Ticker

6/recent/ticker-posts

افسانچوں کی الف لیلہ پر اراکین کے تبصرے/تجزیے/تاثرات

کتاب 📘 افسانچوں کی الف لیلہ 
مرتبین ✒️ انور مرزا / ریحان کوثر
ایونٹ نمبر 50 🎯 نقد و نظر 
کل‌ ھِند افسانہ نِگار فورم کی پیشکش
گروپ اراکین کے تبصرے/تجزیے/تاثرات

صنف افسانچہ کی تمام تر مخالفتوں کا ایک خوبصورت جواب دے کر محترم انور مرزا صاحب اور محترم ریحان کوثر صاحب نے ایک تاریخ رقم کی۔ داستان الف لیلہ کے بعد افسانچوں کی الف لیلہ بلاشبہ اردو ادب کا ایک قیمتی سرمایہ ہے۔ ایک واٹس اپ گروپ میں مسلسل ایک ہزار افسانچے پیش ہونا اور انہیں کتابی شکل دینا ایک منفرد کارنامہ ہے۔ اور شاید واٹس اپ کی دنیا میں سب سے پہلا بھی۔ بہر کیف مجھے خوشی ہے اور میں ممنون ہوں کہ میں بھی اس الف لیلہ کا ایک چھوٹا سا باب رہی۔ صنف افسانچہ کو فروغ دینے اور اسے دنیائے ادب میں تسلیم کروانے کی اس سے عمدہ کوشش اور کوئی نہیں ہوسکتی تھی۔ افسانچوں کی الف لیلہ کے دونوں مرتبین کی خدمت میں ایک بار پھر پرخلوص مبارکباد پیش ہے۔ 
رخسانہ نازنین

ادب کے دریا پر بڑی بڑی مچھلیوں کا قبضہ تھا۔ چند مگر مچھ بھی اس دریا میں موجود تھے جو کمزور مچھلیوں کو اپنی خوراک بنایا کرتے تھے۔ چھوٹی چھوٹی مچھلیوں، مینڈکوں ،اور زیر آب مخلوق کو تو قطعی خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ اچانک کورونا وبا کی سونامی آگئی۔ ساری دنیا گھروں میں قید ہوگی جسکی وجہ سے ادب کے دریا میں طلاطم آگیا۔ چھوٹی مچھلیاں سوشل میڈیا پر غول بنا بنا کر حملہ آور ہو گیء اور دیکھتے ہی دیکھتے ادب کے دریا پر قبضہ کر لیا۔ کیوں کے اب چھوٹی مچھلیاں،منی کہانیاں ،پنکھڑیاں ،مختصر کہانیاں ،کٹ مٹ افسانے ،پوپ کہانیاں یا مانک موتی کے مسلک کے جال سے آزاد ہو کر متحد ہو کر افسانچے کے مسلک کو اپنا کر وارد ہویء تھیں۔
چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے اتحاد و اتفاق کو دیکھ کر ادبی مگرمچھ سکتے میں آگےء اور چھوٹی چھوٹی مچھلیوں کے آگے سرنگوں ہو گئے۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب عالیہ میں افسانچے اور ادب اطفال پر بچکانچے کا ایک طرفہ راج ہوگیا۔دونوں نے ہاتھ ملایا اور بکھرے سکڑے قارین کو یکجا کیا اردو ادب کو نزاع کے عالم سے نجات دلائی رساءل کو مطعالے کی آکسیجن لگائی۔ معاشرے کی آنکھوں سے انگریزی میڈیم کی پٹی ہٹا کر اردو میڈیم کا چشمہ لگایا۔ نئی نسل کو مطعالے کے فیض سے روبرو کروایا۔ جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ افسانچوں کی الف لیلیٰ نے اردو زبان و ادب کے ڈوبتے ہوئے جہاز کو لہروں سے بچا کر پھر سے سفر پر رواں دواں کر دیا ہے۔!
افسانچوں کا دنیا کا پہلا مجموعہ ہے جسمیں بر صغیر کے افسانچہ نگار شامل ہیں اور ایک ایک افسانچہ نگار کے کئ کئ افسانچے شامل اشاعت ہیں۔یہ کمال انور مرزا صاحب اور ریحان کوثر صاحب کا ہے۔ افسانچوں کی الف لیلہ زخامت ،ترتیب چھپائی اوردیدہ زیب سرورق کے باعث ایک دستاویز بن گئ ہے۔ افسانچوں کی الف لیلہ کو دوست احباب رشتہداروں کو دکھانے میں فخر محسوس ہوتا ہے۔ بک شلف میں کتاب پر نظر پڑتے ہی باچھیں کھل جاتی ہیں۔اس سے قبل ایسا افسانچوں کا مجموعہ دیکھا ہے نہ آگے دیکھنے کی امید ہے۔
مجھے فخرہے کہ میرے بھی افسانچے اس میں شامل ہیں۔
مرزا صاحب اور ریحان بھائی کو دلی مبارکباد۔
رونق جمآل

آج کے مصروف ترین دور میں فرصت کمیاب ہے۔ ایسے میں کم وقت کی گنجائش ہی کافی ہے۔ 
اس چیلنج پر اردو ادب میں کھرا اترنے والا ادب 'افسانچہ' آج اپنی اہمیت کے ساتھ پر وقار طریقے سے اعتبار حاصل کر چکا ہے۔
جس کا سہرا موجودہ دور میں جناب انور مرزا اور جناب ریحان کوثر کے سر باندھا جائے گا۔
جنہوں نے 'افسانچوں کی الف لیلہ' کے نام سے ایک ہزار افسانچے کی ضخیم کتاب مرتب کرکے اس امر کو لازوال اور بے مثال بنادیا۔ 
انکے حوصلے اور ہمت کو سلام کہ انہوں نے دنیائے اردو ادب میں ایک بڑا اہم اور نمایاں کام انجام دیا۔
نیک خواہشات کے ساتھ ڈھیروں داد۔
شمیم جہانگیری

"افسانچوں کی الف لیلیٰ" ایک دستاویزی کام ھے۔ اردو افسانچوں پر کسی بھی قسم کا تحقیقی کام یا انتخاب شائع کرنے کے لیے اس کی ضرورت لازماً پڑے گی کہ اتنا بڑا کلیکشن شاید ہی کہیں ملے۔
حالانکہ اس میں صرف افسانہ نگار واٹس ایپ گروپ میں شامل ممبران کی ہی تخلیقات شامل ہیں مگر اس گروپ کا معیار اور اعتبار اس کتاب کو بھی حوالے کے لیے معتبر بناتا ھے۔ میرے لیے ذاتی طور پر اس کتاب کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ھے کہ میں گروپ سے نہ صرف بعد میں جڑا بلکہ کچھ عرصہ کے لیے غیر حاضر بھی تھا مگر اس کتاب مجھے اپنی غیر حاضری کے دوران پیش کیے جانے والے افسانچے بھی پڑھنے کو مل گئے جن میں کئی نہایت شاندار افسانچے بھی ہیں جنہیں میں مِس کر گیا تھا۔ انور مرزا صاحب کے All Time Great افسانچہ "چیک میٹ" کی طرح ان کے اور دیگر کے کئی اور شاندار افسانچے بھی محفوظ کر لیے گئے ہیں۔ صرف اس کتاب کی بنیاد پر ہی افسانچوں کی دنیا کے "جئے اور ویرو" کی جوڑی کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
جاوید نہال حشمی

"افسانچوں کی الف لیلیٰ" کے سلسلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ یہ دستاویزی حیثیت کی حامل کتاب ھے۔ آنے والے دنوں میں افسانچوں پر کوئی کام اس کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں کہا جائے گا۔ 
صنف افسانچہ کی ترویج، تشہیر اور ترقی میں ریحان کوثر اور انور مرزا صاحبان کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔
احمد کمال حشمی

کی بے انتہا محنت، لگن اور اردو ادب سے گہری محبت کا نتیجہ ہے۔
یہ کتاب اردو ادب کی تاریخ میں، خصوصاََ افسانچوں کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔
اس کتاب میں سو سے زیادہ افسانچہ نگاروں کے ایک ہزار ایک نہایت معیاری افسانچوں کو شامل کیا گیا ہے۔ یہ تمام افسانچہ "افسانہ نگار" واٹس ایپ گروپ کے مختلف ایونٹس میں پیش کئے گئے تھے۔
اللہ تعالیٰ کا شکر گزار ہوں کہ میرے بھی کچھ افسانچے اس عظیم الشان دستاویز میں شامل کئے گئے ہیں۔ 
اللّہ تعالیٰ سے دعا گو ہوں کہ اس کار خیر کے لئے محترم انور مرزا صاحب اور محترم ریحان کوثر صاحب کو اجر عظیم عطا فرمائے آمین
ڈاکٹر انیس رشید خان

اُردو افسانچہ نگاری کی تاریخ میں پہلی بار " افسانچوں کی الف لیلہ" ایک شاہکار تصنیف سے اُردو ادب متعارف ہوا۔سو سے زائد افسانچہ نگاروں نے اپنے گہرے مشاہدے کو قلم کی زباں عطا کی۔
لاک ڈاؤن کے خاموش ماحول میں سماج میں 
ہر موضوع کو افسانچوں میں یوں سما دیا کو وہ وقت اور حالات کی ضرورت بن گئے۔
تین رنگ،سب رنگ، درس تدریس، والد، اولاد، ماں ، تعصب، مذہب، قومی یک جہتی، لاک ڈاؤن، ادب اطفال، گاندھی جی کے نظریات، پلاٹ پر کہانی، عشق محبت، سوشل میڈیا، رنگ ظرافت، نیکی انسانیت، اردو، بیٹی، سیاست، معلم، ہزار رنگ ہزاروں افسانچوں میں مختلف رنگارنگی موضوعات نے اس الف لیلہ کو واٹسپ گروپ کی شاہکار تصنیف بنادیا۔اس شاہکار تصنیف کو عملی جامہ پہنانے میں محترم انور مرزا صاحب اور محترم ریحان کوثر صاحب پیش پیش رہے اور ان کی کاوشوں کے طفیل اس تاریخی کتاب میں ہمارے(شامل تمام افسانچہ نگار) افسانچے شامل کرکے ہمیں بھی اس شاہکار تصنیف کا حصہ بنادیا۔
ڈاکٹر شیخ طاہرہ عبدالشکور

اس گروپ کو میں نے کیا دیا ہے۔۔۔۔ میں نہیں جانتا۔۔۔۔ لیکن اس گروپ نے جو مجھے دیا ہے ، اور جتنا دیا ہے اس کا شمار بھی میرے لیے ممکن نہیں۔۔۔۔ 
میری خوش قسمتی ہے کہ میں اس گروپ سے اول دن سے جڑا ہوں اور اس کے قریب قریب سارے ایونٹ میں حصہ لیا ہے۔۔۔۔۔
حالانکہ میں سمجھتا ہوں کہ یہ میری قابلیت نہیں بلکہ انور مرزا صاحب کی محبت ہے۔۔۔۔۔
جب اس گروپ میں پیش ہوئے افسانچوں کی کتاب " افسانچوں کی الف لیلہ" شائع ہوئی اور ریحان کوثر صاحب نے جب مجھے بتایا کہ اس کی پہلی کاپی مجھے ملنے والی ہے۔۔۔۔ تو مجھے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔۔۔ لیکن ساتھ ساتھ دل میں خیال آیا کہ گروپ کے باقی ساتھیوں کو یہ بات ناگوار نہ گزرے کیونکہ سبھی جانتے ہیں کہ میں اور ریحان صاحب نہ صرف ایک شہر سے ہیں بلکہ ہم جماعت بھی ہیں اور الحمد اللہ آج بھی ہمارا کافی وقت ساتھ میں گزرتا ہے۔۔۔۔
لہذا میں نے انکار کیا۔۔۔۔ مگر ریحان صاحب نے کہا یہ مجھے ہماری قربت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لیے دیا جا رہا ہے۔۔۔۔ کہ کتاب کے اعلان کے بعد سب سے پہلے میں نے رقم جمع کی تھی۔۔۔۔۔
اس طرح ایک اور اعزاز میرے حصے میں آیا۔۔۔۔ 
اور پہلی بار میں کہیں اول آیا
پرویز انیس

طویل افسانوں کے طویل مفاہیم جب ایک نۓ روپ میں مختصر شبیہہ دھارن کیے جسے افسانچہ کا جاتا ہے،آنے لگے،متاثر کرنے لگے،عزت پانے لگے،حوصلہ افزاٸی ہونے لگی،قدر و منزلت چھونے لگے تو۔۔۔”محنتیوں“ کی پیشانی پر نہیں آنے چاہیے تھے بل آنے لگے۔چند لمحوں کی ناراضی ممکن ہے ختم نہ ہوٸی ہو لیکن افسانچہ محترم انور مرزا اور محترم ریحان کوثر کی حتی المقدور محبتوں،لگاٶ اور بسیار کوششوں کے بعد کامیابی کی منزل تک پہنچ گیا جس کی عین دلیل افسانچوں کی الف لیلی ہے۔میں خود حیرت میں پڑگیا،کوٸی دوسال قبل اگست میں مرزا انور صاحب نے وھاٹس ایپ پر افسانہ نگار گروپ شروع کیا اور مجھے شامل کرنے کی خبر دی۔تقاضا یہ بھی تھا کہ میں گروپ پر آنے والے افسانچوں پر تبصرہ لکھا کروں۔اور میں نے ویسا ہی کیا۔جب ٢٥ افسانچے ہوۓ تو میں فلموں کا عاشق تھا گروپ پر سلور جوبلی کی مبارک باد دی۔پچاس افسانچے ہوۓ تو گولڈن جوبلی کی اور سو افساچے ہوۓ تو ڈاٸمنڈ جوبلی کی مبارک باد دی۔ہر وقت کہتا رہا؛
چلو میرا روڈ 
چلو کامٹی 
لیکن کوٸی بھی مصروفیت کے باعث تیار نہ ہوا۔
گروپ کی ابتدا میں مختصر ترین(ایک جملہ)تبصرے کیے تھے۔وہ بھی عزت دے گۓ۔
افسانہ نگار میں شمولیت:
میری تخلیقات و تبصرے ممبٸی کے اخبارات میں آنے لگے۔سب سے پہلے ”میں“ گروپ سے گل بوٹے اور پہلی خبر میں آیا۔ان اشاعتی مرحلوں نے خوب ابھارا۔ادھر کامٹی میں محترم ریحان کوثر نے گروپ کے پہلے چالیس افسانچوں کا ”الفاظ ہند“ افسانچہ نمبر نکالا جس میں میرے چالیس تبصرے شامل کیے۔پھر کیا تھا،دونوں قاٸدین مجھے ملک بھر کا ہیرو بنا گۓ۔۔۔میں نے بھی تو وفا کی۔
پھر یوں ہوا،گروپ پر ہزار افسانچے پورے ہوۓ۔خوش ہوا کہ میں نے بھی ہزار افسانچے لکھے ہیں۔خوب سراہنا ہوتی تھی۔گروپ اور پرسنل پر بھی ڈھیروں داد ملی۔دو بار مجھ پر محترمہ ڈاکٹر یاسمین اختر کے تفصیلی مضامین بھی آۓ۔خوشی کے اعتراف بھی ہوۓ۔
اب جبکہ افسانچوں کی الف لیلی دونوں محبان اردو نے شاٸع کردی تو چونک پڑا،میں اکیلا نہیں؛ اردو دنیا چونک پڑی کہ دو سال کے قلیل عرصہ میں افسانچوں کے تعلق سے ”نادرالمثال“ تاریخ رقم کردی گٸی۔افسانچہ سینہ تانے پھرنے لگا۔اگر معترضین ہیں تو وہ بھی ترچھی نگاہوں سے دیکھ زیر لب مسکراۓ ہوں گے۔دعاٸیں دینے لگا۔چالیس برس قبل ایسا لگتا تھا کہ اس کا وجود سمٹ جاۓگا لیکن آج ”وسیع تر“ ہوگیا ہے۔میری خوش بختی کہ افسانچوں کی الف لیلی میں مجھے بھی شمولیت کا موقع دیا گیا۔
افسانچوں کی خدمت جتنی پہلی خبر اور الفاظ ہند(ریحان کوثر۔ کامٹی) نے کی ہے اردو ادب کی تاریخ میں ایسی مثال دیکھنے میں نہیں آتی۔اس کامیابی کا سہرا مرزا انور صاحب اور محترم ریحان کوثر کے سر جاتا ہے۔بڑی بات یہ بھی کہ انور مرزا صاحب کے ساتھ گروپ کے اکثر قلم کاروں نے بھی مجھ پر قلم اٹھایا تھا۔اتفاقاً مجھے لکھنے میں کبھی کبھی تاخیر ہوجاتی تو مجھے تلاشا بھی گیا تھا۔
اتنا ہونے کے باوجود مرزا انور صاحب اطمینان سے نہیں بیٹھے۔گزشتہ دنوں دہلی میں افسانہ نگار گروپ کے چنندہ افسانچوں کا مجموعہ ”عصری افسانچے“ ذی وقار سراج عظیم اور عالی مرتبت نعیمہ جعفری پاشا کے ہاتھوں رونماٸی کے مراحل طے کرچکا ہے۔
افسانچہ نگاری کی خارزار وادی کو گلزار بنانے ہر محترم انور مرزا اور محترم ریحان کوثر کو ڈھیروں مبارک باد۔ نیز ساتھ ہی گروپ کے تمام عالی مرتبت قلم کاروں کے لیے نیک خواہشات۔
خصوصی دعاٶں میں یاد رکھیں۔۔۔۔۔۔۔
قیوم اثر

کتاب "افسانچوں کی الف لیلیٰ" افسانچوں کی تاریخ میں ایک اہم اضافہ قرار دی جاسکتی ہے۔ مرتبین انور مرزا اور ریحان کوثر کا یہ کام قابل ستائش ہے۔ کیونکہ ایک ہزار افسانچوں کا انتخاب اور پھر کتابی صورت میں شائع کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہوتا ہے جس میں مرتبین کامیاب ہوئے ہیں۔ دونوں صاحبان کی کاوش مبارک بادی کی مستحق ہے۔ 
الله سلامت رکھے۔ 
ڈاکٹر ریاض توحیدی کشمیری

Post a Comment

0 Comments