رات خاصی تاریک تھی۔ اس تاریکی کو آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں نے اور بھی گہرا کر دیا تھا۔
ٹرین کی رفتار کافی تیز تھی۔
کھڑکی سے آتی ہوئی ہوا نے اس کے ہوش و حواس بجا کر رکھے تھے ورنہ حبس جان لیوا ثابت ہوتا۔ وہ اس گرمی سے بھاگ کر ہی دارجلنگ کے لیے روانہ ہوا تھا۔
ایسا برسوں سے ہوتا آ رہا تھا۔ گرمیاں آتے ہی اس کے حواس باختہ ہونے لگتے اور تلوے کا تل اسے پریشان کرنے لگتا۔ پھر وہ رختِ سفر باندھ لیتا۔ شروع شروع میں ایک آدھ بار اس کی بیوی اور بچے بھی اس کے ساتھ گئے لیکن بعد کے برسوں میں نہ انھیں دارجلنگ جانے میں دلچسپی رہ گئی اور نہ اسے لے جانے میں۔
دارجلنگ اس کی پسندیدہ جگہ تھی۔ وہاں کا موسم، وہاں کے لوگ، خوبصورت مناظر، پہاڑوں کے نشیب و فراز، حسین چہرے اور خاص طرح کا ماحول اس کی روح میں کچھ اس طرح رچ بس گئے تھے کہ گرمی آتے ہی دارجلنگ اس کے خوابوں میں آنے لگتا اور یہ خواب اپنے ساتھ مسز ورما کو بھی لے آتے اور مسز ورما کے ساتھ بلّیو پائن کا ہونا ضروری تھا۔
بلیو پائن۔۔۔ پر سکون جگہ پر بنا ہوا ایک بہت اچھاسا ہوٹل۔ یہاں گرمیوں میں کمرے حاصل کرنا خاصا مشکل ہوتا۔ شہر کے شور شرابے والی زندگی سے اکتائے ہوئے لوگ دارجلنگ آنے کے بعد سب سے پہلے بلّیو پائن میں ہی قسمت آزماتے۔
وہ برسوں سے یہیں ٹھہرتا آ رہا تھا۔
مسز ورما کیا خوبصورت خاتون تھیں۔ کھلتا ہوا گیہواں رنگ، بے حد تیکھے نقوش، چہرے پر بلا کی ملاحت، اتنی پر کشش کہ دیکھنے والا اس میں الجھ کر رہ جائے۔ وہ کبھی انتہائی نرم نظر آتیں اور کبھی کوکونٹ کی طرح سخت۔ خاصی تیز طرار واقع ہوئی تھیں۔ جو بات دل میں وہی زبان پر، کئی بار بلّیو پائن میں ٹھرنے والے سیاح ان کے اس رویہ سے پریشان ہوجاتے اور اس ہوٹل میں کبھی نہ ٹھہرنے کی قسم کھا لیتے لیکن تھوڑی ہی دیر بعد مسز ورما کی ایک مسکراہٹ ان تمام قسم کھانے والوں کے گلے شکوے دور کر دیتی۔
ان کی عمر یہی کوئی پینتیس چالیس کے درمیان رہی ہو گی۔ لیکن دیکھنے میں تیس سال سے زیادہ کی نہ لگتیں تھیں۔ پہلے پہل اسے خیال گزرا تھا کہ وہ اور مسز ورماہم عمر ہوں گے لیکن گزرتے ہوئے دنوں نے اسے بتایا تھا کہ وہ مسز ورما سے کئی برس چھوٹا ہے۔ شاید مسز ورما کو بھی اس کا اندازہ ہو چلا تھا۔
وہ دارجلنگ میں بڑی اسناب(Snob)سمجھی جاتی تھیں کہ مقامی لوگوں سے ہمیشہ ایک فاصلہ بنا کر ملتیں۔
برسوں پہلے مسز ورما کے رویے اس کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوتے تھے جیسے دوسرے سیاحوں کے ساتھ ہوا کرتے۔لیکن وہ دھیرے دھیرے اس سے مانوس ہوتی گئی تھیں۔ پھر اس کے ساتھ ان کا رویہ قطعی پروفیشنل نہیں رہ گیا تھا۔ اس کی حیثیت دوست جیسی ہو گئی تھی۔ وہ ان کے اندر ہونے والی اس تبدیلی کو بڑی شدت سے محسوس کرتا لیکن اسے کوئی نام نہ دے پاتا۔
ادھر چند برسوں سے وہ جب دارجلنگ پہنچتا تو مسز ورما اس کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر ایسی گرم جوشی سے اس کا استقبال کرتیں کہ اس کا پورا وجود تمتما اٹھتا۔ وہ اس کے لیے ایک ایسا کمرہ رکھ چھوڑتیں جو ان کے اپنے ذاتی کمروں کے قریب ہوتا۔ وہ جب چاہتیں اسے بلا لیتیں یا پھر خود ہی اس کے کمرے میں چلی جاتیں اور شروع ہو جاتا طرح طرح کی باتوں کا سلسلہ۔
صبح کی چائے وہ عموماً ان کے ساتھ ہی پیتا۔ نہ جانے کیوں اسے مسز ورما کے ساتھ لان پر بیٹھ کر چائے پینا بہت اچھا لگتا۔وہ اگر اچھے موڈ میں ہوتیں تو صبح کچھ زیادہ ہی روشن محسوس ہونے لگتی۔ اپنی باتوں سے وہ اسے خوب ہنساتیں اور خود بھی ہنستیں۔ ہاں اگر ان کا موڈ مختلف ہوتا تو پھر خاموش ہی رہتیں۔ اسے اس خاموشی سے بڑی چبھن محسوس ہوتی لیکن وہ بھی چپ ہی رہتا کہ نہ معلوم اس کی کون سی بات انھیں اچھی نہ لگے اور وہ بگڑ جائیں ایک با ر اس کو اس کا تجربہ ہو چکا تھا۔
اسے یاد آیا کہ اس دن بھی وہ اچھے موڈ میں نہیں تھیں۔ اس نے انھیں چھیڑنے کی غرض سے بلیو پائن میں ٹھہری ہوئی ایک غیر ملکی سیاح لڑکی کی خوبصورتی کا ذکر کچھ زیادہ ہی کر دیا تھا اور وہ ابل پڑی تھیں۔
’’مجھے نہیں معلوم تھا کہ تم میں اور ایک عام آدمی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ تمھارے لیے بھی عورت کسی چٹپٹی چیز سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی، تمھیں شرم آنی چاہئے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے تمھیں دوسروں سے الگ سمجھا۔‘‘
پھر وہ پیر پٹختے ہوئے اپنے کمرے کی طرف چلی گئیں۔
وہ ہکا بکا ہو کرانھیں جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔
اسے ان کے اس رویہ پر شدید دھکالگا تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مذاق میں کہی گئی بات اس طرح کا رخ اختیار کر لے گی۔
کچھ دیر بعد اس نے اپنے کمرے کے باہر کسی کے قدموں کی آہٹ سنی تھی۔ ایک جانی پہچانی سی آہٹ۔مسز ورما اس کے کمرے میں داخل ہو رہی تھیں۔ وہ اس کے بالکل قریب آ کر کھڑی ہو گئیں۔ ان کے چہرے پر خجالت کے آثار تھے۔
’’ویری سوری‘‘ وہ شرمسار سے لہجے میں بولیں۔ پھر اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ اس نے مسز ورما کے نرم نرم ہاتھوں میں خاصی گرمی محسوس کی اس نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا لیکن ایسا کچھ نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ اسے قدرے مایوسی ہوئی۔
’’کوئی بات نہیں مسز ورما یہ سب بھی چلتا ہے۔‘‘ وہ ٹھہر ٹھہر کر بولا۔
’’ نہیں واقعی مجھے اپنے رویہ پر افسوس ہے۔میں خود بھی نہیں سمجھ سکتی کہ اچانک مجھے کیا ہو جاتا ہے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے آہستہ سے بولیں۔
چند لمحے کے لیے خاموشی چھا گئی۔
’’چلو ٹی گارڈن کی طرف چلتے ہیں۔ تمھارا موڈ فریش ہو جائے گا۔‘‘
پھر وہ اسی طرف چلے گئے۔
مسز ورما کے ساتھ اسے اس طرح کبھی کبھی گھومنا ہمیشہ اچھا لگا۔
ٹرین ایک جھٹکے کے ساتھ کسی اسٹیشن پر رکی تو اس کی سوچ کو بھی جھٹکا لگا۔ وہ منتشر ہو گئی لیکن ٹرین کے دوبارہ چلتے ہی وہ پھر یکجا ہو کر اس کے وجود پر منڈرانے لگی۔
اسے پچھلے برس سے پچھلے کی گرمیاں یاد آ گئیں۔
وہ اس صبح چائے کی میز پر قدرے دیر سے پہنچا تھا۔
’’کتنا سوتے ہو۔‘‘وہ اسے دیکھ کر بولیں۔
’’سوری مسز ورما دراصل رات مجھے نیند کم آئی اس لیے سو کر ذرا دیر سے اٹھا۔‘‘
’’نیند کم کیوں آئی؟‘‘
’’کہہ نہیں سکتا کیا وجہ تھی۔‘‘
’’میں دیر سے تمھارا انتظارکر رہی تھی۔‘‘
’’شکریہ مسز ورما۔‘‘
’’شکریے کی کوئی بات نہیں۔ تمھیں شاید نہیں معلوم کہ میں گرمیوں کے انتظار میں پورا سال کس طرح بے چینی سے گزارتی ہوں۔ دراصل یہاں تمھاری موجودگی میرے لیے سکون کا باعث ہوتی ہے۔ ‘‘
مسز ورما ایک لمبی سانس لیتے ہوئے آہستہ سے بولیں۔
اس نے ان کی بات کو بڑی خاموشی سے سنا۔ اپنے اندراس نے ایک ہلکی سی اتھل پتھل محسوس کی۔ اس کی آنکھوں نے مسز ورما کی آنکھوں میں کچھ ایسی کیفیت تلاش کرنے کی کوشش کی جسے کوئی نام دیا جا سکے۔ اسے ان کی آنکھوں میں رنگین لہریے سے گزرتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اگلے لمحے وہاں ایسا کچھ نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ اس نے سوچا کہ یہ لہریے شاید اس کا واہمہ رہے ہوں گے۔ وہ قدرے اداس ہو گیا۔
اس کی اداسی سے بے خبر مسز ورما پھر بولیں ’’ نہ جانے کیوں مجھے تمھاری موجودگی ایک ایسا احساس دیتی ہے جسے میں بتا نہیں سکتی۔‘‘
وہ خاموش رہا۔ اس کی نظریں سامنے والے نشیب میں چکرلگاتی پھر رہی تھیں۔
’’کہاں کھو گئے؟‘‘ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’اوہ!‘‘ اس نے ایک طویل سانس لی پھر دھیرے سے بولا۔’’کہیں بھی نہیں۔‘‘
’’جانتے ہو ہریش کے جانے کے بعد میں کتنا پریشان رہی۔ تم شاید اس کا اندازہ بھی نہ کر سکو۔ لیکن میں اب اس ذہنی کیفیت سے باہر آ چکی ہوں۔ Thanks to you.‘‘
اسے مسز ورما کی بات سن کر بڑی حیرت ہوئی۔ وہ خود ہی اپنے شوہر ہریش کا ذکر کر رہی تھیں۔ ورنہ وہ تو ہریش کا ذکر آتے ہی جھنجھلا جاتیں۔ اسے یاد آیا کہ ایک بار ان کے ہوٹل میں ٹھہرنے والے ایک سیاح نے ان سے ان کے شوہر کے بارے میں پوچھ لیا تھا اور وہ اس سیاح پر اتنا بگڑی تھیں کہ اسے بلیو پائن سے نکال کر ہی دم لیا تھا۔
’’ مجھ کو بڑا تعجب ہے کہ تم نے کبھی ہریش کے بارے میں جاننے کی کوشش نہیں کی۔‘‘ وہ اسے خاموش دیکھ کر بولیں۔
’’میں نے کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ میں یوں بھی کسی کی ذاتی زندگی میں جھانکنے سے پرہیز کرتا ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر کے لیے سناٹا چھا گیا۔
’’ مجھے گزرا ہوا وقت یاد آ رہا ہے۔ میں ان لمحوں کو تمھارے ساتھ Shareکرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’مجھے بہت خوشی ہو گی۔‘‘ وہ مسز ورما کو غور سے دیکھتا ہوا بولا۔
مسز ورما نے ایک لمبی سی سانس لی، پھر آہستہ سے بولیں ’’ہریش سے میری پہلی ملاقات کلکتہ میں ہوئی تھی۔۔۔‘‘
’’کلکتہ میں۔۔۔؟‘‘ اس نے ان کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی سوال کر دیا۔
’’ہاں کلکتہ میں۔ میرے پاپا چاہتے تھے کہ میں اچھی تعلیم حاصل کروں۔ اسی لیے انھوں نے مجھے وہاں بچپن سے ہی بھیج دیا تھا۔ میں نے اپنی زندگی کا ایک اچھا خاصا حصہ ہاسٹل میں رہ کر گزارا ہے۔ کیا دن تھے وہ بھی۔ ہر طرح کی آزادی،ہر طرح کا آرام۔ میں ہمیشہ سے ہی تیز طرار اور شوخ تھی۔ یہ شوخی اس وقت بھی قائم رہی کہ جب میں کالج سے نکل کر یونیورسٹی پہنچ گئی۔ دن بھر ساتھیوں سے چھیڑ چھاڑ رہتی۔ کبھی یہ نشانے پر ہوتا کبھی وہ۔ میں اپنی انھیں شوخیوں کی وجہ سے بہت جلد یونیورسٹی میں ایک جانی پہچانی شخصیت بن گئی۔ میں اپنی کلاس ختم کرنے کے بعد ساتھی لڑکیوں کے ساتھ یونیورسٹی کیمپس میں ٹہلنے نکل پڑتی۔ پھر کسی نہ کسی لڑکے کو بکرا بننا ہی پڑتا۔ بس ایک کپ کافی اور معمولی سے اسنیکس پر اکتفا کر لیا جاتا تھا کہ اسے آئندہ بھی گھیرا جا سکے۔ انھیں دنوں کئی لڑکے میری جانب سنجیدگی سے متوجہ ہوئے۔لیکن میرے رویوں سے وہ جلد ہی اپنی دنیا میں واپس لوٹ گئے۔ کہاں میں اور کہاں سنجیدگی۔‘‘
مسز ورما سانس لینے کے لیے ذرا ٹھہر گئیں۔ اسے لگا کہ جیسے ان کی آنکھیں ماضی میں کچھ تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
’’مسز ورما وہ ہریش۔۔۔آپ نے اپنی بات پوری نہیں کی۔‘‘
’’ہاں میں اسی طرف آ رہی ہوں۔ ہریش میرا کلاس فیلو تھا میں نے شروع سے ہی محسوس کیا تھا کہ وہ مجھ سے دور دور رہتا ہے۔ بس یہی بات میرے اندرونِ جاں میں کہیں چبھ گئی۔ میں نے طے کر لیا کہ ہریش کو اس کی اوقات بتائے بغیر نہیں رہوں گی۔ پھر اس کی اوقات بتانے کے چکر میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی۔ میں محسوس کرنے لگی تھی کہ میں اب ہریش کے بغیر نہیں رہ سکتی۔ اس کے رویے بھی بدل گئے تھے۔ وہ اپنے وقت کا زیادہ حصہ میرے ساتھ ہی گزارتا۔ میرا چنچل پن نہ جانے کہاں چلا گیا تھا اور اس تبدیلی کو میرے تمام ساتھی محسوس کرنے لگے تھے۔ پھر ایک دن سات پھیروں کے بعد ہریش اور میں ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کے لیے آ گئے۔‘‘
’’شروع کے دن بہت اچھے گزرے۔ میں ہوتی ہریش ہوتا اور یہاں کی خوبصورت وادیاں ہوتیں۔ لیکن دو تین برسوں کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ ہریش کی دلچسپیاں مجھ سے زیادہ دوسری عورتوں میں بڑھ گئی ہیں۔ میں اسے سمجھانے کی کوشش کرتی لیکن وہ میری بات سمجھنے کے بجائے لڑائی جھگڑے پر آمادہ ہو جاتا۔ پھر اس دن حد ہی ہوگئی جب میں نے اسے ایک نوکرانی سے فلرٹ کرتے ہوئے اپنی نظروں سے دیکھا۔ میں نے اسے یہاں سے چلے جانے کو کہا اور وہ سچ مچ چلا گیا۔ کبھی نہ آنے کے لیے۔ بعد میں مجھے پتہ چلا کہ دارجلنگ چھوڑتے وقت وہ اپنے ساتھ کسی عورت کو بھی لے گیا۔‘‘
’’اوہ! ‘‘ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔
’’اور پھر برسوں بعد میں آنے والی گرمیوں کا انتظار کرنے لگی۔‘‘ وہ اپنی گہری گہری آنکھوں سے اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔
ان کی آواز میں نہ جانے کیا تھا کہ اسے اپنے اندر ایک لہر سی اٹھتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ اسے پھر وہاں ویسے ہی رنگین لہریے گزرتے ہوئے نظر آئے۔ جس طرح کے لہرئے وہ پہلے بھی کئی بار دیکھ چکا تھا اور انھیں اپنا واہمہ سمجھا تھا۔
مسز ورما کی آنکھوں سے وہ رنگین لہریے پھر غائب ہو چکے تھے اور ان کی جگہ ایک ایسے سونے پن نے لے لی تھی جسے کوئی نام نہیں دیا جا سکتا تھا۔ اوروہ ایک بار پھر اداس ہو گیا۔
’’چلو گھوم آئیں ‘‘ وہ اسے خاموش دیکھ کر بولیں۔
’’کہاں؟‘‘
’’کہیں بھی چل سکتے ہیں۔‘‘
’’اچھا میں تیارہو کر آتا ہوں ‘‘ وہ اٹھا اور اپنے کمرے کی طرف چل پڑا۔
تھوڑی دیر بعد جب وہ تیار ہو کر نکلا تو دیکھا کہ مسز ورما اس کے انتظار میں لان پر بیٹھی ہیں۔
وہ اسے دیکھتے ہی اٹھ کھڑی ہوئیں پھر کار پر بیٹھتی ہوئی بولیں۔
’’چلو راک گارڈن چلتے ہیں۔ تم میرے ساتھ وہاں پہلے کبھی نہیں گئے۔‘‘
’’چلئے‘‘ وہ مسز ورما کے بغل میں بیٹھتا ہوا بولا۔ اسے معلوم تھا کہ راک گارڈن مسز ورما کی کمزوری ہے۔
انھوں نے کار اسٹارٹ کر کے آگے بڑھائی اور اسے دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’یہ کار میرے پاپا نے مجھے شادی کے موقع پر تحفتاً دی تھی۔ کتنے اچھے تھے وہ۔ مجھے بے پناہ چاہتے تھے۔ میری تمام خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے تیار رہتے تھے۔ میرا چھوٹا بھائی جو اب امریکہ میں رہتا ہے، اس بات پر پاپا سے خوب لڑتا تھا، وہی بھائی اب اگر روز فون پر بات نہ کر لے تو شاید اس کا کھانا ہضم نہ ہو۔‘‘
مسز ورما کار خاصی تیز رفتار سے چلا رہی تھیں۔ دارجلنگ کے راک گارڈن کا راستہ یوں بھی کافی پر پیچ ہے۔ اتار چڑھاؤ بھی بہت خطرناک، ذرا سی لغزش ہزاروں فٹ نیچے لے جا سکتی تھی۔
اسے ڈر سا محسوس ہوا۔ اس نے اپنی آنکھیں نشیب کی جانب سے ہٹا لیں اور مسز ورما سے بولا ’’میڈم آپ کافی خطرناک ڈرائیو کر رہی ہیں۔ مرنے کی اتنی بھی کیا جلدی ہے؟‘‘
وہ ہنستے ہوئے بولیں ’’مجھے تیز کار چلانے میں بہت مزہ آتا ہے اور اگر کسی حادثے میں مر گئے تو اس طرح سے مرنے کا اپنا ایک الگ رومانس ہو گا۔ویسے کیا تم ڈر رہے ہو؟‘‘
’’بالکل نہیں۔ مجھے بھی آپ کے ساتھ اس رومانس میں شرکت کر کے اچھا لگے گا‘‘ وہ بھی ہنستا ہوا بولا۔
مسز ورما نے ایک لمحے کے لیے ونڈ اسکرین سے اپنی آنکھیں ہٹائیں اور اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔ وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ وہ قدرے اداس ہو گئیں۔
’’ مسز ورما جب میں لگا تار شدید ذہنی الجھنوں کا سامنا کرتے کرتے تھک جاتا ہوں تو زندگی کی سچائیوں سے فرار حاصل کرنے کے لیے یہاں آ جاتا ہوں۔پھر آپ کی موجودگی سے وہ الجھنیں اس قدر خوف زدہ ہو جاتی ہیں کہ میرے قریب بھی نہیں پھٹکتیں۔‘‘
’’کیسی الجھنیں؟‘‘
’’گھریلو‘‘
’’کیا میں ان الجھنوں کو جان سکتی ہوں؟‘‘
’’ہاں ہاں کیوں نہیں؟ میں آپ کو بتاتا ہوں ‘‘ وہ سانس لینے کے لیے رکا۔ اس کی آنکھیں سوچ میں ڈوبی ہوئی تھیں۔ اس نے اپنی آنکھیں بندکیں تو شکنیں پیشانی پر آ کر بیٹھ گئیں۔ ایسا لگا کہ جیسے وہ ڈور کے اس سرے کی تلاش میں ہو کہ جہاں سے وہ اپنی بات شروع کر سکے۔ چند لمحوں کے بعد وہ مدھم سی آواز میں بولا۔
’’میری شادی میں میرے ماں باپ کی رضا مندی پوری طرح سے شامل نہیں تھی۔ لیکن میری خوشیوں کے لیے انھوں نے میری اس خواہش کو قبول کر لیا۔ دراصل وہ ڈرتے تھے کہ خاندان کے باہر سے آنے والی لڑکی شاید ان کا وہ خیال نہ رکھ سکے جس کے وہ مستحق تھے۔ ان کا یہ خوف فطری بھی تھا کہ ایک کالج میں پڑھانے کی وجہ سے اس کے پاس وقت کی اتنی کمی تھی کہ میرے والدین کی کون کہے، مجھے بھی اس سے جتنا وقت درکار تھا، نہیں دے پاتی تھی۔ کئی بار ایسا بھی ہوتا کہ رات جب میں دوستوں کی محفل سے واپس آتا تو وہ سو چکی ہوتی اور جب میں اسے کھانے کے لیے جگاتا تو چڑھ جاتی اور پھر تو تو میں میں شروع ہو جاتی۔ میں محسوس کرتا کہ میرے والدین اس صورت حال سے رنجیدہ رہنے لگے تھے۔ میں انھیں سمجھانے کی کوشش کرتا لیکن مایوسی ہاتھ لگتی۔ان کے گلے شکوے بے جا نہیں تھے۔ انھوں نے اپنی بہو کو لے کر جو خواب دیکھے تھے وہ بکھر چکے تھے۔ میں خود بھی ان حالات سے پریشان تھا۔انھوں نے بڑی پریشانیوں سے میری پرورش کی تھی۔‘‘
وہ بولتے بولتے چپ ہو گیا اس کی آنکھوں سے اداسی ٹپک رہی تھی۔
مسز ورما بے چین سی ہو گئیں۔ انھوں نے اپنا بایاں ہاتھ اسٹیرنگ پر سے ہٹایا اور اس کی پیٹھ تھپتھپاتی ہوئی بھاری بھاری سی آواز میں بولیں ’’پھر کیا ہوا؟‘‘
’’پھر میرے ماں اورباپ دونوں ہی ہارٹ اٹیک کا شکار ہو کر اس دنیا سے چلے گئے۔ دونوں کے جانے کا درمیانی وقفہ بہت کم تھا۔ وہ چلے گئے لیکن میرے دل میں ایک ایسی چبھن چھوڑ گئے جو شاید کبھی ختم نہ ہو۔ پھر میرے اور بیوی کے بیچ انا در آئی اور دھیرے دھیرے ہم دونوں ایک دوسرے کے لیے ایک ہی چھت کے نیچے رہنے کے باوجود اجنبی ہو کر رہ گئے۔ اور اب ہم دونوں کے درمیان بچّے ایک پل کا کام کر رہے ہیں۔‘‘ وہ پھر چپ ہو گیا۔
’’تم اس سے اپنا پیچھا کیوں نہیں چھڑا لیتے؟‘‘ مسز ورما نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے ایک سپاٹ سا سوال کر دیا۔
مسز ورما بس یہی تو نہیں ہو سکتا۔ میں اگر اپنا پیچھا چھڑا لوں تو پھر بچوں کا کیا ہوگا؟ ان کا مستقبل۔۔۔؟ نہیں مسز ورما! میں اپنے بچّوں کے مستقبل کی قیمت پر اپنی خوشیاں حاصل کرنا کبھی پسند نہ کروں گا۔ وہ شاید بچّے ہی ہیں جو زیادہ تر گھروں کو پوری طرح سے ٹوٹ کر بکھرنے سے بچائے ہوئے ہیں۔ ہر کسی میں آپ جیسی ہمت کہاں؟‘‘
مسز ورما نے گھوم کر اس کی طرف دیکھا تو دونوں کی نظریں ملیں اور دونوں کے چہروں پر ایک بے نام سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
راک گارڈن گھومتے وقت وہ کئی بار اداس ہوئیں کہ جب بھی انھوں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا، وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے کوئی نام دیا جاسکتا۔
راک گارڈن سے واپسی پر انھیں خاصی دیر ہو گئی تھی۔ ہر طرف اندھیرا چھا گیا تھا اور اس اندھیرے میں دور تک پھیلے ہوئے پہاڑوں کا سلسلہ اسے کسی عفریت جیسا لگ رہا تھا۔ مسز ورما بڑی مشّاقی سے کار چلا رہی تھیں۔ وہ کبھی کبھی کسی موڑ پر جب اچانک بھرپور بریک کا استعمال کرتیں تو اس کا جسم ان سے ٹکرا جاتا اور ایک عجیب سی کیفیت بیدار ہونے لگتی۔
وہ جب بلّیو پائن پہنچے تو رات کوئی نو۹ بج رہے تھے۔ وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیے اسے اس کے کمرے تک پہنچانے آئیں۔ رخصت ہوتے وقت دونوں نے ایک بار پھر ایک دوسرے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا انھیں وہاں دھنک کے رنگ لہراتے ہوئے نظر آئے۔ وہاں کچھ نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔ صرف ایک چمک تھی۔ سراب جیسی چمک۔
وہاں ایک گہری خاموشی پسر گئی۔ پھراس خاموشی کو مسز ورما کی چاپ نے توڑا۔ وہ کشاں کشاں اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھیں۔
اسے یاد آیا کہ آخری بار جب وہ دارجلنگ سے واپس لوٹ رہا تھا تو مسز ورما اسے الوداع کہنے نیو جلپائی گڑی تک اس کے ساتھ آئی تھیں۔ اس نے انھیں روکا بھی تھا، لیکن انھوں نے یہ کہہ کر اسے خاموش کر دیا تھا کہ انھیں وہاں کوئی ضروری کام ہے۔
انھوں نے ٹرین چھوٹنے سے پہلے اس سے بڑی گرم جوشی سے ہاتھ ملا کر کہا تھا :
’’اگلے Summerمیں پھر ملتے ہیں۔‘‘اورٹرین کو نظروں سے اوجھل ہونے تک اپنے ہاتھ ہلاتی رہی تھیں۔
پھر وہ پچھلی گرمیوں میں دارجلنگ نہیں جا سکا تھا۔ انجینئرنگ میں بیٹے کے داخلے کے لیے بھاگ دوڑ اور لگاتار الجھنوں میں رہنے کے باعث خود اس کی اپنی گرتی ہوئی صحت دارجلنگ کی راہ میں روڑا بن گئے تھے۔ اسے پتہ تھا کہ مسز ورما کو ساری گرمی اس کاانتظار بڑی بے چینی سے رہا ہو گا۔ وہ ان سے فون پر بھی رابطہ نہیں قائم کر سکا تھا کہ ان دونوں کے درمیان فون کرنے کی کوئی روایت نہیں تھی۔
وہ یہ سب سوچ سوچ کے نہ جانے کب سو گیا پھر اس نے خواب میں دیکھا کہ وہ اور مسز ورما ایک ہرے بھرے پہاڑ پر دوڑ رہے ہیں۔ اس دوڑ میں مسز ورما آگے ہیں اور وہ پیچھے۔ وہ انھیں پا لینا چاہتا ہے لیکن وہ ان کے ہاتھ آتے آتے رہ جاتی ہیں۔ اس بھاگ دوڑ میں اچانک اس کے پیر پھسل جاتے ہیں اور وہ کوشش کے باوجود خود کو نہیں سنبھال پاتا۔ وہ تیزی سے ہزاروں فٹ گہری کھائی میں جا رہا ہے، وہ چیخنا چاہتا ہے لیکن آواز گلے میں گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ موت سرعت سے قریب آ رہی ہے۔ اس کا دل بڑی تیزی سے دھڑک رہا ہے۔
پھر وہ جاگ گیا۔ لیکن وہ پوری طرح سے جاگا بھی تو نہیں تھا۔ سونے جاگنے کی درمیانی کیفیت۔ وہ پوری طرح سے ہوش میں آنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے ہاتھ پیر تو جیسے جم گئے تھے۔ اسے بے حد گھبراہٹ ہونے لگی۔ اسے لگا کہ جیسے اس کا دم گھٹ رہا ہے۔ پھر اچانک وہ جاگ گیا اور اسے اس اذیت سے نجات مل گئی۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ اس کا دل اب بھی بری طرح سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے محسوس کیا کہ ڈبے میں حبس پوری طرح سے براجمان ہے۔
اس نے تھرمس سے پانی نکال کرپیا تو اسے قدرے سکون محسوس ہوا۔ پھر گھڑی دیکھی تو چار بج رہے تھے۔ ابھی کئی گھنٹے کا سفر باقی تھا۔ اس نے ڈبہ کے باہر دیکھا تو صبح کاذب کے آثار ہویدا تھے۔ وہ پھر لیٹ گیا اور کھڑکی سے آتی ہوئی ٹھنڈی ہوا نے اسے تھپک تھپک کر دوبارہ سلا دیا۔
اس کے بعد اس کی آنکھیں نیو جلپائی گڑی کے اسٹیشن کے Outerپر ہی کھلیں۔ لوگ اپنا اپنا سامان اکٹھا کر کے اترنے کی تیاری کر رہے تھے۔ وہ جلدی سے اٹھ بیٹھا اور اپنا سامان برتھ کے نیچے سے نکال کر اکٹھا کرنے لگا۔
کوئی ڈھائی گھنٹے بعد دارجلنگ میں اس کے قدم آہستہ آہستہ بلّیو پائن کی طرف بڑھ رہے تھے۔ وہ جب بلّیو پائن پہنچا تو اسے ایک عجیب سے سناٹے کا احساس ہوا۔ اسے دیکھتے ہی رسیپشن کلرک اجمل تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔
’’ہلو کیسے ہیں آپ؟‘‘ اجمل اس کے قریب آ کر بولا۔
’’ میں ٹھیک ہوں اور تم؟‘‘
’’ میں بھی بس ٹھیک ہی ہوں۔‘‘ اس کے لہجے میں ایک بے نام سی اداسی تھی۔
’’مسز ورما کیسی ہیں؟‘‘
اجمل خاموش رہا۔ اس کے چہرے پر بے چینی کے آثار صاف نظر آ رہے تھے۔
’’میں نے تم سے کچھ پوچھا؟‘‘ اس نے اجمل کی طرف غور سے دیکھتے ہوئے پھر سوال کیا۔
’’ میڈم نہیں رہیں۔‘‘ اجمل نے ٹھہر ٹھہر کر جواب دیا۔
’’کیا بکتے ہو؟‘‘ وہ اتنی تیزی سے اچھلا کہ جیسے بچھو نے ڈنک مار دیا ہو۔
’’یہ سچ ہے۔‘‘ اجمل کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
اسے لگا کہ جیسے بلّیو پائن آہستہ آہستہ دھنس رہا ہو۔ پھر وہ اگر قریب رکھی ہوئی کرسی پر نہ بیٹھ جاتا تو یقیناً چکرا کر گر پڑتا۔
اجمل نے کسی نوکر کو آواز دے کر پانی منگایا اور اس کی بغل والی کرسی پر خود بھی بیٹھ گیا۔
ایک گلاس پانی نے اس کے حواس کسی قدر یکجا کئے۔
’’یہ سب کچھ کیسے ہو گیا؟‘‘اس نے سونی سونی آنکھوں سے اجمل کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔
’’کیا بتاؤں آپ کو۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ گرمیاں شروع ہوتے ہی وہ آپ کا انتظار کرنے لگتی تھیں۔ پچھلی گرمیوں میں بھی ایسا ہی ہوا۔ لیکن آپ نہیں آئے۔ وہ ساری گرمی بے حد بے چینی میں مبتلا رہیں۔ مجھ سے بار بار کہتیں کہ آپ کسی اور ہوٹل میں نہ رک گئے ہوں۔ انھوں نے مجھے کئی بار آپ کو ڈھونڈنے کے لیے دوسرے ہوٹلوں میں بھیجا بھی۔ میں ان کی اس بے چینی کو دیکھ کر خود بھی پریشان ہو اٹھتا۔ وہ ذہنی طور پر لگاتار پریشان رہنے لگی تھیں۔ وہ برابر آپ کا ذکر کرتی رہتیں۔ ان کے مزاج میں اچھا خاصا چڑچڑا پن پیدا ہو گیا تھا۔ ذراذرا سی بات پر چیخنے چلّانے لگتیں۔ ہوٹل کے تمام ملازم جو ان کا بہت خیال رکھتے تھے، ان سے کترانے لگے۔ پھر سردیاں آ گئیں۔ سردیوں میں ہوٹل کا کاروبار بندسا ہو جاتا ہے۔ اس طرح ان کی مشغولیت ختم سی ہو گئی۔ وہ شدید تنہائی کا شکار ہو گئیں۔ پھر ایک دن ان پر نروس بریک ڈاؤن کا حملہ ہوا وہ بے حد بیمار پڑ گئیں۔ چند دنوں بعد امریکہ سے ان کا بھائی آ گیا۔ اس نے بڑی کوشش کی کہ میڈم کچھ دنوں کے لیے ان کے ساتھ امریکہ چلی جائیں لیکن وہ کسی طرح سے راضی نہ ہوئیں۔ وہ بہت ضدی ہو گئی تھیں۔ آہستہ آہستہ ان کی حالت ٹھیک ہونے لگی۔ خاصا مہنگا علاج ہورہا تھا۔ بھرپور طریقہ سے ان کی دیکھ ریکھ بھی ہورہی تھی۔ کوئی دو مہینے بعد ان کا بھائی امریکہ واپس چلا گیا۔ جاتے وقت وہ ہم لوگوں کو ہدایت دے گیا تھا کہ میڈم کو کار نہ چلانے دیا جائے۔ شاید اس لیے کہ ان کا نروس سسٹم بہت کمزور ہو گیا تھا۔
ایک دن صبح جب میں ڈیوٹی پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ میڈم اپنی کار خود چلا کر راک گارڈن کی طرف گئی ہیں۔ میرے پیروں تلے زمین نکل گئی۔ وہ ابھی پوری طرح صحت مند نہیں ہوئی تھیں۔ میں نے ان کے خیریت سے واپس آنے کے لیے دعا کی۔ لیکن شاید دعا کرنے میں مجھے کچھ دیر ہو گئی تھی۔ چند گھنٹوں بعد پتہ چلا کہ ان کی کار ان کے قابو سے باہر ہو کر ہزاروں فٹ گہری کھائی کا نوالہ بن گئی ہے۔‘‘
اجمل خاموش ہو کر اسے دیکھنے لگا۔ وہ سکتے کے سے عالم میں خالی خالی آنکھوں سے اسے گھورے جا رہا تھا، پھر اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ اسے محسوس ہوا کہ جیسے رسیپشن روم تیزی سے گردش کر رہا ہو۔ اس نے اپنا سر قریب رکھی ہوئی میز پر ٹکا دیا۔
اور جب اس نے اپنی آنکھیں پھر کھولیں تو بلّیو پائن کے دھنک رنگ غائب ہو چکے تھے، اور وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا۔
ختم شدہ ـ
وہاں ایسا کچھ بھی نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا. کیا کہنے... یہ 80s والی محبت کتنی پاک کتنی صاف و شفاف ہوا کرتی تھی... بہت ہی پیارا افسانہ... بہت بہت داااد اور مبارکباد
غیاث الرحمٰن
بڑا نازک, بڑا پاکیزہ افسانہ ہے۔ بقول گلزار صاحب,, پیار کو پیار ہی رہنے دو کوئی نام نہ دو,, اسرار گاندھی صاحب کے قلم کی سحرانگیزی پوری طرح چھائی رہی۔ افسانے کی پوری فضا میں رومانی رنگ چھایا رہا۔ افسانہ دلچسپ بھی ہے۔ اور دلکش بھی۔ انجام یہی ہونا تھا, جو ہوا۔ اس خوبصورت افسانے کےلۓ بہت بہت مبارکباد۔
جاوید انصاری
کل محمد عمران صاحب جنت نشان کشمیر کی سیر کرائی اور آج اسرار گاندھی صاحب دارجلنگ کی پرکیف فضاؤں کی روداد سنا رہے ہیں۔اس تخلیق کو افسانہ نگار نے نہایت خوبصورت انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔اس کے کلائمکس کا اندیہ انہوں نے افسانہ کے درمیان ہی دے دیا کہ مسز ورما پرپیچ راستوں خطرناک انداز سے ڈرائیو کرتی ہیں۔دوسری اہم بات شاید جنہیں ہاسٹل لائف کا تجربہ ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ ہاسٹل کے قوانین کیا ہوتے ہیں، وہاں آزادی یا آرام دہ جیسی چیز کم ہی میسر ہوتی ہے۔اور گرلس ہاسٹل میں کچھ زیادہ پابندیاں ہوسکتی ہیں۔
افسانہ کا بیانیہ نہایت عمدہ ہے۔ایک اچھا افسانہ شامل کرنے کے لیے منتظمین مبارکباد کے مستحق ہیں۔
رخسانہ نازنین
دو دلوں کے بیچ خلیج حائل ہوتے ہوئے بھی دونوں کے دل ایکدوسرے کے لیے دھڑکتے رہے۔ اور یہ رابطہ اتنا مضبوط تھا کہ خواب میں کسی انہونی کا اشارہ دے گیا۔ محبت کے اعتراف، اظہار واقرار کے بغیر بھی سچی محبت کے جذبوں سے بھرپور ایک خوبصورت افسانہ۔
نصرت شمسی
زندگی کے سفر میں گزر جاتے ہیں جو مقام۔۔۔وہ پھر نہیں آتے۔۔۔بہت حسیں ....
اس عمر کا افسانہ جہاں اگر محبت کے بارے میں سوچ بھی لیا جاۓ ثو مجرم قرار دۓ جائیں۔۔۔
افسانہ نگار کے لیے بہت سی مبارک باد۔
ابوذر
بے حد خوبصورتی سے لکھے اس افسانے نے اُن خوبصورت جذبات کی یادیں تازہ کر دیں جو پچھلی صدی کی آخری دہائیوں میں افسانہ نگار بےحد مہارت سے قلمبند کیا کرتے تھے۔
بس لگتا ہے اسرار گاندھی صاحب کے قلم نے اُن یادوں کو اِس اکیسویں صدی میں دوبارہ جنم دیا ہو۔ اُمّید کرتے ہیں کہ یہ افسانہ اُس ٹرینڈ کو واپس لا کے نئے قارئین کو اُن احساسات کے جادو کا تعارف کرائے۔
نگار عظیم
بہت خوبصورت، حساس افسانہ "خلیج" پڑھنے کو ملا۔ اب ایسی محبتیں عنقا ہو چکی ہیں۔ جبکہ اصل محبت یہی ہوتی ہے اس میں کسی اقرار کی ضرورت نہیں۔ محبت میں دھڑکتے دل آنے والے خطرات محسوس کر لیتے ہیں۔ اس افسانے کے اختتام کا اشارہ خواب کے ذریعہ واضح ہو جاتا ہے۔ پھر بھی ایک امید کی کرن ساتھ ساتھ چل رہی تھی رنگین لہریے کی طرح۔ خدا کرے ایسی محبتوں کا چلن جاری رہے۔ زیست یہی ہے۔ اسرار گاندھی صاحب کا یہ بہت خوبصورت اور نازک افسانہ ہے جس پر حقیقت کا گمان ہوتا ہے۔ زبان و بیان کی لطافت نے اپنا رنگ جماےء رکھا۔ ڈھیروں مبارکبادیں۔
ڈاکٹر صادقہ نواب سحر
اسرار گاندھی صاحب کے بہترین افسانوں میں سے ایک اس افسانے نے متاثر کیا –
سلیم خان
کمال کی کہانی ہے صاحب بہت خوب۔ آج کل فاسٹ فوڈ کا زمانہ لوگ سب کچھ فٹافٹ چاہتے ہیں لیکن ایسی کہانیاں ہلکی آنچ پر بنی جاتی ہیں۔ ان کا لطف جداگانہ ہوتا ہے۔ اس کہانی کی ایک اہم غیر ضروری لفاظی کی عدم موجودگی ہے۔ اس میں کچھ بھی بلا ضرورت نہیں ہے۔ سب کچھ حسب ضرورت نہ زیادہ نہ کم اور مسز ورما کی کردار نگاری کا جواب نہیں۔ اسرار صاحب بہت بہت مبارک ہو۔
ملکیت سنگھ مچھانہ
میں نے رات ہی یہ افسانہ پڈھ لیا تھا،اس طویل کہانی نے مجھے متاثر نہیں کیا۔۔۔معذرت سے
معین الدین عثمانی
خوبصورت بیانیہ سے لدی کہانیاں پڑھنے میں تو اچھی لگتی ہیں مگر آخر میں ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس نوعیت کی کہانیاں بیسویں صدی جیسے رسالہ کی زینت بن کر قاراءین کی تفریح کاسامان ضرورمہییا کردیتی تھیں۔
لیکن
اگر بیانیہ ہی معیار کا پیمانہ ٹہرا تو داستان الف لیلی اور طلسم ہوشرباء کا جواب اب تک نہیں پیدا ہوا ہے۔
آج کی کہانی محض واقعہ ہی نہیں بیان کرتی بلکہ بین السطور میں معاملہ وقوع پذیر ہونے کی وجہ کی طرف بھی اشارہ کرجاتی ہے۔
مذکورہ کہانی میں مسز ورما اور راوی کی یاسیت سے بھری زندگی کی وجہ کی جانب اگر ہلکا سا اشارہ بھی ہوجاتا تو کہانی مزید بہتر ہوسکتی تھی۔بہر کیف یہ میرا خیال ہے۔
سیدہ تبسم
خلیج بہت ہی عمدہ افسانہ ہے۔۔۔ بہت پسند آیا۔ اسرار صاحب کو بہت مبارک باد
اکبر عابد
متاثر کن افسانہ اسرار گاندھی صاحب کے سحر انگیزی نے دل ودماغ پر اپنا قبضہ جمالیا ہے خلیج بہت ہی عمدہ افسانہ ہے۔ایک اچھے افسانے کے لیے محترم اسرارگاندھی کو بہت بہت مبارکباد۔
شموئل احمد
بوڑھا ادیب پریم کہانی نہیں لکھ سکتا۔بوڈھے کے پاس صرف ماضی ہوتا ہے۔اس کے جذبات سرد خانے میں آہستہ آہستہ مرتے رہتے ہیں۔ خلیج کہیں سے بھی پریم کہانی نہیں ہے۔ایک شخص سکون پانے کے لیے ہوٹل کا رخ کرتا ہے۔وہاں ایک عورت ملتی ہے۔ اسے بھی سکون چاہیئے۔دونوں ایک دوسرے کو پسند کرنے لگتے ہیں۔ عورت کار حادثہ میں مر جاتی ہے۔کہانی ختم۔ کیا بات ہوئ؟ کیا اسی کو پریم کہانی کہتے ہیں؟ کوئی تڑپ۔ نہیں کوئی بےقراری نہیں جلن نہیں سوز نہیں جز بات کی شدت نہیں۔ عورت نے ہجر کی راتیں کس طرح کاٹیں اس کا بیان نہیں ملتا۔یہ یاسیت کی کہانی ہے جہاں دونوں ایک دوسرے کی مدد سے اپنے اندر کے خلا کو بھرنا چاہتے ہیں۔ایک مر جاتا ہے دوسرا زندہ رہتا ہے۔
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری
افسانہ" خلیج" کا عنوان اگر بلیو پائن ہوتا تو کچھ اور ہی مزہ آتا۔ کیونکہ اس طرح عنوان کہانی کی سوگوار فضا کا علامتی اشاریہ بن جاتا۔ اسرار گاندھی صاحب نے اس افسانے میں دوکرداروں کے مایوس کن اسرار کو دلچسپ بیانیہ میں فکشنائز کیا ہے۔
افسانے کے زیر متن یا کہانی کی فضا میں ایک رومان انگیز فضا ضرور چھائی ہوئی ہے۔ لیکن دونوں کردار عمر کی اس دہلیز پر کھڑے نظر آتے ہیں جہاں پر جذبات کی آگ کے بجائے شبنمی احساسات کا ریلہ ہوتا ہے اور یہ شبنمی احساسات دونوں کرداروں کے داخلی کرب کی ایک ایسی کہانی سامنے لاتے ہیں کہ انجام میں ان کی کرب انگیز کیفیت کا اثرقاری کے اندر بھی ایک کرب ریز احساس پیدا کردیتا ہے۔ یہ اس افسانے کی ایک اہم خوبی قرار دی جاسکتی ہے۔
افسانے میں اگر فون یا کال کا ذکر نہ بھی ہوا ہوتا تو بھی چلتا کیونکہ قاری کہانی کے بارے سوچتا کہ غالبا یہ اس وقت کی عکاسی کرتا ہے جب فون کا چلن کم تھا۔ خیر یہ بات تو کچھ حد تک قبول کی جاسکتی ہے کہ ان دونوں کے درمیان فون پر بات کرنے کی روایت نہیں تھی لیکن کیا ہوٹل والے انٹری فائل میں بھی مرد کردار کا نمبر درج نہیں تھا' اور ہوٹل کے ملازمین اسے شناسا بھی تھے۔
خیر اس جزوی نکتہ کو چھوڑ کر افسانہ اپنی ترسیل و تاثیر میں کامیاب ہے۔۔۔مسکراہٹ
شاہد اختر
افسانہ "خلیج" کا مطالعہ توجہ سے کرنے کی کوشش کی مگر میں مایوس ہوا۔ یہ افسانہ موضوع اور ٹریٹمنٹ کی سطح پر فنی تقاضے پورے نہیں کرتا۔یہ میرا ذاتی خیال ہے۔اس کے ساتھ ہی تکنیکی خامیاں بھی بھی خاصی ہیں۔ مثال بھی پیش ہے۔ہوٹل بلیو پاین اگر مسز ورما کا ہے تو اس کی وضاحت ہونی چاہئے اور ان کا نہیں ہے تو انھیں دوسرے لوگوں کو ہوٹل سے نکلوا دینے کا اختیار کیسے حاصل ہے۔ مسز ورما کار میں ہیں مگر جھٹکے لگنے پر بایک کی طرح ٹکرا رہی ہیں۔
شمویل اور ریاض توحیدی صاحب کی اکثر باتوں سے میں اتفاق رکھتا ہوں۔
اسرار جیسے کہنہ مشق افسانہ نگار سے میں بہت عمدہ افسانے کی توقع کرتا ہوں۔ میرے افسانوں کی خامیاں بتانے والا تعریف کرنے والے سے میری نظر میں زیادہ بہتر ہوتا ہے۔شاید تھوڑی عجلت ہو گی ہے۔کبھی ہو جا تا ہے۔
ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
عمر کی اس دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے ایسے عاشقوں کی کہانی جو اسماجی زنجیروں میں جکڑے ہوئے بے نام منزلوں کی طرف گامزن ہیں۔
کہانی کا ہیرو اپنی پروفیسر بیوی کی مصروفیت اوروقت کی کمی سے اپنے خوابوں کی منزل نہیں پا سکا اور اس ترستی محبّت کی ترسیل کے لیے وہ دارجلنگ جاتا ہے۔ جہاں اس کی طبیعت کو سکون ملتا ہے۔
یہاں ایک بات سے میں اتّفاق نہیں کرتی کہ بیوی کے پاس فرصت کے اوقات نہیں تھے اس لیے وہ شوہر اور سسرال والوں کو وقت نہ دے سکی اور دوریاں بڑھتی گئیں۔ یہ سوچ غلط یے۔ میں اور میری تمام ساتھی پروفیسر اپنے گھر اپنے شوہر، اپنے عزیز و اقارب کو وقت بھی دیتی ہیں اور عزّت بھی کرتی ہیں۔ کیونکہ کالج کی نوکری میں کام کا بہت برڈن نہیں ہوتا۔ اپنے گھر کو وہ بہت بہتر ڈھنگ سے سنبھال سکتی ہیں۔
افسانہ ایک کسک چھوڑ جاتا ہے۔مسنر ورما کاچکردار جاندار کردار ہے۔
اسرار گاندھی صاحب اچھے افسانہ نگار ہیں۔ انھیں مبارک باد
ڈاکٹر انیس رشید خان
محترم اسرار گاندھی صاحب میرے پسندیدہ افسانہ نگاروں میں سے ایک ہیں۔ میں نے آپ کے بہت سارے افسانے پڑھے ہیں اور ان سے بہت کچھ سیکھا بھی ہے۔
یہ افسانہ خلیج کافی طویل افسانہ ہے، جو مجھے بہت زیادہ متاثر نا کر سکا کیونکہ اس میں کچھ باتیں ایسی ہیں جو مجھ جیسے عام قاری کو صاف صاف سمجھ میں نہیں آئیں۔
مثلاً اس افسانے کی بنیادی کردار مسز ورما کی عمر۔ افسانے میں بتایا گیا ہے کہ وہ راوی سے کافی بڑی عمر کی تھیں۔
پچھلی گرمیوں میں راوی اپنے بیٹے کے انجینیرنگ میں داخلے کی وجہ سے دارجلنگ نہیں جاپاتا ہے۔
بیٹا کا انجینرنگ میں داخلہ ہورہا ہے مطلب وہ تقریباً بیس سال کے آس پاس رہا ہوگا۔ اس مناسبت سے راوی کی عمر تقریباً پچاس سال ماننی پڑے گی۔ اور مسز ورما اس سے کئی سال بڑی؟۔۔۔ اس کا مطلب مسز ورما شاٹھ پینسٹھ سال کی خاتون ہوں گی۔۔۔
ایسی عمر میں، مسز ورما کی کار ایکسڈنٹ میں موت واقع ہوجانا بہت زیادہ متحر کرنے والی بات بھی نہیں ہے جب کہ وہ بہت ریش ڈرائیور ہوا کرتی تھیں۔
خیر محبتوں پر کسی کا زور بھی نہیں چلتا۔۔۔ ممکنات کی دنیا بہت وسیع ہے۔۔۔
راوی نے اپنی مرضی سے محبت والی شادی کی تھی لیکن بیوی پروفیسر تھی اور اپنے مشاغل میں مصروف رہتی تھیں۔ بیوی کی طرف سے اتنا زیادہ مایوس ہو جانے کے لیے یہ سبب، کچھ بہت زیادہ متاثر کن نہیں ہے۔
جہاں تک اس افسانے کی زبان و بیان کی بات ہے یہ ایک بہترین افسانہ ہے۔ اس میں روانی غضب کی ہے۔ قاری اسے پڑھتا ہے تو پڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔
محترم اسرار گاندھی صاحب کو اس افسانے کے لیے بہت بہت مبارک باد 🌹
ڈاکٹر صوفیہ شیریں
افسانہ خلیج میں ایسا بہت کچھ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔عام رومانی افسانوں سے الگ ایک ایسی احساس کی دنیا اس افسانے میں آباد ہےجسے حساس قاری یقینا محسوس کر سکتا ہے۔
دو کرداروں کے درمیان عمر سماج اور رشتوں کی خلیج حائل ہے صرف چاہت کا ایک خوبصورت جذبہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے جیسے خلیج تین طرف سے خشکی اور ایک طرف سمندر سے جڑا ہوتا ہے۔
مرکزی کردار برسوں سے ہر گرمی دارجلنگ جاتا ہے جہاں مسز ورما اس کی شدت سے منتظر رہتی ہیں۔ اپنے بیٹے کا انجینئرنگ میں ایڈمشن کی وجہ کر ایک سال وہ دارجلنگ نہیں جاپاتا تو مسز ورما بستر مرگ تک پہنچ جاتی ہیں اور آخر کار ایک کار ایکسڈنٹ میں موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔
۔افسانہ حد سے ذیادہ جذباتیت کا شکار ہے۔مسز ورما کے تءیں مرکزی کردار کی جذباتی وابستگی کے لیے بیوی کو منفی دکھانا ضروری تو نہیں۔
مصنف کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے افسانے کی زبان بھی عمدہ ہے۔ہے تو یہ رومانی افسانہ ہی پر یہ دو جوان دلوں کا رومان نہیں ہے بلکہ ڈھلتی عمر میں دنیا اور رشتوں سے شکست کھائے دو ذہنوں کا رومان ہے۔
افسانہ خلیج میں ایسا بہت کچھ ہے جسے کوئی نام نہیں دیا جاسکتا۔عام رومانی افسانوں سے الگ ایک ایسی احساس کی دنیا اس افسانے میں آباد ہےجسے حساس قاری یقینا محسوس کر سکتا ہے۔
دو کرداروں کے درمیان عمر سماج اور رشتوں کی خلیج حائل ہے صرف چاہت کا ایک خوبصورت جذبہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جوڑے ہوئے ہے جیسے خلیج تین طرف سے خشکی اور ایک طرف سمندر سے جڑا ہوتا ہے۔
مرکزی کردار برسوں سے ہر گرمی دارجلنگ جاتا ہے جہاں مسز ورما اس کی شدت سے منتظر رہتی ہیں۔ اپنے بیٹے کا انجینئرنگ میں ایڈمشن کی وجہ کر ایک سال وہ دارجلنگ نہیں جاپاتا تو مسز ورما بستر مرگ تک پہنچ جاتی ہیں اور آخر کار ایک کار ایکسڈنٹ میں موت کو گلے لگا لیتی ہیں۔
۔افسانہ حد سے ذیادہ جذباتیت کا شکار ہے۔مسز ورما کے تءیں مرکزی کردار کی جذباتی وابستگی کے لیے بیوی کو منفی دکھانا ضروری تو نہیں۔
مصنف کو واقعہ نگاری میں کمال حاصل ہے افسانے کی زبان بھی عمدہ ہے۔ہے تو یہ رومانی افسانہ ہی پر یہ دو جوان دلوں کا رومان نہیں ہے بلکہ ڈھلتی عمر میں دنیا اور رشتوں سے شکست کھائے دو ذہنوں کا رومان ہے۔
عارف انصاری
اسرار گاندھی صاحب کے متعلق کہا جاتا ہے,, وہ بیانیہ کے دلدادہ ہیں ,, مگر موصوف اپنی تخلیقات میں گہرائی و گیرائی سے کام لیتے ہوئے تحریر کو اکثر متاثر کن بنا دیتے ہیں ., بلیو پائن, اپنے شریک سفر سے پریشان دو ایسے لوگوں کی کہانی ہے, جن کے جذبات راکھ کے ڈھیر میں پڑی ہوئی چنگاری کی مثل کسی طوفانی ہوا کی منتظر محسوس ہوتے ہیں , جب تک فاضل افسانہ نگار ان کی عمر کا ذکر نہیں کرتے تو محسوس ہوتا ہے یہ ستر پچھتر برس کے رومانس کے جذبات سے عاری دو دلوں کی داستان ہے, مگر افسانہ نگار کے جملے,,
ان کی(مسز ورما)عمر کوئی پینتیس چالیس کے درمیان کی رہی ہوگی, لیکن دیکھنے میں تیس سے زیادہ کی نہ لگتیں تھیں ,, اور یہ جملہ
,,گزرتے ہوئے دنوں نے بتایا کہ وہ مسز ورما سے کئی برس چھوٹا ہے
دونوں فریقین کو تندرست و توانا اور جنسی جذبے سے بھر پور عمر کا ہونے کی طرف اشارہ کرتا ہے, ایسی عمر میں جنسی جذبات سے عاری پاک محبت؟؟...قاری کا ذہن ان جملوں کو پڑھ کرانسانی جنسی نفسیات کی طرف رجعت کرنے لگتا ہے, اور میری رائے میں اسرار صاحب نے بھی تو نہیں اور سہی اور سہی اور سہی کے انسانی جذبے کا اس افسانے میں احاطہ کرنے کی کوشش کی ہے, بہر کیف اسرار صاحب کا اسلوب بہت عمدہ ہے افسانہ ایک نشست میں ہی اپنے آپ کو پڑھوا لیتا ہے, اور میری رائے میں یہ بات بھی کہانی کی کامیابی کی ضامن ہو سکتی ہے, میں اسرار صاحب اور ایڈمن پینل کی خدمت میں ایک اچھا افسانہ پیش کرنے کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں ..
فریدہ نثار احمد انصاری
محبت زمان و مکان نہیں دیکھتی۔
دیکھتی ہے تو صرف آنکھوں کے پیغامات۔
آنکھوں نے محبت میں بڑا کام کیا ہے
پیغام لیا ہے کبھی پیغام دیا ہے
یا یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ
ہم نے دیکھی ان آنکھوں کی مہکتی خوشبو
ہاتھ سے چھو کے اسے رشتوں کا الزام نہ دو
مذکورہ افسانہ بھی اسی طرح آنکھوں کے ڈوریائی لہروں کی طرح ایک دوسرے کے لیے منعکس ہوتا چلا جاتا ہے۔دونوں کی عمروں میں فرق, دونوں شادی شدہ لیکن کہیں کوئی بات ضرور ہے جس کی وجہ سے یہ دو پاکیزہ محبتیں پروان چڑھتی ہیں لیکن ایک حد فاصل دونوں کے درمیان رہتی ہے۔
محبتوں کے لیے یہ ضروری بھی نہیں کہ ازدواجی زندگیوں میں کوئی خلاء پایا جائے۔اسی کا ذکر فاضل افسانہ نگار نے کیا اور افسانہ سبک رفتاری سے بڑھتا گیا۔ایک تجسس تھا جو برقرار رہا۔
جس طرح پاکیزہ محبتیں اختتام تک ساتھ ساتھ نہیں چلتیں بالکل اسی طرح یہاں بھی افسانے کا اختتام ہوا اور یہی انجام ممکن بھی تھا۔
قلم کار کو مبارک باد و نیک خواہشات۔
انور مِرزا
گاندھی جی کے اِس افسانے کے اسرار...
جہاں تک میَں سمجھ سکا ہوں ...
وہ کچھ یُوں ہیں کہ
بلاشبہ یہ ایک رومانی کہانی ہے...مگر
یہ دوسری عورت اور دوسرے مرد کا
سنجیدہ فسانۂ عشق ہے...اس لیے دونوں ہی
مرکزی کرداروں سے لیلیٰ مجنوں یا
شیریں فرہاد جیسے دنیا ہِلا دینے والے
عشق کی توقع نہیں کی جا سکتی تھی...
یہ اپنی اپنی فیملی سے وابستہ
آج کے مرد، عورت کی کہانی ہے
دونوں کردار غیر محسوس طور پر
ایک دوسرے کی محبّت میں گرفتار
تو ہو جاتے ہیں ...مگر اظہارِ محبّت میں
پہل نہیں کرتے...سال در سال ہر ملاقات میں
دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں
محبّت تلاش کرتے ہیں ...مگر ہر بار
ناکامی اور مایوسی ہاتھ لگتی ہے...
اس نے اُن کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا
اُنہوں نے اُس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا… لیکن وہاں ایسا کچھ نہ تھا جسے کوئی نام دیا جا سکتا...
ناکام محبّت کا یہ افسانہ مسز ورما کی
’حادثاتی‘ موت کے بین السطور پوشیدہ ہے...
’’اگر تم کسی سے محبّت کرتے ہو...
تو اظہار کر دو...اِس سے قبل کہ دیر ہو جائے‘‘
’’ایسی لگن ...کل ہو نہ ہو...!‘‘
’’ایسی چُبھن ...کل ہو نہ ہو...!‘‘
اسرار گاندھی صاحب کے لیے
پُرخلوص مبارکباد
_Xtra Shots_
افسانہ نِگاروں سے ایک عام گزارش ہے کہ رومانی افسانوں میں ’ مسز ورما ‘ جیسے
غیر رومانی نام نہ رکھا کریں ...
جس عورت کے نام کے ساتھ ہی اُس کا شوہر موجود ہو...اُس معزز خاتون سے بھلا کوئی عشق کیا خاک کرے؟
ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
بزم ادب کا حالیہ ایوینٹ رومانی افسانوں سے متعلق ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رومانیت ہے کیا؟ اور یہ عشقیہ شاعری یا ادب سے کس طرح مختلف ہے؟
سب جانتے ہیں کہ رومانیت یا romanticism انگریزی ادب سے مشتق ہے۔سولہویں اور سترہویں صدی، جو انگریزی ادب کا ایلزیبتھین دور کہلاتا ہے، میں شدید قسم کی عقلیت، انجیل مقدس کے حوالے سے مذہبیت، فلسفہ اور تاریخی واقعات کا زور تھا۔(ڈرامہ/ شاعری) اگرچہ وہ انگریزی ادب کا شاندار عہد تھا لیکن اس کے رد عمل کے طور پر اٹھارہویں صدی کے آخر میں رومانیت کا دور شروع ہوا جو realism کے بجائے idealism کا حامی تھا اور جس انگریزی ادب کو لازوال شعر و ادب سے مالا مال کر دیا۔اس میں محبت کے رنگ تھے، کسی چیز سے شدید طور پر متاثر ہونا، جذباتیت، عام انسانی تجربات، تنہایء، درد انگیزی، فطرت سے محبت وغیرہ جذبات و احساسات شامل تھے۔ جو کسی جذبے کی شدت کو بیان کرے، وہ رومانیت تھی۔ جہاں ذہن کو سکون ملے، حقیقت یا عقل سے زیادہ تصور، تخیل اور جذبے کا دخل ہو، وہ محبت جس میں جسم کی بھوک نہ ہو، جو روح کو سیراب کرے۔
اردو میں اقبال، جوش، فراق وغیرہ اپنی عقلیت پسندی اور باغیانہ نظریات کے باوجود رومانیت کے علم بردار ہیں۔ادب لطیف میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔
اگر کسی ہم نظر، ہم خیال شخص کی معیت میں ذہنی سکون ملتا ہو، تو وہ رومانیت ہے۔اسے عمر کے ادوار میں ناپنا بھی ناانصافی ہے۔ کویء حسین چہرہ، کویء سحر آگیں منظر، کویء دلکش ادب پارہ، موسیقی کا کویء سر،ساز آواز، جوحقیقت کی تلخیوں سے نکال کر سکون بخشے، رومان ہے۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسرار گاندھی صاحب کا افسانہ "خلیج"رومانی افسانہ ہے۔راوی اور مسز ورما ایک دوسرے کے ساتھ ذہنی اور جذباتی سکون محسوس کرتے ہیں، اخلاق سے گرا ہوا کویء عمل ان سے سرزد نہیں ہوتا۔ تقاضائے بشریت کے تحت اتفاقیہ لمس سے لمحہ بھر کے لیے آنکھوں میں جوت جاگتی ہے لیکن فوراً بجھ جاتی ہے۔کویء رد عمل نہیں ہوتا۔ایسے دو لوگوں کی کہانی جنھیں زندگی کے ہمسفر سے ہم نوائی اور ہم آہنگی نہیں ملی۔
(اگرچہ میں ذاتی طور پر اس سے اتفاق نہیں کرتی اور اسے بےوفای ء گردانتی ہوں)
بہرحال ادبی اور اخلاقی طور پر افسانے میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔البتہ، جیسا کہ بعض مبصرین نے اشارہ کیا، بیان میں کچھ کمزوریاں در ایء ہیں، جیسے بیوی کی برایء یا مسز ورما اور راوی کی عمروں کے حساب میں غلطی وغیرہ۔
اسرار گاندھی صاحب ایک پختہ گو سینیر افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں میں فن افسانہ نگاری کے حوالے سے کمزوری کا ذکر مناسب نہیں ہے۔ان کی زبان سہج، سرل، سلیس اور دلکش ہوتی ہے۔منظر نگاری خوب ہے، اسلوب میں چستی اور روانی ہے۔قدرے طویل ہونے کے باوجود افسانہ دلچسپ اور ترسیل میں کامیاب ہے۔
بزم ادب کا حالیہ ایوینٹ رومانی افسانوں سے متعلق ہے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رومانیت ہے کیا؟ اور یہ عشقیہ شاعری یا ادب سے کس طرح مختلف ہے؟
سب جانتے ہیں کہ رومانیت یا romanticism انگریزی ادب سے مشتق ہے۔سولہویں اور سترہویں صدی، جو انگریزی ادب کا ایلزیبتھین دور کہلاتا ہے، میں شدید قسم کی عقلیت، انجیل مقدس کے حوالے سے مذہبیت، فلسفہ اور تاریخی واقعات کا زور تھا۔(ڈرامہ/ شاعری) اگرچہ وہ انگریزی ادب کا شاندار عہد تھا لیکن اس کے رد عمل کے طور پر اٹھارہویں صدی کے آخر میں رومانیت کا دور شروع ہوا جو realism کے بجائے idealism کا حامی تھا اور جس انگریزی ادب کو لازوال شعر و ادب سے مالا مال کر دیا۔اس میں محبت کے رنگ تھے، کسی چیز سے شدید طور پر متاثر ہونا، جذباتیت، عام انسانی تجربات، تنہایء، درد انگیزی، فطرت سے محبت وغیرہ جذبات و احساسات شامل تھے۔ جو کسی جذبے کی شدت کو بیان کرے، وہ رومانیت تھی۔ جہاں ذہن کو سکون ملے، حقیقت یا عقل سے زیادہ تصور، تخیل اور جذبے کا دخل ہو، وہ محبت جس میں جسم کی بھوک نہ ہو، جو روح کو سیراب کرے۔
اردو میں اقبال، جوش، فراق وغیرہ اپنی عقلیت پسندی اور باغیانہ نظریات کے باوجود رومانیت کے علم بردار ہیں۔ادب لطیف میں بھی اس کی مثالیں موجود ہیں۔
اگر کسی ہم نظر، ہم خیال شخص کی معیت میں ذہنی سکون ملتا ہو، تو وہ رومانیت ہے۔اسے عمر کے ادوار میں ناپنا بھی ناانصافی ہے۔ کویء حسین چہرہ، کویء سحر آگیں منظر، کویء دلکش ادب پارہ، موسیقی کا کویء سر،ساز آواز، جوحقیقت کی تلخیوں سے نکال کر سکون بخشے، رومان ہے۔
اس حوالے سے دیکھا جائے تو اسرار گاندھی صاحب کا افسانہ "خلیج"رومانی افسانہ ہے۔راوی اور مسز ورما ایک دوسرے کے ساتھ ذہنی اور جذباتی سکون محسوس کرتے ہیں، اخلاق سے گرا ہوا کویء عمل ان سے سرزد نہیں ہوتا۔ تقاضائے بشریت کے تحت اتفاقیہ لمس سے لمحہ بھر کے لیے آنکھوں میں جوت جاگتی ہے لیکن فوراً بجھ جاتی ہے۔کویء رد عمل نہیں ہوتا۔ایسے دو لوگوں کی کہانی جنھیں زندگی کے ہمسفر سے ہم نوائی اور ہم آہنگی نہیں ملی۔
(اگرچہ میں ذاتی طور پر اس سے اتفاق نہیں کرتی اور اسے بےوفای ء گردانتی ہوں)
بہرحال ادبی اور اخلاقی طور پر افسانے میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔البتہ، جیسا کہ بعض مبصرین نے اشارہ کیا، بیان میں کچھ کمزوریاں در ایء ہیں، جیسے بیوی کی برایء یا مسز ورما اور راوی کی عمروں کے حساب میں غلطی وغیرہ۔
اسرار گاندھی صاحب ایک پختہ گو سینیر افسانہ نگار ہیں۔ان کے افسانوں میں فن افسانہ نگاری کے حوالے سے کمزوری کا ذکر مناسب نہیں ہے۔ان کی زبان سہج، سرل، سلیس اور دلکش ہوتی ہے۔منظر نگاری خوب ہے، اسلوب میں چستی اور روانی ہے۔قدرے طویل ہونے کے باوجود افسانہ دلچسپ اور ترسیل میں کامیاب ہے۔
محمد قمر سلیم
خلیج لفظ دیکھتے ہی ذہن میں منفی رجحانات ابھرتے ہیں جیسے خلیج پڑ گئی، خلیج پیدا ہوگئی وغیرہ لیکن زیر نظر افسانے میں ایسا کچھ نہیں۔ ایک صاف ستھری دو دلوں کی داستان ہے جو مہذب سماج کی اخلاقی قدروں میں جکڑے ہوئے ہیں اسی لیے ایک دوسرے کے لیے دل دھڑکنے کے باوجود وہ حدوں کو پار نہیں کر سکے۔ اس افسانے میں سسکتے ہوئے جذبات تو ہیں لیکن ایسا کچھ نہیں ہے جس سے یہ کہا جائے کہ یہ دور حاضر کی محبت ہے یہ ایسے لوگوں کی محبت کا فسانہ ہے جو شادی کے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں اور ایک مخصوص عمر کو بھی پار کر چکے ہیں۔ اگر یہ افسانہ آج کے دور کا پر لکھا جاتا تو اس میں ایسا سب کچھ ہوتا جو ہونا چاہیے تھا۔ خوبصورت منظر نگاری، روانی اور سلاست سے بھر پور افسانہ۔ میں سمجھتا ہوں کہ بیوی کا منفی کردار دکھانا افسانہ نگار کی مجبوری ہے اگر بیوی کا اچھا پہلو دکھایا جاتا تو کہانی ہی نہیں بنتی۔ اگر بیوی کے پہلو میں سکون ملتا تو اتنی دور جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی۔ دوسرے بیوی کا مثبت پہلو دکھانے پر شوہر پر الزام آتا کہ بد کردار اور خود غرض انسان ہے اس وقت ہم راوی اور مسز ورما کی محبت کو پاک محبت نہیں کہتے۔
ایک رواں دواں پیاری تحریر کے لیے اسرار بھائی کو بہت بہت مبارکباد۔
ترنم جہاں شبنم
انسان کو انسانی توجہ اور ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے اور ہر عمر کا ایک الگ تقاضہ ہوتا ہے۔ انسانی نفسیات کی گرہ کھولتا محبت کا روحانی افسانہ۔ بہت عمدہ اسرار گاندھی صاحب کے محبت کے اس خوبصورت افسانے کے لیے دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔
ڈاکٹر فیروز عالم
محبت کی یہ کہانی اچھی لگی۔ اس میں واقعات اور کرداروں کو بڑی خوبی سے تراشا اور ڈیولپ کیا گیا ہے۔ انسانی جذبوں کی بہترین عکاسی اور دلکش اسلوب قاری کو متاثر کرنے میں کامیاب ہے۔
اسرار گاندھی صاحب کو دلی مبارک باد۔ تاخیر سے اظہار خیال کے لیے معذرت
ریحان کوثر
افسانہ خلیج شادی شدہ مرد اور عورت کے درمیان غیر معمولی لگاؤ، دلچسپی اور ایک بے نام رشتے کی جذباتی اور نفسیاتی کہانی ہے۔ یہ ایک نازک موضوع پر لکھا گیا مکمل اور کامیاب افسانہ ہے۔
اسرار گاندھی صاحب کا افسانہ پسند آیا ہے۔ افسانہ نگار کو اس افسانے کے لیے اور ایونٹ میں شرکت کے لیے مبارکباد۔ تاخیر سے تاثرات پیش کرنے کے لیے معذرت
اسرار گاندھی
عزیز دوستو۔
میں بےحد شکر گزار ہوں کہ آپ تمام لوگوں نے میری کہانی پڑھ نے کے۔لیے وقت نکالا اور کہانی پر اپنی رائے دی۔ کچھ لوگوں کو کہانی پسند آئی اور کچھ کو نہیں۔ میں دونوں ہی طرح کے لوگوں کا شکر گزار ہوں۔
اب میری تھوڑی سی مشکل یہ ہوگئی ہے کہ مجھے نام یاد نہیں رہ پاتے۔ اس لیے نام بنام شکریہ ادا نہیں کر sakunga۔
مجھے چند ایک باتیں کہنی ہیں۔ پہلی بات تو یہ کی کچھ لوگ کہانی کو Mathmatic s کے فارمولے کی طرح پڑھتے ہیں۔ یہ غلط بات ہے۔
ایک صاحب نے یہ فرمایا اس عمر ایسی کہانیاں نہیں لکھی جا نی چاہیے۔
خود موصوف اسی سال سے اُوپر کے ہو چکے ہیں۔ غلیظ قسم کی جنسی کہانیاں لکھتے اور دوسروں کو رومانی kahani لکھنے کی عمر بتاتے ہیں۔ بھائی یہ کیسی منافقت ہے۔ لیکن بیچارے کیا کریں کہ زندگی۔اسی طرح سے گزری ہے۔
اس گروپ کے ایڈمن انور مرزا صاحب کا شکر گزار ہوں کی انہوں نے مجھے موقع دیا۔
تمام احباب کا ایک بار پھر۔دل سے ممنون ہون۔ اگر کسی کو میری بات بری لگی ہو میں معذرت خواہ ہوں۔
0 Comments