Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ نمبر : 08 | گاندھی کا چوتھا بندر | تنویر احمد تماپوری (ریاض)

بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں (رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 08
گاندھی کا چوتھا بندر
تنویر احمد تماپوری (ریاض)

جگودادا کےلڑکھڑاتے قدم اس وقت اچانک تھم گئے جب وہ گاندھی چوک پر ایستادہ مہاتما گاندھی کے بت سے ٹکرایا اورگرتے گرتے بچا۔
"شما کرنا باپوجی لگتا ہے آج جاستی ہوگئی ہے، تیوہار تھا نا، پن آپ ٹنشن نئی لینے کا،میں ہے نا"۔
وہ نشے میں دھت لڑکھڑاتی زبان میں جاتے جاتے رکا، اور دوبارہ کہنے لگا۔
"پن ایک بات پوچھنا مانگتا باپوجی، آپ اکھا دن ناکے پر سمڑی میں کھڑا رہتا ہے رات کو گلی کھوپچے میں کایکو گھومتا ہے،لگتا ہے سالا تم بھی جوزف کا بڑوہے "۔
جوزف اس علاقے میں شراب کی دکان چلاتا تھا۔ دیسی ٹھرے سے لیکر روسی ووڈکا تک ہر چیز اپنے گاہکوں تک فراہم کرنا اس کے فرایض منصبی میں شامل تھا۔ آج تہوار کی رات تھی۔سارے شہر میں شراب پر پابندی تھی مگر وہ جوزف ہی کیا جو ان معمولی پابندیوں کے ہتھے چڑھے۔ وہ اپنے آپ کو اس علاقے کا آب کاری وزیر کہتا تھا۔ سوسارے نشہ بازوں کے جملہ کاپی رایٹس اسکے پاس محفوظ تھے۔ شاید اسی لئے آج ڈرائی ڈے میں بھی جگو دادا فرائی ڈے کا مزہ لے رہا تھا۔
جگو دادا کا پورا نام جگناتھ ہٹکے تھا۔ نام ہٹکے تھا، کام زیادہ ہٹکے تھا۔تاہم ایک پیشہ ور سرجن سے ملتا جلتا، ان دونوں پیشوںمیں اکلوتی غیرمشترک چیز رامپوری چاقو تھی جسے چلانا کم سے کم کسی سرجن کے بس کی بات نہیں تھی.
رات کادوسرا پہر تھا۔ رومانس اکٹوبر کی راتوں میں زیادہ گلاب رنگ ہوجاتا ہے۔ ویسے بھی آج نوراتری کی آخری رات تھی۔ یہ دراصل ولانٹائین ڈے کا انڈین روپ ہوتاہے جس کی مستی میں مست ہوکر سارے شہرکے ساتھ ساتھ جگو دادا بھی جھوم رہا تھا اور اس وقت شہر کے ایک بدنام علاقے کی گنجان گلیوں میں کہیں گھوم رہا تھا۔
فلک بوس عمارتوں کا جال وہاں چاروں طرف بکھرا پڑاتھا۔ کثیرالمنزلہ عمارتوں کا نظام بھی بڑا عجیب ہوتا ہے۔یہاں ایک بندے کی پیر کی زمین دوسرے کے سر کا آسمان ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ممبئی کنکریٹ کا ایک بہت بڑا جنگل کہلاتی ہے۔ کچھ عمارتیں اسکو گھنا بناتی ہیں تو کچھ گھناونا۔ جگو دادا کی منزل بھی ایسی ہی ایک بوسیدہ اور گھناونی عمارت تھی اورراستے میں شیٹی کی دکان جس پر کچھ دیر رکنا اس کا معمول۔
شیٹی اس علاقے کا مشہور پان والا تھا یہ دکان اسے اپنے باپ سے وراثت میں ملی تھی۔ جاننے والوں کی مانیں تو اس کہ یہاں کئی طرح کے اور بھی عجیب دھندے چلتے تھے۔ عجیب تواس کی شخصیت بھی کم نہیں تھی۔ بالوں سے بے نیاز چھلے ہوئے آلو کی طرح تالو، کندھوں کے بیچ دھرا نہایت کالااورگول مٹول چہرہ جسےگوشت کی بہتات نے تھلتھلا بنارکھا تھا، دیکھنے والوں کو ایک ایسے بڑے سےفٹ بال کا گمان دیتا تھا جسے شاید تارکول کے کنسترمیں ڈبوکر اسی پررکھدیا ہو۔ چھوٹی چھوٹی چینی آنکھوں کی سفیدی زیادہ واضح نا ہوتی تو شاید چہرے اور چندھیا کی جغرافیائی حدود پر روز کاڑگل ہوتے۔ بات بات پرسفیددانتوں کی نمائش اسکے دھندے کا تقاضہ تھی یا چہرے کی بناوٹ کا کھوٹ، مگر جب بھی دانت نکالتا تو لگتا جیسے کوئلے کے کانوں سے موتی نکل رہے ہوں۔ وہ اس وقت بھی جگو دادا کو دیکھ کر موتی برآمد کرنےلگاتھا۔
"جمنا تائی کے پاس جانیکا۔۔۔سنا ہےادھر تاجہ مال آیلا ہے"
اس کی ہر دوسری بات جنسی چاشنی کے گرد بھنبھناتی مکھیوں کی طرح ہی ہوتی تھی۔ ایک پان منہ میں اور ایک جیب میں۔ جگو داداوہاں سے آگے چل پڑا۔ اگر یہ صحیح ہےکہ ممبئی کی راتیں رنگین ہوتی ہیں تو یہ بھی صحیح ہے کہ اسکے قدم اسوقت رنگوں کے کارخانوں کی طرف ہی بڑھ رہے تھے اور یہ کارخانے شہر کےایک ایسے علاقے میں واقع تھے جہاں کا اپنا نظام شمسی تھا۔ جہاں شام سے میلہ لگتا تھا۔ رات کو سورج اگتاتھا۔
جس طرح ہر بڑے آدمی کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہےاسی طرح ہربڑے مجرم کے پیچھےبھی ایک یا کئی جیلوں کا ہاتھ ہوتاہے۔ اسے بھی جرم کی پرائمری تعلیم ڈونگری کی بچوں کی جیل سے ملی تھی۔ ہائی اسکول علاقے کی سنٹرل جیل میں مکمل کیا اور ڈگری اس نے سات رستہ جیل سے حاصل کی۔ جانکار حلقوں کی مانیں تو اس وقت وہ شہر کا سب سے بھروسہ مند، پیشہ ور قاتل تھا۔ جو اس وقت بھی اپنے ایک کامیاب مشن کے اختتام پر اس کا جشن منانے کے لئے جمناتائی کے یہاں جارہا تھا۔
اس کی منزل ایک بوسیدہ سی عمر رسیدہ عمارت تھی۔ اس کا تعلق عمارتوں کےمنافق فرقے سے رہا ہوگا۔ جتنی بے رنگ وبےنوروہ باہر سے تھی اتنی ہی اندر سے پر نور اور رنگین۔ وسیع و عریض ہال تھا۔ وہاں ا س وقت مستیوں، خرمستیوں کا بول بالا تھا۔ شراب اور شباب کی ملی جلی سرکار"ستہ "میں تھی۔ چاروں طرف خوبصورت صوفے قرینے سےسجے ہوے تھے۔ جس پر بیٹھے لوگ شراب ایسے گٹک رہے تھے جیسے جوزف نے بلدیہ کے ساتھ مل کر نلوں میں بجاے پانی کے شراب چھوڑرکھی ہو۔ روشنیوں کے اہتمام میں مہارت کے ساتھ اس بات کا خاص خیال رکھا گیا تھا کہ ''کیا ''اور ''کتنا ''دکھایا جائے۔ بیچوں بیچ ایک متحرک نقرئی اسٹیج تھا جس پرایک انتہائی حسین لڑکی '' ہولی وڈ ''کے کسی ''ہاٹ سین'' کا ڈانس میں ترجمہ کر رہی تھی۔ رنگ اور حسن کی بے مثال کشیدہ کاریوں کواوربھی موثر بنانے کے لئے چاروں طرف شیشے کی دیواریں تنی ہوئیں تھیں۔ خوبصورت چہروں کی طرح خوبصورت محفلوں میں بھی نظر بٹو ہوتے ہیں۔ یہاں اس وقت یہ ذمہ داری جگودادا نبھارہا تھا یا کم سے کم چاروں طرف لگے شیشوں کا یہی خیال تھا- کالا رنگ، بھاری بھرکم ڈیل ڈول، استخوانی چہرےپر زخم کے نشان۔ الغرض وہ عقلا ً بھی غنڈہ لگ رہا تھا اور شکلا ً بھی۔ سیرت اور صورت کے اس بے جوڑ امتزاج کو دیکھ کر کہنا پڑتاتھا کےشاید بھگوان نے بھی اب بندے '' فوٹو شاپ '' پربنانے شروع کردیے تھے۔
وہیں کھڑے کھڑے اس نے چاروں طرف ایک طائرانہ سی نظر ڈالی۔ طائرانہ ی سہی تھی تو نظر ہی اٹک گئی۔ اچھی صورت جگو دادا کی کمزوری کبھی نہیں رہی تھی۔نا وہ شاعر تھا جو پھول کی پتی سے ہیرے کے جگر کو کاٹ سکے۔ نا وہ دو اور دو چار کا بندہ تھا۔ گنتی کے نام پر انسانی جسم کی دو سو چھ ہڈیوں کے علاوہ اسے صرف آئی پی سی کی دفعہ تین سو دو کا پتہ تھا، جسکی صحیح حقداراس وقت وہ لڑکی تھی جسکی آنکھوں کی دو نالی بندوق نے وہاں شوٹ ایٹ سایئٹ کا آرڈ لگا رکھا تھا۔ کمانی دار ا برو میان سے نکلی ننگی تلواروں کی طرح جان لیوا لگ رہے تھے۔ اور ہونٹ، تو لگتا تھا رامپوری چاقووں کی جوڑی تھی جنہیں خون میں ڈبو کر اوپر تلے رکھدیا گیا ہو۔
"ابے یہ لڑکی ہے کی ہتھیاروں کی دکان"
وہ بڑبڑایا۔ ہتھیارہ تھا، ہتھیار اس کی سوچوں میں تھے، اس کی باتوں میں تھے۔ اورجہاں تک ہتھیار وں کی دکان کا تعلق تھا۔ وہ یہیں پر ختم نہیں تھی۔ گردن کے نیچے بھی بڑے نایاب قسم کے گولہ بارود نمایاں تھے۔ حسن کے ایسے اکسانے والے پیکیج کے ماتھے پر اگر برائے فروخت کا ٹھپہ بھی ہو، تو بندے کےخون میں پارے کی ملاوٹ لازمی ٹہری۔
"ارے جگو یہاں کائکو کھڑا ہے۔ چل اندرچل"
یہ جمنا تائی تھی۔ یہاں کی مالکہ بھی اور ملکہ بھی۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے آگے صوفوں کی طرف جانے لگی۔ وہ رہ رہ کرپلٹ رہا تھا۔۔۔ پلٹ پلٹ کر ڈانس فلورکی طرف دیکھ رہا تھا۔ تائی اسے آگےکی طرف کھینچ رہی تھی اوراس لڑکی کی کشش پیچھے کی طرف۔ نظرکے اپنے فنڈے ہوتے ہیں۔۔۔باسی پہ ٹکتی نہیں۔ تازے۔۔۔ سےہٹتی نہیں۔ کھینچا تانی کا یہ سلسلہ صوفوں پر بیٹھنے تک چلتا رہا۔
"نام کیا ہے تائی اس کا؟"
خود جگو کواپنی آواز کسی کنویں سے آتی ہوئی محسوس ہوئی۔
"کس کا"
تائی مسکرانے لگی، جوانی کی باقیات کے نام پر تائی کے پاس صرف پیشہ ور مسکراہٹ ہی رہ گئی تھی۔
"اس لال ڈریس کا"
"نام کا کیا ہے جگو وہ تو سارےنلے ہوتے ہیں۔۔۔ تو دام پوچھ۔۔۔ لاجو کا فرسٹ ٹائم ہے۔۔۔ "
تائی پرانی بوتل میں شراب بھی پرانی ہی تھی۔ اسے پتا تھا نشہ سر پر چڑھتا کب ہے اور چڑھ کر بولتا کب ہے۔ جگو مسکرانے لگا شاید زندگی میں پہلی بار۔دراصل اس کاچہرہ مسکراہٹ کے لئے تھا ہی نہیں۔ کم سے کم جمنا تائی کا یہی خیال تھا۔ استخوانی زخم خوردہ سفاک چہرے پر مسکراہٹ بھی تائی کو غنڈوں میں پھنسی رضیہ جیسی لگ رہی تھی۔ "دام کو چھوڑ تائی یہ لے تیرے کو جتنا۔۔۔مانگتا ئے "
جگو نے بینک کا اسپان کارڈ ہی اس کی ہتھیلی پر رکھدیا۔آج کل حکومتی پالیسیوں کا اثر ہر جگہ ہر دھندے پر پڑا تھا۔ اس سے نا جمنا تائی کا دھندہ اچھوتا تھا نا جگو دادا کا پروفیشن۔
"روکڑا ہے کھاتے میں۔۔۔ ؟ یا ہول دے رہا ہے"
"ابھی ابھی دو پیٹھی آئیلا ہے۔۔۔ تو آم کھانا۔۔۔جھاڑ کائکو گنتی ہے"
وہ آم کھانے کے لئے اندر کمرے میں پیمنٹ ٹرمنل کی تلاش میں چلدی۔ جاتے جاتے ویٹر کو جگو کے لئے شراب سرو کرنے کا حکم دینا نہیں بھولی تھی۔۔ ولائتی شراب نےجگو کے نشے کی تجدید شروع کردی جو کافی دیر تک چلتی رہی۔ اس بیچ بھیڑ کے ساتھ ساتھ ڈانس فلور کی لڑکی بھی اندر کہیں غائب ہوگئی۔ آخری پیگ ختم ہوتے ہوتے جمنا تائی واپس آگئی۔ اس بار اس کی مسکراہٹ حقیقی لگ رہی تھی۔ شاید اس میں بڑے نوٹوں کا رنگ بھی مل چکا تھا۔ وہ کسی قدر مرعوب بھی تھی۔ جسے وہ اب تک گلی کا ایک معمولی غنڈہ سمجھ رہی تھی۔ وہ دراصل غیر معمولی بینک بیلنس کا مالک نکلا تھا۔
"کہاں سے آیا اتنا پیسہ"؟
"فالتو بات کائکو کرتی ہے۔ وہ کدھرہے"
جگو کا اشارہ '' تازہ مال'' کی طرف تھا۔ تائی نے اسے سہارہ دے کر اٹھایا اور اندرونی کمروں کی طرف چل پڑی
''کدھررررر''
''آتجھےتیری محبت سے ملاتی ہے۔۔۔ لاجو اندر انتجار کررہی ہے''
یہ محبت بھی عجیب شئے ہوتی ہے۔کہیں دو، دو ٹکے میں بکتی ہے۔ کہیں جذبہ خیر سگالی کے ٹوکن کے طور پر مفت میں مل جاتی ہے توکہیں جان دے کر بھی نہیں ملتی۔ راہداری کے آخری سرے پر موجود کمرہ نمبر 7 کے دروازے پر دونوں کے قدم رک گئے۔ لیکن جمنا تائی کا تجسس رک نہیں رہا تھا۔
''کوئی بڑا ہاتھ مارلیا تونے۔ کسی وی آئی پی کو ٹپکا دیا کیا ''
''چھوڑنا تائی''
مگر وہ چھوڑ نہیں رہی تھی۔ اس کے تجسس کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ نہیں رہا تھا۔ تائی نے پھر استفسار کی۔
''بتا نا جگو۔ کہاں سے لایا یہ روکڑا۔ کسی بڑی مچھلی کو ٹھوک دیا تو نے''
"مچھلی نہیں مچھیرا تھا لانڈیا۔ سیٹھ مانگی لال کی پوتی کا چھاوا۔ساتھ میں پڑھتے پڑھتے پیار کرنے لگا تھا حرامی۔ ادھر ہی نوراتری کے منڈپ میں " لو جہاد" کے نام پر ٹھوک ڈالا سالےکو"


تبصرے اور تاثرات

محمد عرفان ثمین
ممبئی کے تہذیب و تمدن کی بہترین عکاسی کرتا خوب صورت افسانہ۔ افسانوں میں دلچسپ منظر نگاری اور جملوں کی لطافت بھائی تنویر احمد تماپوری صاحب کا خاصہ ہے۔ چند غیر مانوس الفاظ کا استعمال عام / غیر مراٹھی قاری کے لیے قرات میں دقت پیدا کر سکتا ہے مگر وہ قاری میں تجسس بھی پیدا کرسکتا ہے۔ 
ایک خوب صورت اور رواں تحریر کے لیے مصنف کو بہت بہت مبارک باد۔

معین الدین عثمانی
تنویر احمد تما پوری کا افسانہ "گاندھی کا چوتھا بندر" پڑھ کر کہیں سے بھی یہ محسوس نہ ہوسکا کہ یہ رومانی افسانہ ہے۔بلکہ تھوڑی دیر کے لیے تو مجھے یہ متھن چکرورتی کی کسی پرانی ایکشن فلم کا منظر نامہ محسوس ہوا۔
افسانے کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں اور رومانی افسانے تو قلم کار سے احتیاط کے علاوہ بہت زیادہ محنت اور بطور خاص جذبات نگاری کے متقاضی ہوتے ہیں۔ 
بہر کیف یہ میرا تاثر تھا، رد وقبول کے ساتھ۔

شہروز خاور
پاکیزہ محبت / پاک محبت
کے سلسلے کے بعد
اس تحریر سے امید تھی کہ
ناپاک محبت کو سمجھنے کا موقع ملے گا
لیکن معاملہ لوجہاد پر ختم ہوا ــ
تحریر پر انشائیے کا رنگ غالب ہےــممکن ہے یہ افسانہ نگار کی افسانہ نگاری کا خاصہ ہو ــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▪️گاندھی کے مجسمے سے گفتگو
▪️جوزف کی معلومات
▪️ممبئی کی عمارتوں کی تفصیل
▪️پان والا (شیٹی)
اور
▪️مانگی لال کی پوتی کے چھاوے کا 
لاجو، جمنا تائی اور جگو سے کیا تعلق ہے؟
تحریر میں رومان کہاں ہے ؟
جمنا تالائی کے استفسار پر پیسوں کے تعلق سے جگو کا قتل کا اعتراف کرنے سے کہانی کیا بنتی ہے؟
اور افسانے کا کیا بنے گا؟
جگو جیسے بدصورت انسان کا لاجو جیسی خوبصورت لڑکی پر فریفتہ ہونے میں عجیب کیا ہے ؟
یہ فلیش فکشن ہوسکتا تھا کہ محبت کرنے والوں کو موت کے گھاٹ اتارنے والا خود محبت میں گرفتار ہوگیاــ لیکن زیر بحث تحریر، کرداروں کے تعارف اور منظر نگاری سے آگے نہیں بڑھ سکی ــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
زوائد : ہر وہ مکالمہ / منظر نگاری / جزئیات نگاری / کرداری نگاری حشو ہوتی ہے جو کہانی پر اثر انداز نا ہوــ 
چار صفحے میں کشمیر کی خوبصورتی بیان کرنے کے بعد آخری پیراگرف میں لکھ دیا جائے کہ ایک معصوم کی گولی لگنے سے جان چلی گئی تو اس میں کشمیر کی خوبصورتی کا کیا قصور ؟
افسانے میں جزئیات نگاری اور منظر نگاری کی اہمیت و ضرورت کو سمجھنا ضروری ہے ــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
عنوان :
چوتھے بندر سے کیا مراد ہے؟
چوتھا بندر کون ہے؟
اگر جگو ہے تو اسے چوتھا بندر کیوں کہا جاسکتا ہے؟
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
تخلیقی / دلچسپ جملوں کے درمیان رومان کی تلاش میں سرگرداں قاری کے تجسس کا حاصل کچھ نظر نہیں آتاــ امید ہے کہ احباب اس تحریر کی پرتیں کھولیں گے ــ
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات 🌹🌹🌹

وحید امام
افسانہ' گاندھی جی کا چوتھا بندر 'کا مطالعہ کرنے کے بعد ممبئی کے شب وروزیاد آگئے۔ممبئی اپنے آپ میں ایک دنیا ہے۔میرے خیال میں ممبئی کی تہذیب کوصفحہ قرطاس پر منتقل کرنا ایک مشکل امر ہے۔یہاں مراٹھی تہذیب اور کلچر کے علاوہ ہندوستان کی ہر تہذیب کی جھلک نظر آتی ہےجس کی وجہ سے ممبئی کی اپنی ایک مخصوص شناخت وجود میں آئی ہےمگر زیرنظر افسانے کے مطالعہ سے محسوس ہوتا ہے کہ یہاں صرف ایک تہذیب کا غلبہ ھے۔افسانے میں مراٹھی کا ایک لفظ 'تائی' بھی استعمال ہوا ہےجوبڑی بہن کے لیے استعمال ہوتا ہے۔یہاں وہ لفظ طوائف کے لئے استعمال ہورہا ہےجو میرے خیال سےمناسب نہیں۔ اکثرافسانوں اور کہانیوں میں 'بائی'کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات🌹🌹🌹🌹

جاوید انصاری
تنویر احمد تماپوری صاحب کا افسانہ گاندھی جی کا چوتھا بندر پڑھنے کےبعد یوں محسوس ہوا کہ تنویر صاحب نے اس افسانہ کو بڑی محنت سے لکھا ہے۔افسانہ اگرچہ فنی تقاضوں سے دور صحیح، بیانیہ تھوڑا بوجھل ہونے کے باوجود ایک ٹھیک افسانہ ہے۔امید کہ
تنویر احمد تماپوری صاحب مستقبل میں ایک کامیاب قلم کار کی حیثیت سے ابھریں گے۔میری نیک خواہشات اور دعائیں

نگار عظیم
"گاندھی جی کا چوتھا بندر" افسانہ تو ٹھیک ٹھاک ہے لیکن اس کا گاندھی جی کے تعلق سے عنوان واضح نہیں ہو سکا رومانی افسانے کے زمرے میں بھی نہیں آتا۔ افسانہ نگار کے لےء نیک خواہشات۔ 

نصرت شمسی
افسانہ متاثر نہ کر سکا۔عنوان اور افسانہ بالکل مختلف۔۔چوتھا بندر کون؟ وہ کردار جو پیش کیا گیا؟محبت اور رومانیت تو کہیں کھوئی رہی ہاں شیطانیت بابر ناچتی رہی۔۔اس سے پہلی محترم کا افسانہ پیش کیا گیا تھا وہ بہت بہترین تھا۔ عنوان تو یاد نہیں آرہا ہے۔خیر جو بھی تھا اچھا تھا۔۔
اس سے ملتا جلتا افسانہ بھی بزم میں شاید پہلے پڑھ چکی ہوں۔۔۔
پچھلے اچھے افسانہ کی طرح آگے بھی اچھے افسانے پڑھنے کو ملیں گے امید ہے۔
قلم کی سلامتی کی دعا۔۔

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
معذرت کہ میں بعض مصروفیات کی وجہ سے پہلے افسانہ نہیں پڑھ سکی۔اب دیکھا کہ سیر حاصل عمدہ تبصرے پہلے ہی آچکے ہیں۔ 
یہ ضرور ہے کہ افسانہ موضوع سے میل نہیں کھاتا اور موضوع عنوان سے مطابقت نہیں رکھتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
مجھے اسے پڑھ کر بچن کی کیء فلمیں یاد آگئیں البتہ ہیرو بد صورت ہوگیا۔ 
بہرحال دلچسپی کا عنصر موجود ہے۔
ممبئی کی زبان سے اتنی واقفیت نہیں ہے کہ کمینٹ کیا جائے۔
مصنف کی خدمت میں نیک خواہشات۔

مبین نذیر
افسانہ ایونٹ سے مطابقت نہیں رکھتا ہےـ رواں اسلوب میں لکھا گیا ہے ـ
افسانہ نگار نے گاندھی جی کا چوتھا بندر یہ عنوان طنزاً طے کیا ہےـ ایسا محسوس ہوتا ہےـ مرکزی کردار ایک اچھا کام لو جہاد کا خاتمہ (بقول اس کے) کرکے آرہا تھا، اس لیے اسے گاندھی جی کا چوتھا بندر کہا ہےـ
(اتفاق ضروری نہیں)
بیانیہ دلچسپ ہےـ
لو جہاد کے نام پر نوراتری کے پنڈال میں مارپیٹ تو ہوتی ہے لیکن اتنی لاقانونیت نہیں ہے کہ قاتل قتل کرکے آزاد گھومتا پھرےـ
ایونٹ میں شرکت پر افسانہ نگار کو مبارک باد...

ناہید طاہر
سچ پوچھیں تو ایک الگ انداز میں پیش کیا گیا پُرلطف افسانہ۔۔۔پڑھ کر اچھا لگا۔۔۔بلکہ بہت اچھا لگا۔

لئیق انور
افسانےمیں چارکردار پیش کیے گئے ہیں۔پہلا جگودادا، جو سپاری لے کر مرڈرکرتاہے۔ دوسرا جوزف، جو ڈرائے ڈے کو فرائے ڈے بنادیتاہے۔ تیسرا شٹی، جو اپنی پان کی دوُکان کی آڑ میں کئی طرح کےاور بھی عجیب دھندے کرتاہےاور چوتھا جمناتائی کا کردارجو کوٹھاچلاتی ہے۔ ان چاروں کرداروں کےپس منظر میں افسانہ نگار نے بڑے شہروں کی پوشیدہ کالی دُنیاکو پیش کیا ہے۔خصوصی طورپر ممبئی کے سیاسی اور سماجی ماحول کوسامنے رکھ کر دو فرقوں کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کو تحریر کیاہے۔ نوراتری کی آخری رات، ویلن ٹائین ڈے بن چکی ہےاور دومحبّت کرنے والوں کے لیے جینامحال ہوچکاہے۔لَوجہاد کے نام پر لوگ اپنا کانٹانکال رہے ہیں۔
افسانے کی بنت اور اس کا بین السطوربہت کچھ بیان کرتاہےلیکن افسانہ نگار ان کے آپسی تعلق (داخلی منطق) کو بالکل واضح طورپر پیش نہیں کرسکا۔ جس کی وجہ سے قاری تذبذب کا شکارہوجاتےہیں۔اس کے باوجودافسانہ مجموعی طورپراپنے مقصد میں کامیاب ہے۔
رومانوی ایونٹ کے درمیان اب تک جوافسانے پیش کیے گئے ان کی زبان و بیان اور اس افسانے کا بیانیہ قطعی مختلف ہونےکی وجہ سے قاری سوچنے پر مجبورہوجاتاہے کہ یہ افسانہ اس جگہ مناسب ہے بھی یا نہیں۔مگر افسانے کے اختتام پرظالم سماج کا،دومحبّت کرنے والوں کوقتل کر کے جداکیاجانااورجگوداداکاکوٹھے کی خوبصورت رقاصہ کو دل دےبیٹھنا، افسانے کی رومانیت کی طرف اشارہ کرتاہے۔ اسی رومانیت کی وجہ سے (شاید)افسانہ نگار نے اپناافسانہ ا س ایونٹ میں پیش کیاہے۔
افسانہ نگار کامزاج یہ ہے کہ وہ افسانے کے اختتام پر قاری کو ہمیشہ چونکادےمگراس کوشش میں افسانہ نگار اس افسانے کے تمام کرداروں کو واضح طورپر ایک دوسرے سے مربوط نہیں کرسکا۔ورنہ پوراافسانہ اپنے تئیں وحدانیت لیے ہوئے ہے۔ گاندھی کا چوتھا بندر کون ہے؟ افسانہ نگار نے قاری کے اوپر چھوڑدیاہے۔لیکن اس جملے میں بڑاطنزہے جب جگو،گاندھی کے مجسمے سےکہتاہے’’سالاتم بھی جوزف کا بڑوہے۔‘‘
اس ایونٹ میں شرکت پر افسانہ نگار کو مبارکبادپیش کرتے ہیں۔ نیک خواہشات کے ساتھ

تنویر احمد تماپوری
بزم افسانہ کے ذی وقار ساتھیو
آداب
میں نے شاید یہاں موضوع کے حوالے سے ایک غلط افسانے کا انتخاب کیا ہے۔ ویسے بندہ سیکھتے سیکھتے ہی تو سیکھتا ہے۔ بزم افسانہ بھی تو اسی سیکھنے سکھانے کے عمل کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ ایڈمن حضرات کی کوششوں اور جانفشانی کے مجھ سمیت سبھی قائل ہیں۔مسلسل کچھ سالوں سے نہایت کامیابی سے نا صرف بزم کو چلایا جارہا ہے بلکہ اس کی افادیت بھی لاجواب رہی ہے۔ ایڈمن پینل کی نوازش اور عنائتوں کا مشکور ہوں۔ بالخصوص سلام بھائی اور وسیم صاحب کی محبتوں کا جواب نہیں۔بہت شکریہ آپ تمام منتظمین کا۔ بزم کے اراکین کا بھی ممنون ہوں۔ افسانے کو پڑھا اس پر اپنی رائے دی۔ خوب سے خوب تر اور بہتر سے بہترین کے اس سفر میں اگلے پڑاو پر قدرے بہتر افسانے کی کوشش رہے گی۔
حج سے مربوط ایک نئے پراجیکٹ پر ان دنوں کافی سے زیادہ مصروفیت رہی۔ بزم میں بھی کافی دنوں سے غیر حاضر رہا۔ ایک دوست کے متوجہ کرنے پر حاضری درج کرائی۔
تمام کا شکریہ اور نیک خواہشات۔
تنویر احمد تماپوری ریاض

Post a Comment

0 Comments