Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ نمبر 10 | اے دلِ ناداں | ایم مبین

بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے)
افسانہ نمبر: 10
اے دل ناداں
ایم مبین

میسی مجھے جے پور سے پشکر جانے والے ٹورسٹ بس میں ملا تھا۔
میں اکیلا ہی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس وقت وہ تینوں بس میں داخل ہوئے۔ ایک خوبصورت غیر ملکی لڑکی اور ۲ نو جوان انگریز۔ 
لڑکی اور اس کا ایک ساتھی تو دوسری سیٹ پر جا کر بیٹھ گئے، وہ آکر میرے بازو والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔
میں نے اس کی طرف مسکرا کر دیکھا تو اس نے بھی زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا۔ 
’’یو آر فرام ؟ ‘‘ میں نے سوال کیا۔ 
'اسپین ! "اس نے جواب دیا۔ ’’ میرا نام کرسٹیا نو میسی ہے وہ لڑکی میرے ساتھ اسپین سے آئی ہے اس کا نام گریٹا ازیبلا ہے اور اس کے ساتھ جو لڑکا بیٹھا ہے وہ امریکن ہے روجرفیڈر ؟‘‘
لڑکی اس کے ساتھ اسپین سے آئی تھی اور اب امریکن کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اس بات نے مجھے چونکا دیا۔ میں نے غور سے اس کا چہرہ دیکھا مگر اس کا چہرہ سپا ٹ تھا اور وہ سامنے دیکھ رہا تھا۔ میں نے لڑکی کی طرف نظر ڈالی روجر نے اسے بانہوں میں لے رکھا تھا اور وہ اس کے کاندھے پر سر رکھے اپنی زبان اس کے کان پر پھیر رہی تھی۔ 
غیر ملکیوں کے لیے اس طرح کی حرکتیں عام سی بات ہوتی ہیں۔ اب ہم ہندوستانیوں کو بھی اس طرح کی حرکتوں میں کوئی کشش محسوس نہیں ہو تی ہیں بلکہ ہمارے نو جوان تو آج کل ان سے بھی چار قدم آگے ہیں۔ 
روجر اور گریٹا آپس میں ہنسی مذاق کر رہے تھے۔ مذاق کرتے کرتے وہ ایک دوسرے کو چوم لیتے تھے۔ ان کی یہ حرکتیں بس کے دوسرے مسافروں کی توجہ کا مرکز بن رہی تھی۔ 
لیکن میسی کو ان کی ان حرکتوں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ بدستور ان کی طرف سے بے نیاز سامنے خلاء میں گھورے جا رہا تھا۔ 
یا تو وہ دانستہ ان کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا یا پھر وہ انھیں ان کی حرکتوں کو دیکھنا نہیں چاہتا تھا۔ 
اس کا چہرہ سپاٹ تھا مگر چہرے پر ایک عجیب طرح کی اداسی تھی۔
’’تم نے کہا گریٹا تمہارے ساتھ اسپین سے آئی ہے ؟‘‘ 
’’ ہاں۔۔۔ ہم دونوں ایک ساتھ ایک آفس میں کام کرتے ہیں۔ ہم نے چھٹیوں میں انڈیا کی سیر کرنے کا منصوبہ بنایا تھا اور ہم ہر مہینہ اس کے لیے پیسہ بچایا کرتے تھے جب ہمیں محسوس ہوا کافی پیسے جمع ہو گئے ہیں تو ہم نے دفتر سے ایک مہینہ کی چھٹی لی اور انڈیا آگئے۔ ‘‘ 
اس کی اس بات نے مجھے اور الجھن میں ڈال دیا تھا۔ 
دونوں اسپین سے ساتھ آئے تھے اور انڈیا کی سیر کے لیے برسوں سے ایک ساتھ پیسہ جمع کر رہے تھے لیکن بات سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے اور گریٹا کے کیا تعلقات ہیں۔ 
لیکن اس وقت گریٹا روجر کے ساتھ تھی جبکہ اسے میسی کے ساتھ ہونا چاہیے تھا۔ 
مگر وہ جس طرح کی حرکتیں روجر کے ساتھ کر رہی تھی اس سے تو ایسا ظاہر ہورہا تھا جیسے وہ برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے یں۔ ایک دوسرے کو بے انتہا پیار کرتے ہیں یا پھر ایک دوسرے سے گہرا پیار کرنے والے میاں بیوی ہیں۔ 
’’ کیا گریٹا اور روجر ایک دوسرے کو پہلے سے جانتے ہیں ؟‘‘ اس نے پوچھا۔ 
’’ نہیں ‘‘ میسی جواب دیا۔ ’’ گریٹا کو روجر آٹھ دن قبل ملا۔ وہ اسی ہوٹل میں ٹھہرا تھا جس میں ہم ٹھہرے تھے۔ دونوں کی پہچان ہو گئی اور ہم لوگ ساتھ ساتھ گھومنے لگے۔۔۔ اور ایک دوسرے کے اتنا قریب آگئے۔۔۔‘‘ 
میں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔ 
’’ کیا ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ 
’’ یہ پشکر کیا کوئی دھارمک پو تر استھان ہے ؟‘‘ میسی نے پوچھا۔
’’ پتہ نہیں۔۔۔ مجھے زیادہ علم نہیں۔ میں ممبئی سے ہوں۔۔۔ امرتسر سے آتے ہوئے دو دن کے لیے یہاں رک گیا تھا۔ ایک دن جے پور کی سیر کی۔ آج پشکر جا رہا ہوں۔ ساتھ ہی یہ بس اجمیر بھی جائے گی۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ 
’’ ہم لوگ دہلی آگرہ میں آٹھ دن رہے۔ جے پور میں آٹھ دن رہیں گے وہاں سے ممبئی جائیں گے۔ وہا ں تین چار دن رہنے کے بعد گوا جائیں گے اور پھر گوا سے اسپین واپس ‘‘ میسی نے اپنی ساری روداد سفر سنا دی تھی۔ 
"سنا ہے پشکر ایک پوتر استھان ہے۔ جہاں مندر میں غیر ملکی سیاح ہندو طریقے سے شادی کرتے ہیں۔ ہم لوگ اسی لیے پشکر جا رہے ہیں۔ وہاں گریٹا اور روجر ہندو طریقے سے شادی کریں گے ؟‘‘ میسی نے بتایا۔ 
’’ لیکن شادی تو تمہیں گریٹا سے کرنی چاہیے تھی۔ تم نے بتایا کہ تم نے یہاں آنے کے لیے ایک ساتھ چار سالوں تک پیسے جمع کیے ہیں اور تم دونوں ایک ساتھ کام کرتے ہیں۔‘‘ 
’’ یہ سچ ہے کہ اس سال ہم شادی کرنے والے تھے، " میسی نے ٹھنڈی سانس بھر کر بتایا۔" اس لیے ساتھ ساتھ ہندوستان کی سیر کا منصوبہ بنایا تھا۔ ہم برسوں سے میاں بیوی کی طرح رہ رہے ہیں مگر۔۔۔۔‘‘ 
’’ مگر کیا ؟‘‘ میں نے سوالیہ نظروں سے میسی کو دیکھا۔ 
’’ اب گریٹا کو روجر پسند آگیا ہے ‘‘ اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ 
’’تو کوئی بات نہیں۔۔۔ گریٹا کی مرضی۔۔۔ میرے لیے دنیا میں اس کی خوشی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘ 
اس کی اس بات پر میں اس کی آنکھوں میں جھانکنے لگا۔ 
اس کی آنکھوں سے ایک کرب جھلک رہا تھا۔ 
میں نے اسے نیچے سے اوپر دیکھا۔ وہ ۲۸، ۳۰ سال کا ایک مضبوط جسم کا مالک نو جوان تھا۔ لیکن جس طرح باتیں کر رہا تھا اور اس کے چہرے کے جو تاثرات تھے، آنکھوں میں جو کرب تھا مجھے تو وہ کوئی نامراد ہندوستانی عاشق محسوس ہو رہا تھا۔ 
اس کی محبوبہ ایک پرائے مرد کے ساتھ خرمستیاں کر رہی ہیں لیکن وہ پھر بھی چپ چاپ یہ تماشہ دیکھ رہا ہے۔ 
محبوبہ کی خوشی کے لیے۔۔۔ 
اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ رینگ گئی۔ یہ جذبہ عشق ہے۔ 
جو جذبہ ہندوستانیوں مشرقی لوگوں کے دل میں ہوتا ہے وہی جذبات، احساسات ماڈرن کہلانے والے کسی پورپ کے باشندے کے دل میں بھی ہوتے ہیں۔ 
دل کے رشتے ہر جگہ ایک سے ہوتے ہیں۔ 
سچا اور گہرا پیار ہر انسان کی میراث ہے اسے نہ و سرحدوں میں قید کیا جا سکتا ہے اور ممالک میں بانٹا جا سکتا ہے۔ 
جب وہ یہ ساری باتیں بتا رہا تھا تو وہ ایک ناکام نامراد عاشق تو لگ رہا تھا۔ وہ اپنی محبوبہ سے کتنا پیار کرتا ہے اس کی باتوں سے یہ بھی جھلک رہا تھا اور اس کے جذبات سے ایک سچے محبوب، عاشق کا ایثار بھی ٹپک رہا تھا۔ 
بس چل پڑی اس کے بعد ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہو سکی۔ مگر وہ کبھی کبھی اپنی اسپینی زبان میں کچھ بڑ بڑاتا تھا جو میری سمجھ میں نہیں آتے تھے لیکن جب میں نے ایک بار اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو میں چونک پڑا۔ 
اور مجھے ان آنسو ئوں کا اور اس کی بڑ بڑاہٹ کا مطلب بھی اچھی طرح سمجھ میں آگیا۔ 
 یہ آنسو اپنی محبوبہ کی بے وفائی کے غم میں اس کی آنکھوں میں آرہے ہیں اور جو وہ بڑ بڑا رہا ہے یقینا اس کی اپنی بے وفا محبوبہ سے شکایت کے الفاظ ہوں گے۔
گریٹا اور روجر کی مستیاں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھیں۔ میں تو پوری توجہ سے ان کی مستیاں دیکھ رہا تھا وہ بھی کبھی کبھی مڑ کر دونوں کو دیکھ لیتا تھا لیکن جیسے ہی وہ گریٹا اور روجر کو کسی ممنوعہ انداز میں پاتا تھا جھٹکے سے وہ اپنی گردن دوسری جانب کر دیتا تھا۔ 
جبکہ میں ان کی ممنوعہ حرکات سے نہ صرف پوری طرح لطف اندوز ہو رہا تھا بلکہ پہلو بدل بدل کر ان کی حرکتوں کو دیکھ رہا تھا۔ 
پشکر آنے سے قبل ہم نے ایک دوسرے سے تھوڑی گفتگو کی۔ ایک دوسرے کے موبائل نمبر اور ای میل لیے، اس کے بعد وہ تینوں پشکر میں ہم سے جدا ہو گئے کیونکہ پشکر میں بس دو تین گھنٹی رکنے والے تھی۔ پشکر میں دنیا کا اکلوتا برہما کا مندر تھا جو شنکر اچاریہ نے بنایاتھا۔ اس کے علاوہ ایک تالاب ہے جس میں مختلف راجائوں کے بنائے پچاسوں گھاٹ ہیں۔ اس سرور (تالاب ) میں اسنان کر کے سارے گناہوں سے مکتی مل جاتی ہے۔ 
ایک بڑا سا اسٹیڈیم ہے جہاں پر ہر سال مشہور و معروف پشکر میلہ لگتا ہے۔اس میں اونٹوں کی دوڑ بھی ہوتی ہے۔ 
وہاں میں نے کئی غیر ممالک کے جوڑوں کو دیکھا۔ 
جن کے ماتھے پر ٹیکا لگا ہوا تھا اورگلے میں پھولوں کا ہار تھا۔ 
پشکر گھومنے کے لیے آنے والے غیر ملکی سیاح بڑے شوق سے ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی کرتے ہیں۔ ان کی وہاں ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی کرائی جاتی ہے پھر چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا کنوارے ہوں۔ 
واپسی میں بھی وہ ہمارے ساتھ تھے۔ 
میسی میرے بازو میں آبیٹھا اور گریٹا اور روجر اپنی سیٹ پر۔ 
تینوں کے ماتھے پر بڑا ساٹیکا لگا ہوا تھا اور گلے میں گیندے کے پھولوں کا ہار تھا جو اس بات کی گواہی دے رہا تھا کہ روجر اور گریٹا نے وہاں پر ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی کر لی ہے۔ 
واپسی میں بس اجمیر رکی۔ 
مجھے اجمیر کی درگاہ کی زیارت کرنی تھی۔ میسی بھی میرے ساتھ آیا۔ جب وہ اس مقام کے بارے میں پوچھنے لگا تو میں نے مختصراً خواجہ غیرب نواز کی عظیم ہستی کے بارے میں بتایا تو اس کا دل بھی عقیدت سے بھر گیا۔ اس نے درگاہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی اسی طرح سے رومال اپنے سر پر باندھ لیا جس طرح میں نے باندھا تھا۔ درگاہ کے باہر پولیس کا پہرہ تھا۔ جامہ تلاشی کے بعد ہی اندر جانے دیا جاتا تھا۔ 
ایک نو جوان پھول والا ہمیں دیکھ کر ہمارے پاس آیا۔ اور اس سے انگریزی میں کہنے لگا’’ خواجہ کی زیارت کے لیے آئے ہو پھول اور چادر لے لو خواجہ تمہاری مرادیں پوری کریں گے۔‘‘ 
’’ یہ کیا ہوتی ہے ؟ ‘‘ اس نے پوچھا تو نوجوان اسے سمجھانے لگا کہ یہ کیا ہوتی ہے اور اس کا کیا استعمال کیا جاتا ہے۔ 
اس سے پہلے کہ میں اسے روکتا اس نے گیارہ سو روپیہ کی پھول اور چادر کا آرڈر دے دیا۔ نو جوان نے فوراً چادر اور پھولوں کا ایک جوڑا اس کے ہاتھ میں تھما دیا اور چلتا بنا۔ 
اس کے ہاتھوں میں چادر دیکھ کر آس پاس منڈلاتے بھکاریوں نے ہمیں گھیر لیا۔ میں ان بھکاریوں س پیچھا چھڑانے کی کوشش کرنے لگا۔ 
ایک بھکاری نے انگریزی میں اس سے سوال کیا۔ 
’’ اللہ کے نام پر دے دے۔ خواجہ تیری مراد پوری کرے گا۔اس در پر ہر مراد پوری ہوتی ہے۔ جو مانگے گا اللہ تیری مراد پوری کرے گا۔‘‘ 
اس پر اس نے سو روپیہ کا نوٹ بھکاری کو دے دیا۔ 
اس کا سو روپیہ کا نوٹ بھکاری کو دینا تھا کہ چاروں  طرف سے بھکاریوں اور فقیروں نے ہمیں گھیر لیا۔ 
ان سے بچنا ہمارے لیے مشکل ہو گیا۔ بڑی مشکل سے ہم ان سے بچتے درگاہ میں داخل ہوئے۔ 
اس مجاور نے ہمیں داخلی دروازے کے پاس ہی پکڑ لیا تھا۔ اس نے اس کے ہاتھ سے چادر اور پھول لے لیے اور بھیڑ میں ہمارے لیے راستہ بنا کر ہمیں لے کر درگاہ میں داخل ہو گیا۔ 
اس کی وجہ سے مجھے درگاہ میں آسانی سے داخلہ مل گیا تھا میں اس پر خوش تھا۔ 
 میں ایک کونے میں کھڑا ہو کر فاتحہ دینے لگا۔ 
اس دوران مجاور نے اس کے ہاتھوں مزار پر پھول اور چادر چڑھائے اور پتہ نہیں کیا کیا کروایا۔ 
یہاں تک کہ اس کی واپسی کے لیے مجھے درگاہ کے باہر کھڑے ہو کر کافی دیر تک انتظار کرنا پڑا۔ 
’’ کہتے ہیں اس درگاہ پر جو بھی مانگا جاتا ہے من کی مراد پوری ہوتی ہے۔ تم نے کیا مانگا ؟‘‘ اس نے پوچھا تو میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ 
’’ جو مانگنا تھا مانگ لیا ! تم نے بھی کچھ مانگا ـ۔۔۔؟‘‘ میں نے مسکرا کر پوچھا۔ 
’’ ہاں۔۔۔ ‘‘اس کا چہرہ سنجیدہ تھا۔ 
’’ کیا ؟‘‘ 
’’ ہم نے اپنا پیار مانگا ؟‘‘ 
’’ پیار ؟ کون ؟‘‘ 
’’ گریٹا ‘‘ 
’’ ایک لفظ میں اس نے ساری کہانی کہہ دی تھی۔‘‘
اور اس کی اس بات سے یہ صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ گریٹا کو کتنا پیار کرتا ہے۔ وہ گریٹا جو کچھ دنوں قبل تک تو اس سے پیار کرتی تھی وہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی۔۔۔ 
لیکن یہاں اسے روجر مل گیا۔ روجر اسے پسند آگیا تو اب وہ روجر کے ساتھ ہے۔ 
یہ بھی بھو ل گئی ہے کہ میسی اسے کتنا پیار کرتا ہے وہ ایکدوسرے کو سالوں سے جانتے ہیں۔ سالوں سے ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں اور شادی بھی کرنے والے تھے۔ 
لیکن پتہ نہیں اسے روجر میں ایسا کیا دکھائی دیا یا روجر نے اس پر کیا جادو کیا اب وہ روجر کے ساتھ ہے۔ روجر سے پیار کرتی ہے۔ 
میسی کے پیار کو بھول گئی ہے۔ 
یہ بھول گئی ہے کہ وہ میسی کے ساتھ بھارت کی سیر کرنے کے لیے آئی ہے۔ وہ میسی جسے چاہتی ہے جو اسے دیوانہ وار چاہتا ہے۔ 
میں نے تو سنا ہے غیر ممالک میں پیار نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ہے۔ پیار کے نام پر صرف ضرورت پوری کی جاتی ہے۔ ضرورت پوری ہو جانے کے بعد سارے رشتہ ختم ہو جاتے ہیں۔ 
شاید گریٹا بھی میسی سے ابھی تک اپنی ضرورت پوری کر رہی تھی۔ اب اس کا دل میسی سے بھر گیا تو اب وہ اپنی ضرورت رو جر سے پورہ کر رہی ہے۔ 
لیکن میسی تو اس کے پیار میں دیوانہ ہے۔ 
اس کے جیسے انسان کا خواجہ غریب نواز کے دربار میں مراد مانگنا ؟ 
بس والے ہمارا ہی انتظار کر رہے تھے۔ 
ہم بس میں آئے اور بس چل پڑی۔ 
روجر اور گریٹا ایک دوسرے کی بانہوں میں سماتے ہوئے ایک دوسرے سے بوس و کنار میں مصروف تھے۔
اس نے د و چار تعویذ نکال کر اپنے گلے میں پہن لی۔ 
’’ یہ کیا ہے ؟‘‘ میں نے دانستہ اس سے پوچھا۔ 
’’ وہ بابا نے بتایا کہ اسے پہن لو۔ اس سے تمہارے دل کی مراد پوری ہو جائے گی ‘‘ اس نے جواب دیا۔ 
میں نے اسے مترحم نظروں سے دیکھا۔ 
وہ مغرب کا ایک تعلیم یافتہ نو جوان دل کے ہاتھوں کتنا مجبور ہو گیا ہے اور اپنے دل کے ہا تھوں مجبور ہو کر کیسی خود فریبی کی باتیں کرنے لگا ہے۔ 
جے پور میں وہ اپنی ہوٹل کے پاس اتر گئے میں اپنے ہوٹل پر۔ میں رات میں ہی ممبئی کے لیے روانہ ہو گیا۔ 
اور اس کو تقریباً بھول ہی گیا۔ 
آٹھ دنوں بعد اچانک اس کا فون آیا۔ 
’’ ہم لوگ ممبئی میں ہیں اور کل گوا جا رہے ہیں۔‘‘ 
’’ ارے تو پہلے مجھ سے کیوں نہیں کہا۔ میں تم سے ملتا آج یا کل تم سے ملوں ؟‘‘ 
’’ آج ہم ایلیفٹا کیو دیکھنے جائیں گے اور کل گوا کے لیے روانہ ہونا ہے۔ اس سے کل بھی ملاقات ممکن نہیں۔‘‘ 
’’ گریٹا کیسی ہے ؟‘‘ میں نے پوچھا۔ 
’’ روجر کے ساتھ بہت خوش ہے۔‘‘ اس کا لہجہ اداس تھا۔ 
اس کے بعد اس کا گوا سے ایک بار فون آیا۔ 
’’ ہم گوا میں ہیں۔ بہت اچھی جگہ ہے اتنا اچھا ساحل میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے میں اپنے وطن یا یوروپ کے کسی ملک میں ہوں۔ چار دن کے بعد میں اسپین چلا جائوں گا۔ گریٹا بھی میرے ساتھ اسپین جائے گی۔ لیکن وہ دوسرے دن نیو یارک کے لیے روانہ ہو جائے گی۔ وہاں روجر اس کا انتظار کر رہا ہوگا۔ وہ ہمیشہ کے لیے اسپین چھوڑدے گی۔ دونوں شادی کرنے والے ہیں۔‘‘ 
اس کی بات سن کر میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ 
’’ کوئی بات نہیں میسی۔۔۔ گریٹا کو بھول جائو، کوئی اور گریٹا تمہیں مل جائے گی۔ تم گریٹا کو پیار کرتے ہو نا۔ تمہارے لیے تو گریٹا کی خوشی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہے۔ گریٹا کی خوشی یں ہی تمہاری خوشی ہے،‘‘ میں نے اے سمجھایا۔
’’ ہاں۔۔۔ انور یہ بات تو ہے۔ ‘‘ اس نے مرہ لہجے میں جواب دیا۔ اس کے بعد اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا۔ 
ایک مہینے کے بعد جب میں ای میل چیک کر رہا تھا تو اچانک اس کا ای میل مل گیا۔
’’ گریٹا امریکہ نہیں جا سکی۔ روجر نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ کئی دنوں تک بہت ڈسپرس رہی۔ اب وہ نارمل ہو رہی ہے۔ ہم لوگ اگلے ماہ شادی کرنے والے ہیں۔ اگر آسکتے ہو تو ہماری شادی میں ضروری شریک ہونے کی کوشش کرنا۔ ضرور آو۔ میں سارے انتظام کردوں گا۔ "
اس کا ای میل پڑھ کر میرے ہونٹوں پر ایک مسکراہٹ رینگ گئی۔
اور میں جواب میں اسے مبارکباد اور شادی میں شریک نہ ہونے کا معذرتی ای میل ٹائپ کرنے لگا۔
ختم شدہ
تبصرے و تاثرات

رخسانہ نازنین
عنوان سے پوری طرح مطابقت رکھتا افسانہ۔ دل ناداں کی حرکتیں اور سچے جذبوں کی جیت،
"دل کے رشتے ہر جگہ ایک سے ہوتے ہیں" 
واقعی ہر انسان کے سینے میں ایک دھڑکتا ہوا دل ہوتا ہے۔ چاہے کسی ملک، کسی تہذیب سے تعلق رکھتا ہو مگر جذبات اور احساسات یکساں ہوتے ہیں۔ افسانہ اچھا لگا ۔ مبارکباد پیش ہے۔
٭
زاہد مختار
مجھے کہانی اور کہانی کی روانی ایک گیت گاتی.ندی جیسی لگی جس کے سر کبھی دل نشیں لگتے تو کبھی دل خراش..بس ندی اختتام کے سمندر تک پہنچتے پہنچتے طویل لگی. ذرا سی تھکی تھکی...قلمکار کے لئے نیک خواہشات
٭
ملکیت سنگھ مچھانہ
میں نے تو حضور ایک سانس میں ہی سارا افسانہ پڑھ لیا۔۔۔
دل کو چھو لینے والی کہانی ہے۔
سکون ریز اختتام
جب میسی کا مسلہ حل ہوا تب کہیں جا کر دل کو صبر و سکون ملا۔
ایم مبین صاحب کو مبارک باد 🌹
٭
فردوس انجم
انسانی احساسات و جذبات کی کوئی زبان نہیں ہوتی نہ مذہب ہوتا ہے اور نہ ہی ذات ۔۔۔یہ تو بس دل کی دنیا میں آباد رہتے ہیں ۔۔۔ان کے سارے معاملات دل ہی طے کرتا ہے ۔۔۔ایسی ہی کیفیت کو بیان کرتا ہوا رواں دواں اور جست افسانہ " اے دل ناداں "۔ جیسا کہ افسانہ نگار نے اس افسانے میں میسی کے احساسات کو بیان کیا ہے، میسی گریٹا سے سچی محبت کرتا ہے ۔ تبھی اس کی خوشی کی خاطر اپنے درد و کرب کو اپنے چہرے پر بھی عیاں نہیں ہونے دیتا ۔ لیکن اس کو کسی اور کا ہوتے دیکھ بھی نہیں سکتا۔ اسی لیے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تاویز بھی پہن لیتا ہے ۔۔۔
اچھی کہانی ہے جو آخر تک قاری کو باندھے رکھتی ہے ۔۔۔اختتام تک تجسس بر قرار رہا کہ میسی اور گریٹا کے رشتہ کا کیا بنے۔۔۔۔زبان و بیان عمدہ صاف و سلیس ہے۔
محترم ایم مبین صاحب کی خدمت میں مبارک باد پیش کرتے ہیں ۔۔۔۔💐💐
٭
اقبال حسن آزاد
ایک عاشق صادق کی دلچسپ کہانی ۔اسلوب میں دریا کی سی روانی ہے ۔طویل ہے مگر بور نہیں ہے ۔رومانی ایونٹ کی ایک اور کامیاب پیشکش ۔مصنف اور منتظمین کو مبارکباد ۔
٭
سیدہ تبسم ناڈکر
افسانہ ۔"اے دل ناداں" بہت پسند آیا۔روانی کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ دل کے رشتے تو ہر جگہ ایک جسے ہوتے ہیں۔ دل آخر دل ہی تو ہے۔ سب کے احساسات جذبات ایک سے ہوتے ہیں افسانہ اچھا لگا۔ افسانہ نگار کو مبارکباد۔
٭
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
ہر اعتبار سے نک سک سے درست ،دلکش و دلآویز افسانہ ہے ۔
بعد بصد انتظار ایک کامیاب محبت کے افسانے نے موسم بدل دیا ۔
ایم مبین صاحب کی خدمت میں مبارکباد۔
٭
شمع افروز زیدی
رواں دواں انداز تحریر افسانے کا حسن ہوتا ہے بغیر کسی پیچ و خم کے افسانہ پورا ہوا اجمیر کی درگاہ کا ذکر نوجوان پھول والے کے کہنے پر میسی کا مزار پرچڑھانے کے لئے چادر خریدنا بھکاری کو روپے دینا پڑھے لکھے نوجوان کا گلے میں تعویذ پہننا محبوبہ کی بے التفاتی کے باوجود محبت میں دیوانگی کی حد تک پور پور شرابور ہونا اس صورت حال سے محسوس ہو رہا تھا کہ میسی کے دل کی مراد پوری ہو کر رہے گی ویسے بھی عام طور پر رومانی کہانی کا انجام زیادہ تر کامیاب ہی ہوتا ہے افسانہ نگار مقصد میں پوری طرح کامیاب ہے ایم مبین صاحب کے لئے مبارکباد اور نیک خواہشات
٭
نگار عظیم
بہت رواں دواں احساس سے بھر پور ایک کامیاب محبت کا افسانہ۔ محبت کا ہر جگہ ایک ہی رنگ ہے ایک ہی احساس۔ لیکن محبت لمس چاہتی ہے۔ میسی کو اپنی محبت مل گئ کالے بادل چھٹ گےء قاری کو بھی دلی سکون میسر ہوا۔ کسی مترنم غزل کی طرح کہانی کا اختتام ہوتا ہے۔ بہت بہت مبارک دعائیں سلامتی۔ 
٭
انجم قدائی
محبت کے فسوں میں ڈوباہوا ایک خوبصورت افسانہ۔ انسان دنیا کے کسی بھی خطہ کا ہو محبت اور قربانی کا جذبہ اس کے اندر موجود رہتا ہے۔چار برس تک پیسے جمع کرکے جب ساتھ سیر کرنے کا وقت آتا ہے تو ایک امتحان سامنے آجاتا ہے۔حقیقی عشق کرنے والے کسی امتحان کو خاطر میں کہاں لاتے ہیں۔چادر چڑھا کر اور تعویز پہن کر اس تکلیف کا مداوا کرتے ہیں بالا آخر فتح ہوتی ہے۔یہ تو بس ایک کہنے والی بات ہے مگر دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔رواں بیانیہ میں لکھا ہوا یہ افسانہ بے حد تاثیر رکھتا ہے مصنف کے لئے بہت داد۔
٭
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
دل کی زمین پر ٹنڈی پھنوار سا برستا افسانہ۔
جذبے ہر جگہ یکساں ہوتے ہیں۔ چاہے وہ مغرب ہو یا مشرق۔یہ ہی احساس ایم مبین صاحب کے افسانے کا موضوع ہے۔ خوبصورت انداز میں رواں دواں افسانہ۔
اجمیر کا ذکر میرے دل کو روحانی سکون بخشتا ہے۔ کیونکہ یہ ہے ہی روحانیت کا مرکز۔ درگاہ شریف کا منظر حقیقت پر مبنی ہے۔یہاں خدّام حضرات اگر کسی غیر ملکی یا امیر آدمی کو دیکھ لیں تو بیچارے کو اتنا بے وقوف بناتے ہیں کہ وہ اپنی جیب خالی کر دیتا ہے۔ یہ ہی حال پشکر کے پنڈتوں کا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یہدرگاہ روحانیت کا سر چشمہ ہے۔یہاں کی گنگا جمنی تہذیب وہ سیاست داں دیکھیں جو ملک میں نفاق اور زہر گھول رہے ہیں۔ یہ معصوم لوگوں کو بے وقوف بناتے ہیں۔ راج ٹھاکرے لوگوں کو مسجد کے سامنے ہنومان چالیسا پڑھوانے میں لگا کر خود اپنی فیملی کے ساتھ درگاہ زیارت کو آیا تھا۔ 
یہ غریب نواز ؒکا ہی کرم ہے کہ اجمیر میں ہر مذہب وملّت کا آدمی یہاں آنے والے زائرین کے ذریعے ہی اپنا روزگار حاصل کر رہا ہے۔ 
پشکر کے متعلق بھی اچھا نقشہ کھینچا ہے۔پشکر میں گلاب کے باغ ہیں اور سارا پھول غریب نواز کے مزار مبارک پر چڑھتا ہے۔بعد میں اسکی گلقند بن جاتی ہے۔ 
پشکر ہمیشہ سے ہی مغربی سیّاحوں کی خاص پسند رہا ہے کیونکہ وہاں ہر طرح کا نشہ آسانی سے دستیاب ہو جاتا ہے اکثر یہ سیّاح نشہ میں دھت ہو کر غیر اخلاقی حرکتیں کرتے ہیں۔ 
یہاں کے کچھ مقامی لوگ پیسہ اور گرین کارڈ کے لالچ میں غیر ملکیوں سے شادی کر لیتے ہیں چاہے انجام کچھ بھی ہو۔ اس کو راجستھان گورنمنٹ ٹورسٹ پوائنٹ کے حساب سے خوب ترقی دے رہی ہے۔
اس خوبصورت افسانے کے لئے ایم مبین صاحب کو بہت مبارکباد۔
٭
ڈاکٹر نور الامین
رومانیت کو اس طرح سے بھی سمجھا جاسکتا ہے
جان ہی دے دی جگر نے پائے پار پہ
عمر بھر کی بے قراری کو قرار آہی گیا
یا یوں بھی.....
یہ کہ رومانی ادیب اپنے جذبے اور وجدان کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلوب اور خیالات دونوں میں اس کی روش تقلید کے مقابلے میں آزادی اور روایت کی پیروی سے بغاوت اور جدت کا میلان رکھتی ہے۔ رومانی ادیب حال سے زیادہ ماضی یا مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہے۔ حقائق واقعی سے زیادہ خوش آئند تخیلات اور خوابوں کی اور عجائبات و طلسمات سے بھری ہوئی فضائوں کی مصوری کرتا ہے۔ دوپہر کی چمک اور ہرچیز کو صاف دکھانے والی روشنی کے مقابلے میں دھندلے افق چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت اسے زیادہ خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔
 ڈاکٹر محمد حسن رومانیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رومانیت“ کا لفظ رومانس سے نکلا ہے۔ اور رومانس زبانوں میں اس کا اطلاق اس قسم کی نثری منظوم کہانیوں پر ہوتا ہے جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سنائی جاتی ہے جو رومانی دنیا کا استحقاق ہے...
سرعبدالقادر نے بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یعنی 1901ء میں لاہور سے ماہنامہ مخزن جاری کیا۔ جسے اردو کی علمی و ادبی رسائل میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس رسالے کی اشاعت سے نہ صرف یہ کہ رومانیت کی تحریک کو تقویت ملی بلکہ بعد میں آنے والی تحریکوں کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ اس رسالے میں اپنے دور کے تمام رومانیت پسندوں نے لکھا اور اس رسالے نے بہت سے ادبیوں کو اردو دان طبقے سے متعرف کرایا......
یعنی
علی گڑھ تحریک کا دوسرا پہلو رومانیت......
بقول ندا فاضلی
ہوش والوں کو خبر کیا بے خودی کیا چیز ہے
عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے
ان سے نظریں کیا ملیں روشن فضائیں ہو گئیں
آج جانا پیار کی جادوگری کیا چیز ہے
ایم مبین صاحب کا افسانہ
اے دلِ ناداں
کچھ احساس ہے اور کچھ محسوسات زبان کا بیانیہ....
بقول ندا فاضلی
ہم لبوں سے کہہ نہ پائے ان سے حال دل کبھی
اور وہ سمجھے نہیں یہ خاموشی کیا چیز ہے
اسے دوڑایا نہیں جاتا تو اور اچھا یا متاثر کُن ہوتا..... مغرب کا جدید پیار کچھ اٹپٹا سا ہے وہی اٹپٹا رنگ رودادِ سفر میں در آئی ہے رومان میں معقول جزئیات نگاری کا بڑا دخل ہے...مدھم، دھیمی لو اور بیانیہ کی غنائیت ایک سرور ایک کیفیت پیدا کر سکتی تھی.....
یہ افسانہ نگار کا حق ہے چاہے جس فیشن یا پیٹرن میں اپنے فن پارے کو تخلیق کرے بحیثیتِ قاری مجھے جو محسوس ہوا وہ میں نے کہا ہے... میں ایم مبین صاحب کی بوقلمونیوں اور اس کی رنگا رنگی کو جانتا ہوں وہ اور ان کی قلم کیمرے کی آنکھ کی طرح کام کرتے ہیں....
قابلِ ادا افسانہ کی بزم میں شمولیت ڈھیروں مبارک باد پیش ہے
اللہ آپ کو سلامت رکھے آمین ثمہ آمین
٭
آسیہ رئیس خان
واہ! نادان دل مشرقیوں کے ہی نہیں فرنگیوں کے بھی ہوتے ہیں۔ محبت کے آفاقی رنگ ساری دنیا میں ایک سے ہیں۔ رواں دواں جاندار اسلوب میں عمدہ افسانہ۔ 
بس کرسٹیانو، میسی اور راجر فیڈر جیسے مقبول کھلاڑیوں کے نام کچھ عجیب لگے۔ 
مبارک باد اور ڈھیروں داد۔ 
٭
افشاں ملک
”اے دل ناداں “محبت کے موضوع پر تحریر کیا گیا افسانہ ہے۔ بیانیہ سادہ ہونا اچھی بات ہے لیکن سپاٹ نہیں ہونا چاہیے۔ویسے کہانی رواں دواں ہے۔
مغربی کردار اور ان کے زندگی کے دستور کیا خوب بیان کیے ہیں مصنف نے۔ کئی برس کے دوست / آفس کولیگ سیر کے لیے ہندوستان آتے ہیں یہاں لڑکی کو امریکہ سے آیا ہوا ایک اور سیاح لڑکا پسند آجاتا ہے دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں لڑکی اپنے پچھلے بوائے فرینڈ کو چھوڑ کر اس نئے پریمی کے ساتھ ہو لیتی ہے۔ لیکن پچھلا بوائے فرینڈ/ آفس کولیگ میسی اس کی محبت کو دل سے نہیں نکال پاتا اور محبوبہ گریٹا کو دوسرے لڑکے روجر کے ساتھ دیکھ کر اس لیے خوش ہے کہ اس کی محبوبہ خوش ہے۔یہ میسی کی اپنی محبوبہ کے لیے سچی محبت ہے۔ 
یہ بڑی غیر فطری سی بات لگتی ہے کہ اپنی محبوبہ یا محبوب کو کوئی لڑکا یا لڑکی اپنی نظروں کے سامنے کسی دوسرے بندے کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرتے دیکھ کر اس لیے خاموش رہے کہ وہ اپنے محبوب /محبوبہ کو خوش دیکھنا چاہتا ہے (جیسا کہ افسانے میں منظر کشی کی گئی ہے گریٹا، روجر اور میسی کے حوالے سے ) ایسا کہاں ہوتا ہے ؟ اس معاملے میں عورت ہو یا مرد دونوں برابر کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ 
افسانے میں منظر کشی اور جزیات نگاری بہت عمدہ کی گئی ہے۔مثلاََ پشکر اور اجمیر شریف کے حوالے سے دونوں جگہ کے زائرین / خدام / تعویز / پھول مالائیں / ماتھوں پر ٹیکے / تبرکات / غیر ملکی سیاحوں کی آمد اور ان مقامات پر جاری طور طریقوں میں شامل ہوکر سیاحوں کا ان سب میں شامل ہونا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں یا انہیں بتایا جاتا ہے۔یقین یا بے یقینی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ دل و دماغ تو انسان کا ہی ہے اور جذبات بھی ایک جیسے ہی ہوتے ہیں چاہے وہ باشندے کہیں کے بھی ہوں۔۔۔!
افسانہ اسی وقت کھل گیا تھا مجھ پر جب میسی نے یہ بتایا کہ اس نے درگاہ پر بطور منت اپنا پیار مانگا۔
خیر۔۔۔ہیپی اینڈنگ پر مبنی یہ افسانہ اچھا لگا۔ایم مبین صاحب نے ایک مثبت انجام پر کہانی کو ختم کیا۔اگر کچھ تخلیقی جملے اور تھوڑا سا ٹوئسٹ ہوتا تو افسانہ بہترین ہو جاتا۔(یہ میری ذاتی رائے ہے اتفاق اور اختلاف دونوں کی گنجائش کے ساتھ ) 
ایم مبین صاحب کو افسانے میں محبت کا یہ انداز پیش کرنے کے لیے دلی مبارکباد ! 🌹
٭
معین الدین عثمانی
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایم مبین کی کہانی "اے دل ناداں"اپنی رواں زبان اور محبت کے لطیف جذبے کی بنا پر ایک اچھی کہانی ہے۔ایسا لگتا ہے کہ صاف وشفاف پانی کی ایک نہر ہے جو آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتے ہوے خموشی کے شور میں ڈوب کر آگے کی طرف رواں ہے۔
لیکن سچ پوچھیے تو صرف اسی سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے۔ایم مبین ایک منجھے ہوئے تجربہ کار فنکار ہیں۔ان سے صرف اچھی یا بہتر کی نہیں بلکہ بہترین کی امید ہے۔
ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ غذائی اجناس میں چاول کی اہمیت ہے۔اس سے کھچڑی بآسانی بن جاتی ہے مگر پلاؤ اور بریانی کے لے کیا کرنا ہے سب جانتے ہیں۔
مذکورہ کہانی سے اگر چند غیر ضروری لفظوں کے علاوہ بعض جملوں کے دوہرانے پر قابو پاکر انشاء کا تڑکا دے دیا جائے تو یقیناً مزہ دوبالا ہوسکتا ہے۔ 
رد و قبول کے ساتھ۔
٭
ڈاکٹر اسلم جمشیدپوری
ایک اچھی رومانی کہا نی ہے۔ایم مبین بھائی کو بہت بہت مبارک۔۔
اجمیر کے تعویز کا اثر تھا کہ بلا خر میسی کو اس کی محبت مل جا تی ہے۔
میسی کے جذبات کی ترجمانی میں افسانہ نگار کامیاب ہے۔ایک تجسس ہے جو قاری کو کہہا نی سے جوڑےرکھتا ہے۔ بہت خوب صورت افسانہ ہے۔
٭
ناصر ضمیر
سب کی خدمت میں خلوص بھرا سلام 
شاید اس گروپ یا اس ایونٹ کا مقصد یہی ہے کہ کہانیاں پڑھنے کے ساتھ ساتھ یا ان سے محظوظ ہونے کے ساتھ ساتھ فن پارے میں اگر کسی قسم کی کوئی کمی محسوس ہو تو اس کی نشاندہی ہو۔اور اس کی طرف توجہ مبذول کرائی جاے۔اور یہ گروپ اور اس میں شریک سبھی استاد اور دوست یہ کام بہت عمدہ طریقے سے انجام دے رہے ہیں۔اور اس کے لیے ایڈمن پینل بھی مبارک بادی کا مستحق ہے۔
جہاں تک مذکورہ افسانے کا تعلق ہے یہ ایک اچھا افسانہ ہے پر کہیں کہیں پر بات زیادہ طویل ہوگئی ہے اور کہیں پر ایک ہی بات کو دوبارہ دوہرایا گیا ہے حالانکہ افسانہ ابتدائی حصے کے بعد سے ہی کھل جاتا ہے۔
اور ایک بات نہایت ادب اور احترام کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ کہانی میں راوی کا ہونا سمجھ میں آتا ہے پر کہانی کار کی ذات کا شامل ہوجانا سمجھ میں نہیں آتا مثال کے طور پر
"جو جذبہ ہندوستانیوں مشرقی لوگوں کے دل میں ہوتا ہے وہی جذبات، احساسات ماڈرن کہلانے والے کسی پورپ کے باشندے کے دل میں بھی ہوتے ہیں " 
اس کے بر عکس یہ جملہ عمدہ ہے اور اتنا ہی لکھنا کافی تھا۔
"دل کے رشتے ہر جگہ ایک سے ہوتے ہیں" 
پشکر اور پھر اجمیر کے مناظر کی عکاسی تھوڑی سی سپاٹ اور تھوڑی سی طویل لگی۔۔۔باقی سب عمدہ 
ایک اچھے افسانے کے لیے مبارک باد 
اگر میں نے کچھ زیادہ کہہ دیا ہو تو ایم مبین صاحب سے معذرت 
افسانہ نگار اور اس گروپ کے لیے نیک خواہشات
٭
مبین نذیر
"عشق سچا ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا"
کا ترجمان افسانہ.. ایم مبین صاحب کو بہت بہت مبارکباد...
٭
نصرت شمسی
,,رات سے اافسانہ پڑھ کر سوچ رہیں تھی کہ کیا لکھوں ؟افیصلہ ذرا مشکل تھا کیونکہ صبح تک جیتنے تاثرات آئے وہ سب اچھے ہی تھےلیکن سچ بات یہ ہے ک افسانہ مجھے بالکل بھی متاثر نہ کر سکا۔پہلا اقتباس اور آخری اقتباس ہی اگر پڑھ لیجئے تو کہانی پوری سمجھ میں اجاتی ہے۔
ہاں اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بیان بہت عمدہ ہے۔اجمیر اور پشکر کا ذکر وہاں کے حالات گھر بیٹھے ہی گھوم آنے والے جیسے ہیں۔
افسانہ میں کوئی تجسس نہیں ہے۔ سیدھا سادا اور ناکام عشق کی کہانی ہے جیسے بعد میں کامیابی مل گئی۔
گریٹنا میں محبت ہے ہی کہاں؟ وہاں تو جنسی خواہشات نظر آئیں۔" تو نہیں اور صحیح اور نہیں اور صحیح" 
کے مصداق وہ میسی تک آگئی۔میسی کی محبت واقعی نظر آتی۔ہے لیکن انجام بہت اچھا تاثر نہ دے سکا۔ شادی ناکام ہونے ک بعد گریٹنا خود واپس نہ آتی اور خاموشی سے احساس جرم میں زندگی گزارتی اور پھر میسی کے لاکھ منانے پر وہ واپس اس کی زندگی میں محبت بن کر آتی تو شاید محبت کی کامیابی ہوتی۔
رومانی افسانہ کا مطلب جہاں تک میں سمجھتی ہوں کہ جیسے پڑھتے پڑھتے کہیں دل کی دھڑکن سہم جائے کہیں مدھم ہو جائے اور کہیں دل دھڑ دھڑ کرنے لگ جائے جہاں چاہت ہی چاہت ہو۔
پھر انجام چاہے المیہ ہو یا طربیہ۔۔
کہیں تو اظہارِ محبت ہو۔کوئی ایک جملہ بھی محبت کے اظہارِ کا نہیں سوائے مغربی تہذیب کی جھلکیوں کے۔
بزم میں افسانہ پیش ہوا۔بہت مبارک باد
٭
ڈاکٹر سلیم خان
مبین صاحب نے مدھر ملن کی کہانی بہت خوب لکھی۔ کب ختم ہوئی پتہ ہی نہیں چلا۔ بہت بہت مبارک مبین بھائی۔ مزہ آگیا۔
کہانی کا عنوان بھی بہت خوب ہے۔ ایسا لگا گویا میسی کا دل ناداں اپنے پہلو میں دھڑک رہا ہے۔
٭
اکبر عابد
اے دل ناداں افسانہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوا کہ میں ایک طویل داستاں پڑھ رہا ہوں محبت ایک ایسا جذبہ ہے جوانسان کے اندرپنپ کر محبت کو لافانی بنادیتا ہے کہانی بھی لافانی بن جانے کے قریب ہو گئی ہے بیانیہ عمدہ ہے متاثر کن افسانے کے لئے افسانہ نگار کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔۔۔
٭
شہناز فاطمہ
"محبت" ایک ایسی سچی حقیقت ہے جسے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے اور جو میسی کو گریٹا ازیبلا سے تھی جو اپنی محبت کھوکر بھی گریٹا کو خوشی دینا چاہتا ہے اور محبت کسی ایک ملک کی تخصیص نہیں اس جزبہ پر کاءینات کے کسی ایک ملک کی اجارہ داری نہیں بلکہ یہ تو ایک جزبہ جو خدا نے سب کو ودیعت کیا ہے دل کے رشتے ہر جگہ ایک سے ہوتے ہیں کسی ملک کے باشندے کے لئے الگ الگ نہیں بس طریقے اپنے اپنے ہوتے ہیں
"میسی کہتا ہے کہ میرے لئے اسکی خوشی سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں" یہ ایک سچی اور بے لوث محبت کرنے والے کے دل کی بات ہے اسکا جزبہ صادق تھا لیکن گریٹا ازیبلا جو کر رہی تھی مجھے تو زندگی بھر کی نفرت ہوجائے یہ جزبہ جتنا پاور فل ہوتا ہے وتنا ہی نازک بھی انسان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے مگر اپنے" پیار "پر کسی اور کا حق اس طرح بالکل نہیں۔
اجمیر شریف میں مانگی ہوئی دعا کو تو قبولیت کا شرف ملنا ہی تھا لیکن ایک بات سمجھ میں نہیں آءی جب پشکر میں ہندو رسم و رواج کے مطابق شادی ہو ہی چکی تھی تو پھر پلان میں گریٹا سے اسکے ملک میں جاکر شادی کرنے کے کیا معنی؟
اور پھر اینڈ 
میں میسی سے
کیا گورکھ دھندھا ہے کچھ نہیں سمجھ میں آیا شادی اکدم کھیل ہے؟
غرض کے افسانہ کسی بھی زاویہ سے متاثر نہیں کرسکا حالانکہ محترم ایم مبین صاحب نے زور بہت مارا رومانٹک بنانے کے لئے مگر وہ رومانی تو نہیں عریاں ذیادہ ہو گیا
بہرحال محترم جناب ایم مبین صاحب کے لئے نیک ضرور پیش کرتی ہوں
٭
وحید امام
ایم مبین کا افسانہ''اے دل ناداں'' بزم افسانہ کی زینت بنا۔افسانہ پڑھ کرخوشی ہوئی۔مبین صاحب کی یہ انفرادی خصوصیت ہے کہ ممبئی جیسے شہر میں رہ کر بھی انہوں نے ''جدید یت'' والے سٹائل کو پسند نہیں کیا سیدھے سادے اور عام فہم انداز میں افسانے کو صفحہ قرطاس پر منتقل کیا۔افسانہ لکھنے کا ان کا ایک لمبا تجربہ ہے۔ افسانہ پڑھتے ہوئےکسی رکاوٹ کا احساس نہیں ہوا ایک عام قاری بھی ان کاافسانہ پڑھ کر باآسانی تفہیم کے مراحل سے گزرسکتاہے۔افسانےمیں کوئی گھماؤیا پیچیدگی والا انداز نہیں ہے جس کی وجہ سے افسانہ عام اور سپاٹ انداز میں شروع ہوکر اختتام تک بغیر کسی الجھن کے اکہرے انداز میں ختم ہوگیا۔افسانہ نگار اس افسانے کو خوشگوار انجام دینا چاہتے تھے اس لیے شاید انہوں نے درگا اور مندر کا ذکر چھیڑا۔حالانکہ مغربی معاشرہ ان تمام باتوں کو مائنڈ نہیں کرتا وہ مغرب جس نےدنیا کو لوان ریلیشن شپ کا تصور دیاان کے افراد کے ذریعے اس طرح کی کہانی کا تانا بانا بننا کچھ غیر فطری سا محسوس ہوا مگر یہاں ہم یہ سوچ کر اس بات کو قبول کر لیتے ہیں کہ انسانوں کئ اقسام ہیں شاید مغرب میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوں جو اس طرح کے خیالات رکھتے ہوں۔ کہیں کہیں افسانے پر گرفت ڈھیلی بھی محسوس ہوئی افسانہ اورکساو کا متقاضی تھا۔شاید ایونٹ کی مناسبت سے انہوں نے افسانہ'' اے دل ناداں"کی تخلیق کی اور اسی کوشش میں انہوں نے ایک اچھا افسانہ لکھاجس کے لیے انہیں مبارکباد،🌹🌹🌹🌹
٭
فریدہ نثار احمد انصاری
اے دل ناداں! اے دل ناداں!
آرزو کیا ہے جستجو کیا ہے 
افسانے میں آرزو بھی وہی اور جستجو بھی وہی! 
تین کرداروں کی محبتوں پر بُنا افسانہ۔ محبتیں قربانی مانگتی ہیں۔اور یہی بات میسی پر صادق آئی لیکن درپردہ وہ پھر بھی اپنی محبت کو پانے کی تگ ودو میں لگا رہا۔
میسی کی محبت آخر تک ساتھ رہی جب کہ دوسرے دونوں کے درمیان محبت تھی ہی نہیں وہ صرف ہوس تھی جسے ان دونوں نے شادی کے بندھن میں باندھنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام ہی رہی۔
دیکھا گیا ہے کہ غیر ملکی سیاح وطن عزیز کی سیاحت میں ہماری گنگا جمنی تہذیب کے آستانوں پر ضرور جاتے ہیں۔قابل قلم کار نے اسی بات کو افسانے میں سمو کر ھندوئی مزاج کے تیرتھ استھان پشکر اور اجمیر کی درگاہ کا ذکر کیا۔دونوں جگہوں کی وہی منظر کشی کی گئ جیسے اکثر غیر ملکی سیاحوں کو دیکھ کر کی جاتی ہے۔
اختتام پر یہی بتایا گیا کہ تعویذ و دعاؤں و مزار کی حاضری نے میسی کو اس کی بچھڑی محبت واپس دلا دی۔
جب اس نے اپنی محبوبہ کی محبت اور اس کی خوشی کو تسلیم کر ہی لیا تھا پھر اپنے لئے اسے مانگ لینا خودغرضی ہی سہی لیکن انسان کی فطرت کے عین مطابق رہی۔ایسا میرا خیال ہے, اختلاف ممکن بھی ہے۔
رومان سے زیادہ اس میں ہوس کی حرص نظر آئی۔
قلم کار کے لئے دلی مبارکباد و نیک خواہشات۔
٭
محمد علی صدیقی
"ائے دل ناداں" کی کہانی
مغربی تہذیب کی عکاس ہے۔
مغربی معاشرہ ایک آزاد معاشرہ ہے
یہاں اپنی آزادی کا تحفظ ہے تو دوسروں کی
آزادی کا احترام بھی ہے۔ مرضی ہو تو شادی کے بغیر بھی میاں بیوی کی طرح ساتھ رہ لیں۔ مرضی نہ ہو تو کوئی غلط نظر سے دیکھ بھی نہ پائے۔ یہ ماضی میں نہیں الجھتے، حال میں جیتے ہیں اور مستقبل کی زیادہ فکر بھی نہیں کرتے۔ افسانے میں ان باتوں کی جھلک خوب نظر آتی ہے۔
چنانچہ
کہانی میں
میسی اور گریٹا ایک ہی کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ میاں بیوی کی طرح رہتے ہیں اور ایک دوسرے سے شادی بھی کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن ہندستان کی سیاحت کے دوران گریٹا کو روجر پسند آ جاتا ہے تو میسی اس کی پسند کا احترام کرتے ہوئے صبر کا گھونٹ پی لیتا ہے۔ گریٹا اور روجر پشکر میلے میں ہندو رسم و رواج کے مطابق شوقیہ شادی بھی کر لیتے ہیں۔ لیکن امریکہ واپس جاکر روجر کا ارادہ بدل جاتا ہے اور گریٹا اس کے مرضی کا احترام کرتے ہوئے میسی کے پاس واپس آ جاتی ہے اور میسی اس کی مرضی کا احترام کرتے ہوئے خوشی خوشی اسے قبول کر لیتا ہے۔
دیکھا زندگی کتنی آسان ہے۔
 ہندستان میں پی ڈی اے ( پبلک ڈسپلے آف افیکشن ) کو آج بھی معیوب مانا جاتا ہے۔ جہاں کچھ لوگ ان نظاروں کا مزہ لینے والے ہو سکتے ہیں وہیں کچھ لوگ اعتراض کرنے والے بھی یو سکتے ہیں لیکن یہاں مزہ لینے والے تو سب ہیں، اعتراض کرنے والا کوئی نہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اس بس میں کوئی ایسا نہیں تھا جو ان کی ممنوعہ حرکات پر اعتراض کر سکتا۔ ایسے سوال پلاٹ کو کمزور کر دیتے ہیں۔
 روجر اور گریٹا بوسہ بازی نہ بھی کرتے تو وہ بات سمجھ میں آ جاتی جو قلم کار سمجھانا چاہتا تھا۔
افسانے کا پلاٹ سیاحت پر مرکوز ہے۔ قلم کار نے کہانی میں جو ماحول بنایا ہے قاری اپنے آپ کو اسی ماحول میں ہاتا ہے اور کہانی کے ساتھ آگے بزڑھتے ہوئے خود بھی سیاحت کا لطف محسوس کرتا ہے۔
اختتام مغربی معاشرے کے مطابق ہی ہے۔ میسی کے پاس انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا اور گریٹا کے ساتھ "اب میں تمہارے لائق نہیں رہی" جیسا کوئی مسٔلہ نہیں تھا۔ دونوں ملتے ہیں اور قاری بھی کپڑے جھار کر آگے بڑھ جاتا ہے۔
شاید قلم کار کی منشاء بھی یہی تھی۔
ہلکی پھلکی تفریح۔
ایونٹ میں شمولیت کے لئے
فاضل قلم کار کو مبارک باد اور نیک خواہشات۔
٭
لئیق انور
ایک سیدھا سادہ افسانہ جس میں بوڑھوں کے لیے چٹخارہ ہے تھوڑا سا مسالہ ہے
توہم پرستی ہے
لیکن سمجھ میں نہیں آیا راجر کو کیا ہو گیا اس نے انکار کر دیا
گریٹنا کو اس انکار کا کوئی اثر نہیں ہوا وہ پکے آم کی طرح میسی کی جھولی میں ٹپک پڑی
اس طرح تو نہیں ہوتا
اس طرز کے افسانوں میں
ایونٹ میں شرکت کے لئے افسانہ نگار کو مبارک باد
٭
 ڈاکٹر انیس رشید خان
بہت خوبصورت اور دلچسپ افسانہ ہے۔
موجودہ دور میں، اکثر نوجوانوں میں محبت، صرف جنسی تسکین کا دوسرا نام بن گئی ہے۔ لیکن پھر بھی کوئی نا کوئی ایسا خاص دل ایسا ضرور ہوتا ہے جو محبت کے نام سے ہی دھڑکتا ہے۔
اس افسانے کا مرکزی کردار، اسپین سے آیا ہوا ایک شخص میسی ہے۔ اس کی محبت کا انداز، بالکل خالص مشرقی محبت جیسا ہے، بلکہ اس بھی کچھ زیادہ بڑھ کر ہے۔ انتہائی حیرت کی بات ہے کہ اس کے ساتھ آئی اس کی محبوبہ، ایک امریکی شخص کے ساتھ، خود اس کی موجودگی میں، عشق لڑانے لگتی ہے، تمام حدود کو پار کر لیتی ہے لیکن پھر بھی میسی کا دل اسی کے لئے دھڑکتا ہے!!!
مجھے افسانے کے آخری حصے میں یقین تھا کہ میسی کو گوا میں کوئی نا کوئی دوسری ایسی لڑکی ضرور مل جائے گی جو اس سے سچا پیار کرے گی!۔۔۔ ایسا اس لیے بھی تھا کیونکہ مغربی لوگوں کے انداز محبت کے لئے ہم مشرقی لوگوں کے خیالات ایسے ہی بائیزڈ ہوتے ہیں۔۔۔ لیکن افسانے کے آخری حصے میں جو کچھ بھی ہوا اس نے دل کو خوش کردیا۔
شاندار افسانے کے لئے محترم ایم مبین صاحب کو بہت بہت مبارک باد 🌹
٭
ساجدہ جمال
میسی۔۔۔گریٹا۔۔۔روجر
کہانی کے تین کردار جن کے گرد کہانی گھومتی ہیں۔۔۔
میسی۔۔۔ گریٹا کے کے عشق میں پاگل۔۔۔گریٹا۔۔۔ روجر میں پریشان۔۔۔اور روجر وقت گزاری میں مشغول۔۔۔
وہ محبت تو نظر ہی نہیں آئی جو افسانے کو لازوال بنا دے۔۔۔
نہ ہی کردار اپنی گہری چھاپ چھوڑ پائے۔۔۔
میسی میں گریٹا کو پانے کی تڑپ صاف نظر آتی ہے۔۔۔
لیکن گریٹا کے لئے محبت کوئی معنی نہیں رکھتی۔۔۔مرد پھر چاہے وہ میسی ہو یا روجر اس کے لئے محض وقت گزاری کا ذریعہ ہی ہے۔۔۔
آخر میں ہپپی اینڈینگ کے باوجود خوشی نہیں ہوئی۔۔۔
مبین صاحب کے لئے مبارک باد اور نیک خواہشات۔۔۔
٭
شید قاسمی
افسانہ خط مستقیم میں نہیں چلتا۔لیکن ایم مبین کا افسانہ نہ صرف چلا بلکہ چلتا ہی گیا۔۔۔ واجدہ تبسم کے یہاں افسانہ تو ہوتا تھا۔۔چٹخارہ بھی رکھا جاتا تھا۔ یہاں جناب نے افسانے میں سیکس کے چٹخارے کو گھلا ملا دیا۔۔اتنی دیدہ دلیری سے ایک سفری بس میں بوس و کنار اور جسم (وجاں) کی ہم آہنگی؟ بات کچھ ہضم نہیں ہوئی۔ گریٹا جب ایک سے۔۔۔ ضرورت۔۔ پوری کرکے دوجے کے پاس چلی گئی تھی تو اس کی۔۔۔ فطرت۔۔  کے۔مطابق اسے پھر کلائیمکس پر تیسرے کے پاس چلےجانا چاہیے تھا۔۔۔میسی کے پاس ہی کیوں؟ 
ویسے اردو میں اس نوع کی کہانیوں کی کمی ہے۔ایم مبین نے اس موضوع کو چھوا۔ تبصراتی تحریروں میں ایک صاحب نے انشاء کا تڑکا دے دینے کا مشورہ دے ڈالا۔۔۔چلیے اپنے علم میں اضافہ ہوا کہ افسانہ کو تڑکا کے ذریعے بھی سنوارا جا سکتا ہے! 
بزم میں شمولیت پر مبارکباد بھیّا۔
٭
محمد قمر سلیم
اے دلِ ناداں۔ افسانہ نگار: ایم مبین۔ تاثرات: محمد قمر سلیم۔ کہانی اچھی ہے۔ زبان سلیس ہے۔ بیان رواں دواں ہے۔ میں نہیں سمجھتا یہ افسانہ رومانی ہے۔ یہ نفسیاتی یا کیفیاتی زمرے میں زیادہ آتا ہے۔ مصنف نے یہ نہیں بتایا کہ آخر کون سی وجہ تھی کہ گریٹا نے برسوں پرانے تعلقات کو طاق میں رکھ دیا اور ایک اجنبی کے اتنا قریب آگئ کہ شادی پر آمادہ ہو گئی۔یہ گریٹا کی پہلی محبت بھی نہیں تھی کہ دیکھتے ہی دل آگیا۔ دوسری طرف میسی سب کچھ دیکھ رہا ہے اور اس کا خون نہیں کھول رہا ہے جبکہ اس طرح کے معاملات میں عام طور سے انسان کی دو کیفیتیں ہوتی ہیں وہ یا تو ڈپریشن میں چلا جاتا ہے یا جنونی ہو جاتا ہے اور کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ جیسا کہ گریٹا کے ساتھ ہوا کہ وہ ڈپریشن میں آگئی۔ دوسرے اس افسانے کا اختتام اجمیر شریف کا نام آتے ہی سمجھ میں آگیا تھا۔ انسان خوا جہ کے دربار جائے اور اس کی مراد پوری نہ ہو۔ مبین صاحب کو بہت بہت مبارک
٭
عرفانہ تزئین شبنم
ایم مبین صاحب کافی سینئیر افسانہ نگار ہیں آپ کے افسانے اس وقت سے زیرِ مطالعہ رہے ہیں جب لکھنے کی شروعات بھی نہ ہوئی تھی 
 افسانہ اے دلِ ناداں کا موضوع محبت ہے محبت میں تکون ہو تو تجسس اپنے آپ جاگ جاتا ہے میسی جو محبت میں توحید اور وفا کا قائل ہےاس کی محبت یکتا اور لازوال ہے اس کے بر عکس گریٹا کا کردار دل پھینک قسم کی لڑکی کا سا دکھائی دیتا ہے روجر جو سیاحت کے لئے ہندوستان آیا تھا اس کی ملاقات ناگہانی طور پر گریٹا سے ہوجاتی ہے 
ملوں تو تا بہ ابد اس کو چومنا چاہوں
کہاں بچھڑتے ہیں عشق و ہوس نہیں معلوم ( نامعلوم) 
لیکن یہاں روجر نے عشق نہیں صرف عیاشی کی، اور سیاحت کا پوری طرح سے حظ لیا، محبت کے کئی رنگ ہوتے ہیں کچّے پکّے۔۔۔اور جو رنگ سب سے پکّا ہوتا ہے وہ امر ہوجاتا ہے میسی کی محبت بھی ایسی ہی تھی اور اس کا یقین ہی محبت کی جیت کا معراج بھی تھا 
ہمیشہ کی طرح رواں دواں اسلوب اور بہترین منظر نگاری۔۔۔خوبصورت افسانے کے لئے ایم مبین صاحب کو دلی مبارکباد 🌹
٭
ایم۔ مبین
سب سے پہلے میں بزم افسانہ کے ایڈمن پینل کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے میرے اس افسانے" اے دل ناداں" کو اس ایونٹ میں مقام دیا٫
پھر ان تمام قارئین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس افسانے کو پڑھا اور سب سے بڑھ کر میں ان تمام کرم فرماؤں مبصرین کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا جنہوں نے اس افسانے پر اپنی قیمتی آراء دیں اور اپنا بیش قیمت وقت مجھے دیا۔
میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہوں گا کہ میں کوئی رومانی افسانہ نگار نہیں ہو میرے پاس رومانی افسانے انگلیوں پر گنے کے لائق ہیں۔ میں نے بہت کم رومانی افسانے لکھے ہیں جب ایڈمن پینل سے اس طرح کے کسی افسانے کی فرمائش آئی تو میں سوچ میں پڑ گیا کہ اس ایونٹ کے لئے میں اپنا کون سا افسانہ دو؟
پھر مجھے اس افسانے کی یاد آئی۔
یہ افسانہ میں نے ہندی میں معروف ہندی رسالے "سریتا " کے لئے لکھا تھا. جب کہ مجھے پتا تھا کہ یہ افسانہ نہ "سریتا " کے مزاج کا ہے اور نہ معیار کا ہے۔ مگر پھر بھی یہ افسانہ "سریتا " میں پورے اہتمام کے ساتھ شائع ہوا .اس کی جو وجوہات تھیں بیشتر مبصرین اس بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ افسانہ اردو میں کہیں کسی رسالے میں شائع نہیں ہوا تھا اس کی وجہ یہی تھی کہ اردو میں بھی اس طرح کے افسانوں کا مزاج نہیں ہے میں نے اس افسانے کے ذریعے ایک تجربہ کیا تھا تھا وہ تجربہ افسانوں میں تاریخی مقامات کی سیر اور ان کا ذکر کا تھا۔ ویسے اردو زبان میں کئ افسانہ نگاروں نے یہ تجربہ کیا ہے۔ اس لئے میں یہ کوئی دعویٰ نہیںکرتا کہ یہ میرا تجربہ پہلا تجربہ تھا۔
جہاں تک اس افسانے کے کرداروں اور واقعات کا تعلق ہے شک وہ ہمارے معاشرے سے مل نہیں کھاتے ہیں۔ وہ واقعات وہ باتیں ہماری تہذیب کا حصہ نہیں ہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ بات بھی سچ ہے کہ انسان کبھی کبھی دل کے ہاتھوں اتنا مضبوط ہو جاتا ہے کہ کہ اس کے لیے وہ ایسی تمام باتوں کو کرنے کے لیے لیے مجبور ہو جاتا ہے ہے جن پر کبھی اس نے زندگی میں نہ توجہ دی ہے اور نہ ہی ان کو دل سے کبھی قبول کیا ہے۔
اس افسانے کے ذریعے نا تو میرا مقصد پشکر اور اجمیر اور کی عظمت اور برکت کو بیان کرنا تھا اور ا نہ ان سے وابستہ عقائد کی تشہیر اور حمایت۔ مجھے اس بات کا پورا اندازہ تھا کہ یہ سوالات اس افسانے کے بارے میں ضرور اٹھائے جائینگے۔
اس افسانے میں میرا مقصد صرف پُشکر اور اجمیر میں پیش آنے والے واقعات کو بیان کرنا تھا اس سے زیادہ اور کچھ نہیں اور اس بارے میں بحث کرنا کسی بات کی تردید یا حمایت کرنا افسانہ نگار کا کام بھی نہیں ہے۔
اس کا کام صرف یہ ہے کہ وہ اپنے افسانے میں اُن باتوں کو بیان کر کے قارئین کے ذہن میں سوال کھڑا کر دے۔ان کے بارے میں فیصلہ کرنا قارئین کا کام ہے۔
ہر قارئین کا اپنا ایک زاویہ اور نظریہ اور سوچ ہوتی ہے۔وہ افسانے کو اسی زاویہ سے پڑھتا ہے۔اپنے نظریے سے دیکھتا ہے اور اس میں اپنی سوچ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جو ظاہر ہے اسے افسانوں میں نہ مل پاتی ہے اور نہ مل سکتی ہے۔اس لیے افسانہ نگار سے افکار کا قارئین سے اختلاف نے فطری بات ہے بلکہ تنقید کی بنیاد ہے۔اس طرح سے قارئین اور مبصرین کا اظہار خیال تنقید کے نہ صرف نئے در واہ کرتا ہے بلکہ قارئین اور افسانہ نگار کی ذہنی آبیاری بھی کرتا ہے۔
ایک بار پھر میرے اس افسانے کی پذیرائی کے لیے بزم، اراکین بزم، قارئین اور مبصرین کا بہت بہت شکریہ
ایم مبین

Post a Comment

0 Comments