Ticker

6/recent/ticker-posts

ایسا تھا بچپن | وکیل نجیب

ایسا تھا بچپن
وکیل نجیب
یکم جولائی 1946 | ناگپور، انڈیا


اپنے بچپن کے ایام پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے اس وقت کا پہلا واقعہ اب تک یاد ہے وہ اس زمانے کا ہے جب شاید میری عمر چار یا پانچ سال کی رہی ہوگی۔ یہ رمضان کے مہینے کی بات ہے سنیچر کا دن اور سحری کاوقت تھا۔ کچھ شور، کچھ لوگوں کے ایک ساتھ گیت گانے کی آوازوں سے میری آنکھ کھل گئی اور میں آنکھیں ملتے ہوئے گھر کے آنگن میں آیا۔ وہیں چولہا تھا جس پر کڑھائی چڑھی ہوئی تھی اور اماں اس میں گلگلے تل رہی تھیں اور آنگن کے دروازے پر چند نوجوان لڑ کے پیٹرومیکس یا گیس بتی کی روشنی میں رمضان کی شان میں کسی فلمی دھن پر کوئی قصیدہ پڑھ رہے تھے۔ میں نے ادھ کھلے دروازے سے انہیں دیکھا تھوڑی دیر پڑھنے کے بعد وہ لوگ چلے گئے۔ اماں نے مجھے گلگلے دیئے میں نے گلگلے کھائے اور پھر سے جا کر اندر کے کمرے میں اپنے بستر پر سوگیا۔ میری ابتدائی عمر کا یہ واقعہ آج بھی میرے دماغ کے پردے پر روشن ہے۔
میرارہنا مومن پورہ تکیہ محبوب شاہ میں تھا وہاں کارنر پر ہمارا خود کا مکان تھا اور وہ اب بھی موجود ہے۔ اس مکان میں میری پیدائش ہوئی اور بچپن گزرا لڑکپن کا زمانہ بھی وہیں گزرا۔
میرے والد ناگپورشہر کے بہت بڑے کپڑامل جس کا نام امپریس مل تھا اور جو ٹاٹا کمپنی والے پارسیوں کی ملکیت تھی وہاں سپر وائز رتھے۔ جہاں عام زبان میں انہیں مقادم کہا جا تا تھا۔ سو میرے والد کا نام پوری مسلم آبادی میں، جو زیادہ بڑی نہیں تھی اچھا خاصا مشہور تھا۔ ہم کل سات بھائی تھے اور ہماری دو بہنیں تھیں۔ میں چھٹے نمبر کا بیٹا ہوں بھائی لوگ کچھ کام کیا کرتے تھے میرے کسی بھی بھائی نے چھٹی جماعت سے آگے پڑھائی نہیں کی گھر میں ہینڈلوم کا کام ہوتا تھا۔ سمجھدار ہونے کے بعد سب انہی کاموں میں مشغول ہو جاتے تھے۔
میں نے چوتھی کلاس کا امتحان اپنے گھر کے بالکل سامنے کی اسکول سے پاس کی۔اسے لال اسکول کہا جا تا تھا اور آج بھی کہا جاتا ہے کیوں کہ اس کی دیواروں کو لال رنگ سے رنگ دیا گیا تھاسو وہ رنگ آج بھی قائم ہے۔ میرے سارے بھائیوں نے اسی اسکول میں تعلیم حاصل کی۔ اس اسکول پر سنگ مرمر کی سل پر لکھا ہوا ہے۔ اس عمارت کے قائم ہونے کی یاد دلاتی رہتی ہے۔ وہ منزلہ کل چارکمروں کی عمارت ہے اور ہر کمرے میں پچاس بچے آرام سے بیٹھ سکتے ہیں بڑی خوبصورت اور پائیدار عمارت ہے۔ آج بھی اسی شان سے کھڑی ہے۔
لال اسکول سے جس کا اصل نام تھا، بیت العلوم اردو پرائمری اسکول، میں نے چوتھی جماعت کا امتحان پاس کیا۔ ہمارے ددھیال کے مکان کے پاس حقیف بزمی نام کے ایک ٹیچر رہتے تھے "بوہرہ" جماعت کے لوگوں کے اسکول حسامیہ بوائز مڈل اسکول میں ٹیچر تھے۔ میرے والد صاحب نے ان سے بات کی اور میراداخلہ حسامیہ اسکول میں ہوگیا جو اتواری محلے میں واقع تھا۔ وہاں کا خاص لباس یا یونیفارم علی گڑھ پائجامہ شیروانی اور ٹو پی تھی۔ یہ پورا یونیفارم میرے لیے سلوایا گیا اور مجھے مومن پورہ سے اتواری جو دوکلومیٹر کے فاصلے پر ہے روزانہ پیدل جانا پڑتا تھا۔ میرے پڑوس کے چار لڑکوں نے بھی وہیں داخلہ لیا تھا۔ سو ہم پانچوں ساتھ ساتھ اسکول جایا اور آیا کرتے تھے۔
میں جب ساتویں جماعت میں تھا تو والد صاحب امپریس ملس سے ریٹائرڈ ہو گئے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد انہیں اچھی خاصی رقم ملی تھی جس سے انہوں نے ہمارے پرانے کچے مکان کو نیا پختہ دومنزلہ مکان بنایا اور نیچے اسکول کی جانب ایک کمرہ نکالا اور اس میں کرانے کی دکان کھول دی۔ دکان میں والد صاحب، مجھ سے بڑے بھائی عبدالعزیز اور چھٹی کے بعد میں بیٹھا کرتے تھے۔ والد صاحب کو مطالعے کا بہت شوق تھا۔ وہ "دین دنیا" رسالہ جس کے مدیر شوکت علی فہمی ہوا کرتے تھے ہر ماہ لیا کرتے تھے اور مجھ سے اس رسالے کے مضامین پڑھوا کرسنا کرتے تھے اور تلفظ کی غلطیاں درست کیا کرتے تھے۔ میرے بھائی عبدالعزیز کو بھی مطالعے کا شوق تھا وہ کرانہ دکان میں دہلی کامشہور رسالہ کھلونا مسلسل خریدا کرتے تھے۔ میں بھی اس رسالے کا مطالعہ کرتا تھا۔ ان سب کی وجہ سے میری زبان اچھی ہوگئی اور مطالعے میں روانی پیدا ہوگئی تھی۔
ہمارے مکان کی شمالی سمت میں جوگلی تھی اس سے متصل چائے کا ایک ہوٹل تھا جس کے مالک "ادریس خلیفہ" تھے۔ اس ہوٹل میں الجمعیۃ اخبار دہلی سے آیا کرتا تھا۔ مجھے وقت ملتا تھا تو میں مسلسل اس اخبار کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔ اسی زمانے میں ہمارے پڑوس میں یعقوبیہ لائبریری ہوا کرتی تھی۔ شام کے اوقات میں میں وہاں بھی جا کر اخبارات اور رسائل کا مطالعہ کیا کرتا تھا۔میرے بھائیوں کو ابن صفی کے ناولوں کے پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ فرصت کے اوقات میں میں بھی ان ناولوں کا مطالعہ کر لیا کرتا تھا۔ ہمارے گھر میں والد صاحب کی خریدی ہوئی داستان" امیر حمزہ اور الف لیلیٰ" بھی رکھی ہوئی تھی۔ جو اکثر میرے مطالعے میں رہا کرتی تھی۔ مطالعہ کا یہ سلسلہ پچپن سے شروع ہوا۔ لڑکپن اور جوانی کے ایام میں اپنے عروج پر پہنچ گیا۔
حسامیہ اسکول، اردومیڈیم اسکولوں میں تعلیم کے معاملے میں بہترین سمجھا جاتا تھا۔ وہاں ڈسپلن، وقت کی پابندی، ہوم ورک وغیرہ پر بہت توجہ دی جاتی تھی۔ میں نے حسامیہ اسکول میں چار سال تعلیم حاصل کی، چونکہ وہ مڈل اسکول تھا۔ آٹھویں کے بعد وہاں تعلیم کا نظام نہیں تھا۔ لہذا آٹھویں کا امتحان پاس کر کے میں نے انجمن ہائر سیکنڈری اسکول صدر میں داخلہ لیا۔ اس طرح میں ہائی اسکول کا طالب علم بن گیا۔
جہاں تک میرے بچپن کا حال ہے تو مجھے کھیلوں میں بے حد دلچسپی تھی جب کہ تعلیم کے معاملے میں میں اوسط سے بھی نچلے درجے کا طالب علم تھا اور میرے ساتھی تعلیم کے معاملے میں مجھ سے کافی آگے رہا کرتے تھے۔ کھیلوں میں بڑھی ہوئی دلچسپی کی وجہ سے مجھے مڈل اسکول میں سوشل گیدرنگ کے پروگراموں میں کوئی نہ کوئی انعام ضرورملتا تھا جب کہ میرے ساتھی اس سے محروم رہا کرتے تھے۔ مومن پورہ میں ہم جہاں رہتے تھے۔ وہ کارنر پر بنا ہوا مکان تھا۔ جس میں مشرقی جانب سڑک تھی اور سڑک سے لگ کر لال اسکول تھا۔ شمالی سمت میں ایک چھوٹا ساراستہ تھا اور مغربی سمت میں ایک میدان تھا۔ دو میدان ہمارے نوجوانوں کی سب سے پسندیدہ جگہ تھی صبح اٹھ کر میدان میں ہمارا کھیل کود کا عمل شروع ہو جا تا تھا اور اسکول سے آنے کے بعد مغرب کی اذان تک ہمارے کھیلوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ اس میدان کے مغربی جانب جنوبی کونے میں ایک مسجد ہے جسے" مسجد بکر قصاب" کہا جا تا ہے۔ مسجد کی مغربی جانب قریش برادری کے لوگوں کی آبادی ہے۔ مسجد کی انتظامیہ کمیٹی میں قصاب برادری کے لوگ ہی شامل ہیں۔اسی مناسبت سے اس کا نام مسجد بکر قصاب پڑا ہوا ہے۔ اس مسجد کی وجہ سے ہمارے کھیلوں کا سلسلہ مغرب کی اذان کا وقت ہونے سے کچھ دیر پہلے ہی رک جاتا تھا۔ کیوں کہ نمازیوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا۔
میرا پسندیدہ کھیل فٹ بال تھا اس چھوٹے سے میدان میں ہم ربر کی ایک چھوٹی بال سے کھیلا کرتے تھے۔ دونوں جانب سات سات کھلاڑیوں کی ایک ایک ٹیم ہوا کرتی تھی، اور ہم سب نیم ہموار میدان میں ننگے پیروں سے فٹ بال کھیلا کرتے تھے۔ اس کے لیے ہم لوگ صبح سویرے اٹھ کر ورزش بھی کیا کرتے تھے۔ بس سمجھ لیجئے کہ فٹ بال کھیلنے کا ایک جنون ہمارے دوستوں کے سروں پر سوار رہتا تھا اور اس کی وجہ تھی کہ اس میدان سے پانچ سوگز کی دوری پر ایک بڑا میدان تھا۔ جس کا نام ینگ مسلم فٹ بال گراؤنڈ تھا۔ اس گراؤنڈ پر ینگ مسلم فٹ بال کلب کے بڑے کھلاڑی مشق کیا کرتے تھے۔ ان دنوں شہر کے مرکزی میدان "کستور چند پارک" میں شہر کی بڑی بڑی ٹیموں کے مقابلے ہوا کرتے تھے اور ینگ مسلم فٹ بال کلب کی وہاں نمایاں کارکردگی ہوا تھی۔
رات کے اوقات میں ہم نو جوان اس میدان میں جمع ہو کر کبڈی کھیلا کرتے تھے۔ کبڈی کے علاوہ ایک کھیل اور تھا۔ جو صرف مہاراشٹر میں کھیلا جاتا تھا۔ اب وہ بند ہو چکا ہے۔اسے مراٹھی زبان میں "آٹیا پاٹیا" کہا جاتا تھا۔ لیکن اپنی زبان میں اسے ’’نون پاٹ‘‘ کہا کرتے تھے۔ اس کھیل میں ایک گھر سے چکمہ دے کر دوسرے گھر میں جانا ہوتا تھا۔ بڑی ہوشیاری سے سامنے کی ٹیم کے کھلاڑی کو چکمہ دے کر آگے بڑھنا پڑتا تھا۔ اگر اس نے روک لیا یا چھولیا تو سرور کرنے والا کھلاڑی آؤٹ ہو جاتا تھا۔
سردیوں کے موسم میں پتنگ اڑانے کا موسم شروع ہوتا تو بچپن کے ان ایام میں میں پوری طرح پتنگ اڑانے میں مصروف ہو جاتا تھا۔ ہمارے کھیلوں اور شوقوں کا ٹھکانہ دہی میدان ہوا کرتا تھا جو اب بھی موجود ہے۔ جسے تکیہ محبوب شاہ میدان کہا جا تا ہے۔اس میدان میں بارش کے موسم میں ہم ’’سلاخ گڑانی‘ کھیلا کرتے تھے۔ ایک لڑ کا لوہے کی سلاخ نرم گیلی زمین پر گڑاتا جاتا تھا۔ اگر سلاخ زمین پر گڑنے نہ پائی تو پھر دوسرے ساتھی کو موقع ملتا تھا۔ اسی طرح ہم اپنی عمر کے دوستوں کے ساتھ کنچے بھی کھیلنے میں لگے رہا کرتے تھے۔
ان سارے کھیلوں کے ساتھ میری تعلیم کا سلسلہ یکسوئی سے جاری رہتا تھا۔ حالانکہ میں پڑھنے لکھنے میں نہ تو بہت ہوشیار تھا اور نہ ہی میری اس میں دلچسپی رہتی تھی لیکن میں کسی بھی حال میں اسکول سے ناغہ نہیں کرتا تھا۔ میری حاضری صد فیصد رہا کرتی تھی۔ نویں جماعت میں میں انگریزی زبان میں ناکام ہوگیا تھا۔ لیکن میری حاضری کا اچھا ریکارڈ دیکھ کر مجھے ترقی دی گئی تھی۔
میرے والد صاحب کی تخواہ اچھی تھی لیکن گھر کے افراد کی تعداد زیادہ تھی۔ اس لیے عموماً تنگدستی کے حالات رہا کرتے تھے۔ جب میں مڈل اسکول جانے لگا تو چھٹی کے اوقات میں میری والدہ ایک پائلی (اناج ناپنے کابڑا پیمانہ) چنا ابال کر نمک مرچ اور تیل میں بھون کر اس پر سمار، پیاز کتر کر ڈال دیتی تھیں اور میں اسکول کے سامنے تھال میں لے کر وہ چنا فروخت کرتا تھا۔ ایک روپے کے چنے سے چھ سات روپے آجایا کرتے تھے۔ جوگھر کے کھانے پکانے کے اخراجات کے لیے کافی ہوا کرتے تھے۔
بچپن سے میری جسامت اچھی تھی۔ چہرہ بھی اچھا تھا۔ صحت مند تھا۔ اپنے ساتھیوں میں نمایاں نظر آتا تھا۔ میرے سارے بھائی مجھے بہت چاہتے تھے اور اکثر میرے لیے کپڑے سلوادیا کرتے تھے۔
اس زمانے میں یعنی ۱۹۵۴ء سے ۱۹۵۸ء کے درمیان ہماری بستی میں تعلیم کی طرف رغبت کم تھی بنکری کے کارو بار سے جڑا ہوا محلہ تھا۔ اس لیے بچے جیسے ہی سن شعورکو پہنچتے تھے انہیں گھر کے بنکری کے کاروبار میں لگا دیا جاتا تھا۔ بہت کم بچے تعلیم حاصل کر پاتے تھے۔ میری اسکول جانے میں دلچسپی دیکھ کر مجھے اسکول میں پڑھنے دینے کی بات نہ صرف گھر میں ہوتی تھی بلکہ بستی کے بڑے لوگ بھی کہا کرتے تھے۔' وکیل' کو پڑھاؤ خوب پڑھاؤ۔ پڑھائی میں اس کی دلچسپی بہت ہے۔اس طرح میری تعلیم کا سلسلہ نامساعد حالات میں بھی جاری رہا جیسے جیسے میں آگے بڑھتا گیا،میرارجحان تعلیم میں بڑھتا گیا۔ اس طرح مڈل اسکول سے نکل کر ہائی اسکول میں گیا اور ہائی اسکول کا امتحان پاس کر کے کالج میں داخلہ لیا۔ واقعی وہ ایام میری زندگی کے بہترین ایام تھے۔

Post a Comment

0 Comments