تعلیم و تربیت اور نصابی کتب میں شعری ذوق کی اہمیت اور ڈاکٹر عائشہ سمن کی بیت بازی کی کتابیں
✍️ریحان کوثر
یہ ایک عام تجربہ ہے اور تجرباتی طور پر اچھی طرح ثابت ہے کہ شاعری ہمیں جذباتی طور پر نہایت موثر اور مثبت انداز میں اپنے ذوق کے ساتھ مشغول کر سکتی ہے۔ سائیکو فزیالوجی، نیورو امیجنگ اور انسانی رویوں کے ردعمل کا استعمال کرتے ہوئے ہم یہ ظاہر کرتے ہیں کہ پڑھی گئی شاعری اعلیٰ سطحی جذباتی ردعمل کو حاصل کرنے کے لیے ایک طاقتور محرک کے طور پر کام کر سکتی ہے۔ شاعری کے لیے ہمارے یہ ردعمل زیادہ تر موسیقی سے ملتے جلتے ہیں، لیکن ان کی اعصابی بنیادیں بنیادی فرق ظاہر کرتی ہیں، خاص طور پر نیوکلئس ایکمبنس کے اہم کردار کے حوالے سے یہ بات ثابت ہے۔ اعلیٰ جمالیاتی حظ اور لطف اندوزی منفی اثرات کے جسمانی نشانات کے ساتھ مل سکتی ہے۔مختلف مطالعات و تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ شاعری دماغ کے اس حصے کے محرکات کا سبب بنتی ہے جو دن میں خواب دیکھنے کے دوران متحرک ہوتا ہے جب کہ شاعری پڑھتے یا سنتے وقت اس حصے پر روشنی ڈالتی ہے۔ شاعری اکثر قاری کے دل و دماغ کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہے، جس کی وجہ سے ہمارا دماغ دوبارہ پڑھنے اور الفاظ کو حفظ کرنے کی ترغیب پاتا ہے ۔ شاعرانہ الفاظ غیر شاعرانہ الفاظ کے مقابلے یاد کرنے میں زیادہ آسان ہوتے ہیں اور یہ کسی شخص کی یادداشت کو بہتر بنانے اور دیگر معلومات کو یاد رکھنے کے لیے اسے زیادہ قابل قبول بنانے میں مدد کر سکتے ہیں!
شاعری الفاظ کے معنی اور آواز کو زبان کی حدود میں دھکیلتی ہے اور اسکینز سے پتہ چلتا ہے کہ ان تمام لسانی ایکروبیٹکس کو پروسیس کرنے کی کوشش میں ہمارے دماغ کی فعالیت عروج پر ہوتی ہے جو ہماری مجموعی علمی و فکری صحت کو مضبوط کرتی ہے۔ ایک خاص مطالعہ میں شیکسپیئر، ورڈز ورتھ اور دیگر شعراء کی نظمیں لی گئیں اور قارئین سے کہا گیا کہ وہ انہیں دو شکلوں میں پڑھیں: اصل اور ایک دوسرا ورژن جو وضاحت کے لیے دوبارہ لکھا گیا تھا مثلاً تشریحات اور تفسیر وغیرہ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ نظموں کے زیادہ پیچیدہ ورژن نے دماغ کے مرکز میں زیادہ ڈرامائی ردعمل پیدا کیا۔ یہ نظم یا اس کے موضوع کے ساتھ ذاتی تاریخ کا اشارہ ہو سکتا ہے، یا یہ اس بات کی نشاندھی کر سکتا ہے کہ شاعری میں صرف اپنی ذات کی عکاسی اور خود شناسی کی حوصلہ افزائی کا عمومی رجحان موجود ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ شاعری انعام، جذبات اور یادداشت سے منسلک دماغ کے حصوں کو متحرک کرتی ہے، مجموعی علمی صحت کو مضبوط کرتی ہے اور اپنی ذات کی عکاسی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ تو کیوں نہ ہم شاعری کو اپنی زندگیوں میں مزید متحرکہ طور پر شامل کرنے اور اسے استعمال کرنے کا موقع حاصل کریں اور شاید اس سے ہم کچھ علمی فوائد بھی حاصل کرسکیں۔
ہم میں سے کچھ لوگ اکثر شاعری پڑھتے ہیں۔ دوسروں کے لیے یہ صرف خشک نصابی کتب کی یاد دہانی یا عذابِ ماضی کے طور پر سامنے آتی ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم اسے مزید قابل رسائی کیسے بنا سکتے ہیں؟
سب سے پہلے ہم اپنے آپ کو یاد دلا سکتے ہیں کہ ہمیں ہر وقت فلمی نغموں کے بول اور گریٹنگ کارڈز جیسی چیزوں میں شاعری کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ہم ان جیسے دیگر خیالات کو بھی زیادہ فعال طریقے سے آگے بڑھا سکتے ہیں۔
غیر معمولی قابلیت کے حامل تمام ادبی کام ایسے اشخاص نے انجام دیے ہیں جو گہرے احساسات کے اہل ہیں اور نظموں اور غزلوں کے ذریعے اپنے جذبات کا خوبصورتی سے اظہار کرتے ہیں۔ ہم سب آپس میں ایک جذباتی رشتے سے جڑے ہوئے ہیں جو ہمیں انسانیت کے رشتوں سے جوڑتا ہے۔
ہم ایک جیسے ہیں کیونکہ ہم ایک جیسی خوشیوں اور غموں کے لمحات سے گزرتے ہیں، ایک ہی قسم کے وہم اور ایک ہی قسم کی مایوسی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔ زندگی کا اعلیٰ قانون ہمیں ایک دوسرے کے برابر لا کھڑا کرتا ہے اور کم و بیش ہم سب خوشی اور افسردگی، اداسی، امید اور مایوسی جیسے جذبات سے گزرتے ہیں۔
شاعر اور فلسفی انسان کی زندگی کے پیچیدہ لمحات کو بیان کرنے کی طاقت رکھتے ہیں۔ شاعر اپنے جذبات کو نظم اور غزل میں تصوراتی طور پر ڈھالنے اور روح کی گہرائی کی کیفیت اور حرکات کی وضاحت کرنے کی طاقت و قوت رکھتے ہیں۔ اسی طرح وہ جذبات کو ایک ٹھوس زبان میں ڈھالنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتے ہیں جو انسانی روح کی انہی پیچیدہ اور لطیف حقیقتوں کو ظاہر کرتی ہے۔
اس طرح، یہ صرف خوشی ہی نہیں ہے جسے شاعر اپنی نظموں میں بیان کر سکتے ہیں، بلکہ غم، مایوسی، کرب، درد، شک، نفرت، محبت، ہمدردی، تمنا، تعریف، ایمان، تعظیم اور امید غرض وہ ان تمام احساسات اور جذبات کا اظہار بھی کر سکتے ہیں جو عام طور پر انسان کی روح میں اپنا مقام بنائے رکھتے ہیں۔
بڑا شاعر وہ ہے جو ہمیں ناانصافی پر غصے کی حالت میں لانے پر قادر ہو اور وہ شاعر بھی جو پھول کی خوشبو سے حاصل ہونے والی ہلکی سی لذت پر لرزہ براندام ہو جائے۔ ایک عظیم شاعر وہ ہے جو ہماری روح کی گہرائیوں تک رسائی حاصل کر سکتا ہو پوشیدہ احساسات کی ترجمانی کرنا جانتا ہو، تاکہ بعد میں ان کا صحیح، مناسب، ٹھوس اور ساتھ ہی ہمہ گیر یا آفاقی اور قیمتی الفاظ میں اظہار کر سکے۔
اس طرح کے احساسات دنیا بھر کے نامور شاعروں کی لکھی ہوئی نظموں اور غزلوں کی ایک وسیع دنیا پر مشتمل ہیں۔ کام کے اس حصے میں شائع ہونے والی بے شمار نظموں سے گزرنا انسانی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ان میں اظہار اور بیدار ہونے والے احساسات مسلسل تغیر پذیر ہوتے ہیں۔ لیکن شاعری کا اعجاز یہی ہے کہ یہ عین اس موضوع کی قابلِ تحسین افادیت پر مشتمل ہے جو اس طرح کے متنوع جذبات کے اظہار کا باعث بنتا ہے۔ شاعری ہمیں کسی فاتح سپاہی یا کسی نامہ نگار کے جنون کی پرجوش مسرت، جوان بیٹے کو کھونے والے باپ کے گہرے غم یا اپنے وطن کی محبوب حدود سے نکل جانے والے جلاوطنی شخص کی کیفیت کو محسوس کرنے پر مجبور کرتی ہے کیونکہ شاعری فلسفے کی طرح عکاس ذہانت کا کام نہیں ہے، جو تصورات کو استعمال کرتی ہے، بلکہ اس کے برعکس، یہ تخلیقی خیال انگیزی کی کیفیت ہے، جو انسانی جذبات کی گہرائی اور گیرائی کا اظہار کرتی ہے۔ شاعری ایک ایسا وسیلہ ہے جس کے ذریعے انسانی جذبات کا اظہار انتہائی وضاحت اور تشریح کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ شاعری محبت کرنے والوں کے جذبات کو لفظوں میں بیان کرتی ہے۔
ڈکشن کسی بھی شاعرانہ کلام کا لازمی حصہ ہے۔ آپ کے منتخب کردہ الفاظ قارئین کے دل و دماغ پر گہرا اثر ڈالتے ہیں۔ الفاظ لغوی معنی سے زیادہ، ایک ایسا گہرا مفہوم رکھتے ہیں جسے شاعروں نے سامعین کے گہرے جذباتی ردعمل کو بھڑکانے کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا ہے۔ لہٰذا، یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ شاعری کا مقصد احساسات اور جذبات کو بہترین انداز میں پہنچانا ہوتا ہے اور قارئین کے جذبات اور لطف اندوزی کی انتہا کو ابھارنا ہوتا ہے۔
اب اگر ہم ہماری قوم و ملت کے نونہالوں کی تعلیم و تربیت اور ان کے نصاب اور شاعری کے درمیان تعلق اور رشتے کی بات کریں تو اساتذہ کی دو اقسام نظر آتی ہیں: پہلی قسم میں وہ اساتذہ شامل ہیں جو شاعری سے شغف رکھتے ہیں اور اسے آزادانہ طور پر کلاس روم میں پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے۔
دوسری قسم کے اساتذہ کا موقف اور خیال ہے کہ شاعری تعلیم و تربیت کے لیے ضروری نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک شاعری، نصاب سے مطابقت نہیں رکھتی۔ ہو سکتا ہے کہ ان اساتذہ کی خود شاعری سے کوئی ذہنی مطابقت نہ ہو۔ یا وہ خود شاعری سے لطف اندوز نہ ہوتے ہوں، اور یہ اسباب انھیں شاعری کو کمرۂ جماعت میں متعارف کرانے سے روکتے ہوں؟
بیشک! شاعری کو ہمارے یہاں تعلیمی نصاب میں بہتر اور امتیازی مقام حاصل ہے۔ اسے پڑھنے، لکھنے اور زبان کے اسباق کے حصے کے طور پر پڑھایا جا سکتا ہےاور شاعری کو کلاس روم کے تھیمز، پروجیکٹس اور تقریبات میں آسانی سے شامل کیا جاسکتا ہے۔ یہ سرگرمی بچوں کے مطالعے میں اضافی قدروں کا اضافہ کر سکتی ہے۔ زبان اور فنون کے اسباق کو تقویت دینے کے لیے ہفتے میں ایک دن شاعری کی سرگرمیوں کو آسانی سے نافذ کیا جا سکتا ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کی روشنی میں متوقع نصاب کی تشکیل پر نظر ڈالیں تو اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ ہفتے میں ایک دن بیت بازی جیسے موضوعات کو ترجیح دی جائے گی جو وقت کی ضرورت بھی ہے۔
بچوں کو متنوع متن پڑھنے کی تربیت میں شاعری اہم کردار ادا کرتی ہے۔ شاعری کی انوکھی بات یہ ہے کہ بچے اکثر اسے اونچی آواز میں پڑھتے ہیں، اسے دہراتے ہیں اور اجتماعی طور پر اسے پیش کرتے ہیں۔ جب بچے زبانی اشعار سن رہے ہوتے ہیں تو وہ دراصل اپنی سننے کی صلاحیتیں کو مضبوط بنا رہے ہوتے ہیں۔ وہ ان الفاظ پر توجہ دینا سیکھتے ہیں جو وہ سنتے ہیں اور غور کرتے ہیں کہ ان الفاظ کا مجموعی مفہوم کیا ہو سکتا ہے۔ کلاس روم میں نظمیں یا اشعار پڑھتے وقت ان کا مشاہدہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ بچے اپنی پڑھنے کی مہارت کو مضبوط کر رہے ہوتے ہیں اور بار بار پڑھنے سے ان کی زبان میں روانی پیدا ہو رہی ہوتی ہے۔ جب بچے تحریری طور پر اشعار دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اور بلند آواز میں کہتے ہیں تب اس کا ایک ایک لفظ دماغ کے لیے محرک کا کام انجام دیتا ہے ۔ بچے نظموں میں موجود تال کی بنیاد پر نظمیں سننا شروع کر دیتے ہیں۔
ایک انگریز ماہر تعلیم ریچل کلارک کا کہنا ہے کہ "بطور استاد جب ہم بچوں کے ساتھ شاعری کا تجربہ کرتے ہیں تو ہم دراصل مثال یا نظیر پیش کرتے ہیں کہ اسے کیسے پڑھا جائے، کیسے اس سے واقفیت پیدا کی جائے، اور بچوں کے مطالعاتی افق کو کیسے وسیع کیا جائے ۔"
دورِ جدید میں اردو دنیا بالخصوص ہندوستان میں شعری ذوق کے ذریعے بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنے، ان کی شعور و آگہی کی سطح میں اضافہ کرنے اور طلبہ و طالبات کو مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے مشن میں کئی سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں کوشاں ہیں۔ ان میں ایک اہم نام ڈاکٹر عائشہ سمن صاحبہ کا ہے جو کئی تنظیموں کا کردار تن تنہا انجام دے رہی ہیں۔ ہندوستان کی معاشی راج دھانی ممبئی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عائشہ سمن بذات خود کسی انجمن سے کم نہیں ہیں ۔ آپ نے بیت بازی مقابلہ جاتی امتحانات کے تعلق سے جتنا کام کیا ہے وہ قابل ذکر اور صوبہ مہاراشٹر کے لیے قابلِ فخر ہے۔ اس ضمن میں آپ نے جو کام کیا ہے اس کے لیے وہ بیشک گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ کی مستحق ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ سمن نے یکم جون 1964ء میں شہر مالیگاؤں میں آنکھیں کھولیں۔ آپ درس و تدریس سے وابستہ رہیں اور انجمن اسلام اکبر پیر بھائی کالج آف کامرس اینڈ اکنامکس، ایم۔ ایس۔علی روڈ، دوٹانکی، ممبئی میں بطور معلمہ تدریسی خدمات انجام دیں۔ گزشتہ سال سبکدوشی کے بعد تن من دھن سے بیت بازی کے فروغ و ترویج کے مشن میں جٹ گئیں۔ ممبئی، مالیگاؤں اور بھیونڈی کی مختلف تنظیموں اور اداروں کے ساتھ آپ نے بے شمار بیت بازی کے مقابلوں میں شرکت کی اور کئی مقابلوں کی ممتحن اور منتظم بھی رہیں۔
عصر حاضر میں آپ کا شمار ہندوستان کی معتبر و معروف شاعرات میں ہوتا ہے۔ آپ باکمال معلمہ ہونے کے ساتھ ساتھ قابل اور ذہین شاعرہ بھی ہیں۔ 2010ء میں آپ کا شعری مجموعہ ’نقرئی کنگن بول اٹھے‘ منظر عام پر آکر خوب داد وتحسین حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ آپ نے انور خان کی شخصیت اور فن پر قابلِ قدر کام کیا اور اس موضوع پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ نے ادبِ اطفال میں بھی خوب نام کمایا۔ بچوں کے لیے لکھی گئی نظموں کا خوبصورت مجموعہ ’بچپن: دھنک رنگ سا‘ گزشتہ سال منظر عام پر آیا۔ اسی طرح کئی برسوں سے آپ نے مہاراشٹر اسٹیٹ بورڈ سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری اور بال بھارتی لسانی کمیٹی کی کتابوں کی تیاری کے لیے اپنی خدمات پیش کی ہیں اور یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
گویا آپ نے نونہالان قوم و ملت کی تعلیم و تربیت کو ہی اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت آپ کی بیت بازی سیریز کی کتابیں ہیں اور ان ساری کتابوں کے لیے آپ کو اردو ادب میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ آپ کی بیت بازی سے متعلق اب تک تین کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ تقریباً ہزار صفحات پر مشتمل ایک شاہکار کتاب ’شعرستان‘ 2019ء میں شائع ہوئی جس کی ساری کاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں ۔ ’شعرستان‘ ہندوستان کی اپنی نوعیت کی اولیں کتاب ہے جسے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کا مالی تعاون حاصل ہوا۔ اس کے بعد 2020ء میں ایک اور ضخیم کتاب ’حرف حرف آئینہ‘ آپ نے شائع کی جو 368 صفحات پر مشتمل ہے۔ اسی طرح 2021ء میں آپ کی تیسری کتاب "لفظ سے شعر تک" منظر عام پر آئی جو 256 صفحات پر مشتمل ہے۔
ان کتابوں کے ذریعے آپ نے حرف راؤنڈ، جس میں حروف ف تہجی کے اعتبار سے ہزاروں اشعار کا ذخیرہ جمع کیا اور شائع کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد لفظ راؤنڈ، کچھ ہم کہیں کچھ تم کہو(شعر مکمل کرو) اور تخلص راؤنڈ کے تحت محمد قلی قطب شاہ معاؔنی،غلام ہمدانی مصحفیؔ امروہوی، مرزا اسداللہ خاں غالبؔ، مرزا داغؔ دہلوی، مولانا الطاف حسین حالیؔ، سید فضل الحسن حسرت ؔ موہانی، اکبرؔ الٰہ آبادی، ڈاکٹرعلاّمہ اقبال، فاؔنی بدایونی، علی سکندرجگرؔ مرادآبادی، جوشؔ ملیح آبادی، فراقؔ گورکھپوری، احمد فرازؔ، اصغرؔ گونڈوی، محمد مصطفیٰ اثرؔ صدیقی، ڈاکٹر عائشہ سمؔن جیسے شعرا کے خوبصورت اشعار کا ذخیرہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ زیر ِ نظر آپ کی بیت بازی سیریز کی چوتھی کتاب "متاعِ بیت بازی" میں آپ نے شاعر راؤنڈ کے تحت امیر خسروؔ،محمد قلی قطب شاہ معاؔنی، ولی محمد ولی ؔ، شاہ مبارک آبروؔ، مظہر مرزا جانِ جاناںؔ، مرزا محمد رفیع سوداؔ، خواجہ میر دردؔ، میر تقی میر ؔؔ، ولی محمد نظیرؔ اکبرآبادی،غلام ہمدانی مصحؔفی امروہوی، انشاء اللہ خان انشاءؔ، بہادر شاہ ظفر ؔؔ، حیدر علی آتشؔ، شیخ محمد ابراہیم ذوقؔ دہلوی، مرزا اسداللہ خاں غالبؔ، حکیم مومن خان مومنؔ، پنڈت دیا شنکر نسیمؔ لکھنوی، امیر ؔمینائی، داغؔؔ دہلوی، الطاف حسین حالی ؔؔ سید اکبر حسین اکبؔرالٰہ آبادی، سید علی محمد شادؔ عظیم آبادی، مضطرؔ خیر آبادی، ڈاکٹر سر محمد اقبؔال، سید فضل الحسن حسرتؔ موہانی، اصغر حسین اصؔغرگونڈوی، واجد حسین یاسؔ یگانہ، محمد شوکت علی خاں، علی سکندرجگرؔ مرادآبادی، فراؔق گورکھپوری، جوؔش ملیح آبادی، حفیظؔ جالندھری، اخترؔ شیرانی، مخدوؔم محی الدین، ن م راشدؔ، اسرارالحق مجازؔ، فیض احمد فیضؔ، معین احسن جذبیؔ، احسان دانشؔ، شکیل ؔبدایونی، احمد ندؔیم قاسمی، قتیلؔ شفائی، مجروحؔ سلطان پوری، ساحرؔ لدھیانوی، عتیق احمد عتیق، ادا ؔجعفری، کالی داس گپتا رضاؔ، ناصؔر کاظمی، ابن انشؔاء، حبیب جالؔب، دلاور فگاؔر، احمد فراؔز، جوؔن ایلیا، شکیبؔ جلالی، بشیر بدر، مدحتؔ الاختر، ظفرؔ گورکھپوری، بشرؔ نواز، ندؔا فاضلی، وسیمؔ بریلوی، افتخاؔر عارف، کشور ناہیدؔ، انتظار نعیم ؔ، رفیعہ شبنم عابدی، فہمیدہ ریاض، اثرؔ صدیقی، راحتؔ اندوری، انصاری مشیر احمد، پروؔین شاکر، ڈاکٹر ذکی طارق، شمیم طارؔق، شہناز شازی، نعیمہ امتیاز، ڈاکٹر قاسم امامؔ، قاؔسم ندیم، عائشہ سمنؔ، ممتاز ؔنازاں، یوسف دیوان، عبید اعظم اعظمی، خان حسنین عاقبؔ، ڈاکٹر ذاکر خان ذاکرؔ، قمر صدیقی اور ریحان کوثر، شعرا کے منتخب کلام کو شامل کیا ہے۔ اسی کے ساتھ تکرار راؤنڈ، طنز و مزاح، منظر راؤنڈ، دوہا راؤنڈ اور صنائع و بدائع راؤنڈ کے تحت منتخب اشعار کا خزانہ پیش کیا ہے۔
اس اعتبار سے میں بڑی ذمہ داری سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے بیت بازی مقابلوں کے لیے نہ صرف اشعار کا ذخیرہ کیا بلکہ ان مقابلوں کے لیے ایک قسم کا نصاب تیار کر دیا ہے جس کے لیے اردو ادب اور تعلیم کی تاریخ میں آپ کا نام آبِ زر سے لکھا جائے گا۔
0 Comments