Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ نمبر: 07 | تیر نیم کش | ڈاکٹر نعیمہ جعفری پا شا

بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے)
افسانہ نمبر: 07
تیر نیم کش
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پا شا

میرا تعلق ایک قدامت پسند، روایتی تہذیب کے دلدادہ خاندان سے تھا جہاں لڑکیوں کا گھر سے باہر نکلنا، کالج میں پڑھنا یہاں تک کہ چچا، ماموں اور خالہ کے بیٹوں سے بے تکلف ہونا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔ اگرچہ میں جانتی تھی کہ کھیل کھیلنے والے پابندیوں میں بھی گل کھلالیتے ہیں لیکن مجھے اپنے ابو کی عزت جان سے زیادہ پیاری تھی۔ وجہ یہ بھی تھی کہ ابو دین دار ہونے کے ساتھ روشن خیال بھی تھے۔ انھوں نے مجھے کبھی کبھی پردے کی بوبو نہیں بنایا۔ سارے خاندان کی مخالفت کے باوجود مجھے اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ بس مخلوط تعلیمی ادارے میں بھیجتے وقت صرف ایک جملہ کہا تھا۔
’’بیٹا اصل پردہ آنکھوں کا ہوتا ہے۔ اسے ہمیشہ یاد رکھنا۔ ‘‘ اور میں نے ان کی نصیحت آنچل میں باندھ لی۔ صنف مخالف سے گفتگو کے دوران پلکوں کی چلمن ہمیشہ گری ہی رہی۔ لڑکیوں نے پہلے مذاق اڑایا پھر سمجھایا۔ ’’یہ جھکی ہوئی نظریں اعتماد کی کمی کا اشاریہ ہوتی ہیں۔ تم حسین ہو ذہین ہو، کیوں اپنی شخصیت کا ستیاناس ماررہی ہو۔‘‘ لیکن میں نے ان کی ایک نہ سنی۔ کچھ لوگوں نے ڈرامے باز کہا اور کچھ نے ادا سمجھا، لیکن ہمیشہ مجھے عزت کی نظر سے دیکھا۔
اتنی احتیاط کے باوجود ایک بار چوک ہوگئی۔ وہ ابو کی فرم میں انتظامیہ کا سربراہ تھا۔ تابش نام تھا۔ جواں سال ہونے کے باوجود اپنے میدان میں ماہر تھا۔ ابو اکثر اس کی کارکردگی کی تعریف کیا کرتے تھے۔ اکثر صلاح و مشورے کے لیے گھر بھی آتا تھا۔ میں نے اپنی جھکی ہوئی پلکوں پر اس کی نگاہوں کو محسوس کیا تھا۔ یہ ہر عورت کی چھٹی حس ہوتی ہے۔ میں نے کبھی پروا نہیں کی، لیکن ایک شام گھر کے ملازمین کہیں مصروف تھے۔ اطلاعی گھنٹی بجی۔ میں نے دروازہ کھولا تو بے خیالی میں بے ارادہ نظر اٹھ گئی۔
وہ عمر ہی ایسی تھی جب کھیلوں کی آنکھ مچولی کی جگہ خوابوں کی آنکھ مچولی شروع ہوجاتی ہے، جب آموں کے باغ میں بور کی بھینی بھینی مہک دلی دھڑکانے لگتی ہے، جب کویل کی کوک کا مطلب سمجھ میں آنے لگتا ہے۔
نظر ملی اور جھک گئی، لیکن دل میں ایک پھانس سی چبھ کے رہ گئی۔ یہ خلش کہاں سے ہوتی جوجگر کے پار ہوتا۔
وہ آنکھیں بڑی خوبصورت تھیں۔ ایسی شانت جیسے گھر کے پچھواڑے بہنے والی ندی، ایسی شفاف جیسی شیشے کی وہ گولیاں جن سے میں بچپن میں کھیلتی تھی۔ ایسی گہری کہ ڈوب کے ابھرنا مشکل ہوجائے، ایسی بولتی ہوئی کہ الفاظ مات کھاجائیں۔
دل کی دھڑکن بے قابو ہوئی تو میں اور زیادہ محتاط ہوگئی۔ وہ آتا تو میں پردے کے پیچھے چلی جاتی۔ پھر دل مجبور کرتا تو ذرا کی ذرا پردے کی جھری سے جھانکتی اور ان آنکھوں کو پردے کی طرف نگراں و مضطرب پاتی۔
سیاہ چمکیلی آنکھیں جیسے ستارے کوٹ کر بھرے ہوں، ایسی سچی کہ کوئی بھی آسانی سے دنیا کو جنت مان لے، ایسی پرخلوص جیسے اپنا سب کچھ وار دیں گی۔ دل سینے کی دیواروں سے ٹکرا کر خون ہوتارہا، لیکن میں نے پھر نظریں نہیں اٹھائیں نصیحت کا پاس و لحاظ تھا۔
پھر ایک دن میں نے سنا وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے سمندر پار جارہا ہے۔ روانگی سے ایک دن پہلے وہ ابو سے رخصت ہونے آیا۔ کیا صرف ابو سے؟؟ اس کی نظریں پردے کی دبیز شکنوں سے ٹکرا کر مایوس لوٹتی رہیں۔ میں نے پردے کی جھری سے دیکھا، ان آنکھوں میں ایسی سرخی تھی جیسی چراغ کی لو میں ہوتی ہے۔ ایسی کاٹ تھی جیسی اساطیری شہزادے کے ہاتھ میں پکڑی تلوار کی دھار میں ہوتی ہے، ایسی گرمی تھی جیسی ریگستاں کی تپتی ریت میں ہوتی ہے۔
میں اس کا سامنا کرنے کی جرأت نہیں کرسکی اور وہ چلا گیا۔
میرا انتظار لامتناہی ہوگیا۔ ہر صبح کا اجالا ایک نئی امید لے کر طلوع ہوتا اور ہر شام کی سرخی میں تمنائوں کا خون گھل جاتا۔ ایک درد، ایک کرب، ایک تڑپ، میری آنکھوں میں بس کر رہ گئی۔ میرے دل میں خزاں کا موسم ٹھہر گیا۔ میں خود سے بیگانہ ہونے لگی تو خوف نے گھیر لیا۔ کہیں محبت کا مقدس راز افشا نہ ہوجائے۔ خود کو مصروف رکھنے سے زیادہ لوگوں کے سوالوں سے بچنے کے لیے میں نے تحقیقی کام میں داخلہ لے لیا۔
تحقیق میں میری نگراں پروفیسر راشدہ تھیں۔ وہ مجھ پر کچھ زیادہ ہی مہربان تھیں۔ اکثر و بیشتر موضوع سے متعلق کتابیں اپنے صاحب زادے کے ہاتھ بھجوانے لگیں۔ صاحب زادے ایک پیالی کافی کے متمنی ہونے لگے اور میں راہ فرار تلاش کرنے لگی، کیونکہ میرے لیے وفاداری بشرط استواری اصل ایماں تھی۔
اور ایک دن پروفیسر راشدہ اپنے بیٹے کی خواستگار بن کر میرے گھر آموجود ہوئیں۔ بعد میں میں نے سنا کہ انھیں اپنی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے میرے ناپ کے کپڑوں کی خریداری بھی کر ڈالی تھی اور اپنے حلقے میں اس رشتے کی تشہیر بھی کردی تھی۔
امی نے میری رائے لینی چاہی تو میں نے ان کے قدموں کو تھام کر اشک آلود نظروں سے انہیں دیکھا ’’امی ابھی نہیں، اتنی جلدی نہیں‘‘، میں کہنا چاہتی تھی، امی میری آنکھو ں کی دیئوں میں ابھی انتظار کی لو مدھم نہیں ہوئی ہے۔ کیا پتہ بھولا بھٹکا مسافراس روشنی کی ڈوری کو تھام، کبھی میرے دروازے پر دستک دینے چلا آئے۔ ‘‘ میں نے کہا نہیں لیکن وہ ماں تھیں۔ ان کے آنسو میری جھکی ہوئی پلکوں پر برسنے لگے۔ انھوں نے راشدہ میڈم سے معذرت کرلی اور اس کی پاداش میں میری تحقیق ادھوری رہ گئی۔ ایک دن میں نے سنا امی ابو سے پوچھ رہی تھیں، ’’تابش کی کوئی خیر خبر ہے‘‘۔ ابو نے چونک کر انھیں دیکھا۔ ’’نہیں‘‘۔ میں نے ایک اسکول میں تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی۔ ایک برس بیت گیا تو ایک دن میرے فون پر پیغام آیا۔
’’لوگ کہتے ہیں کہ دل سے دل بن چھٹی بن تار بات کرتا ہے۔ لیکن میں نے تو آنکھوں کو پیامبر بنانا چاہا۔ پھر بھی نہ دل کی سنوائی ہوئی اور نہ آنکھوں کا وسیلہ کام آیا۔ نئی زندگی مبارک ہو۔‘‘
میں نے ٹوٹ کر گرتے ہوئے آنسوئوں کے موتیوں کی مالا بنائی اور تصور میں ان آنکھوں پر سے وار دی۔ دھندھلائی نظر سے لکھا۔
’’چلے بھی آئو کہ… ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتی ہوں میں۔ اب تو انتظار کا بھی دم اکھڑنے لگا ہے۔ ‘‘
کچھ لمحوں کے بعد پیغام کے حروف چمکے اور بجھ گئے۔
’’ارے… اوہو… اُف‘‘ تو کیا !‘‘
ختم شدہ
تبصرے اور تاثرات

رخسانہ نازنین
"کل تم جدا ہوئے تھے جہاں ساتھ چھوڑ کر
ہم آج تک کھڑے ہیں اُسی دل کے موڑ پر"
نعیمہ آپا کی خوبصورت زبان وبیان کا جادو، افسانے میں رچا بسا مشرقی ماحول۔۔۔ انتظار کا کرب اور لذت۔۔۔ کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ لفظ اپنی کم مائیگی کا گلہ کرنے لگتے ہیں۔ ابھی میرا قلم بھی ایسے ہی احساسات سے دوچار ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس ایونٹ کے شاندار افسانوں میں اس افسانے کا شمار ہوگا۔ نعیمہ آپا کی خدمت میں دلی مبارکباد پیش ہے۔

اقبال حسن آزاد
محبت کی دھیمی دھیمی آنچ پر تیار کیا گیا ایک مہذب رومانی افسانہ جس کا اختتام دل میں خلش پیدا کر دیتا ہے۔

نصرت شمسی
بہت اچھا افسانہ ہے۔نام ہی کافی ہے والی بات ہے۔۔بہت مبارک باد انھیں بھی اور تمام ساتھیوں کو بھی کہ سب کو جڑے ہوئے ایک عرصہ ہو گیا۔اب تو بزم افسانہ کے نام کی پارٹی بنتی ہے کہ ہم سب ملیں اور مذید بہتری ہی ادب کے حوالے سے بھی اور تعلقات کے حوالے سے بھی۔۔۔ایڈمن سے گزارش

نگار عظیم
"رنگ و بوےء باراں"کا ساتواں افسانہ "تیر نیم کش" کیا خوبصورت عنوان اور انداز بیان تو لاجواب ہے۔ پڑھتے وقت جھرنے کا سا ترنم محسوس ہوتا ہے۔ نعیمہ صاحبہ کی نثر لفظ کے موتی پروتی ہے۔ مشرقی احساس سے لبریز دو خاموش محبت کرنے والے افسانے کے اختتام پر دل کی دھڑکن بن جاتے ہیں۔ بہت بہت مبارک نعیمہ جعفری صاحبہ۔ ایونٹ کے سربراہوں کو اس خوبصورت ایونٹ کے لےء دل سے مبارکباد۔ ابھی تک سبھی افسانے اپنی مثال آپ ہیں۔

غیاث الرحمٰن
راکھ میں دبی چنگاری , دبی ہی رہ گئی۔ شریف زادیوں کی محبتوں کا انجام بیشتر ایسا ہی ھوتا ھے۔ چپکے چپکے تڑپنا , گھٹ گھٹ کے رہنا اور پھر حالات کے دھارے پر اپنی کشتی کو ڈال دینا یہی شیوہ رہا ھے, اعلٰی قدروں کے پاس داروں کا۔ نہایت لطیف روداد عشق, بہت عمده زبان, بڑا پیارا طرز بیان۔ بےشمار خوبیوں سے مزّین یہ افسانہ, تیرنیم کش, قاری کے دل میں گہرائی تک اترنے میں کامیاب ھے۔ پڑھنے کے بعد بہت دیر تک اس کی کسک کا احساس رھے گا۔ صاحب طرز ادیبہ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا کو تہہ دل سے مبارکباد۔

ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
افسانوی رنگ میں ڈوبا ہوا عنوان جس نے ہیروئن کے دل کو ہی نہیں قاری کے دل کو بھی اس خوبصورت احساس اور جذبہ سے سرشار کر دیا۔جسے عشق کیتے ہیں۔ زبان و بیان گویا جھرنوں کا دلکش ترنّم۔ اعلیٰ اقدار کا حامل خوبصورت افسانہ جہاں دونوں کردار اپنی حدود میں رہے۔
نعیمہ آپا کو مبارکباد

فردوس انجم
آنکھوں کو انتظار کے لمحات سونپ کر
نیند بھی کوئی لے گیا اپنے سفر کے ساتھ
بہترین افسانہ۔۔۔افسانے اور رنگ و بوئے باراں کے تمام رنگوں سے مزین۔۔مشرقی لڑکیوں کی تربیت، ان کے حدود، اور ان حدود میں دو آنکھوں کا ملنا۔۔۔اور اپنی اپنی محبت کو بنھانا، انتظار کی لذت اور کرب کی بہترین عکاسی کرتا ہوا بڑا پیارا طرز بیان، پلکوں کی چلمن سے گزرتےہوئے دل کی گہرائیوں میں اترتی ہوئی تحریر۔۔۔جسے پڑھتے ہوئے نہ صرف آنکھیں بلکہ چہرہ بھی بول اٹھے۔۔۔
ہم تو پہلے سے ہی محترمہ نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ کی زبان و بیان پر فدا ہے ایک اور اضافہ کے لیے تہہ دل سے شکریہ🌹

معین الدین عثمانی
کہا گیا ہے کہ تحریر میں قلم کار کی فکر، نظریات کے علاوہ شخصیت کی تعمیر کا پرتو دکھائی دے سکتا ہے بہ شرط کہ قاری کے پاس سنجیدہ مطالعہ کا تجربہ اور احساس کی تیسری آنکھ ہو۔
اس مقولے کی روشنی میں جب ہم محترمہ نعیمہ جعفری کے افسانے "تیر نیم کش" کا مطالعہ کرتے ہیں تو تحریر میں در آی پاکیزہ محبت کی شگفتگی،اور آداب زندگی کے ہمراہ کسی پر بے لوث مر مٹنے کے جذبے سے یوں متعارف ہوتے ہیں گویا قلم کار اپنی دلی کیفیات سے ہمیں گزار رہا ہے۔
مذکورہ افسانہ ایک ایسی محبت کی داستان ہے جس کا مادی طورپر کبھی وجود ہی نہیں رہا ہے۔ یہ تو محض ایک جذبہ تھا جو آندھی کی طرح دل میں اٹھا اور طوفان کی طرح تھم گیا۔ نیز روایتوں کے اسیر کس طرح جذبات کی بھینٹ سے اصولوں کی پاسداری کرتے ہیں کا مژدہ بیان کرگیا۔
جملوں کے دروبست اور منظر کی دلکشی نے افسانے کے حسن کو جلا بخشی ہے تو گھٹن بھرے ماحول میں جذبات کی روانی نےبھی شفافیت کی عمدہ ترجمانی کی ہے۔
نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ کو دلی مبارکباد۔

اکبر عابد
تیرنیم کش اس افسانے میں خوبصورت انداز بیاں کا جادو افسانے میں بدرجہ اتم موجود ہے محبت کے احساس کوپر اثرانداز پیش کیاگیا ہے جذبات کی ترجمانی اور مضبوط کردارنگاری نے تیر نیم کش کو ایک بہترین اور پردرد افسانہ بنادیا ہے جس کے لئےنعیمہ جعفری صاحبہ کو بہت بہت مبارکباداور نیک خواہشات۔۔۔

جاوید انصاری
میں اس بات کا ہمیشہ قائل رہا ہوں کہ افسانہ نگار کو زبان و بیان کے ساتھ ساتھ اپنے ما فی الضمیر کی ترسیل پر ملکہ ہونا چاہیے۔اگر نثر میں شعریت در آئے تو تخلیق کا مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔
نعیمہ جعفری صاحبہ ایک خوبصورت تخلیق کار ہیں۔تیر نیم کش ایک اچھا افسانہ ہے۔جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔منتظمین کے ساتھ ساتھ نعیمہ صاحبہ کو دلی مبارکباد

اسرار گاندھی
انور مرزا صاحب نے یہ جو محبت بھری کہانیوں کا چکر چلایا ہے۔ یہ بہت دل پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت تکلیف دہ بھی ہیں۔ قاری احساسات کے بھنور میں کئی بار ضرور ڈوبتا اترتا ہوگا۔ اور پھر takleeqar پاشا جی جیسا ہو تو اور بھی ذہنی دشواریاں پیدا ہو جاتی ہیں۔ اتنا realistic approach کی قاری کا دم گھٹنے لگے۔ پاشا جی آپ کیا چاہتی ہیں؟
زبان کا ایسا flow کی خدا کی پناہ۔ پڑھنے والےکو ہے ہاتھ پیر کا کر کے اپنے ساتھ بہا لے جائے۔
پاشا جی کی یہ کہانی صرف کہانی نہیں ہے بلکہ اپنے وقت کی تہذیب کا دستاویز ہے۔ میں نے وہ زمانہ دیکھا ہے کہ لڑکیاں کیسے اپنی زبانیں بند رکھتی تھیں چاہے کتنا ہی بڑا طوفان اُن کے سروں پر سے کیوں نہ گزر جائے۔ کیسے وہ گھٹ گھٹ کر جیتی تھیں کیسے وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتی تھیں۔
پاشا جی نے ایک ایسی کہانی لکھ دی ہے کہ جس کی روح عشق کے قبرستان میں لمبے عرصے تک بھٹکتی پھرے گی اور تہذیب پر ریسرچ کرنے والے اس کہانی سے فائدہ اٹھا سکیں گے۔
پاشا جی آپ تو بڑی فنکار ہیں۔ آپ سے ہمیشہ ایسی ہی شاندار کہانیوں کی اُمید رکھتا ہوں۔
یہ کہانی آپ کو بہت مبارک ہو۔

ترنم جہاں شبنم
اپنے عنوان کی طرح دل میں چبھتا ہوا اور محبت کے خاموش سازوں میں جلترنگ پیدا کر کے ایک ایسی رومانی دنیا کی سیر کراتا افسانہ جس میں دو آنکھوں میں مچلتی محبت کا خاموش اظہار ہے تو دو آنکھیں کی چلمنوں کے پار دھڑکتا تڑپتا پیار۔۔۔ اپنے اقدار کی پاسداری کرتا، خوبصورت الفاظ و جملوں سے مزین بہتے دریا سا رواں بیانیہ اور بہترین نثر کی اعلیٰ مثال پیش کرتا ایک بہترین افسانہ جس کی رومانی فضا اور سحر انگیزی میں ڈوبا قاری دھڑکتے دل کے ساتھ کہانی کے انجام تک پہنچ کر اپنی سانسوں کو سنبھالے سوچتا ہی رہ جاتا ہے۔۔۔ اس لاجواب افسانے اور رنگ و بوئے باراں کامیاب ایونٹ میں شمولیت پر نعیمہ آپا اور منتظمین بزم کو دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔۔۔

محمد قمر سلیم
بہت خوبصورت پیارا سا افسانہ۔ یہ اس زمانے کی محبت جب لڑکیاں کیا لڑکوں کو بھی کھل کر محبت کے اظہار کی اجازت نہیں تھی۔خوبصورت الفاظ کے موتیوں سے پروئی ہوئی ایسی رواں دواں کہانی کہ لہروں کے ساتھ بہتا چلا گیا اور رکا تو ایسی جگہ کہ دل تھام لیا۔دل نے چاہا یہ افسانہ اور طویل ہوتا اور الفاظ کی چاشنی میں ڈوبا دل کو چھو لینے والی کہانی کا لطف اٹھاتا رہتا۔ تشنگی باقی رہ گئی۔ اتنی اچھی کہانی کے لیے نعیمہ آپا کو بہت بہت مبارکباد

سدی ساجدہ جمال
نعیمہ صاحبہ کی تحریر سیدھے دل پر اثر کرتی ہے۔۔۔
اس تحریر نے دل کے کئی بند دروازوں کو کھٹکھٹایا۔۔۔
دل ماضی کے جال میں الجھتا رہا۔۔۔ کردار کے دل میں اٹھنے والی کسک نے دل کے سارے تار جھنجھنا دئیے۔۔۔بہت کچھ یاد آیا اور یادوں کا سورج ابھر کر پھر ڈوب گیا۔۔۔
ادب اور لحاظ کے دائرے کے اندر سفر کرتا یہ افسانہ دل کو چھو گیا۔۔اس تحریر کے لئے نعیمہ آپا واقعی تعریف کی حقدار ہیں اس بزم میں شامل ہونے پر انھیں ڈھیروں مبارک باد دیتی ہوں۔۔۔
نیک خواہشات کے ساتھ

ڈاکٹر انیس رشید خان
بہترین افسانہ!
محبت جیسے پاکیزہ جذبے کی گہرائیوں کو چھونے والا شاندار افسانہ ہے۔
دل میں بار بار یہ مصرع یاد آرہا تھا کہ
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
ہر انسان جو اس افسانے کو پڑھے گا وہ اپنی زندگی کے ماضی کے جھروکوں میں جھانکتے ہوئے اداس ضرور ہوگا۔بہترین افسانہ کے لئے محترمہ ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ کو بہت بہت مبارک باد 🌹

وحید امام
'تیر نیم کش' ایک شاعرانہ عنوان اور اسی مناسبت سے تمام افسانہ نثری شاعری محسوس ہوا جس کے لئے مصنفہ مبارک باد کی مستحق قرار پاتی ہے۔ افسانے میں غالبا ساٹھ یا ستر کی دہائی کی عکاسی کی گئی ہے۔ نسائی ادب کی اپنی اہمیت وخصوصیت ہے۔ اسی تناظر میں اگر افسانے کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ اب تک ایونٹ میں مرداافسانہ نگاروں نے مردوں کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ہے مگر اس افسانے میں افسانہ نگار نے خواتین کے جذبات و احساسات کی کامیاب ترجمانی کرکے عورتوں کی زندگی میں جو مسائل، جو محرومیاں، جو دردہوتا ہے اس سے قارئین کو روشناس کرانے کی ایک جرات مندانہ کوشش کی ہے۔ عصر حاضر میں مشرقی تہذیب روبہ زوال ہے کئی مشرقی گھرانوں میں انتشارو بکھراؤ ہے۔ تہذیب نو کی آنچ سے کوئی گھرانہ محفوظ نہیں۔ انگریزی تعلیم کے شوق نے مشرقی تہذیب کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہے۔ایسےماحول میں اس طرح کا افسانہ ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا معلوم ہوا کاش وہ زمانہ پھر لوٹ آئے۔باوجوداس کے میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ افسانہ پڑھ کر یوں محسوس ہوا جیسے یہ افسانہ ایسا پودا ہے جسے مناسب خوراک نہ ملنے کی وجہ سے نشوونما سے محروم رہا یہ میرا احساس ہےجو غلط بھی ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر عائشہ فرحین
محبت کی تڑپ،ملنے کی امید، بچھڑنے کے خوف اور لامتناہی انتظار کے احساسات سے سجا خوبصورت افسانہ۔جس میں محبت،وفا، حیا اور پاسداری کے رنگ نمایاں ہیں۔جھرنوں سی رواں زبان نے کئی دلوں میں چھپی ناکام محبت کی یاد کو تازہ کردیا۔تہذیب کی پاسداری،روایتوں کا آمین بنا یہ افسانہ محبت کی کہانیوں میں بہترین اضافہ ہے۔ جس کے لیے مصنفہ کو دلی مبارکباد

فریدہ نثار احمد انصاری
عنوان ہی نے قاری کی آنکھوں کو اپنی گرفت میں لیا اور سبک رفتاری سے افسانہ اختتام تک پہنچا۔
پگھلتی شمع سی دو دلوں کی قربت کی چاہ, گیلی لکڑی سی دھیمے دھیمے جلنا ساتھ والدین کے قول کا پاس۔ سبھی نے افسانے کو عروج عطا فرمایا۔
کردار کی جزئیات نگاری, مکالمے زبردست رہے یوں لگا کہ بلبلے پانی پر تیر رہے ہوں اور اختتام تک پہنچنتے پہنچتے بغیر کسی آواز کے دھیمے سے برسٹ ہو جائے۔
میم کی افسانہ نگاری کو سلام۔دل میں اترنے والا افسانہ یاد رہے گا۔
آپ کی صحت و عافیت کے لئے دل سے دعائیں اور نیک خواہشات۔

ڈاکٹر مبین نذیر
دلپذیر اور رواں اسلوب میں لکھا ہوا ایک اچھا افسانہ۔ زبان کی چاشنی اور ندرت افسانے کے حسن کو دوچند کرتی ہے۔ افسانہ نگار اور منتظمین کو بہت بہت مبارکباد

خورشید حیات
• ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا، ایک ایسے خانوادے سے تعلق رکھتی ہیں جو علمی، ادبی، اور مذہبی اعتبار سے، ہم سب کے لئے باعث افتخار ہے۔
ان کا، ادب _ جنون اور زندگی میں خلوص کا " رنگ " قابل رشک ہے۔ اس افسانہ نے روح کو متاثر کیا۔
سیاہ چمکیلی آنکھیں، جس میں پاکیزہ محبت کے ستارے کوٹ کوٹ کر بھرے تھے، اس کے ساتھ میں، جاگتی جگمگاتی سڑکوں پر بہت دیر چلتا‌ رہا۔ افسانہ کا content اور treatment ہی کچھ ایسا تھا کہ کہانی نے مجھے ساتھ لے لیا۔ بہت مبارکباد
یہ عشق / محبت کے قصے، آدَم تا اِیں دَم
زندگی سے دراز ہیں۔ یہ ایک اچھی بات ہے کہ سید محمد اشرف کو جو یہ شکایت تھی کہ محبت کی کہانیاں اردو میں نہیں لکھی جا رہی ہیں، اس شکایت کو سلام بن رزاق بھائی اور ان کی پوری ٹیم نے شاید کہ دور کر دیا ہے۔" زندگی افسانہ نہیں " کتنا سچ بولو ہو سلام‌ بھائی اور محبت، عشق۔۔۔
ندا‌ فاضلی یاد آگئے " عشق کیجے پھر سمجھئے زندگی کیا چیز ہے"
ایک محبت روحانی ہوا کرتی ہے جو اس جہاں میں بھی سفر کرتی ہے جو ہماری ادراک سے پرے ہے۔
صرف جسمانی محبت روح تک سفر نہیں کرتی ہے۔
اس کامیاب ایونٹ کے لئے مبارکباد پیش کرتے ہوئے، نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ کی کہانی " تیر نیم کش " کی طرف پھر لوٹتا ہوں کہ ماضی کی طرف پیٹھ کر کے ہم بہت آگے نکل آئے ہیں اور صورت حال یہ ہے صاحب کہ محبت میں بھی آج اعداد و شمار؟
اہل مغرب کی اندھی تقلید کی طرح!
یوز اینڈ تھرو کی طرح عشق بازار کا حصہ بنتا جارہا ہے۔ کل سے آج کے موسم کا مزاج کتنا بدل گیا ہے۔
• ڈاکٹر ‌نعیمہ جعفری پاشا کا افسانہ " تیر نیم کش " پاکیزہ محبت، اور اس کی شفافیت، ذاتی مفاد/ خود غرضی / اور بے وفائی سے پاک، روایت کی لیمپ پوسٹ کی طرح ہے۔ جس کی روشنی میں مجھ جیسا، کم پڑھا لکھا ادھورا سا قاری سفر کر کے، اک دائِمی سکون محسوس کر رہا ہے۔

معین الدین جینابڑے
میرا تاثر بھی معین الدین عثمانی صاحب کے تاثر جیسا ہے۔
افسانہ دلچسپ ہے۔زبان و بیان اور روداد کی بنت لائق ستائشُ ہے۔
یہ بنیادی طور پر جذبے کی تطہیر کا افسانہ ہے۔
کسی صورت کسی قسم کی آلودگی یا کثافت کے درآنے کے امکانات کی گنجائش نہیں 
ہے۔
گیتی، عورت کے استقلال کی تجسیم ہے۔
رومانی افسانوں کا اختتام طربیہ ہوتا رہا ہے یا پھر المیہ۔افسانہ نگار نے ان دو انتہاؤں کے بیچ کی امکانی صورتحال کو فنکارانہ چابک دستی کے ساتھ فن کے قالب میں ڈھا لا ہے۔
فیروز عالم صاحب نے آخری جملے سے متعلق جو بات کہی ہے،اس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنا چاہئے۔۔۔
سید صاحب !ایسے منفرد افسانے لکھتے رہے ہیں۔
بحیثیت قاری ہم ان کے ممنون ہیں….

محمد سراج عظیم
اُف میرے ﷲ کس کو دکھاؤں یہ زخم تیر نیم کش۔ لحظہ لحظہ ٹپکتا خون جگر، ہر لمحہ بھیگتا انتظار کا دامن، میرے ﷲ کہیں آنکھوں کا راز آنکھوں ہی آنکھوں میں افشاء نہ ہو جائے۔ کیا ہوگا خاندان کی عزت کا، سماج کیا کہے گا شرفاء کے خاندان میں بھی یہ سب ہوتا ہے۔ نہ کوئی شرم نہ دنیا کی پرواہ۔۔۔ نہیں نہیں مر جاؤں گی لیکن بزرگوں کی عزت پر آنچ نہیں آنے دوں گی۔ مگر ہائے رے دل کیا کروں۔ قرار نہیں دل کو منتظر ہیں آنکھیں انتظار بس انتظار۔۔۔ ایک عجب داستان جو نہ سنی نہ سنائی گئی۔۔۔ مگر پھر بھی طشت از بام۔۔۔ ایسے کتنے دل کے شیش محل وقت کے کہر میں چور چور ہوکر دفن ہوگئے مجال کہ ٹوٹنے کی بکھرنے کی کسی پر دھول اڑی ہو۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری کا یہ افسانہ جس دور کا غماز ہے۔ وہاں اقدار کی پاسداری، تہذیب، اخلاقی اور کردار کی بلندی سماج کا طرہ امتیاز ہوا کرتی تھی۔ جو عصر حاضر میں مفقود ہے۔ نعیمہ جعفری نے تیر نیم کش میں پاکیزہ اور ان چھوئی محبت کی مدھم مدھم چبھن کو ایسے دلنشین انداز میں صفحہ قرطاس پر بکھیرا ہے کہ باوجود دل دھک سے ہوجانے کے قاری اس کے سحر میں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ سبک روی سے سینے میں اٹھتے مدوجزر کے ساتھ اختتام تک پہنچتا ہے اور ایک ٹیس کی سسکاری اور آنکھوں کے نم کناروں کےساتھ دل مسوس کر رہ جاتا ہے۔
کلاسیکل دلنشین زبان، مصری کی مٹھاس لئے ہوئے الفاظ کی درو بست، خوبصورت پر اثر بیانیہ چابکدستی سے ہینڈل کیا ہوا پلاٹ اپنا دیر پا اثر مرتب کرنے والا دل کے نہاں خانوں میں گردش کرنے والے بہترین افسانہ پر ڈاکٹر نعیمہ جعفری کو ڈھیروں مبارکباد۔

ناہیدطاہر
افسانہ ایسا ہے جیسے تاریک وخموش رات کے سینے کو چاک کرتی کسی محبوب کی دبی دبی سسکیاں۔۔
جیسے بھیگی چاندنی سے سرشار مدہوشی۔۔۔
جیسے ہجر کی تنہائیوں میں دھڑکتے دل کی لے۔۔۔
قصر دل میں جلتا کوئی چراغ۔۔۔!!
دل کو چھوجانے والا افسانہ 
بہت بہت مبارک

ڈاکٹر فریدہ تبسم
زیر نظر افسانہ۔۔۔تیر نیم کش
تہذیب یافتہ خاندان کی رومانی داستان۔۔۔ پس حجاب رومان انگیز کیفیت کی جھلک۔۔۔
ہجر کی بے تابیاں بھی ہے اور وصل کی آرزوئیں بھی ہیں۔انتظار کی مشکل گھڑیاں بھی ہیں۔دلوں کی اضطراریاں بھی ہیں۔
باپ کی نصیحت کا لحاظ بھی ہے ماں کے سامنے پردہ کا پاس بھی ہے
فون پر پیغام التفات بھی رومان کا کیف بھی ہے
لبوں سے کہہ نہ پانے کے باوجود تابش نے خاموشی کو سمجھ لیا آنکھوں ہی آنکھوں میں محبت کا یہ پیغام۔۔ قاری کو باندھ کر اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور ہلکا ہلکا سرور اور رومان سے سر شار کرتا ہے مشرقی تہذیب کی عکاسی میں رومان خیز فضا متاثر کرتی ہے
اس خوبصورت افسانہ پر ہم افسانہ نگار کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔تبسم۔۔😊

شاہد اختر
نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ کا افسانہ "تیر نیم کش"‌ پڑھ کر لطف آیا۔ لکھنے والا اگر عمدہ ہو تو پھر موضوع آڑے نہیں آتا۔ لوگ افسانے کے تمام پہلو پر مفصل گفتگو کر رہے ہیں۔یہ افسانہ یقیناً تمام فنی تقاضے پورے کرتا ہے۔
ایک اچھے لکھنے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ کیا نہیں لکھنا ہے۔ جو لوگ زبان و بیان کے ساتھ فن پر اتنی دسترس رکھتے ہیں تو پھر مطالعہ کا لطف دو بالا ہو ہی جاتا ہے۔ عشق و محبت پر افسانہ لکھنا آسان کام نہیں ہے، ہر چند کہ کوئی کمزور تخلیق کار اتنا مشکل نہیں سمجھتا۔ اس افسانے میں جو ہونا چاہئے تھا، وہ سب ہے۔جو نہیں ہونا چاہئے، وہ نہیں ہے۔ دیر پا تاثر چھوڑتا ہے۔ ایک اچھے افسانے کے لیے نعیمہ صاحبہ کو مبارکباد اور ایڈمن پینل کا بھی شکریہ۔

انور مرزا
نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ کی
سحر بیانی کا ایک زمانہ قائل ہے
تیر نیم کش 
ان‌ کے فن‌ پاروں میں اضافہ ہے
پر خلوص مبارکباد

محمد عرفان ثمین
مشرقیت سے بھرپور ایک خوب صورت افسانہ۔۔۔ عمدہ زبان و بیان۔۔۔ انتظار کے لمحات کو بہت خوب صورتی سے بیان کیا گیا ہے۔۔۔
تابش کی کوئی خیر خبر ہے ؟۔۔۔
میں نے ایک اسکول میں تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی۔۔۔
ایک برس بیت گیا تو ایک دن میرے فون پر پیغام آیا۔۔۔
دو تین واقعات کو بہت جلدی سمیٹا گیا۔ان جملوں کے درمیان مزید کچھ جملوں کی گنجائش تھی۔ ایسا میرا خیال ہے۔ افسانہ جس صاف ستھرے انداز میں لکھا گیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے۔ اعلیٰ اقدار کے حامل افسانے کے لیے بہت بہت مبارک باد۔۔

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
میں بزم افسانہ کے منتظمین اور اراکین کی خصوصاً صدر بزم سلام بن رزاق صاحب کی صمیںم قلب سے ممنون ہوں کہ انہوں نے میرے افسانے تیر نیم کش کو اس معتبر بزم میں شرکت کا موقعہ فراہم کیا۔
میں تمام مبصرین اور قارئین کی بھی شکر گزار ہوں جنہوں نے اسے پڑھا اور اپنے گراں قدر تبصرات سے نوازا۔
رخسانہ نازنین صاحبہ
اقبال حسن آزاد صاحب
نصرت شمسی صاحبہ
نگار عظیم صاحبہ
سید غیاث الرحمن صاحب
فرخندہ ضمیر صاحبہ
فردوس انجم صاحبہ
معین الدین عثمانی صاحب
اکبر عابد صاحب
جاوید انصاری صاحب
اسرار گاندھی صاحب
ترنم جہاں شبنم صاحبہ
قمر سلیم صاحب
سدی ساجدہ صاحبہ
ڈاکٹر انیس رشید خان صاحب
وحید امام صاحب
عایشہ فرحین صاحبہ
خورشید حیات صاحب
سراج عظیم صاحب
ناہید طاہر صاحبہ
فریدہ تبسم صاحبہ
شاہد اختر صاحب
انور مرزا صاحب
عرفان ثمین صاحب
کے خوبصورت تبصروں کے لیے تہہ دل سے ممنون ہوں۔

Post a Comment

0 Comments