Ticker

6/recent/ticker-posts

خان حسنین عاقب کی کتاب ’آسمان کم ہے...‘

حسنین عاقب ادب کی دنیا میں دو خوبصورت چہروں والی شخصیت کا نام ہے۔ ایک ادب عالیہ کا وہ ناقد ، محقق، شاعر، نثر نگار اور چار زبانوں انگریزی، فارسی، مراٹھی اور اردو پر دست رست رکھنے والا مترجم اور دوسرا ادب اطفال کے میدان کا کھلنڈرا حسنین عاقب یعنی سنجیدگی اور معصومیت کا حسین امتزاج۔ 
جہاں حسنین نے انگریزی میں نعت کے مترادف پروفیم کی اختراع کی وہیں انھوں نے طفلی نظمیں بھی ادب اطفال کو دیں۔ شاذونادر ہی دیکھنے میں آتاہے کہ کوئی ادیب بیک وقت دونوں میدانوں میں متوازن اور کامیاب ہو۔ 
'آسماں کم ہے' حسنین عاقب کی بچوں کے لئے کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ حسنین کا مشاہدہ طفلی دنیا کے رموز سے واقفیت رکھتا ہے اس لیے اس میں شامل چند کہانیاں روایتی طرز کی ہیں جب کہ دیگر عصر حاضر کے رجحانات سے مملو خوبصورت کہانیاں ہیں۔ بچوں کی دنیا کا معصوم حسنین اپنی تحریروں کے ذریعے قاری کو اپنی معصوم دنیا میں محو کرلیتا ہے۔ عاقب اپنی کہانیوں میں نئے کردار تراشتے ہیں اور پھر ان کرداروں کو بچوں کے تجربات اور مشاھدات کے پیکر میں ڈھال دیتے ہیں۔ یہی حسنین عاقب کی کامیابی ہے۔
محمد سراج عظیم
(ادیب اطفال)
نئی دہلی


پیش لفظ
آسماں کیوں کم ہے؟
1
ہمارے دوستوں کو جیسے ہی اس کتاب یعنی ’آسماں کم ہے‘ کے شائع ہونے کا علم ہوا، انھوں نے بڑی حیرت سے پوچھا،’عاقبؔ صاحب! بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی؟ آپ ہی بتائیے کہ آسماں کم کیسے ہوسکتا ہے؟ اور اگر آسماں کم ہے تو پھر وہ کم کیوں ہے؟
ویسے ہمیں یہ امید تو تھی ہی کہ ہمارے قارئین کے ساتھ ساتھ ہمارے دوست بھی یہ سوال ضرور کریں گے۔ بات ہے بھی ایسی کہ سوال کیا جائے۔ کیونکہ یہ عنوان اپنے اندر تجسس کا عنصر رکھتا ہے۔ اسی لیے ہم یہ بتانا ضروری مانتے ہیں کہ یہ عنوان دراصل ایک شعر سے ماخوذ ہے۔ حسنِ اتفاق کہ یہ شعر بھی ہمارا اپنا ہی ہے۔ شعر پڑھ لیجئے تو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔
مجھے بتا کہ مرا حوصلہ کہاں کم ہے
مری اڑان کے آگے تو آسماں کم ہے
یہ شعر بتاتا ہے کہ اگر انسان حوصلہ کرے تو آسمان کی وسعتیں ناپ سکتا ہے۔ اس کی صلاحیت اور ہمت و حوصلے کے سامنے آسمان بھی کم پڑجاتا ہے۔
 یہ آپ لوگوں کے لیے بھی ایک تحریک دینے والا پیغام ہے۔
تو جناب! بس، یہی وجہ ہے جو ہم نے بچوں کے لیے لکھی گئی اپنی کہانیوں کی اس کتاب کے عنوان کے لیے ’آسماں کم ہے‘ منتخب کیا۔ ہم بچپن سے کہانیاں سنتے آئے ہیں۔بلکہ ہم نے کہانیاں سن سن کر ہی اپنے بچپن کا ابتدائی حصہ گزارا ہے۔ اپنی دادی جان سے، اپنی نانی ماں سے، اپنے دادا اور نانا جان سے، اپنی امی جان سے، اپنی بڑی باجی سے، غرض ہم نے اپنے گھر کے بڑوں سے کئی کہانیاں سنی ہیں۔ آپ میں سے چند بچوں کے ذہن میں یہ بات بھی آسکتی ہے کہ بھائی، یہ کہانی ہوتی کیا ہے؟ اور کہانی کہنے کی شروعات ہوئی کہاں سے ہوگی؟ تو چلئے، ہم اس پر بھی تھوڑی سی بات کرلیتے ہیں۔
مشہور مصنف ایڈگر ایلن پو نے کہا تھا کہ ’کہانی دراصل ایک ایسا مختصر سا بیانیہ ہے جسے ایک ہی نشست میں پڑھا جاسکے، جو قاری پر ایک تاثر قائم کرنے کے لیے لکھی گئی ہو، جس میں تاثر پیدا کرنے والے عناصر کے علاوہ اور کچھ نہ ہو اور وہ اپنے آپ میں مکمل ہو۔‘ ہمارے اور آپ کے ہر دل عزیز کہانی کار یعنی منشی پریم چند جی نے بھی کہانی کی تعریف بڑے خوبصورت الفاظ میں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں،’کہانی موسیقی کی وہ تان ہے جس میں گلوکار محفل شروع ہوتے ہی اپنی پوری صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے اورذہن کو ایک لمحے میں مٹھاس سے بھردیتا ہے جتنا رات بھر گانا سننے سے بھی نہیں ہوسکتا۔‘
آپ پوچھیں گے کہ کہانی کی بُنت کے لیے ضروری اجزاء کون سے ہیں۔تو یہ بھی جان لیجئے۔ ایک اچھی اور مکمل کہانی کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ اس میں پلاٹ(یعنی کہانی جس موضوع کے ارد گرد گھومتی ہو)موجود ہو، اس میں کردار دلچسپ ہوں تاکہ سننے اور پڑھنے والے کرداروں سے خود کو جوڑ سکیں، کہانی کے مکالمے یا جملے چست اور درست ہوں،جس ماحول یا جس زمانے کی کہانی کہی جارہی ہو اس کے لیے ماحول سازی کی گئی ہو، کہانی کی زبان پیچ دار نہ ہو بلکہ سادہ اور آسان ہو اور کہانی کا مقصد طے ہو۔ یہ اجزاء ایک کہانی کو اچھی کہانی بنانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
کہانی دراصل اردو اور ہندی، دونوں زبانوں میں استعمال ہونے والا لفظ ہے۔ لفظ کہانی کا مادہ ’کہت‘ یعنی ’کہنا‘ ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو کہانی سے مراد ایسی بات ہے جسے کہہ کر سنایا جائے۔ اب آپ یہ نہ کہنے لگ جائیے گا کہ کہانی تو پڑھی اور لکھی بھی جاتی ہے۔ ہاں بھئی، بالکل درست ہے کہ کہانی کہی بھی جاتی ہے اور سنی بھی جاتی ہے، پڑھی بھی جاتی ہے اور پڑھائی بھی جاتی ہے اور لکھی بھی جاتی ہے۔لیکن کہانی کہنے کی روایت اس وقت سے رائج ہے جب کہانی پڑھی اور لکھی نہیں جاتی تھی بلکہ منہ در منہ، سنائی جاتی تھی، یاد رکھی جاتی تھی اور پھر آنے والے لوگ اس میں اضافہ کرکے پھر اپنی آنے والی نسلوں کو سنایا کرتے تھے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی کہانی کا بھی جنم ہوا۔ یعنی کہانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی انسان کی تاریخ۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کہانی سننا انسان کے مزاج میں داخل ہوگیا۔پرانے لوگ کہانی کہنے کے دو مقاصد مانتے تھے۔ ایک مقصد تھا آنے والی نسلوں کو اخلاقی درس یاد کروانا۔ دوسرا مقصد تھا تفریح طبع۔ جب لکھنے پڑھنے کا رواج عام ہوا تو کہی ہوئی اور سنائی ہوئی کہانیاں لکھی اور پڑھی جانے لگیں۔ بس، یہیں سے کہی ہوئی اور سنی ہوئی کہانیوں کو تحریری شکل دی جانے لگی۔یوں ہماری کتابوں میں ہزارو ں سال قبل کہی گئی اور سنی سنائی گئی کہانیاں بھی موجود ہیں۔
2
اب ہم یہ بھی سمجھتے چلیں کہ کہانیوں کے موضوعات کیا ہوتے تھے؟جیسے ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ پرانے زمانے میں کہانیوں کا مقصد دل بہلانا بھی ہوتا تھا اورآنے والی نسلوں کو اخلاقی قدریں سکھانا بھی۔ اس لیے کہانیوں میں بادشاہوں اور راجاؤں، بہادر لوگوں، سپاہیوں اور فوجیوں وغیرہ کی بہادری اور شجاعت کی داستان ہوتی تھی۔ کہانیوں کے موضوعات ظلم و زیادتی پر انصاف کی جیت، ہمت و حوصلہ، سچائی، ایمانداری، بھائی چارہ اور دوستی، تعلیم وغیرہ جیسی قدروں پر مشتمل تھے۔ دوسری طرف سمندری سفر کی کہانیاں بھی اپنی جگہ حیرت و تعجب میں مبتلا ء کردیتی تھیں مثلاً سند باد جہازی کے سمندری سفر کی کہانیاں، انگریزی میں گلیور س ٹراویلس، کوہستانی علاقوں میں جانوروں کے وجود اور ان کی افادیت کے علاوہ جانوروں کو بچانے اور ان سے ہمدردی اور دوستی کا درس دینے والی کہانیاں جو مختلف واقعات کے ارد گرد گھوما کرتی تھیں۔ شہزادہ اور شہزادی کی کہانیوں میں بھی مزیدار اور حیرت انگیز واقعات رونما ہوا کرتے تھے جن میں تجسس کی فضا قائم ہوجاتی تھی۔ کہانیوں کی ایک قسم وہ بھی تھی جس میں جانور ہی مرکزی کردار ادا کرتے تھے اور جانوروں سے ہی کہانی کہلوائی جاتی تھی؛ مثلاً ایسوپ کی کہانیاں جن میں شیر، گھوڑا، ہرن، خرگوش، چوہا، گلہری وغیرہ انسانی کرداروں کی طرح چلتے پھرتے اور کہانی میں متحرک کردار نبھاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یا پھر عربی اور فارسی ادب کی کہانیاں جو ’انوارِ سہیلی‘ کے نام سے مشہور ہیں یا پھر ہمارے اپنے ملک کی ’پنچ تنتر کی کہانیاں۔‘ اردو میں بھی جو کہانیاں موجود ہیں وہ قدیم داستانوں سے ماخوذ ہیں۔
چلئے، اب ہم پرانے زمانے سے نکل کر نئے زمانے کی کہانیوں پر بات کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے بچپن میں جادوگروں،شیطانوں، پریوں، چڑیلوں، جنوں اور بھوتوں وغیرہ کی کہانیاں بھی خوب سنی ہیں۔ پتا نہیں اب آپ نئے زمانے کے بچوں نے سنی ہوں گی یا نہیں لیکن رکئے! آپ تو ہم سے بھی دو قدم آگے نکل گئے ہیں۔ ہم نے تو صرف کہانیاں سنی ہی ہیں اور آپ نے! بھئی، آپ نے تو یہ کہانیاں دیکھی بھی ہیں۔ نہیں سمجھے؟ ارے بھئی، یہ جو ہیری پاٹر کی فلموں کی سیریز آپ نے دیکھی ہے، وہ بھی تو جادوگروں اور جادوگرنیوں کی کہانی ہے۔ اور وہ جو گلیور بونوں کے جزیرے پر جاپڑتا ہے، وہ بھی تو کچھ حد تک جادوگری، شہزادہ اور شہزادی، بادشاہ اور ملکہ جیسے کرداروں پر ہی مشتمل ہے۔ اور وہ جو سند باد جہازی کی فلمیں دیکھی ہیں، وہ بھی تو ایسی ہی کہانیوں پر مشتمل ہیں۔ اور وہ جو حاتم طائی کی جادوئی کہانیاں ہیں، اور پھر الف لیلیٰ کی کہانیاں ہیں جن میں الہ دین صاحب اپنے جن کے ساتھ نہ جانے کتنے کمال دکھاتے ہیں کہ عقل حیران رہ جاتی ہے۔ ان کہانیوں پر فلموں کے ساتھ ساتھ ٹیلی وژن سیریلس بھی بنے ہیں۔ یعنی کہانیوں میں نیا اور پرانا کچھ نہیں ہوتا۔ ہر زمانہ دوبارہ اپنی طرف لوٹ آتا ہے۔
تو بس، اس کتاب یعنی ’آسماں کم ہے‘ میں بھی دلچسپ کہانیاں ہیں۔ ان کہانیوں کو دو حصوں میں بانٹا گیا ہے۔ پہلے حصے میں وہ کہانیاں ہیں جو روایتی کرداروں پرمشتمل ہیں مثلاً سرخ مٹکا، فیصلہ، بھوندو میاں، چچا چھکن وغیرہ۔ دوسرے حصے میں وہ کہانیاں ہیں جن کی بنیاد حقیقت پر ٹہری ہوئی ہے۔ یہ کہانیاں معلوماتی ہیں یعنی ان میں معلومات ہی دی گئی ہے لیکن پیرایہ اور انداز کہانیوں جیسا ہے تاکہ پڑھنے والے دلچسپی سے پڑھیں۔
کہانیاں خود پڑھئے، دوسروں کو سنائیے، کہانیاں سننے سے زبان ترقی پاتی 
ہے، اخلاقی تربیت ہوتی ہے اور کہانیاں پڑھ کر سنانے سے زبان پختہ ہوتی ہے۔ امید ہے آپ کو ’آسماں کم ہے‘ میں شامل ہر کہانی پسند آئے گی۔
اگر پسند آئے تو ہمیں ضرور بتائیے اور اگر آپ کوئی مشورہ دینا چاہیں تو آپ کا استقبال ہے۔
خان حسنین عاقبؔ

Post a Comment

0 Comments