Ticker

6/recent/ticker-posts

ہمارے بچپن اور ہمارے بچوں کے بچپن میں زمین آسمان کا فرق ہے | ہاشمی سید شعیب قمرالدین

ہاشمی سید شعیب قمرالدین
18 اکتوبر 1984

’’بچپن‘‘ایک ایسا لفظ ہے جسےآج کے ترقی یافتہ دور میں سن کر ایسا لگتا ہے جیسے تپتی دھوپ میں کسی سخت پریشان حال پیاسے کو گھنا سایہ اور ٹھنڈا پانی مہیا کروایا گیاہو۔ میں اپنے چھوٹے بچوں کا بچپن دیکھتا ہوں تو مجھے افسوس بھی ہوتا ہے اور رشک بھی آتا ہے۔ افسوس اس بات کا کہ ہمارے بچوّں کو اس طرح کا بچپن نصیب نہیں ہوا جو ہم نے جی لیا اور رشک اس بات پر ہوتا ہے کہ ہم نے جو بچپن گزارا ہے اب شاید ہی اس طرح کی موج مستیاں نئی نسل کو نصیب ہوں۔ ہمارے والدین جب ان کے بچپن کے بارے میں ہمیں بتاتے تھے تو ان کے بچپن کے واقعات اور ہمارے بچپن کی زندگی میں مجھے بہت زیادہ فرق محسوس نہیں ہوا لیکن ہمارے بچپن اور ہمارے بچوں کے بچپن میں زمین آسمان کا نمایاں فرق محسوس ہوتا ہے۔ دور حاضر میں ہمارے بچوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے جیسے وہ بچپن جی نہیں رہے ہیں بلکہ عمر کا ایک حصہ کاٹ رہے ہیں۔

میرےبچپن کے کھیل جو آج بھی بہت یاد آتے ہیں
اسمارٹ فون کی آمد سے قبل ہمارے بچپن میں جو کھیل کھیلے جاتے تھے ان سے نہ صرف یہ کہ جسمانی اور ذہنی ورزش ہوتی تھی بلکہ سیر و تفریح کے ساتھ ساتھ یہ کھیل اتحاد، ہم آہنگی اور ایک دوسرے سے جڑے رہنے کی ایک اہم وجہ تھے۔لیکن زمانہ کی تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ مختلف کھیلوں اور دیگر مشاغل میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئیں۔آج سے ۱۵؍، ۲۰؍ سال پہلے تک گلی، محلوں میں جو کھیل کھیلے جاتے تھے وہ کھیل اب یا تو یاد ماضی بن گئے یا پھر ٹیکنالوجی کی زد میں آکر ڈیجیٹل روپ اختیارکر گئے ہیں۔کچھ برسوں پہلے تک جو کھیل کھیلے جاتے تھے ان میں تہذیب وثقافت کی جھلکیاں بھی نظر آتی تھیں، محلوں میں بچوں کے چیخنے، چلانے اور ہنسنے، کھلکھلانے کی صدائیں بلند ہوتی تھیں لیکن زمانے کی کروٹ نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔
اسکول جاری ہوں یا پھر چھٹیوں کا موسم ہو ہر وقت کرکٹ، گلی ڈنڈا، کھوکھو، کانچے(گولیاں) پتنگ بازی،کبڈی، چھپم چھپی (پہلی ٹیم)،سلو سائیکل ریس، گاڑی کے ٹائر دوڑانا، چور پولیس، گلوری اور اس طرح کے دیگر آؤٹ ڈور گیمس کی جانب طلباء کا رجحان ہوتا تھا اور ان کھیلوں کو بڑے ذوق اور شوق کے ساتھ کھیلا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ ان ڈور گیمس میں سانپ سیڑھی، چورپولیس، شطرنج، بزنس وغیرہ کھیل کھیلے جاتے تھے جس میں بچوں کے ساتھ ساتھ گھر کے بڑے لوگ بھی شامل ہوتے تھے اور سب مل کرخوب مزے کرتے تھے۔ آم کے موسم میں آم کی گٹھلیوں کو کنچوں کی طرح کھیلا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ ماچس کی ڈبیوں پر جو تصاویر آتی تھیں انہیں بھی کھیلا جاتا تھا۔ بارش کے دنوں میں لوہے کی سلاخ کو زمین پر مارنے کا بھی کھیل کھیلا جاتا تھا۔آج کے دور میں یہ کھیل ہمیں بہت یاد آتے ہیں کیوں کہ ان میں کم خرچ میں بہت زیادہ لطف آتا تھا، کوئی ٹینشن نہیں تھا، موبائل اور فون کا ٹینشن نہیں تھا اور کھیل میں زیادہ دھیان ہوتا تھا۔اپنے چھوٹے اور بڑوں کے ساتھ مل کرہم کھیل کھیلتےتھے اب تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ آج کی نسل کو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ نئی نسل بلو وہیل اور اس طرح کے جان لیوا کھیلوں میں ملوث ہوچکی ہے۔
ہمارے اسکولوں میں بھی کبڈی، کھوکھو، لیموں چمچہ ریس اور اس طرح کے کھیل کھلائے جاتے تھےوہ بھی اب دھیرے دھیرے ختم ہوتے جارہے ہیں۔پہلے اسکولوں میں وسیع وعریض گراؤنڈ ہوا کرتے تھے لیکن اب وہ بھی غائب ہوگئے ہیں۔ دور حاضر میں اسکولوں میں کھیلوں کا انعقاد صرف’’ اسپورٹس ڈے، اسپورٹس ویک یا پھر گیندرنگ کے نام پر ہی ہوتا ہے۔طالب علم جیسے ہی ہائی اسکول میں داخل ہوتا ہے تو والدین اورطالب علم کو بس یہی فکر لاحق ہوتی ہے کہ میں زیادہ سے زیادہ نمبرات کیسے حاصل کروںجس کی وجہ سے کھیلوں کی جانب سے نہ صرف طلبہ کا رجحان کم ہوا ہے بلکہ سرپرستوں اور اساتذہ کا رجحان بھی ختم ہوتا جارہا ہے۔ آج کل اگر بچے کھیل کے نام پر میدان میں اتر کر کچھ کھیلتے بھی ہیں تو وہ ہے صرف کرکٹ۔اسی پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے حالاں کہ اس سے بہت زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ آج بھی کئی پرانے کھیل ایسے ہیں جوتعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کواونچائی پر لے جاسکتے ہیں لیکن موبائل کی وجہ سے ان کھیلوں کا رجحان ختم ہوتاجا رہا ہے۔
آج بھلے ہی ٹیکنالوجی نےترقی کی بلندیوں پر قدم جمادیئے ہوں لیکن جو لوگ پرانے کھیل کھیل چکے ہیں وہ انہیں آج بھی یاد کرتے ہیں اور ان کی یہی چاہت ہوتی ہے کہ کاش وہ دور لوٹ آئے۔

بچپن میں ہندو مسلم اتحاد
ہمارے گھرکے سامنے ہندوؤں کے گھر آباد تھے جو بکروں کا گوشت فروخت کیا کرتے تھے۔ روزانہ صبح کے وقت وہ ہمارے گھر آجاتے اور ہمارے ہاتھوں سےبکرے ذبح کرواتے۔ بکرا ذبح کرنے سے قبل وہ وضو کیلئے پانی دیتے اور دعا زور سے پڑھنے کیلئے کہتے تھے۔ اس کے علاوہ گھر کیلئے بھی اگر انہیں مرغا وغیرہ کاٹنا ہوتا تو ہمارے ہی ہاتھوں سے ذبح کرواتے تھے اور اس کے بدلے ہمیں معاوضہ بھی دیتے تھے۔ ہولی اور دیوالی کے موقع پر ساتھ مل کر خوشیاں منائی جاتی تھیں۔

بچپن کے رمضان اور عید
بچپن میں رمضان اور عیدین کی رونقیں کچھ اور ہی ہوا کرتی تھیں۔ مجھے ملا کر ہم کل ۷؍ بھائی ہیں۔ ہمارے والد صاحب عید کی خریداری کیلئے تمام بیٹوں کو ایک ساتھ مارکیٹ لے جایا کرتے تھے، ہم ساتوں بھی اپنی اپنی پسند سے کپڑے، جوتے اور چپل وغیرہ خریدی کیا کرتے تھے۔ اتنے سارے لوگوں کو دکان میں آتا دیکھ کر دکانداروں کے چہرے سے خوشی سے دمک اٹھتے تھے۔سال میں ایک مرتبہ ہی نئے کپڑے اور جوتے، چپل خریدے جاتے تھے اور ان میں اتنی برکت ہوتی تھی کہ ایک سال تک خریدنے کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی۔رمضان کا چاند دیکھنے کیلئے مغرب کی نماز ہوتے ہیں مسجد کی چھتوں پر دوڑ کر پہنچ جایا کرتے تھے۔ رمضان شروع ہوتے ہی پڑوسیوں اور رشتہ داروں کو افطار دینے کیلئے روزہ کی حالت میں بھاگ دوڑ کیا کرتے تھے۔بقر عید کو گوشت بانٹنے کیلئے کرائے کی سائیکل لا کردن بھر گوشت تقسیم کرنے میں اتنا مزہ آتا تھا کہ دن بھر کی بھاگ دوڑ کے باجوجود تھکن محسوس نہیں ہوتی تھی۔
بہر حال ہم نے جوبچپن جی لیا اور انتہائی سنہرا دور تھااور اس کو جتنا یاد کیا جائے اتنا ہی کم ہے۔جب بھی بچپن کی یاد آتی ہے تو پرانی تصویریں دیکھ لیتا ہوں یا پھر یوٹیوب پر بچپن کے ویڈیوز دیکھتا ہوں۔


Hashmi Syed Shoaib
Superintendent cum Executive Officer
Maharashtra State Urdu Sahitya Academy, Mantralay Mumbai.

٭٭٭

Post a Comment

0 Comments