Ticker

6/recent/ticker-posts

دور اندیش (مختصر افسانہ)✒️ محمد علی صدیقی

5️⃣
دور اندیش
افسانہ نِگار ✒️ محمد علی صدیقی
ایونٹ 52 🤦🏻‍♀️💁🏻‍♂️ فیملی ڈرامہ
کل ھِند افسانہ نِگار فورم
کی پیشکش
افسانچہ نمبر 5
مختصر افسانہ

اداس چہرے اور ویران آنکھوں والا وہ شخص بوجھل قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ اس کی کوئی منزل نہیں تھی اسے کہاں پہنچنا تھا اسے خود پتا نہیں تھا۔ وہ تو بس یوں ہی گھر سے نکل پڑا تھا۔
اس کی آنکھیں بے چین تھیں۔ ان میں کبھی ماضی کے چمکیلے رنگ بکھر جاتے تو کبھی حال کے تیز رنگ پیلی ریت بن کر چبھنے لگتے۔
" پاپا آ گئے پاپا آ گئے۔" ننھی نیلو دؤڑتی ہوئی آئی اور اس کی گود میں سما گئی۔ وہ جب بھی گھر آتا نیلو کی کلکاریاں اس کا استقبال کرتیں۔ اس کے رگ و ریشے میں ترنگیں دوڑ جاتیں۔ اس کی ساری تھکن دور ہو جاتی۔ گھر کے ایک ایک گوشے سے اپنائیت کی خوشبو آتی۔ اسے اپنے پن کا احساس ہوتا۔
دیدوں میں یہ رنگ پوری طرح جھلملا بھی نہیں پاتا کہ ریت کی چبھن آنکھوں میں محسوس ہونے لگتی۔
"اتنے بڑے کمرے پر اکیلے قبضہ جمائے بیٹھے ہیں" بہو کی آواز پگھلے سیسے کی طرح اس کے کانوں میں اتری۔
وہ گھر میں داخل ہوا تو خاموشیوں نے استقبال کیا۔ اس نے پوتے کو آوازیں دیں لیکن وہ ٹی۔وی دیکھنے میں اس قدر مگن تھا کہ اس کی آواز کا اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہوا۔ بہو کو آواز لگائی لیکن وہ۔۔۔۔
"کہاں جا رہے ہیں جناب ؟"
اچانک کسی کی آواز پر اس کے پاؤں ٹھٹھک گئے۔ آنکھوں میں چلنے والی آندھیاں رک گئیں۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو جوہر صاحب تھے۔ اس کے ہم عمر اور ہم کار۔ دونوں کچھ دنوں قبل ہی ریٹائر ہوئے تھے۔ جوہر صاحب قریب آئے تو اس نے بیزار سے لہجے میں جواب دیا۔
"پتا نہیں۔۔۔!!ٔ
"سب خیریت تو ہے۔۔۔!!" جوہر صاحب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے پوچھا۔ جوہر صاحب کی ذرا سی ہمدردی نے اس کا باندھ توڑ دیا اور اس کے دل کا سارا غبار لاوا بن کر اس کے منہ سے نکلا۔
"کیا بتاؤں جوہر صاحب۔ زندگی کے رنگ ہی بدل گئے ہیں۔ اپنائیت کی بو تو جیسے ختم ہی ہو گئی ہے۔ کبھی کبھی تو دل چاہتا ہے کہ گھر چھوڑ کر کہیں چلا جاؤں۔ لیکن یہ سوچ کر رہ جاتا ہوں کہ کہاں جاؤں۔۔۔۔!!"
اس کی بات سن کر جوہر صاحب کی گرفت اس کے کندھے پر کچھ اور مضبوط ہو گئی۔ انھوں نے آگے بڑھتے ہوئے کہا
"آئیے میرے ساتھ۔"
وہ کچھ نہ سمجھتے ہوئے بھی جوہر صاحب کے ساتھ آگے بڑھا۔ تھوڑی دور چل کر دونوں ایک عمارت میں داخل ہوئے جہاں ان کا سفر ایک کمرے میں پہنچ کر ختم ہوا۔ کمرہ قرینے سے سجا ہوا تھا۔ ضرورت کا ہر سامان وہاں موجود تھا۔
"جب میں اپنا گھر بنوا رہا تھا اسی وقت یہ کمرہ بھی خریدا تھا۔ آپ کا دل جب کبھی گھر چھوڑ کر کہیں چلے جانے کو چاہے، یہاں آ جایا کیجئے۔"
جوہر صاحب نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ وہ ہونقوں کی طرح انھیں دیکھ ہی رہا تھا کہ انھوں نے اسے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور خود بھی بیٹھتے ہوئے بولے
"زندگی یوں ہی رنگ بدلتی ہے ملک صاحب۔ میں نے یہ کمرہ ایسے ہی وقت کے لئے خریدا تھا۔"
✍️✍️✍️

Post a Comment

0 Comments