بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے )
افسانہ نمبر : 06
وعدہ ہے
سیّد غیاث الرحمٰن
’’مجھے عشق ہوگیا ہے۔‘‘
دروازہ کھلنے کی آہٹ کے ساتھ ہی حسیب کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی۔ میں اپنے ہاسٹل سے کمرے میں فرش پربچھے ہوئے بستر پر لیٹا ہوا تھا۔جاگ تو بہت پہلے ہی گیاتھا، لیکنتیسری منزل پر کھلی ہوئی بالکنی سے مٹ میلے اجالے کےساتھ ہلکی ٹھنڈی ہوا کے نرم نرم لمس کے مزے لیتے ہوئے،یونہی آ نکھیں بند کئے لیٹا ہوا تھا۔حسیب نےجھنجھوڑتے ہوئے مجھے اٹھا کربٹھا دیا۔ انگڑائی لیتے ہوئے میری نظر اس کے جوتوں پر گئی۔ میں نےتقریباً چلّاتے ہوئے کہا۔
’’حسیب۔ پہلے جوتے باہر اتارو۔‘‘
’’سوری یار۔‘‘ وہ سٹپٹا کر دروازےکے باہرجوتے اتارنے لگا۔ ا س کے جوتوں کی نظر نہ آنے والی گندگی کو میں نے فوراً ہی بالکنی میں رکھی ہوئی جھاڑو سے جھاڑ دیا۔میں اپنا کمرہ خود ہی صاف کرتا تھا۔ ہاسٹل کے صفائی والے کو میرے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔میرا سنگل روم، اگرچہ بہت چھوٹا تو نہ تھا، پھر بھی میں نے پلنگ ہٹا کر کمرے میں فرش کررکھا تھا۔تقریباً آ دھا فرش کتابوں اور کاپیوں سے گھرا ہوا تھا، اور آدھے فرش پر میرا بستر تھا، جس پر ہمیشہ ہی سفید یا ہلکے رنگ کی چادر بچھی رہتی تھی۔میرے سبھی دوستو ںکو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں صفائی ستھرائی کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہوں۔کسی کی مجال نہ تھی کہ میرے کمرے میں ذرا سی بھی گندگی کرے یا میرے قرینے سے رکھّی ہوئی کتابوں اور دوسری چیزوں کو ادھر سے ادھر کرے۔مجھے سگریٹ، بیڑی سے سخت نفرت تھی، اسلئے میرے کمرے میں کوئی سگریٹ پینے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا۔کمرے کے ایک کونے میں کھڑکی کی طرف ایک چھوٹی سی میز تھی، جس پر چائے کی پتّی، شکر،مٹری کا پیکٹ اور ایک ڈبے میں بھونے ہوئے چنے اور مصری کے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے۔ساتھ ہی چھوٹا سا الیکٹرک ہیٹر بھی تھا۔جس پر دوستوں کے لیے چائے بنا لیتا تھا۔میں خود تو چائے نہیں پیتا تھا، لیکن احباب کی ضیافت ضرور کرتا تھا۔
حسیب باہر جوتے اتار کر آیا اور میرے بستر پر ڈھڑام سے بیٹھ گیا۔میں نے اس سے کہا۔
’’موزےبھی اتارو، ان سے بدبو آرہی ہے۔‘‘
اس نے جھلّا کر کہا۔
’’یار۔تم نے اپنے کمرے کو مسجد بنا رکھا ہے۔‘‘
پھر موزے اتار کر غصّے سے بالکنی میں پھینک دیا۔پھر میں نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’کیا رات میں کوئی نیا خواب دیکھ لیا؟‘‘
’’رات بھر سویا ہی نہیں تو خواب کہاں سے دیکھوںگا۔‘‘
’’رات بارہ بجے تک توہم سب ساتھ ساتھ شمشاد مارکیٹ میں بیٹھے تھے۔پھرآدھی رات کے بعدایسا کیا ہوگیا کہ تم عشق میں مبتلا ہونے کا اعلان کرنے صبح ہی صبح آدھمکے؟‘‘
’’یار تم لوگ تو اٹھ کر اپنے اپنے ہاسٹل چلے گئے، لیکن مجھے اپنے کمرے پر جانے کا دل ہی نہیں کیا۔مجھے لگا جیسے وہ مجھے بلا رہی ہے...‘‘
’’کون...؟ وہ نئی ڈاکٹری پڑھنے والی لڑکی؟‘‘
’’ہاں۔اسلئے میں اپنے کمرے پر جانے کی بجائے خالہ کے ہوٹل چلا گیا۔وہاں سارے برتن سمیٹے جا رہے تھے۔میں نے خالہ سے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ملے گا، انھوں نے بڑی بے رخی سے کہا، ’’مجھے کھائے گا؟‘‘ پھر جیسے انھیں مجھ پر ترس آگیا، اور انھوں نے ایک بن، بغیر مکھن کے میری طرف بڑھادیا۔اور کہا’’پانی کے ساتھ کھا کے سو جا، اپنی امّاں کو یاد کرتے ہوئے۔‘ میں ایک ہاتھ میں بن اور دوسرے ہاتھ سے سائیکل کا ہینڈل تھامے پیدل ہی ذکریا مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ذکریا مارکیٹ بھی سنسان تھا۔بن ختم کرکے سائیکل پر سوار ہوا اور میڈیکل کالج کے کئی چکّر کاٹ لئیے، ایمر جنسی وارڈ میں کچھ ہلچل تھی،باقی ہر طرف سنّاٹا تھا۔‘
’’تم پاگل ہوگئے ہو حسیب۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے اس سے کہا۔
’’ہاں سچ مچ میں پاگل ہوگیا ہوں۔ عشق انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔‘‘ اس نے گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔میں نے پھر چٹکی لی۔
’’اوہو، بڑے فلسفی بن رہے ہو، کل تک تو تمہیں عشق کے نام سے چڑ تھی، اچانک ایسی تبدیلی؟‘‘ وہ چپ رہا۔میں نے اس سے پوچھا۔
’’چائے بناؤں، پیوگے؟‘‘ دودھ نہیں ہے، کالی ملے گی؟‘‘
’’چلے گا، تمہارے کمرے میں گوری چائے کب ملتی ہے، ہمیشہ کالی ہی ملی ہے۔‘‘
میں نے ہیٹر جلا کے چائے کا پانی چڑھا دیا۔اور حسیب سے کہا۔
’’تم چائے بنا کے پی لینا، میں نہا کے آتا ہوں۔‘‘
برش پر ٹوتھ پیسٹ لگا کر، تولیہ کندھے پر ڈالے، بغل میں دھلے کپڑے دبائے باتھ ر وم کی طرف چل دیا۔ہاسٹل کا مشترکہ غسلخانہ اور بیت الخلاء،جہا ںاکثر نمبر آنے میں دیر لگتی تھی۔نہا دھو کر، کپڑے بدل کر جب میں کمرے میں آیا تو، حسیب چائے پی کر میرے بستر پر ہی گہری نیند سو چکا تھا۔لیکن ہیٹر بند کرنا بھول گیا تھا۔میں نے جلدی سے ہیٹر آف کیا۔سفید پینٹ، سفید ہاف شرٹ اور سفید جوتے پہنے، الماری سے کریکٹ بیٹ نکالی، پوری طرح تیار ہوکر حسیب کو جگایا۔حسیب تھوڑا کسمساہٹ کے بعد جاگ گیا۔مجھے تیار دیکھ کر کہنے لگا۔
’’تم کہاں جا رہے ہو۔آج تو اتوار ہے؟‘‘
’’میرا کریکٹ میچ ہے آج،حبیب ھال سے، تم چاہو تو یہیں آرام کرو اور جب جانا ہو تو کمرہ بندکرکے چابی باہر کھڑکی کی درار میں رکھ دینا۔‘‘
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمروں کی چابیاں عام طور پر ادھر اُدھر مخصوص جگہوں پر چھپا دی جاتی تھیں،جس کا علم صرف کچھ خاص دوستوں کو ہی ہوتا تھا۔حسیب تھوڑا لابالی، تھوڑا لاپروا لڑکا تھا۔اس کو ہر بات بار بار اور اچھی طرح سمجھانی پڑتی تھی۔لیکن وہ دل کا بڑا پیارا تھا۔بہت معصوم بہت بھولا بھالا،اس لئے ا س کی بہت سی غلطیوں کونظر انداز کردینا پڑتا تھا۔وہ اپنی غلطی پر نادم ہوکر معافی بھی مانگ لیتا تھا۔اسلئے اس سے کبھی کوئی دوست ناراض ہی نہیں ہوتا تھا۔
اس نے التجا بھرے لہجے میں کہا۔
’’یار۔آج میچ کھیلنے مت جاؤنا۔‘‘
’’ارے یہ کیا کہہ رہے ہو، میں اپنی ٹیم کا مین پلیئر ہوں، سب مجھے کھا جائیں گے اگر نہیں گیا تو۔‘‘
’’میں سب سے کہہ آتا ہوں کہ تم اچانک بیمار پڑ گئے، تیز بخار ہے، یا پیٹ خراب ہے، کچھ بھی بہانا کردوں گا۔وہ تمہاری جگہ کسی اور کو ٹیم میں شامل کر لیں گے۔‘‘
’’اچھا۔اگر میچ نہیں کھیلنے گیا تو کیا کریں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بس باتیں کریں گے، اسی ڈاکٹر لڑکی کی۔اس کا خیال میرے دل و دماغ سے ہٹتا ہی نہیں۔ہر وقت ا سکا چہرہ میری آنکھوں میں، میرے تصوّر میں چھایا رہتا ہے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے‘‘، میں نے اس کو اطمینان دلایا۔ابھی ڈائننگ ھال چل کر آدھا آدھا ناشتہ کرتے ہیں۔پھر خالہ کے ہوٹل جاکے بھر پور کچھ کھائیں گے، میچ کو مارو گولی، میرا دوست پریشان ہے اور میں میچ کھیلوں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے اس کا موڈ بدلنے کی کوشش کی۔وہ خوش ہوگیا، اور جذباتی ہوتا ہوا مجھ سے بے اختیار لپٹ پڑا۔میں نے ا سکی پیٹھ تھپ تھپائی۔ پھر ہم دونوں باہر نکل گئے۔ہاسٹل کا آدھا ادھورا ناشتہ کرکے خالہ کے ہوٹل پہنچ گئے۔
خالہ کا ہوٹل...دودھ پورہ چوراہے سے میڈیکل کالج کو جانے والی کشادہ سڑک پر، جامعہ اردو کی پُر شکوہ عمارت کے پاس، ایک میلا کچیحلا ڈھابے نما یہ ہوٹل...، بلکہ داستانوں میں مذکورہ نان بائی کی دوکان یا بھٹیارن کا ڈیرہ کہیں تو زیادہ مناسب ہے، جہاں چائے ناشتے کے علاوہ صبح سے دیر رات تک کھانا ملتا تھا۔کھانے میں گرما گرم روٹیاں جن میں لذّت کم مگر ان کی خوشبوآ س پاس کے ماحول میں چھائی رہتی تھی، جس سے بھوک کی شدّت میں اضافہ ہوجاتاتھا۔تین چار قسم کے سالن، مگر سب کا ذائقہ ایک جیسا ہوتا تھا۔چاہے آپ قورمہ لیں، آلو گوشت لیں، قیمہ یا بھیجا لیں، سب کا مزہ ایک ہی تھا۔طالب علموں کا پسندیدہ اڈا تھا۔ خالہ کے ہوٹل میں سبھی کا کھاتا کھُلا ہوا تھا۔زیادہ تر ادھار کھاتے تھے۔او وہ اپنا قرض واپس لینے میں زیادہ تقاضہ بھی نہیں کرتی تھیں۔جب لڑکوں کے پاس پیسے آتے وہ جمع کردیتے۔خالہ کا کہنا تھا کہ’’ بھوکوں کو کھانا کھلانے سے رزق میں برکت رہتی ہے۔رزق تو اللہ دیتا ہے، ہم تو صرف ذریعہ ہیں۔‘‘ اس ہوٹل میں خالہ کا پورا خاندان لگا ہوا تھا۔بلکہ عرف عام میں اس ہوٹل کوMBBSکہا جاتا تھا۔یعنی میاں، بیوی، بچے، سب کا ہوٹل۔اور اسلئے بھی کہ یہ ہوٹل میڈیکل کالج کے راستے میں، اس سے بہت نزدیک تھا۔
میں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ یہاں اکثر و بیشتر آتا تھا۔حسیب، انور، طاہر، وسیم، علیم، بلال اور میں۔اکثر یہاں گھنٹوں بینچو ںپر بیٹھے رہتے، کھیل، سیاست، مذہب، منطق، فلسفہ، تاریخ اور ادب پر گفتگو کرتے رہتے۔خالہ ایک موٹی سی، بے ڈول سی ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ہر وقت میلے کچیلے، چیکٹ کپڑوں میں گٹھری بنی ہوئی، لیکن بہت متحرک، کبھی غلّے پر بیٹھی، کبھی سالن کے بھگونوں میں چمچ چلاتی، کبھی گاہکوں تک کھانا پہنچاتی، کبھی کسی کو ڈانٹتی، کبھی پیار سے پچکارتی۔ان کی ڈانٹ میں ایک عجیب سی ممتا چھپی ہوئی رہتی تھی۔کوئی بھی ان کا برا نہیں مانتا تھا۔اور برا مانے بھی کیونکر، سبھی ان کے نمک خوار جو تھے۔
ایک روز ہم سب دوست معمول کے مطابق، ناشتہ کرتے ہوئے بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے۔میڈیکل کالج میں داخلے پورے ہو چکے تھے۔ اور نئے سیشن کا آغاز ہو چکا تھا۔ نئے نئے طالب علم اپنے ڈاکٹر بننے کی خواہش لئے، خوشی اور جوش سے بھرے ہوئے ادھر سے گذرتے۔زیادہ تر کو ہاسٹل مل گیا تھا،لیکن کچھ طلباء جو گھروں سے آتے تھے، کچھ پیدل اور کچھ سائیکل پر سوار،سفید اپرن پہنے، گلے میںاسٹیتھوسکوپ لٹکائے، فخر سے ادھر اُدھر دیکھتے جیسے جتا رہے ہوں کہ ہم عام طالب علم نہیں، بلکہ آنے والے وقت کے بڑے نامی گرامی ڈاکٹر ہیں۔تبھی ہم سب نے دیکھا، ایک بڑی ہی حسین لڑکی، چمچماتی ہوئی نئی لال سائیکل پر سوار، ہلکے گلابی رنگ کا بغیر ڈوپٹے والا سوٹ پہنے، اوپر سے سفید اپرن اور گلے میں اسٹیتھوسکوپ لٹکائے ہمارے سامنے سے گذری۔ہم سب اس کو دیکھتے ہی رہ گئے۔بڑی بڑی کاجل بھری آنکھیں، پنکھڑی جیسے تراشے ہوئے ہونٹ، کشادہ پیشانی، کبوتری جیسی شفاف گردن، لمبے گھنے بالوں والی موٹی سی بالکل سیدھی چوٹی پیچھے سفید اپرن پر جیسے سیاہ ناگن بل کھا رہی ہو۔وہ بہت بے نیازی سے گذر گئی۔ایک نظر میں ہم سب کو گھائل کر گئی۔حسیب جو ہم سب میںبڑا دبّو قسم کا لڑکا تھا، ایک دم سے اٹھا اور اپنی سائیکل اٹھا کر اس لڑکی کے پیچھے تیز تیز جانے لگا۔ہم سب کو بڑا تعجب ہوا۔کچھ دیر بعد لوٹ آیا۔میں نے پوچھا۔
’’کیا کرنے گئے تھے۔‘‘
’’اللہ کا شاہکار، اس لڑکی کو بہت قریب سے دیکھنے گیا تھا۔‘‘
’’اس سے کچھ کہا بھی یا صرف دیکھ کر لوٹ آئے؟‘‘
’’میں گیا تو تھا صرف اس کو دیکھنے ہی،وہ مجسّم بہت خوبصورت ہے لیکن ا س کا گلا...اللہ کی پناہ وہ اتنا حسین ہے جیسے جنّت کی وادی اور میں نہیں چاہتا کہ اس کا گلا کوئی اور بھی دیکھے۔‘‘
’’تو پھر تم کیا کروگے؟‘‘
’’میں نے اس کے بہت قریب سائیکل چلاتے ہوئے کہا،’’ آپ بہت خوبصورت ہیں، لیکن اگر اپنے گلے میں ڈوپٹہ بھی ڈال لیا کریں تو اور زیادہ حسین ہو جائیں گی۔اور بس یہ کہہ کر لوٹ آیا۔‘‘
دوسرے دن صرف حسیب وقت مقررہ پر خالہ کے ہوٹل پہنچا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ لڑکی اپنے گلے کے گرد ڈوپٹہ لپیٹے ہوئے، دونوں سرے اپرن میں دبائے ہوئے گذر گئی۔حسیب کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔اس نے سائیکل اٹھائی اور اس کے پیچھے چلا گیا۔ قریب پہنچکر کہا،’’تھینک یو سو مچ۔‘‘ اور پھر لوٹ آیا۔دن بھر وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا، لیکن ہم سب دوستوں سے اس کی ملاقات نہ ہو سکی۔شام میں جب ہم شمشاد مارکیٹ کے اپنے مخصوص چائے خانے میں پہنچے تو وہاں حسیب بیٹھا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ہمیں دیکھتے ہی مچل اٹھا۔
’’ارے یار،اس ڈاکٹر لڑکی نے میرا کہا مان لیا۔کل میں نے اس سے گلے میں ڈوپٹہ ڈالنے کو کہا، اور آج وہ سچ مچ ڈوپٹہ لپیٹے ہوئے آئی۔‘‘
سبھی دوستوں نے اس کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’ارے واہ، مبارک ہو، تم نے تو بازی مار لی۔پہلی بال پر ہی اس کو کلین بولڈ کردیا۔‘‘
حسیب نے کہا۔
’’نہیںیارو،مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میری پہلی ہی بال پر چھکا پڑ گیا۔‘‘
ہم سب نے قہقہہ بلند کیا۔ہم سب ادھر ادھر کی باتوں میں مبتلا رہے۔اکثر میرے دوست مجھے اپنے خواب سناتے اور میں ان کو تعبیریں بتاتا تھا۔مجھے خواب کی تعبیروں کا علم حاصل کرنے کا بچپن سے ہی شوق تھا۔اور اکثر میری بتائی ہوئی تعبیریں صحیح ثابت ہوتی تھیں۔باتوں کا سلسلہ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتا ہوا کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا۔
اس بیچ، میں نے دیکھا کہ حسیب بہت سنجیدہ، گم سُم، اپنے خیالوں میں کھویا ہوا سا رہا۔دیر رات ہم سب دوست اٹھ کر اپنے اپنے ہاسٹل چلے گئے تھے۔
خالہ کے ہوٹل میں میرے ساتھ صرف حسیب تھا۔دوسرے دوست اس وقت تک نہیں پہنچے تھے۔حسیب بار بار نظریں اٹھا کر دودھ پورہ کی طرف سے آنے والے ہر شخص کو دیکھتا، اس کی بیچین نظر تلاش کرتی ہوئی اس لڑکی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔میں اس کی بیچینی اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔خالہ نے دو گلاس گرما گرم چائے کے ساتھ ایک پلیٹ میں مٹری کے دو بڑے بسکٹ اور ایک گولی مکھن رکھ دیا تھا۔مٹری مکھن کے ساتھ کبھی کبھی میں چائے پی لیا کرتا تھا۔میں نے حسیب سے کہا۔
’’تمہاری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ آج اتوار ہے، وہ ڈاکٹر لڑکی آج نہیں آئے گی۔چپ چاپ ناشتہ کرلو۔‘‘
’’اس کو دیکھے بغیر مجھے چین نہیں آئے گا۔یار کسی طرح اس کا گھر پتہ کرو، بس ایک جھلک دیکھ لوں اس کو۔‘‘
’’پاگل مت بنو۔یہ لفنگوں کا کام ہوتا ہے، کسی لڑکی کے گھرکے چکّر لگانا شریفوں کا شیوہ نہیں۔اور پھر اتنی سی بات پر کہ اس نے تمہارے کہنے سے ڈوپٹہ پہن لیا، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ تم میں انٹریسٹ لے رہی ہے۔‘‘
’’یار دل مت توڑو۔پھر کیسے ثابت ہوگا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے یا نہیں۔‘‘
’’اس کو ایک محبت نامہ لکھو۔پتہ چل جائے گا۔‘‘
’’یار تم اچھی جانتے ہو کہ مجھے لکھنا وکھنا نہیں آتا۔اور محبت نامہ تو بالکل بھی نہیں۔تم ہی ایک اچھا سا خط لکھ دو نا میری طرف سے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے وعدہ کر لیا۔’’رات میں تمہاری محبت کا اظہار کرتے ہوئے خط لکھ دوں گا۔ کل اس کو دیدینا۔جلد ہی پتہ لگ جائے گا۔اور ہاں اگر اس نے انکار کردیا تو، شریف بچوں کی طرح کنارہ کش ہوجانا۔‘‘
’’ہاں، وعدہ کرتا ہوں، اس نے انکار کیا تو میں اس کو بھولنے کی کوشش ضرور کرونگا۔‘‘
دوسرے دن وہ خط حسیب کی مٹھی میں تھا۔میں نے اس کی طرف سے اپنے جذبات اس خط میں بھر دئیے تھے۔
’’میں نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں، آپ کا نام کیا ہے، آپ کہاں رہتی ہیں، اور کس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔بس اتنا جانتا ہوں کہ آپ بہت حسین ہیں۔جنت کی کوئی حور زمین پر اتر آئے تو یقیناً آپ جیسی ہی ہوگی۔پہلی بار آپ کو دیکھا اور بس آپ کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔میرا نام حسیب خان ہے۔کیمسٹری میںMScکر رہا ہوں۔بہار کا رہنے والا ہوں۔یہاں، آفتاب ہوسٹل میں رہتا ہوں۔آپ کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتا ہوں۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ کے لئے آسمان سے چاند تارے توڑ لاؤں گا، لیکن ہاں وعدہ کرتا ہوں، زندگی بھر آپ کوخوش رکھوں گا۔آپ کی آنکھ میں کبھی آنسو نہیں آنے دونگا۔میری محبت سے انکار کرنے کا آپ کو پورا اختیار ہے۔آپ کے انکار کرنے پر بھی ایک طرفہ آپ کو چاہتا رہوں گا، لیکن کبھی راستے میں نہیں آؤں گا۔مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘‘
آپ کا خیر اندیش
حسیب خان
سب دوستوں کے سامنے خط پڑھا گیا،حسیب بار بار خط پڑھتا تھا اور خوشی سے اچھل اچھل جاتا تھا۔ہم سبھی کو لڑکی کے آنے کا انتظار تھا۔چائے کا تیسرا دور چل رہا تھا کہ وہ سائیکل پر آتی ہوئی دکھائی دی۔حسیب مٹھی میں محبت نامہ تھامے اٹھ کھڑا ہوا۔لیکن اس کے پورے جسم میں لرزہ تھا۔ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔اس کی یہ حالت دیکھ کر ہم سبھی دوستوں کی سانسیں رکی ہوئی سی محسوس ہورہی تھیں،کہ پتہ نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔لڑکی جیسے جیسے نزدیک آرہی تھی، ہم سب کی گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔اسلئے کہ اس میدان میں ہم سبھی نئے کھلاڑی تھے۔عشق کی وبا سے کسی کا بھی سابقہ نہیں ہوا تھا۔لڑکی قریب آئی اور گذر گئی۔ہم سب نے حسیب کی ہمت بڑھائی۔حسیب کے پیر لڑکھڑارہے تھے۔بمشکل تمام وہ اپنی سائیکل تک پہنچا، لیکن سائیکل پر بیٹھنے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا۔ہم نے سہارا دے کر اس کو سوار کیا، گویا گھوڑے پر سوار ہوکر جنگ کے لیے جا رہا ہو۔
’’اب جاؤ جلدی سے، وہ اگر کلاس میں گھس گئی تو پھر آج یہ خط دے نہیں پاؤگے۔‘‘ میں نے اس کوڈھارس دلائی۔وہ لڑکی کافی آگے نکل گئی تھی۔حسیب نے کپکپاتے ہوئے پیروں سے پیڈل تیز چلائے۔میں بھی اپنی سائیکل اٹھا کر اس کے پیچھے تھوڑے فاصلے سے چلنے لگاکہ کہیں کچھ گڑبڑ نہ ہوجائے۔دیکھا کہ حسیب ا س لڑکی تک پہنچ گیا۔اس کے برابر سائیکل چلاتا ہوا، لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں کہا،
’’پلیز یہ خط پڑھ لیجئے گا۔اس میں میرے جذبات بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘
ہاتھ بڑھا کر وہ خط لڑکی کی طرف بڑھا دیا۔لڑکی نے تھوڑا توقف کیا۔اس ہڑبڑاہٹ میں حسیب کے ہاتھ سے وہ خط چھوٹ کرنیچے گر گیا۔حسیب اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ سائیکل سے اتر کر اس خط کو دوبارہ اٹھاتا۔اس نے سائیکل موڑی اور مایوسی کے ساتھ پیچھے لوٹ گیا، اور اتنی تیزی سے لوٹا کہ مجھے بھی نہ دیکھ سکا،جیسے کوئی اس کا قتل کرنے اس کے پیچھے لگا ہو۔لیکن میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی تھوڑا آگے بڑھ کر رکی، پھر سائیکل موڑ کر پیچھے آئی، جہا ںخط گرا تھا،سائیکل سے اتری اور وہ مڑا تڑا کاغذ اٹھا کر اپرن کی جیب میں احتیاط سے رکھ کر میڈیکل کالج کے احاطے میں چلی گئی۔جب میں خالہ کے ہوٹل پہنچا تو حسیب اپنے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے، میز پر کہنیاں ٹکائے غم کے سمندر میں ڈوبا نظر آیا۔اور سبھی دوست اس کوتعزیت دیتے دکھائی دئیے۔میں نے حسیب کی پیٹھ پر ایک ہاتھ مارا۔
’’مبارک ہو، تم پہلے مرحلے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘
سب میری طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔میں نے خالہ سے پوچھا۔
’’خالہ کوئی میٹھی چیز ہے؟‘‘
وہ بولیں،’’ ہاں، بوری بھر شکر ہے، چائے میں ساری مِلا دوں؟‘‘
’’نہیں چائے میں مت ملاؤ، بس ایک کٹوری میں تھوڑی شکر بھیج دو۔‘‘
میں نے ایک ایک چمچ شکر سب کی ہتھیلی پر رکھی، حسیب نے لینے سے انکار کیا تو اس کا منہ کھول کر دو چمچ شکر اس کے منہ میں بھر دی گئی۔پھر میں نے لڑکی کا خط اٹھا کر جیب میں رکھنے والا واقعہ بتایا، سب کے چہروں پر خوشی تھی، مگر حسیب اداس ہی نظر آیا۔پھر مغموم آواز میں بولا۔
’’اگر اس نے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟‘‘
’’ہوگا کیا۔تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس کا پیچھا چھوڑ دو گے، بس یہی کرنا۔‘‘
میں نے سختی سے حسیب کو تاکید کی۔
اگلے روز ہم سب دوست فریضہ سمجھتے ہوئے، صبح ہی صبح خالہ کے ہوٹل پہنچ گئے۔ایسا لگ رہا تھا گویا حسیب کا دل ہم سب کے سینوں میں ایک ساتھ دھڑک رہا ہو۔ہر ایک کو اس کے جواب کا انتظار تھا۔سب دوست اپنے کلاس ولاس چھوڑ، اپنے ضروری کام ترک کئے بیٹھے تھے، ایسا لگ رہا تھا گویا کسی ناگہانی حادثے کا انتظار کررہے ہوں۔کافی دیر بعد وہ لڑکی سائیکل پر آتی ہوئی دکھائی دی۔حسیب کے ساتھ ساتھ سبھی کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔پاس آتے ہوئے اس نے سائیکل کی رفتار کم کی اور ہوٹل کے سامنے، سڑک کے کنارے جہاں ہم سب میلی کچیلی میز کے گرد، ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے،اپنی سائیکل روکی، غور سے ہم سب کو دیکھا۔حسیب جھینپنے لگا۔اس سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا۔پھر اس لڑکی نے بڑے اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔
’’حسیب۔‘‘ وہ ایک دم چونک پڑا، اور ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آج شام، پانچ بجے ذکریا مارکیٹ میں ملنا، تم سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
بس اتنا کہہ کر اس نے ہم سب پر ایک نظر ڈالی جیسے وہ اپنی آنکھوں میں ہم سب کے چہروں کو محفوظ کررہی ہو۔پھر سائیکل پر سوار ہوکر میڈیکل کالج کی طرف چلی گئی۔
ہم سب تذبذب میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ سب کے دلوں میں کچھ کامیابی اور کچھ ناکامی کے آثار، مد و جزر کی طرح خلط ملط ہورہے تھے۔میں نے پھر سے حسیب کی ہمت بڑھائی، اور پھر ہم سب اپنے اپنے ڈپارٹمنٹس چلے گئے۔کلاس یا لائبریری میں دل تو نہیں لگ رہا تھا، پھر بھی پانچ بجے تک کا وقت گذارناتھا۔دوپہر بعد ہم سب حسیب سے ملنے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ گئے، لیکن وہ نہ ملا۔بلال نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’وہ پاگل پورا دن ذکریا مارکیٹ ہی میں گذار رہا ہوگا۔چلو وہیں چلتے ہیں۔‘‘
میں نے منع کیا۔
’’نہیں، اسے اکیلے ہی نپٹنے دو، شام کو شمشاد میں ملتے ہیں۔پتہ چل جائے گا، ابھی کوئی اس کو ڈسٹرب نہ کرے۔‘‘
سب دوست چلے گئے، لیکن مجھے حسیب کی بہت فکر تھی، کہیں لڑکی نے انکار کردیا تو وہ جذبات میں کچھ کرنہ بیٹھے، بہت کمزور دل کا ہے، میں نے سوچا، اور سائیکل اٹھا کر ذکریا مارکیٹ پہنچ گیا۔ابھی پانچ نہیں بجے تھےذکریا مارکیٹ کے ہر چائے خانے، جوس کارنر، اور کیفے میں میڈیکل کے اسٹوڈنٹس کی تعداد ہمیشہ ہی زیادہ رہتی تھی۔حسیب سڑک کے کنارے کھڑا ہوا نظر آگیا۔وہ مجسّم انتظار بنا ہوا میڈیکل کالج کے گیٹ کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔شاید پورا دن اس نے ایسے ہی گذارا ہوگا۔تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی آتی ہوئی دکھائی دی، حسیب کا ملول چہرہ ایک دم سے شگفتہ ہوگیا۔جیسے مرجھاتے ہوئے سہرے پر بارش کی پھوہار پڑ گئی ہو۔لڑکی نے سڑک کنارے بنے ہوئے سائیکل اسٹینڈ پر سائیکل کھڑی کی، زنجیر سے ا سمیں تالا لگایا۔کیرئیر سے موٹی سی کتاب اٹھا کر بغل میں دبائی، ڈوپٹہ اور اپرن ٹھیک کرتی ہوئی اسٹیتھوسکوپ کو موڑ کر مٹھی میں دبایا، حسیب کو اشارہ کیا اور ایک چائے خانے کے سامنے خالی کرسیوں کی طرف بڑھ گئی۔ حسیب بھی اس کے پیچھے پیچھے وہیں جا کے بیٹھ گیا۔وہ دونوں ایک دوسرے میں اتنے منہمک تھے کہ انھیں کسی کا موجودگی کا احساس ہی نہ تھا۔میں بھی ان کے قریب میں لڑکی کی پشت سے لگی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔دونوں کچھ دیر گم سُم بیٹھے رہے۔جیسے ایک دوسرے کے دلوں کی دھڑکنیں گن رہے ہوں۔پھر لڑکی نے کہا۔
’’تم ایک اچھے انسان لگتے ہو۔اور بہت اچھا اپنے دل کا حال بھی لکھتے ہو۔لیکن جو کچھ لکھا، کیا وہ سچ ہے؟‘‘
’’ہاں لفظ لفظ سچ ہے۔‘‘ حسیب نے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے کہا۔ میں بظاہر کتاب میں منہ چھپائے، بہت توجہ سے ان کی باتیں سننے لگا۔پھر لڑکی نے کہا۔
’’ میرا نام گیتی ہے، گیتی مخدوم چودھری۔۔۔، میری تین چھوٹی بہنیں اور ایک بھائی ہے۔میرے والد سعودی عرب میں ایک کمپنی میں معمولی ملازم ہیں۔والدہ اور چھوٹے بہن بھائی انہی کے ساتھ رہتے ہیں۔میں نے بڑی محنت کرکے میڈیکل میں داخلہ حاصل کیا ہے۔ہمارےخاندان میں کوئی بھی زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔میری دادی چاہتی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ ان کی خواہش پوری کرنے کے لیے میں نے دن رات بہت محنت کی ہے، اور تین بار کوشش کرنے کے بعد اس بار کامیاب ہوئی ہوں۔میں پورے انہماک سے اپنی پڑھائی پوری کرنا چاہتی ہوں۔ابھی عشق وشق کے چکر میں بالکل بھی نہیں پڑنا چاہتی۔یہاں میں اپنی پھوپھی، پھوپھا کے گھر، میرس روڈ پر حبیب منزل کے پیچھے بنے سروینٹ کارٹر میں رہتی ہوں، میرے پھوپھا یونیورسٹی میں عارضی ملازم ہیں۔ان کی تین بیٹیاں ہیں جو مجھے اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں۔جب میرے ابّا مجھے ان کے گھر چھوڑ کے جارہے تھے تو پھوپھا نے مجھ سے کہا تھا،’’گیتی بیٹا، تم پر ہماری جان بھی نثار ہے، ہم غریب ضرور ہیں مگر عزت والے ہیں۔کبھی کوئی ایسا عمل نہ کرنا جس سے ہمیں نیچا دیکھنا پڑے۔سبھی نے مجھے سمجھایا تھا کہ دل لگا کے پڑھنا، اور میں دل لگا کے پڑھنا چاہتی ہوں۔تم یقیناً ایک شریف آدمی ہوگے، اگر مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو میرے پیچھے دوڑنا چھوڑ دو۔مجھے دل لگا کے پڑھنے دو۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ پانچ سال بعد اپنی پڑھائی ختم کرکے تم سے ملوں گی ضرور، تب تک اگر انتظار کرسکتے ہو تو کرلینا۔ابھی یہ عشق ومحبت کا سلسلہ ختم کرو۔تم بھی اپنی پڑھائی مکمل کرو اور مجھے بھی کرنے دو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھی، اپنی کتابیں کیریئر میں لگائیں، اسٹیتھوسکوپ گلے میں لٹکایا اور سائیکل پر سوار ہوکر چلی گئی۔ حسیب بہت دیر تک یونہی دم بخود بیٹھا رہا۔پھر میں نے اٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔اس نے چونک کر مجھے دیکھا، تعجب سے پوچھا۔
’’تم یہاں۔کیا تم نے اس کی باتیں سنیں؟‘‘
’’ہاں میں نے ساری باتیں سن لیں۔‘‘
ہم دونوں شمشاد مارکیٹ جانے کی بجائے میرے ہاسٹل پہنچے، شمشاد مارکیٹ میں انور، وسیم، طاہر، علیم اور بلال ہمارا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔
کئی دنوں تک ہم سب دوست ایک ساتھ ہو کر نہیں ملے۔سبھی کو میں نے پوری روداد بتا دی تھی۔بہت دنوں کے بعد ہم سب خالہ کے ہوٹل پر اکٹھا ہوئے۔حسیب سڑک کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھا رہا۔اسطرح کہ سڑک سے گذرنے والوں کو نہ دیکھ سکے۔گیتی سائیکل سے گذری۔ہم سب نے دیکھا۔اس نے بھی ہم لوگوں کو دیکھا، مگر حسیب نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔سبھی دوستوں کے خیالات مختلف تھے۔
انور نے کہا،’’لڑکی سمجھدار بھی ہے اور ذمہ دار بھی۔‘‘
طاہر کا کہنا تھا،’’ جو بھی ہو، ہے بہت خوبصورت، شاید اس کو اپنے حسن پر بہت زیادہ گھمنڈ ہے۔‘‘
علیم نے کہا،’’ ایک مرتبہ ڈاکٹر بن جائے تو بھابی کے روپ میں ہم سب کے دلوں کا علاج کرے گی۔‘‘
بلال کہنے لگا۔
’’ارے کچھ نہیں یار، بیوقوف بنا رہی ہے ہمارے دوست کو۔کسی طرح پیچھا چھڑانے کے لیے یہ سارے ڈائیلاگ رچے ہیں۔پانچ سال بعد انتظار کرنے کے بعد ٹھینگا دکھا کر غائب ہوجائے گی۔یہ سب فضول ہے۔اس دور میں مجنوں، فرہاد اور رانجھا بننا سراسر حماقت ہے۔‘‘
سب دوست اٹھ کر بکھر گئے۔اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہوگئے۔وقت بیتا، موسم بدلے، بارشوں نے سڑک سے سائیکل کے پہیوں کے نشانات دھو ڈالے۔خالہ کے ہوٹل پر پابندی سے تو نہیں لیکن کبھی کبھی آنا ہوجاتا تھا۔نئے نئے گاہکوں نے اڈا جما لیا۔انور،طاہر، وسیم اور علیم اپنی تعلیم مکمل کرکے، برسرِ روزگار ہوکر سرزمین علیگڑھ کو الوداع کہہ گئے۔ایک بار جو گیا پھر رابطے میں نہ رہا۔میں حسیب اور بلال رہ گئے۔کبھی کبھی گیتی پر نظر پڑ جاتی۔اب وہ زیادہ مصروف ہوگئی تھی۔اس کی وارڈ میں بھی ڈیوٹی لگنے لگی تھی۔اس کے آنے جانے کا وقت بھی مقرر نہ تھا۔سائیکل کی جگہ اب وہ موپیڈ چلانے لگی تھی۔لیکن جب بھی خالہ کے ہوٹل سے گذرتی، ایک اچٹتی سی نظر ڈال لیتی کہ ہم میں سے کوئی نظر آجائے۔
پھر ایک روز حسیب کے گھر سے تار آیا۔اس کے والد سخت بیمار تھے۔اس کو فوراً گھر بلایا تھا۔اگرچہ حسیب MScکرچکا تھا لیکن وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا۔بلالBotanyمیں ریسرچ کرنے لگا تھا۔میں بھی پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کرواچکا تھا۔حسیب گھر چلا گیا۔کئی مہینوں بعد اس کا خط آیا کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور والد کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے اپنی پھوپھی زاد سے مجبوراً شادی کرنی پڑی۔اب وہ نوکری کے سلسلے میں آسٹریلیا جارہا ہے۔
لڑھکتے، لڑکھڑاتے پانچ سال بیت گئے۔ایک روز میں اور بلال خالہ کے ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔خلاف توقع اچانک ایک موپیڈ آکر رکی۔ڈاکٹر گیتی مخدوم چودھری ہمارے سامنے کھڑی تھی۔
’’حسیب کہاں ہے۔میں کئی دن سے یہاں آکر اسے ڈھونڈ رہی ہوں۔میراMBBSکورس پورا ہوگیا۔انٹرن شپ اور ہاؤس جاب بھی مکمل ہوگیا۔امریکہ کے ایک میڈیکل کالج میں مجھےMSکے لیے داخلہ بھی مل گیا۔امریکہ جانے سے پہلے میرے والدین میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے میری پسند پوچھی ہے۔میں نے حسیب سے شادی کرنے کی خواہش انھیں بتا دی ہے۔وہ تیار ہیں۔میرے پاس اب صرف تین دن کا وقت ہے۔اگر وہ نہیں آیا تو اس سے کہہ دینا، میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے، مجھے الزام نہ دینا۔‘‘
’’حسیب۔ پہلے جوتے باہر اتارو۔‘‘
’’سوری یار۔‘‘ وہ سٹپٹا کر دروازےکے باہرجوتے اتارنے لگا۔ ا س کے جوتوں کی نظر نہ آنے والی گندگی کو میں نے فوراً ہی بالکنی میں رکھی ہوئی جھاڑو سے جھاڑ دیا۔میں اپنا کمرہ خود ہی صاف کرتا تھا۔ ہاسٹل کے صفائی والے کو میرے کمرے میں داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی۔میرا سنگل روم، اگرچہ بہت چھوٹا تو نہ تھا، پھر بھی میں نے پلنگ ہٹا کر کمرے میں فرش کررکھا تھا۔تقریباً آ دھا فرش کتابوں اور کاپیوں سے گھرا ہوا تھا، اور آدھے فرش پر میرا بستر تھا، جس پر ہمیشہ ہی سفید یا ہلکے رنگ کی چادر بچھی رہتی تھی۔میرے سبھی دوستو ںکو اچھی طرح معلوم تھا کہ میں صفائی ستھرائی کا بہت زیادہ خیال رکھتا ہوں۔کسی کی مجال نہ تھی کہ میرے کمرے میں ذرا سی بھی گندگی کرے یا میرے قرینے سے رکھّی ہوئی کتابوں اور دوسری چیزوں کو ادھر سے ادھر کرے۔مجھے سگریٹ، بیڑی سے سخت نفرت تھی، اسلئے میرے کمرے میں کوئی سگریٹ پینے کی جسارت نہیں کرسکتا تھا۔کمرے کے ایک کونے میں کھڑکی کی طرف ایک چھوٹی سی میز تھی، جس پر چائے کی پتّی، شکر،مٹری کا پیکٹ اور ایک ڈبے میں بھونے ہوئے چنے اور مصری کے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے۔ساتھ ہی چھوٹا سا الیکٹرک ہیٹر بھی تھا۔جس پر دوستوں کے لیے چائے بنا لیتا تھا۔میں خود تو چائے نہیں پیتا تھا، لیکن احباب کی ضیافت ضرور کرتا تھا۔
حسیب باہر جوتے اتار کر آیا اور میرے بستر پر ڈھڑام سے بیٹھ گیا۔میں نے اس سے کہا۔
’’موزےبھی اتارو، ان سے بدبو آرہی ہے۔‘‘
اس نے جھلّا کر کہا۔
’’یار۔تم نے اپنے کمرے کو مسجد بنا رکھا ہے۔‘‘
پھر موزے اتار کر غصّے سے بالکنی میں پھینک دیا۔پھر میں نے مسکراتے ہوئے اس سے پوچھا۔
’’کیا رات میں کوئی نیا خواب دیکھ لیا؟‘‘
’’رات بھر سویا ہی نہیں تو خواب کہاں سے دیکھوںگا۔‘‘
’’رات بارہ بجے تک توہم سب ساتھ ساتھ شمشاد مارکیٹ میں بیٹھے تھے۔پھرآدھی رات کے بعدایسا کیا ہوگیا کہ تم عشق میں مبتلا ہونے کا اعلان کرنے صبح ہی صبح آدھمکے؟‘‘
’’یار تم لوگ تو اٹھ کر اپنے اپنے ہاسٹل چلے گئے، لیکن مجھے اپنے کمرے پر جانے کا دل ہی نہیں کیا۔مجھے لگا جیسے وہ مجھے بلا رہی ہے...‘‘
’’کون...؟ وہ نئی ڈاکٹری پڑھنے والی لڑکی؟‘‘
’’ہاں۔اسلئے میں اپنے کمرے پر جانے کی بجائے خالہ کے ہوٹل چلا گیا۔وہاں سارے برتن سمیٹے جا رہے تھے۔میں نے خالہ سے پوچھا کہ کچھ کھانے کو ملے گا، انھوں نے بڑی بے رخی سے کہا، ’’مجھے کھائے گا؟‘‘ پھر جیسے انھیں مجھ پر ترس آگیا، اور انھوں نے ایک بن، بغیر مکھن کے میری طرف بڑھادیا۔اور کہا’’پانی کے ساتھ کھا کے سو جا، اپنی امّاں کو یاد کرتے ہوئے۔‘ میں ایک ہاتھ میں بن اور دوسرے ہاتھ سے سائیکل کا ہینڈل تھامے پیدل ہی ذکریا مارکیٹ کی طرف چل پڑا۔ذکریا مارکیٹ بھی سنسان تھا۔بن ختم کرکے سائیکل پر سوار ہوا اور میڈیکل کالج کے کئی چکّر کاٹ لئیے، ایمر جنسی وارڈ میں کچھ ہلچل تھی،باقی ہر طرف سنّاٹا تھا۔‘
’’تم پاگل ہوگئے ہو حسیب۔‘‘ میں نے ہنستے ہوئے اس سے کہا۔
’’ہاں سچ مچ میں پاگل ہوگیا ہوں۔ عشق انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے۔‘‘ اس نے گہری سوچ میں ڈوبتے ہوئے کہا۔میں نے پھر چٹکی لی۔
’’اوہو، بڑے فلسفی بن رہے ہو، کل تک تو تمہیں عشق کے نام سے چڑ تھی، اچانک ایسی تبدیلی؟‘‘ وہ چپ رہا۔میں نے اس سے پوچھا۔
’’چائے بناؤں، پیوگے؟‘‘ دودھ نہیں ہے، کالی ملے گی؟‘‘
’’چلے گا، تمہارے کمرے میں گوری چائے کب ملتی ہے، ہمیشہ کالی ہی ملی ہے۔‘‘
میں نے ہیٹر جلا کے چائے کا پانی چڑھا دیا۔اور حسیب سے کہا۔
’’تم چائے بنا کے پی لینا، میں نہا کے آتا ہوں۔‘‘
برش پر ٹوتھ پیسٹ لگا کر، تولیہ کندھے پر ڈالے، بغل میں دھلے کپڑے دبائے باتھ ر وم کی طرف چل دیا۔ہاسٹل کا مشترکہ غسلخانہ اور بیت الخلاء،جہا ںاکثر نمبر آنے میں دیر لگتی تھی۔نہا دھو کر، کپڑے بدل کر جب میں کمرے میں آیا تو، حسیب چائے پی کر میرے بستر پر ہی گہری نیند سو چکا تھا۔لیکن ہیٹر بند کرنا بھول گیا تھا۔میں نے جلدی سے ہیٹر آف کیا۔سفید پینٹ، سفید ہاف شرٹ اور سفید جوتے پہنے، الماری سے کریکٹ بیٹ نکالی، پوری طرح تیار ہوکر حسیب کو جگایا۔حسیب تھوڑا کسمساہٹ کے بعد جاگ گیا۔مجھے تیار دیکھ کر کہنے لگا۔
’’تم کہاں جا رہے ہو۔آج تو اتوار ہے؟‘‘
’’میرا کریکٹ میچ ہے آج،حبیب ھال سے، تم چاہو تو یہیں آرام کرو اور جب جانا ہو تو کمرہ بندکرکے چابی باہر کھڑکی کی درار میں رکھ دینا۔‘‘
علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمروں کی چابیاں عام طور پر ادھر اُدھر مخصوص جگہوں پر چھپا دی جاتی تھیں،جس کا علم صرف کچھ خاص دوستوں کو ہی ہوتا تھا۔حسیب تھوڑا لابالی، تھوڑا لاپروا لڑکا تھا۔اس کو ہر بات بار بار اور اچھی طرح سمجھانی پڑتی تھی۔لیکن وہ دل کا بڑا پیارا تھا۔بہت معصوم بہت بھولا بھالا،اس لئے ا س کی بہت سی غلطیوں کونظر انداز کردینا پڑتا تھا۔وہ اپنی غلطی پر نادم ہوکر معافی بھی مانگ لیتا تھا۔اسلئے اس سے کبھی کوئی دوست ناراض ہی نہیں ہوتا تھا۔
اس نے التجا بھرے لہجے میں کہا۔
’’یار۔آج میچ کھیلنے مت جاؤنا۔‘‘
’’ارے یہ کیا کہہ رہے ہو، میں اپنی ٹیم کا مین پلیئر ہوں، سب مجھے کھا جائیں گے اگر نہیں گیا تو۔‘‘
’’میں سب سے کہہ آتا ہوں کہ تم اچانک بیمار پڑ گئے، تیز بخار ہے، یا پیٹ خراب ہے، کچھ بھی بہانا کردوں گا۔وہ تمہاری جگہ کسی اور کو ٹیم میں شامل کر لیں گے۔‘‘
’’اچھا۔اگر میچ نہیں کھیلنے گیا تو کیا کریں گے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’بس باتیں کریں گے، اسی ڈاکٹر لڑکی کی۔اس کا خیال میرے دل و دماغ سے ہٹتا ہی نہیں۔ہر وقت ا سکا چہرہ میری آنکھوں میں، میرے تصوّر میں چھایا رہتا ہے۔‘‘
’’چلو ٹھیک ہے‘‘، میں نے اس کو اطمینان دلایا۔ابھی ڈائننگ ھال چل کر آدھا آدھا ناشتہ کرتے ہیں۔پھر خالہ کے ہوٹل جاکے بھر پور کچھ کھائیں گے، میچ کو مارو گولی، میرا دوست پریشان ہے اور میں میچ کھیلوں، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے اس کا موڈ بدلنے کی کوشش کی۔وہ خوش ہوگیا، اور جذباتی ہوتا ہوا مجھ سے بے اختیار لپٹ پڑا۔میں نے ا سکی پیٹھ تھپ تھپائی۔ پھر ہم دونوں باہر نکل گئے۔ہاسٹل کا آدھا ادھورا ناشتہ کرکے خالہ کے ہوٹل پہنچ گئے۔
خالہ کا ہوٹل...دودھ پورہ چوراہے سے میڈیکل کالج کو جانے والی کشادہ سڑک پر، جامعہ اردو کی پُر شکوہ عمارت کے پاس، ایک میلا کچیحلا ڈھابے نما یہ ہوٹل...، بلکہ داستانوں میں مذکورہ نان بائی کی دوکان یا بھٹیارن کا ڈیرہ کہیں تو زیادہ مناسب ہے، جہاں چائے ناشتے کے علاوہ صبح سے دیر رات تک کھانا ملتا تھا۔کھانے میں گرما گرم روٹیاں جن میں لذّت کم مگر ان کی خوشبوآ س پاس کے ماحول میں چھائی رہتی تھی، جس سے بھوک کی شدّت میں اضافہ ہوجاتاتھا۔تین چار قسم کے سالن، مگر سب کا ذائقہ ایک جیسا ہوتا تھا۔چاہے آپ قورمہ لیں، آلو گوشت لیں، قیمہ یا بھیجا لیں، سب کا مزہ ایک ہی تھا۔طالب علموں کا پسندیدہ اڈا تھا۔ خالہ کے ہوٹل میں سبھی کا کھاتا کھُلا ہوا تھا۔زیادہ تر ادھار کھاتے تھے۔او وہ اپنا قرض واپس لینے میں زیادہ تقاضہ بھی نہیں کرتی تھیں۔جب لڑکوں کے پاس پیسے آتے وہ جمع کردیتے۔خالہ کا کہنا تھا کہ’’ بھوکوں کو کھانا کھلانے سے رزق میں برکت رہتی ہے۔رزق تو اللہ دیتا ہے، ہم تو صرف ذریعہ ہیں۔‘‘ اس ہوٹل میں خالہ کا پورا خاندان لگا ہوا تھا۔بلکہ عرف عام میں اس ہوٹل کوMBBSکہا جاتا تھا۔یعنی میاں، بیوی، بچے، سب کا ہوٹل۔اور اسلئے بھی کہ یہ ہوٹل میڈیکل کالج کے راستے میں، اس سے بہت نزدیک تھا۔
میں اپنے قریبی دوستوں کے ساتھ یہاں اکثر و بیشتر آتا تھا۔حسیب، انور، طاہر، وسیم، علیم، بلال اور میں۔اکثر یہاں گھنٹوں بینچو ںپر بیٹھے رہتے، کھیل، سیاست، مذہب، منطق، فلسفہ، تاریخ اور ادب پر گفتگو کرتے رہتے۔خالہ ایک موٹی سی، بے ڈول سی ادھیڑ عمر کی عورت تھی۔ہر وقت میلے کچیلے، چیکٹ کپڑوں میں گٹھری بنی ہوئی، لیکن بہت متحرک، کبھی غلّے پر بیٹھی، کبھی سالن کے بھگونوں میں چمچ چلاتی، کبھی گاہکوں تک کھانا پہنچاتی، کبھی کسی کو ڈانٹتی، کبھی پیار سے پچکارتی۔ان کی ڈانٹ میں ایک عجیب سی ممتا چھپی ہوئی رہتی تھی۔کوئی بھی ان کا برا نہیں مانتا تھا۔اور برا مانے بھی کیونکر، سبھی ان کے نمک خوار جو تھے۔
ایک روز ہم سب دوست معمول کے مطابق، ناشتہ کرتے ہوئے بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے۔میڈیکل کالج میں داخلے پورے ہو چکے تھے۔ اور نئے سیشن کا آغاز ہو چکا تھا۔ نئے نئے طالب علم اپنے ڈاکٹر بننے کی خواہش لئے، خوشی اور جوش سے بھرے ہوئے ادھر سے گذرتے۔زیادہ تر کو ہاسٹل مل گیا تھا،لیکن کچھ طلباء جو گھروں سے آتے تھے، کچھ پیدل اور کچھ سائیکل پر سوار،سفید اپرن پہنے، گلے میںاسٹیتھوسکوپ لٹکائے، فخر سے ادھر اُدھر دیکھتے جیسے جتا رہے ہوں کہ ہم عام طالب علم نہیں، بلکہ آنے والے وقت کے بڑے نامی گرامی ڈاکٹر ہیں۔تبھی ہم سب نے دیکھا، ایک بڑی ہی حسین لڑکی، چمچماتی ہوئی نئی لال سائیکل پر سوار، ہلکے گلابی رنگ کا بغیر ڈوپٹے والا سوٹ پہنے، اوپر سے سفید اپرن اور گلے میں اسٹیتھوسکوپ لٹکائے ہمارے سامنے سے گذری۔ہم سب اس کو دیکھتے ہی رہ گئے۔بڑی بڑی کاجل بھری آنکھیں، پنکھڑی جیسے تراشے ہوئے ہونٹ، کشادہ پیشانی، کبوتری جیسی شفاف گردن، لمبے گھنے بالوں والی موٹی سی بالکل سیدھی چوٹی پیچھے سفید اپرن پر جیسے سیاہ ناگن بل کھا رہی ہو۔وہ بہت بے نیازی سے گذر گئی۔ایک نظر میں ہم سب کو گھائل کر گئی۔حسیب جو ہم سب میںبڑا دبّو قسم کا لڑکا تھا، ایک دم سے اٹھا اور اپنی سائیکل اٹھا کر اس لڑکی کے پیچھے تیز تیز جانے لگا۔ہم سب کو بڑا تعجب ہوا۔کچھ دیر بعد لوٹ آیا۔میں نے پوچھا۔
’’کیا کرنے گئے تھے۔‘‘
’’اللہ کا شاہکار، اس لڑکی کو بہت قریب سے دیکھنے گیا تھا۔‘‘
’’اس سے کچھ کہا بھی یا صرف دیکھ کر لوٹ آئے؟‘‘
’’میں گیا تو تھا صرف اس کو دیکھنے ہی،وہ مجسّم بہت خوبصورت ہے لیکن ا س کا گلا...اللہ کی پناہ وہ اتنا حسین ہے جیسے جنّت کی وادی اور میں نہیں چاہتا کہ اس کا گلا کوئی اور بھی دیکھے۔‘‘
’’تو پھر تم کیا کروگے؟‘‘
’’میں نے اس کے بہت قریب سائیکل چلاتے ہوئے کہا،’’ آپ بہت خوبصورت ہیں، لیکن اگر اپنے گلے میں ڈوپٹہ بھی ڈال لیا کریں تو اور زیادہ حسین ہو جائیں گی۔اور بس یہ کہہ کر لوٹ آیا۔‘‘
دوسرے دن صرف حسیب وقت مقررہ پر خالہ کے ہوٹل پہنچا تھا۔ اس نے دیکھا کہ وہ لڑکی اپنے گلے کے گرد ڈوپٹہ لپیٹے ہوئے، دونوں سرے اپرن میں دبائے ہوئے گذر گئی۔حسیب کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔اس نے سائیکل اٹھائی اور اس کے پیچھے چلا گیا۔ قریب پہنچکر کہا،’’تھینک یو سو مچ۔‘‘ اور پھر لوٹ آیا۔دن بھر وہ خوشی سے پھولے نہ سمایا، لیکن ہم سب دوستوں سے اس کی ملاقات نہ ہو سکی۔شام میں جب ہم شمشاد مارکیٹ کے اپنے مخصوص چائے خانے میں پہنچے تو وہاں حسیب بیٹھا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ہمیں دیکھتے ہی مچل اٹھا۔
’’ارے یار،اس ڈاکٹر لڑکی نے میرا کہا مان لیا۔کل میں نے اس سے گلے میں ڈوپٹہ ڈالنے کو کہا، اور آج وہ سچ مچ ڈوپٹہ لپیٹے ہوئے آئی۔‘‘
سبھی دوستوں نے اس کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
’’ارے واہ، مبارک ہو، تم نے تو بازی مار لی۔پہلی بال پر ہی اس کو کلین بولڈ کردیا۔‘‘
حسیب نے کہا۔
’’نہیںیارو،مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ میری پہلی ہی بال پر چھکا پڑ گیا۔‘‘
ہم سب نے قہقہہ بلند کیا۔ہم سب ادھر ادھر کی باتوں میں مبتلا رہے۔اکثر میرے دوست مجھے اپنے خواب سناتے اور میں ان کو تعبیریں بتاتا تھا۔مجھے خواب کی تعبیروں کا علم حاصل کرنے کا بچپن سے ہی شوق تھا۔اور اکثر میری بتائی ہوئی تعبیریں صحیح ثابت ہوتی تھیں۔باتوں کا سلسلہ مختلف موضوعات کا احاطہ کرتا ہوا کہاں سے کہاں پہنچ گیا تھا۔
اس بیچ، میں نے دیکھا کہ حسیب بہت سنجیدہ، گم سُم، اپنے خیالوں میں کھویا ہوا سا رہا۔دیر رات ہم سب دوست اٹھ کر اپنے اپنے ہاسٹل چلے گئے تھے۔
خالہ کے ہوٹل میں میرے ساتھ صرف حسیب تھا۔دوسرے دوست اس وقت تک نہیں پہنچے تھے۔حسیب بار بار نظریں اٹھا کر دودھ پورہ کی طرف سے آنے والے ہر شخص کو دیکھتا، اس کی بیچین نظر تلاش کرتی ہوئی اس لڑکی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔میں اس کی بیچینی اچھی طرح سمجھ رہا تھا۔خالہ نے دو گلاس گرما گرم چائے کے ساتھ ایک پلیٹ میں مٹری کے دو بڑے بسکٹ اور ایک گولی مکھن رکھ دیا تھا۔مٹری مکھن کے ساتھ کبھی کبھی میں چائے پی لیا کرتا تھا۔میں نے حسیب سے کہا۔
’’تمہاری چائے ٹھنڈی ہو رہی ہے۔ آج اتوار ہے، وہ ڈاکٹر لڑکی آج نہیں آئے گی۔چپ چاپ ناشتہ کرلو۔‘‘
’’اس کو دیکھے بغیر مجھے چین نہیں آئے گا۔یار کسی طرح اس کا گھر پتہ کرو، بس ایک جھلک دیکھ لوں اس کو۔‘‘
’’پاگل مت بنو۔یہ لفنگوں کا کام ہوتا ہے، کسی لڑکی کے گھرکے چکّر لگانا شریفوں کا شیوہ نہیں۔اور پھر اتنی سی بات پر کہ اس نے تمہارے کہنے سے ڈوپٹہ پہن لیا، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ تم میں انٹریسٹ لے رہی ہے۔‘‘
’’یار دل مت توڑو۔پھر کیسے ثابت ہوگا کہ وہ بھی مجھ سے محبت کرتی ہے یا نہیں۔‘‘
’’اس کو ایک محبت نامہ لکھو۔پتہ چل جائے گا۔‘‘
’’یار تم اچھی جانتے ہو کہ مجھے لکھنا وکھنا نہیں آتا۔اور محبت نامہ تو بالکل بھی نہیں۔تم ہی ایک اچھا سا خط لکھ دو نا میری طرف سے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ میں نے وعدہ کر لیا۔’’رات میں تمہاری محبت کا اظہار کرتے ہوئے خط لکھ دوں گا۔ کل اس کو دیدینا۔جلد ہی پتہ لگ جائے گا۔اور ہاں اگر اس نے انکار کردیا تو، شریف بچوں کی طرح کنارہ کش ہوجانا۔‘‘
’’ہاں، وعدہ کرتا ہوں، اس نے انکار کیا تو میں اس کو بھولنے کی کوشش ضرور کرونگا۔‘‘
دوسرے دن وہ خط حسیب کی مٹھی میں تھا۔میں نے اس کی طرف سے اپنے جذبات اس خط میں بھر دئیے تھے۔
’’میں نہیں جانتا کہ آپ کون ہیں، آپ کا نام کیا ہے، آپ کہاں رہتی ہیں، اور کس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔بس اتنا جانتا ہوں کہ آپ بہت حسین ہیں۔جنت کی کوئی حور زمین پر اتر آئے تو یقیناً آپ جیسی ہی ہوگی۔پہلی بار آپ کو دیکھا اور بس آپ کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔میرا نام حسیب خان ہے۔کیمسٹری میںMScکر رہا ہوں۔بہار کا رہنے والا ہوں۔یہاں، آفتاب ہوسٹل میں رہتا ہوں۔آپ کے ساتھ زندگی گذارنا چاہتا ہوں۔میں یہ تو نہیں کہتا کہ آپ کے لئے آسمان سے چاند تارے توڑ لاؤں گا، لیکن ہاں وعدہ کرتا ہوں، زندگی بھر آپ کوخوش رکھوں گا۔آپ کی آنکھ میں کبھی آنسو نہیں آنے دونگا۔میری محبت سے انکار کرنے کا آپ کو پورا اختیار ہے۔آپ کے انکار کرنے پر بھی ایک طرفہ آپ کو چاہتا رہوں گا، لیکن کبھی راستے میں نہیں آؤں گا۔مجھے آپ کے جواب کا انتظار رہے گا۔‘‘
آپ کا خیر اندیش
حسیب خان
سب دوستوں کے سامنے خط پڑھا گیا،حسیب بار بار خط پڑھتا تھا اور خوشی سے اچھل اچھل جاتا تھا۔ہم سبھی کو لڑکی کے آنے کا انتظار تھا۔چائے کا تیسرا دور چل رہا تھا کہ وہ سائیکل پر آتی ہوئی دکھائی دی۔حسیب مٹھی میں محبت نامہ تھامے اٹھ کھڑا ہوا۔لیکن اس کے پورے جسم میں لرزہ تھا۔ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔دل کی دھڑکنیں تیز تھیں۔اس کی یہ حالت دیکھ کر ہم سبھی دوستوں کی سانسیں رکی ہوئی سی محسوس ہورہی تھیں،کہ پتہ نہیں اس کا انجام کیا ہوگا۔لڑکی جیسے جیسے نزدیک آرہی تھی، ہم سب کی گھبراہٹ بڑھتی جارہی تھی۔اسلئے کہ اس میدان میں ہم سبھی نئے کھلاڑی تھے۔عشق کی وبا سے کسی کا بھی سابقہ نہیں ہوا تھا۔لڑکی قریب آئی اور گذر گئی۔ہم سب نے حسیب کی ہمت بڑھائی۔حسیب کے پیر لڑکھڑارہے تھے۔بمشکل تمام وہ اپنی سائیکل تک پہنچا، لیکن سائیکل پر بیٹھنے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا۔ہم نے سہارا دے کر اس کو سوار کیا، گویا گھوڑے پر سوار ہوکر جنگ کے لیے جا رہا ہو۔
’’اب جاؤ جلدی سے، وہ اگر کلاس میں گھس گئی تو پھر آج یہ خط دے نہیں پاؤگے۔‘‘ میں نے اس کوڈھارس دلائی۔وہ لڑکی کافی آگے نکل گئی تھی۔حسیب نے کپکپاتے ہوئے پیروں سے پیڈل تیز چلائے۔میں بھی اپنی سائیکل اٹھا کر اس کے پیچھے تھوڑے فاصلے سے چلنے لگاکہ کہیں کچھ گڑبڑ نہ ہوجائے۔دیکھا کہ حسیب ا س لڑکی تک پہنچ گیا۔اس کے برابر سائیکل چلاتا ہوا، لڑکھڑاتی ہوئی زبان میں کہا،
’’پلیز یہ خط پڑھ لیجئے گا۔اس میں میرے جذبات بکھرے ہوئے ہیں۔‘‘
ہاتھ بڑھا کر وہ خط لڑکی کی طرف بڑھا دیا۔لڑکی نے تھوڑا توقف کیا۔اس ہڑبڑاہٹ میں حسیب کے ہاتھ سے وہ خط چھوٹ کرنیچے گر گیا۔حسیب اتنا گھبرایا ہوا تھا کہ اس کی ہمت نہ ہوئی کہ وہ سائیکل سے اتر کر اس خط کو دوبارہ اٹھاتا۔اس نے سائیکل موڑی اور مایوسی کے ساتھ پیچھے لوٹ گیا، اور اتنی تیزی سے لوٹا کہ مجھے بھی نہ دیکھ سکا،جیسے کوئی اس کا قتل کرنے اس کے پیچھے لگا ہو۔لیکن میں نے دیکھا کہ وہ لڑکی تھوڑا آگے بڑھ کر رکی، پھر سائیکل موڑ کر پیچھے آئی، جہا ںخط گرا تھا،سائیکل سے اتری اور وہ مڑا تڑا کاغذ اٹھا کر اپرن کی جیب میں احتیاط سے رکھ کر میڈیکل کالج کے احاطے میں چلی گئی۔جب میں خالہ کے ہوٹل پہنچا تو حسیب اپنے دونوں ہاتھوں میں منہ چھپائے، میز پر کہنیاں ٹکائے غم کے سمندر میں ڈوبا نظر آیا۔اور سبھی دوست اس کوتعزیت دیتے دکھائی دئیے۔میں نے حسیب کی پیٹھ پر ایک ہاتھ مارا۔
’’مبارک ہو، تم پہلے مرحلے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘
سب میری طرف حیرت سے دیکھنے لگے۔میں نے خالہ سے پوچھا۔
’’خالہ کوئی میٹھی چیز ہے؟‘‘
وہ بولیں،’’ ہاں، بوری بھر شکر ہے، چائے میں ساری مِلا دوں؟‘‘
’’نہیں چائے میں مت ملاؤ، بس ایک کٹوری میں تھوڑی شکر بھیج دو۔‘‘
میں نے ایک ایک چمچ شکر سب کی ہتھیلی پر رکھی، حسیب نے لینے سے انکار کیا تو اس کا منہ کھول کر دو چمچ شکر اس کے منہ میں بھر دی گئی۔پھر میں نے لڑکی کا خط اٹھا کر جیب میں رکھنے والا واقعہ بتایا، سب کے چہروں پر خوشی تھی، مگر حسیب اداس ہی نظر آیا۔پھر مغموم آواز میں بولا۔
’’اگر اس نے انکار کردیا تو کیا ہوگا؟‘‘
’’ہوگا کیا۔تم نے مجھ سے وعدہ کیا ہے، اس کا پیچھا چھوڑ دو گے، بس یہی کرنا۔‘‘
میں نے سختی سے حسیب کو تاکید کی۔
اگلے روز ہم سب دوست فریضہ سمجھتے ہوئے، صبح ہی صبح خالہ کے ہوٹل پہنچ گئے۔ایسا لگ رہا تھا گویا حسیب کا دل ہم سب کے سینوں میں ایک ساتھ دھڑک رہا ہو۔ہر ایک کو اس کے جواب کا انتظار تھا۔سب دوست اپنے کلاس ولاس چھوڑ، اپنے ضروری کام ترک کئے بیٹھے تھے، ایسا لگ رہا تھا گویا کسی ناگہانی حادثے کا انتظار کررہے ہوں۔کافی دیر بعد وہ لڑکی سائیکل پر آتی ہوئی دکھائی دی۔حسیب کے ساتھ ساتھ سبھی کے دلوں کی دھڑکنیں تیز ہونے لگیں۔پاس آتے ہوئے اس نے سائیکل کی رفتار کم کی اور ہوٹل کے سامنے، سڑک کے کنارے جہاں ہم سب میلی کچیلی میز کے گرد، ٹوٹی پھوٹی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے،اپنی سائیکل روکی، غور سے ہم سب کو دیکھا۔حسیب جھینپنے لگا۔اس سے نظریں ملانے کی ہمت نہیں کرپا رہا تھا۔پھر اس لڑکی نے بڑے اعتماد بھرے لہجے میں کہا۔
’’حسیب۔‘‘ وہ ایک دم چونک پڑا، اور ہڑبڑا کر اٹھ کھڑا ہوا۔
’’آج شام، پانچ بجے ذکریا مارکیٹ میں ملنا، تم سے کچھ بات کرنی ہے۔‘‘
بس اتنا کہہ کر اس نے ہم سب پر ایک نظر ڈالی جیسے وہ اپنی آنکھوں میں ہم سب کے چہروں کو محفوظ کررہی ہو۔پھر سائیکل پر سوار ہوکر میڈیکل کالج کی طرف چلی گئی۔
ہم سب تذبذب میں ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے۔ سب کے دلوں میں کچھ کامیابی اور کچھ ناکامی کے آثار، مد و جزر کی طرح خلط ملط ہورہے تھے۔میں نے پھر سے حسیب کی ہمت بڑھائی، اور پھر ہم سب اپنے اپنے ڈپارٹمنٹس چلے گئے۔کلاس یا لائبریری میں دل تو نہیں لگ رہا تھا، پھر بھی پانچ بجے تک کا وقت گذارناتھا۔دوپہر بعد ہم سب حسیب سے ملنے کیمسٹری ڈپارٹمنٹ گئے، لیکن وہ نہ ملا۔بلال نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’وہ پاگل پورا دن ذکریا مارکیٹ ہی میں گذار رہا ہوگا۔چلو وہیں چلتے ہیں۔‘‘
میں نے منع کیا۔
’’نہیں، اسے اکیلے ہی نپٹنے دو، شام کو شمشاد میں ملتے ہیں۔پتہ چل جائے گا، ابھی کوئی اس کو ڈسٹرب نہ کرے۔‘‘
سب دوست چلے گئے، لیکن مجھے حسیب کی بہت فکر تھی، کہیں لڑکی نے انکار کردیا تو وہ جذبات میں کچھ کرنہ بیٹھے، بہت کمزور دل کا ہے، میں نے سوچا، اور سائیکل اٹھا کر ذکریا مارکیٹ پہنچ گیا۔ابھی پانچ نہیں بجے تھےذکریا مارکیٹ کے ہر چائے خانے، جوس کارنر، اور کیفے میں میڈیکل کے اسٹوڈنٹس کی تعداد ہمیشہ ہی زیادہ رہتی تھی۔حسیب سڑک کے کنارے کھڑا ہوا نظر آگیا۔وہ مجسّم انتظار بنا ہوا میڈیکل کالج کے گیٹ کی طرف ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔شاید پورا دن اس نے ایسے ہی گذارا ہوگا۔تھوڑی دیر بعد وہ لڑکی آتی ہوئی دکھائی دی، حسیب کا ملول چہرہ ایک دم سے شگفتہ ہوگیا۔جیسے مرجھاتے ہوئے سہرے پر بارش کی پھوہار پڑ گئی ہو۔لڑکی نے سڑک کنارے بنے ہوئے سائیکل اسٹینڈ پر سائیکل کھڑی کی، زنجیر سے ا سمیں تالا لگایا۔کیرئیر سے موٹی سی کتاب اٹھا کر بغل میں دبائی، ڈوپٹہ اور اپرن ٹھیک کرتی ہوئی اسٹیتھوسکوپ کو موڑ کر مٹھی میں دبایا، حسیب کو اشارہ کیا اور ایک چائے خانے کے سامنے خالی کرسیوں کی طرف بڑھ گئی۔ حسیب بھی اس کے پیچھے پیچھے وہیں جا کے بیٹھ گیا۔وہ دونوں ایک دوسرے میں اتنے منہمک تھے کہ انھیں کسی کا موجودگی کا احساس ہی نہ تھا۔میں بھی ان کے قریب میں لڑکی کی پشت سے لگی ایک کرسی پر بیٹھ گیا۔دونوں کچھ دیر گم سُم بیٹھے رہے۔جیسے ایک دوسرے کے دلوں کی دھڑکنیں گن رہے ہوں۔پھر لڑکی نے کہا۔
’’تم ایک اچھے انسان لگتے ہو۔اور بہت اچھا اپنے دل کا حال بھی لکھتے ہو۔لیکن جو کچھ لکھا، کیا وہ سچ ہے؟‘‘
’’ہاں لفظ لفظ سچ ہے۔‘‘ حسیب نے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں سے کہا۔ میں بظاہر کتاب میں منہ چھپائے، بہت توجہ سے ان کی باتیں سننے لگا۔پھر لڑکی نے کہا۔
’’ میرا نام گیتی ہے، گیتی مخدوم چودھری۔۔۔، میری تین چھوٹی بہنیں اور ایک بھائی ہے۔میرے والد سعودی عرب میں ایک کمپنی میں معمولی ملازم ہیں۔والدہ اور چھوٹے بہن بھائی انہی کے ساتھ رہتے ہیں۔میں نے بڑی محنت کرکے میڈیکل میں داخلہ حاصل کیا ہے۔ہمارےخاندان میں کوئی بھی زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہے۔میری دادی چاہتی تھی کہ میں ڈاکٹر بنوں۔ ان کی خواہش پوری کرنے کے لیے میں نے دن رات بہت محنت کی ہے، اور تین بار کوشش کرنے کے بعد اس بار کامیاب ہوئی ہوں۔میں پورے انہماک سے اپنی پڑھائی پوری کرنا چاہتی ہوں۔ابھی عشق وشق کے چکر میں بالکل بھی نہیں پڑنا چاہتی۔یہاں میں اپنی پھوپھی، پھوپھا کے گھر، میرس روڈ پر حبیب منزل کے پیچھے بنے سروینٹ کارٹر میں رہتی ہوں، میرے پھوپھا یونیورسٹی میں عارضی ملازم ہیں۔ان کی تین بیٹیاں ہیں جو مجھے اپنا آئیڈیل سمجھتی ہیں۔جب میرے ابّا مجھے ان کے گھر چھوڑ کے جارہے تھے تو پھوپھا نے مجھ سے کہا تھا،’’گیتی بیٹا، تم پر ہماری جان بھی نثار ہے، ہم غریب ضرور ہیں مگر عزت والے ہیں۔کبھی کوئی ایسا عمل نہ کرنا جس سے ہمیں نیچا دیکھنا پڑے۔سبھی نے مجھے سمجھایا تھا کہ دل لگا کے پڑھنا، اور میں دل لگا کے پڑھنا چاہتی ہوں۔تم یقیناً ایک شریف آدمی ہوگے، اگر مجھ سے واقعی محبت کرتے ہو تو میرے پیچھے دوڑنا چھوڑ دو۔مجھے دل لگا کے پڑھنے دو۔میں وعدہ کرتی ہوں کہ پانچ سال بعد اپنی پڑھائی ختم کرکے تم سے ملوں گی ضرور، تب تک اگر انتظار کرسکتے ہو تو کرلینا۔ابھی یہ عشق ومحبت کا سلسلہ ختم کرو۔تم بھی اپنی پڑھائی مکمل کرو اور مجھے بھی کرنے دو۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھی، اپنی کتابیں کیریئر میں لگائیں، اسٹیتھوسکوپ گلے میں لٹکایا اور سائیکل پر سوار ہوکر چلی گئی۔ حسیب بہت دیر تک یونہی دم بخود بیٹھا رہا۔پھر میں نے اٹھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔اس نے چونک کر مجھے دیکھا، تعجب سے پوچھا۔
’’تم یہاں۔کیا تم نے اس کی باتیں سنیں؟‘‘
’’ہاں میں نے ساری باتیں سن لیں۔‘‘
ہم دونوں شمشاد مارکیٹ جانے کی بجائے میرے ہاسٹل پہنچے، شمشاد مارکیٹ میں انور، وسیم، طاہر، علیم اور بلال ہمارا انتظار ہی کرتے رہ گئے۔
کئی دنوں تک ہم سب دوست ایک ساتھ ہو کر نہیں ملے۔سبھی کو میں نے پوری روداد بتا دی تھی۔بہت دنوں کے بعد ہم سب خالہ کے ہوٹل پر اکٹھا ہوئے۔حسیب سڑک کی طرف پیٹھ کرکے بیٹھا رہا۔اسطرح کہ سڑک سے گذرنے والوں کو نہ دیکھ سکے۔گیتی سائیکل سے گذری۔ہم سب نے دیکھا۔اس نے بھی ہم لوگوں کو دیکھا، مگر حسیب نے مڑ کر بھی نہ دیکھا۔سبھی دوستوں کے خیالات مختلف تھے۔
انور نے کہا،’’لڑکی سمجھدار بھی ہے اور ذمہ دار بھی۔‘‘
طاہر کا کہنا تھا،’’ جو بھی ہو، ہے بہت خوبصورت، شاید اس کو اپنے حسن پر بہت زیادہ گھمنڈ ہے۔‘‘
علیم نے کہا،’’ ایک مرتبہ ڈاکٹر بن جائے تو بھابی کے روپ میں ہم سب کے دلوں کا علاج کرے گی۔‘‘
بلال کہنے لگا۔
’’ارے کچھ نہیں یار، بیوقوف بنا رہی ہے ہمارے دوست کو۔کسی طرح پیچھا چھڑانے کے لیے یہ سارے ڈائیلاگ رچے ہیں۔پانچ سال بعد انتظار کرنے کے بعد ٹھینگا دکھا کر غائب ہوجائے گی۔یہ سب فضول ہے۔اس دور میں مجنوں، فرہاد اور رانجھا بننا سراسر حماقت ہے۔‘‘
سب دوست اٹھ کر بکھر گئے۔اپنی اپنی مصروفیات میں گم ہوگئے۔وقت بیتا، موسم بدلے، بارشوں نے سڑک سے سائیکل کے پہیوں کے نشانات دھو ڈالے۔خالہ کے ہوٹل پر پابندی سے تو نہیں لیکن کبھی کبھی آنا ہوجاتا تھا۔نئے نئے گاہکوں نے اڈا جما لیا۔انور،طاہر، وسیم اور علیم اپنی تعلیم مکمل کرکے، برسرِ روزگار ہوکر سرزمین علیگڑھ کو الوداع کہہ گئے۔ایک بار جو گیا پھر رابطے میں نہ رہا۔میں حسیب اور بلال رہ گئے۔کبھی کبھی گیتی پر نظر پڑ جاتی۔اب وہ زیادہ مصروف ہوگئی تھی۔اس کی وارڈ میں بھی ڈیوٹی لگنے لگی تھی۔اس کے آنے جانے کا وقت بھی مقرر نہ تھا۔سائیکل کی جگہ اب وہ موپیڈ چلانے لگی تھی۔لیکن جب بھی خالہ کے ہوٹل سے گذرتی، ایک اچٹتی سی نظر ڈال لیتی کہ ہم میں سے کوئی نظر آجائے۔
پھر ایک روز حسیب کے گھر سے تار آیا۔اس کے والد سخت بیمار تھے۔اس کو فوراً گھر بلایا تھا۔اگرچہ حسیب MScکرچکا تھا لیکن وہ پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا۔بلالBotanyمیں ریسرچ کرنے لگا تھا۔میں بھی پی ایچ ڈی میں رجسٹریشن کرواچکا تھا۔حسیب گھر چلا گیا۔کئی مہینوں بعد اس کا خط آیا کہ اس کے والد کا انتقال ہوگیا اور والد کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے اپنی پھوپھی زاد سے مجبوراً شادی کرنی پڑی۔اب وہ نوکری کے سلسلے میں آسٹریلیا جارہا ہے۔
لڑھکتے، لڑکھڑاتے پانچ سال بیت گئے۔ایک روز میں اور بلال خالہ کے ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔خلاف توقع اچانک ایک موپیڈ آکر رکی۔ڈاکٹر گیتی مخدوم چودھری ہمارے سامنے کھڑی تھی۔
’’حسیب کہاں ہے۔میں کئی دن سے یہاں آکر اسے ڈھونڈ رہی ہوں۔میراMBBSکورس پورا ہوگیا۔انٹرن شپ اور ہاؤس جاب بھی مکمل ہوگیا۔امریکہ کے ایک میڈیکل کالج میں مجھےMSکے لیے داخلہ بھی مل گیا۔امریکہ جانے سے پہلے میرے والدین میری شادی کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے میری پسند پوچھی ہے۔میں نے حسیب سے شادی کرنے کی خواہش انھیں بتا دی ہے۔وہ تیار ہیں۔میرے پاس اب صرف تین دن کا وقت ہے۔اگر وہ نہیں آیا تو اس سے کہہ دینا، میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے، مجھے الزام نہ دینا۔‘‘
ختم شد
رخسانہ نازنین
ایک خوبصورت اور دل چھو لینے والا افسانہ۔ وعدہ نبھانے کا انوکھا انداز، کسی نے مجبوری میں راہ بدل لی اور کوئی راہ دیکھتا رہ گیا۔ ! ایک لڑکی کی سچی، کھری محبت جو مقدس تھی اور مقدس ہی رہی۔ مدتوں یاد رہ جانے والا افسانہ۔
اقبال حسن آزاد
یہ دیکھ کر حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ اس پر آشوب دور میں بھی لوگ رومانی افسانے لکھ رہے ہیں۔
"وعدہ"رواں اسلوب میں تحریر کردہ ایک عمدہ افسانہ ہے۔زبان بڑی پیاری ہے اور رومانی قصے کے حسب حال ہے۔عیگڈھ کا وہ نقشہ کھینچا ہے کہ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں اور سب کچھ نظر کے سامنے پھر گیا۔کلائمکس منطقی ہے اور اس میں چونکانے والی کوئی بات نہیں ہے۔
معین الدین عثمانی
"وعدہ ہے" افسانہ پڑھتے ہوے ایسا لگ رہا تھا کہ غیاث الرحمن صاحب ہمارے سامنے بیٹھے حسیب کی بے باک ،صاف ستھری ، اور سچی محبت، کی داستان سنا رہے ہیں۔
ایک طرف خلوص بھری محبت اور دوسری طرف بیانیہ کی سادگی نے کچھ نہ ہوتے ہوے بھی محبت کے احساس، اور اس کی معنویت کی دبیز چادر میں لپیٹ کر افسانے میں بہت کچھ سمو دیا ہے۔در حقیقت وصل کے دیوانوں کی بجاے ہجر کے شیدائیوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے والا یہ افسانہ اپنی سادگی کے سبب یادگار تحریر کا نمونہ بن گیا ہے۔تاریخ کے بے شمار واقعات گواہ ہیں کہ محبت پانے کے سبب نہیں بلکہ کھونے کی بدولت جاودانی کے درجہ پر فائز ہوی ہے۔
غور کیا جاے تو غیاث الرحمن کی اس کہانی کی کامیابی کا راز انکی تحریر کی روانی میں پوشیدہ ہے۔
سچے واقعات کو دلی کیفیات کے ساتھ بیان کرنے سے ہی اس طرح کی کہانیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔جو قلمکار کے ہمراہ قاری کے دل میں بسیرا کرلیتی ہے۔
خوبصورت اور خوب سیرت کہانی کی پیشکش پر غیاث الرحمن صاحب کو دلی مبارکباد۔
اکبر عابد
افسانہ۔افسانہ وعدہ ہے۔افسانے میں محبت کے احساس کوپراثر انداز میں معنویت کےساتھ پیش کیا گیا ہے جذبات کی ترجمانی کو بڑی سادگی سے افسانے میں سمودیا ہے افسانہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہاکہ قلمکارروبرو ہوکر کہانی سنارہے ہیں۔آافسانے کی زبان بڑی پیاری لگی رواں دواں افسانہ ہے اس افسانے کا سحر قاری کو محسور کردے گا۔جملوں کی ساخت بہت اچھی ہے بیانیہ کا انداز بھی خوب ہے. ایک بہترین افسانے کے لئے غیاث الرحمان صاحب کو بہت بہت مبارکباد اورنیک خواہشات۔۔۔
محمد یحییٰ جمیل
سید غیاث الرحمن صاحب کا افسانہ "وعدہ ہے" کالج لائف کا عطر ہے۔ دل و دماغ کو بھینی بھینی خوشبو سے مہکا دینے والا۔ کالج/یونیورسٹی میں پڑھ چکا شاید ہی کوئی فرد خود کو اس سے مربوط نہ پائے۔ پلاٹ، کردار اور ماحول کے بیچ توازن کا اہتمام قابلِ داد ہے۔ افسانہ بہت اچھا لگا۔ بہت بہت مبارک۔
وحید امام
غیاث الرحمن صاحب کا افسانہ دل کو چھو گیا۔ افسانے کی روانی کے لیے یقیناً وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ماضی کی دھند میں لپٹی یادیں شعور کی سطح پر دستک دینے لگیں۔ کالج کا زمانہ نظروں کے سامنے گردش کرنے لگا۔افسانوں اورداستانوں میں اکثر لڑکی کو خود غرض، مطلب پرست، اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام جائز اور ناجائز طریقوں کا استعمال کرنے والی بتایا گیاہے مگر اس افسانے میں غیاث الرحمن صاحب نے ایک سیدھی سچی اور وعدہ وفا کرنے والی لڑکی کی صاف ستھری امیج اس طرح بیان کی کہ قارئین بھی اس لڑکی کے سحر میں گرفتار ہو گئے اور میرے خیال میں یہ افسانے کی کامیابی کی دلیل ہے۔افسانے میں تمام جزئیات کو جس مشاقی اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس کی تعریف نہ کرناناانصافی ہوگی مگر کلائمکس متاثر نہ کر سکا۔ جب لڑکی 'وعدہ وفا' کرنے کے موڈ میں تھی تو اس نے حسیب سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری کیوں نہ رکھا؟ پہلا خط بھی لڑکی نے اپنی بے باکی اورہمت سے حاصل کیا تھا اگر اسے حسیب کا ہی ہونا تھا تو اس نے حسیب کی خیر خبر کیوں نہ لی؟ لڑکیاں جنھیں اپناسمجھتی ہیں اس کے بارےمیں تمام چیزوں سے آگاہ رہنا فرض اولین سمجھتی ہیں اور یہ چیز ان کی فطرت میں بھی شامل ہوتی ہے۔ باوجود اس کے ایک متاثر کرنے والا افسانہ ہے۔
نصرت شمسی
افسانہ کا بیان بہت دل چسپ ہے۔ حسیب کے دل کا حال نہایت عمدہ اور حقیقی انداز میں پیش ہوا لیکن ساتھ ہی افسانہ طویل بھی محسوس ہوا۔ چلتے چلتے قاری لڑکی تک بہنچ جاتا ہے اور اس کا دل حسیب کی طرح ڈھکڑنے لگتا ہے کہ لڑکی کے تاثرات مذید جان پیدا کرنے والے ہیں مگر وہاں تو بڑا عجیب واقعہ ہوا۔ایک اجنبی لڑکی نہ گھبراںی نہ لجائی اور بے دھڑک جذبات سے آری انداز میں خط لیتی ہے اور پھر اس کی تلاش میں بھی نکل پڑتی ہے۔بغیر جانے ایک با شعور لڑکی ایسا بھروسہ کرکے وعدہ کر لیتی ہے۔اصل رومانی افسانہ جس جگہ قاری محسوس کرنا چاہتا ہے وہاں سے تشنہ لوٹ آتا ہے۔۔ایسا کیوں،؟
اور پھر مدت گزر جانے پر پھر پیغام دینے یوں چلی آتی ہے جیسے قرضہ اتارنا ہو۔۔۔نہ رابطہ نہ پیغام سلام۔۔یہ کیا ہوا،؟ بس یہیں یے وہ لذت ذرا بدلتی ہوئی محسوس ہوئی۔جس پر غور کیا جا سکتا ہے۔شاید ابنے افسانے کو جلد منزل تک پہچانے میں مصنف کے قلم نے بغیر سوچے سمجھے افسانہ انجام تک پہنچا دیا۔۔مجھے ایسا محسوس ہوا۔ سلامتی کی دعائیں اور بہت مبارک باد!
ناہیدطاہر
اس افسانے میں عشق کا انداز بالکل جدا ہے۔۔
محبت کی تڑپ، معشوق کا بانکپن اور پیار کی کسک کسی جذبے کا کوئی اظہار نہیں۔۔
اس کے باوجود لڑکی وعدہ وفا کرنے میں کامیاب رہی۔۔وااہ کیا بات ہے۔
تجسس اور نہ ہی زیست کی کسی قسم کی الجھنیں۔۔۔بس افسانہ آگے بڑھتا چلا گیا۔
لڑکی جب زندگی کے اہم ترین مقصد میں کامیاب ہوئی تو اس نے عشق کی معراج کو پانا چاہا۔۔۔اختتام نہایت ہی سادہ،قاری کے لیے کوئی تجسس اور چونکا دینے والی بات نہیں تھی۔
ڈاکٹر رضوان الحق
اس جدید زمانے میں عشق کے انداز اور آداب بہت بدل گئے ہیں۔ ایسے میں جب کوئی پرانے انداز کا عشق پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہی ماضی میں ہم کہیں کھو گئے ہیں۔ البتہ جس زمانے کی کہانی محسوس ہو رہی ہے اس وقت کی لڑکیوں کا جو عام تصور ہے، یہ لڑکی اس سے بہت مختلف ہے لیکن افسانہ تبھی ہوتا ہے جب کوئی معمول سے مختلف بات یا شخص ہو، ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے میں ایسی لڑکیاں بالکل نہ ہوتی ہوں۔
افسانے کی تکنیک اور زبان و بیان حسب توقع بہت عمدہ ہے۔ "بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔" غیاث الرمن کی ان خوبیوں سے ہم سب پہلے سے واقف ہیں اور اس افسانے میں بھی وہ ساری خوبیاں موجود ہیں۔ اس کامیاب افسانے کے لیے مبارک باد۔
سدی ساجدہ جمال
گیتی کا آخر میں اس چائے کی دکان پر آنا اور مثبت جواب دینا
دل پر منوں بوجھ ڈال گیا۔۔
محبت کی نہیں جاتی
ہو جاتی ہے حسیب کو بھی ہوئی
لیکن شاید مجبوری غالب آ گئی۔۔
دوستوں کی چھیڑ چھاڑ ہنسی مذاق روٹھنا منانا۔۔۔
ایک الگ ہی ماحول میں ذہن منتقل ہو گیا۔۔۔
افسانہ پڑھتے پڑھتے ایسا محسوس ہوا جیسے میں بھی اسی کا ایک کردار ہوں۔
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
عشق کی جزبے میں ڈوبا افسانہ۔پرانے دور کا اعلیٰ اخلاقی قدرومنزلت سے مزیّن افسانہ۔جہاں ہر کدار اپنی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت پیش کرتا ہوا نظر ہوتا ہے۔ یاروں کی خوبصورت نوک جھونک دلچسپی سے بھرپور ہے۔اس گفتگو سے ایک واقعہ یاد آیا جو فاروق عبداللہ صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "جب وہ جیپور میڈیکل کالج سے پڑھائی کر رہے تھے تو پاس میں ہی مہارانی کالج تھا۔ ہم قریب کی ہوٹل پر شام کی چائے پیتے ہوئے کالج کی لڑکیوں کو جاتے ہوئے دیکھنے میں بتاتے تھے۔"
یہ نوجوانی کے شوخ رنگ ہوتے ہیں۔ اس افسانے کی ہیروئن بہت سمجھدار ہے۔ حقیقت میں زنگی کا نصب العین ہونا چاہیے۔لڑکی کی سمجھداری اس کی گفتگو سن کر کر ایسا لگا گویا یہ میرے دل کی آواز ہے۔
حسیب کا وعدے کی پاسداری بہت پسند آئی۔ عشق کا انجام اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔
آغاز میں کچھ غیر ضروری جملوں نے کہانی کو طویل کر دیا۔
یوں افسانہ اوّل تا آخر دلچسپ ہے۔غیاث صاحب کو مبارکباد۔
ام مسفرہ
افسانہ "وعدہ ہے" سادہ سلیس عشقیہ افسانہ ہے۔ زبان و بیان کی عمدگی کی وجہ سے قاری خود کو بھی اس کہانی کا حصہ سمجھتے ہوئے غرق ہوجائے گا۔ یونیورسٹی میں دوستوں کا آپسی رشتہ، ہاسٹل لائف اور محبت کی کہانی اس افسانے کے پہلو ہیں۔
پہلے پہل راوی نے اپنی صاف صفائی اور چائے کا جو ذکر کیا ہے وہ ذائد محسوس ہوا کیونکہ بعد میں ان باتوں کا کہیں کچھ کام بھی نہیں تھا لیکن خیر کہانی میں بے جا طوالت کے عناصر کبھی کبھی دلچسپی بڑھاتے ہیں کہ آخر تک پڑھا جائے۔
اچھی بات یہ رہی کہ بے وفائی نہ ہوئی بس مجبوری تھی۔
ایم بی بی ایس کی طلبہ کا پڑھائی پر فوکس اور دوران میں کسی ڈاکٹر ہی سے عشق یا شادی رچا کر بے رخی نہ کرنا اور وعدہ نبھانا افسانہ میں ایک سچے اور مضبوط کردار کی تکمیل ہے۔
حسیب جیسے کئی نوجوان ہوتے ہیں جو والدین یا گھر کے بزرگوں کی آخری خواہش پوری کرنے میں ان کے احسانات کا اچھا بدلہ دینے میں اپنی محبت قربان کرتے ہیں۔ ایسے فرمانبردار کردار نیک نیتی کا ثبوت تو دیتے ہیں لیکن دل ان کے اندر سے ٹوٹے اور کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔ اگر حسیب کی کچھ ان کیفیات کا ذکر ہوتا تو افسانہ میں درد اور بڑھ جاتا۔ مبارکباد
ترنم جہاں شبنم
"مجھے عشق ہو گیا ہے۔" وعدہ ہے" کا سارا رومان اس جملے سمٹ آیا ہے۔ خود پر یہ انکشاف ہو جانا ہی ایک بڑا حادثہ ہے اپنے لئے بھی اور اپنے ساتھ والوں کے لئے بھی۔ افسانہ کا پہلا جملہ اتنا رومانی ہے کہ قاری اس رومانی فضا میں خود بخود آ گے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جہاں آج کے دور سے ہٹ کر، کچھ وقت پہلے کی محبت اپنے دور کا قصیدہ پڑھتے ہوئے آج کی محبتوں کے اظہار پر نوحہ خوانی کرتی نظر آتی ہے۔۔۔
حسیب اور گیتی کی محبت اپنے دور کا تعارف ہے جس زمانے میں ایسی ہی سیدھی سچی محبتیں ہوا کرتی تھیں۔ جو کالج، یونیورسٹی میں تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا۔۔۔ یا ہونٹوں سے چُھو کر تم میرا گیت۔۔۔ سے شروع ہو کر کوئی وعدہ نہیں پھر بھی نگاہِ راہ تکتی ہیں چلے آؤ۔۔۔ تک چلتی تھیں۔ جو اپنے مقصد اور خاندانی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے عجیب داستان ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم۔۔۔ پر ختم بھی ہو جاتی تھیں۔ جہاں صرف ایک احساس کے سارے ایک رششہ قائم رہتا تھا نصیب سے ملے تو ٹھیک ورنہ سب کی اپنی منزل سب کے اپنے راستے۔۔۔ نہ بیوفائی کا شکوہ نہ وفاداری پہ نازاں، بس ایک احساس کا سانسوں میں مہکتے رہ جانا ہی عشق تھا۔ وہی عشق وعدہ ہے میں شروع سے آخر تک اپنی جلوہ افروزیوں کے ساتھ مہکتا رہا، جس کی رومانی فضا سے قاری محظوظ ہوتا رہا بس تھوڑی طوالت ضرور محسوس ہوئی۔ بزم افسانہ کی پیش کش رنگ و بوئے باراں (رومانی افسانے) ایونٹ کا ایک بہترین افسانہ۔۔۔ کامیاب ایونٹ اور بہترین افسانہ کی پیش کش پر سید غیاث الرحمٰن صاحب اور منتظمین بزم کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
ریحان کوثر
سید غیاث الرحمٰن صاحب کا افسانہ وعدہ ہے ایک عمدہ اور خوبصورت افسانہ ہے۔ شاید ہی کوئی اس کی قرآت کے بعد یادوں کے جھروکوں سے گزر کر اپنے کالج یا یونیورسٹی کے کیمپس میں نہ پہنچے۔
یہ خوبصورت زبان و بیان اور شاندار جزیات نگاری اور منظر نگاری سے مزین ایک کامیاب افسانہ ہے۔ ہوسٹل کے کمرے اور خالہ کی ہوٹل کی غضب کی جزیات نگاری کے ساتھ منظر نگاری پیش کی گئی ہے۔ ڈاکٹری کرنے والی لڑکی اور خالہ کے حلیے کو خوبصورتی اور بڑی ہی مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ سبھی کرداروں کے مکالمے بھی کرداروں کے عین مطابق ہے۔ ہوسٹل کے کمرے کو مسجد بنانے والا مکالمہ یا راوی کا خالہ کی ہوٹل کے سبھی سالن کے ایک جیسے ذائقے کا بیان لطف دے گیا۔ راوی کا حسیب کے نام سے لکھا گیا خط بھی نپا تلا اور ایکدم سٹیک ہے۔ حسیب اور ڈاکٹری کرنے والی لڑکی کا کردار بالکل فطری اور حقیقی معلوم ہو رہا ہے۔ افسانہ پڑھ کر شدت سے محسوس ہوا کہ سو فیصد یہ افسانہ ایک حقیقی واقعے پر لکھا گیا ہے۔
افسانہ کے تمام منظر پر غور کرنے کے بعد یہ صاف ظاہر ہے کہ افسانے میں انیسویں صدی کی ساتویں یا آٹھویں دہائی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ پرانی محبت کا طرز عمل صاف دکھائی دے رہا ہے۔ آج اکیسویں صدی کی پہلی دوسری اور تیسری دہائی میں محبت کرنے والوں کے لیے یہ افسانہ لکھا گیا ہے جو اپنے پیغام اور پاکیزہ محبت کے احساس کو ابھارنے میں بالکل کامیاب نظر آ رہا ہے۔ علی گڑھ کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ افسانوں میں علی گڑھ اس موضوع پر جب بھی کام کیا جائے گا اس افسانے کو نمایان مقام حاصل ہوگا۔
سید غیاث الرحمٰن صاحب کو مبارکباد اور ایونٹ میں شرکت کے لیے بھی مبارکباد اور نیک خواہشات 🍁
ڈاکٹر انیس رشید خان
محترم سید غیاث الرحمن صاحب ایک بہترین افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ آپ میرے پسندیدہ ناول نگار و افسانہ نگار ہیں۔ حال ہی میں شائع ہوا آپ کا ناول "ڈھولی دگڑو ڈوم" کورونا وبائی دور کی بہترین عکاسی کرتا ہوا ایک یادگار ناول ہے۔
زیر نظر افسانہ "وعدہ ہے" ایک بہترین رومانی افسانہ ہے۔ اس کا عنوان ہی اپنے آپ میں رومانیت لئے ہوئے ہے۔
افسانے کو پڑھتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے آس پاس محسوس کیا۔ بہترین منظر نگاری کی گئی ہے جس کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ خود بھی وہیں کہیں موجود ہیں۔ اس افسانے کا راوی ایک کیمرہ مین کی طرح ہر اس مقام پر پہونچ جاتا ہے جہاں مرکزی کردار حسیب ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ افسانے کا یہ پہلو بھی پڑھتے وقت بہت اچھا لگتا ہے۔
اس افسانے میں مرکزی حیثیت میں جس لڑکی کا کردار پیش کیا گیا ہے وہ اتنا مضبوط اور بلند ہے کہ کیا کہیں۔ آخری حصے میں جب وہ لڑکی اپنا کیا ہوا وعدہ نبھانے کے لیے آتی ہے تب اس کا قد بہت بلند ہوجاتا ہے۔
بہترین افسانہ ہے جو یقیناً ہمیشہ یادوں میں محفوظ رہے گا۔ محترم سید غیاث الرحمن صاحب کو اس شاندار افسانے کے لئے بہت بہت مبارک باد 🌹
اسرار گاندھی
کہانی "وعدہ ہے" پڑھ لی۔ اس کہانی کے تعلّق سے اتنا لکھا جا چکا ہے اور اتنی تعریفیں ہو چکی ہیں کہ اب میرے لیے لکھنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ جو بھی تعریفیں کی گئیں بلکل مناسب لگیں۔ غیاث خوبصورت زبان لکھتے ہیں۔ اُن کی زبان میں ایک musical flow رہتا ہے جو قاری کے احساس جمال کو بہت مطمئن کرتا ہے۔
اس کہانی کے دو اہم کردار حسیب اور Geti اپنے طرز عمل میں مکمل نظر آتے ہیں۔ شاید اب Geti جیسا کردار مشکل سے ہی مل سکے۔ نا معلوم وہ کن کن صورت حال سے گزری ہوگی مگر اپنے موقف پر مضبوطی سے ٹہری رہی۔ دوسری طرف حسیب نے بھی بات نبھائی اور اس کی وجہ سے Geti کو کسی طرح کی پریشانی سے نہیں گزرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ حسیب کو Emotional black mailing کا شکار ہونا پڑا۔
کمال یہ ہے کہ کہانی کسی لمحے میں بھی کہانی کار کی گرفت سے باہر نہیں نکلی۔
ایک آخری بات یہ کہ کہانی کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی ہے۔ علیگڑھ کے ماحول کے بیان سے کچھ زیادہ ہی وقت کا زیاں ہوا۔
اس کہانی کے لیے میں اپنے عزیز دوست کو ڈھیروں مبارک باد دیتا ہوں۔
ڈاکٹر فیروز عالم
بہت پیارا افسانہ۔
افسانہ نگار شروع سے آخر تک اس میں دلچسپی قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ عنفوان شباب کے عشق کی واردات کی دلکش اور حقیقی انداز میں پیش کش "وعدہ ہے" کو قاری کے دل سے قریب تر کردیتی ہے۔ اس افسانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس اور اس سے متعلقہ جزئیات بے حد فطری انداز میں بیان کی گئی ہیں۔ خالہ کے ہوٹل کا ذکر تو اس قدر دل پذیر ہے کہ محسوس ہوتا ہے ہم وہیں موجود ہیں اور خالہ ہمیں ڈانٹ رہی ہیں۔ جو لوگ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں، انھیں یہ افسانہ مزید اپیل کرے گا۔ سچے پیار کا یہ فسانہ اپنے فطری انجام کو پہنچتا ہے۔ حسیب اور گیتی کی اگرچہ شادی نہیں ہوپاتی لیکن اس کا المیہ انجام بھی قاری کو متاثر کرتا ہے۔
افسانہ اس جملے پر ختم ہوجاتا تو بہتر تھا۔ "میں نے حسیب سے شادی کرنے کی خواہش انھیں بتا دی ہے۔ وہ تیار ہیں۔میرے پاس اب صرف تین دن کا وقت ہے۔"
میری راے میں مندرجہ ذیل جملے کی ضرورت نہ تھی۔ " اگر وہ نہیں آیا تو اس سے کہہ دینا، میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے، مجھے الزام نہ دینا۔"
اس عمدہ افسانے کی تخلیق کے لیے افسانہ نگار محترم غیاث الرحمٰن سید کو دلی مبارک باد
فریدہ نثار احمد انصاری
ایک معصوم سی محبت۔۔ایک بھولا بھالا عشق۔
قلم کار نے انیسویں صدی کے چھٹی ساتویں دہائی کے کالج کے دور کو موضوع بنایا۔علی گڑھ کے قرب و جوار کی منظر کشی خوب کی۔اس دور کے خط کو محبوب تک پہنچانے کے لئے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ساتھ محبوب کی ہمت کے لئے دوست فکر مند ہوتے تھے اس کو یوں قرطاس پر اتارا کہ قاری بھی ان میں شامل ہو گیا۔
"بارشوں نے سڑک سے سائیکلوں کے نشانات دھو ڈالے۔"
اس جملے نے کیا ہی خوبی سے کالج کے پانچ سالوں کو سمیٹ لیا۔
حسیب نے وعدہ کیا ہی نہیں تھا صرف اپنے عشق کا اظہار کیا تھا جس میں وہ کردار کامیاب رہا۔
اور جس نے وعدہ کیا اس کی بلند ہمتی کہ کالج کے اختتام پر آکر اپنا وعدہ وفا کرنا چاہا۔
قلم کار نے اس کردار کو بھی عمدگی سے ضبط قلم کیا کہ اس نے نہ صرف حسیب سے اپنا وعدہ نبھانا چاہا بلکہ اپنے ماموں کے قول کی بھی پابند رہی۔کوئی کام اس نے ایسا نہیں کیا جس سے ان کی عزت پر آنچ آئے۔
یہ دونوں باتیں کہ جس میں اپنوں کی ناموس کا خیال اور محبت بھی ساتھ ساتھ ہو کسی کردار کو اوج ثریا تک پہنچاتی ہے۔
سنا یہ ہے کہ
جب لڑکیاں ڈائیسیکشن ٹیبل پر سرجری کرنے لگتی ہیں تب ان کے جذبات، احساسات، ہمدردیاں ختم تو نہیں لیکن کم ضرور ہو جاتی ہیں۔
یہی بات اس کردار کے ساتھ ہو لیکن پھر بھی اس نے وعدہ نبھایا۔
وعدہ نبھانا آسان نہیں ہوتا خاص طور پر ایک لڑکی کے لئے۔
قلم کار نے عنوان کو اسی کردار کی بلند ہمتی کے نام کر اس کردار سے انصاف کیا۔
مبارک باد و نیک خواہشات۔
پروفیسر غضنفر
صاف ستھری، شگفتہ زبان میں نرم و نازک جذبات و احسات پر لکھی گئی پُر اثر اور کامیاب کہانی کے لیے غیاث الرحمان کو مبارک باد
نگار عظیم
"رنگ و بوئے باراں "بہت ہی خوبصورت نازک رواں دواں ایک عشقیہ افسانہ . عشق کا کوئی وقت نہیں ہوتا کوئی مقام نہیں ہوتا کوئی مزہب نہیں ہوتا۔ بس وہ تو چپکے سے وجود میں داخل ہوکر اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور پھر منزل ملے نہ ملے بھلائے نہیں بھولتا۔ یہ عشق نے بھی موجودہ وقت میں چولے بدل لئے ہیں۔ رنگ روپ بدل لئے ہیں اور گھٹیہ پن پر اتر آیا ہے۔ ایسے میں اس طرح کے افسانے راحت بخش بھی یوتے ہیں اور ماضی کو بھی زندہ کر دیتے ہیں۔ افسانہ طویل ہونے کے باوجود قاری کو چھوڑتا نہیں اختتام تک ساتھ لئے چہل قدمی کرتا ہے۔ ابتدا میں طوالت کم کی جاسکتی ہے۔ لیکن مشکل ہے کیونکہ وہ تخلیقکار کے مزاج کے مطابق ہی سفر کرتا ہے اور یہ ٹھیک بھی ہے۔ اس افسانے میں عشق کا ابال دودھ کے ابال کی طرح چڑھتا ہے اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ وجہیں تو ہوتی ہی ہیں ورنہ ملاپ نہ ہو جائے۔ عشق کے رنگ مختلف ہیں۔ بہر حال مجھے افسانہ پسند آیا۔ بہت بہت مبارک۔
ڈاکٹر فریدہ تبسم
مذکور افسانہ۔۔"وعدہ ہے"
یہ افسانہ دراصل اس کی کہانی
محبت کی ادھوری کہانی۔۔۔مگر دلچسپ انداز میں پیش کی گئی ہے قاری کو باندھ کر رکھنے میں کامیاب ہے مگر رومانی فضا کی کمی محسوس ہوئی۔اس کے باوجود ناکام عشق کی داستان نے" وعدہ ہے" کو پوری شدت کے ساتھ وعدہ نبھایا۔کرداروں کا رول بہت عمدگی سے ادا کیا گیا ہے کہ قاری کئی سال پیچھے کے دور میں چلا جاتا ہے۔تعجب تو اس بات پر ہوا کہ کیا دور تھا وہ بھی۔۔۔ جہاں سب کچھ سامنے رہتے ہوئے بھی اپنے اخلاقی حدود پار نہیں کئے۔اور جو وعدہ کیا پانچ سال بعد نبھانے کے لئے آگئے۔اس افسانہ کی خوبی بلند عزائم اور اپنے مقصد کو پانے اور ذمہ داری نبھاتے یہ کردار اپنی شرافت میں ہلکا سارومان انگیز ماحول کا عکس دکھا گئے۔کردار حقیقت سے قریب نظر آتے ہیں جہاں یہ واقعہ شاید ہوچکا ہو۔۔۔
خیر اس افسانہ میں قاری کو گرفت میں لے کر اپنے دوست کی روداد سنانے والی کیفیت۔۔۔ سا احساس ہوتا ہے۔
اس افسانہ پر ہم افسانہ نگار کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔ تبسم۔۔😊
محمد سراج عظیم
اس سے پہلے کہ میں افسانہ پر بات کروں، اپنی دھدھیال کے دالان سے لگے لکڑی کے نقشین تھمبو پر ٹکے ٹین کے بنے برآمدے کے کونے سے ملحق کوٹھری جو تایا اور گھر کے بڑوں سے چھپ کر شمع، بیسویں صدی، جاسوسی دنیا، بانو، روبی، خاتون مشرق، اور کچھ رومانی ناول پڑھنے کی اندھیری اور ٹھنڈی جائے پناہ تھی۔ جب شرفاء کے خاندانون میں یہ رسائل آتے تو تھے مگر نوجوانوں لڑکے لڑکیوں کو بالکل شجر ممنوعہ کے مترادف ان کے قریب جانا بھی سزائے ابلیس سے کم نہ تھا۔ اس کوٹھری سے سید غیاث الرحمٰن کو اشاروں سے محبت بھرا سلام۔۔۔ اب پتہ نہیں غیاث الرحمٰن اس کوٹھری کے روشن دان سے آتی ہوئی ہلکی سی روشنی میں میرے اشارے کو دیکھ پائیں گے کہ نہیں مگر میں نے ایک زمانہ آنکھیں گڑو گڑو کر پڑھا ہے۔ نتیجتاً عشق کی گلیاروں، محبت کے سبزہ زاروں اور عشق و محبت کی بہاروں کے مختلف رنگوں کو قریب سے دیکھنے کی عوض آنکھوں پر عینک کا اضافہ بھی ہوگیا۔ بہرحال
غیاث الرحمٰن صاحب نے اسی کی دہائی جب رومانی افسانے عروج پر تھے۔ اس زمانے کی نہ صرف یاد تازہ کردی بلکہ اس ڈاکٹر گیتی اور حسیب کی حسرت بھری محبت کے نائف سے آپریشن محبت کرکے پھر سے زخموں کو ہرا کردیا اور محبت کی لافانی داستان کے کئی شاہکار افسانے ذہن و قلب کے سرد خانوں سے تروتازہ نکل کر اپنی ہوش ربا داستانوں کا سحر و سرور بکھیر گئے۔
غیاث صاحب کے افسانے ان کی زبان، بیانیہ، الفاظ کی درو بست سب جیسے کانوں میں بجتا جل ترنگ۔ غیاث الرحمٰن صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا جو کلچر تھا۔ اس کی منظر نگاری میں کسی بھی طرح کے مبالغہ سے کام نہیں لیا بلکہ ایسی مشاقی سے اس کو الفاظ میں باندھا ہے کہ اگر جس نے بھی علی گڑھ یونیورسٹی میں دن گزارے ہیں یا ہلکہ سا بھی شائبہ ہے تو وہ اے ایم یو کے کلچر کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اے ایم یو ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک تہزیب تھی جسکی اپنی ایک انفرادیت تھی۔ اے ایم یو کا سائیکل اور چائے کلچر تاریخ میں حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔ شمشاد مارکیٹ اور تصویر محل سنیما، میڈیکل کالج اور لائبریری ان کی فضاؤں میں لاکھوں کامیاب اور ناکام کہانیاں مرغولوں کی شکل میں ملیں گی۔ خالہ کا ہوٹل جیسے کئی ہوٹل جہاں پوری یونیورسٹی کے طلباء کے کھاتے تھے۔ کمال یہ تھا کہ کبھی ہوٹل والے تقاضہ نہیں کرتے تھے۔ دنیا ہی الگ مگر واقعتاً بہت سنجیدہ، ذہین اور اپنے سبجیکٹ میں ماہر طالبات اور طلباء۔ کسی نے اعتراض کیا کہ ڈاکٹر بننے والی لڑکی اس طرح کی محبت کرتی ہوگی شائید اس زمانے میں ایسا ہوتا ہو۔ یہ سچ تھا ایسی ہی مسلم تہذیب تھی یہی لحاظ اور شرم تھا۔ میں نے کہا نا اے ایم یو میں ایسی ہزاروں کہانیاں فضا میں گردش کرتی ہوئی ملیں گی۔ غیاث الرحمٰن صاحب نے اپنے خوبصورت انداز تحریر سے ایک سچی کہانی کو جس جزئیات نگاری، منظر نگاری اور اپنے قلم کے برش سے کہیں کہیں جذبات کے جن گہرے رنگوں سے پینٹ کیا ہے۔ اس نے وعدہ رہا کی چبھن کو مزید گہرا نشتر زدہ کردیا۔ بہرحال۔ ڈاکٹر گیتی جیسی شرافت و حیا کا پیکر خوبصورت دوشیزائیں کبھی مسلم تہذیب کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ حسیب جیسے انتہائی شریف النفس ادب و تہذیب بڑوں کے حکم بردار نوجوان اس منفرد سماج کے علم بردار ہوا کرتے تھے۔ آہ اب سب خواب و خیال اور غیاث الرحمٰن کی کہانی کی طرح خوبصورت یادوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ غیاث صاحب نے مجھے کہنے پر مجبور کر دیا۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
حافظہ چھین لے تو میرا
غیاث صاحب شائید غالب کے لئے اس کا یہ شعر اس کی ذات کا کرب ہو۔ اور شائید ایک زمانے تک اس کی ریلیوینس نہ ہو مگر میرے لئے اور مجھ جیسے بہت سے حساس لوگوں کے لئے اس شعر کی اس دور میں ریلیوینس بہت بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ ہر سو تہذیب کا بحران و پائمالی ہے۔
بہت بہت مبارک اتنے خوبصورت افسانہ کے لئے۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
ہر سچے فنکار کے ذہن میں ایک آڈیو / ویڈیو سسٹم فٹ ہوتا ہے۔ حادثات اور واقعات کی تصویریں اور آوازیں ذہن کے ریزرو خانے میں پڑی پختگی کی منزلوں سے گذرتی رہتی ہیں، جذبات و احساسات کی شدت آمیزی ہوتی رہتی ہے، الفاظ و اصطلاحات کی رنگ آمیزی آرایش وزیبایش کے ہنر سے مزین کرکے تکمیل کے مراحل دھیمی آنچ بر طے کرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔اس عمل کے بعد جب وہ واقعہ یا مشاہدو افسانے کا روپ دھارن کرکے جب صفحہ قرطاس پر اترتا ہے اس میں شراب کہنہ کا خمار اور پرانے چاولوں کی خوشبو ہوتی ہے۔
اس افسانے میں بھی غیاث الرحمن صاحب نے اپنے چالیس سال پرانے زمانہ طالب علمی کے دوران علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کی آڈیو وزیول کو یاداشت کی الماری سے نکال کر سحر انگیز انداز میں پیش کیا ہے کہ بیخود کردیا ہے۔
ہزاروں طالب علم اس درس گاہ سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں جن میں سے زیادہ تر نے اسی قسم کی ہاسٹل لائف گذاری ہوگی لیکن ہر ایک غیاث الرحمن نہیں ہوتا جو واقعات کو، مقامات کو، کرداروں کو افسانوی رنگ میں پیش کرکے انھیں بقائے دوام عطا کردیں۔
غیاث الرحمن صاحب نے اپنے مسحور کن رومانی افسانے کے ذریعے نہ صرف حسیب اور گیتی کو بلکہ خالا کے ڈھابے اور ذکریا مارکیٹ کی کینٹین کو بھی یادگار بنادیا۔یہ ادھوری پریم کہانی اردو کے افسانوی ادب میں امر رہے گی۔
منظر نگاری، جزییات نگاری، واقعہ نگاری، کردار نگاری، جذبات نگاری، سب اعلیٰ درجے کی ہیں۔
حسیب کی فرمانبرداری اور مجبوری اس کی راہ کی رکاوٹ بن گئی، یہ اور بات ہے ویسے میرا خیال ہے عورت میں وفا کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔
غیاث الرحمن صاحب کو اس خوبصورت افسانے کے لئے مبارکباد۔
انور مِرزا
غیاث الرحمٰن صاحب کے بیشتر افسانے حقیقت سے قریب ہوا کرتے ہیں...مگر کردار، جزئیات اور منظر نِگاری کے لحاظ سے پیشِ نظر افسانہ حقیقت سے کچھ زیادہ ہی قریب ہے...
زبان و بیان کی خوش اسلوبی، بے ساختگی اور روانی... قاری کو بھی راوی اور حسیب کے ساتھ لئے چلتی ہے...
افسانہ طویل ہے...یہ احساس تو قاری کو پورا افسانہ پڑھنے کے بعد ہوتا ہے کہ افسانہ نِگار بڑی چالاکی اور کامیابی سے اپنا کام کر گیا...حالانکہ راوی اور خالہ کی تفصیلات کم کرنے کی گنجائش ہے...
آخر میں معذرت کے ساتھ
بس یہ کہنا چاھوں گا کہ کلائمکس میں جب حسیب کو ڈھونڈتی ہوئی لڑکی’گیتی‘ آتی ہے...تب لڑکی کا آنا اور اپنا وعدہ پورا کرنے کی بات بے معنی سی لگتی ہے...کیونکہ کہانی کا انجام تو پہلے ہی کھُل چکا ہے کہ لڑکا اپنی مجبوری کے سبب واپس نہیں آئے گا...
میرا ایسا خیال ہے کہ لڑکی کو ذرا پہلے آکر یہ سب کہنا چاہیئے تھا...یہ سن کر سب لڑکے خوش ہوجاتے…مکر راوی شاکڈ رہتا
پھر لڑکی کے جانے کے بعد راوی یہ راز کھولتا کہ حسیب اب واپس نہیں آئے گا...تو بہتر ہوتا...
رو و قبول تسلیم...
اِس کامیاب افسانے کے لیے
سیّد غیاث الرحمٰن صاحب کو
پُرخلوص مبارکباد
اور شکریہ
یہ افسانہ سید صاحب نے
بطورِ خاص بزمِ افسانہ کے لیے
چند دنوں قبل لکھا ہے…
شہروز خاور
راوی کی صفائی پسندی، سلیقہ مندی، خوش خصالی اور ڈسپلین سے افسانے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
حسیب کے لاپروا/دیوانہ نظر آنے کے لیے ہیٹر بند نہ کرنے کے علاوہ کوئی اور عمل افسانے میں موجود نہیں ہے۔
گیتی مخدوم چودھری کی کردار نگاری توجہ طلب ہے۔۔
خوبصورت زبان و بیان سے قائم ہونے والا خوشگوار تاثر، کلائمیکس پر یک لخت زائل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔شاید کلائمیکس میں "افسانچائیت" در آئی ہے۔۔
کسی بھی نوعیت کے تعلق/مراسم کے بغیر، دونوں کرداروں کا پانچ برس کا صبر و تحمل غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔۔
خوبصورت زبان اور عمدہ بیانیہ نے افسانے کے ہر منظر کو دلکش / دلچسپ بنا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلائمیکس سے پہلے تک افسانے کی طوالت گراں نہیں گزرتی۔
عنوان : وعدہ ہے میں ادھورا پن ہے۔ادھورا پن افسانے کے لیے اچھا ہوتا ہے لیکن جب عنوان موضوع کی مناسبت سے طے کیا جائے تو عنوان میں افسانے کا احاطہ کرنے کی خوبی ہونی چاہیے۔۔
عنوان صرف "وعدہ" بھی ہوسکتا تھا۔"ہے" کی وجہ سے وعدے کا زور کم ہوگیا ہے۔صوتی اعتبار سے بھی "ہے" وعدے کو کمزور کررہا ہے۔معنوی اعتبار سے بھی "وعدہ ہے" سے زیادہ "وعدہ" مناسب لگتا ہے۔
افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات
پروفیسر اسلم جمشیدپوری
وعدہ ہے۔۔۔اچھا روما نی افسانہ ہے۔ اس میں جذبات نگاری بھی ہے اود وعدہ بھی۔حسیب کا کردار بہت خوب ہے۔لیکن لڑکی کا بھی جواب نہیں، جس نے رشتوں کے ساتھ ساتھ، کیریر اور وعدے کا بھی خیال رکھنا۔ افسا نے میں تحیر وتجسس قاری کو باندھنے رکھتا ہے۔
اس افسانے کے لئے جی آر سید کو بہت بہت مبارک باد
سیّد غیاث الرحمٰن
معزز اراکین و ممبران ،بزم افسانہ، کی خدمت میں موُدبانہ سلام۔ میں آپ سبھی خواتین و حضرات کا بے حد ممنون ومشکور ہوں۔خصوصاً انورمرزاصاحب کا، دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہی کی تحریک سے مجھے یہ افسانہ لکھنا نصیب ہوا۔ اس ایونٹ میں میں نے پہلے اپنا ایک پرانہ افسانہ بھیجھا تھا۔ جس کا انپیج میرے پاس موجود نہیں تھا۔ پھر انور مرزا صاحب سے فون پر بات ہوئی تو انھونے فرمائش کی کہ ایک نیا افسانہ لکھ ڈالئے۔ میں نے ان کے مشورے پر قلم اٹھایا۔ ذہن میں علیگڑھ کی کچھ پرانی یادیں محفوظ تھیں ، ان پر قلم برداشتہ ایک ٹوٹی پھوٹی کہانی لکھ ڈالی۔ اس پر نظر ثانی بھی نہ کر سکا۔ اس لئے کہ ان دنوں کچھ ناگہانی مصروفیات سے جوجھ رہاہوں۔ ہاتھ سے لکھے افسانے کو ہی کٹی پھٹی حالت میں اسکین کر کے بھیج دیا۔ پھر انور مرزاصاحب نے ہی اس کو ٹاءیپ کر کے ایونٹ میں شامل کر لیا۔ ان کی یہ محبت اور احسان یاد رہے گا۔۔۔ پھر آپ سبھی محترم و مکرم ممببران نے جس محبت سے اس کی پذیرائی فرمائی اس کے لءے میرے پاس الفاظ ہی نہیں۔ ہر تبصره شاہکار ہے۔
آپ کے تمام مشورے سرآنکھوں پر۔ جب کبھی اس افسانے کو حتمی روپ دوں گا، آپ کی آراء کو مدنظر ضرور رکھونگا ، وعدہ ہے۔
ایک بار پھر آپ سبھی کا صمیم قلب سے شکریہ۔
رخسانہ نازنین صاحبہ
اقبال حسن آزاد صاحب
معین الدین عثمانی صاحب
اکبر عابد صاحب
محمد یحیٰ جمیل صاحب
وحید امام صاحب
نصرت شمسی صاحبہ
ناہید طاہر صاحبہ
رضوان الحق صاحب
سدی ساجدہ جمال صاحبہ
فرخندہ ضمیر صاحبہ
ام مسفرہ صاحبہ
ترنم جہاں شبنم صاحبہ
ریحان کوثر صاحب
انیس رشید خان صاحب
اسرار گاندھی صاحب
ڈاکٹر فیروز عالم
فریدہ نثار احمد انصاری صاحبہ
پروفیسر غضنفر صاحب
نگار عظیم صاحبہ
ڈاکٹر فریدہ تبسم
سراج عظیم صاحب
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
اور
انور مرزا صاحب۔
کسی کا نام چھوٹ گیا ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔
نیاز مند۔۔۔
غیاث الرحمٰن
ایک خوبصورت اور دل چھو لینے والا افسانہ۔ وعدہ نبھانے کا انوکھا انداز، کسی نے مجبوری میں راہ بدل لی اور کوئی راہ دیکھتا رہ گیا۔ ! ایک لڑکی کی سچی، کھری محبت جو مقدس تھی اور مقدس ہی رہی۔ مدتوں یاد رہ جانے والا افسانہ۔
اقبال حسن آزاد
یہ دیکھ کر حیرت آمیز مسرت ہوئی کہ اس پر آشوب دور میں بھی لوگ رومانی افسانے لکھ رہے ہیں۔
"وعدہ"رواں اسلوب میں تحریر کردہ ایک عمدہ افسانہ ہے۔زبان بڑی پیاری ہے اور رومانی قصے کے حسب حال ہے۔عیگڈھ کا وہ نقشہ کھینچا ہے کہ پرانی یادیں تازہ ہو گئیں اور سب کچھ نظر کے سامنے پھر گیا۔کلائمکس منطقی ہے اور اس میں چونکانے والی کوئی بات نہیں ہے۔
معین الدین عثمانی
"وعدہ ہے" افسانہ پڑھتے ہوے ایسا لگ رہا تھا کہ غیاث الرحمن صاحب ہمارے سامنے بیٹھے حسیب کی بے باک ،صاف ستھری ، اور سچی محبت، کی داستان سنا رہے ہیں۔
ایک طرف خلوص بھری محبت اور دوسری طرف بیانیہ کی سادگی نے کچھ نہ ہوتے ہوے بھی محبت کے احساس، اور اس کی معنویت کی دبیز چادر میں لپیٹ کر افسانے میں بہت کچھ سمو دیا ہے۔در حقیقت وصل کے دیوانوں کی بجاے ہجر کے شیدائیوں کے جذبات کی ترجمانی کرنے والا یہ افسانہ اپنی سادگی کے سبب یادگار تحریر کا نمونہ بن گیا ہے۔تاریخ کے بے شمار واقعات گواہ ہیں کہ محبت پانے کے سبب نہیں بلکہ کھونے کی بدولت جاودانی کے درجہ پر فائز ہوی ہے۔
غور کیا جاے تو غیاث الرحمن کی اس کہانی کی کامیابی کا راز انکی تحریر کی روانی میں پوشیدہ ہے۔
سچے واقعات کو دلی کیفیات کے ساتھ بیان کرنے سے ہی اس طرح کی کہانیاں وقوع پذیر ہوتی ہیں۔جو قلمکار کے ہمراہ قاری کے دل میں بسیرا کرلیتی ہے۔
خوبصورت اور خوب سیرت کہانی کی پیشکش پر غیاث الرحمن صاحب کو دلی مبارکباد۔
اکبر عابد
افسانہ۔افسانہ وعدہ ہے۔افسانے میں محبت کے احساس کوپراثر انداز میں معنویت کےساتھ پیش کیا گیا ہے جذبات کی ترجمانی کو بڑی سادگی سے افسانے میں سمودیا ہے افسانہ پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہورہاکہ قلمکارروبرو ہوکر کہانی سنارہے ہیں۔آافسانے کی زبان بڑی پیاری لگی رواں دواں افسانہ ہے اس افسانے کا سحر قاری کو محسور کردے گا۔جملوں کی ساخت بہت اچھی ہے بیانیہ کا انداز بھی خوب ہے. ایک بہترین افسانے کے لئے غیاث الرحمان صاحب کو بہت بہت مبارکباد اورنیک خواہشات۔۔۔
محمد یحییٰ جمیل
سید غیاث الرحمن صاحب کا افسانہ "وعدہ ہے" کالج لائف کا عطر ہے۔ دل و دماغ کو بھینی بھینی خوشبو سے مہکا دینے والا۔ کالج/یونیورسٹی میں پڑھ چکا شاید ہی کوئی فرد خود کو اس سے مربوط نہ پائے۔ پلاٹ، کردار اور ماحول کے بیچ توازن کا اہتمام قابلِ داد ہے۔ افسانہ بہت اچھا لگا۔ بہت بہت مبارک۔
وحید امام
غیاث الرحمن صاحب کا افسانہ دل کو چھو گیا۔ افسانے کی روانی کے لیے یقیناً وہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔ماضی کی دھند میں لپٹی یادیں شعور کی سطح پر دستک دینے لگیں۔ کالج کا زمانہ نظروں کے سامنے گردش کرنے لگا۔افسانوں اورداستانوں میں اکثر لڑکی کو خود غرض، مطلب پرست، اور مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تمام جائز اور ناجائز طریقوں کا استعمال کرنے والی بتایا گیاہے مگر اس افسانے میں غیاث الرحمن صاحب نے ایک سیدھی سچی اور وعدہ وفا کرنے والی لڑکی کی صاف ستھری امیج اس طرح بیان کی کہ قارئین بھی اس لڑکی کے سحر میں گرفتار ہو گئے اور میرے خیال میں یہ افسانے کی کامیابی کی دلیل ہے۔افسانے میں تمام جزئیات کو جس مشاقی اور تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اس کی تعریف نہ کرناناانصافی ہوگی مگر کلائمکس متاثر نہ کر سکا۔ جب لڑکی 'وعدہ وفا' کرنے کے موڈ میں تھی تو اس نے حسیب سے خط وکتابت کا سلسلہ جاری کیوں نہ رکھا؟ پہلا خط بھی لڑکی نے اپنی بے باکی اورہمت سے حاصل کیا تھا اگر اسے حسیب کا ہی ہونا تھا تو اس نے حسیب کی خیر خبر کیوں نہ لی؟ لڑکیاں جنھیں اپناسمجھتی ہیں اس کے بارےمیں تمام چیزوں سے آگاہ رہنا فرض اولین سمجھتی ہیں اور یہ چیز ان کی فطرت میں بھی شامل ہوتی ہے۔ باوجود اس کے ایک متاثر کرنے والا افسانہ ہے۔
نصرت شمسی
افسانہ کا بیان بہت دل چسپ ہے۔ حسیب کے دل کا حال نہایت عمدہ اور حقیقی انداز میں پیش ہوا لیکن ساتھ ہی افسانہ طویل بھی محسوس ہوا۔ چلتے چلتے قاری لڑکی تک بہنچ جاتا ہے اور اس کا دل حسیب کی طرح ڈھکڑنے لگتا ہے کہ لڑکی کے تاثرات مذید جان پیدا کرنے والے ہیں مگر وہاں تو بڑا عجیب واقعہ ہوا۔ایک اجنبی لڑکی نہ گھبراںی نہ لجائی اور بے دھڑک جذبات سے آری انداز میں خط لیتی ہے اور پھر اس کی تلاش میں بھی نکل پڑتی ہے۔بغیر جانے ایک با شعور لڑکی ایسا بھروسہ کرکے وعدہ کر لیتی ہے۔اصل رومانی افسانہ جس جگہ قاری محسوس کرنا چاہتا ہے وہاں سے تشنہ لوٹ آتا ہے۔۔ایسا کیوں،؟
اور پھر مدت گزر جانے پر پھر پیغام دینے یوں چلی آتی ہے جیسے قرضہ اتارنا ہو۔۔۔نہ رابطہ نہ پیغام سلام۔۔یہ کیا ہوا،؟ بس یہیں یے وہ لذت ذرا بدلتی ہوئی محسوس ہوئی۔جس پر غور کیا جا سکتا ہے۔شاید ابنے افسانے کو جلد منزل تک پہچانے میں مصنف کے قلم نے بغیر سوچے سمجھے افسانہ انجام تک پہنچا دیا۔۔مجھے ایسا محسوس ہوا۔ سلامتی کی دعائیں اور بہت مبارک باد!
ناہیدطاہر
اس افسانے میں عشق کا انداز بالکل جدا ہے۔۔
محبت کی تڑپ، معشوق کا بانکپن اور پیار کی کسک کسی جذبے کا کوئی اظہار نہیں۔۔
اس کے باوجود لڑکی وعدہ وفا کرنے میں کامیاب رہی۔۔وااہ کیا بات ہے۔
تجسس اور نہ ہی زیست کی کسی قسم کی الجھنیں۔۔۔بس افسانہ آگے بڑھتا چلا گیا۔
لڑکی جب زندگی کے اہم ترین مقصد میں کامیاب ہوئی تو اس نے عشق کی معراج کو پانا چاہا۔۔۔اختتام نہایت ہی سادہ،قاری کے لیے کوئی تجسس اور چونکا دینے والی بات نہیں تھی۔
ڈاکٹر رضوان الحق
اس جدید زمانے میں عشق کے انداز اور آداب بہت بدل گئے ہیں۔ ایسے میں جب کوئی پرانے انداز کا عشق پڑھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے کہ اپنے ہی ماضی میں ہم کہیں کھو گئے ہیں۔ البتہ جس زمانے کی کہانی محسوس ہو رہی ہے اس وقت کی لڑکیوں کا جو عام تصور ہے، یہ لڑکی اس سے بہت مختلف ہے لیکن افسانہ تبھی ہوتا ہے جب کوئی معمول سے مختلف بات یا شخص ہو، ایسا نہیں ہے کہ اس زمانے میں ایسی لڑکیاں بالکل نہ ہوتی ہوں۔
افسانے کی تکنیک اور زبان و بیان حسب توقع بہت عمدہ ہے۔ "بات جو دل سے نکلتی ہے اثر رکھتی ہے۔" غیاث الرمن کی ان خوبیوں سے ہم سب پہلے سے واقف ہیں اور اس افسانے میں بھی وہ ساری خوبیاں موجود ہیں۔ اس کامیاب افسانے کے لیے مبارک باد۔
سدی ساجدہ جمال
گیتی کا آخر میں اس چائے کی دکان پر آنا اور مثبت جواب دینا
دل پر منوں بوجھ ڈال گیا۔۔
محبت کی نہیں جاتی
ہو جاتی ہے حسیب کو بھی ہوئی
لیکن شاید مجبوری غالب آ گئی۔۔
دوستوں کی چھیڑ چھاڑ ہنسی مذاق روٹھنا منانا۔۔۔
ایک الگ ہی ماحول میں ذہن منتقل ہو گیا۔۔۔
افسانہ پڑھتے پڑھتے ایسا محسوس ہوا جیسے میں بھی اسی کا ایک کردار ہوں۔
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
عشق کی جزبے میں ڈوبا افسانہ۔پرانے دور کا اعلیٰ اخلاقی قدرومنزلت سے مزیّن افسانہ۔جہاں ہر کدار اپنی اعلیٰ ظرفی کا ثبوت پیش کرتا ہوا نظر ہوتا ہے۔ یاروں کی خوبصورت نوک جھونک دلچسپی سے بھرپور ہے۔اس گفتگو سے ایک واقعہ یاد آیا جو فاروق عبداللہ صاحب نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ "جب وہ جیپور میڈیکل کالج سے پڑھائی کر رہے تھے تو پاس میں ہی مہارانی کالج تھا۔ ہم قریب کی ہوٹل پر شام کی چائے پیتے ہوئے کالج کی لڑکیوں کو جاتے ہوئے دیکھنے میں بتاتے تھے۔"
یہ نوجوانی کے شوخ رنگ ہوتے ہیں۔ اس افسانے کی ہیروئن بہت سمجھدار ہے۔ حقیقت میں زنگی کا نصب العین ہونا چاہیے۔لڑکی کی سمجھداری اس کی گفتگو سن کر کر ایسا لگا گویا یہ میرے دل کی آواز ہے۔
حسیب کا وعدے کی پاسداری بہت پسند آئی۔ عشق کا انجام اکثر ایسا ہی ہوتا ہے۔
آغاز میں کچھ غیر ضروری جملوں نے کہانی کو طویل کر دیا۔
یوں افسانہ اوّل تا آخر دلچسپ ہے۔غیاث صاحب کو مبارکباد۔
ام مسفرہ
افسانہ "وعدہ ہے" سادہ سلیس عشقیہ افسانہ ہے۔ زبان و بیان کی عمدگی کی وجہ سے قاری خود کو بھی اس کہانی کا حصہ سمجھتے ہوئے غرق ہوجائے گا۔ یونیورسٹی میں دوستوں کا آپسی رشتہ، ہاسٹل لائف اور محبت کی کہانی اس افسانے کے پہلو ہیں۔
پہلے پہل راوی نے اپنی صاف صفائی اور چائے کا جو ذکر کیا ہے وہ ذائد محسوس ہوا کیونکہ بعد میں ان باتوں کا کہیں کچھ کام بھی نہیں تھا لیکن خیر کہانی میں بے جا طوالت کے عناصر کبھی کبھی دلچسپی بڑھاتے ہیں کہ آخر تک پڑھا جائے۔
اچھی بات یہ رہی کہ بے وفائی نہ ہوئی بس مجبوری تھی۔
ایم بی بی ایس کی طلبہ کا پڑھائی پر فوکس اور دوران میں کسی ڈاکٹر ہی سے عشق یا شادی رچا کر بے رخی نہ کرنا اور وعدہ نبھانا افسانہ میں ایک سچے اور مضبوط کردار کی تکمیل ہے۔
حسیب جیسے کئی نوجوان ہوتے ہیں جو والدین یا گھر کے بزرگوں کی آخری خواہش پوری کرنے میں ان کے احسانات کا اچھا بدلہ دینے میں اپنی محبت قربان کرتے ہیں۔ ایسے فرمانبردار کردار نیک نیتی کا ثبوت تو دیتے ہیں لیکن دل ان کے اندر سے ٹوٹے اور کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔ اگر حسیب کی کچھ ان کیفیات کا ذکر ہوتا تو افسانہ میں درد اور بڑھ جاتا۔ مبارکباد
ترنم جہاں شبنم
"مجھے عشق ہو گیا ہے۔" وعدہ ہے" کا سارا رومان اس جملے سمٹ آیا ہے۔ خود پر یہ انکشاف ہو جانا ہی ایک بڑا حادثہ ہے اپنے لئے بھی اور اپنے ساتھ والوں کے لئے بھی۔ افسانہ کا پہلا جملہ اتنا رومانی ہے کہ قاری اس رومانی فضا میں خود بخود آ گے بڑھتا چلا جاتا ہے۔ جہاں آج کے دور سے ہٹ کر، کچھ وقت پہلے کی محبت اپنے دور کا قصیدہ پڑھتے ہوئے آج کی محبتوں کے اظہار پر نوحہ خوانی کرتی نظر آتی ہے۔۔۔
حسیب اور گیتی کی محبت اپنے دور کا تعارف ہے جس زمانے میں ایسی ہی سیدھی سچی محبتیں ہوا کرتی تھیں۔ جو کالج، یونیورسٹی میں تم کو دیکھا تو یہ خیال آیا۔۔۔ یا ہونٹوں سے چُھو کر تم میرا گیت۔۔۔ سے شروع ہو کر کوئی وعدہ نہیں پھر بھی نگاہِ راہ تکتی ہیں چلے آؤ۔۔۔ تک چلتی تھیں۔ جو اپنے مقصد اور خاندانی اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے عجیب داستان ہے یہ کہاں شروع کہاں ختم۔۔۔ پر ختم بھی ہو جاتی تھیں۔ جہاں صرف ایک احساس کے سارے ایک رششہ قائم رہتا تھا نصیب سے ملے تو ٹھیک ورنہ سب کی اپنی منزل سب کے اپنے راستے۔۔۔ نہ بیوفائی کا شکوہ نہ وفاداری پہ نازاں، بس ایک احساس کا سانسوں میں مہکتے رہ جانا ہی عشق تھا۔ وہی عشق وعدہ ہے میں شروع سے آخر تک اپنی جلوہ افروزیوں کے ساتھ مہکتا رہا، جس کی رومانی فضا سے قاری محظوظ ہوتا رہا بس تھوڑی طوالت ضرور محسوس ہوئی۔ بزم افسانہ کی پیش کش رنگ و بوئے باراں (رومانی افسانے) ایونٹ کا ایک بہترین افسانہ۔۔۔ کامیاب ایونٹ اور بہترین افسانہ کی پیش کش پر سید غیاث الرحمٰن صاحب اور منتظمین بزم کو مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
ریحان کوثر
سید غیاث الرحمٰن صاحب کا افسانہ وعدہ ہے ایک عمدہ اور خوبصورت افسانہ ہے۔ شاید ہی کوئی اس کی قرآت کے بعد یادوں کے جھروکوں سے گزر کر اپنے کالج یا یونیورسٹی کے کیمپس میں نہ پہنچے۔
یہ خوبصورت زبان و بیان اور شاندار جزیات نگاری اور منظر نگاری سے مزین ایک کامیاب افسانہ ہے۔ ہوسٹل کے کمرے اور خالہ کی ہوٹل کی غضب کی جزیات نگاری کے ساتھ منظر نگاری پیش کی گئی ہے۔ ڈاکٹری کرنے والی لڑکی اور خالہ کے حلیے کو خوبصورتی اور بڑی ہی مہارت سے بیان کیا گیا ہے۔ سبھی کرداروں کے مکالمے بھی کرداروں کے عین مطابق ہے۔ ہوسٹل کے کمرے کو مسجد بنانے والا مکالمہ یا راوی کا خالہ کی ہوٹل کے سبھی سالن کے ایک جیسے ذائقے کا بیان لطف دے گیا۔ راوی کا حسیب کے نام سے لکھا گیا خط بھی نپا تلا اور ایکدم سٹیک ہے۔ حسیب اور ڈاکٹری کرنے والی لڑکی کا کردار بالکل فطری اور حقیقی معلوم ہو رہا ہے۔ افسانہ پڑھ کر شدت سے محسوس ہوا کہ سو فیصد یہ افسانہ ایک حقیقی واقعے پر لکھا گیا ہے۔
افسانہ کے تمام منظر پر غور کرنے کے بعد یہ صاف ظاہر ہے کہ افسانے میں انیسویں صدی کی ساتویں یا آٹھویں دہائی کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ پرانی محبت کا طرز عمل صاف دکھائی دے رہا ہے۔ آج اکیسویں صدی کی پہلی دوسری اور تیسری دہائی میں محبت کرنے والوں کے لیے یہ افسانہ لکھا گیا ہے جو اپنے پیغام اور پاکیزہ محبت کے احساس کو ابھارنے میں بالکل کامیاب نظر آ رہا ہے۔ علی گڑھ کا خوبصورت نقشہ کھینچا گیا ہے۔ افسانوں میں علی گڑھ اس موضوع پر جب بھی کام کیا جائے گا اس افسانے کو نمایان مقام حاصل ہوگا۔
سید غیاث الرحمٰن صاحب کو مبارکباد اور ایونٹ میں شرکت کے لیے بھی مبارکباد اور نیک خواہشات 🍁
ڈاکٹر انیس رشید خان
محترم سید غیاث الرحمن صاحب ایک بہترین افسانہ نگار اور ناول نگار ہیں۔ آپ میرے پسندیدہ ناول نگار و افسانہ نگار ہیں۔ حال ہی میں شائع ہوا آپ کا ناول "ڈھولی دگڑو ڈوم" کورونا وبائی دور کی بہترین عکاسی کرتا ہوا ایک یادگار ناول ہے۔
زیر نظر افسانہ "وعدہ ہے" ایک بہترین رومانی افسانہ ہے۔ اس کا عنوان ہی اپنے آپ میں رومانیت لئے ہوئے ہے۔
افسانے کو پڑھتے ہوئے میں نے اپنے آپ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے آس پاس محسوس کیا۔ بہترین منظر نگاری کی گئی ہے جس کی وجہ سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کہ خود بھی وہیں کہیں موجود ہیں۔ اس افسانے کا راوی ایک کیمرہ مین کی طرح ہر اس مقام پر پہونچ جاتا ہے جہاں مرکزی کردار حسیب ہوتا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ افسانے کا یہ پہلو بھی پڑھتے وقت بہت اچھا لگتا ہے۔
اس افسانے میں مرکزی حیثیت میں جس لڑکی کا کردار پیش کیا گیا ہے وہ اتنا مضبوط اور بلند ہے کہ کیا کہیں۔ آخری حصے میں جب وہ لڑکی اپنا کیا ہوا وعدہ نبھانے کے لیے آتی ہے تب اس کا قد بہت بلند ہوجاتا ہے۔
بہترین افسانہ ہے جو یقیناً ہمیشہ یادوں میں محفوظ رہے گا۔ محترم سید غیاث الرحمن صاحب کو اس شاندار افسانے کے لئے بہت بہت مبارک باد 🌹
اسرار گاندھی
کہانی "وعدہ ہے" پڑھ لی۔ اس کہانی کے تعلّق سے اتنا لکھا جا چکا ہے اور اتنی تعریفیں ہو چکی ہیں کہ اب میرے لیے لکھنے کو کچھ بچا ہی نہیں۔ جو بھی تعریفیں کی گئیں بلکل مناسب لگیں۔ غیاث خوبصورت زبان لکھتے ہیں۔ اُن کی زبان میں ایک musical flow رہتا ہے جو قاری کے احساس جمال کو بہت مطمئن کرتا ہے۔
اس کہانی کے دو اہم کردار حسیب اور Geti اپنے طرز عمل میں مکمل نظر آتے ہیں۔ شاید اب Geti جیسا کردار مشکل سے ہی مل سکے۔ نا معلوم وہ کن کن صورت حال سے گزری ہوگی مگر اپنے موقف پر مضبوطی سے ٹہری رہی۔ دوسری طرف حسیب نے بھی بات نبھائی اور اس کی وجہ سے Geti کو کسی طرح کی پریشانی سے نہیں گزرنا پڑا۔ یہ الگ بات ہے کہ حسیب کو Emotional black mailing کا شکار ہونا پڑا۔
کمال یہ ہے کہ کہانی کسی لمحے میں بھی کہانی کار کی گرفت سے باہر نہیں نکلی۔
ایک آخری بات یہ کہ کہانی کچھ زیادہ ہی طویل ہو گئی ہے۔ علیگڑھ کے ماحول کے بیان سے کچھ زیادہ ہی وقت کا زیاں ہوا۔
اس کہانی کے لیے میں اپنے عزیز دوست کو ڈھیروں مبارک باد دیتا ہوں۔
ڈاکٹر فیروز عالم
بہت پیارا افسانہ۔
افسانہ نگار شروع سے آخر تک اس میں دلچسپی قائم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ عنفوان شباب کے عشق کی واردات کی دلکش اور حقیقی انداز میں پیش کش "وعدہ ہے" کو قاری کے دل سے قریب تر کردیتی ہے۔ اس افسانے میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیمپس اور اس سے متعلقہ جزئیات بے حد فطری انداز میں بیان کی گئی ہیں۔ خالہ کے ہوٹل کا ذکر تو اس قدر دل پذیر ہے کہ محسوس ہوتا ہے ہم وہیں موجود ہیں اور خالہ ہمیں ڈانٹ رہی ہیں۔ جو لوگ اس یونیورسٹی کے فارغ التحصیل ہیں، انھیں یہ افسانہ مزید اپیل کرے گا۔ سچے پیار کا یہ فسانہ اپنے فطری انجام کو پہنچتا ہے۔ حسیب اور گیتی کی اگرچہ شادی نہیں ہوپاتی لیکن اس کا المیہ انجام بھی قاری کو متاثر کرتا ہے۔
افسانہ اس جملے پر ختم ہوجاتا تو بہتر تھا۔ "میں نے حسیب سے شادی کرنے کی خواہش انھیں بتا دی ہے۔ وہ تیار ہیں۔میرے پاس اب صرف تین دن کا وقت ہے۔"
میری راے میں مندرجہ ذیل جملے کی ضرورت نہ تھی۔ " اگر وہ نہیں آیا تو اس سے کہہ دینا، میں نے اپنا وعدہ نبھایا ہے، مجھے الزام نہ دینا۔"
اس عمدہ افسانے کی تخلیق کے لیے افسانہ نگار محترم غیاث الرحمٰن سید کو دلی مبارک باد
فریدہ نثار احمد انصاری
ایک معصوم سی محبت۔۔ایک بھولا بھالا عشق۔
قلم کار نے انیسویں صدی کے چھٹی ساتویں دہائی کے کالج کے دور کو موضوع بنایا۔علی گڑھ کے قرب و جوار کی منظر کشی خوب کی۔اس دور کے خط کو محبوب تک پہنچانے کے لئے کس قدر مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا ساتھ محبوب کی ہمت کے لئے دوست فکر مند ہوتے تھے اس کو یوں قرطاس پر اتارا کہ قاری بھی ان میں شامل ہو گیا۔
"بارشوں نے سڑک سے سائیکلوں کے نشانات دھو ڈالے۔"
اس جملے نے کیا ہی خوبی سے کالج کے پانچ سالوں کو سمیٹ لیا۔
حسیب نے وعدہ کیا ہی نہیں تھا صرف اپنے عشق کا اظہار کیا تھا جس میں وہ کردار کامیاب رہا۔
اور جس نے وعدہ کیا اس کی بلند ہمتی کہ کالج کے اختتام پر آکر اپنا وعدہ وفا کرنا چاہا۔
قلم کار نے اس کردار کو بھی عمدگی سے ضبط قلم کیا کہ اس نے نہ صرف حسیب سے اپنا وعدہ نبھانا چاہا بلکہ اپنے ماموں کے قول کی بھی پابند رہی۔کوئی کام اس نے ایسا نہیں کیا جس سے ان کی عزت پر آنچ آئے۔
یہ دونوں باتیں کہ جس میں اپنوں کی ناموس کا خیال اور محبت بھی ساتھ ساتھ ہو کسی کردار کو اوج ثریا تک پہنچاتی ہے۔
سنا یہ ہے کہ
جب لڑکیاں ڈائیسیکشن ٹیبل پر سرجری کرنے لگتی ہیں تب ان کے جذبات، احساسات، ہمدردیاں ختم تو نہیں لیکن کم ضرور ہو جاتی ہیں۔
یہی بات اس کردار کے ساتھ ہو لیکن پھر بھی اس نے وعدہ نبھایا۔
وعدہ نبھانا آسان نہیں ہوتا خاص طور پر ایک لڑکی کے لئے۔
قلم کار نے عنوان کو اسی کردار کی بلند ہمتی کے نام کر اس کردار سے انصاف کیا۔
مبارک باد و نیک خواہشات۔
پروفیسر غضنفر
صاف ستھری، شگفتہ زبان میں نرم و نازک جذبات و احسات پر لکھی گئی پُر اثر اور کامیاب کہانی کے لیے غیاث الرحمان کو مبارک باد
نگار عظیم
"رنگ و بوئے باراں "بہت ہی خوبصورت نازک رواں دواں ایک عشقیہ افسانہ . عشق کا کوئی وقت نہیں ہوتا کوئی مقام نہیں ہوتا کوئی مزہب نہیں ہوتا۔ بس وہ تو چپکے سے وجود میں داخل ہوکر اپنی جگہ بنا لیتا ہے اور پھر منزل ملے نہ ملے بھلائے نہیں بھولتا۔ یہ عشق نے بھی موجودہ وقت میں چولے بدل لئے ہیں۔ رنگ روپ بدل لئے ہیں اور گھٹیہ پن پر اتر آیا ہے۔ ایسے میں اس طرح کے افسانے راحت بخش بھی یوتے ہیں اور ماضی کو بھی زندہ کر دیتے ہیں۔ افسانہ طویل ہونے کے باوجود قاری کو چھوڑتا نہیں اختتام تک ساتھ لئے چہل قدمی کرتا ہے۔ ابتدا میں طوالت کم کی جاسکتی ہے۔ لیکن مشکل ہے کیونکہ وہ تخلیقکار کے مزاج کے مطابق ہی سفر کرتا ہے اور یہ ٹھیک بھی ہے۔ اس افسانے میں عشق کا ابال دودھ کے ابال کی طرح چڑھتا ہے اور جھاگ کی طرح بیٹھ جاتا ہے۔ وجہیں تو ہوتی ہی ہیں ورنہ ملاپ نہ ہو جائے۔ عشق کے رنگ مختلف ہیں۔ بہر حال مجھے افسانہ پسند آیا۔ بہت بہت مبارک۔
ڈاکٹر فریدہ تبسم
مذکور افسانہ۔۔"وعدہ ہے"
یہ افسانہ دراصل اس کی کہانی
محبت کی ادھوری کہانی۔۔۔مگر دلچسپ انداز میں پیش کی گئی ہے قاری کو باندھ کر رکھنے میں کامیاب ہے مگر رومانی فضا کی کمی محسوس ہوئی۔اس کے باوجود ناکام عشق کی داستان نے" وعدہ ہے" کو پوری شدت کے ساتھ وعدہ نبھایا۔کرداروں کا رول بہت عمدگی سے ادا کیا گیا ہے کہ قاری کئی سال پیچھے کے دور میں چلا جاتا ہے۔تعجب تو اس بات پر ہوا کہ کیا دور تھا وہ بھی۔۔۔ جہاں سب کچھ سامنے رہتے ہوئے بھی اپنے اخلاقی حدود پار نہیں کئے۔اور جو وعدہ کیا پانچ سال بعد نبھانے کے لئے آگئے۔اس افسانہ کی خوبی بلند عزائم اور اپنے مقصد کو پانے اور ذمہ داری نبھاتے یہ کردار اپنی شرافت میں ہلکا سارومان انگیز ماحول کا عکس دکھا گئے۔کردار حقیقت سے قریب نظر آتے ہیں جہاں یہ واقعہ شاید ہوچکا ہو۔۔۔
خیر اس افسانہ میں قاری کو گرفت میں لے کر اپنے دوست کی روداد سنانے والی کیفیت۔۔۔ سا احساس ہوتا ہے۔
اس افسانہ پر ہم افسانہ نگار کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔ تبسم۔۔😊
محمد سراج عظیم
اس سے پہلے کہ میں افسانہ پر بات کروں، اپنی دھدھیال کے دالان سے لگے لکڑی کے نقشین تھمبو پر ٹکے ٹین کے بنے برآمدے کے کونے سے ملحق کوٹھری جو تایا اور گھر کے بڑوں سے چھپ کر شمع، بیسویں صدی، جاسوسی دنیا، بانو، روبی، خاتون مشرق، اور کچھ رومانی ناول پڑھنے کی اندھیری اور ٹھنڈی جائے پناہ تھی۔ جب شرفاء کے خاندانون میں یہ رسائل آتے تو تھے مگر نوجوانوں لڑکے لڑکیوں کو بالکل شجر ممنوعہ کے مترادف ان کے قریب جانا بھی سزائے ابلیس سے کم نہ تھا۔ اس کوٹھری سے سید غیاث الرحمٰن کو اشاروں سے محبت بھرا سلام۔۔۔ اب پتہ نہیں غیاث الرحمٰن اس کوٹھری کے روشن دان سے آتی ہوئی ہلکی سی روشنی میں میرے اشارے کو دیکھ پائیں گے کہ نہیں مگر میں نے ایک زمانہ آنکھیں گڑو گڑو کر پڑھا ہے۔ نتیجتاً عشق کی گلیاروں، محبت کے سبزہ زاروں اور عشق و محبت کی بہاروں کے مختلف رنگوں کو قریب سے دیکھنے کی عوض آنکھوں پر عینک کا اضافہ بھی ہوگیا۔ بہرحال
غیاث الرحمٰن صاحب نے اسی کی دہائی جب رومانی افسانے عروج پر تھے۔ اس زمانے کی نہ صرف یاد تازہ کردی بلکہ اس ڈاکٹر گیتی اور حسیب کی حسرت بھری محبت کے نائف سے آپریشن محبت کرکے پھر سے زخموں کو ہرا کردیا اور محبت کی لافانی داستان کے کئی شاہکار افسانے ذہن و قلب کے سرد خانوں سے تروتازہ نکل کر اپنی ہوش ربا داستانوں کا سحر و سرور بکھیر گئے۔
غیاث صاحب کے افسانے ان کی زبان، بیانیہ، الفاظ کی درو بست سب جیسے کانوں میں بجتا جل ترنگ۔ غیاث الرحمٰن صاحب نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا جو کلچر تھا۔ اس کی منظر نگاری میں کسی بھی طرح کے مبالغہ سے کام نہیں لیا بلکہ ایسی مشاقی سے اس کو الفاظ میں باندھا ہے کہ اگر جس نے بھی علی گڑھ یونیورسٹی میں دن گزارے ہیں یا ہلکہ سا بھی شائبہ ہے تو وہ اے ایم یو کے کلچر کی داد دئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اے ایم یو ایک ادارہ نہیں بلکہ ایک تہزیب تھی جسکی اپنی ایک انفرادیت تھی۔ اے ایم یو کا سائیکل اور چائے کلچر تاریخ میں حوالے کا درجہ رکھتا ہے۔ شمشاد مارکیٹ اور تصویر محل سنیما، میڈیکل کالج اور لائبریری ان کی فضاؤں میں لاکھوں کامیاب اور ناکام کہانیاں مرغولوں کی شکل میں ملیں گی۔ خالہ کا ہوٹل جیسے کئی ہوٹل جہاں پوری یونیورسٹی کے طلباء کے کھاتے تھے۔ کمال یہ تھا کہ کبھی ہوٹل والے تقاضہ نہیں کرتے تھے۔ دنیا ہی الگ مگر واقعتاً بہت سنجیدہ، ذہین اور اپنے سبجیکٹ میں ماہر طالبات اور طلباء۔ کسی نے اعتراض کیا کہ ڈاکٹر بننے والی لڑکی اس طرح کی محبت کرتی ہوگی شائید اس زمانے میں ایسا ہوتا ہو۔ یہ سچ تھا ایسی ہی مسلم تہذیب تھی یہی لحاظ اور شرم تھا۔ میں نے کہا نا اے ایم یو میں ایسی ہزاروں کہانیاں فضا میں گردش کرتی ہوئی ملیں گی۔ غیاث الرحمٰن صاحب نے اپنے خوبصورت انداز تحریر سے ایک سچی کہانی کو جس جزئیات نگاری، منظر نگاری اور اپنے قلم کے برش سے کہیں کہیں جذبات کے جن گہرے رنگوں سے پینٹ کیا ہے۔ اس نے وعدہ رہا کی چبھن کو مزید گہرا نشتر زدہ کردیا۔ بہرحال۔ ڈاکٹر گیتی جیسی شرافت و حیا کا پیکر خوبصورت دوشیزائیں کبھی مسلم تہذیب کی پہچان ہوا کرتی تھیں۔ حسیب جیسے انتہائی شریف النفس ادب و تہذیب بڑوں کے حکم بردار نوجوان اس منفرد سماج کے علم بردار ہوا کرتے تھے۔ آہ اب سب خواب و خیال اور غیاث الرحمٰن کی کہانی کی طرح خوبصورت یادوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ غیاث صاحب نے مجھے کہنے پر مجبور کر دیا۔
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
حافظہ چھین لے تو میرا
غیاث صاحب شائید غالب کے لئے اس کا یہ شعر اس کی ذات کا کرب ہو۔ اور شائید ایک زمانے تک اس کی ریلیوینس نہ ہو مگر میرے لئے اور مجھ جیسے بہت سے حساس لوگوں کے لئے اس شعر کی اس دور میں ریلیوینس بہت بڑھ گئی ہے۔ کیونکہ ہر سو تہذیب کا بحران و پائمالی ہے۔
بہت بہت مبارک اتنے خوبصورت افسانہ کے لئے۔
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
ہر سچے فنکار کے ذہن میں ایک آڈیو / ویڈیو سسٹم فٹ ہوتا ہے۔ حادثات اور واقعات کی تصویریں اور آوازیں ذہن کے ریزرو خانے میں پڑی پختگی کی منزلوں سے گذرتی رہتی ہیں، جذبات و احساسات کی شدت آمیزی ہوتی رہتی ہے، الفاظ و اصطلاحات کی رنگ آمیزی آرایش وزیبایش کے ہنر سے مزین کرکے تکمیل کے مراحل دھیمی آنچ بر طے کرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔اس عمل کے بعد جب وہ واقعہ یا مشاہدو افسانے کا روپ دھارن کرکے جب صفحہ قرطاس پر اترتا ہے اس میں شراب کہنہ کا خمار اور پرانے چاولوں کی خوشبو ہوتی ہے۔
اس افسانے میں بھی غیاث الرحمن صاحب نے اپنے چالیس سال پرانے زمانہ طالب علمی کے دوران علیگڈھ مسلم یونیورسٹی کی آڈیو وزیول کو یاداشت کی الماری سے نکال کر سحر انگیز انداز میں پیش کیا ہے کہ بیخود کردیا ہے۔
ہزاروں طالب علم اس درس گاہ سے فارغ ہوکر نکلتے ہیں جن میں سے زیادہ تر نے اسی قسم کی ہاسٹل لائف گذاری ہوگی لیکن ہر ایک غیاث الرحمن نہیں ہوتا جو واقعات کو، مقامات کو، کرداروں کو افسانوی رنگ میں پیش کرکے انھیں بقائے دوام عطا کردیں۔
غیاث الرحمن صاحب نے اپنے مسحور کن رومانی افسانے کے ذریعے نہ صرف حسیب اور گیتی کو بلکہ خالا کے ڈھابے اور ذکریا مارکیٹ کی کینٹین کو بھی یادگار بنادیا۔یہ ادھوری پریم کہانی اردو کے افسانوی ادب میں امر رہے گی۔
منظر نگاری، جزییات نگاری، واقعہ نگاری، کردار نگاری، جذبات نگاری، سب اعلیٰ درجے کی ہیں۔
حسیب کی فرمانبرداری اور مجبوری اس کی راہ کی رکاوٹ بن گئی، یہ اور بات ہے ویسے میرا خیال ہے عورت میں وفا کا مادہ زیادہ ہوتا ہے۔
غیاث الرحمن صاحب کو اس خوبصورت افسانے کے لئے مبارکباد۔
انور مِرزا
غیاث الرحمٰن صاحب کے بیشتر افسانے حقیقت سے قریب ہوا کرتے ہیں...مگر کردار، جزئیات اور منظر نِگاری کے لحاظ سے پیشِ نظر افسانہ حقیقت سے کچھ زیادہ ہی قریب ہے...
زبان و بیان کی خوش اسلوبی، بے ساختگی اور روانی... قاری کو بھی راوی اور حسیب کے ساتھ لئے چلتی ہے...
افسانہ طویل ہے...یہ احساس تو قاری کو پورا افسانہ پڑھنے کے بعد ہوتا ہے کہ افسانہ نِگار بڑی چالاکی اور کامیابی سے اپنا کام کر گیا...حالانکہ راوی اور خالہ کی تفصیلات کم کرنے کی گنجائش ہے...
آخر میں معذرت کے ساتھ
بس یہ کہنا چاھوں گا کہ کلائمکس میں جب حسیب کو ڈھونڈتی ہوئی لڑکی’گیتی‘ آتی ہے...تب لڑکی کا آنا اور اپنا وعدہ پورا کرنے کی بات بے معنی سی لگتی ہے...کیونکہ کہانی کا انجام تو پہلے ہی کھُل چکا ہے کہ لڑکا اپنی مجبوری کے سبب واپس نہیں آئے گا...
میرا ایسا خیال ہے کہ لڑکی کو ذرا پہلے آکر یہ سب کہنا چاہیئے تھا...یہ سن کر سب لڑکے خوش ہوجاتے…مکر راوی شاکڈ رہتا
پھر لڑکی کے جانے کے بعد راوی یہ راز کھولتا کہ حسیب اب واپس نہیں آئے گا...تو بہتر ہوتا...
رو و قبول تسلیم...
اِس کامیاب افسانے کے لیے
سیّد غیاث الرحمٰن صاحب کو
پُرخلوص مبارکباد
اور شکریہ
یہ افسانہ سید صاحب نے
بطورِ خاص بزمِ افسانہ کے لیے
چند دنوں قبل لکھا ہے…
شہروز خاور
راوی کی صفائی پسندی، سلیقہ مندی، خوش خصالی اور ڈسپلین سے افسانے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔
حسیب کے لاپروا/دیوانہ نظر آنے کے لیے ہیٹر بند نہ کرنے کے علاوہ کوئی اور عمل افسانے میں موجود نہیں ہے۔
گیتی مخدوم چودھری کی کردار نگاری توجہ طلب ہے۔۔
خوبصورت زبان و بیان سے قائم ہونے والا خوشگوار تاثر، کلائمیکس پر یک لخت زائل ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔شاید کلائمیکس میں "افسانچائیت" در آئی ہے۔۔
کسی بھی نوعیت کے تعلق/مراسم کے بغیر، دونوں کرداروں کا پانچ برس کا صبر و تحمل غیر فطری معلوم ہوتا ہے۔۔
خوبصورت زبان اور عمدہ بیانیہ نے افسانے کے ہر منظر کو دلکش / دلچسپ بنا دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ کلائمیکس سے پہلے تک افسانے کی طوالت گراں نہیں گزرتی۔
عنوان : وعدہ ہے میں ادھورا پن ہے۔ادھورا پن افسانے کے لیے اچھا ہوتا ہے لیکن جب عنوان موضوع کی مناسبت سے طے کیا جائے تو عنوان میں افسانے کا احاطہ کرنے کی خوبی ہونی چاہیے۔۔
عنوان صرف "وعدہ" بھی ہوسکتا تھا۔"ہے" کی وجہ سے وعدے کا زور کم ہوگیا ہے۔صوتی اعتبار سے بھی "ہے" وعدے کو کمزور کررہا ہے۔معنوی اعتبار سے بھی "وعدہ ہے" سے زیادہ "وعدہ" مناسب لگتا ہے۔
افسانہ نگار کے لیے نیک خواہشات
پروفیسر اسلم جمشیدپوری
وعدہ ہے۔۔۔اچھا روما نی افسانہ ہے۔ اس میں جذبات نگاری بھی ہے اود وعدہ بھی۔حسیب کا کردار بہت خوب ہے۔لیکن لڑکی کا بھی جواب نہیں، جس نے رشتوں کے ساتھ ساتھ، کیریر اور وعدے کا بھی خیال رکھنا۔ افسا نے میں تحیر وتجسس قاری کو باندھنے رکھتا ہے۔
اس افسانے کے لئے جی آر سید کو بہت بہت مبارک باد
سیّد غیاث الرحمٰن
معزز اراکین و ممبران ،بزم افسانہ، کی خدمت میں موُدبانہ سلام۔ میں آپ سبھی خواتین و حضرات کا بے حد ممنون ومشکور ہوں۔خصوصاً انورمرزاصاحب کا، دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہی کی تحریک سے مجھے یہ افسانہ لکھنا نصیب ہوا۔ اس ایونٹ میں میں نے پہلے اپنا ایک پرانہ افسانہ بھیجھا تھا۔ جس کا انپیج میرے پاس موجود نہیں تھا۔ پھر انور مرزا صاحب سے فون پر بات ہوئی تو انھونے فرمائش کی کہ ایک نیا افسانہ لکھ ڈالئے۔ میں نے ان کے مشورے پر قلم اٹھایا۔ ذہن میں علیگڑھ کی کچھ پرانی یادیں محفوظ تھیں ، ان پر قلم برداشتہ ایک ٹوٹی پھوٹی کہانی لکھ ڈالی۔ اس پر نظر ثانی بھی نہ کر سکا۔ اس لئے کہ ان دنوں کچھ ناگہانی مصروفیات سے جوجھ رہاہوں۔ ہاتھ سے لکھے افسانے کو ہی کٹی پھٹی حالت میں اسکین کر کے بھیج دیا۔ پھر انور مرزاصاحب نے ہی اس کو ٹاءیپ کر کے ایونٹ میں شامل کر لیا۔ ان کی یہ محبت اور احسان یاد رہے گا۔۔۔ پھر آپ سبھی محترم و مکرم ممببران نے جس محبت سے اس کی پذیرائی فرمائی اس کے لءے میرے پاس الفاظ ہی نہیں۔ ہر تبصره شاہکار ہے۔
آپ کے تمام مشورے سرآنکھوں پر۔ جب کبھی اس افسانے کو حتمی روپ دوں گا، آپ کی آراء کو مدنظر ضرور رکھونگا ، وعدہ ہے۔
ایک بار پھر آپ سبھی کا صمیم قلب سے شکریہ۔
رخسانہ نازنین صاحبہ
اقبال حسن آزاد صاحب
معین الدین عثمانی صاحب
اکبر عابد صاحب
محمد یحیٰ جمیل صاحب
وحید امام صاحب
نصرت شمسی صاحبہ
ناہید طاہر صاحبہ
رضوان الحق صاحب
سدی ساجدہ جمال صاحبہ
فرخندہ ضمیر صاحبہ
ام مسفرہ صاحبہ
ترنم جہاں شبنم صاحبہ
ریحان کوثر صاحب
انیس رشید خان صاحب
اسرار گاندھی صاحب
ڈاکٹر فیروز عالم
فریدہ نثار احمد انصاری صاحبہ
پروفیسر غضنفر صاحب
نگار عظیم صاحبہ
ڈاکٹر فریدہ تبسم
سراج عظیم صاحب
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
اور
انور مرزا صاحب۔
کسی کا نام چھوٹ گیا ہو تو معافی کا خواستگار ہوں۔
نیاز مند۔۔۔
غیاث الرحمٰن
0 Comments