دروازہ کھولا تو اسے یوں سامنے کھڑا دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔
’تم؟‘
’کیااندر آسکتاہوں——؟‘
’ہاں ہاں آؤ۔‘
ایک ہی نظرمیں اس نے گھر کاجائزہ لیا۔ اپنے بریف کیس کو ایک طرف رکھا اور صوفے پر اس طرح دراز ہوا جیسے مانوتھک کر چورچور ہورہاہو۔ دوتین مرتبہ بالوں میں انگلیاں پھیریں جیسے تھکن کااحساس کم کردینا چاہتاہو۔
’کیسے آناہوا؟ کب آئے؟‘
’صبح آیاتھا——ویزا کے چکر میں بھٹکتارہا۔ اب بھی کام مکمل نہیں ہوا۔ کل پھرجانا ہے۔ کام ہوجاتا تو آج ہی واپسی کا ارادہ تھا۔‘
’مجھ سے ملے بغیر ہی۔۔۔؟‘ نہ چاہتے ہوئے بھی یہ الفاظ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گئے۔
’نہیں ایسی بات نہیں۔۔۔‘
وہ میرے وطن کاتھا۔ اس کا نام ندیم تھا۔ لمبی مسافت طے کرکے آیاتھا۔ دفتروں میں بھٹکتے بھٹکتے یقیناوہ بہت تھک گیاہوگا۔
میرے دل نے کہاسیدھے ادھرآتے، نہادھو کر آرام کرتے پھر کام کے لیے نکلتے۔ میں کیا تمہاری اپنی نہیں تھی؟
لیکن یہ سب تو میرے دل نے کہاتھا زبان نے نہیں۔۔۔ اور۔۔۔ اور وہ شاید دل کی بات کہنا اور سننا بھول گیا تھا۔ بھولتا بھی کیوں نہیں۔۔۔ مجھے بہت پہلے سے معلوم تھا کہ اس کی گھریلو زندگی اچھی نہیں گزر رہی ہے۔
’تمہارے وہ کہاں ہیں؟‘
’وہ توتمھیں نہیں مل سکیں گے۔‘
’لیکن کیوں۔۔۔‘ بڑااشتیاق تھاان سے ملنے کا۔ آخرایسی کیابات ہے؟‘
’وہ یہاں موجودنہیں۔‘
’مجھے بہت افسوس رہے گا ان سے نہ ملنے کا۔‘
’مجھے بھی افسوس رہے گا اس بات کا۔ اتفاق ہے کہ وہ اس وقت شہرسے باہر گئے ہوئے ہیں۔ کل ان کی دادی کا انتقال ہوگیا ہے۔شاید کل یاپرسوں تک آئیں گے۔‘
’اوہ——‘ اس نے انتقال پررسماً افسوس ظاہرکیا۔
’بچے کہاں ہیں تمہارے۔۔۔؟کتنے ہیں؟ کیا یہی ایک بیٹاہے؟‘
’دوبیٹے ہیں۔بڑاآٹھ برس کا ہے چھوٹایہی ہے۔بڑے بیٹے کویہ ساتھ لے گئے ہیں۔ کہتے تھے پردادی کو آخری مرتبہ دیکھ لے شاید یادرہیں۔‘
’پھرتومیں غلط وقت پرآگیاہوں۔ تم اکیلی ہوشاید۔۔۔ مجھے یہاں رکنا نہیں چاہیے۔‘
’اب آہی گئے ہوتو رک جاؤ۔ کہاں ہوٹل دیکھتے پھروگے۔ یہ ایسے گئے گزرے بھی نہیں۔ بہت اچھے انسان ہیں۔‘
’مجھے لگا کہ اسے شاید اس آخری جملے کی امید نہیں تھی۔ ہوتی بھی کیسے؟ اچھا فریش ہوجاؤ۔۔۔ میں چائے بناتی ہوں۔‘
وہ فریش ہوکر نکلاتومیں چائے تیارکرچکی تھی۔
’اورسناؤ کیاکررہے ہو؟‘
’وہی ٹھیکیداری۔۔۔جنگلات کاکام۔‘
’کتنے بچے ہیں؟‘
’دو۔ایک بیٹا، ایک بیٹی۔‘
’بیوی کیسی ہے تمہاری؟ اچھی ہی ہوگی۔ پیسے والی تویقینا ہوگی۔‘ آخری جملہ کہہ کر میں نے خود ہی خجالت سی محسوس کی۔امی اور اباجان تویقینا بہت خوش ہوں گے۔
ہاں اچھی ہی ہے کیوں کہ امی اپنی پسند سے لائی ہیں۔ ساراگھر جہیز سے بھرگیاتھا۔ لیکن تمہارے ساتھ ناانصافی کی سزامل گئی انھیں۔ امی اور والدصاحب آخری دنوں میں تمھیں بہت یاد کرتے تھے۔
’اوہ۔۔۔کیا دونوں۔۔۔؟‘
’ہاں۔۔۔‘ اس نے ایک سردآہ کھینچی۔
ساری گزری ہوئی باتیں جنھیں میں بھول چکی تھی یاد آنے لگیں۔ ہم دونوں نے چارسال ایک ساتھ گزارے تھے۔ پڑوس کی شناسائی کالج میں پروان چڑھ گئی تھی۔اتنی پروان چڑھی کہ ایک ساتھ جینے اور ایک دوسرے کاساتھ نبھانے کی قسمیں اور وعدے کیے تھے۔ لیکن ندیم کے ماں باپ پرتوجہیز کا بھوت سوارتھا۔ میں تومعمولی گھرانے کی لڑکی تھی اور پھر ویسے بھی میرے والدین ہمیشہ سے جہیز لینے اور دینے کے حق میں نہیں تھے۔ مجھے بھی اپنی انا اور ماں باپ کی عزت پیاری تھی۔ ندیم کے لاکھ کہنے کے باوجود بھی میں نے اس سے سول میرج نہیں کی۔ بس یہی وجہ ہم دونوں کی علیحدگی کا سبب بن گئی۔
اب پورے دس برس بعدندیم کودیکھ رہی تھی۔ روح وقت سے اپنا حساب مانگ رہی تھی۔زندگی کی جدوجہد، خوشیاں اورغم، اس کے تمام وجود سے ظاہر تھے۔ بال کھچڑی ہوگئے تھے، صحت بھی کوئی بہتر نہیں تھی۔ طبیعت میں ڈھیلاپن آگیاتھا۔
’ندیم۔۔۔تمھیں دیکھ کرلگ رہاہے واقعی دس برس بیت گئے۔‘
’صرف دس برس۔۔۔؟ مجھے تولگتا ہے میرے اوپر سے صدیاں گزرگئی ہیں۔‘
اس ایک جملہ نے اس کی تمام کیفیت بیان کر دی تھی۔
میرادل چاہا کہ۔۔۔لیکن اس سب کی قصوروار میں نہیں تھی۔ کیا میں نے کچھ نہیں جھیلا؟ شاید اس سے بھی زیادہ۔۔۔یہ اور بات ہے کہ مجھے وقت اور حالات نے سخت بنادیا۔میں نے خود کو ٹوٹنے نہیں دیا، بکھرنے نہیں دیا ورنہ۔۔۔
’تم واقعی بہت خوش قسمت ہو پاکیزہ۔۔۔ تمھیں دیکھ کر یقین ہوگیا ہے کہ تمھیں سب کچھ پہلے سے بہتر ملا ہے۔ تم اس کی مستحق بھی تھیں۔ کافی مطمئن لگتی ہو یا پھرحالات سے سمجھوتہ کرلیاہے؟‘
’سمجھوتہ توتم جیسے لوگ کرتے ہیں۔ زندگی میں سب کچھ تونہیںمل جاتا؟ میں بہتر سے بہتر زندگی جینے کے حق میں ہوں اسے چاہوتو سمجھوتہ کہہ سکتے ہو۔‘مجھے لگا کہ شاید میرا لہجہ کچھ تلخ ہوگیاہے۔
’میں کھانے کابندوبست کرتی ہوں۔‘ یہ کہہ میں میں اٹھ گئی۔
اوروہ میرے بیٹے سے باتیں کرنے میں محوہوگیا۔
کھانے کے دوران ہم دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں۔اپنے تمام ساتھیوں کی، دوستوں کی،پڑوسیوں کی، کسی کے مرنے کی، کسی کی شادی کی۔۔۔
’پاکیزہ۔۔۔کیا تم ہمارے آنگن کا وہ ککروندے کا پیڑبھی بھول گئیں جس کے تم نے بہت ککروندے کھائے ہیں؟‘
’تم یہ بات کیوں جانناچاہتے ہو کہ مجھے کیایادہے اورکیا نہیں؟‘
’میں یہ اندازہ کرناچاہتاہوں کہ جومیں سوچتاتھا وہ سچ تھا یاغلط۔‘
’تم سوچتے ہی غلط ہو۔ اپنی سوچ کازاویہ بدل دو۔ لمحوں کے کرب سے باہر نکل آؤ۔ سب کچھ خود بخود ٹھیک ہوجائے گا۔مکمل جہاں کسی کے حصہ میں نہیں آیا۔‘
’توکیا۔۔۔؟۔۔۔تم بھی۔۔۔؟‘
’نہیں بالکل نہیں۔۔۔میں خوش ہوں۔‘
باتیں کرتے کرتے کافی رات گزر گئی۔ ندیم اب تم آرام کرو۔ میں اٹھتی ہوں اور یوں دوسرے کمرے میں میں نے ندیم کے آرام کا بندوبست کردیا۔
رات تقریباً آدھی بیت چکی تھی۔ نیندمیری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ بیٹامیری بغل میں آرام سے سورہا تھا اور میں دس سال پرانی کڑیوں کوجوڑنے کی ناکام کوشش کررہی تھی۔ آنکھیں چھلک رہی تھیں لیکن حلق میں تشنگی محسوس ہورہی تھی۔ اچانک ندیم کے کمرے کی لائٹ روشن ہوئی۔ مجھے کئی وسوسوں نے ایک ساتھ گھیرلیا۔ وہ باہرنکلا۔
’پاکیزہ۔۔۔پاکیزہ۔۔۔سوگئیں کیا۔۔۔‘
میں چپ سادھے پڑی رہی۔ کوئی جواب نہ پاکر اس کے قدم واپس مڑگئے۔ پھراس نے صدردروازہ کھولا اور باہر نکل گیا۔ میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اس کے واپس آنے کاانتظار کرنے لگی۔ تھوڑی دیر میں وہ واپس آگیا۔ سگریٹ اس کے ہونٹوں پر سلگ رہاتھا۔ اس نے صدردروازہ بندکیا اوراپنے کمرے کی طرف چلاگیا۔
میں نے لیٹ کر آنکھیں موندلیں۔ سوناچاہالیکن نیند غائب تھی۔پھرآہٹ محسوس ہوئی۔ میں پھراٹھ کر بیٹھ گئی لیکن یہ میرا وہم تھا۔
چاہتی تھی کوئی میگزین کوئی کتاب پڑھوں تاکہ فضول باتیں سوچنے سے بچی رہوں،لیکن میں یہ بھی توظاہر کرنا نہیں چاہتی تھی کہ میں جاگ رہی ہوں۔
لیکن وہ بھی تونہیں سویا۔ اب تک جاگ رہاہے۔ دن بھر کی تھکان کے باوجود۔۔۔ آخرکیوں؟ وہ شاید پھراٹھاہے۔
’پانی۔۔۔پانی تو میں رکھ آئی تھی جگ میں۔۔۔ کیوں اٹھا ہے وہ۔۔۔ کہیں ادھرتو نہیں آرہا۔ اس مرتبہ شاید وہ باتھ روم گیا تھا۔۔۔ اب شاید وہ باتھ روم سے نکل آیا ہے۔۔۔ شایداب وہ لائٹ بندکرے اور سوجائے۔ لیکن۔۔۔اس کے کمرے کی لائٹ جلتی رہی اورمیں۔۔۔‘
رات یوں ہی آنکھوں آنکھوں میں گزررہی تھی۔ تین بج چکے تھے۔ سرمیں شدیدبھاری پن محسوس ہورہاتھا۔ آنکھیں بوجھل ہورہی تھیں۔ایک مرتبہ پھرآنکھیں بندکرکے میں نے سونے کی کوشش کی۔
پھرآہٹ۔۔۔آواز۔۔۔گھبراکراٹھ بیٹھی۔ سامنے ندیم کھڑاتھا۔
’ایک کپ چائے ملے گی؟‘
’اوہ۔۔۔‘گھڑی پرنگاہ ڈالی سات بج رہے تھے۔ یعنی میں سوگئی تھی۔ آنکھیں اب بھی بوجھل تھیں۔
چائے لے کر جب میں ندیم کے کمرے میں گئی توسگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں سے میں نے ایس ٹرے کو بھراہواپایا اتنا کہ کئی ٹکڑے ایش ٹرے کے باہر بھی گرے پڑے تھے اورندیم کی آنکھیں میری آنکھوں سے بھی کہیں زیادہ بوجھل اور سوجی ہوئی تھیں۔ میں نے سکون کاسانس لیا۔۔۔وہ کمزور لمحہ گزرچکاتھا۔
ختم شد
ایک لمحہ کی بڑی نازک کہانی ہے جو قاری کو تذبذب کے عالم بہت سارے خدشوں کا شکار بنا دیتی ہے۔۔۔بہت سارے قاری کہانی کے کلائمکس سے سکون کاسانس لینگے لیکن ایک بات جو کھٹکتی ہے وہ ہے کہانی کا ماضی جو مختصر بھی ہو سکتا تھی قاری ماضی سے زیادہ حال کا متلاشی ہوتا ہے ایسی مختصر اور سیدھی سادی کہانی میں۔۔۔موضوع نیا نہیں افسانوی کاری گری نے نیا نکتہ اُبھار کر قاری کو اپنی گرفت میں لیا ہے۔۔ تخلیق کارمبارک باد کامستحق۔
٭
شہناز فاطمہ
صرف احساسات و جزبات پر مبنی افسانہ اور گزرنے والے لمحات بہت کرب انگیز تھے جسے محترمہ نگار عظیم صاحبہ نے بہت خوبصورتی سے صرف دل میں پیوست کیے عریاں نہیں کیے اور یہی افسانے کی سب سے بڑی خوبی ہے "محبت" بہت گہری ہوتی ہے وہ کبھی نہیں ختم ہو تی مگر حالات بدل جائے سے اسے پاکیزہ رکھنا بھی سچی "محبت" کا ثبوت ہے اسمیں ہر لمحہ بہت کرب انگیز رہا رات کے گزرتے ہر پل میں ہر لمحہ اندیشہ رہا مگر واہ محترم جناب نگار عظیم صاحب بہت ہی خوبصورت انداز سے افسانے کو پایہ تکمیل تک پہنچایا اس بہترین افسانے کے لئے بہت داد اور نیک خواہشات قبول کریں
٭
ناصر ضمیر
سب کی خدمت میں خلوص بھرا سلام
اچھا افسانہ ہے ۔ بغیر کسی حادثے کے گاڑی اپنی منزل پر پہنچ گئی حالانکہ راستے پیچ و خم سے بھرے تھے لگا بھی تھا کہ شاید۔۔۔
نہایت عمدہ فن کاری سے تکمیل تک پہنچایا کہانی کو...... پر ایسی کہانیاں پہلے بھی پڑھی ہیں شاید اس کی بنیادی وجہ "عشق " کا موضوع ہے۔
خیر! نگار عظیم صاحبہ کو بہت بہت مبارک باد
٭
رفیع حیدر انجم
محترمہ نگار عظیم صاحبہ اردو فکشن کا ایک اہم نام ہے. وہ جس بھی موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں وہ حیات آفریں ہو جاتا ہے. افسانہ "لمحہ " ایک کیفیت کا افسانہ ہے جسے لفظوں کے پیرہن میں اتنی نفاست کے ساتھ نگار عظیم صاحبہ ہی پیش کرسکتی تھیں. انسانی زندگی میں ماضی کے تلخ و شیریں واقعات بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور بسا اوقات یہ حال میں دخیل ہو کر فکر و احساس کو درہم برہم بھی کر دیتے ہیں. اگر معاملہ محبت میں ناکامی کا ہو تو یہ جی کا لاعلاج روگ بھی بن جاتا ہے. فکشن میں عشق و محبت ایک آفاقی موضوع ہے جسے ہر دور میں دہرایا جاتا رہےگا. محبت کا احساس کبھی پرانا نہیں ہوتا. البتہ وقت اور حالات اسے گرد آلود کر سکتے ہیں. ندیم اور پاکیزہ کی غیر متوقع ملاقات نے زخموں کو ہرا کر دیا ہے مگر دونوں اس بات سے واقف ہیں کہ زخموں کو کریدنے کا اب کوئی فائدہ نہیں ہے. ملاقات کے یہ چند گھنٹے داخلی احساسات کی دھیمی لو میں سلگ کر ختم ہو جاتے ہیں اور اب حالات ایسے ہیں کہ کوئی شعلہ بھڑک نہیں سکتا. ندیم دوستی کے حدود سے آگے نہیں بڑھ پاتا اور پاکیزہ بڑی فنکاری سے اپنی پاکدامنی پر کوئی آنچ آنے نہیں دیتی. احساس کی سطح پر قاری کو گرفت میں لئے رکھنے کے ہنر سے نگار عظیم صاحبہ نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس نفسیاتی سطح پر بھی انہوں نے اعلی تخلیقی فن پارہ پیش کیا ہے.
٭
نصرت شمسی
ایک کسک دل کی دل میں دبئی رہ گئی
زندگی میں تمہاری کمی رہ گئی
ایک میں ایک تو ایک دیوار تھی
زندگی آدھی آدھی بتی رہ گئی
درمیان میں تشنگی کہ احساس باقی رہا
مبارک باد نگار آپا سلامت رہیں
٭
ڈاکٹر مبین نذیر
حال سے ماضی، ماضی سے حال کا سفر کرتا ہوا مختصر افسانہ جو لمحہ بہ لمحہ قاری کے تجسس میں اضافہ کرتا ہےـ قاری اپنے ذہن کے گھوڑے دوڑاتا ہے کہ اب... اب.... اب.... اب افسانے میں ایک موڑ آئے گا. افسانہ نگار اس تجسّس کو برقرار رکھتے ہوئے اخیر میں قاری کو چونکا دینے والے اختتام سے دوچار کر دیتا ہے، جو افسانہ نگار کی فن اور موضوع پر دسترس کا مظہر ہے ـ
منتظمین کا شکریہ کہ عمدہ افسانے اس بزم کے توسط سے باصرہ نواز ہورہے ہیں ساتھ ہی افسانہ نگار کو بھی بہت بہت مبارکباد...
٭
ڈاکٹر انیس رشید خان
نہایت خوبصورت اور حساس افسانہ ہے۔
اسے پڑھتے ہوئے ایک ہی خیال بار بار دماغ میں گونج رہا تھا کہ
لمحوں نے خطا کی تھی،صدیوں نے سزا پائی۔۔۔
اس افسانے میں،
وہ ایک نازک لمحہ،
جس میں خطا ہوجانے کا قوی امکان تھا،
گزرتی ہوئی رات کے ساتھ ہی گزر گیا۔۔۔
اور اسی لئے آنے والا مستقبل سزا پانے سے بچ گیا !!!
بہت ہی حساس افسانہ ہے جو قاری کے دل و دماغ کو آخر تک، مکمل طور پر، اپنی گرفت میں باندھے رکھتا ہے۔
آخر میں، جب رات گزر جاتی ہے اور صبح ہوجاتی ہے تب خطا کیے بغیر نازک لمحہ کے کرب سے گزرنے کا احساس ایک عظیم سکون اور داخلی اطمینان میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ زندگی میں پاکیزگی باقی رہتی ہے اور ماضی کے گزرے ہوئے نازک حالات، آنے والے مستقبل پر اثر انداز ہونے میں ناکام ثابت ہوتے ہیں۔
خوبصورت افسانے کے لئے محترمہ نگار عظیم صاحبہ کو بہت بہت مبارک باد 🌹
٭
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
ماضی کی ناکام ادھوری محبت کی راکھ میں دبی چنگاری جو حال کی ایک رات میں کمزور لمحاتی کیفیت سے گذرتے ہوئے شعلہ بننے کو مچلی لیکن ضبط نفس اور پاس وفا نے اسے بجھا دیا۔
دھیرے دھیرے سرکتی ہوئی رات، جذباتی لمحات میں سانسیں لیتی ہوئی ایک کیفیت جو بے خوابی، اضطراب اور آنکھوں کے سرخ گلیاروں سے گذرتی ہویء سرخرو ہوگیء۔
زندگی کے دورانیے میں وہ ایک لمحہ تھا لیکن اس رات میں ہزاروں لاکھوں لمحے تھے۔ جذبات کی عمارت کو متزلزل کرنے والے کمزور لمحے اور ضمیر کی روشنی سے نکلنے والے مظبوط لمحے جنہوں نے جذبات کے پاؤں میں زنجیر ڈال رکھی تھی، رات بھر ایک دوسرے کے سامنے صف بستہ رہے، سگریٹ سے دھواں اٹھتا رہا، جنگ چلتی رہی۔ صبح ایش ٹرے میں بجھی ہوئی سگریٹوں کے انگنت ٹکڑے کمزور لمحوں پر فتح کا استعارہ بن گئے۔
دلکش زبان و بیان سے سجی پرکیف کہانی کے لئے نگار عظیم صاحبہ کو مبارکباد
اور
پیش کش کے لئے منتظمین بزم افسانہ کا شکریہ۔
٭
انجم قدوائی
نگار عظیم صاحبہ کا یہ محبت کے رنگوں سے سجا ہوا ایک حساس افسانہ ہے لیکن دراصل یہ رسموں اور رواجوں میں جکڑے متوسط طبقے کی ایک لڑکی " پاکیزہ" کی اعلیٰ اقدار پر قائم رہنے کی کہانی ہے۔
ندیم کے والدین اپنے بیٹے کے بہتر مستقبل کے لیے ایک نسبتاً غریب گھرانے کی لڑکی پر ایسی لڑکی کو ترجیح دیتے ہیں جو جہیز اور مال و دولت سے ان کا گھر بھر سکے۔ اس صورتحال میں ندیم اپنی محبوب کو سول میرج کی تجویز دیتا ہے۔ جسے وہ اس لیے رد کر دیتی ہے کہ اسے اپنی انا اور ماں باپ کی عزت پیاری ہے۔
یہ ایک بے حد خوبصورت بات ہے کہ کہ حساس دل اپنے والدین کے جذبات کو ترجیح دے کر اپنی شکستگی قبول کرلے۔ زمانے کے بعد ملاقات ایک اجنبی کی صورت ہوتی ہے۔ الگ الگ کمروں میں بے چینی اور اضطراب کے ساتھ وقت گزار دیتے ہیں۔ رات کے پچھلے پہر ندیم اٹھ کر " پاکیزہ" کو آوازیں دیتا ہے قاری تجسس میں مبتلا ہو تا ہے مگر پاکیزہ مظبوطی سے اپنے عہد پر قائم ہے۔ اور رات جیسے دھیرے دھیرے سلگتی ہوئی کٹ جاتی ہے۔اس افسانے میں نگار عظیم صاحبہ نے محبت اور اس درد کی خوبصورت آمیزش کی ہے جو صرف محسوس کرنے سے تعلق رکھتی ہے۔نگار عظیم صاحبہ کے جذبے کو سلام۔
٭
راجہ یوسف
تجسس بھرا خوبصورت افسانہ...
٭
شمع افروز زیدی
اس افسانے کا پس منظر اور بنیاد محبت اور صرف محبت ہے محبت ایک ایسا لا فانی جذبہ ہے جو ہر عمر میں جواں رہتا ہے جو کبھی بھی پرانا نہیں ہوتا اسی وجہ سے دنیا کا دو تہائی ادب محبت کے جذبے پر مبنی ہے جس مین جدید ادب بھی شامل ہے اگر محبت کو زندگی سے نکال دیا جائے تو باقی کیا بچتا ہے کہانی "لمحہ" بیحد نازک جزبوں کی کہانی ہے اتنے نپے تلے کم الفاظ میں ایسی خوبصورت اور کامیاب کہانی بننا آسان نہیں ہوتا جو پہلی سطر سے ہی قاری کو باندھ لے لیکن نگار عظیم ایسی منجھی ہوئی فنکارہ ہیں جو قاری کو چونکانے میں ماہر ہیں ورنہ ہر پل ہر گھڑی قاری اسی خیال میں گرفتار تھا اب۔۔۔اب۔۔۔وہ لمحہ آیا اتنی پیاری کہانی کہنے پر میں نگار عظیم کو مبارکباد پیش کرتی ہوں
٭
غیاث الرحمٰن
نگار عظیم صاحبہ کا افسانہ, لمحہ, نہایت دلپذير, پرتاثیر, نازک جذبات سے مزین افسانہ ھے۔ اس کا حسن الفاظ کی ادائگی میں تو خوب ھے, لیکن اس سے ذیادہ بین اسطور میں پوشیدہ ھے۔ افسانہ نگار اپنے تخیّل کی ترثیل میں پوری طرح کامیاب ھیں۔ اس لطیف جذباتی کہانی کے لیے افسانہ نگار اور ایڈمن کو بہت مبارکباد۔
٭
محمد علی صدیقی
"لمحہ"
ماضی کے پس منظر میں
چند نازک لمحوں کی ایک ہلکی پھلکی
داستان ہے۔
جب دو چاہنے والے بچھڑ کر زندگی میں
اگے بڑھ جائیں اور پھر کسی موڑ پر ملیں تو ان کی جذباتی کیفیت کیا ہو سکتی ہے اس کی بیحد لطیف اور عمدہ عکاسی اس افسانے میں کی گئی ہے۔
دیار غیر میں جب ایک دن اچانک ندیم پاکیزہ کے گھر پہنچ جاتا ہے تو کہانی کی پرتیں آہستہ آہستہ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ قاری ہوا کے لطیف جھونکے کی طرح پاکیزہ کی سوچ کے ساتھ کہانی کے دوسرے سرے تک پہنچتا ہے اور اطمینان کا سانس لیتا ہے۔
لیکن تمام تر لطافت اور کشادہ ذہنی کے باوجود موضوعاتی سطح پر ایک سوال خلش بن کر قاری کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں جب گھر میں اس کے چھوٹے بچے کے سوا کوئی اور موجود نہیں تھا پاکیزہ کا ندیم کو رات کے وقت گھر میں ٹھہرانے کا فیصلہ کیسا تھا۔۔؟
اس سوال کے ساتھ ایک دل پذیر اور فرحت بخش افسانے کے لئے فاضل قلم کار کو از حد داد و مبارک باد پیش ہے۔
٭
وحید امام
'لمحہ 'محبت کی ایک ناتمام داستان جو ندیم اور پاکیزہ کے اردگرد گردش کرتی ہے۔زندگی کے ایک موڑ پر دونوں کاسامنا ہوا دونوں جذبات کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگے۔افسانےمیں ایک خاتون افسانہ نگار نے ایک خاتون کے جذبات کی عمدہ ترجمانی کی جس کے لئے وہ مبارکباد بادکی حقدار ہیں لیکن شمع کا حال تو وہ بیان کر چکیں مگر پروانے پر کیا گزری؟اس کے جذبات،نفسیاتی کشمکش اور۔۔۔ دل میں اٹھنے والے طوفان کے بارے میں بھی کچھ ذکر ہوجاتا تو میرے خیال میں افسانہ میں توازن برقرار رہتا۔ ندیم کی بے چینی،بے بسی اور بے قراری اس کی حرکات و سکنات سے کسی حد تک ظاہر ہوگئ مگر اس کے احساسات و خیالات سے قارئین واقف نہ ہوسکے۔شمع اورپروانہ ایک ہی آگ میں جلے، شمع کے احساسات سے واقفیت ہوگئ مگر پروانے کے دل پر کیا گزری اس کا کوئی ذکر نہیں۔
پروانے کا تو حشر جو ہو نا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں
وہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ دو دلوں کی داستان ہے دونوں کے خیالات و احساسات کا ذکر ہی افسانے کی روح ہے۔ایک بہترین افسانہ تخلیق کرنے پر نگار عظیم صاحبہ کو مبارکباد کے ساتھ ساتھ منتظمین صاحبان کی خدمت میں بھی ہدیہ تشکر پیش کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کی مخلصانہ کاوشوں کی بدولت اردو زبان و ادب کے لازوال افسانے مطالعے کے لیے حاصل ہورہے ہیں۔
٭
محمد سراج عظیم
زندگی کے پرکیف لمحات کو سمیٹے ہوئے ملگجی سی حسرت و اداس اس لمحہ پر محیط وہ رات جو حاصل تھا زندگی کے خوش رنگ عطر بیز گزرے سینکڑوں لمحات کا، یا المیہ تھا زمانے کے سفاک و بے رحم خود غرض لمحات کا جنھوں نے دو محبت کرنے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بے خوف خطر عشق کی راہ پر سبک روی سے گامزن مسافروں کو زندگی کے مختلف راستوں پر مجبور کردیا چلنے کے لئے۔ اتفاق سے اکیلے چلتے چلتے بہت دور اچانک وہ لمحہ پھر آن موجود ہوا۔ عین ممکن تھا کہ دو بے چین روحیں ماضی کے سلگتے لمحات کی تپش میں مبتلا دور موجود کے برانگیختہ لمحہ میں جذبات کے شعلے بھڑکا دیتے کہ آنے والے لمحات ایک تباہی آتش فشاں ثابت ہوتے اس سے پہلے ہی اس لمحہ پر بے التفاتی کی اوس ڈال کر سلا دیا گیا، ارمانوں کو ایش ٹرے میں بڑی بے رحمی سے راکھ کردیا گیا۔ یہی زندگی کا وہ لمحہ ہے جہاں بشریت اشرف المخلوقات کی مسند پر نظر آتی ہے۔
نگار عظیم کی باوجود دو ایک ہک اپس کے خوبصورت رومانی کہانی۔ جہاں مشاق قلم کی گل افشانیاں، چست درست بیانیہ پر تاثر مکالمے اور نازک و لطیف کلائمیکس۔ بہت مبارک۔
٭
اکبر عابد
محبت ایک دوسرے کے اندر بسنے کا نام ہے طلب کرنے یا مانگنے کا نام نہیں یا کسی سمجھوتے کا نام نہیں ایک دوسرے کے اندر مدغم ہوکرفنا ہوجانے کا نام ہے۔جس طرح جگنو کی روشنی اصلی خالص اورابدی وازلی ہوتی ہے اسی طرح محبت کی روشنی بھی ازلی وابدی ہوتی ہے یہ جس دل سے پھوٹتی ہے اپنے اردگرداور قریب آنے والے کے سارے اندھیرے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔لمحہ کو پڑھ کر قاری بھی ان ہی کیفیات کا شکار ہوجائے گا ایک بہترین افسانے کے لئے محترمہ نگار عظیم صاحبہ کو ڈھیرساری مبارکباد نیک خواہشات۔۔۔
٭
اقبال حسن آزاد
نگار عظیم ایک منجھی ہوئی فنکارہ ہیں۔انہوں نے ایک نازک موضوع کو چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔دس برسوں کے بعد جب ندیم اور پاکیزہ کی ملاقات ہوتی ہے تو پرانی یادوں کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ایک نہ ہونے کا ملال دونوں کو ہے لیکن مرد ہونے کے ناطے ندیم اپنے جذبات چھپا نہیں پاتا ہے جبکہ پاکیزہ عورت ہونے کی وجہ سے اپنی بے چینی اور بے قراری کو دل میں چھپا کر رکھ لیتی ہے۔رات دونوں پر بھاری ہے۔دونوں جاگ رہے ہیں لیکن دونوں کی فطری شرافت آہنی دیوار کی طرح سامنے آ جاتی ہے اور رات خیریت کے سا تھ گزر جاتی ہے۔ایک کامیاب افسانہ لکھنے کے لیے محترمہ نگار عظیم کو دلی مبارک۔
٭
ڈاکٹر فیروز عالم
٭
غیاث الرحمٰن
نگار عظیم صاحبہ کا افسانہ, لمحہ, نہایت دلپذير, پرتاثیر, نازک جذبات سے مزین افسانہ ھے۔ اس کا حسن الفاظ کی ادائگی میں تو خوب ھے, لیکن اس سے ذیادہ بین اسطور میں پوشیدہ ھے۔ افسانہ نگار اپنے تخیّل کی ترثیل میں پوری طرح کامیاب ھیں۔ اس لطیف جذباتی کہانی کے لیے افسانہ نگار اور ایڈمن کو بہت مبارکباد۔
٭
محمد علی صدیقی
"لمحہ"
ماضی کے پس منظر میں
چند نازک لمحوں کی ایک ہلکی پھلکی
داستان ہے۔
جب دو چاہنے والے بچھڑ کر زندگی میں
اگے بڑھ جائیں اور پھر کسی موڑ پر ملیں تو ان کی جذباتی کیفیت کیا ہو سکتی ہے اس کی بیحد لطیف اور عمدہ عکاسی اس افسانے میں کی گئی ہے۔
دیار غیر میں جب ایک دن اچانک ندیم پاکیزہ کے گھر پہنچ جاتا ہے تو کہانی کی پرتیں آہستہ آہستہ کھلتی چلی جاتی ہیں۔ قاری ہوا کے لطیف جھونکے کی طرح پاکیزہ کی سوچ کے ساتھ کہانی کے دوسرے سرے تک پہنچتا ہے اور اطمینان کا سانس لیتا ہے۔
لیکن تمام تر لطافت اور کشادہ ذہنی کے باوجود موضوعاتی سطح پر ایک سوال خلش بن کر قاری کے ذہن میں ابھرتا ہے کہ شوہر کی غیر موجودگی میں جب گھر میں اس کے چھوٹے بچے کے سوا کوئی اور موجود نہیں تھا پاکیزہ کا ندیم کو رات کے وقت گھر میں ٹھہرانے کا فیصلہ کیسا تھا۔۔؟
اس سوال کے ساتھ ایک دل پذیر اور فرحت بخش افسانے کے لئے فاضل قلم کار کو از حد داد و مبارک باد پیش ہے۔
٭
وحید امام
'لمحہ 'محبت کی ایک ناتمام داستان جو ندیم اور پاکیزہ کے اردگرد گردش کرتی ہے۔زندگی کے ایک موڑ پر دونوں کاسامنا ہوا دونوں جذبات کے بھنور میں ہچکولے کھانے لگے۔افسانےمیں ایک خاتون افسانہ نگار نے ایک خاتون کے جذبات کی عمدہ ترجمانی کی جس کے لئے وہ مبارکباد بادکی حقدار ہیں لیکن شمع کا حال تو وہ بیان کر چکیں مگر پروانے پر کیا گزری؟اس کے جذبات،نفسیاتی کشمکش اور۔۔۔ دل میں اٹھنے والے طوفان کے بارے میں بھی کچھ ذکر ہوجاتا تو میرے خیال میں افسانہ میں توازن برقرار رہتا۔ ندیم کی بے چینی،بے بسی اور بے قراری اس کی حرکات و سکنات سے کسی حد تک ظاہر ہوگئ مگر اس کے احساسات و خیالات سے قارئین واقف نہ ہوسکے۔شمع اورپروانہ ایک ہی آگ میں جلے، شمع کے احساسات سے واقفیت ہوگئ مگر پروانے کے دل پر کیا گزری اس کا کوئی ذکر نہیں۔
پروانے کا تو حشر جو ہو نا تھا ہو چکا
گزری ہے رات شمع پہ کیا دیکھتے چلیں
وہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ یہ دو دلوں کی داستان ہے دونوں کے خیالات و احساسات کا ذکر ہی افسانے کی روح ہے۔ایک بہترین افسانہ تخلیق کرنے پر نگار عظیم صاحبہ کو مبارکباد کے ساتھ ساتھ منتظمین صاحبان کی خدمت میں بھی ہدیہ تشکر پیش کرتا ہوں کہ آپ لوگوں کی مخلصانہ کاوشوں کی بدولت اردو زبان و ادب کے لازوال افسانے مطالعے کے لیے حاصل ہورہے ہیں۔
٭
محمد سراج عظیم
زندگی کے پرکیف لمحات کو سمیٹے ہوئے ملگجی سی حسرت و اداس اس لمحہ پر محیط وہ رات جو حاصل تھا زندگی کے خوش رنگ عطر بیز گزرے سینکڑوں لمحات کا، یا المیہ تھا زمانے کے سفاک و بے رحم خود غرض لمحات کا جنھوں نے دو محبت کرنے والے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بے خوف خطر عشق کی راہ پر سبک روی سے گامزن مسافروں کو زندگی کے مختلف راستوں پر مجبور کردیا چلنے کے لئے۔ اتفاق سے اکیلے چلتے چلتے بہت دور اچانک وہ لمحہ پھر آن موجود ہوا۔ عین ممکن تھا کہ دو بے چین روحیں ماضی کے سلگتے لمحات کی تپش میں مبتلا دور موجود کے برانگیختہ لمحہ میں جذبات کے شعلے بھڑکا دیتے کہ آنے والے لمحات ایک تباہی آتش فشاں ثابت ہوتے اس سے پہلے ہی اس لمحہ پر بے التفاتی کی اوس ڈال کر سلا دیا گیا، ارمانوں کو ایش ٹرے میں بڑی بے رحمی سے راکھ کردیا گیا۔ یہی زندگی کا وہ لمحہ ہے جہاں بشریت اشرف المخلوقات کی مسند پر نظر آتی ہے۔
نگار عظیم کی باوجود دو ایک ہک اپس کے خوبصورت رومانی کہانی۔ جہاں مشاق قلم کی گل افشانیاں، چست درست بیانیہ پر تاثر مکالمے اور نازک و لطیف کلائمیکس۔ بہت مبارک۔
٭
اکبر عابد
محبت ایک دوسرے کے اندر بسنے کا نام ہے طلب کرنے یا مانگنے کا نام نہیں یا کسی سمجھوتے کا نام نہیں ایک دوسرے کے اندر مدغم ہوکرفنا ہوجانے کا نام ہے۔جس طرح جگنو کی روشنی اصلی خالص اورابدی وازلی ہوتی ہے اسی طرح محبت کی روشنی بھی ازلی وابدی ہوتی ہے یہ جس دل سے پھوٹتی ہے اپنے اردگرداور قریب آنے والے کے سارے اندھیرے اپنے اندر سمیٹ لیتی ہے۔لمحہ کو پڑھ کر قاری بھی ان ہی کیفیات کا شکار ہوجائے گا ایک بہترین افسانے کے لئے محترمہ نگار عظیم صاحبہ کو ڈھیرساری مبارکباد نیک خواہشات۔۔۔
٭
اقبال حسن آزاد
نگار عظیم ایک منجھی ہوئی فنکارہ ہیں۔انہوں نے ایک نازک موضوع کو چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔دس برسوں کے بعد جب ندیم اور پاکیزہ کی ملاقات ہوتی ہے تو پرانی یادوں کے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ایک نہ ہونے کا ملال دونوں کو ہے لیکن مرد ہونے کے ناطے ندیم اپنے جذبات چھپا نہیں پاتا ہے جبکہ پاکیزہ عورت ہونے کی وجہ سے اپنی بے چینی اور بے قراری کو دل میں چھپا کر رکھ لیتی ہے۔رات دونوں پر بھاری ہے۔دونوں جاگ رہے ہیں لیکن دونوں کی فطری شرافت آہنی دیوار کی طرح سامنے آ جاتی ہے اور رات خیریت کے سا تھ گزر جاتی ہے۔ایک کامیاب افسانہ لکھنے کے لیے محترمہ نگار عظیم کو دلی مبارک۔
٭
ڈاکٹر فیروز عالم
اچھی رومانی کہانی ہے۔ واقعات کے کساو، دلچسپ بیانیہ، فطری مکالموں اور عمدہ نقطۂ عروج نے افسانے کو دلکشی عطا کی ہے۔ افسانہ لمحہ میں طویل عرصے کے بعد ایک دوسرے کو چاہنے والے اور حالات کا ستم اٹھانے والے دو افراد کی ذہنی و جذباتی کیفیت کی اچھی عکاسی کی گئی ہے۔ نگار عظیم صاحبہ کو دلی مبارک باد
٭
ساجدہ جمال
محبت سے جب چوٹ لگتی ہے وہ چوٹ انسانی دل و دماغ میں ایک گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے بظاہر تو ایک چوٹ کھایا انسان نارمل زندگی جیتا نظر آتاہے لیکن کبھی کبھی رات کی سیاہ تنہائی میں وہ بیتےلمحے اسے اندر ہی اندر کہیں بے چین رکھتے ہیں۔۔۔
اس افسانے میں ندیم اور پاکیزہ بھی دو ایسے ہی کردار ہیں جو محبت اور عزت میں والدین کی عزت کو ترجیح دیتے ہیں اور خاموشی اختیار کر کے خود کو وقت کے رحم و کرم پرچھوڑ دیتے ہیں گزرتا وقت دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے الگ الگ راستوں کا مسافر بنا دیتا ہے۔۔۔جب راستے جدا ہوتے ہیں تو منزلیں بھی بدل جاتی ہیں۔۔
اور زندگی وقت کے پہییوں پر سوار ایک بار پھر دونوں کو آمنے سامنے لے آتی ہے۔۔۔
اور وہ زخم جو بھرا تو نہیں تھا ہاں مندمل ضرور ہوا تھا پھر ہرا ہو جاتا ہے۔۔۔
زندگی میں در آنے والے ایسے کمزور لمحے انسان کو اندر سے دھلا کر رکھ دیتے ہیں۔۔۔
اگر انسان ایک لمحے کے لئے بھی چوک جاے تو زندگی بھر کا پچھتاوا مقد ر بنتا ہے۔۔
نگار عظیم صاحبہ نے اس نازک لمحے سے گزر کر جس روانی کے ساتھ اس افسانے کو قلم بند کیا وہ واقعی قابل تعریف ہے۔۔۔
بس محمد علی صدیقی صاحب کے اٹھائے گئے سوال پر کچھ دیر رک کر سوچنے والی بات ہے۔ اس کے علا وہ سب کچھ پسند آیا۔۔۔
شوہر کی کشادہ دلی کے باوجود
اگر کہیں شوہر کے دل میں یہ سوال اٹھ ہی گیا تو۔۔۔؟
جنگل میں مور ناچا۔۔۔
افسانہ نگار اور بزم افسانہ کے تمام اراکین کے لئے بہت ساری نیک خواہشات۔۔۔
٭
فریدہ نثار احمد انصاری
محبتیں ستم ظریفی کا شکار ہو دریا کے دو پاٹوں میں بٹ گئی اور ایک طویل وقفے کے بعد ملاقات ہوئی۔
میم نے دونوں کرداروں کو عمدگی سے پینٹ کیا۔دونوں نے پرانے دنوں کو یاد تو کیا لیکن پاکیزہ اپنے نام کی طرح پاکیزہ خیالات کے ساتھ ندیم سے مخاطب ہوئی۔دونوں کی بھینی بھینی محبت کی مہک میں قاری گم ہو گیا۔
چوں کہ فکشن میں تخیل کی پرواز میں قاری مدغم ہو جاتا ہے پھر بھی دو ایک سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ ندیم بغیر کچھ جانے پاکیزہ کے گھر چلا جاتا ہے۔ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس کے اس طرح گھر جانے پر گر اس کے شوہر سے ملاقات ہوئی تب وہ کیا سوچے گا۔وہ اپنے کام سے اس شہر میں گیا تھا تب اسے کسی ہوٹل میں قیام کرنا چاہے تھا اور صرف ملاقات کے لئے کچھ وقت کے لئے جا سکتا تھا پر رات گزارنا بھی مناسب نہ لگا۔
اختتام نے افسانے کو عنوان سے عمدگی سے جوڑا اور وہ لمحہ ان کی محبت کی زندگی میں نہ آ کر یادگار بن گیا۔
میم کو مبارک باد و نیک خواہشات۔
٭
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
عشق کا انجام جدائ کیوں ہے۔؟ یہ ہی حقیقت ہے ورنہ لیلئ مجنوں، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا کی محبت لا فانی نہیں ہوتی۔
نگار عظیم الفاظ کے اظہار کرنے کا سلیقہ جانتی ہیں۔انھوں نے دو فرقت کے مارے تڑپتے دلوں کے جزبات کو بہتر طریقے سے پیش کیا ہے۔ایک لمحہ جو دونوں پر بھاری تھا۔ اپنے جزبات پر،نفس پر کنٹرول کرنا ہی بہت بڑی بات ہے۔ بقول مومن خاں مومن
گر شیر نر مارا تو کیا مارا
نفس امّارہ کو گر مارا تو مارا۔
وہ لمحہ گزر گیا اور دونوں سرخرو ہوگئے۔
اچھی کہانی ہے۔۔
٭
ترنم جہاں شبنم
بظاہر تو یہ کہانی پاکیزہ اور ندیم کی اس ناکام محبت کی کہانی ہے جو اپنے والدین کی محبت میں یا خاندانی اقدار اور وقار کی خاطر قربان کر دی گئی تھی۔ اور پھر اچانک برسوں بعد یوں سامنے آ کھڑی ہوئی کہ ماضی کی تہہ میں دبی محبت نے ایک بار پھر احساس کی بھٹی میں سلگنا شروع کر دیا اور ہر لمحہ ایک امتحان بن کر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ لیکن حقیقتاً یہ کہانی ہے احساس کی، گناہ اور ثواب کی، تربیت اور خاندانی اقدار کی، سماجی پسماندگی کی، جہیز جیس لعنت کی جس نے دو محبت کرنے والوں کو ایک ہونے نہ دیا۔ والدین کی اس سوچ کی جنہوں نے اولاد کے شادی بیاہ کے معاملے میں انہیں پسند، ناپسند کا اختیار نہیں دیا۔۔۔ اور تربیت کی، جہاں پاکیزہ کی محبت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پاک سے پاک تر ہوتی چلی گئی۔ اور ندیم کی بےچینیاں اس میں سلگ کر دھواں بنتی ہوئی اس کے سامنے رقص کرتے ہوئے آخر میں خود ہی راکھ کا ڈھیر بن کر بکھر بھی گئیں۔۔۔
یوں تو یہ مختصر سی کہانی ہے مگر اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ دریا کو کوزے میں بھرنا اسی کو کہتے ہیں۔ زبان بیان اور مکالمے جزئیات نگاری سب افسانہ نگار کی اعلیٰ فنکارانہ صلاحیتوں کے ضامن ہیں۔ اور خوبصورت موڑ پر کہانی کا اختتام نگار عظیم کا خاصہ۔۔۔ جہاں ہر لمحہ ہر سطر پر دھڑکتے دل کے ساتھ آ گے بڑھتے قاری کے سامنے اس جھٹکے سے کہان ختم ہو کر اسے مبہوت کر جاتی ہے کہ وہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ اور کہانی مہینوں اس کے حافظے میں محفوظ ہو کر رہ جاتی ہے۔ محبت کی اس خوبصورت کہانی کے لئے نگار آپا بہت بہت مبارکباد۔۔۔ ❤️🌹
٭
سلیم خان
نفسیاتی کشمش کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ بہت عمدہ افسانہ ہے ماشاءاللہ۔ مبارک ہو
٭
معین الدین عثمانی
نگار عظیم صاحبہ کا افسانہ "لمحہ" ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے اچھا افسانہ ہے۔جس کی داد دینا چاہیے۔
افسانہ بیانیہ کی خوبی سے مزین ہے۔
٭
شاہد اختر
محترمہ نگار عظیم صاحبہ کا افسانہ "لمحہ" کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک عمدہ پینٹنگ کے لیے ضروری ہے کہ ہلک سا بھی برش غلط نہ استعمال کیا گیا ہو، اور یہ کام انھوں نے سلیقے سے کیا ہے۔ کمزور لمحہ ندیم بور پاکیزہ سے ہی ہو کر نہیں گزرا ہے، افسانے سے بھی بڑی عافیت اور خوش اسلوبی سے نکل گیا ہے۔ لکھنے والے کو جب یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نہیں لکھنا ہے تو تخلیق میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے،جو اس افسانے میں۔جو زبان اور فضا سازی اس افسانے کی ضرورت تھی، وہ اسے فراہم کی گی۔ مبارکباد نگار عظیم صاحبہ کو۔
٭
اسرار گاندھی
کُچھ لوگ فکش کو بھی Maths کے پرچے کی طرح حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کتنا جینیوں ہے۔ اس پر بات ضرور ہونی چاہیے۔ کیا دنیا میں کوئی چیز perfect ہے۔
بہرحال مجھے کہانی بہت پسند آئی۔
کہانی پڑھنے کے بعد مجھے ایک انتشار کی کیفیت سی محسوس ہوئی۔ یادوں کے کئی دریچے کھل سے گئے۔
کہانی کا آخری جملہ بےحد اہم ہے۔ اس جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید پاکیزہ کو بھی اپنے آپ پر پورا بھروسا نہیں تھا۔
میں اس اچھی کہانی کے لیے نگار کو ڈھیروں مبارک باد دیتا ہوں۔
٭
ساجدہ جمال
محبت سے جب چوٹ لگتی ہے وہ چوٹ انسانی دل و دماغ میں ایک گہرا اثر چھوڑ جاتی ہے بظاہر تو ایک چوٹ کھایا انسان نارمل زندگی جیتا نظر آتاہے لیکن کبھی کبھی رات کی سیاہ تنہائی میں وہ بیتےلمحے اسے اندر ہی اندر کہیں بے چین رکھتے ہیں۔۔۔
اس افسانے میں ندیم اور پاکیزہ بھی دو ایسے ہی کردار ہیں جو محبت اور عزت میں والدین کی عزت کو ترجیح دیتے ہیں اور خاموشی اختیار کر کے خود کو وقت کے رحم و کرم پرچھوڑ دیتے ہیں گزرتا وقت دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرکے الگ الگ راستوں کا مسافر بنا دیتا ہے۔۔۔جب راستے جدا ہوتے ہیں تو منزلیں بھی بدل جاتی ہیں۔۔
اور زندگی وقت کے پہییوں پر سوار ایک بار پھر دونوں کو آمنے سامنے لے آتی ہے۔۔۔
اور وہ زخم جو بھرا تو نہیں تھا ہاں مندمل ضرور ہوا تھا پھر ہرا ہو جاتا ہے۔۔۔
زندگی میں در آنے والے ایسے کمزور لمحے انسان کو اندر سے دھلا کر رکھ دیتے ہیں۔۔۔
اگر انسان ایک لمحے کے لئے بھی چوک جاے تو زندگی بھر کا پچھتاوا مقد ر بنتا ہے۔۔
نگار عظیم صاحبہ نے اس نازک لمحے سے گزر کر جس روانی کے ساتھ اس افسانے کو قلم بند کیا وہ واقعی قابل تعریف ہے۔۔۔
بس محمد علی صدیقی صاحب کے اٹھائے گئے سوال پر کچھ دیر رک کر سوچنے والی بات ہے۔ اس کے علا وہ سب کچھ پسند آیا۔۔۔
شوہر کی کشادہ دلی کے باوجود
اگر کہیں شوہر کے دل میں یہ سوال اٹھ ہی گیا تو۔۔۔؟
جنگل میں مور ناچا۔۔۔
افسانہ نگار اور بزم افسانہ کے تمام اراکین کے لئے بہت ساری نیک خواہشات۔۔۔
٭
فریدہ نثار احمد انصاری
محبتیں ستم ظریفی کا شکار ہو دریا کے دو پاٹوں میں بٹ گئی اور ایک طویل وقفے کے بعد ملاقات ہوئی۔
میم نے دونوں کرداروں کو عمدگی سے پینٹ کیا۔دونوں نے پرانے دنوں کو یاد تو کیا لیکن پاکیزہ اپنے نام کی طرح پاکیزہ خیالات کے ساتھ ندیم سے مخاطب ہوئی۔دونوں کی بھینی بھینی محبت کی مہک میں قاری گم ہو گیا۔
چوں کہ فکشن میں تخیل کی پرواز میں قاری مدغم ہو جاتا ہے پھر بھی دو ایک سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ ندیم بغیر کچھ جانے پاکیزہ کے گھر چلا جاتا ہے۔ یہ بھی نہیں سوچتا کہ اس کے اس طرح گھر جانے پر گر اس کے شوہر سے ملاقات ہوئی تب وہ کیا سوچے گا۔وہ اپنے کام سے اس شہر میں گیا تھا تب اسے کسی ہوٹل میں قیام کرنا چاہے تھا اور صرف ملاقات کے لئے کچھ وقت کے لئے جا سکتا تھا پر رات گزارنا بھی مناسب نہ لگا۔
اختتام نے افسانے کو عنوان سے عمدگی سے جوڑا اور وہ لمحہ ان کی محبت کی زندگی میں نہ آ کر یادگار بن گیا۔
میم کو مبارک باد و نیک خواہشات۔
٭
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
عشق کا انجام جدائ کیوں ہے۔؟ یہ ہی حقیقت ہے ورنہ لیلئ مجنوں، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا کی محبت لا فانی نہیں ہوتی۔
نگار عظیم الفاظ کے اظہار کرنے کا سلیقہ جانتی ہیں۔انھوں نے دو فرقت کے مارے تڑپتے دلوں کے جزبات کو بہتر طریقے سے پیش کیا ہے۔ایک لمحہ جو دونوں پر بھاری تھا۔ اپنے جزبات پر،نفس پر کنٹرول کرنا ہی بہت بڑی بات ہے۔ بقول مومن خاں مومن
گر شیر نر مارا تو کیا مارا
نفس امّارہ کو گر مارا تو مارا۔
وہ لمحہ گزر گیا اور دونوں سرخرو ہوگئے۔
اچھی کہانی ہے۔۔
٭
ترنم جہاں شبنم
بظاہر تو یہ کہانی پاکیزہ اور ندیم کی اس ناکام محبت کی کہانی ہے جو اپنے والدین کی محبت میں یا خاندانی اقدار اور وقار کی خاطر قربان کر دی گئی تھی۔ اور پھر اچانک برسوں بعد یوں سامنے آ کھڑی ہوئی کہ ماضی کی تہہ میں دبی محبت نے ایک بار پھر احساس کی بھٹی میں سلگنا شروع کر دیا اور ہر لمحہ ایک امتحان بن کر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ لیکن حقیقتاً یہ کہانی ہے احساس کی، گناہ اور ثواب کی، تربیت اور خاندانی اقدار کی، سماجی پسماندگی کی، جہیز جیس لعنت کی جس نے دو محبت کرنے والوں کو ایک ہونے نہ دیا۔ والدین کی اس سوچ کی جنہوں نے اولاد کے شادی بیاہ کے معاملے میں انہیں پسند، ناپسند کا اختیار نہیں دیا۔۔۔ اور تربیت کی، جہاں پاکیزہ کی محبت ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پاک سے پاک تر ہوتی چلی گئی۔ اور ندیم کی بےچینیاں اس میں سلگ کر دھواں بنتی ہوئی اس کے سامنے رقص کرتے ہوئے آخر میں خود ہی راکھ کا ڈھیر بن کر بکھر بھی گئیں۔۔۔
یوں تو یہ مختصر سی کہانی ہے مگر اس کا کینوس بہت وسیع ہے۔ دریا کو کوزے میں بھرنا اسی کو کہتے ہیں۔ زبان بیان اور مکالمے جزئیات نگاری سب افسانہ نگار کی اعلیٰ فنکارانہ صلاحیتوں کے ضامن ہیں۔ اور خوبصورت موڑ پر کہانی کا اختتام نگار عظیم کا خاصہ۔۔۔ جہاں ہر لمحہ ہر سطر پر دھڑکتے دل کے ساتھ آ گے بڑھتے قاری کے سامنے اس جھٹکے سے کہان ختم ہو کر اسے مبہوت کر جاتی ہے کہ وہ سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔ اور کہانی مہینوں اس کے حافظے میں محفوظ ہو کر رہ جاتی ہے۔ محبت کی اس خوبصورت کہانی کے لئے نگار آپا بہت بہت مبارکباد۔۔۔ ❤️🌹
٭
سلیم خان
نفسیاتی کشمش کو بڑی خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے۔ بہت عمدہ افسانہ ہے ماشاءاللہ۔ مبارک ہو
٭
معین الدین عثمانی
نگار عظیم صاحبہ کا افسانہ "لمحہ" ٹریٹمنٹ کے اعتبار سے اچھا افسانہ ہے۔جس کی داد دینا چاہیے۔
افسانہ بیانیہ کی خوبی سے مزین ہے۔
٭
شاہد اختر
محترمہ نگار عظیم صاحبہ کا افسانہ "لمحہ" کے مطالعہ کے بعد یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک عمدہ پینٹنگ کے لیے ضروری ہے کہ ہلک سا بھی برش غلط نہ استعمال کیا گیا ہو، اور یہ کام انھوں نے سلیقے سے کیا ہے۔ کمزور لمحہ ندیم بور پاکیزہ سے ہی ہو کر نہیں گزرا ہے، افسانے سے بھی بڑی عافیت اور خوش اسلوبی سے نکل گیا ہے۔ لکھنے والے کو جب یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ نہیں لکھنا ہے تو تخلیق میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے،جو اس افسانے میں۔جو زبان اور فضا سازی اس افسانے کی ضرورت تھی، وہ اسے فراہم کی گی۔ مبارکباد نگار عظیم صاحبہ کو۔
٭
اسرار گاندھی
کُچھ لوگ فکش کو بھی Maths کے پرچے کی طرح حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ کتنا جینیوں ہے۔ اس پر بات ضرور ہونی چاہیے۔ کیا دنیا میں کوئی چیز perfect ہے۔
بہرحال مجھے کہانی بہت پسند آئی۔
کہانی پڑھنے کے بعد مجھے ایک انتشار کی کیفیت سی محسوس ہوئی۔ یادوں کے کئی دریچے کھل سے گئے۔
کہانی کا آخری جملہ بےحد اہم ہے۔ اس جملے سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید پاکیزہ کو بھی اپنے آپ پر پورا بھروسا نہیں تھا۔
میں اس اچھی کہانی کے لیے نگار کو ڈھیروں مبارک باد دیتا ہوں۔
٭
محمد قمر سلیم
ایک خوبصورت افسانہ۔ رواں دواں زبان۔ نگار آپا کی علمیت، تخلیقیت اور زبان کی تعریف تو ان کے استاد محترم میرے والد پروفیسر حنیف کیفی صاحب بھی بہت کرتے تھے۔ نگار آپا نے اس کمزور لمحے تک آنے کے لیے جن لمحات کو قلمبند کیا ہے وہ دل کو چھو لیتے ہیں۔ اس پیاری سی کہانی کے لئے نگار آپا کو بہت بہت مبارکباد
٭
معین الدین جینابڑے
افسانہ اچھا ہے۔”وہ کمزور لمحہ گذر چکا تھا”
میں” کمزور “زائد ہے۔
٭
صادق اسد
افسانے کا شروعاتی حصہ بڑی رفتار سے آگے بڑھا، پھر ایک ٹھہراؤ سا آیا اور گرفت میں لے لیا،
جس کا اثر دیر تک رہا..
افسانے کے لئے بہت مبارک باد
٭
نرگس سلطانہ
کہانی بہت سادہ ہلکی پھلکی عام سی ھے لیکن دل پر اثر کرتی ہے پڑھ کر دماغ بوجھل نہیں ہوتا اس لیے اچھی لگی کسی دوسرے کا چاہت بھرے دلوں کے بیچ آجانا یا زبردستی ہی کسی کا بن جانا پھر کیی سال بعد اپنی پہلی محبت کا دوبارہ کسی لمحہ وہ بھی ایسے وقت میں جب اپنا مجازی نہ ہو جس سے زندگی کے سارے دکھ سکھ بانٹ لیے ۔ زندگی ایک سمندر کی طرح بہت سے موتی اپنے اندر سمیٹے ہویے ہے یہاں ہےپاکیزہ کی پاکیزگی کا اس کے نفس کا امتحان ہے وہ خود پر قابو رکھنا جانتی ہے وہ اپنے جذبات کو بکھرنے نہیں دیتی یہی اس کی پاکیزگی ہے
٭
افشاں ملک
ندیم اور پاکیزہ نام کے مرکزی کرداروں کی ایک نا آسودہ محبت کی کہانی ہے یہ جس کو بڑی عمدگی سے بنا ہے نگار عظیم صاحبہ نے ۔
یہ کہانی ایسی سادہ نہیں ہے جیسی بظاہر پہلی قرات کے دوران محسوس ہوتی ہے ۔اس کے کئی پہلو ہیں ۔ سماجی پہلو اس کہانی کا یہ ہے کہ طبقہ مڈل کلاس ہو یا اپر کلاس لڑکے کی شادی میں والدین کی پہلی پسند ڈھیروں جہیز لانے والی لڑکی ہی ہوتی ہے بیٹے کی پسند ناپسند کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ اسی طرح بیٹی کے والدین بھی کئی بار اس کی پسند ناپسند کو اہمیت نہیں دیتے ۔ کبھی ذات ، کبھی خاندان ، کبھی اسٹیٹس ، کبھی اپنی انا کے آگے لڑکی کو اس کا جائز حق بھی نہیں دیتے ۔سماج کے انہی رویوں کے نتیجے میں ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں ۔
نفسیاتی پہلو اس کہانی کا یہ ہے کہ سماج یا خاندان کے فیصلوں کی بھینٹ چڑھنے والے لڑکے لڑکی اپنی ناآسودہ محبت کے ساتھ اپنے اپنے جیون ساتھیوں کے ساتھ اچھی یا بری جیسی بھی زندگی گزارتے ہوں زندگی کے کسی بھی حصے میں آمنا سامنا ہونے پر (بھلے ہی ظاہر نہ کریں ) ان کے دل کے کسی کونے میں محبت کے وہی جذبات دوبارہ زندہ ہوکر سر اٹھانے لگتے ہیں جن سے وہ پچھلے وقت میں گزر چکے ہوتے ہیں ۔ یہ بالکل فطری ہے ۔مجھے کہانی کے اسی فطری پن نے گرویدہ کر لیا ۔ پاکیزہ اور ندیم وقتی طور پر جذبات کے اس بھنور میں پھنس ضرور گئے تھے لیکن اس لمحے کا شکار ہونے سے بچ گئے ۔ افسانہ نگار نے یہ فیصلہ قارئین پر چھوڑ دیا ہے کہ وہ اس کٹھن لمحے سے نکلنے کا کریڈٹ ندیم کو دیں یا پاکیزہ کو ۔
عمومی خیال یہ ہی ہوتا ہے کہ عورت کمزور لمحے کی گرفت میں جلد آجاتی ہے لیکن یہ کلیہ نہیں ہے، مرد عورت دونوں ہی جذبات کا شکار ہوسکتے ہیں ۔اکثر ہو جاتے ہیں اور اس کا الزام کسی ایک پر نہیں لگایا جا سکتا ۔ نفس ایک سرکش گھوڑا ہے جو قابو کر لے ۔
افسانے کی فضا بندی خوبصورت ہے ۔مکالمے عمدہ ہیں ۔زبان کرداروں کے حالات اور مزاج کے عین مطابق ہے ۔
ایک اچھے افسانے پر نگار عظیم صاحبہ کو مبارکباد !
٭
شاداب رشید
نگار عظیم صاحبہ بڑی کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔۔۔
لیکن۔۔۔۔
یہ افسانہ پڑھتے وقت کافی مایوسی ہوئی لیکن ۔۔۔۔
افسانے کے آخری جملے نے اس کمزور تحریر کو افسانہ بنا دیا۔۔۔
"وہ کمزور لمحہ گزر چکا تھا"
دراصل لفظ "کمزور" میں ہی ساری کہانی پوشیدہ ہے۔
میں افسانہ نگار کے صرف اس ایک لفظ کو بہت سلیقے اور صحیح جگہ پر استعمال کرنے کے لیے مبارک باد دوں گا۔۔۔
٭
شہروز خاور
وہ کمزور لمحہ گزر چکا تھا
......... وااااااہ
مشتاق احمد نوری صاحب کا افسانہ "چھت پر ٹھہری دھوپ" یاد آگیا ــ
رومانی افسانہ :
افسانے کا عنوان "لمحہ" ہے اور جس طرح "کمزور لمحے" پر زور دیا گیا ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ایک "نفسیاتی افسانہ" ہے جس میں اتفاق سے موقع میسر آنے پر ایک دوسرے سے آشنا دو کرداروں کے جنسی خواہشات سے پیدا ہونے والے ہیجانی جذبات اور اُن جذبات پر قابو پانے کے دوران انسان پر گزرنے والی کیفیات کو ہنر مندی سے پیش کیا گیا ہے ــ
مجھے افسانے پر رومان کی بجائے جنسی ہیجان غالب نظر آیاــ مکالموں اور خاص طور پر افسانے میں گزری ہوئی رات کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ دس سال کے بعد روبرو ہونے والے دونوں کرداروں کی پوری کوشش یہی ہے کہ کسی کمزور لمحے میں غلطی نہ کر بیٹھیں ــ
کیا محبت کرنے والوں کے لیے سیکس ہی سب کچھ ہے ــ
محبت کا جذبہ کچھ اور ہونا چاہیے ــ
محبت :
بار بار تبصروں میں پاک محبتــ پاک محبت پڑھ کر میں الجھن کا شکار ہوگیا ہوںــ میرے لیے محبت ، محبت ہےــ
کیا پاک محبت سے مراد بغیر سیکس والی محبت ہے ؟
اگر پاک محبت ہے تو ناک پاک محبت بھی کوئی چیز ہونی چاہیے !
میرے خیال سے اگر پاک محبت اور ناپاک محبت ہے تو "جائز گناہ اور ناجائز گناہ" بھی ہونا چاہیے ــ
جب پاک اور ناپاک کہا جارہا ہو تو اس کا صاف مطلب ہے کہ ہم ایک خاص مذہب کے ماننے والے ہیںــ اور ہم اپنے مذہب کی عینک سے دیکھیں تو غیر محرم کو دیکھنا بھی غلط/گناہ ہےــ تاک جھانک کرنا اور وقت گزاری کرنا بھی گناہ ہےــ جب غیر محرم سے کسی بھی نوعیت کا تعلق گناہ ہے تو صرف سیکس کے بغیر محبت پاک کیسے ہوسکتی ــ اس لحاظ سے تو شادی سے پہلے محبت گناہ ہی ہے۔
اور شادی کے بعد سیکس؟؟؟؟
محبت کے تصور کا واضح ہونا ضروری ہے ــ
عمدہ افسانے کے لیے بہت مبارکباد
نیک خواہشات 🌹🌹🌹
٭
محمد عرفان ثمین
نازک احساسات اور جذبات کے مدوجذر میں ڈوبے ایک خوب صورت افسانے کے لیے نگار عظیم صاحبہ کو بہت مبارک باد ۔ حالانکہ محمد علی صدیقی صاحب اور ریحان کوثر صاحب نے جن نکات کی طرف اشارہ کیا ہے وہ بھی قابلِ غور ہیں ۔ فکشن کو maths کی طرح compact ہونا چاہیے یا نہیں ، اس پر بحث ضرور ہونی چاہیے مگر ایک افسانے پر اس قسم کے تبصروں کی تائید اور دوسرے افسانے پر اس کی مخالفت درست نہیں۔
بہر حال عمدہ اور دل کش زبان و بیان پر مبنی ایک خوب صورت افسانے کے لیے نگار عظیم صاحبہ کو بہت بہت مبارک باد۔
٭
سلام بن رزاق
بزم افسانہ کے ساتھیو،
آداب
نگار عظیم صاحبہ کا افسانہ
لمحہ پسند آ یا۔
ان کے طرز اظہار میں انفرادیت ہوتی ہے۔ وہ جس موضوع کو بھی چھوتی ہیں اس کا حق ادا کر دیتی ہیں۔
لمحہ میں پاکیزہ کے جذبات کی کشمکش پاکیزگی اور نزاکت کو جس مہارت سے پیش کیا ہے وہ قابل ستائش ہے۔
اس ایونٹ میں تقریباً سبھی افسانے قابل توجہ تھے۔
میں اپنی طبیعت کی ناسازی کےسبب ان پر اپنے تاثرات نہ پیش کر سکا مگر افسانوں کا مطالعہ بلا ناغہ کرتا رہا ۔یوں تو سبھی افسانے داد کے قابل۔ہیں مگر سید محمد اشرف، اسرار گاندھی ،نعیمہ جعفری ،غیاث الرحمن، محمد عرفان ثمین اور اب نگار عظیم کے افسانے بطور خاص یاد داشت کا حصہ بن گئے۔
بزم میں شریک تمام افسا نہ۔ نگار وں کو دلی مبارک باد اور مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے لیے نیک خواہشات۔
شکریہ
٭٭٭
نگار عظیم
میں "بزم افسانہ" کے صدر جناب سلام بن رزاق صاحب، منتظمین اور اراکین کی دل سے شکر گزار ہوں ممنوں ہوں کہ میرے افسانے "لمحہ" کو اس اہم اور معتبر بزم میں پیش کرنے کا موقع فراہم کیا۔
میں ان سبھی مبصرین اور قارئین کی شکر گزار ہوں جنہوں نے اپنا قیمتی وقت افسانے کی قرآت اور بصیرت افروز تبصروں میں صرف کیا۔ اپنی راےء سے نوازا۔ میں اپنی تخلیق کے بارے میں اب کیا کہوں یہ قاری کی ملکیت ہے اس پر راےء دینا ان کی اپنی علمی بصیرت ہے۔ مجھے تنقید بری نہیں لگتی اس کے لیے میں تیار رہتی ہوں لیکن شاید اتفاق کہ تقریبا آراء مثبت ہیں۔ بس کچھ مختصر کچھ تفصیلی۔ چاہتی تھی ہر ایک کی رائے پر شکریہ کے ساتھ اظہار خیال کروں لیکن ممکن نہیں۔ چند تفصیلی تبصروں کے لیے خصوصی طور پر مشکور ہوں۔ جن کے سوال ہیں ان کے جواب افسانے میں ہی موجود ہیں۔ ہاں ایک سوال جو دو تین حضرات کا ہے کہ جب گھر میں کوئ نہیں تھا تو ندیم کو ٹھہرانے کا فیصلہ کیسا تھا۔۔؟؟ ندیم صرف پاکیزہ کا عاشق نہیں تھا۔ وہ اس کا پڑوسی اور کالج کا دوست بھی تھا۔ محبت کا رشتہ کامیاب نہیں ہو سکا اس کا مطلب یہ نہیں کہ تمام تعلقات کنارے رکھ دیے جائیں ۔ اگر کوئی چوری ہوتی دل میں کوئی خدشہ ہوتا تو مارے خوف کے پاکیزہ الٹے بیروں پھگا دیتی۔ کالج میں کمبائن دوست ہوتے ہیں ۔ پڑوسیوں میں بھی اچھے تعلقات ہوتے ہیں کسی سے پتہ بھی لیا ہو گا۔ پاکیزہ اپنے شوہر کی تعریف بھی کر رہی ہے جس نے اسے اتنا اعتماد بخشا کہ اس کی غیر موجودگی میں مہمان نوازی کے فرائض انجام دے۔ اس نے خیانت تو نہیں کی ۔ بہر حال۔ مجھے آپ سب کی آراء سے اتفاق ہے ۔ سوال اچھے لگتے ہیں لیکن کیا کروں جواب ٹائپ کرنا مشکل کام ہے۔ آپ سب مجھے بہت عزیز ہیں آپ سب کی مشکور ہوں خاص طور پر سلام بھائی کی کہ ان کی راےء میرے لیے بہت اہم ہے مجھے توانائی عطا کرتی ہے۔ اللہ سے ان کی سلامتی کے لےء دعائیں۔ آپ سب سلامت رہیں محبتیں اور نیک تمنائیں۔ میں شکر گزار ہوں:
زاہد مختار صاحب
شہناز فاطمہ صاحبہ
ناصر ضمیر صاحب
رفیع حیدر انجم صاحب
نصرت شمسی صاحبہ
مبین نزیر صاحب
انیس رشید خاں صاحب
نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ
انجم قدوائی صاحبہ
راجہ یوسف صاحب
شمع افروز زیدی صاحبہ
غیاث الرحمن صاحب
محمد علی صدیقی صاحب
وحید امام صاحب
سراج عظیم صاحب
اکبر عابد صاحب
اقبال حسن آزاد صاحب
فیروز عالم صاحب
ساجدہ جمال صاحبہ
فریدہ نثار احمد صاحبہ
فرخندہ ضمیر صاحبہ
ترنم جہاں شبنم صاحبہ
ریحان کوثر صاحب
سلیم خاں صاحب
معین الدین عثمانی صاحب
شاہد اختر صاحب
اسرار گاندھی صاحب
محمد قمر سلیم صاحب
معین الدین جینا بڑے صاحب
صادق اسد صاحب
نرگس سلطانہ صاحبہ
افشاںملک صاحبہ
شاداب رشید صاحب
شہزور خاور صاحب
عرفان ثمین صاحب اور
سبھی منتظمین کا
دل کی تمام گہرائیوں سے شکریہ ۔ دعائیں
سلام بھائی آپ فکشن کا اہم اور بڑا نام ہیں میرے محسن ہیں میرے اللہ صحت کے ساتھ طویل عمر عطا کرے اور ہم سب اس بزم سے فیضیاب ہوتے رہیں آمین یا رب العالمین
🌺🌹🌺🌹🌺🌹🌺
0 Comments