میرا دوست، میرا ہمزاد
ظہیر قدسی
20 جنوری 1944| مالیگاؤں، انڈیا
اب ایسے بزرگ نہیں رہ گئے جو ۱۹۴۴ء کے بڑے سیلاب کو یاد رکھیں اور اس کے حوالے سے واقعات بیان کریں۔ مجھے اتنا یاد ہے کہ جون ۱۹۴۴ء میں بہت بڑا سیلاب موسم ندی میں آیا تھا اور اس سے پہلے جنوری میں ایک غریب پرائمری مدرّس کے گھر ایک لڑکا پیدا ہوا تھا۔ ان دو اہم واقعات میں سیلاب کا ذکر چھوڑ کر اس لڑکے کے کچھ واقعات جو میرے سامنے یا میرے ساتھ ہوئے ان کا ذکر کروں گا۔ غریب تھا اس لیے چڈّی میں گھومتا تھا اور گلی میں کھیلتا تھا۔ گلی کے نکڑ پر سڑک سے لگ کر ایک دواخانہ تھا جہاں ڈاکٹر کے دو لڑکے صبح شام دواخانہ کھولتے تھے اور یہ لڑکا ان کے ساتھ کھیلتا تھا۔ کبھی سڑک پر، کبھی گٹر میں گر کر ہاتھ پاؤں تڑوا کر گھر آتا تھا۔ گھر پر بھی باپ کی مار کھاکر دادی کے دامن میں پناہ لیتا تھا۔ بارہ برس کی عمر تک سیدھا ہاتھ تین مرتبہ تڑوا چکا تھا اس لیے سب کام اُلٹے (بائیں) ہاتھ سے کرتا تھا۔ آج اسے لیفٹی کہتے ہیں۔ مگر بچپن میں اس کو ’’لبڑہتھو‘‘ کہتے تھے۔ جب وہ چار سال کا تھا تب ہی اس کی ماں کا انتقال ہو گیا۔ اس لیے دادی نے اور باپ نے اسے پالا۔
یہاں تک کے واقعات تو کچھ اسے، کچھ مجھے بزرگوں سے معلوم ہوئے، کچھ اس نے بتائے۔ ہم دونوں نے ساتھ ہی اسکول میں داخلہ لیا اور اب تک ساتھ ہیں اس لیے جہاں تک یادداشت کام کر رہی ہے، میں اس کے وہ واقعات بیان کروں گا جو اس نے بتائے یا میرے سامنے اس پر گذرے۔۔۔ اس نے بتایا کہ والد صاحب غلطیوں پر جس بُری طرح مارتے تھے اتنا ہی پیار بھی کرتے تھے اور اسکول کے بعد زیادہ وقت مجھے ساتھ لیے رہتے تھے۔ اس نے یہ واقعہ بھی مزے لے لے کر سنایا۔ جب وہ، اس کا بڑا بھائی دھابے کی چھت پرپتنگ اُڑا رہے تھے۔ بھائی کے ہاتھ میں پتنگ اور ڈور تھی۔ میرے ہاتھ میں ڈور کی چرخی۔ بھائی نے پتنگ سے پتنگ بھڑائی (پینچ لگائی) ڈور کھینچ۔۔۔ ابے کھینچ۔۔۔ کرتے ہوئے پیچھے ہٹا۔ میں اس کے ساتھ پتنگ پر نظر جمائے پیچھے ہونے لگا اور دھڑام سے مکان کے روشن دان میں گر پڑا۔ بھائی پتنگ چھوڑ کر مجھے کھینچے لگا اور نیچے میں پاورلوم پر گرا۔۔۔ وہاں گھر والوں نے بلّی کودی، سمجھ کر بِل بِل کا نعرہ لگایا اور لکڑی سے ہش ہش کرنے لگے۔ خدا خدا کر کے بھائی نے مجھے اوپر کھینچا اور ہم نیچے اُتر آئے۔ رات کے کھانے سے پہلے والد صاحب کو خبر ہوئی کہ یہ حضرت پڑوس کے گھر میں گر پڑے تھے۔ اس جرم پر ہم دونوں بھائیوں کو رات کے کھانے میں ساری پتنگیں توڑ مروڑ کر اور ڈور چرخی سب رکھ دی گئی کہ آج رات یہی سب کھانا ہے۔ وہ دن اور آج کا دن، پتنگ بازی سے ہم نے توبہ کر لی۔
پانچویں جماعت میں ہم دونوں تھے۔ حکیم اجمل خان کا سبق اُردو کی کتاب میں تھا۔ جس کا ایک جملہ ’’حکیم صاحب کا گھر بھی بڑا تھا اور اُن کا دل بھی بڑا تھا‘‘۔ اسکول سے چھٹی ہوئی تو گھر جاتے جاتے اس نے بتایا ہمارا گھر بھی بہت بڑا ہے اور میرے والد کا دل بھی بہت بڑا ہے۔ محدود آمدنی میں بھی وہ ہماری تمام ضروریات اور فرمائشیں پوری کرتے تھے۔ گھر کے درمیان میں آنگن تھا جس میں ہم اور آس پاس کے بچّے کھیلتے تھے۔ اسی کے ساتھ والد صاحب نے ہمیں تعلیمی تاش، شطرنج، کیرم بھی نہ صرف لاکر دیا بلکہ ساتھ میں کھیلتے بھی تھے۔ آنگن میں بچّوں کے ساتھ کھیلنے یا سڑک پر دوڑنے بھاگنے والا کھیل کھلتے وقت اگر منہ سے گالی اچانک نکل گئی اور والد صاحب نے یا دادی نے سن لیا یا ان سے شکایت کی گئی تو بلا تحقیق وہ مار پڑتی تھی کہ بس۔۔۔ آج بھی اسی کا سبب ہے، وہ لڑکا آج بھی ایسی تمام بُرائیوں سے بھی پاک ہے۔
اس نے بتایا محلے کے ساتھیوں میں ایک ساتھی غیر مسلم بھی تھا جس کا نام کیدار ناتھ تھا جس کو سب ’’کیدو‘‘ کہتے تھے۔ ہم تمام دوست کبھی اس کے گھر، کبھی میرے گھر، کبھی پڑوس میں کھیلنے جایا کرتے تھے۔ امیر، غریب، ہندو مسلم کا کوئی بھید بھاؤ نہیں تھا۔ ہندو مسلم اتحاد پر پہلی ضرب ۱۹۶۳ء میں پڑی جب گنپتی کے نام پر شہر میں فساد ہوا اور جس کے بعد ہمارا دوست ’’کیدو‘‘ اپنے والدین کے ساتھ گھر بیچ کر چلا گیا۔
وہ اسکول پابندی سے جاتا تھا۔ پڑھنے لکھنے میں بھی پہلے پانچ میں رہتاتھا مگر اس نے بتایا کہ قاعدہ اورقرآن پڑھنے میں اس کو بہت سال لگے۔ پاس کی مسجد میں جو شبینہ مدارس چلتے تھے ان میں اس نے اپنے بھائی کے ساتھ داخلہ لیا مگر مولوی کی مار کی ڈر سے دونوں بھائی مدرسے سے بھاگنے لگے۔ اسی طرح جب تک اسکولی تعلیم حاصل کرتے تھے، شبینہ مدارس ہر سال چھ ماہ پر بدلتے رہے اور قرآن کے دوسرے پارے سے آگے نہ بڑھے۔ ہاں۔۔۔ اتنا ہوا کہ دور نزدیک کے تمام شبینہ مدارس اور ان کے مولوی کو ان کو جاننے پہچاننے لگے۔ اس نے عمر کے پچیسویں برس میں قرآن پڑھنا سیکھا اور تب سے آج تک قرآن کی تلاوت اور قرآن فہمی جاری ہے۔
جیسا کہ میں نے اوپر بتایا، اسکول کی پڑھائی میں پانچ اوّلین بچوں میں اس کا شمار ہوتا تھا۔ میں نے اسے اسکول میں دیکھا۔ جب وہ سوم جماعت میں تھا تو مجھ سے بچھڑ کر دوسری اسکول میں چلا گیا لیکن آٹھ دس دن بعد واپس آ گیا۔ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ جس اسکول میں مجھ کو بھیجا گیا تھا وہاں کے جناب دن بھر آفس میں رہتے تھے اور ہم پہاڑہ یاد کرتے رہتے تھے۔ اس لیے پہاڑہ تو یاد ہوتا تھا مگر دوسرا کچھ نہیں سیکھ سکے۔ اس لیے والد سے ضد کر کے پہلی اسکول میں واپس آ گیا۔ وہ محنتی تھا، ذہین تھا، حساب بھی اچھا تھا۔ مگر تھا بڑا ڈرپوک۔۔۔ اتفاق سے چہارم پنجم میں ٹیچر بھی ایسے ملے جو اُس کے والد کے دوست تھے مگر مارنے ٹھوکنے میں ایک نمبر تھے۔ اس لیے یہ بے چارہ صحیح جواب دیتے وقت بھی ڈَر سے کانپتے رہتا تھا۔ اس لیے کبھی ادھورا جواب دے، کبھی ہکلا کر رہ جائے اور مار کھائے۔ اس کے اور اس کے ساتھ کے دو بچّوں کے ڈرپوک ہونے کا فائدہ ہماری پوری جماعت کو اس طرح ملتا تھا کہ اکثر جب جناب کلاس کو مُرغا بناتے تھے تو سب سے پہلے یہی تین لڑکے روتے تھے اور باآواز بلند روتے تھے کہ بازو کی کلاس اور سامنے کے گھر میں بھی رونے کی آواز جاتی تھی۔ اُن کے رونے سے ہمیں سزا سے جلدی چھٹکارا مل جاتا تھا۔
ہم دونوں ساتویں تک ساتھ میں تھے۔ا س وقت فائنل کا سرکاری امتحان ہو تا تھا۔ کلاس میں وہ دوسرے یا تیسرے نمبر سے کامیاب ہوا۔ اس کی بدقسمتی یا غریبی کہ ہائی اسکول میں دیڑھ سال پڑھ کر اسکول چھو ڑکر لوم چلانے لگا۔ اس کی خوش قسمتی یہ تھی کہ پرائمری اسکول میں سروِس پر لگنے والا وہ آخری معلّم بھی تھا جو فائنل پاس (ساتویں پاس) ہوکر معلّم بنا۔ ا س کے بعد کے فائنل پاس معلّم ایس ایس سی نہ کرنے کے سبب پیشۂ معلّمی سے الگ کر دیئے گئے۔ اس نے باوقار چالیس سال سروِس کے مکمل کئے۔ وہ ہے میرا دوست، میرا ہمزاد ظہیر قدسی
0 Comments