اخروٹ
(افسانچہ)
اقبال نیازی
"بھائی رائنا۔۔۔۔یہ وادی چھوڑ کر مت جاؤ یار۔میں تمھارے ہاتھ جوڑتا ہُوں۔۔۔۔۔"
"بٹ ۔۔تمھارا ہاتھ جوڑنا ہمارے روزگار اور زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا یارا۔۔۔ہمیں اپنے لوگوں میں جموں جانا ہی پڑے گا۔۔۔"
"مگررائنا۔۔ہم نے بچپن سے ایک ساتھ ان وادیوں میں کھیلا ہے,ایک ساتھ عشق کیا۔۔ایک ساتھ شادی کی۔۔۔۔اب اچانک ایسا کیا؟؟؟"
"تُم دیکھ نہیں رہے؟ دہشت گرد کیسے چن چن کر ہم پنڈتوں کو مار رہے ہیں، نوکری سے بیدخل کروا رہے اور۔۔۔۔"۔
"یہ سچ نہیں میرے یار۔۔۔یہ سب میڈیا کا پھیلایا ہوا جھوٹ ہے جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے۔۔۔۔"
"نہیں بٹ ۔۔ہمارے رہنماؤں نے بھی کہا ہے کہ ہم اپنے اپنے علاقوں میں چلے جائیں۔۔اس لیے کل صبح ہم اپنا یہ گھر چھوڑ کر نکل جائیں گے۔۔۔"
"رائنا۔۔۔تُجھے یاد ہے ہم جوانی میں اخروٹ اپنے دانتوں سے توڑ کر کھاتے تھے۔۔۔۔تو مجھے اندر کا گودا نکال کر دیتا اور میں تُجھے۔۔۔۔"
"ہاں بٹ ۔۔۔۔یاد ہے۔۔۔ اب پتہ نہیں کیوں لگ رہا ہے جیسے اخروٹ کے اندر کا گودا نکال کر تُم اپنے بچوں کو ہی دو گے ۔۔"
"بچّے ۔۔؟؟؟۔ کیا تم نہیں جانتے رائنا کہ میرا بڑا بیٹا ملٹنٹ کی گولی کا شکار ہو گیا۔۔۔اور چھوٹا تب سے ہی لاپتہ ہے۔۔۔۔میں کیا اندر کا گودا نکال کر اُنہیں دوں گا رائنا؟؟؟۔۔۔۔میرے تو کمزور دانتوں سے اب اخروٹ کی چھال بھی نہیں ٹوٹتی۔۔۔"
بٹ دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔۔۔ رائنا اسے چپ بھی نہیں کرا سکا۔۔۔
دوسری صبح وادی کے پنڈت جب وادی سے روانہ ہو رہے تھے تو انہوں نے حیرت سے دیکھا کہ رائنا اور بٹ آنگن میں ڈھیر سارے اخروٹ سامنے رکھے ایک ساتھ مٹھی ملا ملا کر اخروٹ توڑ رہے ہیں ان کے چہرےخوشی سے تمتما رہے تھے۔۔۔ اور اخروٹ دونوں کی مشترکہ کوششوں سے ٹوٹتے جا رہے تھے۔۔۔
1 Comments
Behtreen afsancha...in haalat me aise nazarie ki khas zarurat hai.
ReplyDelete