کتاب کا نام:’بس اتنا سا افسانہ‘
مصنف: سراج فاروقی
مبصر: ریحان کوثر
فن اور فن کی اہمیت ایک اہم موضوع ہے اور اس پر برسوں سے بحث ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی۔ کچھ لوگوں کے نزدیک آرٹ یعنی فن اتنا اہم نہیں ہے جتنا سائنس یا ٹیکنالوجی جیسے دیگر موضوعات ہوتے ہیں۔ وہ یہ بھی سوال کرتے ہیں کہ ثقافت اور معاشرے میں ارتقاء کے لحاظ سے فنونِ لطیفہ نے دنیا کو کیا دیا ہے؟
اس سوال کا سیدھا جواب یہ ہے کہ فن ہمیں اور دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کر سکتا ہے۔ جب ہم فنون لطیفہ کی اہمیت پر غور کرتے ہیں تو اس کا کوئی منطقی جواب نہیں ہوتا۔ اس کے بجائے فن اور فنکار کی یہ شکل و صورت صدیوں کی تخلیق، فلسفیانہ نظریات اور تصورات کی صدیوں میں ڈھلی ہوئی مورت کے طور پر نظر آتی ہے۔
فن نہ صرف لوگوں کے کام کرنے کے طریقے اور تشکیل سے آگاہ کرتا ہے بلکہ انھوں عمل کرنے اور مخصوص اور منظم طریقوں پر زندگی کو دیکھنے اور اسے گزارنے کی ترغیب دی بھی دیتا ہے۔ سراج فاروقی صاحب کی زیر نظر کتاب ’بس اتنا سا افسانہ‘ کے مقدمے ’تلخ ہے زندگی بہت‘ میں آپ نے فن پر مدلل اور عمدہ گفتگو کی ہے۔ فن کے تعلق سے آپ کے نظریات و افکار میرے خیال و خامہ کے قریب نظر آتے ہیں۔ فن اور فنکار کے تعلق سے آپ لکھتے ہیں،
”فن کار کسی کی خوشنودی یا ناراضگی کے لیے نہیں لکھتا ہے۔ وہ تو بس اپنے فن کی ارتقاء اور بقا کے لیے لکھتا ہے۔ اب اس میں کسی فرد یا گروہ کی انا و حس کو ٹھیس پہنچتی ہے تو فن کار کا کیا دوش؟ فن کار تو معصوم ہوتا ہے۔ وہ تو فن کی ناراضگی کو مدنظر رکھتا ہے۔ اس کا مقصد ہوتا ہے، اس کا فن ناراض نہ ہو۔ دنیا ناراض ہو جائے تو کوئی بات نہیں! لیکن فن کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہو اور جوفن کار اپنے فن کی عظمت و عفت کا خیال نہیں کرتا۔ میرے نزدیک وہ سچا فن کار ہو ہی نہیں سکتا ہے۔ فن کار بالکل سچا اور بے لوث ہوتا ہے ۔ وہ دنیا کی نام و نمود کی قطعی پرواہ نہیں کرتا ہے۔ دو تو صرف اور صرف فن کی ارتقاء اور بقا کے لیے جیتا اور مرتا ہے۔“
(بس اتنا سا ہے افسانہ، مصنف: سراج فاروقی، صفحہ 15)
موصوف کے اس مقدمے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انھوں نے اس کے ذریعے صرف اپنے فن یا اپنی کتاب پر مقدمہ پیش نہیں کیا بلکہ فنونِ لطیفہ کی اہمیت و فضیلت پر جامع مقدمہ پیش کیا ہے۔ کتاب کا عنوان صرف عنوان نہیں بلکہ افسانچے کی مختصر تعریف بھی ہے۔ کوئی افسانچوں کی تعریف پوچھے تو اس کتاب کے عنوان کو ادا کرنے سے اس کی مکمل تعریف بیان کی جا سکتی ہے۔
” یعنی افسانچہ ’بس اتنا سا افسانہ‘ ہے۔ “
افسانچوں کا مجموعہ ’بس اتنا سا افسانہ‘ دراصل سراج فاروقی صاحب کی چوتھی اور اہم کتاب ہے۔ اس سے قبل آپ کی تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں۔ آپ کی پہلی کتاب ’آؤ جہیز کو ختم کر دیں‘ 2010ء میں، دوسری کتاب ’تم اب بھی‘ 2013ء اور ’خدا کے لیے‘ 2014ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ چوتھی کتاب مرحوم ایم اے حق صاحب کے نام منسوب کی گئی ہے۔ فاروقی صاحب حق صاحب کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کچھ یوں کیا ہے، موصوف نے اس اقتباس کے حرف حرف میں ایم اے حق صاحب کے لیے محبت اور عقیدت پیش کی ہے،
”وہ ایک مشفق بزرگ اور پیارے دوست تھے۔ان کی پوری زندگی افسانچوں کی آبیاری میں گئی ہے۔ ان کی رگ رگ میں افسانچہ دوڑتا تھا۔ وہ ساری زندگی اس کی ترویج واشاعت کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ آج جب یہ کتاب ترتیب دے رہا ہوں تو ان کی یادوں کی جھلمل چاندنی میرے چہرہ و دل پر منعکس ہورہی ہے۔ اکثر وہ کہا کرتے تھے۔ اب، آپ کی بھی افسانچوں کی ایک کتاب آجانا چاہیے اور ہاں وہ مسودہ پہلے میرے پاس بھیجئے گا۔ میں دیکھوں گا اور بہت اہتمام سے شائع کریں گے لیکن وہ موقع نصیب نہ ہوا۔ اللہ ان کو غریق رحمت کرے، آمین۔“
کتاب میں تقریباً 170 افسانچوں کو شامل کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی تنویر اختر رومانی، اشتیاق سعید اور ڈاکٹر نخشب مسعود ان صاحبان کے مضامین بھی شامل اشاعت ہیں۔ لیکن کتاب میں فہرست کی کمی شدت سے محسوس ہو رہی ہے۔ اس افسانچوں کے مجموعے میں سارے افسانچے آدھے، ایک یا ڈیڑھ صفحے کے ہیں۔ اس لیے میرا خیال ہے کہ بطور خاص افسانچوں کے مجموعے میں فہرست کا ہونا لازمی ہے۔
بہرحال! شامل قلم کاروں نے اپنے اپنے مضامین میں چند ایک افسانچوں کا ذکر کیا ہے اور ان پر گہری تنقیدی نگاہ بھی ڈالی گئی ہے۔ ان تمام افسانچوں کے ساتھ ساتھ باقی تمام افسانچوں کی قرآت سے ایک بات صاف ظاہر ہے کہ جیسے مصنف نے کسی بڑے آئینے کو سماج اور معاشرے کے سامنے اچھال دیا ہے! جس کے سبب مصنف کا یہ تخلیقی آئینہ چور ہو کر چھوٹے چھوٹے تقریباً 170 ٹکڑوں میں منتشر ہو گیا ہے۔ یہ تمام ٹکڑے چور ہونے کے بعد خود بخود ایک مکمل آئینہ بن کر سامنے نظر آرہا ہے اور ہر چھوٹے چھوٹے آئینے میں افسانچہ نگار نے سماج اور معاشرے کا حقیقی عکس پیش کرنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ کورونا وائرس کی وبا اور لاک ڈاؤن کی ہیبت ناک عکاسی بھی کی گئی اور ملک و قوم کے موجودہ حالات پر گہرا طنز بھی کیا گیا ہے اسی طرح موجودہ سیاسی صورتحال کی بھی ترجمانی بخوبی کی گئی ہے۔
کتاب کے مطالعے سے دوسری اہم بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ افسانچہ نگار نے یہ افسانچے کسی کی خوشنودی یا ناراضگی کی پرواہ کیے بغیر اپنے فن کی عظمت و عفت کا خیال رکھتے ہوئے لکھا ہے۔
200 صفحات پر مشتمل یہ کتاب ’بس اتنا سا افسانہ‘ مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکادمی کی مالی اعانت سے شائع کی گئی ہے۔ جس کی قیمت 250 روپے رکھی گئی ہے۔ نیوز ٹاؤن پبلیشر، ممبئی سے شائع یہ کتاب مصنف کے پتے 703۔ وڈگھر، کالج پھاٹا، پنویل 410206 (رائے گڑھ) سے حاصل کی جا سکتی ہے۔
0 Comments