بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں
(رومانی افسانے)
افسانہ نمبر: 05
جھکورا
عرفان ثمین
بلبل کی غزل سرائی میرے کانوں کو ناگوار گزری۔ بھنوروں کی گنگناہٹ سے جی اکتانے لگا۔ پتے میرے پیروں تلے چرمرانے لگے۔ وہی پارک، وہی درخت اور ان کے بیچ سے گزرتے ہوئے وہی خمیدہ راستے اور پگڈنڈیاں۔
مگر میں و ہ نہیں۔ دل کا موسم بدل چکا ہے۔ پہلی بار احساس ہوا کہ باہر کے موسم کا تعلق اندر کے موسم سے ہوتا ہے۔ یہ بھی اسی موسم میں معلوم ہوا کہ محبت کے کئی مفہوم ہیں۔ محبت حسرت دل ہے، ایک حادثاتی لمحہ ہے۔ کبھی یہ آشفتہ سری لگتی ہے تو کبھی خود شناسی۔ انسان محبت کو جتنا سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اتنے ہی تحیر اور آگہی کے در اس پر وا ہوتے جاتے ہیں۔
اس شہر میں آئے ہوئے مجھے چار مہینے ہوچکے تھے۔ بنک کی ڈیوٹی ختم ہونے کے بعد ہر شام ہوا خوری کے لئے پارک کا رخ کرنا میرا معمول تھا۔ پارک میں موجود ہمہ قسم کے پھولوں اور خوش گلو پرندوں کو دیکھ کر سارے دن کی تھکان دور ہو جاتی تھی۔ پارک میرے فلیٹ سے ایک کلو میٹر کے فاصلے پر ہی تھا اس لئے میرا زیادہ تر وقت پارک میں ہی گذرتا تھا۔ یوں بھی فلیٹ میں اکیلے پڑے پڑے وحشت سی ہوتی تھی۔ فلیٹ سے پارک تک کافی وسیع اور پر سکون سڑک تھی جس کے دونوں طرف نہایت خوبصورت اور حسنِ ظن سے مرصع رہائشی مکانات تھے جن کے سامنے گلنار کے درخت گلباری کر کے غالیچہ سا بنا دیتے۔ آتے جاتے میں ان نظاروں سے محظوظ ہوتا تھا۔
اسی رستے کے دوسرے موڑ پر ایک سفید بنگلہ تھا جس میں شیشے کی بڑی بڑی کھڑکیاں تھیں جن کے پیچھے خوبصورت پردے لٹکے ہوئے ہوتے تھے۔ میں جب بھی اس بنگلے کے سامنے سے گزرتا تو پردوں کے پیچھے کوئی سایہ متحرک ہو جاتا اور چوڑیوں کے چھناکے کی ہلکی سی آواز میری سماعتوں میں رس گھول دیتی۔ میں کچھ لمحوں کے لئے وہیں ساکت ہو جاتا۔ پاس سے گزرتے لوگ عجیب نظروں سے میری طرف دیکھتے تو میں جھینپ کر آگے بڑھ جاتا۔ کئی دنوں تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ میرا تجسس اور اشتیاق بڑھتا رہا۔ خواہ مخواہ دل بے کل ہونے لگا۔ اسے دیکھنے کے لئے، اس کے بارے میں جاننے کے لئے۔
اتوار کا دن تھا۔ کمرے کی صفائی کر کے میں باہر سڑک پر نکل آیا۔ کچن کی کچھ ضروری اشیاء کی شاپنگ کرنی تھی۔ شاپنگ کرنے کے بعد فلیٹ کی طرف رخ کرنے کی بجائے غیر ارادی طور پر میرے قدم اسی گھر کی طرف بڑھنے لگے۔ اجنبی شہر، اجنبی لوگ اور آج کل جس رستے پر میں چل پڑا تھا وہ بھی میرے لئے اجنبی تھا۔ میں نے تیس سال کی عمر بہت محتاط ہو کر گزاری تھی۔ بردباری میری شخصیت کا خاصہ تھی۔ کالج کی پڑھائی کے دوران بھی میری توجہ اِدھر اُدھر نہیں بھٹکی جبکہ میرے دوستوں کے معاشقے کیلنڈر کے ساتھ بدلتے رہتے تھے۔ عشق، محبت، ان چیزوں کے بارے میں میرا مطمح نظر مختلف تھا بلکہ میں ان لفظوں سے متنفر تھا۔ یہ سب سطحی باتیں ہیں، عملی زندگی سے ان کا کوئی تعلق نہیں۔ لیکن زندگی بھی کہاں ہار مانتی ہے۔ ہر لمحہ اپنے تمام مضمر پہلوؤں کو انسان پر منکشف کرنے کی کوشش کرتی ہے۔
آج ابھی مجھ پر منکشف ہوا کہ یہ وہی راہیں ہیں جن کا میں منکر تھا، یہ وہی احساسات ہیں جن کے بارے میں دوستوں سے سن کر میں ان پر طنزیہ فقرے کسا کرتا تھا۔
"نہیں۔" میرے اندر کوئی تھا جس نے فوراً اس کی نفی کی۔ میں عجیب مخمصے میں گرفتار ہو گیا۔ سوچوں کے انہی دائروں میں تیرتا ہوا میں اسی جگہ جا پہنچا جہاں مجھ پر جمود طاری ہو جاتا تھا۔ قدم آگے بڑھنے سے انکار کر دیتے تھے۔ نظر اٹھا کر میں نے کھڑکی کی طرف دیکھا تو بھونچکا سا رہ گیا۔ شیشے کے پیچھے ایک ماہ رخ کی دو ستارہ آنکھیں میری طرف ہی دیکھ رہی تھیں۔ اس کی نگاہوں کی تپش سے میرے اندر اتھل پتھل ہونے لگی۔ میں نے ایک لحظہ میں نظر وں کا زاویہ تبدیل کر لیا اور واپس چلا آیا۔
گھرآ کر بھی وہ میری سوچوں پر قابض تھی۔ سارا دن میرے اصول اور جذبات کے درمیان جنگ چھڑی رہی۔ میں ایک باوقار خاندان کا اعلیٰ تعلیم یافتہ مرد تھا۔ میری پرورش نہایت شائستہ ماحول میں ہوئی تھی۔ بچپن سے ہی ہمیں ازبر کرایا گیا تھا کہ اپنے حسب نسب کی قدر و منزلت اور آبرو کا پاس رکھنا ہمارا فرضِ عین ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر میں نے ان اصولوں کی پیروی کی، مگر اس بار جذبات اپنی تمام شدتوں کے ساتھ سرکشی پر آمادہ تھے۔ برسوں سے جذبات کے جس منہ زور دہانے پر میں نے پتھر رکھا تھا وہ سرکنے لگا۔ پھر کسی کمزور سے لمحے میں میرے اصولوں نے جذبات کے آگے گھٹنے ٹیک دئے۔
اس دن کے بعد میرے شب و روز یکسر بدل گئے۔ میں جب بھی اس بنگلے کے آگے سے گزر تا تو پردے کی اوٹ میں وہ چہرہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میرا منتظر ہوتا۔ مجھے دیکھتے ہی وہ پلکیں جھکا دیتی، چہرے پر تھرکتی بالوں کی آوارہ لٹ کو کانوں کے پیچھے کرتے ہوئے اس کی چوڑیوں سے جو کھنک پیدا ہوتی وہ مجھے پاگل کر دیتی تھی۔ پھر جب وہ پلکوں کی جھالروں کو اٹھا کر میری طرف دیکھتی تو اس کی قیامت خیز آنکھوں میں مجھے اپنے لئے پسندیدگی کی جھلک نظر آتی۔ میں ہلکی سی مسکراہٹ بکھیر کر پارک کی طرف چل پڑتا۔
پارک میں کافی گہما گہمی ہوتی لیکن میں سب سے بے نیاز ہو کر بس اسی کے تصور میں محو رہتا۔ پارک کے کچے پکے راستوں پر چلتے ہوئے، پھولوں کے پاس سے گزرتے ہوئے، وہ میری سوچوں کا مرکز بنی رہتی۔ مہکتے پھول اور ہوا کے لمس سے لچکتی ڈالیاں دل کے تاروں کو چھیڑ دیتیں۔ پھولوں پر منڈلاتے ہوئے بھنوروں کی گنگناہٹ سماعتوں کو سکون بخشتی۔ بلبل کی نغمہ سرائی روح کی تسکین کا سامان کرتی۔ پیروں تلے آنے والے سوکھے پتوں سے اس کی چوڑیوں کی کھنک سنائی دیتی۔ پارک کے تمام نظارے میرے جذبات کے رنگوں میں رنگے نظر آتے۔ اپنے اطراف کی ہر چیز مجھے خوبصورت نظر آ رہی تھی۔ یہ شاید محبت کا ہی اعجاز تھا۔
ایک روز پارک جاتے ہوئے خلاف معمول وہ چہرہ نظر نہیں آیا۔ میں کبیدہ خاطر سا ہو گیا۔ لوٹتے وقت بھی میری نظریں اس کی متلاشی رہیں مگر وہ ہنوز غائب تھی۔ بنگلے کا گیٹ کھلا ہوا تھا اس لئے اس کا شہر سے باہر جانا خارج از امکان تھا۔
کئی دن یوں ہی گزر گئے تو ایک دن اپنی تمام ہمتیں مجتمع کر کے میں گیٹ کے اندر داخل ہوا، مگر اندر داخل ہوتے ہی میرے ہاتھ پیر لرز نے لگے، دھڑکنیں بے ترتیب ہو نے لگیں۔ اسی کیفیت میں، میں نے ڈور بیل بجائی۔ دروازہ کھلا اور سامنے وہ تھی۔ میں حواس باختہ کھڑا رہا۔ میرا جسم پسیجنے لگا تھا۔ قدرے توقف کے بعد اس نے خوش اسلوبی سے مجھے اندر آنے کو کہا۔ کوریڈور سے ہوتے ہوئے ہم گیسٹ روم تک پہنچے۔ گیسٹ روم میں رکھا فرنیچر اور دیگر آرائشی اشیاء کافی عمدہ اور دیدہ زیب تھیں جو گھر کے مکینوں کے حسنِ مذاق کی گواہی دے رہی تھیں۔ پانی کا گلاس سینٹر ٹیبل پر رکھ کر وہ میرے سامنے کے صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کے تمام سر پر سلیقے سے دوپٹہ بندھا ہوا تھا اور آنکھیں وہی قیامت خیزی کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔ میری حالت غیر سی ہونے لگی۔ پھر تعارف کا سلسلہ شروع ہوا اور چائے نوشی کے بعد کچھ دیر رسمی گفتگو ہوتی رہی، پھر میں واپس چلا آیا۔
اس کا نام نیلوفر تھا۔ میری طرح وہ بھی اس شہر میں اکیلی تھی۔ ماں باپ اس کے نہیں تھے۔ ایک بھائی جو مسقط میں جاب کرتا تھا سال میں ایک دو بار بہن سے ملنے آ جایا کرتا تھا۔ وہ چونکہ اکیلی تھی اس لئے میں اس کے چھوٹے موٹے کام نپٹا نے لگا۔ یوں نیلوفر سے بار بار ملاقات کی سبیل پیدا ہوگئی۔
ملاقاتیں بڑھنے لگیں تو اجنبیت کے دائرے سمٹنے لگے۔ جوں ہی فرصت کے لمحات میسر آتے، میں اس سے ملنے نکل پڑتا۔ مجھے دیکھ کر اس کا چہرہ بھی کھل اٹھتا۔ ہر ملاقات میں نیلوفر کی شخصیت کا وہی پہلو نمایاں نظر آتا۔ دوپٹے سے ڈھکا ہوا سر، خراماں چال، محتاط انداز ِگفتگو۔ مگر اس کی آنکھوں میں ہمیشہ مجھے ایک تشنگی سی محسوس ہوتی۔ کبھی لگتا کہ اس کی آنکھیں اپنا کوئی مدعا بیان کرنا چاہتی ہیں تو کبھی دورانِ گفتگو اس کی معنی خیز مسکراہٹ مجھے گڑبڑا دیتی۔
اس سے ملاقات کے بعد جب میں چہل قدمی کے لئے پارک کی طرف چل پڑتا تو محسوس ہوتا کہ اس کی آنکھیں اب بھی میرے تعاقب میں ہیں۔ وہ میرے تمام حواسوں پر حاوی ہو چکی تھی۔ پارک میں سبزہ زار پر لیٹے میں اسی کو سوچتا تھا۔ تخیلات کی غیر مرئی دنیا میرے جبلّی جذبوں کو گدگدانے لگتی اور میرا وجود نت نئے رنگوں سے روشناس ہونے لگتا۔ میرے اطراف کے گل بوٹوں نے شاید وہی رنگ مجھ سے چرا لئے تھے کیوں کہ وہ میرے ہم نفس اور ہم راز تھے۔ تنہائی سے اکتا کر کبھی کبھی میں ان سے بھی راز و نیاز کی باتیں کر لیتا تھا۔ میرے جذبات ان سے محجوب نہیں تھے۔ گلوں پر منڈلاتے ہوئے بھنورے مجھے رنگ اور خوشبو کی کہانی سنانے لگتے تو میری تمناؤں میں تموج پیدا ہو جاتا۔ ان کیفیتوں سے گزر کر میں سرشار ہونے لگا تھا۔
ہماری ملاقاتوں کو د و ماہ گزر گئے مگر دونوں میں سے کسی نے بھی کھل اپنی دلی کیفیت کا اظہار نہیں کیا تھا۔ روز شام بنک سے لوٹنے کے بعد میں نیلوفر کے گھر کا رخ کرتا یا کوئی کام ہوتا تو وہ خود فون کر کے بلا لیتی، مگر ہماری ملاقاتوں میں محض اِدھر اُدھر کے موضوعات پر بات چیت ہوتی تھی۔ وہ بہت محتاط تھی یا چاہتی تھی کہ میں پہل کروں۔ میں انتظار کرتے کرتے تھک گیا۔ محبت کے اظہار میں عورت کبھی پہل نہیں کرتی یا شاید مرد ہی مجبور ہو جاتا ہے۔
انجام ِکار، میں نے نیلوفر سے براہ ِراست بات کرنے اور اپنے گھر والوں کو نیلوفر کے بارے میں بتانے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ اتنا آسان نہیں تھا مگر میں نے ذہنی طور پر اپنے آپ کو تیار کر لیا تھا یا شاید محبت نے مجھ میں کہنہ روایتوں سے لڑنے کی سکت پیدا کر دی تھی۔
گرما کا موسم تھا مگر اگلے دن صبح سے ہی موسم ابر آلود تھا۔ گھنے سیاہ بادلوں نے سورج کو پوری طرح سے اپنے حصار میں لے لیا تھا اور تیز ہوائیں بادلوں سے الجھ رہی تھیں۔ میں نے بنک سے چھٹی لے لی۔ ناشتے کے بعد کمرے کی صفائی کا خیال آیا۔ چھٹی کے دن ہی کمرے کی سدھ لینے کا موقع ملتا تھا۔ میرے ہاتھ اسباب کو ترتیب دے رہے تھے اور ذہن ان الفاظ کو، جو میں آج نیلوفر سے کہنا چاہ رہا تھا۔ ذہن مختلف خیالات کی آماجگاہ بن گیا تھا۔ گیارہ بجے کے آس پاس کام ختم کر کے میں نیلوفر سے ملنے باہر نکل پڑا۔ ہلکی بوندا باندی شروع ہو چکی تھی، فضا میں مٹی کی سوندھی خوشبو پھیل گئی تھی۔ راستے میں گلنار کے پھول اِدھر اُدھر کونو ں میں سمٹ گئے تھے اور کچھ ابھی اپنا ٹھکانا ڈھونڈنے میں سرگرداں تھے۔
نیلوفر کے گھر پہنچ کر میں نے ڈور بیل بجائی۔ اس روز جس نیلوفر نے دروازہ کھولا وہ یکسر مختلف تھی۔ کھلے ہوئے دراز بال، سینے کے زیر و بم سے بار بار ڈھلکتا ہوا دوپٹہ۔ میں جزبز سا ہونے لگا تو وہ فوراً معذرت خواہی کرنے لگی۔
”وہ.۔۔۔۔۔۔ اچانک بارش شروع ہو گئی اور۔۔۔۔۔۔“ وہ کھلے بالوں پر اپنا دوپٹہ درست کرنے لگی۔
میں اسے مزید شرمندہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس لئے اندر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد وہ چائے بنا کر لے آئی تو میں لمحاتی توقف کے بعد اپنے مقصود پر آ گیا۔
”نیلوفر! میں نے تمہاری آنکھوں میں اپنے لئے محبت دیکھی ہے۔ تمہارے دلی جذبات سے میں آ گاہ ہوں۔ میرا حال بھی تم سے پوشیدہ نہیں ہوگا۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے کہ اب ہمیں آگے بڑھنا چاہئے۔“ اتنا کہہ کر میں خاموش ہو گیا۔ کچھ دیر کمرے میں سکوت کا عالم رہا۔ شاید وہ تذبذب میں تھی، میں بیتابی سے اس کے جواب کا منتظر تھا۔
”جی۔“ نیلوفر نے اس سکوت کو توڑا، اس کی آنکھوں میں چمک اتر آئی تھی۔ ”میں بھی آپ سے یہی۔۔۔۔“
”بس۔“ میں نے قطع کلامی کی۔ ”مجھے لفظوں پر اعتبار نہیں، میں نے تمہاری آنکھوں میں اپنی محبت کا اقرار دیکھ لیا ہے، بہت جلد میں ممی پاپا سے تمہاری بات کروں گا۔“
”کیسی بات؟“ اس کا لہجہ تحیر آمیز ہو گیا اور اس کی آنکھوں میں ستارے بجھنے لگے۔
”ہماری شادی کی بات اور کیا۔“ میں دھیرے سے ہنس دیا اور صوفے پر اپنی پشت ٹکا دی۔
”م۔۔۔۔۔میں۔۔۔۔۔آپ سے شادی نہیں کر سکتی۔ “ اس نے اچانک دھماکہ کر دیا۔
”مگر کیوں؟“ میں نے حیرت سے استفسار کیا۔ میرا دل ڈوبنے لگا تھا۔ وہ خجل سی ہونے لگی۔
”میں نے آپ کو نہیں بتایا۔۔۔۔ دراصل میں شادی شدہ ہوں۔ دو سال پہلے میرے بیمار والدین نے میری مرضی کے خلاف میری شادی کر دی تھی۔ میرے شوہر بہت بڑے بزنس مین ہیں۔ کچھ وجوہات کی بنا پر وہ مجھے طلاق دینا چاہتے ہیں مگر میں نے زیادہ پیسوں کی خاطر ان پر گھریلو تشدد کے تحت مقدمہ درج کرایا ہے جو عدالت میں زیرِ سماعت ہے۔ اور پھر ایک بار کے تجربے کے بعد شادی میں رکھا ہی کیا ہے۔ آسودگی کی خاطر اب زندگی بھر کے لئے یہ طوق میں اپنے گلے میں نہیں ڈال سکتی۔۔۔۔“
وہ کتنی آسانی سے کہے جا رہی تھی اور میں سر جھکائے سن رہا تھا۔ اس کا ایک ایک جملہ پہاڑ بن کر میرے وجود پر گر رہا تھا اور میں ریزہ ریزہ ہو رہا تھا۔ باہر بارش میں تیزی آ گئی تھی۔ کچھ دیر رکنے کے بعد وہ مزید گویا ہوئی۔
"مگر یہ بھی سچ ہے کہ میرے دل میں آپ کے لئے بے کراں جذبات موجزن ہیں۔ سچے جذبے رشتوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ محبت کو رشتوں کے قیود سے آزاد ہو کر بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، یہ تو ایک وسیع سمندر ہے اور سمندر کی بیتاب موجوں کو، اس کی وسعت کو بھلا کوئی قید کر سکتا ہے۔ محبت کے جذبے اور تقا ضے اگر صادق ہوں تو اپنا آپ منوا ہی لیتے ہیں۔۔۔۔“
یہ خوش گفتاری کا رنگ بدلا، دفعتہ میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کے لہجے میں تلون اور ناترسی کا امتزاج تھا۔ ایک بار پھر اس کا دوپٹہ گستاخی پر اتر آیا تھا۔ میرے اندر خواہشات کا تلاطم شور مچانے لگا۔ سانسیں نا ہموار ہونے لگیں۔ عورت اگر اپنی خواہشات کا اشتہار بن جائے تو اس کے قرب کی آگ میں مرد اپنی انا کو جلا دیتا ہے۔ محبت نے میری پائدار شخصیت کو گداز کر دیا تھا، موم کر دیا تھا۔ شمع، موم سے قریب ہونے لگی، میرے اوسان خطا ہونے لگے۔ میں پوری طرح جذبات کے حصار میں قید ہو گیا۔ موم اور شمع کا قرب بڑھنے لگا تو میرا اپنا ”آپ“ قطرہ قطرہ پگھلنے لگا۔ زلفوں کی سیاہی میرے وجود پر چھانے لگی۔ قریب تھا کہ اس کی زلفوں کے اندھیرے میرے روشن اصولوں پر حاوی ہو جاتے، خطا و نسیان کی تاریکی میری زندگی پر پچھتاوے کی ایک کالی رات مسلط کر دیتی، اچانک عاقبت اندیشی نے مجھے جھنجوڑا، فرائض کی ادائیگی اور تعلق داریوں کا خیال شب افروز بن کر میرے ذہن کو منور کرنے لگا۔ لطافتوں کا مد و جزر کچھ دیر میں تھم جائے گا، مگر کچھ لمحوں کی آسودگی کے لئے میں اپنے اصولوں سے کنارہ کشی کیسے کر لوں۔ میں نے برق رفتاری سے اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے اور باہر نکل آیا۔
باہر جھما جھم بارش ہو رہی تھی۔ میں تیز تیز قدموں سے اپنے فلیٹ کی طرف بڑھنے لگا۔ بارش کی بوندیں میرے اندر کے شعلہ زن جذبات کو ایک ایک کر کے بجھائے دے رہی تھیں۔ گھر آ کر میں نے گہری سانس لی، مگر دل میں قلق کے جھکڑ چلنے لگے۔ پشیمانی کے احساس نے مجھے نیم جان کر دیا تھا۔
”تو کن مہمل راہوں پر نکل پڑا تھا، محبت انسان کو کسی لمحہ قرار نہیں دیتی بلکہ یہ تو بندے کو تباہ کرنے کا منصوبہ لے کر آتی ہے اور عاشق غبار ِخاک کی مانند یہاں وہاں اڑتا پھرتاہے۔ انسان کو محبت کے ساتھ ساتھ دیگر فرائض و منصب کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔ “ میرا ضمیر مجھے ملامت کرنے لگا۔
بستر پر لیٹا تو بار بار وہ منظر میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتا۔ اس کے الفاظ میری سماعتوں کو چیر کر میری روح کو گھائل کر رہے تھے۔ تکدر و ملال سے ذہن ماؤف ہونے لگا تو میں نے آنکھیں موند لیں۔
گھنٹوں بعد میرے حواس درست ہوئے تو میں نے اٹھ کر کھڑکی کا پردہ سرکایا، باہر مطلع صاف ہو چکا تھا مگر پچھتاوے کا ایک سیاہ بادل جو میرے دل پہ آ کر ٹھہر گیا تھا اسے چھٹنے میں ابھی وقت تھا۔ لیکن شاید یہ میری خام خیالی ہے کیونکہ زندگی کا کوئی واقعہ چاہے وقت کے کتنے ہی سنگ ِمیل طے کر لے شعور و آگہی سے اوجھل ہونے کے باوجود محو نہیں ہوتا۔ اور محبت کوئی ہوا کا جھونکا نہیں کہ بس چھو کر گزر جائے، یہ تو ایک مکمل رنگ ہوتا ہے جو دل کی دیواروں پر ہمیشہ کے لئے ثبت ہو جاتا ہے۔
کچھ دن بعد۔۔۔۔۔ جب طبیعت پوری طرح سےسنبھلی تو ہوا خوری کے لئے باہر نکل آیا۔ سورج غروب ہو نے میں کچھ وقت تھا مگر اس کی تمازت ابھی اپنے شباب پر لگ رہی تھی۔ سڑک کے کنارے بکھرے ہوئے پھول انگارے لگ رہے تھے۔ گھر سے پارک تک جاتے ہوئے میرے قدم ذرا نہیں ڈگمگائے۔
میرے ا ندر خود رفتگی کی متمادی کیفیت ختم ہو چکی تھی۔ جذبات کے وقتی ابال کو میں نے استمراری سمجھ لیا تھا۔ ایک رائیگاں سفر کے بعد میری زندگی ٹھہرے ہوئے پانی کی طرح ایک سطح پر آ کر رک گئی، جس میں محبت کی کتنی بھی کنکریاں پھینکو، کوئی گرداب نہیں بنتا، کوئی موج سر نہیں اٹھا تی۔
”ویسے بھی وہ محبت تو تھی ہی نہیں، بس ایک چھلاوا تھا، نفسِ عمر ِرواں کے پھیرے تھے۔ نیلوفر تیری آرزوؤں کی جھیل میں کھلا وہ پھول تھی جس تک پہنچنے کے لئے تجھے عفونت آمیز کیچڑ سے گزرنا پڑتا۔۔۔۔۔“ اس بار میرے ضمیر نے میرے دل کے غبار کو کم کرنے کی سعی کی تھی۔
پارک میں داخل ہو کر میں لالہ زار کی طرف چہل قدمی کرنے لگا۔ ایک نظر اطراف دوڑائی۔ گہما گہمی قدرے کم تھی۔ آس پاس وہی پگڈنڈیاں، وہی درخت اور فطرت کے وہی خوشنما نظارے۔ مگر یہ تمام نظارے اب میرے لئے کشش سے عاری تھے، یہ ا پنی جاذبیت کھو چکے تھے۔ اندر کا موسم ٹھیک نہ ہو تو باہر کا ہر خوبصورت نظارہ ہیچ ہے۔ محبت، زندگی، آگہی، سب نے مل کر کلیہ طے کر دیا:
"نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ِایاز میں"
میں انہی سوچوں میں غلطاں تھا کہ اچانک ہوا کا ایک آوارہ جھونکا چلا اور ایک گل لالہ میرے قدموں میں ڈال گیا۔ میں نے جھک کر اسے اٹھا لیا۔ کچھ دیر اسے بغور دیکھتا رہا اور قدرت کی صناعی اور خوش انتظامی سے محظوظ ہوتا رہا۔ مگر جوں ہی اس کے سیاہ داغ پر نظر پڑی، میرے اندر برف کی سِلیں چُور چُور ہونے لگیں۔
ختم شدہ
تبصرے اور تاثرات
رخسانہ نازنین
زبان وبیان نے مسحور کردیا۔ محبت کا ایک اور رنگ اس افسانے میں دکھائی دیا مگر جس نے طبیعت مکدر کردی۔ افسانے میں حقیقت تلاش کرنا بے سود ہے۔ افسانوں میں سب کچھ ممکن ہوسکتا ہے۔ بزم افسانہ میں افسانے کی پیشکش پر مبارکباد پیش ہے۔
اقبال حسن آزاد
شاعرانہ نثر میں نہایت مہارت کے ساتھ گوندھا گیا ایک دلچسپ اور عمدہ افسانہ۔مصنف کو دلی مبارکباد
محمود انصاری
کیا ہی لاجواب تخلیقی افسانہ ہے۔ کیا الفاظ, کیا زبان اور لہجہ, کیا تشبیہ اور استعارے, کیا ہی مربوط اور رواں بیانیہ ہے۔
کردار کے حالات, کیفیات اور واقعات تک تمام عناصر کو راوی نے مشاہداتی یا تخیلاتی بنیاد پر نہایت خوبصورتی کے ساتھ کہانی کے دائرہ میں سمیٹا ہے۔
دلچسپ منظر نگاری, مضبوط کردار نگاری اور جذبات کو بیاں کرتے عمدہ جملوں کی معنویت, تخلیقیت اور جاذبیت نے فسوں طاری کردیا۔
ہااااائے!
کیا ہی سچ بات کہی ہے کہ باہر کے موسم کا تعلق اندر کے موسم سے ہوتا ہے۔
کہانی مکمل ہوچکی ہے۔ راوی کے ساتھ میں خود کو پارک تک لے آیا ہوں۔ ذہن کے نہاں خانوں میں نیلوفر کا سراپا اُبھر رہا ہے۔ ہم خیالی سے رومانی احساسات کشید کرنے کی کوشش جاری ہے۔ تیز ہواؤں کے ساتھ بارش شروع ہوچکی ہے۔ بارش کی بوندیں پارک کی زمین میں جذب ہورہی ہیں۔
ہوا کے تیز جھونکے, راوی کو لگے جھکولے, جھکورا افسانے کا سحر طاری ہے۔
ناہید طاہر
یوں تو محبت کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ اس افسانے میں مصنف! قاری کے لیے ایک ایسا رنگ چُرالانے میں کامیاب رہا جس میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ایک بے نام سی کسک اور نا آسودگی کے زخم پوشیدہ ہیں۔۔
اس کسک میں طمانیت بخش احساس تو تب جاگا جب مصنف نے اسے اصلاحی پہلو سے رنگتا ہوا ایک خوبصورت پیغام تک جا پہنچا
ارادوں کو مضبوطی اورجلا بخشتی یہ تحریر سوچنے پر مجبور کرگئی کہ واقعی اس قسم کی محبتیں ، وقت کا ضیاع اور بقول مصنف ؛
عفونت آمیز کیچڑ سے گزرنے کے مصداق ہے۔
تنویر احمد تماپوری
محترم عرفان صاحب کے افسانے لیک سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ یہ بھی انہیں روایتوں سے ہٹ کر ایک کمپاکٹ اور مکمل افسانہ ہے۔ تخلیقی جملوں کی ساخت اور بناوٹ کافی شاندار ہے۔ کہانی کا موضوع بے شک نیا نہیں۔ مگر برتنے کا انداز، اعلی درجے کی فسوں کاری اور الفاظ کا دروبست اچھوتا ہے۔ جس کے لئے مصنف مبارکباد کے مستحق ہیں۔
معین الدین عثمانی
عرفان ثمین کا افسانہ "جھکورا" اپنے عنوان ہی طرح سر سبز و شاداب ہے جو رومانی افسانے کے پیمانے پر پوری طرح اتر تا ہے۔ اور اپنے انداز بیاں ، خیال کی ندرت کے سبب توجہ کا مرکز بھی ہے۔ افسانے کا اختتام قلمکار کی ذاتی سوچ کا مظہر ہے۔جس سے اتفاق کیا جانا چاہیے۔
۔ممکن ہے
آزادانہ سوچ کے افراد اس سے مطمئن نہ ہو۔
بہرکیف عرفان ثمین کی یہ خوبصورت تحریر پسند کیے جانے کی مستحق ہے۔
راجہ یوسف
عرفان ثمین صاحب کا پر کشش افسانہ... مبارکباد
ترنم جہاں شبنم
کس چشمہ کی مانند بہتے خوبصورت الفاظ و جملوں سے مزین رواں ایسی زبان کہ قاری اس کے سحر میں کھو کر رہ جائے۔ محبت کے سازوں کو چھیڑ کرگنگنا نے پر مجبور کرتی ایک ایسی کہانی جو حقیقت سے روبرو کراکر خزاں اور بہار کے موسموں کا پتا دے جائے۔ اور جاتے جاتے خود شناسی اور خود فریبی کے اعتراف کا آئینہ ہاتھ میں دے جائے۔ بہت عمدہ، بہترین، لاجواب جو بھی نام دیں کم ہے۔ پڑھ کر جی خوش ہوا۔ عرفان ثمین صاحب کے لئے بہت سی داد و مبارکباد 🌷
نعیمہ جعفری
رومانی افسانوں کے ایوینٹ "رنگ و پوے باراں " میں رنگ آمیزی کرتا محمد عرفان ثمین صاحب کا افسانہ "جھکورا" خوب ہے۔قلم کو رومان کی رنگین سیاہی میں ڈبو کر خوبصورت الفاظ کے موتیوں کو عبارت میں نگینوں کی طرح جڑ کے عرق ریزی سے لکھاہوا خوبصورت افسانہ ہے۔ تحریر کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے ،جس کے لیے مصنف کو دلی مبارکباد پیش ہے۔
جہاں تک پیار ،محبت اور عشق کے فلسفے کی بات ہے وہ قلمکار کی اپنی پسند اور اپنا حق ہے۔
انجام میں رومان کرکرا ہوگیا۔
عرفان ثمین صاحب کا یہ افسانہ ان کے افسانوی مجموعے کا نمایندہ افسانہ ہوگا۔اس حوالے سے دو تین نکات کی طرف اشارہ کرنے کی اجازت چاہونگی۔
عربی ،فارسی اور اردو کے خوبصورت سحر انگیز افسانے کا عنوان جھکورا " افسانے کی لسانیات سے میل نہیں کھاتا۔
گرداب۔۔۔گرد باد۔۔۔تلاطم۔۔!
٢۔عمارتوں میں حسن ہوتاہے حسن ظن نہیں ہوتا۔
کسی بنگلے کی بڑی بڑی شیشے کی کھڑکیاں جن پر پردے بھی پڑے ہوں ،ان سے گذر کر چوڑیوں کی لطیف کھنک سڑک تک نہیں پہنچ سکتی۔شیشے تو بھی آوازوں کو محبوس کردیتے ہیں۔
٣۔گلنار۔۔گل انار کا مخفف ہے۔گلنار کا درخت نہیں ہوتا جھاڑ ہوتا ہے۔ اس کے بجائے اگر گل مہر کردیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔
٤۔"عفونت آمیز کیچڑ " کی اصطلاح کانوں کو گراں گذرتی ہے۔عربی اور فارسی کی ترکیب کے ساتھ ہندی کا "کیچڑ" فصیح نہیں ہے۔کیچڑ کے بجائے دلدل یا غلاظت زیادہ فصیح ہوگا۔
٥۔دو ستارہ آنکھیں۔
دو ستاروں جیسی آنکھیں۔
رد و قبول مصنف کا حق ہے۔گراں گذرا ہو تو معذرت۔
ایوینٹ میں شمولیت کی بھی مبارکباد اور نیک خواہشات۔
ڈاکٹر فریدہ تبسم گلبرگہ
زیر نظر افسانہ۔۔۔۔۔رخت صحرانوردی میں چشم خوش خواب۔۔ ہوائے شوق پر مسافر فانوس حسرت لئے چلتا ہے اور طلاطم خیز طوفانی ایک موج ہی زیر کردیتی ہے مگر تسکین قلب کے دریچہء احساس میں ہنگامہء خلوت سے فتح یاب موج تبسم سکون حیات بن گئی
اس افسانہ کی اصل خوبی یہ ہے کہ بطون معنی شعور لفظ سے گلستان فسوں خیز کہانی کا خمیر تیار ہوا ہے واقعات کے سنگ مناظر جزئیات دامن تھامے قدم در قدم قاری کو متوجہ کرلیتے ہیں۔مگر کہانی کے بہاو کاتسلسل اس وقت تک ساتھ رہتا ہے جب دخول افسانہ نگار کہانی میں شعوری طور پر داخل نہیں ہوتا۔دانشورانہ ہنر مندی سے کردار کی ادائیگی کو منزہ کرنے کی سعی ضرور کی گئی ہے
اب قاری پر منحصر ہے کہ قبول و رد۔۔۔
آغاز میں محبت کا تعارف قاری کو اس قدر متوجہ کرتا ہے کہ قاری کی امیدیں قوی ہوجاتی ہیں کہ کوئی دھماکہ خیز رومانی جھکورا تصویر تخلیق بن کر سامنے آئے گا۔
کشمکش زیست، مظاہر تخیل پر عیاں ہونے سے گریزاں ہے۔اپنی پاک دامنی کی سلامتی اور اصلاحی پیغام کے اغلب نے کہانی کے کلائمکس کو دست آرزو کے تحت پیغام محبت میں تجاوز حد کو ملحوظ خاطر رکھا۔ محبت کی ناکامی کو انا کی چادر نے بچالایا۔۔اسی لیے پشیمان رہا۔۔۔اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا۔۔۔
اخلاقی اقدار اور شعوری کوشش نے موج کنار تک پہنچایا۔
چند جگہوں پر۔۔۔۔
کسی کے گھر کی دہلیز بنا کوئی مقصد لئے کیسے پار کی
گھر میں صرف ایک لڑکی ہی کیسے رہ رہی تھی۔۔
جب لڑکی خود۔۔۔ محبت میں گرفتار تھی تو اسے خود پتہ ہوگا کہ انجام کار کیا ہوگا۔پھر یہ ملاقاتیں، یہ دھوکہ۔۔۔؟؟؟
خیر کہانی افسانوی بصیرت سے ذہنی بلوغت کے ساتھ لفظوں سے تصویر کو خوبصورت بنانے کی بہترین کاوش ہے۔۔جس میں رومانی عکس کااحساس قاری کو محظوظ کراتا ہے۔
اس افسانہ پر ہم افسانہ نگار کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔ تبسم۔۔😊
ڈاکٹر انیس رشید خان
خوبصورت زبان و بیان اور دلکش منظر نگاری لئے ایک شاندار افسانہ ہے۔
پہلی بار پڑھنے پر مجھے اس کا عنوان سمجھ میں ہی نہیں آیا۔ اُردو ڈکشنری دیکھی تب معلوم ہوا کہ جھکورا ایک اردو لفظ ہی ہے، جس کے کئی معنی ہیں۔ تیز ہوائیں ، طوفانی بارش، ہوا کا سخت جھونکا، بڑی لہر، طوفانی ہواؤں سے ہلتا ہوا درخت وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام معنیٰ دراصل اپنے اندر تخریبی سرگرمیوں کو ظاہر کرتی ہیں۔
اس افسانے میں ایک نہایت شریف النفس خاندانی شخص کو محبت ہو جاتی ہے ایک بالکل اجنبی سی عورت سے! آخر میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عورت شادی شدہ ہے اور اپنے شوہر سے طلاق والے مقدمے میں ملوث ہے۔
افسانہ بہت خوبصورتی سے رواں دواں ہوتا ہے۔ مکمل افسانے کے دوران ایک تجسّس بنا رہتا ہے کہ آگے اس محبت کا انجام کیا ہوگا۔۔۔۔ لیکن محبت کا انجام ہوتا وہی ہے جو کہ اکثر افسانوں میں دکھایا جاتا ہے یعنی محبوب کا نا ملنا! مجھے لگتا ہے کہ شاید محبت کو ادھوری رکھنا افسانے کے تاثر کو بڑھا دیتی ہے۔ آخر میں ایک پیاس باقی رکھی جاتی ہے۔ اور یہ تاثر خود بخود ذہن میں آنے لگتا ہے کہ رومانی افسانے محبت کی ادھوری کہانی ہی ہوتے ہیں۔
اس افسانے کے آخری حصے میں بھی یہی ہوتا ہے۔
رومانیت سے لبریز، ایک شاندار دل گداز افسانے کے لئے محترم عرفان ثمین صاحب کے لئے بہت سی داد و مبارکباد 🌷🌹
اکبرعابد
دلکش منظرنگاری اورخوبصورت زبان وبیان ایک بہترین افسانے کےلئے بہت ضروری ہے اوریہ تمام خوبیاں عرفان ثمین کے افسانے جھکورا میں بدرجہ اتم موجود ہیں خیال کی ندرت۔تخلیقی جملوں کی ساخت کافی شاندار ہے۔تشبیہ اور استعارے سے مربوط بیانیہ بھی خوب ہے مضبوط کردار نگاری۔دلچسپ منظرنگاری اور جذبات کوبیان کرتے عمدہ جملوں کی معنویت نے محسور کردیا ہے افسانے کا سحر اندر بہت اندر تک محسوس کیا جاسکتا ہے افسانہ جھکورا کے لئے عرفان ثمین صاحب کوبہت بہت مبارکباداور نیک خواہشات۔۔۔۔
نصرت شمسی
بہت حسین انداز کا بہترین منظر کشی والا اصلاحی افسانہ۔۔۔
مجھے لگتا ہے کہیں کہیں افسانے کو رومانی رنگ دینے کی ذبر دستی کوشش کی ہے جس کی ضرورت بالکل نہ تھی۔۔
فریدہ نثار احمد انصاری
مصور نے جب کاغذ پر کئی رنگ سجائے تب ایک رنگ " محبت " کے نام کیا اور اس ایک رنگ سے کئی رنگوں کی قوس قزح سے آسمان سج گیا۔
انہی رنگوں سے ایک مختلف رنگ کو قلم کار نے اس افسانے کے لئے منتخب کیا۔آغاز میں محبت کی کشش جس نے دو اجنبی دلوں کو قریب کیا تب راوی کے لئے ہر موسم, موسم بہار بن گیا لیکن جوں ہی حالات کی آندھی چلی اور دل کا موسم بدلا, ساری رعنائیاں ختم ہو گئیں اور محبت بے نام و نشان رہ گئی۔
اول تو بنگلے کے باہر احاطہ کافی رہتا ہے پھر دبیز پردوں سے باہر چوڑیوں کی کھنک کیسے سنائی دی؟ ساتھ اس لڑکی کی آنکھوں کی جو تعریف کی گئی وہ کیسے نظر آ گئی؟
دوم یہ کہ چوڑیوں کی کھنک صرف راوی کو ہی سنائی دی وہاں اور کوئی موجود ہی نہ تھا؟
سوم یہ کہ ہر روز وہ لڑکی گویا راوی کے انتظار میں اسی پوزیشن پر ملی؟
ہاں البتہ اختتام میں چوں کہ ہجر لکھ دیا گیا تب اس کو دوپٹہ بھی ڈھلکنے لگا۔
محبت کسی بھی وقت کسی سے بھی ہو جاتی ہے یہ سچ ہے لیکن لڑکی سب کچھ جانتے ہوئے بھی آگے بڑھی اور آغاز اسی نے کیا۔
خیر فکشن میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
قلم کار نے تشبیہہ و استعارات سے افسانے کی خوب نوک پلک سنواری۔رواں افسانہ نے قاری کے شوق کو ہوا دی اور افسانے کو اختتام تک پہنچا کر محبت کے اس انداز کو بھی پڑھ لیا۔
قلم کار کے لئے نیک خواہشات۔
سدی ساجدہ جمال
محبت یا تو کامیاب ہوتی ہے
یا پھر ناکامیاب۔۔۔۔
یہ افسانہ بھی کامیابی اور ناکامی کے گرد سفر کرتا ایک ایسا ہی افسانہ ہے۔۔
ویسے محبت صرف پانے کا نام نہیں۔۔۔۔کسی کو کھو کر بھی تو محبت کی جا سکتی ہے۔۔۔
محبت دلوں کے موسم بدل دیتی ہے ہر چیز خوب صورت نظر آنے لگتی ہے۔۔۔۔اس افسانے کا مرکزی کردار بھی محبت کے موسم کے زیر اثر ایسی ہی کچھ کیفیت کا شکار نظر آیا۔۔۔
لیکن محبت کی ناکامی نے دل میں کھلنے والے رنگ برنگے پھولوں کو یکسر مرجھا دیا۔۔۔
اس ایونٹ میں شامل ہونے کے لئے افسانہ نگار کو ڈھیروں مبارک باد۔۔۔۔۔نیک خواہشات کے ساتھ۔۔۔۔
ام مسفرہ
عمدہ زبان و بیان خوبصورت منظرنگاری
ضمیر کے اصول، شرافت اور پاسداری محبت کے غلط طریقے سے حصول پر غالب آجاتی ہے۔
راوی بہت مضبوط کردار کا مالک ہے جس نے تمام تر موقعوں کے باوجود خود کو سنبھال لیا۔ محبت کو پاکر بھی ترک کردینا ، نرالا انداز۔
مبارکباد پیش ہے۔
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
عرفان ثمین صاحب کی افسانوی زبان کی دلکشی میں ڈوبا خوبصورت افسانہ۔
محبت کا ایک لطیف جھونکا روح کو سرشار کر دیتا ہے۔لیکن جب یہ محبت محض دل لگی بن جائے تو یہ روح کو سرشار کرنے کی بجائے انسان کو غلاظت کے دلدل میں ڈال دیتی ہے ،لیکن بھلا ہو ضمیر کا کہ وہ عین وقت پر جاگ گیا۔ اور اس گناہ سے روک دیا۔
حسین عورت کا کردار کچھ گنجلک ہو گیا۔اس پر کجھ اور روشنی ڈالی جاتی، وہ اس غلاظت میں کیوں اتری۔ کیا اس کا بزنیس میں شوہر عمر رسیدہ تھا؟
کچھ نکات پر ہماری فاضل مصنّفہ نعیمہ آپا جعفری پاشا صاحبہ نے روشنی ڈالی ہے۔
اس افسانے کی فضا بندی بہت عمدہ ہے
نگار عظیم
محبت کے رنگ بھی عجیب ہوتے ہیں۔ افسانہ "جھکورا" بھی اسی کی مثال ہے۔ بے انتہا لطیف احساسات ندیوں کی روانی جیسی ترنم آمیز خوبصورت زبان۔ لیکن واہ ری محبت۔۔۔انجام اپنے اختیار میں نہیں۔ محبت کا ملن تو کسی بھی زمانے میں نہ تھا موجودہ وقت میں تو اس کی تصویر بالکل ہی بدل گئ ہے۔ کچھ زبان کی ایک دو خامیوں کے باوجود افسانہ اچھا لگا۔ ہاں عنوان جھکورا بہت چبھتا ہے۔ زبان کی جس لطافت میں افسانے کی چاشنی تیار کی گئ تھی عنوان میل نہیں کھاتا۔ ویسے خالق کی مرضی جو اسے پسند ہو۔ میری طرف سے مبارکباد نیک خواہشات
سید عرفان اللہ
بہت ہی جاندار اور شاندار افسانہ ہے۔
عرفان ثمین صاحب کو بہت بہت مبارکباد
عرفان ثمین
ِالسلام علیکم :
میں تمام منتظمین بزمِ افسانہ کا تہہ دل سے ممنون ہوں کہ میرے افسانے کو اس ایونٹ کا حصہ بنایا۔ اس بزم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس میں ملک کے مایہ ناز افسانہ نگار شامل ہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میں اس بزم کا حصہ ہوں۔ ادبی حلقوں میں اس بزم کا الگ ہی مقام ہے۔
تمام مبصرین اور صاحبانِ علم و ادب کا شکر گزار ہوں جنھوں نے خاکسار کے افسانے کو سراہا ، بہترین تبصرے و تجزیے کیے اور گراں قدر آرا سے نوازا۔ افسانے کو جتنی پذیرائی ملی ہے وہ یقینا زندگی بھر میرے قلم کو حرارت فراہم کرتی رہے گی۔
بعض مبصرین نے کچھ نکات کی طرف میری توجہ مبذول کروائی ہے۔ حالانکہ یہ " تبصرے پر تبصرہ" والا معاملہ نہیں ہے پھر بھی کچھ باتیں عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
* گھر کی دہلیز بنا کوئی مقصد لیے کیسےپارکی۔۔۔ خود رفتگی کی کیفیت .
* گھر میں صرف ایک لڑکی ہی کیسے رہ رہی تھی۔۔۔ بڑے شہروں میں یہ عام بات ہے۔ ویسے بھی افسانے میں اس بات کا واضح ذکر ہے کہ نیلوفر کیوں اور کن حالات میں اکیلی رہتی ہے .
* جب لڑکی خود محبت میں گرفتار تھی تو۔۔۔ محبت میں لڑکا گرفتار ہو گیا تھا۔ لڑکی کی محبت تو بس ایک چھلاوا تھی .
* عنوان دوسرا ضرور ہو سکتا تھا بس مجھے پسند تھا اس لیے .
* حسن ظن میں ، میں نے ظن کے معنی خیال / سوچنا / تخمینہ کرنے کے لیے ہیں۔ سائنس کا طالب علم ہوں نا اس لیے 🙂
عمارتوں کا حسنِ ظن نہیں بلکہ حسنِ ظن سے مرصع عمارتیں۔ عمارت کا حسن اور آرکیٹیکٹ کا حسنِ ظن .
شیشے آواز کو محبوس کرتے ہیں۔ بالکل درست۔ بعض اوقات کھڑکیوں کے شیشے ذرا سا کھلے بھی رکھے جاتے ہیں۔ 🙂۔ عام طور پر بنگلے کے صرف سامنے احاطہ ہوتا ہے ، ممکن ہے کھڑکیاں دوسرے راستے (پارک کے راستے ) پر کھلتی ہوں کیوں کہ بنگلہ موڑ پر ہے۔ 🙂۔ وہی بات۔ ممکنات کے دائرے وسیع ہوتے ہیں۔
* وہ لڑکی ہر روز راوی کی منتظر کیوں ہوتی تھی ؟ آنکھوں کی خوب صورتی راوی کو کیسے نظر آئی ؟ مجھے لگتا کہ ان سوالوں کا جواب افسانے میں موجود ہے۔
* شاید فیروز اللغات میں " گلنار کا درخت " ہی پڑھا ہے۔ ایک بار ضرور چیک کر لوں گا.
* عربی اور فارسی کی ترکیب کے ساتھ ہندی لفظ۔۔۔ آپ کی بات کا پورا احترام کرتا ہوں۔ شاید افسانہ لکھنے کے دوران ترکیبِ مہند پڑھ رہا تھا۔
* ستارہ آنکھیں۔۔۔ عبیداللہ علیم صاحب کی نظم ' مرے خدایا میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں 'مجھے بے حد پسند ہے۔ بار بار میں اس نظم کو پڑھتا رہتا ہوں۔ اس لیے ممکن ہے وہی دو ستارہ آنکھیں میرے افسانے کے کردار کی آنکھیں بن گئیں۔
کسی مبصر کی باتیں گراں گذریں یا وہ معذرت خواہی طلب کریں۔ اس کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہر گز نہیں۔ گروپ کے تمام مبصرین کی رائے کا میں پورا احترام کرتا ہوں اور ان تمام معززین کے تاثرات کے لئے سپاس گزار ہوں۔
رخسانہ نازنین صاحبہ
اقبال حسن آزاد صاحب
محمود انصاری صاحب
ناہید طاہر صاحبہ
تنویر احمد تماپوری صاحب
معین الدین عثمانی صاحب
راجا یوسف صاحب
ترنم جہاں شبنم صاحبہ
نعیمہ جعفری صاحبہ
ڈاکٹر فریدہ بیگم صاحبہ
ڈاکٹر انیس رشید خان صاحب
اکبر عابد صاحب
نصرت شمسی صاحبہ
فریدہ نثار احمد انصاری صاحبہ
سدی ساجدہ صاحبہ
ام مسفرہ صاحبہ
فرخندہ ضمیر صاحبہ
نگار عظیم صاحبہ
اقبال حسن آزاد صاحب
اور
سید عرفان اللہ قادری صاحب
0 Comments