/نقاد کو آزمائش میں ڈالتا ہے۔یاران نکتہ داں کے لئیے صلاے عام ہے۔
یاد پڑتا ہے بہت پہلے پاکستان کے کسی رسالے میں ایک افسانہ اس تکنیک میں پڑھا تھا.بٹوارے سے پہلے کی بمبئی کی کہانی تھی۔یہ تکنیک جاپانی فلم ڈائریکٹر اکیرو کرو ساوا نے اپنی فلم Rashomon میں استعمال کی ہے.یہ تکنیک اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ ایک واقعے کی حقیقتیں ایک سے زائد ہوسکتی ہیں بلکہ ایک سے زائد ہوتی ہیں۔حتمیت اور قطعیت جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی.اس کا ادراک عام نہیں کہ زندگی کی حقیقتیں اضافی نوعیت relative کی ہوتی ہیں۔ جس کا ادراک عام نہیں اسے تسلیم کرنے والے کتنے ہو سکتے ہیں۔زندگی کی اس حقیقت کا اعتراف مشکل ہے بلکہ اکثریت کے لئے یہ حقیقت ناقابل اعتراف ہے۔۔۔
یہ ایک کامیاب افسانہ ہے.منفرد افسانہ ہے۔ افسانہ نگار قابل مبارک باد ہے.
٭
ڈاکٹر عائشہ فرحین
"ناقابل اعتراف"کے ساتھ طلاق، حلالہ اور پچھتاوے کا اعتراف افسانے کا اہم موضوع ہے۔لیکن جس انداز میں تین کرداروں کی تین (دراصل ایک ہی) کہانیاں پیش کی گئیں۔ان کہانیوں میں ان کرداروں کے عمل اور سوچ میں کئی باتیں،واقعات ناقابل یقین اور ناقابل اعتراف ہیں۔شاید اسی لیے افسانہ نگار نے اپنی اس تحریر کے لیے یہی عنوان چنا ہے۔جبکہ نوشین کے گھر والوں کا نوشین کے رشتہ آنے پر اسے پیٹنا،لیکن پیٹنے کی وجہ نہ بتانا،شادی کے بعد سسرالی عزیزوں(ساس اور نند)کے ساتھ خوشگوارتعلقات کے باوجود ہنی مون کی بات پر طلاق اور ہنی مون کا تذکرہ بہو کی زبانی بھی ناقابل یقین ہے۔خاموش محبت سے شادی کی منزل تک پہنچنے والے کاشف کا بنا سوچے سمجھے، اصل وجہ جانے بغیر نوشین سے جھگڑا اور طلاق بھی ناقابل یقین ہے۔کالج میں نہ پڑھنے والے معروف کی سادگی پسند،لیے دئیے رہنے والی مطلقہ نوشین سے دوستی بھی ناقابل یقین ہے۔ان کرداروں اور ان کے عمل سے جڑی گفتگو بےجا طوالت کا شکار ہوگئی۔
مولیوں، مسلکی مسائل کا تذکرہ، نوشین کے گھر والوں کا کاشف سے دربارہ شادی کروانے کی کوشش، سبھی ناقابل یقین ہیں۔ جو قارئین کو ان "ناقابل یقین "باتوں کا اعتراف کرنے میں پس وپیش میں ڈال رہے ہیں۔یہ ایک ایسی کہانی ہے جس کے کردار جن کی زندگی کے واقعات ناقابل اعتراف ہیں۔
یہ افسانہ ایونٹ کے لیے دئے گئے عنوان رنگ و بوئے باراں پر بھی کھرا نہیں اترتا،پھر بھی شامل بزم ہونے کے لیے افسانہ نگار کو دلی مبارکباد اور افسانے سے روشناس کرانے والے ایڈمین صاحبان کا شکریہ۔
افسانے کی یہ تکنیک پسند آئی۔
٭
فرخندہ ضمیر
Narrative style
اس کہانی میں تینوں کردار اپنی اپنی بپتا، اپنے جزبے اور اپنا کرب بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔کہانی میں حلالہ اور طلاق کے موضوع کو پیش کیا گیا ہے جو مرد کے لئے ایک غلطی اور عورت کے لئے ایک عذاب۔ اور یہ عزاب اس کی زندگی میں خاردار تاروں کے مترادف ہے۔ اس کہانی میں تو اسے معروف مل گیا ورنہ طلاق شدہ عورت کی زندگی بہت عبرت ناک ہوتی ہے۔
ایک بات میرے لئے نا قابلِ قبول ہے کہ معروف خود تو لڑکیوں کو تاکتا بھی ہے اور چھیڑتا بھی ہے اور تمنّآ رکھتا ہے ایسی بیوی کی جو پا کیزہ بھی ہو اور اخلاقی اقدار کی حامل بھی ہو۔
افسانے کی زبان اور روانی کے لئے مبارکباد
٭
نگار عظیم
ایک کہانی تین کرداروں کی زبانی۔ تینوں کے اپنے اپنے مسائل۔ تکنیک اچھی ہے لیکن متاثر نہیں کرتی۔ کسک پیدا نہیں ہو سکی کیونکہ بیانیہ تینوں کرداروں کا افسانوی نہیں بن سکا۔ کہانی عام گھروں کی وہی روائتی ہے سماجی مسائل کی نشاندہی۔ مسلم سماج کی جہالت تینوں گھروں میں پسری ہوئی ہے۔ مختلف مسلکوں کے سبب انسانی زندگی سے کھلواڑ۔ کوئی عالم دین یہ فیصلہ نہیں دے سکا کہ ایک بار میں تین طلاق ایک ہی مانی جاتی ہے۔ رجوع کی گنجائش ہے۔ اتنی جلدی آنا٘ فانا٘ فیصلے، شادی کے بھی طلاق کے بھی۔ رشتہ آنے پر لڑکی کی پٹائی۔ شادی کے بعد اچھی بھلی زندگی میں ماں اور بہن کی طرف سے آگ لگانا پھر تیل بھی ڈالنا۔۔ نتیجہ طلاق برآمد ہوا اور پھر پچھتاوا۔ ایسا ذہن رکھنے والے ہمارے معاشرے میں پنپتے وہ زہریلے ناگ ہیں جو اپنے ہی بچوں ان کی خوشیوں کو ڈس رہے ہیں۔ اسلام/قرآن مکمل دستور حیات ہے۔ اس سے غفلت، اسلام سے دوری، جہالت، رشتوں میں محبتوں کا فقدان، ہم کہاں جا رہے ہیں ؟؟ اس طرح کے مسائل میں خودکشی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔ زبان و بیان سادہ اور سلیس ہے۔ شاداب رشید اچھے افسانے لکھتے ہیں۔ اس افسانے کے لےء بہہت مبارک۔ یہ افسانہ ایونٹ کے موضوع کے مطابق رومانی نہیں ہے شکریہ
٭
ناہید طاہر
افسانہ اچھا ہے لیکن اس ایونٹ میں دیئے گئے موضوع پر اتر نہیں سکا۔۔۔محبت کو ڈھونڈتے رہے اور افسانہ اختتام پذیر ہوا۔ اس طرح افسانوی رنگ کی کمی شدت سے محسوس ہوئی۔
٭
انور مِرزا
افسانے میں زبان و بیان...
زبردست روانی اور بے ساختگی
قابلِ تعریف اور قابلِ اعتراف ہے...
میَں یہ افسانہ پہلے بھی
کئی بار پڑھ چکا ہوں...
مگر اِس بار یہ سمجھ میں آیا کہ
یہ افسانہ تین راوی کرداروں کی
صرف اِسی تکنیک میں
بہتر انداز میں بیان ہو سکتا تھا...
تینوں حصوں میں
طوالت کم کرنے کی گنجائش ھے
شاداب رشید کیلئے پُر خلوص مبارکباد
٭
ڈاکٹر فریدہ تبسم
زیر نظر افسانہ۔۔۔ناقابل اعتراف
ڈرامائی انداز میں تین کردار اپنے رول میں اپنی آپ بیتی بیان کررہے ہیں
کہانی میں ہر ایک اپنا ایکٹ مکمل کرتا ہے
یہاں کردار کی زبانی خود کردار کے جذبات و احساسات کو اجاگر کیا گیا ہے کیا کھویا کیا پایا۔۔
کہانی کرداروں کے رول میں ہوتے ہوئے مربوط ہے کیونکہ واقعہ ایک ہی ہے۔۔
مرکزی کردار نوشین کے اطراف ہی کہانی گھومتی ہے
دراصل یہ کہانی تیکنیک میں مثلث زاویہ بناتی ہے
تیکنیک عمدہ ہے مگر کہانی عام سی ہے مگر عنوانات کے ذریعے کہانی کو منفرد بنانے کی سعی کی گئی ہے۔عنوانات پر توجہ دلانے کی کوشش ضرور کی گئی ہے
قاری کو واضح کیا گیا ہے کہ یہ کردار کہانی میں کیا محسوس کرتے ہیں۔۔۔تین عنوانات۔۔۔ناقابل یقین، ناقابل برداشت، ناقابل معافی،،،،،،
یہ نہ مبہم ہیں نہ علامتی۔۔۔
جبکہ کردار کے عنوان ہی سے بات واضح ہوجاتی ہے۔۔
ناقابل اعتراف کیوں۔۔۔؟؟؟ کی وضاحت کرتے ہیں۔
کہانی کی تثلیت ا"یک کہانی کے تین کردار"۔۔۔
ایک کردار کے مختلف مسائل عورت کے گرد۔۔۔ہالہ بناتے ہیں عورت اپنے کردار میں ہوتے ہوئے بھی ہر جگہ مجبور و بےبسی ہےاور مرد اساس معاشرہ کی بالادستی عورت کا استحصال۔۔۔
ماں باپ کے ہاں بھی اس کی مرضی شامل نہیں
شوہر کے ساتھ زندگی میں اس کی خواہش کا لحاظ نہیں
پھر دوبارہ شادی میں بھی عورت کی مرضی سے زیادہ سماج کی فکر۔۔۔
مشرقی تہذیب کی پرودہ کبھی اپنی خواہش پوری کرنے کی تمنا کرتی ہے تو اسے اس حد تک تکلیف دہ سزا طلاق کی صورت دی جاتی ہے
طلاق کے بعد دوبارہ بندھن میں زبردستی باندھ دیا جاتا ہے
یعنی اس کی مرضی اور خواہش کی پرواہ نہیں۔۔۔بس وہ کٹ پتلی ہے۔۔اپنی مرضی یا خواہش کا ایک قدم باہر آتے ہی ڈور کھینچ لی جاتی ہے
اس کہانی میں یہ بتانا مقصود ہے کہ
عورت حالات کے ہاتھوں مجبور ہے۔۔۔
جدید دور میں کچھ خاندان روایت کے پروردہ ہوتے ہیں۔
عورت ہی عورت کی دشمن۔۔لیکن مرد بھی ناسمجھ غصہ اور جذباتی ہوں تو گھر آباد ہونے کے بجائے یوں ہی برباد ہوجاتے ہیں
ایسے مسائل کا مولویوں کے پاس بھی حل نہیں
یہ عنوانات و مسائل قاری کو غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں کہ۔۔۔
کیا یہ کردار کے رول ناقابل اعتراف ہیں؟؟؟
منجملہ کہانی میں رومانی فسوں کاری کی کمی ہےاور کہانی اس قدر متاثر کن نہیں۔بےجا طوالت حائل ہے۔اس کے باوجود کہانی کی تیکنیک قاری کو غور و فکر کی طرف مراجعت کرتی ہے۔مگر افسانویت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔
اس افسانہ پر ہم افسانہ نگار کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔ تبسم۔۔😊
٭
وسیم عقیل شاہ
شاداب رشید نوجوان نسل کے نمائندہ افسانہ نگار ہیں۔ آپ اردو کے معروف افسانہ نگار و صحافی ساجد رشید (مرحوم) کے صاحب زادے ہیں مگر اردو ادب میں آپ کی شناخت اپنے افسانوں کے بوتے پر ہے۔ موصوف کے افسانے اردو کے معیاری ادبی رسائل میں جگہ پا چکے ہیں۔ آپ ساجد رشید (مرحوم) کے جاری کردہ سہ ماہی ادبی مجلہ 'نیا ورق' کے مدیر بھی ہیں اور اس ضمن میں اپنی ذمہ داری بہ حسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔ ساجد صاحب کے بعد یوں لگتا تھا کہ رسالہ بند ہوجائے گا لیکن شاداب رشید نے بڑی ہمت، لگن اور جانفشانی کا مظاہرہ کیا اور رسالے کو دوبارہ ادب میں زندہ کر کے نہ صرف اپنے والد کو بہترین خراج تحسین پیش کیا ہے بلکہ ادب میں ایک قابل قدر رسالے کی آبیاری بھی کی ہے ـ
بہر حال افسانہ نگار کی حیثیت سے شاداب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ افسانہ کے فن سے بہ خوبی واقفیت رکھتے ہیں۔ زبان و بیان پر اور بالخصوص افسانے کی زبان پر خوب دسترس رکھتے ہیں۔ نئے موضوعات نہ سہی لیکن کسی بھی موضوع کو نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی اس کی تکنیک، اس کا ٹریٹمنٹ اور اس کے برتنے میں بھی خاص محنت کرتے ہیں۔ شاداب رشید کی کہانیوں کا ایک خاصہ یہ بھی ہے کہ وہ بے جا لفاظی نہیں کرتے اور اگر ان کی کہانی طویل ہو بھی تو وہ افسانے کے ساتھ ہی چلتے نظر آتے ہیں۔ زیر نظر افسانہ اس کی ایک مثال ہے ـ
افسانے کا موضوع کوئی نیا نہیں۔ ہم نے اس طرح کی کئی کہانیاں پڑھیں، فلموں میں دیکھی بھی ہیں، جو یقیناً ہمارے آس پاس ہی کی ہوتی ہیں۔ لیکن اس کہانی کی تکنیک کے حوالے سے شاداب رشید نے واقعی عمدہ فن کاری کا نمونہ پیش کیا ہے۔ ایک کہانی کو تین حصوں میں، تین کرداروں کے ذریعے بیان کرنا ایک تکنیک ہے جو نئی نہیں ہے۔ لیکن اس تکنیک میں کمال یہ ہے کہ کہانی کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ پڑھنے میں ایک کہانی کے تین مختلف شیڈس معلوم ہوتے ہیں یا پھر تین الگ الگ کہانیاں محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن ان کے تاثر میں ایکدم واضح وحدانیت ہے۔
بقیہ موضوع اور دیگر فنی لوازمات پر اوپر معززینِ بزم نے گفتگو کی دہرانا مقصود نہیں۔ لیکن جس طرح فکشن صرف موضوعات ہی پر قائم نہیں کیا جاسکتا اسی طرح اچھا فکشن صرف فن ہی پر بھی قائم نہیں ہوسکتا۔ موضوع کا انتخاب افسانہ نگار کا پہلا مرحلہ ہوتا ہے۔ یہیں سے اسے محتاط رہنا ضروری۔ گروپ کے سینیر اراکین کئی بار دہرا چکے ہیں کہ، "کیا لکھنا چاہیے سے زیادہ کیا لکھنا نہیں چاہیے، اہم ہوتا ہے ـ"
بہر کیف ایک خوب صورت زبان اور عمدہ تکنیک میں لکھے گئے افسانے پر شاداب رشید کو مبارک باد!
٭
رفیع حیدر انجم
ایک پرانے موضوع کو افسانہ نگار نے نئے تکنیک سے لکھنے کی کوشش کی ہے مگر تکرار خیال اور طوالت کی وجہ سے افسانہ تاثر انگیز نہیں ہو سکا. تین ذیلی عنوانات کا استعمال تین الگ الگ واقعات کی طرف توجہ مرکوز کراتے ہیں اور افسانے کا عنوان "ناقابل اعتراف " تجویز کرنے کا کوئی جواز نظر نہیں آتا. قاری البتہ یہ تاثر لے کر ضرور اٹھتا ہے کہ جلد بازی میں کیا گیا غیر منطقی فیصلہ پچھتاوے کا سبب بن کر رہ جاتا ہے.
٭
محمد قمر سلیم
افسانہ: نا قابل اعتراف، افسانہ نگار: شاداب رشید، تاثرات: محمد قمر سلیم شاداب رشید صاحب اچھے افسانے لکھ رہے ہیں لیکن مختلف تکنیک کے باوجود افسانہ 'نا قابل اعتراف' کوئی تاثر نہیں چھوڑ سکا۔افسانے میں رومانیت کا فقدان ہے۔ موضوع نیا نہیں ہے اس طرح کی کہانیاں بہت ہیں۔ حالانکہ افسانے کو تین ٹکڑوں میں بانٹنے سے ایسا محسوس ہوا کہ ڈرامے کے تین سین پیش کیے جارہے ہیں۔ افسانے میں کردار نگاری، منظر نگار اور جزیات نگاری سے ہی اپنی بات قاری تک پہنچانے میں بات ہی کچھ الگ ہوتی ہے۔ زبان و بیان اچھا ہے۔بزم میں افسانے کی شمولیت کے لیے شاداب رشید کو بہت بہت مبارکباد
٭
رخسانہ نازنین
افسانہ شاید اسلئے اس ایونٹ کے لئے منتخب کیا گیا کہ اس میں کاشف اور معروف نے نوشین سے محبت کی اور اسے اپنایا۔ پہلی محبت کا انجام تو طلاق تھا مگر دوسری محبت کا انجام جاننے کے لئے قاری متجسس ہی رہ گیا! اب رہی بات نوشین کی۔۔۔ شادی کے بعد اسکے دل کے کورے کاغذ پر کاشف کا ہی نام لکھا تھا۔ معروف کے لئے اسکے دل میں کوئی جگہ نہ تھی۔ ! ایک ایسا افسانہ جو قاری کے لئے تینوں کرداروں میں سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔
٭
رضوان الحق
ایک ہی واقعے کو جب ایک سے زیادہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ تو سب کا دیکھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے۔ اور ایک ہی واقعہ الگ الگ لوگوں کو مختلف نظر آنے لگتے ہے۔ بہت ممکن ہے سبھی لوگ سچ ہی بول رہے ہیں۔ یہ تکنیک نئی تو نہیں ہے لیکن پھر بھی اس افسانے میں اس تکنیک کی وجہ سے تازگی محسوس ہوت ہے۔ ویسے تو اس تکنیک میں کئی چیزیں پڑھی اور دیکھی ہیں لیکن اس تکنیک میں ماسٹر پیس جاپانی فلم ساز آکرا کرو ساوا کی فلم 'روشومن' ہے۔ شاداب رشید نے بھی اس افسانے میں اس تکنیک کو اچھے سے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کی تکنیک جذبات سے زیادہ فکر کو متحرک کرتی ہے۔
البتہ افسانے میں کہیں کہیں کردار نگاری کی خامیاں محسوس ہوئیں۔ اس لیے تکنیک بھی کہیں نہ کہیں متاثر ہوتی ہے۔ افسانہ نگار نے افسانوں کی بھیڑ میں ایک تازگی کا احساس کرایا۔
٭
رشید قاسمی
میرا خیال ہے کہ کسی بھی افسانہ پر بات ہو۔۔۔افسانہ نگار پر نہیں۔اگر یہ ضروری ہی لگے تو ابتدا میں ایڈمن تعارف پیش کردے۔ شاداب کے اس سے قبل بھی کچھ افسانے پیش ہو چکے ہیں۔طوالت پسند ہیں۔یقینن اس تحریر سے کچھ طوالت کم کی جا سکتی ہے۔ اس پورے افسانے کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔۔۔غصّہ۔ کہانی اسے ایک پیغام بھی سمجھا جائے تو غلط نہیں۔۔۔قوم۔۔بڑے مزے سے کہتی ہے غصّہ حرام ہے لیکن ہر شخص اپنے اندر غصّے کو پالتا ضرور ہے اور وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے! تین طلاق اور حلالہ پر سوشل میڈیا سے لیکر پارلیمان کے ایوان تک گرما گرم بحثیں برپا ہوئیں۔۔۔قوم۔۔کے ساتھ مذہب کو بھی خوب خوب نشانہ بنایا گیا۔۔ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کوئی اثر نہیں۔ یہ سوال بلکل صحیح کہ آخر سیتا سے آمنہ تک امتحان عورت ہی کیوں دے؟ ان سطروں سے قبل بڑی مفید آراء پیش کی جا چکی ہیں۔ایک سچّا واقعہ سن لیجیے
ہمارے شہر میں میاں بیوی کے درمیان طلاق واقع ہوگیا۔اس افسانہ ہی کی طرح مرد کو پچھتاوا ہوا ( لیکن عورت کو افسوس بھی۔) واقعی تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ معاملہ اسی حل کا متقاضی تھا۔۔حلالہ۔۔ہوا یہ کہ ایک مرد کا دل برسر روزگار عورت پر آ گیا اور دونوں نے بہ رضا و رغبت شادی کرلی۔ کچھ عرصہ بعد تعلقات بگڑے اور وہ دونوں طلاق کی منزل سے گذر گئے۔۔۔اب راستہ صاف تھا۔ ان دونوں نے پھر زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کر لیا! کچھ رکاوٹ کے کارن رکنا پڑا تھا۔۔۔آگے یہ ہوا کہ وہ برسر روزگاز خاتون اور انکے پہلے( اور دوسرے بھی!)میاں کی اچھی طرح نبھ رہی ہے۔۔ نا قابل اعتراف افسانہ کے لیے شاداب رشید کو بہت مبارکباد
٭
شہناز فاطمہ
افسانہ تو رومانی ہوتے ہوئے بھی "رومانٹک" نہیں لگا لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں یہ پیغام دیا گیا ہے وہ زندگی سدھارنے کے لئے بہت عمدہ ہے غصہ حرام ہے پتہ ہوتے ہوئے بھی اسطرح ہر شخص اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور پھر بعد میں پچھتاتا ہے لیکن بر وقت اپنے کو کنٹرول میں نہیں رکھ پاتا اور بغیر تحقیق کے وہ فیل انجام دے جاتا ہے جو زندگی کے لئے سم قاتل ثابت ہوتا ہے اس پورے افسانے میں یہی پوائنٹس بہت قابل غور ہیں کہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر تحقق کے بعد کوئی فیصلہ کرنا چاہئیے بیچاری "نوشین" تو بلا وجہ پس گءی
بہرحال اس نءے طرز پر لکھے گئے افسانے کے لئے نیک خواہشات قبول کریں جناب محترم شاداب رشید صاحب
تکنیک نءی تھی پڑھا بھی شوق سے مگر..........
٭
ایم۔ مبین
ایک ہی کہانی کو شاداب نے تین کرداروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہانی ایک ہی ہو اور کردار تین۔جب تینوں اس کہانی کو بیان کرینگے تو واقعات کی تکرار آئیگی اور کہانی بھی طویل ہو جائیگی۔بس اسی وجہ سے یہ کہانی کچھ طویل ہو گئی ہے۔افسانے میں جگہ جگہ شاداب کا باغیانہ انداز اور تیور ہے۔لیکن انہوں نے اُن تیور میں جو باتیں بیان کی ہیں عام سی ہیں اس لیے باغیانہ تیور اور طنزیہ انداز بھی قارئین پر کوئی اثر نہیں چھوڑ پاتے ہیں۔
اس تکنیک پر بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں۔لیکن اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے افسانہ نگار جب افسانے کو دوسرے کردار کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں تو کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں کردار کو نہیں۔جس کی وجہ سے افسانے میں تکرار کا رنگ نہیں آ پاتا ہے اور اور افسانہ طویل ہونے سے بچ جاتا ہے۔شاداب بھی اسی تکنیک کا استعمال کرتے تو افسانے کی بے جا طوالت سے بچ جاتے۔
پھر شاداب نے اس کہانی کا خاتمہ افسانوی انداز میں بھی نہیں کیا ہے۔جس کی توقع قارئین افسانہ پڑھتے ہوئے رکھتے ہیں۔
ویسے افسانے کا پلاٹ بننا اور اس کو پیش کرنے کے لیے جس تکنیک واقعات کردار زبان اور اسلوب کا انتخاب کرنا اور اس کو برتنا افسانہ نگار کا اپنا فطری رنگ ہوتا ہے اس لیے چاه کر بھی میں اس میں کوئی سجیشن نہیں دینا چاہوں گا۔
افسانہ قارئین کو پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔یہی افسانے اور شاداب کی کامیابی ہے۔
اچھے انداز کا افسانہ پیش کرنے کے لیے شاداب کو دلی مبارکباد
٭
شاداب رشید
معزز بزم افسانہ کے منتظمین اور سلام بھائی کا مشکور ہوں کہ انھوں نے میرا ایک اور افسانہ بزم میں پیش کر کے عزت بخشی۔
میں تمام تجزیہ نگاروں کا بھی ممنون و مشکور ہوں کے انھوں نے اتنے طویل (ناقابل برداشت حد تک طویل) افسانے کو برداشت کیا۔ 😌
تقریبآ بارہ تیرا سال پہلے پاکستانی رسالے 'آج' میں مصری ناول نگار یوسف القعید کا ناول "سرزمین مصر میں جنگ" پڑھا تھا، سوچا ایسا ہی ایک ناول لکھنا چاہیے (جب راقم ایک سطر بھی لکھنا نہیں جانتا تھا)، پھر جب افسانے لکھنے لگا تو لگا اسی تکنیک میں ایک افسانہ تحریر کیا جائے تو شروعات کردی لیکن افسانہ لکھتے لکھتے پسینے چھوٹ گئے، ایک ہی افسانے میں تین منفرد کردار کو لکھنا کتنا مشکل ہے یہ سمجھ میں آگیا۔۔۔ اسی بیچ عبدالصمد صاحب کا افسانوی مجموعہ "بہ قلم خود" شائع ہوا جس کا پہلا افسانہ "بہ قلم خود" اسی تکنیک میں لکھا پایا تو مایوسی ہوئی کہ مجھ سے پہلے صمد صاحب نے یہ کارنامہ کردیا، بس فرق اتنا تھا کہ ان کے افسانے میں دو راوی تھے اور میرے افسانے میں تین۔
بہرکیف افسانے پر بہت اچھے تجزیے آئے اور لوگوں نے جم کر لکھا۔ دیے گئے صلاح و مشوروں پر ضرور غور کروں گا، اس کے لیے شکریہ
بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ دنیا بہت بڑی ہے، اس میں ہر قسم اور ہر طرح کے لوگ بستے ہیں، جہاں جانے کتنی باتیں ناقابل یقین، ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہوتی ہیں لیکن ان باتوں کا اعتراف ہر کوئی نہیں کرتا۔۔۔
ایک بار پھر سب کا بہت بہت شکریہ صاحبان
شب بخیر
شاداب رشید
رخسانہ نازنین
افسانہ شاید اسلئے اس ایونٹ کے لئے منتخب کیا گیا کہ اس میں کاشف اور معروف نے نوشین سے محبت کی اور اسے اپنایا۔ پہلی محبت کا انجام تو طلاق تھا مگر دوسری محبت کا انجام جاننے کے لئے قاری متجسس ہی رہ گیا! اب رہی بات نوشین کی۔۔۔ شادی کے بعد اسکے دل کے کورے کاغذ پر کاشف کا ہی نام لکھا تھا۔ معروف کے لئے اسکے دل میں کوئی جگہ نہ تھی۔ ! ایک ایسا افسانہ جو قاری کے لئے تینوں کرداروں میں سوالیہ نشان چھوڑتا ہے۔
٭
رضوان الحق
ایک ہی واقعے کو جب ایک سے زیادہ لوگ بیان کرتے ہیں۔ تو سب کا دیکھنے کا طریقہ بدل جاتا ہے۔ اور ایک ہی واقعہ الگ الگ لوگوں کو مختلف نظر آنے لگتے ہے۔ بہت ممکن ہے سبھی لوگ سچ ہی بول رہے ہیں۔ یہ تکنیک نئی تو نہیں ہے لیکن پھر بھی اس افسانے میں اس تکنیک کی وجہ سے تازگی محسوس ہوت ہے۔ ویسے تو اس تکنیک میں کئی چیزیں پڑھی اور دیکھی ہیں لیکن اس تکنیک میں ماسٹر پیس جاپانی فلم ساز آکرا کرو ساوا کی فلم 'روشومن' ہے۔ شاداب رشید نے بھی اس افسانے میں اس تکنیک کو اچھے سے استعمال کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طرح کی تکنیک جذبات سے زیادہ فکر کو متحرک کرتی ہے۔
البتہ افسانے میں کہیں کہیں کردار نگاری کی خامیاں محسوس ہوئیں۔ اس لیے تکنیک بھی کہیں نہ کہیں متاثر ہوتی ہے۔ افسانہ نگار نے افسانوں کی بھیڑ میں ایک تازگی کا احساس کرایا۔
٭
رشید قاسمی
میرا خیال ہے کہ کسی بھی افسانہ پر بات ہو۔۔۔افسانہ نگار پر نہیں۔اگر یہ ضروری ہی لگے تو ابتدا میں ایڈمن تعارف پیش کردے۔ شاداب کے اس سے قبل بھی کچھ افسانے پیش ہو چکے ہیں۔طوالت پسند ہیں۔یقینن اس تحریر سے کچھ طوالت کم کی جا سکتی ہے۔ اس پورے افسانے کا ایک مرکزی نکتہ ہے۔۔۔غصّہ۔ کہانی اسے ایک پیغام بھی سمجھا جائے تو غلط نہیں۔۔۔قوم۔۔بڑے مزے سے کہتی ہے غصّہ حرام ہے لیکن ہر شخص اپنے اندر غصّے کو پالتا ضرور ہے اور وہی کرتا ہے جو وہ چاہتا ہے! تین طلاق اور حلالہ پر سوشل میڈیا سے لیکر پارلیمان کے ایوان تک گرما گرم بحثیں برپا ہوئیں۔۔۔قوم۔۔کے ساتھ مذہب کو بھی خوب خوب نشانہ بنایا گیا۔۔ ہمارے معاشرتی ڈھانچے کوئی اثر نہیں۔ یہ سوال بلکل صحیح کہ آخر سیتا سے آمنہ تک امتحان عورت ہی کیوں دے؟ ان سطروں سے قبل بڑی مفید آراء پیش کی جا چکی ہیں۔ایک سچّا واقعہ سن لیجیے
ہمارے شہر میں میاں بیوی کے درمیان طلاق واقع ہوگیا۔اس افسانہ ہی کی طرح مرد کو پچھتاوا ہوا ( لیکن عورت کو افسوس بھی۔) واقعی تیر تو کمان سے نکل چکا تھا۔ معاملہ اسی حل کا متقاضی تھا۔۔حلالہ۔۔ہوا یہ کہ ایک مرد کا دل برسر روزگار عورت پر آ گیا اور دونوں نے بہ رضا و رغبت شادی کرلی۔ کچھ عرصہ بعد تعلقات بگڑے اور وہ دونوں طلاق کی منزل سے گذر گئے۔۔۔اب راستہ صاف تھا۔ ان دونوں نے پھر زندگی بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ کر لیا! کچھ رکاوٹ کے کارن رکنا پڑا تھا۔۔۔آگے یہ ہوا کہ وہ برسر روزگاز خاتون اور انکے پہلے( اور دوسرے بھی!)میاں کی اچھی طرح نبھ رہی ہے۔۔ نا قابل اعتراف افسانہ کے لیے شاداب رشید کو بہت مبارکباد
٭
شہناز فاطمہ
افسانہ تو رومانی ہوتے ہوئے بھی "رومانٹک" نہیں لگا لیکن اگر غور کیا جائے تو اس میں یہ پیغام دیا گیا ہے وہ زندگی سدھارنے کے لئے بہت عمدہ ہے غصہ حرام ہے پتہ ہوتے ہوئے بھی اسطرح ہر شخص اپنے آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور پھر بعد میں پچھتاتا ہے لیکن بر وقت اپنے کو کنٹرول میں نہیں رکھ پاتا اور بغیر تحقیق کے وہ فیل انجام دے جاتا ہے جو زندگی کے لئے سم قاتل ثابت ہوتا ہے اس پورے افسانے میں یہی پوائنٹس بہت قابل غور ہیں کہ ہمیشہ سوچ سمجھ کر تحقق کے بعد کوئی فیصلہ کرنا چاہئیے بیچاری "نوشین" تو بلا وجہ پس گءی
بہرحال اس نءے طرز پر لکھے گئے افسانے کے لئے نیک خواہشات قبول کریں جناب محترم شاداب رشید صاحب
تکنیک نءی تھی پڑھا بھی شوق سے مگر..........
٭
ایم۔ مبین
ایک ہی کہانی کو شاداب نے تین کرداروں کے ذریعے بیان کیا ہے۔ظاہر سی بات ہے کہانی ایک ہی ہو اور کردار تین۔جب تینوں اس کہانی کو بیان کرینگے تو واقعات کی تکرار آئیگی اور کہانی بھی طویل ہو جائیگی۔بس اسی وجہ سے یہ کہانی کچھ طویل ہو گئی ہے۔افسانے میں جگہ جگہ شاداب کا باغیانہ انداز اور تیور ہے۔لیکن انہوں نے اُن تیور میں جو باتیں بیان کی ہیں عام سی ہیں اس لیے باغیانہ تیور اور طنزیہ انداز بھی قارئین پر کوئی اثر نہیں چھوڑ پاتے ہیں۔
اس تکنیک پر بہت سے افسانے لکھے گئے ہیں۔لیکن اس تکنیک کا استعمال کرتے ہوئے افسانہ نگار جب افسانے کو دوسرے کردار کے ذریعے آگے بڑھاتے ہیں تو کہانی کو آگے بڑھاتے ہیں کردار کو نہیں۔جس کی وجہ سے افسانے میں تکرار کا رنگ نہیں آ پاتا ہے اور اور افسانہ طویل ہونے سے بچ جاتا ہے۔شاداب بھی اسی تکنیک کا استعمال کرتے تو افسانے کی بے جا طوالت سے بچ جاتے۔
پھر شاداب نے اس کہانی کا خاتمہ افسانوی انداز میں بھی نہیں کیا ہے۔جس کی توقع قارئین افسانہ پڑھتے ہوئے رکھتے ہیں۔
ویسے افسانے کا پلاٹ بننا اور اس کو پیش کرنے کے لیے جس تکنیک واقعات کردار زبان اور اسلوب کا انتخاب کرنا اور اس کو برتنا افسانہ نگار کا اپنا فطری رنگ ہوتا ہے اس لیے چاه کر بھی میں اس میں کوئی سجیشن نہیں دینا چاہوں گا۔
افسانہ قارئین کو پڑھنے کے لیے مجبور کرتا ہے۔یہی افسانے اور شاداب کی کامیابی ہے۔
اچھے انداز کا افسانہ پیش کرنے کے لیے شاداب کو دلی مبارکباد
٭
شاداب رشید
معزز بزم افسانہ کے منتظمین اور سلام بھائی کا مشکور ہوں کہ انھوں نے میرا ایک اور افسانہ بزم میں پیش کر کے عزت بخشی۔
میں تمام تجزیہ نگاروں کا بھی ممنون و مشکور ہوں کے انھوں نے اتنے طویل (ناقابل برداشت حد تک طویل) افسانے کو برداشت کیا۔ 😌
تقریبآ بارہ تیرا سال پہلے پاکستانی رسالے 'آج' میں مصری ناول نگار یوسف القعید کا ناول "سرزمین مصر میں جنگ" پڑھا تھا، سوچا ایسا ہی ایک ناول لکھنا چاہیے (جب راقم ایک سطر بھی لکھنا نہیں جانتا تھا)، پھر جب افسانے لکھنے لگا تو لگا اسی تکنیک میں ایک افسانہ تحریر کیا جائے تو شروعات کردی لیکن افسانہ لکھتے لکھتے پسینے چھوٹ گئے، ایک ہی افسانے میں تین منفرد کردار کو لکھنا کتنا مشکل ہے یہ سمجھ میں آگیا۔۔۔ اسی بیچ عبدالصمد صاحب کا افسانوی مجموعہ "بہ قلم خود" شائع ہوا جس کا پہلا افسانہ "بہ قلم خود" اسی تکنیک میں لکھا پایا تو مایوسی ہوئی کہ مجھ سے پہلے صمد صاحب نے یہ کارنامہ کردیا، بس فرق اتنا تھا کہ ان کے افسانے میں دو راوی تھے اور میرے افسانے میں تین۔
بہرکیف افسانے پر بہت اچھے تجزیے آئے اور لوگوں نے جم کر لکھا۔ دیے گئے صلاح و مشوروں پر ضرور غور کروں گا، اس کے لیے شکریہ
بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ دنیا بہت بڑی ہے، اس میں ہر قسم اور ہر طرح کے لوگ بستے ہیں، جہاں جانے کتنی باتیں ناقابل یقین، ناقابل برداشت اور ناقابل معافی ہوتی ہیں لیکن ان باتوں کا اعتراف ہر کوئی نہیں کرتا۔۔۔
ایک بار پھر سب کا بہت بہت شکریہ صاحبان
شب بخیر
شاداب رشید
1 Comments
الفاظ ہند أن لائن کی اچھی ادبی کوشش۔ادب کی دنیا میں بڑا کام
ReplyDeleteیو زارسف یر مغان