Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانہ نمبر: 01 | دروازے | سید محمد اشرف

بزمِ افسانہ کی پیش کش
چودھواں ایونٹ
رنگ و بوئے باراں (رومانی افسانے )
افسانہ نمبر: 01
دروازے
سید محمد اشرف

اُس دِن آسمان پر کہرا چھایا ہوا تھا اور گلیوں میں بھی سفید چمکتا کہرا دھیرے دھیرے بہہ رہا تھا۔ سردی کچھ کم ہو گئی تھی۔ ہوائیں کہرے کے مرغولوں کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے ہوئے تھیں۔ دریا کنارے اس قصباتی بستی کے نسبتاً کم گھنی آبادی والے حصے میں کہرے کو چیرتا وہ شخص جس کے چہرے پر داڑھی بڑھی ہوئی تھی اور لباس ملگجا تھا، گلی کے دہانے سے آگے بڑھا۔ وہ رُک کر کبھی زمین کودیکھتا کبھی آسمان کو۔ پھر اُس نے مکانوں کے در و دیوار کو دیکھا اور پھر ہاتھ بلند کر کے کہرے کو محسوس کیا۔ چہرے پر ہاتھ پھیرا تو نمی کا احساس ہوا۔ اس نے ایک لمحے کو سوچا یہ نمی باہر سے آئی ہے کہ اندر سے۔ پھر ایک نعرے کی طرح پڑھا۔۔
آنکھیں رو رو کے سجانے والے ۔ جانے والے نہیں آنے والے
وہ مسلسل اسی شعر کا وِرد کرتا رہا اور گلی میں آگے کی طرف بڑھتا رہا۔ اچانک ایک دروازے کا پَٹ کُھلا۔ایک عورت نے اِک ذرا سا چہرہ نکالا اور شعر پڑھتے اس شخص کو دیکھا جو اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ چہرا اندر کر کے وہ ذرا بلند آواز میں بولی۔
’’شاہد بیٹے ۔ اس بد نصیب کو باہری کمرے کے چبوترے پر لاکر بٹھالو۔‘‘
’’وہ بد نصیب کیوں ہے امّاں۔‘‘ ایک بچے کی آواز آئی تھی۔
کچھ دیر خاموشی رہی۔
’’اس کا کوئی قریبی عزیز مر گیا ہے شاید۔‘‘
بچے نے مکان سے نکل کر آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما۔ وہ شخص مکان سے آگے نکل چکا تھا۔
’’امّاں کہتی ہیں آپ چبوترے پر آکر بیٹھ جائیے۔‘‘
’’کیوں۔‘‘ یہ پوچھتے وقت بھی اس نے بچے کی طرف نہیں دیکھا تھا۔
’’شاید پانی پلائیں گی۔‘‘ وہ فقیروں کو پانی پلاتی ہیں اور اگر بھوکے ہوں تو کھانا کھلاتی ہیں۔ چلیے آئیے نا۔‘‘ بچہ ضد کرنے لگا۔
’’لیکن میں بھکاری نہیں ہوں۔ تھیلا دیکھو۔ اس میں میرے کئی لباس ہیں اور روٹیاں بھی ہیں۔ یہ میں نے اپنی محنت سے کمائی ہیں۔‘‘ 
بچہ اس کا ہاتھ تھامے رہا۔ ماں باہر کے کمرے کی کھڑکی پر پٹری چلمن کے پیچھے آکر کھڑی ہو گئی تھی۔
’’کون ہے آپ کا جو چلا گیا ہے اور اب نہیں آئے گا؟۔‘‘
وہ بچے کا سوال سن کر چُپ رہا۔ ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر کہرے کے مرغولوں کو محسوس کرتا رہا۔
’’کب انتقال ہوا؟‘‘ بچے نے پوچھا۔۔
’’خدا نہ کرے۔‘‘ وہ بے تابی کے لہجے میں بولا۔
’’آئیے‘‘۔ بچہ اسے تقریباً کھینچتا ہوا باہری کمرے کے سامنے چبوترے تک لایا۔
ماں نے دھیمے سے بچے کو اندر آنے کو کہا۔ 
ماں نے باہری کمرے کا دروازہ اندر سے کھول دیا تھا۔ بچہ اندر گیا اور سینٹھوں کا ایک مونڈھا لے کر بر آمد ہوا۔
’’اماں کہتی ہیں۔ اس پر بیٹھ جائیے۔‘‘
وہ شخص خاموشی سے مونڈھے پر بیٹھ گیا اور اپنا رُخ گلی کی طرف کرلیا۔ اس نے اپنا تھیلا گود میں رکھ لیا تھا۔
’’سلام علیکم!‘‘ عورت نے دھیمی آواز میں اُسے سلام کیا اور تب اسے معلوم ہوا کہ کھڑکی کی چلمن کے پیچھے بچے کی ماں ہے۔
اس نے آہستہ سے جواب دیا۔ گلی میں سناٹا تھا۔ شاید سب اپنے اپنے گھروں میں لحافوں میں دُبکے پڑے تھے۔
اس درمیان بچے نے اندر سے پانی کا بھرا ہوا کٹورہ لا کر دیا۔ اس نے آہستہ آہستہ تین گھونٹ میں پانی پیا۔ اس کے چہرے پر شکر گزاری کا جذبہ آیا۔ وہ مونڈھے کے ہتّھوں پر ہاتھ ٹیک کر اٹھنا چاہتا تھا کہ اندر سے کانپتی ہوئی آواز میں عورت نے کہا۔
’’سردی بہت ہے۔ کچھ دیر یہیں بیٹھئے۔‘‘
’’جی!۔‘‘ اس نے آہستہ سے کہا۔
’’کھانا کھا لیجئے۔ آپ بھوکے ہوں گے۔‘‘
’’جی شکریہ۔ میں بھوکا نہیں ہوں۔‘‘
’’میرے شوہر کاروبار کے کام سے باہر گئے ہیں۔ کل واپسی ہوگی۔ وہ ہوتے تو میں آپ کو باہری کمرے کے اندر بٹھاتی۔‘‘
’’نہیں میں یہاں بھی ٹھیک ہوں۔‘‘
باہری کمرے سے اب بچے کے پہاڑے یاد کرنے کی آواز آرہی تھی۔
’’آپ کو کس بات کا افسوس ہے، کیا کسی عزیز کا انتقال ہوا ہے۔؟‘‘
’’جی نہیں۔ خدا نہ کرے۔‘‘اس نے تھوڑی دیر پہلے بھی یہ جملہ کہا تھا۔
’’پھر یہ گیت کیوں گاتے ہیں۔‘‘
’’نہیں یہ گیت نہیں غزل کا شعر ہے۔‘‘
’’یہ شعر کیوں گاتے ہیں۔؟‘‘
’’گاتا نہیں، یہ شعر پڑھتا ہوں۔‘‘
’’بار بار اتنی درد بھری آواز میں کیوں پڑھتے ہیں؟ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں۔؟‘‘
وہ شخص خاموش رہا۔
’’آپ یہ شعر کیوں پڑھتے ہیں۔؟‘‘
وہ خاموش رہا۔ اس نے سر جھکا لیا تھا۔
’’آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ اس قصبے میں کیسے آنا ہوا۔؟‘‘
’’میں آگرہ کے پاس ایک قصبے کا رہنے والا ہوں۔ میں برسوں سے اسی طرح شہروں شہروں قصبوں قصبوں گھومتا رہا ہوں۔ کسی شہر کسی قصبے میں دوبارہ نہیں جاتا۔‘‘ پھر کچھ رُک کر بولا۔
’’جب رِزق ختم ہو جاتا ہے (اس نے تھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا)تو کسی شہر یا قصبے کے چوراہے پر صبح سویرے مزدوروں کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں۔ مزدوری کرتا ہوں اور رِزق کا انتظام کر کے آگے بڑھتا ہوں۔‘‘
’’اس شہر کا نام جانتے ہیں۔‘‘
’’نہیں معلوم نہیں کیا۔ آج ہی آیا ہوں۔‘‘
آپ کیوں ایسے واہی تباہی گھومتے ہیں۔؟‘‘
وہ پھر خاموش بیٹھا گلی میں چکراتے کہرے کو دیکھتا رہا۔
’’آپ کو کس کے جانے کا غم ہے۔‘‘
’’کوئی تھا۔‘‘ وہ بمشکل بول سکا۔
’’کوئی رشتے دار؟‘‘
’’نہیں ۔ عزیز۔۔۔‘‘
’’کوئی لڑکی۔؟‘‘
وہ سرجھکائے بیٹھا رہا۔
’’کون تھی وہ آپ کی۔؟‘‘
’’پڑوس میں رہتی تھی۔‘‘
’’پھر کیا ہوا۔؟‘‘ 
’’اُس کی شادی ہو گئی۔‘‘
’’آپ اس سے شادی کرنا چاہتے تھے۔؟‘‘
’’جی‘‘۔
’’تو اس سے کہتے بھاگ کر آجائے پھر نکاح کر لیتے۔‘‘
’’اس میں بد نامی ہوتی۔‘‘
’’کس کی۔؟‘‘
’’اُس کی‘‘
یہ سن کر ماں بچے کو ڈانٹے لگی تھی۔ ڈانٹتے ڈانٹتے اس کی آواز بھرّا گئی۔
’’میں اب جاسکتا ہوں؟۔آپ سے میں نے جتنی باتیں کر لیں اس سلسلے میں اتنی باتیں اپنے والد کے علاوہ کسی سے نہیں ہوئیں۔‘‘ اس کے چہرے پر پشیمانی کا سایہ لرز رہا تھا۔
’’کیا آپ اپنے والد سے بھی اس لڑکی کے بارے میں باتیں کرلیتے تھے؟۔‘‘
’’اُن سے ہی کرتا تھا۔ والدہ گزر چکی تھیں۔‘‘
’’سردی کا موسم ہے۔ جب دھوپ چڑھ جائے تب جانے کی جلدی کیجئے گا۔ تب تک مجھے اپنے بارے میں سب بتائیے۔ آج جب پہلی بار آپ کے شعر پڑھنے کی آواز آئی تو میں سمجھ گئی تھی کہ کوئی غمزدہ ہماری گلی میں آیا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی کو برسوں نہ بھول سکے اور اپنی زندگی کو مسافروں کی طرح گزار دے؟۔‘‘
’’میں اپنے قصبے میں شیشہ گری کا کام کرتا تھا۔ فجر کے وقت سے بہت پہلے جاگ کر بھٹّی پر پہنچ جاتا تھا۔ ایک بڑے سے چھپّر نما کار خانے میں بڑی سی بھٹی ہوتی ہے جس کے گرد آٹھ کاریگر بیٹھ کر کام کر سکتے تھے۔ ان میں شیشے کو تپا کر شیشے کا تار کھینچا جاتا ہے۔ میں اپنے قصبے کا سب سے مشاق شیشہ گر تھا۔ شیشے کے بڑے بڑے ٹکڑوں کو بڑی سی بھٹی میں تپا کر ان کا لوم بناتا تھا۔ پھر اس لوم سے برابر کا، بالکل برابر کا تار کھینچتا تھا۔ تار کھینچتے وقت تار کو بل دیا جاتا ہے تو میں بل دینے میں بہت ماہر تھا۔ اس بیچ پانی کے رنگ کے شیشے پر رنگ کی پٹّیاں چڑھائی جاتی تھیں۔ ہری، نیلی، لال اور پیلی اور انہیں رنگوں سے بہت سے دوسرے رنگ بن جاتے تھے۔ شیشے میں رنگ ملانے کے کام میں میری مہارت کی قصبے بھر میں دھوم تھی۔ دور دور کے لوگ میری اس مہارت سے واقف تھے۔ ہم لوگ آٹھ نو گھنٹے کام کرتے تھے۔ واپسی میں دوپہر کے وقت ظہر کے بعد جب میں اپنے گھر کے پڑوس کی گلی سے گزرتا تھا تو کام مکمل ہونے کی سر خوشی میں میلاد کا کوئی شعر پڑھتا جاتا تھا۔ ہمارے قصبے میں میلاد کا بہت رِواج تھا۔ کبھی کبھی میری بلند اور گونج دار آواز کی وجہ سے میلاد کی جماعت والے مجھے بھی اپنے ساتھ بٹھا لیتے تھے۔ ہم لوگوں کی کوشش ہوتی تھی کہ ہماری پڑھی ہوئی نعت کی طرز کسی فلمی گانے سے متأثر نہ ہو۔ میں اس کام میں بہت ماہر ہوگیا تھا کہ فجر سے پہلے بھٹّی پر جانے کے بعد جب بھٹّی کے چاروں طرف فجر کی اذان کی آوازیں گونجتی تھیں تب پیکار ہمیں کام سے روک دیتے تھے اور جب اذان کی آوازیں قصبے کے سناٹے کو توڑتی ہوئی ایک نور جیسا راستہ بناتی ہوئی میرے کانوں میں آتیں اور آپس میں مدغم ہوتیں تو ایسا لگتا جیسے مدھم اور اونچے سروں میں کوئی نغمہ اُبھر رہا ہے جس کی طرز مجھے فوراً یاد ہو جاتی۔ جب میں میلاد پارٹی میں جاتا تو نعت کے شعروں کو اسی طرز پر بٹھاتا اور لوگ سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ کر مجھے سینے سے لگا لیتے۔ مجھے دو ہی شوق تھے ایک شیشہ گری اور ایک نغمہ گری۔ قصبے کے اسکول سے میں نے انٹر میڈیٹ پاس کیا تھا اور اردو والے ماسٹر صاحب سب سے زیادہ شوق سے مجھی کو پڑھاتے تھے۔
ایک دِن جب میں ظہر کے وقت گلی سے گزرتا ہوا اپنے گھر واپس آرہا تھا تو میں کوئی شعر گنگنا رہا تھا کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گلی کے ایک مکان کے دروازے کے پیچھے چوڑیاں بجی ہیں اور ایک کھنکتی ہوئی زیر لب ہنسی کی آواز۔ مجھے اندازہ نہیں ہو پایا کہ چوڑیاں بچنا کب بند ہوئیں اور ہنسی کی آواز کب شروع ہوئی۔ لیکن یہ دونوں آوازیں ایک مختصر وقفے کے لیے تھیں اور ان آوازوں میں ایک تسلسل بھی تھا اور تعلق بھی۔ اس مکان میں یہ کرائے دار نئے نئے آئے تھے۔
ظہر کا وقت واپسی کا مقررہ وقت تھا کیوں کہ بھٹّی کا کام فجر سے بہت پہلے شروع ہو جاتا تھا اور ہم لوگ لگ بھگ آٹھ گھنٹے کام کر لیتے تھے۔ پیکار ہم لوگوں سے اسی قدر کام چاہتے تھے۔ تو جب میں اگلے دن گلی کی راہ سے اپنے گھر کو جا رہا تھا تو پھر چوڑیاں بجیں۔ میں نے شعر پڑھنا بند کردیا تو چوڑیاں اس انداز سے بجیں گویا اصرار کر رہی ہوں کہ شعر پڑھنا روکا نہ جائے۔ میں دھیمے دھیمے گنگناتا ہوا آگے نکل گیا۔ لیکن یہ کسی لڑکی سے ادھوری ہی سہی، ملاقات کا پہلا سابقہ تھا۔ میرے بدن میں ایک عجیب ہلچل سی مچ گئی جسے میں نے استغفار پڑھ کر دفع کیا۔ گھر پہنچ کر میں نے کچھ ہی دیر اس معاملے پر سوچا ہوگا کہ ذہن نے تصدیق کی کہ پڑوس کی یہ نووارِد لڑکی مجھ سے مانوس ہو رہی ہے۔ ذہن کی اس تصدیق نے دِل کو جو مسرت دی اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔
اب معمول یہ بن گیا کہ اس وقت کیوں کہ عموماً گلی میں کوئی نہیں ہوتا تھا اور میں حسبِ عادت اور اب حسبِ شوق کچھ اونچی آواز میں پڑھتا ہوا جاتا تھا۔ اگر میں مسلسل پڑھتا رہتا تو چوڑیاں صرف ایک بار بجتیں اور اگر میں سہواً یا عمداً رُک جاتا تو چوڑیاں دوبارہ بج کر اصرار کرتیں۔
میں ان چوڑیوں کے بجنے کی آواز سے جان چکا تھا کہ یہ خاندان یہاں کا ہی نہیں قرب و جوار کا بھی نہیں ہے۔ قرب و جوار میں ہماری ہی بھٹّی کی چوڑیاں پہنی جاتی تھیں اور ان کی آواز چوڑیوں کے موٹے ہونے کی وجہ سے ذرا ٹھس سی تھی۔ وہ کھنک نہیں تھی۔اَوَدھ علاقے میں ایسی چوڑیاں بنائی جاتی ہیں۔
ایک دِن جب میں حسبِ معمول کچھ پڑھتا ہوا واپس آرہا تھا تو دروازے کے پیچھے سے ایک ہاتھ نکلا اس میں حلوے کی دو قتلیاں تھیں۔ اگر کی خوشبو سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ شب برات کی نیاز کے حلوے کی قتلیاں ہیں۔میری ہتھیلی کو لمس دیے بغیر صرف قتلیوں کو میرے سپرد کر کے وہ ہاتھ اندر ہوگیا۔ وہ گورا ہاتھ تھا اور اس کے ناخُن گلابی تھے۔
پھر تو اکثر یہ ہوتا کہ میں جیسے ہی برابر سے نکلتا چوڑیاں بجنا شروع ہوتیں اور میں ان کے بجنے کی آواز سے پہچان جاتا کہ آج اس آواز میں مزید کچھ پڑھنے کا اصرار ہے یا میری ہتھیلیوں کو کھانے کی کوئی چیز ملنے والی ہے۔۔
میں اُس کی آواز کبھی نہیں سن پایا کیوں کہ دروازے کے پیچھے ایک اوٹ کی دیوار تھی اور اس کے معاً بعد آنگن اور دالان تھے۔ وہ غالباً یہ خطرہ نہیں مول لینا چاہتی تھی کہ کوئی سن سکے کہ وہ کسی سے بات کر رہی ہے۔
اُن شیشم کے پرانے دروازوں کے دَلوں کے درمیان مہین مہین درزیں تھیں جن میں کبھی کبھی دو متحرک آنکھیں سفیدی سی مارتی نظر آتیں۔ کبھی کبھی آنکھ کی سیاہی بھی نظر آجاتی۔ میں کتنا ہی دھیمے دھیمے گزرتا، وہ سیاہ پتلیاں صرف اُتنی ہی دیر نظر آتیں جتنی دیر میں پلک جھپکتی ہے۔ لیکن خدا جانے مجھے کیوں ایسا محسوس ہوتا کہ ان پتلیوں کے چہرے پر جو ہونٹ ہیں وہ سرخ ہیں اور ان پر ایک نرم سی اپنائیت بھری مسکراہٹ ہے۔
میں دِن بھر ہرے نیلے لال اور پیلے اور ان رنگوں سے ملتے جلتے بیشمار رنگوں کو اپنے کام میں لاتا تھا اس لیے وہ تمام رنگ دِن بھر میرے ذہن میں گھومتے رہتے اور جب میں دوپہر کے وقت اس دروازے کے سامنے ہوتا تو اس کی درزوں سے جھانکتے اس لباس کو میں اپنے ذہن میں گھومتے بے شمار رنگوں سے اپنی مرضی کے موافق رنگ لیتا۔ میں دھیرے دھیرے اس بات پر بھی قادر ہو گیا تھا کہ پلک جھپکنے والے اس مختصر سے وقفے میں نظر آنے والے لباس کی پرچھائیں جیسی جھلک کو بیک وقت کئی رنگوں میں دیکھ سکتا تھا اور موسم کے مطابق وہ رنگ میری پسند کے ہوتے تھے۔ سرسراتے ہوئے لباس کی اس ایک جھلک کے لیے ہرا، کاہی، دھانی، آسمانی، فیروزی، گلابی اور کپاسی رنگ میرے بہت کام آتے۔ اکثر اپنے اس نئے فن پر مجھے حیرت انگیز مسرت کا احساس ہوتا اور اس مسرت کے احساس سے میرے چہرے پر ایک ایسی مسکراہٹ جم جاتی جِسے دیر تک دیکھتے رہنے سے میرے والد کے چہرے پر کچھ فکر کے آثار نظر آنے لگتے اور اس مسکراہٹ کے تسلسل کو توڑنے کے لیے وہ تقریباً اضطرابی انداز میں کوئی بے تُکا سا سوال پوچھ بیٹھتے۔ میں اُن کے سوال کا کوئی معقول سا جواب دیتا اور اپنے کمرے میں داخل ہونے کے بعد ان کی فکر اور اضطراب سے مزے لیتا۔
اتنا مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ اس کے گھر ماں، باپ اور چھوٹی بہن کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔وہ لوگ حال ہی آکر ہماری پڑوس والی گلی میں آباد ہوئے تھے۔
اس کے باپ فرنیچر بنا کر بیچنے کا کاروبار کرتے تھے۔ قصبے میں فرنیچر کیا؟۔ کرسیاں، میز، اسٹول، تپائیاں اور نعمت خانے۔ حد سے حد کسی کے پاس بہت پیسہ ہوا تو اس نے دو پٹ کی الماری بنوالی۔ میں نے انہیں ان کے کار خانے نما دوکان میں کام کرتے دیکھا تھا۔ وہ ہر وقت ٹوپی پہنے رہتے تھے اور یکسوئی سے اپنا کام کرتے تھے اور ایک بڑی شیشے کی بوتل میں چائے کا پانی، سیاہی مایل بھورا پانی تھوڑے تھوڑے وقفے سے پیتے رہتے تھے۔ ان کی بیوی کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ البتہ کبھی کبھی دروازے کے پاس سے گزرتے وقت اتنا ضرور سنا کہ ایک نسبتاً عمر دراز عورت اپنی لڑکیوں کو گھریلو کاموں کے بارے میں کچھ ہدایات دے رہی ہے۔ میں خاموشی سے ان آوازوں کو سنتا ہوا ان کے دروازے کے سامنے سے گزر جاتا تھا۔ میرا جی چاہتا تھا کہ ان کی دونوں بیٹیوں خاص طور سے بڑی بیٹی کی آواز سن سکوں لیکن اس خواہش کو اتنی کامیابی بھی میسر نہ آئی کہ کبھی چھوٹی بیٹی کی ہی آواز سن سکوں حالاں کہ چھوٹی بیٹی کی آواز بعد کے دِنوں میں سنی بھی اور اس کا چہرا بھی دیکھا۔ لیکن یہ بات بعد میں بیان ہوگی۔
تقریباً روزانہ مجھے کوئی نہ کوئی میٹھی چیز اس ہاتھ سے نصیب ہو جاتی۔ خوبصورت گورا ہاتھ اور گلابی ناخُن۔ مجال ہے کہ ان انگلیوں کا لمس میری ہتھیلی کو ملا ہو۔ اس بات سے مجھے الجھن بہت ہوتی لیکن مجھے اتنا بھی خوش گوار لگتا جتنا نصیب ہو جاتا۔
وقت گزرتا رہا اور میں شب و روز اس نادیدہ پیکر کے دھیان میں گم رہتا تھا لیکن شیشہ گری اور نغمہ گری دونوں دوش بدوش چلتی رہیں۔ ان میں رُکاوٹ کا احتمال اسی صورت میں تھا جب مجھے کسی طرح کی محرومی کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہاں تو یہ عالم تھا کہ تقریباً روزانہ چوڑی بجنے کی آواز، اس کے تسلسل میں ایک کھنکتی ہوئی ہنسی کی آواز اور اکثر گلابی ناخنوں والے، خوب اندر تک کھنچے ہوئے خوبصورت ناخنوں والے ہاتھ سے مجھے کوئی محبت بھری سوغات مل ہی جاتی تھی۔
پھر وہ وقت آیا کہ میں نے اپنے دِل کی بات والد صاحب قبلہ کے روبہ رو کی۔ میں اُن سے قدرے بے تکلف تھا۔ اوّل تو اس لیے کہ وہ مجھے ایک سعادت مند بیٹا سمجھنے کے علاوہ بِن ماں کی اولاد بھی سمجھتے تھے۔ دویم یہ کہ ہر رات کھانے کے بعد میں ان کی فرمائش پر ان کو کچھ نہ کچھ ضرور سنایا کرتا تھا کبھی نعت، کبھی غزل، کبھی کوئی مقامی گیت جس میں بِرج کی چھاپ ہوتی تھی۔
والد صاحب فقط اتنا بولے کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں لیکن اس مختصر سے خاندان کے بارے میں تقریباً سبھی انجان ہیں۔ کیا برادری ہے، کیسا مشرب و مسلک ہے، کچھ نہیں معلوم ۔۔ میں نے دبی آواز میں کہا کہ ان کے عمدہ انسان ہونے میں کوئی شک نہیں کہ محنت اور شرافت سے اپنا چھوٹا سا کاروبار چلاتے ہیں۔
والد صاحب خاموش ہو گئے لیکن اُن کی خاموشی میں ناراضی کا کوئی دخل نہیں تھا۔
وقت گزرتا رہا اور میرے دِل کی کسک بڑھتی رہی اور یہ خواہش تیز تر ہو تی گئی کہ وہ ہاتھ میرے ہاتھ میں آجائے۔
ایک روز میں کام سے واپس آرہا تھا تو دروازے پر چوڑیاں کھنکیں اور وہ ہاتھ باہر نکلا۔ اس دِن وہ خالی تھا۔ اس نے کلمے کی انگلی سے میری کھردری شیشے کو بل دینے والی ہتھیلی پر ایک ذرا طاقت سے ٹیڑھی سی لکیر کھینچ دی اور بے لوث سی کھنکتی ہوئی ہنسی کی آواز آئی۔ وہ پہلا اور آخری اظہارِ محبت تھا۔۔ ہاتھ پر کھنچی ہوئی اُس لکیر کو دِن بھر دِل میں چمکتا ہوا محسوس کیا اور رات میں اس ہتھیلی پر اپنا سر رکھ کر سوگیا۔
اس درمیان میں نے اس گھر میں کچھ ہلچل سی محسوس کی۔ دو مرد اور دو تین عورتیں اس گھر سے اُتر تے ہوئے نظر آئے۔ میں سمجھا ان کے عزیز ہوں گے۔
اس واقعے کے ٹھیک پندرہ دِ ن بعد جب میں دروازے کے پاس سے گزرا تو وہ خوبصورت گورا گلابی ناخنوں والا ہاتھ باہر نکلا۔ اس میں ایک مڑی تڑی کاغذ کی پرچی تھی اور ہاتھ میں لرزش بھی تھی۔ میں نے اُس پرچی کو مٹھی میں دبایا اور گھر آکر اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے اس پرچی کو کھولا۔۔
سلام! عید کی بیس تاریخ کو میری شادی ہے۔ مایوں تک آپ گلی سے گزرتے رہیے گا۔ میں ہمیشہ کی طرح اس وقت دروازے پر رہوں گی۔ اس کے بعد پھر مت آئیے گا۔ شادی کے بعد رخصت کے وقت مجھے دیکھنے آجائیے گا کیوں کہ آپ نے آج تک مجھے دیکھا بھی نہیں ہے اور نہ ہی اس کا موقع تھا۔ میں نے ہمت کر کے امّی سے بات کی۔ وہ کہتی ہیں کہ میرا رشتہ طے ہو چکا ہے اور اب اس میں کوئی رد و بدل ممکن نہیں ہے۔
میری شادی کے بعد آپ اس گلی سے مت گزرا کیجئے گا۔ خدا حافظ۔
میں رات بھر اپنے بستر پر نیم غنودہ حالت میں لیٹا رہا۔ والد صاحب نے بہت آواز دی۔ میں باہر نہیں نکلا۔ صبح اٹھ کر میں نے ان کو تمام واقعات سے آگاہ کیا۔ وہ خاموشی سے اُٹھے اور لڑکی کے والد کی دوکان پر چلے گئے۔ واپسی پر ان کا چہرا اُترا ہوا تھا۔
وہ لوگ رشتہ کرنے کے بعدتوڑنے کے قائل نہیں ہیں۔ صبر کرو۔ میں نے بھی جوانی میں صبر کیا تھا۔ انہوں نے اپنی جوانی کے صبر کے بارے میں کچھ نہیں بتایا لیکن اُن کی بوڑھی آنکھوں کے آنسوؤں نے سب کچھ کہہ دیا۔
میں ان کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا۔ وہ انگلیوں سے بالوں میں کنگھی کرتے رہے۔ بولے کچھ نہیں۔ جب میں اٹھنے لگا تو صرف ایک جملہ کہا۔
’’افسوس کہ پڑوس کی یہ لڑکی بدمعاش بھی نہیں کہ تمہارے ساتھ بھاگ سکتی۔‘‘
اگلے دِن کام سے واپسی پر ٹھیک دروازے کے پاس ایک لڑکی چادر اوڑھے گلی میں کھڑی تھی۔
’’میں اُن کی چھوٹی بہن ہوں۔‘‘
’’آپا کہتی ہو؟‘‘
’’نہیں۔ میں اُن کو باجی کہتی ہوں۔ امی نے کہلایا ہے کہ آپ کل سے اس گلی سے نہ گزریں۔ رشتہ طے ہو چکا ہے بہت بد نامی ہوگی۔
’’کس کی بدنامی ہوگی؟‘‘ میں نے سر جھکا کر سوال کیا۔
’’باجی کی۔۔۔ اور آپ کی بھی۔ آپ بھی ایک شریف انسان ہیں۔‘‘
وہ اتنا کہہ کر دروازے میں چڑھ گئی۔ چادر میں اس کے چہرے کا تھوڑا سا حصہ نظر آرہا تھا جس سے میں اندازہ کر سکتا تھا کہ اس کی بڑی بہن کیسی ہوگی۔ اس کے ہاتھ پاؤں بھی خوبصورت تھے۔ میں براہِ راست لڑکیوں کو نہیں دیکھتا لیکن اس دِن میں نے کوشش کر کے اس کی شکل دیکھی کہ میں جاننا چاہتا تھا کہ اس کی بہن کا روپ کیسا ہوگا۔
میں مغرب بعد پیکار کے مکان پر پہنچا اور ان سے لال چوڑیوں کا ایک توڑا مانگا۔ ایک توڑے میں دو سو اٹھاسی چوڑیاں ہوتی ہیں۔ پیکار چوڑیاں گنتے جاتے اور میری آنکھوں میں دیکھتے جاتے۔ اِن آنکھوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا جو انہیں کچھ ملتا۔ سرخ تول کے کپڑے میں لال چوڑیوں کا توڑا باندھا اور عشاء کی اذان کے بعد جب محلے کے بیشتر مرد مسجدوں میں ہوتے ہیں، اسے دھیرے سے گلی کے اس مکان کی چوکھٹ پر رکھ دیا جس کے سامنے سے مجھے اب نہیں گزرنا تھا۔ حالاں کہ میں شعر پڑھتا ہوا نہیں گزرا تھا لیکن مجھے شک ہوا کہ میرے کانوں نے دروازے کے پیچھے کسی لباس کی ہلکی سی سرسراہٹ سنی ہو۔ میں بھاری قدموں سے اپنے گھر آگیا۔
میں نے گلی سے نکلنا موقوف کردیا۔ بھٹّی پر میرا دِل نہیں لگتا تھا۔ جس دِن بل دیتے ہوئے شیشے کی پتلی چَھڑ چار بار ٹوٹی اس دن پیکار نے مجھے ظہر کے بعد روک لیا۔ اپنے گھر کے باہری کمرے میں مسہری پر بٹھا کر دیر تک میری آنکھوں میں دیکھتے رہے۔ بولے:
’’ایک ماہر شیشہ گر کے ہاتھ سے ایک دِن میں اگر شیشے کی چَھڑ بل دیتے وقت چار بار ٹوٹے تو سمجھنا چاہیے کہ کاری گر کسی آستانے پر اپنا دِل توڑ چکا ہے۔ بتاؤ کیا بات ہے؟‘‘۔ بات تو میں نے ان کو نہیں بتائی لیکن اسی وقت طے کر لیا کہ اب میں کام نہیں کروں گا۔
شادی میں رخصت کی رسم کا وقت رات کا تھا اور ایسا ہی کہرا پڑ رہا تھا جیسا آج ہے۔
میں ان کے گھر سے کچھ فاصلے پر اندھیرے میں کھڑا ہوگیا۔ مجھے معلوم تھا کہ دلہن اور دولہا سائیکل رکشہ میں گلی پار کریں گے۔ باہر سڑک پر بارات کی بس کھڑی تھی۔ وہ عورتوں کے ساتھ گھر کی سیڑھیوں سے اتری۔ وہ روشنی میں تھی اور میں اندھیرے میں۔ اس لیے اس کو واضح طور پر دیکھ سکتا تھا۔ لیکن اس کا سر اور چہرا ایک سفید اوڑھنی سے ڈھکا ہوا تھا جیسا کہ اس علاقے کا رِواج ہے وہ سرخ رنگ کی قمیص پہنے تھی جس پر سلمیٰ ستارے کا خوبصورت دوپٹہ تھا اور اس پر وہ سفید اوڑھنی تھی۔ وللہ میں نہیں دیکھ سکا کہ اس کا غرارہ کس رنگ اور کس وضع کا تھا۔عورتیں وِداعی گیت گا رہی تھیں جن میں ہندی بول زیادہ تھے۔ اُن ہندی بولوں نے ماحول کو بہت غمگین کردیا تھا۔ رکشہ میں سوار ہوتے وقت میں نے اس کے مہندی رچے پاؤں دیکھے جو بہت سُبُک اور خوبصورت تھے۔ کسی قصبائی لڑکی نے بہت رچا رچا کر سجا سجا کر مہندی لگائی تھی۔ اس کے ساتھ اس کا دولہا بیٹھا تھا جو ایک خوبرو نوجوان تھا اور مجھ سے عمر میں بہت کم تھا۔ اس کا مطلب وہ بھی مجھ سے عمر میں بہت کم تھی۔۔
اس بات پر میں نے زیادہ غور نہیں کیا کہ والد صاحب نے ایک دِن کہا تھا کہ محبت کے معاملے میں عمر کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس معاملے میں ابتدا خالصتاً دِل سے ہوتی ہے۔
جس وقت بس روانہ ہوئی اور اس کے مکان کے برابر کی زمین کے قطعے سے کھانے کی میزیں اور کرسیاں اٹھائی جانے لگیں اور سجاوٹ کے چمکیلے کاغذ اُتارے جانے لگے تو اچانک ایسا لگا جیسے دِل پر گھونسا سا لگا۔ محرومی کا ایک شدید احساس تھا جو سر سے لے کر پاؤں تک اتر تا چلا گیا۔
ہم لوگوں کو یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ وہ بیاہ کر کہاں گئی ہے۔ ویسے بھی اس بات سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا تھا۔ بس دِل بے تحاشہ چاہتا تھا کہ ایک بار اس کی شکل دیکھ سکوں۔ اندر والا دِل یہ بھی کہتا تھا کہ ایک بار شکل دیکھنے کے بعد تم اور زیادہ بے چین ہو جاؤ گے۔
گھر واپس آیا تو والد صاحب منتظر تھے۔ اس رات انہوں نے مجھے اپنے ساتھ پلنگ پر لٹایا جیسا کہ وہ میرے بچپن میں کرتے تھے۔
دوسرے دِن میں نے پیکار کی ملازمت سے استعفیٰ دیا اور والد صاحب سے کہا کہ میں کچھ دِن اس قصبے سے باہر رہنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے حسبِ استطاعت ایک معقول رقم میرے حوالے کی۔ میں آسایش کی تمام چیزوں کو چھوڑ کر صرف کپڑے کا ایک تھیلا لے کر گھر سے نکل لیا تھا۔
کبھی کبھی ان کو پوسٹ کارڈ لکھ دیتا ہوں۔ کسی بڑے شہر میں زیادہ رُکوں تو ان کا جواب بھی مل جاتا ہے۔ مجھے گھر واپس آنے کو کہتے ہیں۔
برسوں ہو گئے مسافری کرتے۔ ہفتے میں دو دِن مزدوری کرتا ہوں باقی دِن سفر کرتا ہوں۔ سنا ہے مسافر پر وقت ذرا دیر سے گزرتا ہے۔ لیکن میرا وقت بہت جلد گزر گیا۔
بچے کی ماں نے چلمن کے پیچھے سے یہ سارا ماجرا سنا اور پوچھا: ’’اب دوپہر کا وقت ہے کھانا بھیج دوں؟‘‘۔
’’نہیں شکریہ کھانا میرے تھیلے میں موجود ہے۔ اب اجازت دیجئے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ اٹھا اور اپنا تھیلا کندھے پر ڈال کر کھڑکی کی طرف ہاتھ کرکے الوداعی سلام کیا۔
بچہ اپنی ماں سے لپٹا کھڑا تھا۔
کہرا ابھی بھی اتنا ہی تھا۔ آسمان میں بادل بھی تھے اور دھوپ کہرے تک آنے سے عاجز تھی۔
جب وہ دوسری گلی کے دہانے میں کھو گیا تو ماں نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے بچے کو لپٹا لیا۔
’’میں نے۔۔۔میں نے اس دِن سبز غرارہ پہنا تھا اور لمبے سرخ دوپٹے نے اسے بالکل چھپا دیا تھا۔ ‘‘
بچہ کچھ نہیں سمجھا۔ وہ ماں کے چہرے کو حیرت سے دیکھنے لگا۔ بچے خوش نصیب ہوتے ہیں کہ ایسی باتیں اُن کی سمجھ میں نہیں آتیں۔
سید محمد اشرف 
۲۲؍ اپریل ۲۰۲۲ء
۲۰؍ رمضان، شب قدر ۱۴۴۳ھ

تبصرے اور تاثرات

شاداب رشید
واہ واہ!کیا افسانہ تھا۔۔۔کیا بیانیہ تھا۔۔۔
شروعات تھوڑی بوجھل تھی اور مجھے لگا شاید کچھ تجریدی قسم کا افسانہ ہوگا۔۔۔ دو صفحات کے بعد میری ہمت ٹوٹ رہی تھی لیکن یہ اشرف صاحب کا نام ہی تھا جس نے مجھے آگے پڑھنے کے لیے مجبور کیا اور۔۔۔
اور جب کہانی شروع ہوئی تو میں پڑھتا ہی چلا گیا۔۔۔
کیا بیانیہ۔۔۔ اشرف صاحب کی زبان کے تو ہم پہلے سے ہی قائل ہیں۔۔۔
اور اختتام نے تو پورے بدن میں جھرجھری سی پیدا کردی۔۔۔
مبارک ہو اشرف صاحب۔۔۔
یہ افسانہ آپ نیاورق کے لیے مجھے پہلی فرصت میں میل کردیں۔۔۔شکریہ

محمود انصاری
آسمان پر چھائے کہرے سے نکل کر گلیوں کے بہتے سفید چمکتے کہرے میں سفر کرتی بنیادی کردار کے رومانی جذبات,احساسات سے مِلواتی, رسم و رواج اور بندشوں کی بھینٹ چڑھتی محبت کی کہانی کو اس قدر مہارت سے بُناگیا ہے کہ کردار کی ناکامی اور محرومی کا کرب مجھ سا قاری خود کے دِل میں محسوس کرتا ہے۔
درمیانِ متن واقعات میں تعلق اور تسلسل قائم ہونے سے کہانی میں روانی مِلتی ہے تَاہم کچھ وضاحتی باتوں کا ذکر طوالت کی وجہ بنتا محسوس ہوا جس سے کہانی تھوڑی بوجھل معلوم ہوئی۔ حالات اور کیفیات کے عین مطابق مکالموں نے تجسس اور تحیّر کی فضا کو باندھے رکھا اور "پِھر کیا ہوا" کی جستجو میں کلائمکس تک کا سفر مکمل ہوا۔
ساری کہانی ایک گٹھڑی میں باندھ دی گئی اور آخیر کی دو سطروں سے گٹھڑی کے مُنہ کو سِل دیا گیا جہاں یہ کُھلیں وہاں ساری کہانی وَا ہوئی۔ ایک بہترین افسانے کے ساتھ ایونٹ کی شروعات مبارک ہو۔

غیاث الرحمٰن
اچھی دلچسپ کہانی ہے۔ سیدھی دل میں اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔

ذاکر فیضی
بے حد عمدہ افسانہ۔ اختتام لاجواب ہے۔

ڈاکٹر انیس رشید خان
بزم افسانہ کا یہ ایونٹ رنگ و بوئے باراں کا آغاز ایک زبردست، شاندار اور ناقابل فراموش افسانے سے ہوا ہے۔
جب اس افسانے کو پڑھنا شروع کیا تو اس کے پہلے لفظ سے لے کر آخری لفظ تک جیسے کسی جادوئی انداز میں کھو سا گیا۔ سارے مناظر سامنے سے گزرنے لگے۔ وہ دل نشین کہرا، وہ رنگین چوڑیاں، دل میں اتر جانے والی نعتوں کے ان سنے الفاظ، محبت کے وہ دل تڑپا دینے والے لمحات جب کسی نے کسی کو دیکھا تک نہ ہو اور ساری زندگی اس ان دیکھے پیکر کے حوالے کردینا۔۔۔ ایک سچے انسان کی سچی محبت کی ایسی داستان جو آخر تک ادھوری رہی۔۔۔ افسانے کے آخر میں بھی وہ ان دیکھا پیکر سامنے نہیں آیا اور زندگی کے ادھورے پن کی تکمیل کبھی بھی نہ ہو سکی۔
دل میں ڈھیر ساری کسک اور آنکھوں میں نمی کے ساتھ ایک بار پھر محترم سید محمد اشرف صاحب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں اور بزم کے تمام ایڈمن صاحبان کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرتا ہوں ۔

ابو ذر
خوبصورت الفاظ سے بنی گئی محبت کے لطیف سے جذبے کی بڑی اچھی داستان۔ سید محمد اشرف صاحب کو اس افسانے پر بہت مبارک باد۔

نگار عظیم
دقت تو ہوتی ہےpdf میں لیکن مجبوری سب کچھ کرا دیتی ہے۔ میں نے بھی پڑھ ہی لیا 😄 سید محمد اشرف کا افسانہ اور بس نقوش دیکھتے رہو ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ ابھی ذرا سرور میں ہوں افسانہ نگار کے لیے۔

ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری
افسانہ"دروازے " کی کہانی دل کے دروازے کی وہ کہانی ہے جس کے کھلنے سے دو دلوں کے درمیان محبت کے دروازے خودبخود کھل جاتے ہیں اور ایسے کھل جاتے ہیں کہ ان کے بند کرنے کے لئے سبھی ہاتھ شل ہوجاتے ہیں۔ افسانے کے دو کرداروں کو خلق کرکے کہانی کو تخیل کی بنیاد پر عمدہ اسلوب میں فکشنائز کیا گیا ہے۔ افسانے کی نیم داستانی فضا ہی کہانی کے فسوں خیز سماں کو اس قدر افسانوی رنگ میں رنگتی ہے کہ افسانہ قاری کی سوچ کو جکڑ کر رکھ دیتا ہے۔ مرکزی کردار عاشق باہوش مجنوں دکھائی دیتا ہے جس کے دل پر ایک باپردہ عورت کی محبت جادو چلاتی ہے۔ یہاں پر افسانہ نگار نے ایک کلچر کی عکاسی کی ہے جہاں کی عورتیں با پردہ ہوتی ہیں۔ اس طرح افسانہ خصوصا اس کا انجام افسانوی تاثر کو دلکش انداز میں چھوڑنے پر کامیاب ہواہے۔
اسلوب بھی عمدہ ہے اور زبان و بیان بھی معیاری۔۔۔ منظر نگاری اور جذئیات نگار کے ماہرانہ برتاؤ نے پلاٹ کو مبسوط بنانے میں کلیدی رول نبھایا ہے۔
ان خوبیوں کے باوجود کہانی کے کرداروں کے فعال اور جامد رول (Active and passive role) کا جائزہ لیں تو افسانےکےمعنوی استحکام اور فنی کشمکش میں کچھ پھیکا پن نظر آتا ہے۔ کیونکہ کہانی بنیادی طور پر دو کرداروں کی سچی محبت سامنے لارہی ہے لیکن صرف ایک کردار (عاشق ) کی محبت میں شدت دکھائی گئی ہے جبکہ دوسرے کردار(محبوبہ) کی محبت کا نفسیاتی پہلو جامد نظر اتا ہے۔ جیسے چھوٹی عمر کے بچیوں کی شوخیوں دکھائی دیتا ہے۔
تو انسان سوچتا ہے جب دونوں جانب اتنی شدت نہیں تھی تو عاشق پر کیوں ایک مجنوں کی سی کیفیت طاری ہوگئی۔ اور وہ بستی بستی شہر شہر بھٹکنے لگا۔ جبکہ ان دونوں کے محبت کا سمندر اتنا گہرا بھی نہیں تھا کہ عاشق جدائی کا کرب سہہ نہ سکتا۔ بلکہ محبوبہ تو شادی کرکے آباد بھی ہوگئی۔۔۔ اور ایک منطقی نکتہ یہ بھی جب کہ وہ ایک دوسرے کو جانتے تھے تو پھر بچے کے ذریعے اس کو گھر میں بلا کر اسی کی زبانی کہانی سننا یا سنانا کیا جواز رکھتا ہے۔۔۔
بہرحال۔۔۔ محترم سید اشرف صاحب صاحب اسلوب فکشن نگار ہیں۔۔۔ افسانہ پسند آنے کے باوجود چند استفسارات ذہن میں ابھرے۔۔ (ردو قبول تسلیم کے ساتھ مسکراہٹ)

راجہ یوسف
زبان و بیان کے کیا کہنے... خوبصورت افسانہ...

معین الدین عثمانی
سید محمد اشرف کا افسانہ، دروازے، ایک لاجواب افسانہ ہے۔جسے قلمکار نے جذبات کے سمندر میں غوطہ لگا کر قلم بند کیا ہے۔ قاری قلمکار کے ہمراہ ساتوں سمندر کی سیر کرکے سیرابی سے فیضیاب ہوتاہے۔ مزید برآں زبان وبیان اور ماحول کی پاکیزگی نےافسانے کے حسن میں چار چاند لگا کر قاری کو متاثر ہی نہیں مسحور بھی کیاہے۔ چونکہ یہ رومانیت سے مملو تحریر ہے جو موجودہ مسائل بھری مشینی زندگی سے میل نہیں کھاتی اسلے ممکن ہے روشن مزاج قاری کو مایوسی سے دو چار ہونا پڑے۔مگر حقیقت تو یہی ہے کہ زندگی کی سچی اور اصلی تصویر ہی افسانہ سے نمایاں ہے۔ اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ بےحساب تعمیر وترقی کے باوجود موجود ہ انسانیت ماضی کے اوراق میں بےچینی سے سر گرداں ہیں۔
کسی نےکیا خوب کہا،
لوٹ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو
بہرکیف ہنگامہ خیز زندگی کے لمحات میں چند ساعتوں کا سکون بھی میسر آجائے تو غنیمت ہے۔ دل ودماغ کو فرحت بخشنے والی اس خوبصورت زندہ تحریر کے لے سید محمد اشرف کو دلی مبارکباد۔

مشتاق احمد نوری
بھائی اشرف رمضان کی شب قدر کی رات اتنی ہی پاکیزہ کہانی لکھی جاسکتی ہے۔پوری کہانی دروازے کے عقب سے باہر آتی ہے۔عاشق کی بے پناہ محبت کا اظہار تو ہوجاتا ہے محبوبہ بھی اپنی وسعت یا حد کے دائرے میں اپنی پاکیزہ محبت کا زبانی اظہار تو نہیں کرتی لیکن اپنی چوڑیوں کی کھنکھنہاہٹ سے عاشق کی محبت کا جواب دیتی ہے۔حلوے کا قتلہ بھی محبت کے اظہار کا وسیلہ ہے۔عاشق کی ہتھیلی کی لمس سے بھی پرہیز کرنے والی جب اس کی ہتھیلی پر اپنے ناخن گڑا کر محبت کی شدت کا اسے احساس کراتی ہے تو اس بات کا یقین ہوجاتا ہے کہ دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی لیکن حسسا س قاری یہ محسوس کرنے سے نہیں چوکتا کہ محبوبہ کے پیار میں زیادہ شدت ہے جس کا عملی اظہار وہ کرتی ہے۔ عاشق نے نہ کبھی خط لکھا نہ میسیج دیا اور نہ ہی کوئی ہمت دیکھائی۔خط لکھ کر محبوبہ نے اپنی پوشیدہ محبت کا اظہار بھی کردیا خود کو ایک جھلک دیکھنے کا طریقہ بھی بتادیا۔
دونوں کی پاکیزہ محبت کے انجام نے نامحسوس طریقے سے میرے دل کو مٹھی میں لیکر بھینچ دیا۔مجھے آخری سواریاں کی وہ نوخیز جوان ہوتی ہوئی لڑکی یاد آگئی جس کا جیمپڑ پیڑ کی ٹہنی سے سامنےسے پھٹ گیا تھا وہ اپنی برہنگی سے پریشان تھی اور نیچے کھڑا شہزادہ یہ سوچ کر پریشان ہورہا تھا کہ لڑکی اس کی موجودگی میں اترنا کیوں نہیں چاہتی۔😊
وہی پاکیزگی یہاں لڑکی کے کردار میں بھی ہے۔کون جانے وہ شہزادہ کب تک اپنی پاکیزہ محبت کی یاد میں کسے شب قدر اپنے پیار کو مانگ بیٹھے۔
جب عورت بلاتی ہے ناکام عاشق کو یہ بات کُھل جاتی ہے کہ وہی عورت اس کی معشوقہ ہے۔آخر میں اس کا یہ بتانا کہ اس دن وہ سبز غرارہ پہنے ہوئی تھی اس سے بہتر یہ ہوتا کہ لڑکی اپنی چوڑیوں کا مخصوص سگنل پھر دہتی اور اور اپنی کلائی کو چوری سمیت کھڑکی سے ہاہر کردیتی جس میں تحفے میں دی گئی اس کی چوڑیاں موجود ہوتیں۔تب وہ بھونچک کھڑا ہوجاتا چاند سا چہرہ دروازے سے باہر ہوتا اور اسے محسوس ہوتا کہ تپتی دوپہر میں بھٹکنے والے مسافر کو شام کی چھاؤں نصیب ہوگئی ہے۔
یہ میری سوچ ہے ضروری نہیں کہ آپ کو بھی پسند آئے۔
اتنی پاکیزہ محبت کی داستان کے لئے جتنی بھی مبارک باد دوں کم ہے۔

ڈاکٹر فیروز عالم
زمانے کے بعد اس قدر پیارا افسانہ پڑھا جو دیر تک اپنے سحر میں گرفتار رکھنے کی سکت رکھتا ہے۔ ہماری تہذیب، اس کی قدریں، مشرقی مزاج، مرد کا ضبط و تحمل اور بردباری، عورت کی حیا اور پاک دامنی، والدین کی اصول پسندی، سماجی روایات کا احترام اور دیگر بہت ساری چیزیں اس افسانے کے حسن و تاثر میں اضافہ کرتی ہیں۔ آج سے چالیس پچاس برس پہلے کا معاشرہ اس افسانے میں پوری آب و تاب کے ساتھ منعکس ہوا ہے۔
سید محمد اشرف صاحب کا ہرافسانہ زبان کی تخلیقیت اور فضا سازی نیز جزئیات نگاری کی وجہ سے قاری کے دل میں اپنی جگہ بناتا ہے۔ افسانہ ‘‘دروازے’’ بھی اس خوبی سے آراستہ ہے۔ افسانے کے چند جملے ملاحظہ کیجیے جو تخلیقیت، ایجاز اور علامتیت کی بہترین مثال ہیں۔
" میں نے شعر پڑھنا بند کردیا تو چوڑیاں اس انداز سے بجیں گویا اصرار کر رہی ہوں کہ شعر پڑھنا روکا نہ جائے۔"
"سنا ہے مسافر پر وقت ذرا دیر سے گزرتا ہے۔ لیکن میرا وقت بہت جلد گزر گیا۔"
"تقریباً روزانہ مجھے کوئی نہ کوئی میٹھی چیز اس ہاتھ سے نصیب ہو جاتی۔ خوبصورت گورا ہاتھ اور گلابی ناخُن۔ مجال ہے کہ ان انگلیوں کا لمس میری ہتھیلی کو ملا ہو۔"
"میں نے۔۔۔میں نے اس دِن سبز غرارہ پہنا تھا اور لمبے سرخ دوپٹے نے اسے بالکل چھپا دیا تھا۔"
آخری جملہ ایجاز کی نہایت عمدہ مثال ہے جس میں خاتوں براہ راست نہ کہہ کر بالواسطہ انداز میں اس بات کا اقرار کرتی ہے کہ وہ شخص جس خاتون کو کھونے کے بعد دنیا سے بیزار ہوگیا ہے، وہ خود ہے۔
جزئیات نگاری کے ضمن میں شیشہ گری کی تفصیلات ایسی خوبی سے بیان کی گئی ہیں کہ یہ قصے کا ہی حصہ محسوس ہوتی ہیں۔
لفظ پیکار بچپن سے سنتے رہے ہیں، تحریری صورت میں پہلی بار دیکھا۔ افسانے میں اس کا حسب ضرورت عمدہ استعمال کیا گیا ہے۔
افسانے میں بطور قاری خاکسار کو مندرجہ ذیل جملہ اضافی محسوس ہوا۔یہ نہ ہوتا تو شاید افسانے کے لیے بہتر ہوتا۔
"حالاں کہ چھوٹی بیٹی کی آواز بعد کے دنوں میں سنی بھی اور اس کا چہرا بھی دیکھا۔ لیکن یہ بات بعد میں بیان ہوگی۔ "
یہ محض میرا تاثر ہے۔ ہو سکتا ہے میں نے سمجھنے میں غلطی کی ہو۔
سید محمد اشرف صاحب عصر حاضر کے قابل احترام اور صاحبِ طرز افسانہ نگار ہیں۔ ان کی ہر تخلیق قاری کو کچھ نہ کچھ دیتی ہے۔ 
افسانہ ‘‘دروازے’’ بھی اس خوبی سے مملو ہے۔
بزم افسانہ کے سرپرست اور عصر حاضر کے ممتاز افسانہ نگار جناب سلام بن رزاق اور دیگر تمام منتظمین کو ایک پرکشش افسانے سے اس ایونٹ کے آغاز کے لیے دلی مبارک باد

لئیق انور
کہانی شروع ہوئی تو لگا انجان راستے پر چل پڑے ہیں۔
پھر یوں احساس ہوا جیسے اس کے ساتھ ساتھ مترنم جھرنا آہستگی سے بہہ رہا ہے چند صفحات بعد ہر منظر دل کے تاروں کے ساتھ مربوط دکھائی دینے لگا افسانے کا اختتام ذہن میں آنے لگا اور سوچ بنی کہ آخر میں راز فاش نہ ہو جائے۔
اس قاری کی سوچ تو یہی تھی مگر کہانی کا تقاضا تھا کہ راز بس راز ہی رہے۔
کہانی میرے اپنے ذہن میں کھل جانے کے باوجود اس کی دلچسپی اور تاثر میں کوئی فرق نہیں آیا۔
پہاڑی علاقے ماتھیران میں چھوٹی سی ٹرین ہے اوپر سے اترتے وقت نیچے ٹرین کی منزل صاف دکھائی دیتی ہے لیکن مزہ اور دلچسپی منزل پر پہنچنے میں نہیں بلکہ اس کے بل کھاتے حسین و پرکیف راستے میں ہے جو ہر موڑ پر ایک خوبصورت احساس سے ہم کنار کرتا ہے۔
اسی طرح افسانے کی سلاست و روانی، اس کا سحرانگیز بیانیہ، احساسات کی تپش اس افسانے کو شاندار بناتے ہیں۔
حالانکہ اجنبی کا تعلق اپنی محبت سے اتنا گہرا نہیں تھا کہ سالہا سال بعد بھی وقت کی گرد اس کو دھندلا نہ کر سکے وہ یا تو رفتہ رفتہ از خود رفتہ ہو جاتا یا اعتدال پر آ جاتا۔
مستقل، برسوں اتنے قاعدے کے ساتھ دربدری محال ہے۔
دوسری بات اس کے والد کا دل لٹانے کا واقعہ ان کے ذہن میں ابھی تک تازہ ہے؟ بغیر کسی وضاحت کے، بچے کی پرورش کےساتھ؟؟؟ 
تیسری بات جب لڑکی کی چھوٹی بہن شادی کے بارے میں اجنبی کو بتاتی ہے تو شادی کے بعد اس لڑکی کا گھر بھی بتا سکتی تھی(اگر افسانہ نگار چاہتے )
چوتھی بات افسانے کے آخری جملے کی ضرورت نہیں تھی اس سے پہلے ہی افسانہ مکمل ہو چکا تھا۔
ان تمام مو شگافیوں کے باوجود مجھے بڑی خوشی اور اعتراف ہے کہ افسانہ زبردست ہے اور سید صاحب کا قلم اپنے طرز و ادا میں اپنی مثال آپ ہے۔
اس ایونٹ کے پہلے خوبصورت افسانے پر دلی مبارکباد۔

محمد عرفان ثمین
پاکیزہ محبت پر خوب صورت افسانہ۔ زبان و بیان عمدہ ہے۔ اختتام تک پہنچتے پہنچتے انجام کا اندازہ ہو گیا تھا مگر افسانہ نگار نے جس انداز سے کہانی کا انجام لکھا ہے وہ بے حد پسند آیا۔ ڈاکٹر ریاض توحیدی صاحب کا نکتہ بھی قابلِ غور ہے۔ بہر حال ایک خوب صورت افسانے کے لئے دلی مبارک باد۔

نصرت شمسی
بہت انتظار کے بعد بزم کا آغاز ہوا۔اس کوشش میں شامل سبھی حضرات کو دل سے مبارک۔۔۔
افسانہ پڑھا لیکن تشنگی رہ گئی۔ویسے یہ رومانی افسانے کی پہچان بھی ہے۔لیکن مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جو مسالہ اس افسانے کو چاہیے تھا اس میں کمی رہ گئی۔کہانی واقعی لیلیّ مجنوں کے زمانے کی دل چسپ ہے۔کسی کہانی کو کسی بھی دور میں لکھا جا سکتا ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں لیکن جس پابندی اور پیریڈ کو سامنے رکھ کر اقسانہ بھیجے کو کہا گیا تھا اس کا مقصد اس صدی کی کہانی یا نئے دور کی کہانی سے تھا شاید۔۔۔
لیکن اس افسانہ میں وہ سب کچھ نظر نہیں آیا۔
کہانی میں بہت حصہ بے مقصد بھی لگا اگر اسے نکال دیا جائے تو ایک اچھا افسانہ بن سکتا ہے۔۔اب تک جن لوگوں کے تاثراث سامنے آئے وہ میرے خیالات سے الگ رنگ لیے ہوئے ہیں۔بہر حال مجھے ایسا ہی لگا۔۔
شاید یہ آپ کا پہلا افساہے پڑھا ہے میں ہے۔معذرت خواہ ہوں لیکن جو محسوس کیا اگر وہ نہ لکھا تو بھی اچھا نہ لگے گا۔۔
افسانہ بزم میں پیش ہوا۔ بہت مبارک

رشید قاسمی
افسانہ روایتی ہے اور شاید افسانہ نگار کے اوّلین دور کا۔ سیّد صاحب کے یہاں درد کا جو بیان ہوتا ہے وہ زیریں لہر کی طرح بہتا ہے۔۔ ظاہر نہیں ہوتا بس محسوس کیا جا سکتاہے۔۔۔اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو ایک شہرہ آفاق ادیبہ کی موت پر لکھی تحریر میں ان کے اختتامیہ جملے یونہی سکتے میں ڈال دینے والے تھے! 
نئے ایونٹ کا آغاز ایک یادگار رومانی افسانے سے ہوا۔ منتظمین اور افسانہ نگار کا شکریہ بھی۔۔۔مبارکباد بھی

ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا
ادب کے کلاسیکی قایدین و ناقدین نے ادب کے مقاصد کی تشریح کرتے ہوئے "مسرت اور حظ "کو بھی شامل کیا ہے۔ یعنی اگر کوئی تحریر قاری ذہنی مسرت سے ہمکنار کرتی ہے، محظوظ کرتی ہے تو اس کا شمار ادب عالیہ میں ہوگا۔ پھر رومانیت تو نام ہی اس کا قدر کا ہے کہ شعور و آگہی کے "کیوں، کیسے، کہاں "جیسے تیر ونشتر سے آزادی دلا کر یک گونہ بیخودی عطا کرے۔اور یہ مقصد محمد اشرف صاحب کا رومانی افسانہ بخوبی پورا کر رہاہے۔پھر تہذیب کی نمائندہ ان کی زبان اور دل کا دامن تھام لینے والا بیان سونے پہ سہاگا ہے۔ پڑھیے اور کھ جائے۔ اشرف میاں کو رومان کا میدان فتح کرنے کی مبارکباد۔

محمد بشیر مالیر کوٹلوی
آج کا قاری صرف لفاظی کے خوبصورت جال میں پھنس کر تالیاں نہیں بجاتا افسانے کو سمجھتا ہے۔
افسانے کے پانچویں صفحے کا آغاز دیکھیے۔۔۔تم اسے کہتےبھاگ کر آجائے نکاح کر لیتے۔
اس سے بد نامی ہوتی۔
کس کی۔
اس کی۔
یہ سن کر ماں بچے کوڈانٹنے لگتی ہے ڈانٹتے ڈانٹتے اس کی آوازبھرا جاتی ہے
آواز کا بھرا جانا ظاہر کرتا ہے کہ یہ وہی عورت ہے۔جس کے لئے عاشق در بدر بھٹک رہا ہے۔
افسانہ نگار نے ظاہر کیاہے کہ عورت بھی اس سے محبت کرتی تھی۔۔۔کیاکوئی محبوبہ اس قدر سنگ دل ہو سکتی ہےکہ جو انسان برسوں سے اس کے لئے بھٹک رہا ہے اس پر ترس نہ کھائے۔۔اورزندگی بھر کے لیے اسے بھٹکنے دے جبکہ وہ خود اس سے محبت کرتی ہو۔۔خود سامنے نہ آتی کوئی نشانی ہی چھوڑ دیتی کہ میں وہی ہوں جسکی تمہیں تلاش ہے۔
عاشق کیوں نہیں سمجھ سکا کہ یہ عورت اس میں اور اس کی کہانی میں اتنی دلچسپی کیوں لے رہی ہے بھائی توحیدی نوری بھائی محترمہ نصرت شمسی وغیرہ نے اچھے نکات اٹھائے ہیں یہ پڑھ کر خوشی ہوئی کہ آپ کا گروپبڑے نام کے زیراثر صرف تعریفیں ہی نہیں کرتا صحتمند تنقید بھی کرتا ہے۔

ڈاکٹر فریدہ تبسم 
زیر نظر افسانہ۔۔۔دروازہ
رومانی افسانہ فسوں خیزی اور جمال شوخی سے شبنمی کیفیت تک مختلف رنگوں سے تصویر کو خوبصورت بناتا ہے۔اور قاری کو اپنے نگر کی سیر میں داستان عشق سنا کر نشاط و انبساط سے محظوظ کراتا ہے یا پھر ہجر کے قفس میں قید پرندے کے دکھ درد سے قاری کے دل میں ایک کسک پیدا کرتا ہے کہ کاش ایسا ہوتا۔۔۔
سید محمد اشرف صاحب اردو کے مقبول افسانہ نگار ہیں ان کی تخلیقات قاری کو نہ صرف متاثر کرتی ہیں بلکہ ان کی کہانیاں تا دیر ذہنوں میں قائم رہتے ہیں۔
"دروازہ" میں کہانی کی اصل مسلم تہذیب و تمدن میں پس حجاب رومان انگیز جھلک کا نظارہ ہے۔
کہانی سبک روی سے قاری پر دھیرے دھیرے اپنا اثر بنانے کی کوشش کرتی ہے۔
کرداروں کی معصوم سادگی کے ساتھ حقیقی منظر نگاری اور فضا بندی اس تہذیب میں لے جاتی ہے جو تیزی کے ساتھ بدلتے دور میں ہلکے سے ماضی کے اوراق گردانی کراتی ہے۔
اس کہانی میں معشوقہ کی پہل چوڑیوں کی کھنک سے محبت کی ترنگ پیدا ہوئی اور دست نازک نے عاشق کے دل پر دستک دی۔مگر قسمت کی لکیر میں محبت کی تقدیر نہیں تھی۔دونوں کی خاموش محبت سرخم تسلیم راضی بہ رضا رہے۔
مگر اس شخص پر اس محبت کا گہرا اثر ہوا اس نے اپنی زندگی ہی بدل لی۔۔مگر وہ لڑکی زندگی کی راہوں میں پھول کھلاتی آگے بڑھ گئی۔
جب محبت کی آگ دونوں جانب سے اپنی لپیٹ میں لیتی ہے تو اثر بھی دونوں جانب برابر ہوتا ہے۔محبت کے انجام کا دکھ ہجر کی کیفیت میں جلنا ہر پل انتظار میں آمد کی اہٹ اور دریچۂ احساس میں اضطراب کی کیفیت ہوتی۔۔۔
سماجی روایات کی پابندی میں پروان چڑھی محبت کا رنگ مزید گہرا ہوتا جو روح تک پہنچتا مگر اس کی تخلیقی فضا بندی میں کچھ سوالات پیدا نہ ہوتے۔۔۔
اس زمانے میں جس زماں و مکاں کو اس میں بیان کیا گیا ہے عورت غیر مرد کو اپنے گھر بلا کر پلاتی، کھلاتی ہے حال دل سنتی ہے۔۔۔؟؟؟
جب اس عورت نے اس شخص کی آواز سنی تب بھی نہیں پہچانا پھر چہرہ بھی دیکھا تب بھی نہیں پہچانا۔۔۔؟؟؟
یہ جملے دیکھئے گا۔۔۔
"ایک دروازہ کا پٹ کھلا ایک عورت نے اک ذرا سا چہرہ نکالا اور شعر پڑھتے اس شخص کو دیکھا۔۔۔جو اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔"
آغاز میں عورت اس شخص کے شعر گوئی سے متاثر تھی چوڑیوں کے اشارے سے بار بار شعر پڑھنے کہتی رہی۔۔۔مگر جب وہ اس کی گلی میں آیا تو اس نے شعر کو گیت کہا۔۔۔
"پھر یہ گیت کیوں گاتے ہیں "
"نہیں، یہ گیت نہیں غزل کا شعر ہے"
قاری کے دل میں ایک خلش سی رہ گئی۔۔۔
اگر وہ لڑکی وہی تھی تو اس شخص نے اسی کی کہانی سنائی۔۔۔سنتے ہوئے اس عورت پر کچھ اثر نہ ہوا۔۔اس کی کیفیت کو اجاگر کیا جاتا تو اس جذبات و احساسات سے محبت کا اظہار ہوجاتا۔اور یہ محسوس ہوتا کہ اسے اس نے پہچان لیا تھا تبھی گھر پر بلایا۔۔۔
لڑکی کی بہن کو دیکھ کر لڑکی کا اندازہ لگانا۔۔۔؟؟؟
یہ جملہ کچھ عجیب لگا
"۔۔گھر سے نکل لیا تھا۔۔۔"
اس کہانی میں ساکت احساسات و جذبات کو متحرک کرنے کا ہنر اور تخلیقی تجربہ کا فنکارانہ اظہار ہے۔خاموش فضاوں میں نفسیاتی عواقب سے آگہی خیال معطر کو ملبوس معنی فراہم کرکے لائق دید بنادیا ہے۔خیر اس افسانہ کی خوبی یہ کہ یہ اپنے بیانیہ اسلوب کی قوت سے قاری کو باندھ کر رکھتی ہے جس میں تجسس کی کیفیت برقرار رہتی ہے اس کا تسلسل نہیں ٹوٹتا۔۔مگر قاری عجیب کیفیات سے گزرتا ہے۔امید و امکاں میں محبت کے گہرے احساس کا تصور کرتا ہے جو اسے حاصل نہیں ہوتا مگر ایک ہلکا سا محرومی اور ہجر کا احساس ضرور ہوتا ہے جو مرکزی کردار کی شیشہ گری کی تار کا نشان قاری کے ذہن پر نقش کر جاتا ہے۔۔
اس افسانہ پر ہم افسانہ نگار کو بہت مبارک باد پیش کرتے ہیں خلوص کے ساتھ۔۔ تبسم۔۔

ابن آدم
ایونٹ کی ابتدا کے لیے یہ افسانہ بہترین انتخاب ہے۔ زبان وبیان بہت شائستہ ہیں۔ کہانی پُرلُطف ہے۔ قرات کے دوران زخم کریدنے کا سا لطف آتا رہا۔ افسانے کے سبھی کردار (مرکزی کردار سے لے کر پیکار تک) بڑے معصوم، باتہذیب اور بااخلاق رہے۔ سب کو خدا یاد رہا۔ یہ ایسے زمانے کی کہانی ہے جس میں فقط دو دن کام (مزدوری) کرنے پر ہفتہ کے گزارے کے لیے رقم میسّر ہوجاتی ہے۔ افسانہ اس کردار کے زاویے سے بھی کامیاب رہا جو بی بی کو بیاہ لایا۔
شاید سید صاحب کا یہ پہلا افسانہ ہے جو مَیں نے پڑھا۔ اور بے شک مَیں نے اس افسانے کو ان کے شایانِ شان پایا۔ میری جانب سے افسانہ نگار اور بزمِ افسانہ کے منتظمین کو بہت بہت مبارک باد

محمد علیم اسماعیل
سید محمد اشرف صاحب کا افسانہ دروازے پڑھا، اچھا لگا۔ ابتدا سے آخر تک میں ایک تجسّس سے بندھا رہتا۔ افسانے کا عنوان معنی خیز ہے، اختتام تو جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ مکمل افسانہ پڑھنے کے بعد عاشق سے حد درجہ ہمدردی پیدا ہوئی اور معشوق پر غصہ آیا۔ دل چاہا کہ میں خود جاکر عاشق کو معشوق سے ملا دوں۔ اور کہہ دوں کہ یہ وہی ہے جس کے لیے تو دیوانہ بن گیا ہے۔ بڑی پاک محبت ہے۔ عاشق پر تو سراسر ظلم ہوا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کہانی کا ہر قاری میری طرح ہی جذباتی طور پر اس میں شامل ہوجائے گا، اور یہ بڑی بات ہے۔

ہارون اختر
سید محمد اشرف صاحب کا افسانہ دروازے بہت اچھا لگا۔ میرے دل کے دروازے جو ایک مدت سے بند تھے کھل گئے۔افسانہ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ قلم کار کے لئے نیک خواہشات اور دعائیں۔

ملکیت سنگھ
صاحب: دروازے اچھا افسانہ ہے۔
بہت خوبصورت کہانی بنی ہے۔
اگر آخر میں اسے اپنی محبوبہ کا پتہ چل جاتا تو اس کا بھی دل ہلکا ہو جاتا اور قاری کو بھی دلی سکون مل جاتا۔۔۔
آخر کنوئے کے پاس پہنچ کر بھی کوئی تشنہ ہی رہ جائے تو۔۔۔
عمدہ افسانہ پیش کرنے پر افسانہ نگار اور منتظمین بزم افسانہ کو ڈھیروں مبارک باد ۔

ڈاکٹر صادقہ نواب سحر
محبت کی ایک انوکھی اور دلپذیر کہانی بیان کرنے کے لیے سید محمد اشرف صاحب مبارکباد کے حقدار ہیں۔

شہناز فاطمہ
ارے یہ "رومانی افسانہ" ہے میں نے زندگی میں پہلی بار اسطرح کا رومانی افسانہ پڑھا یہ تو جیسے فلائنگ کس ہوتا ہے یا یکطرفہ "محبت" ہوتی ہے اسطرح کی محبت کا افسانہ ہے میں نے ابتک جو رومانی ناویلیں اور افسانے پڑھے وہ بہت ہیجان انگیز ہوتے تھے جو قاری کے دل میں بھی ایک ہلچل اور جزبات کا طوفان بپا کردیتے تھے اور دونوں کی ملاقات بالمشافہ ہوتی تھی اس کا انداز تو پردہ غیب ہی میں رہا ویسے افسانہ اپنی جگہ بہت اچھا تھا اور شریف خاندان میں شاید ایسے ہی "لو" کیا جاتا رہا ہو 
افسانہ کافی طویل و عریض ہے مگر ذہن پر کوئی تاثر نہ چھوڑ سکا بس ایک درد مند اپنی دکھ بھری کہانی سنا کر چلا گیا محترم جناب محمد اشرف صاحب بہترین اسلوب فکشن نگار ہیں ان سے معزرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے بطور "رومانی افسانہ" مجھے نظر نہیں آیا بالکل متاثر نہیں کرسکا حالانکہ انہوں نے اسمیں ایک نئی ٹکنک پیدا کی ہے چوڑیوں کی جھنکار سے یہ محسوس کرنا کے مجھے پسند کیا جارہا ہے اور روکا جا رہا ہے کہ یونہی گاتے رہو وغیرہ وغیرہ مگر پھر بھی مجھے یہ صرف ایک کہانی لگا بہرحال محترم جناب محمد اشرف صاحب کے لئے نیک خواہشات

اسرار گاندھی
اشرف اُردو کے چند گنے چنے بہت اچھے کہانی کاروں میں سے ایک ہیں۔ اُن کے یہاں زبان کی جادو۔گری ہے۔ اپنی بات کو پیش کرنے کا بہترین سلیقہ ہے۔ جب وہ "رنگ رایگان" جیسی کہانی لکھتے ہیں تو فکشن کی دنیا روشن ہو جاتی اور ہر طرف روشنی کا احساس ہوتا ہے۔
لیکن اب تک ایسا کوئی تخلیق کار نہیں گزرا جس کی تمام تخلیقات شاندار رہی ہوں۔
کہانی دروازے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہے۔ پڑھتے وقت کئی بار ایسا محسوس ہوا کی یہ اشرف کی کہانی نہیں کسی اور کی ہے۔ اس کہانی میں زبان کی جادو گری بھی نہیں چل سکی۔ شاید قاری اس کہانی سے اپنے ماحول کو اور اپنے آپ کو ldentitify۔نہیں کر سکا۔ اسے قدرے اجنبیت کا احساس ہوا اور وہ کہانی سے اس کے فنی امور سے مطمئن نہیں ہو سکا۔
اس کہانی کا شمار اشرف کی نا کامیاب کہانی میں ہوگا۔
اشرف پھر اشرف ہیں۔ دیکھیے وہ اس کہانی کی کیا تاویلیں پیش کرتے ہیں۔

ڈاکٹر صفیہ بانو
• ✍افسانہ نگار نے بڑے ہی رومانی انداز میں شیشے اور محبت کی اچھی مشابہت پیش کی ہے شیشہ نازک کیفیت کا مالک ہے وہی محبت نازک خیالی کی ڈور ہے جو اس افسانہ میں محبت کی یہ ڈور بندھنے سے پہلے ہی ٹوٹ گئی۔
• ✍افسانہ نگار نے جو منظر نگاری پیش کی ہے وہ اچھی ہے اس کہانی کی بنت ہمیں بازار فلم کی کہانی کی یاد تازہ کر گئی۔
• ✍اس افسانہ میں رومانیت بھر پور ہے جو کہی کہی بند دروازے کھول دیتا ہے۔
• ✍میں افسانہ نگار کو مبارکباد پیش کرتی ہوں اور امید رکھتی ہوں کہ وہ اسی طرح اپنا ادبی کام انجام دیتے رہے۔

ریحان کوثر
سید محمد اشرف صاحب کے افسانے میں بیان کیے گئے دروازے کی تفہیم و تشریح کے لیے افسانے کا یہ حصہ ہی کافی ہے،
پیکار چوڑیاں گنتے جاتے اور میری آنکھوں میں دیکھتے جاتے۔ اِن آنکھوں نے کچھ دیکھا ہی نہیں تھا جو انہیں کچھ ملتا۔ 
سید محمد اشرف صاحب کو مبارکباد ۔

رخسانہ نازنین
مجھے افسوس ہے کہ تقاریب کے سلسلے رہے اور مصروفیات کے باعث میں پیشکش کے فوراً بعد افسانے کا مطالعہ نہ کرسکی۔ ابھی افسانہ پڑھا۔" دروازے " کے پیچھے چھپے چوڑیوں سے کھنکتے ہاتھ کچھ نہ کہتے ہوئے بھی سب کچھ کہہ جانے اور سمجھ لینے کی ادا دل کو بھاگئی۔ کاش یہ مشرقی تہذیب یہ شرم وحیا اب بھی باقی رہتی! کاش محبت کا مفہوم نہ بدل جاتا! کاش مٹ جانے، فنا ہوجانے مگر محبوب کو بدنام نہ کرنے کا جذبہ دلوں میں جاگزین ہوتا۔! ایسے بہت سارے کاش ہیں جو کاش ہی رہ جائیں گے۔ بہرکیف میٹھی سی کسک جگاتا، نارسائی کے کرب سے دلوں کو افسردہ کرتا ایک بہترین افسانہ۔ ایونٹ کے شاندار آغاز پر منتظمین اور محترم سید محمد اشرف صاحب کو دلی مبارکباد پیش ہے۔

فریدہ نثار احمد انصاری
ایک عمدہ افسانہ جس میں منظر نگاری زبردست کی گئی۔ بطور خاص " کہرے " پر قلم نے خوب لکھا۔شاید قلم کار نے یہی مناسب سمجھا کہ شیشہ گر کی زندگی پر محبت کا کہرا چھا گیا اور یہی کہرا کہانی کے آغاز کا سبب بنا۔
افسانہ۔۔ گو کہ 2020 میں تحریر کیا گیا لیکن اس دور کی داستان سناتا ہے جب اس طرح کا پاکیزہ رومان دلوں میں پروان چڑھتا تھا۔وہ بھی ایک دور ہوتا تھا جب محبتوں کی مٹھاس سے پاکیزہ خط کبوتروں کے ذریعے بھیجے جاتے تھے اور یہاں شیشہ گر مارا مارا پھر رہا تھا۔
مذکورہ افسانے میں دو دل چوڑیوں کی کھنک سے ملے۔جس دور کا نقشہ قلم کار نے کھینچا اس دور میں ایک لڑکی خود آگے آ کر اپنی محبت کا اظہار چوڑیوں سے کرتی ہے۔پہلے پہل یہ لگا کہ یک طرفہ محبت ہے لیکن بعد میں شیشہ گر بھی اس کا اسیر بن جاتا ہے۔
یعنی کیا اس دور میں اس طرح پہل لڑکیاں کرتی تھیں? جو کہ مناسب نہیں لگتا۔
شیشہ گر کی سنائی آپ بیتی اچھی رہی۔لڑکی کی آواز شیشہ گر پہلے سن چکا تھا پھر وہ کیسے اس بار اس آواز سے بچے کی ماں کو پہچان نہ سکا? 
خیر فکشن میں اس طرح کی باتوں کی گنجائش ہوتی ہی ہے۔اختتام بہت زبردست رہاجب لڑکی نے سبز غرارے کا انکشاف کیا۔ حالاں کہ درمیان میں ہی افسانہ کھل گیا تھا پھر بھی اختتام تک سکون دل کے ساتھ افسانہ تکمیل تک پہنچا۔دلی مبارکباد و نیک خواہشات۔

محمد قمر سلیم
اشرف صاحب فکشن کا ایک بڑا نام ہیں۔وہ کہنہ مشق افسانہ نگار ہیں۔لفظوں کے جادوگر۔ زبان و بیان میں ان کے قلم کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔کہانی کا انجام دوسروں کی سوچ سے بالکل جدا گانا ہو تا ہے۔ان کے افسانے پڑھنے کے بعد عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اور قاری اس کے سحر سے با مشکل باہر آتا ہے لیکن۔۔۔یہ افسانہ مجھے متاثر نہیں کر سکا۔ میں نے دو بار افسانہ پڑھا اور دونوں بار ہی الجھ گیا۔ ہاں یہ تکنیک اچھی لگی محبت کا اظہار چوڑیوں کی کھنکھناہٹ کے ذریعے۔ دلیپ کمار کی فلم کرما یاد آگئی جس میں نوتن دلیپ کمار کی باتوں کا جواب چوڑیوں سے دیتی ہے اور اس کی چوڑیوں کی کھنکھناہٹ سے وہ مفہوم واضح کرلیتا ہے۔ اس افسانے میں پاک محبت ضرور دکھائی گئی ہے لیکن عورت اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اس سے اتنی باتیں بھی کرتی جو اٹپٹا سا لگا۔اسرار بھائی سے متفق ہوں کہ یہ اشرف صاحب کی کہانی نہیں بلکہ کسی اور کی کہانی لگ رہی ہے۔ ریاض توحیدی صاحب، نصرت شمسی صاحبہ، شہناز صاحبہ، فریدہ تبسم صاحبہ نے اچھے نکات اٹھائے ہیں۔
اشرف صاحب کو مبارکباد اور نیک خواہشات۔

وحید امام
سید محمد اشرف افسانے کا معروف نام ہے' دروازے 'ایک متاثر کن افسانہ ہےایک بہترین افسانہ تخلیق کرنے پر میں انہیں مبارکباد پیش کرتاہوں مگر۔۔۔ سب سے پہلے' دروازے' عنوان سے یہ گمان ہوتا ہے کہ دیواروں کو گرایا گیا ہوگا۔ آمدورفت کی صورت پیدا ہوئی ہوگی کیوں کہ دروازے کے توسط سے آمدورفت کی گنجائش پیدا ہوتی ہے۔ دیواروں کے درمیان سے گزرنے کا ذریعہ دروازہ ہوتا ہے مگر اس افسانے میں 'دروازے' وا نہیں ہوئے طویل افسانےمیں ساری دربدری عاشق کے حصے میں آئی۔ شریعت کی پابندی کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے مگر یہ اتنی ناممکن بات نہیں کہ دومحبت کرنے والے شرعی ذریعوں سے بھی مل نہ سکے۔ اتنا نا ممکن نہیں کہ دو محبت کرنے والے آخر تک مل نہ سکیں۔ کچھ دوسری مجبوریاں ہو سکتی ہیں مگرجائز طریقے سے بھی کسی کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔افسانہ پڑھنے کے بعد یہ گمان ہوتا ہے کہ مسلم معاشرےمیں یا جو تہذیب و تمدن افسانے میں پیش کیا گیا ہے وہاں جائز طریقوں سے بھی ایک مرد اور عورت کا ملناجو شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایک مرد خود کو برباد کر لیتا ہے صحرا نوردی کو اپنا مقدر بنالیتاہے، ایک بے بس باپ اپنی اولاد کے دیدار کو ترستا ہے یعنی وہ معاشرہ اتنا بے رحم ہےکہ کسی پر رحم نہیں کرتا آخر میں تو حد کر دی گئی عاشق کو پتا نہیں ہے کہ جس کے لئے اس نے اپنی اور اپنے متعلقین کی زندگی برباد کر دی وہ اس کے سامنے ہے۔ افسانہ قابل تعریف ہے لیکن جو تاثر چھوڑتا ہے وہ منفی ہے۔ افسانہ پڑھنے کے بعد جو میرے ذہن میں تاثرات پیدا ہوئے۔میں نے بغیر کسی لاگ لپٹ کے قارئین کے روبرو پیش کردئے شاید آپ میری بات سے اتفاق کریں۔

ڈاکٹر فرخندہ ضمیر
دروازے "نے دل و دماغ کے دروازے وا کر دئے۔
چوڑیوں کی کھنک نے رومانس کا وہ روایتی جزبہ پیش۔کیا۔ جو اب مفقود ہے۔ اعلیٰ اقدار کا حامل، ہیروئن کے خوبصورت ہاتھوں کی طرح مہکتا دمکتا افسانہ۔جسم و جان کو ایک خوشبو کے جھونکوں کی طرح معطّر کر گیا۔
اشرف صاحب کے اس سے قبل بھی افسانے پڑھ چکی ہوں۔زبان و بیسن پر ان کو کامل دسترس ہے۔جزئیات نگاری پر دھیان دیتے ہیں۔اس افسانے میں انھوں نے فنِ شیشہ گری کو جس طرح پیش کیاہے یہ احساس ہوتا ہے گویا وہ خود اس ہنر کو آزما چکے ہیں لیکن یہ ان کے وسیع مطالعہ کا جز ہے اس کو پڑھتے وقت مجھے شمس الرحمُن فاروقی کا ناول " کئی چاند تھے سرِ آسماں " یاد آگیا۔انھونےآغاز میں فنِ مصّوری کی باریکیاں اور بعد میں قالین کی بنائی کے ہنر کو بہت وساطت سے بیان کیاتھا۔
اشرف صاحب کی کردار نگاری اعلیٰ درجہ کی ہے۔ پاکیزہ جزبوں سے سرشار آفاقی کردار دل و دماغ میں سما گئے۔
بیانیہ ایساکہ بس دم سادھے سانس روکے پڑھتے جاؤ۔ جس طرح ان کرداروں کو پیش کیا گیا۔ میر تقی میر کا ایک شعر یاد آگیا۔
پاس ناموسِ عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے،
عشق کی عظمت اور معراج کو اشرف صاحب نے جس انداز میں پیش کیا ہے وہ انھیں کا خاصہ ہے ۔ بہت بہت مبارک باد

شفیع مشہدی
سید اشرف صاحب اردو کے ممتاز افسانہ نگار ہیں اس لئے ان کی ہر تخلیق قابل تحسین و آفریں ہوتی ہے۔ ان کی مقبولیت کا ایک ثبوت دروازے کے بارے میں بے شمار تبصروں سے بھی ہوتا ہے۔
تبصروں پر تبصرہ کرنا مناسب نھیں مگر کچھ مبصرین کو ا، پنے تبصرے پر نظر ثانی کرنی چاہئے۔اور زبان کی صحت پر بھی توجہ دینی چاہئے۔بہر کیف یہ افسانہ بے حد کامیاب رہا اور اشرف صاحب مبارکباد کے مستحق ہیں۔معزرت کے ساتھ۔۔۔

خورشید حیات
بدن میں تھرکتی ہوئی روح نے ہر عہد کے داستان گو، قصہ گو، داستان رنگ زندگی کی کہانی سنانے والے کہانی کار اور ناول نگار کے نام ایک نیا رومان لکھا ہے۔ ایک ایسا رومان جو نئی نئی روایتوں/ عقیدوں کو ہر جہاں میں قائم رہ جانے والی میتھڈالوجی اور آیذیالوجی کے ساتھ چلتے ہوئے رومانیت کو رئیس البدن بنا دیتا ہے۔
عہد جدید کے تمام حوادث کے تخلیقی اظہار کی روحانی ردا کا نام رومان ہے ۔ جہاں چار حروف کے اک لفظ "محبت " سے ابھر آئے زخم کے نہیں، زخم کی یادوں کے سارنگیا بن جاتے ہیں۔
رومانیت = روحانی سرور و کیف کی منزل
سید محمد اشرف کے یہاں حق کی پر لطف بانسری کی آواز جب دروازے کے اندر ' رقص عشاق ' کا ساتھ دیتی ہے تو رومانیت جنم لیتی ہے۔
سید محمد اشرف اردو فکشن کا ایک معتبر نام ہے۔ تصوراتی رومان /رومانیت سے ہر طرح محفوظ اس دروازے نے ذہنی کشادگی کے دریچے کھول دیے۔ جزبات و احساسات / لمسی کیفیات / اک اضطراری کیفیت، خوبصورت اور فطری انداز، جزباتی تصادم کا خوبصورت اظہاریہ / بیانیہ ہے۔ کہانی بہت پسند آئی۔

سید اسماعیل گوہر
سید محمد اشرف کا یہ خالص رومانی افسانہ ہے۔۔۔
اس افسانہ کو پڑھ کر
شیریں فرہاد
لیلیٰ مجنوں
ہیر رانجھا
رومیوں جولیٹ
اور اس جیسی کئی کہانیاں یاد آگئیں۔۔
شیشہ گری اور عشق دونوں ہی نازک کام ہے۔۔۔ افسانہ نگار نے عشق اور شیشہ گری کی جزئیات نگاری کے ساتھ ساتھ زبان و بیان کی چاشنی سے افسانہ کو مزید خوبصورت بنادیا ہے۔۔۔ انجام چونکانے والا ہے۔۔۔ اور اس سے بہتر اختتام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔۔ افسانہ کا عنوان بھی بہت خوب ہے۔۔ ایک دروازے کے ادھر ہے ایک ادھر دروازہ بند ہے لیکن دونوں کے دلوں کے دروازے کھل چکے ہیں۔۔۔
سید محمد اشرف کو اس خالص رومانی افسانہ کے لیے ڈھیروں مبارکباد۔۔۔

سلام بن رزاق
بزم افسانہ کے ساتھیو،
آداب
زیر نظر افسانہ دروازے میرے پاس ہی آ یا تھا۔۔افسانہ میں پڑھ چکا ہوں۔
اشرف صاحب کے جادو نگار قلم کے سب قتیل ہیں۔میں بھی ہوں۔ایسی دل پذیر زبان نیر مسعود کے بعد اشرف صاحب ہی کا حصہ ہے۔ افسانے کا کلائمکس دل میں کسک پیدا کرتا ہے۔
رومانی افسانوں میں یاد رکھا جانے والا افسانہ ہے۔البتہ توحیدی صاحب کا سوال کی میں بھی تائید کرتا ہوں۔بہر کیف اس خوبصورت اور یاد گار افسانے کے لیے اشرف صاحب کو مبارکباد اور مبصرین کے نکتہ رس تبصروں کے لیے نیک خواہشات۔
شکریہ

سید محمد اشرف
آپ سب کی خدمت میں ہدیہ سلام و رحمت ۔
اللہ آپ سب کو خوش رکھے آمین 
آج ہندستان سے باہر ہوں۔ زیادہ نہیں لکھ پائونگا۔ 
“دروازے” پر دوستوں کے تاثرات پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ جذبۂ محبت کی کا فری پر ایمان آگیا ۔
جن دو دوستوں نے کہانی کے واقعات پر سوالات اٹھائے، ان ُکا بھی ممنون ہوں کہ کہانی نے ان کی توجہ کو اپنی طرف کھینچا۔ان سوالات کا جواب کہانی میں ہی تلاش کرنے سے کام بنے گا۔ کہانی کی منطق زندگی کی منطق سے کچھ مختلف ہو تی ہےاور یہ بات ہم سب جانتے ہیں۔ 
اس دوڑتی بھاگتی، خود پرست،خود نگر دنیا میں محبت کی کی کہانی کا ایونٹ رکھنا بنفسہ ایک کرامت ہے۔آج سے پچیس برس پہلے کہیں لکھا تھا کہ اردو میں محبت کی کہانیاں بہت کم ہو گئی ہیں تو اس ایونٹ کے لئے میں گروپ کے منتظمین اور معزز ممبران کی خدمت میں ہدیہ سپاس پیش کرتا ہوں۔
دعاوں کا طلبگار
سید محمد اشرف

Post a Comment

2 Comments

  1. ریحان کوثر صاحب اس اہم کام کے لیے مبارکباد اور بزم کا ایک رکن ہونے کے ناتے آپ کا شکریہ ادا لازم ہو جاتا ہے۔

    ReplyDelete
  2. بہترین سلسلہ کی پیش رفت پر الفاظ ہند اور جناب ریحان کوثر صاحب کو پر خلوص مبارک باد ۔

    ReplyDelete