Publication of this book has been financed by
AAS FOUNDATION (NAVI MUMBAI)
Shop No.23&24,Chamunda harmony chs,plot 68A,sec18,kamothe,
Navi Mumbai, Maharashtra —410209
امجد علی سرورؔ 9 ستمبر 1955 کو موضع برداہا،ضلع مدھوبنی ،بہار میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام میر امجد علی ولد میر معین علی عرف ہارون ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم مقامی مدرسے میں والدہ محترمہ حفصہ خاتون کے زیر نگرانی تکمیل پائی۔ بعد از آں انھوں نے بی اے (اردو) کرکے تعیلمی سفر مکمل کیا۔ تلاش روزگار کے سلسلے میں وہ تین دہائیوں کے طویل عرصے تک دوحہ قطر میں مقیم رہے۔ عمر کے اس طویل دورانیے میں شریک حیات قمر النساء نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا۔
سرورؔ کو عمر کے ابتدائی دور سے ہی شاعری کا شوق رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ذوق بڑھتا گیا اور وہ شعر کہنے پر آمادہ ہوگئے۔ پردیس میں انھیں ہم مزاج ساتھی میسر آئے جن کی صحبت نے سرورؔ کی شاعری کو مزید تقویت دی۔ لہٰذا 2004 میں حمد و نعت پر مشتمل ان کی پہلی کتاب 'ضیائے حرمین' منظر عام پر آئی۔ بعد از آں انھوں نے 'کرن کرن آفتاب' اور نغمہائے شادی ' جیسی کتابیں مرتب کیں۔ 2016 میں ان کی دوسری تخلیقی کتاب' ندائے حرمین' شائع ہوئی جو ان کی ادبی شناخت ثابت ہوئی۔
امجد علی سرور کو مختلف اعزازات سے نواز جا چکا ہے جن میں 'حضرت نظام الدین اولیا ایوارڈ (2008)، مولانا مظہر السلام ایوارڈ (2010) اور دیگر ایوارڈ شامل ہیں۔ سرور قطر میں اردو کی ترویج و بقا کے لیے قائم کی گئی تنظیم' بزم اردو قطر' کے صدر و چیرمین بھی رہے۔
زیر نظر کتاب امجد علی سرور کی غزلوں کااولین مجموعہ ہے جسے نوجوان شاعر و ادیب محسن ساحلؔ نے مرتب کیاہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر امجد علی سرورؔ اور محسن ساحلؔ کے ساتھ ساتھ ان کے تمام احباب و متعلقین کو بے شمار مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ امید ہے 'یادوں کی روشنی' کو ادبی حلقوں میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوگی۔
سرورؔ کو عمر کے ابتدائی دور سے ہی شاعری کا شوق رہا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ ذوق بڑھتا گیا اور وہ شعر کہنے پر آمادہ ہوگئے۔ پردیس میں انھیں ہم مزاج ساتھی میسر آئے جن کی صحبت نے سرورؔ کی شاعری کو مزید تقویت دی۔ لہٰذا 2004 میں حمد و نعت پر مشتمل ان کی پہلی کتاب 'ضیائے حرمین' منظر عام پر آئی۔ بعد از آں انھوں نے 'کرن کرن آفتاب' اور نغمہائے شادی ' جیسی کتابیں مرتب کیں۔ 2016 میں ان کی دوسری تخلیقی کتاب' ندائے حرمین' شائع ہوئی جو ان کی ادبی شناخت ثابت ہوئی۔
امجد علی سرور کو مختلف اعزازات سے نواز جا چکا ہے جن میں 'حضرت نظام الدین اولیا ایوارڈ (2008)، مولانا مظہر السلام ایوارڈ (2010) اور دیگر ایوارڈ شامل ہیں۔ سرور قطر میں اردو کی ترویج و بقا کے لیے قائم کی گئی تنظیم' بزم اردو قطر' کے صدر و چیرمین بھی رہے۔
زیر نظر کتاب امجد علی سرور کی غزلوں کااولین مجموعہ ہے جسے نوجوان شاعر و ادیب محسن ساحلؔ نے مرتب کیاہے۔ اس کتاب کی اشاعت پر امجد علی سرورؔ اور محسن ساحلؔ کے ساتھ ساتھ ان کے تمام احباب و متعلقین کو بے شمار مبارکباد پیش کی جاتی ہے۔ امید ہے 'یادوں کی روشنی' کو ادبی حلقوں میں خاطر خواہ مقبولیت حاصل ہوگی۔
محسن ساحل کا تعارف
محسن ساحل نوجوان نسل کے ان چنندہ قلمکاروں میں شمار کیے جاتے ہیں جنھوں نے ابتدا ہی سے اپنی شناخت کو منفرد رکھنے میں کامیابی حاصل کی۔ وہ شاعری کے علاوہ مضامین اور کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔ ان کی تخلیقات قومی و بین الاقوامی سطح کے اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔ محسن ساحل ایک قابل معلم بھی ہیں۔ 'مہاراشٹر اسٹیٹ وائیڈ آن لائن ایجوکیشن پروگرام' میں انھوں نے بطور چینل ناڈل آفیسر نہایت اہم رول ادا کیاہے۔
اب تک ان کی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں 'ہمہ آفتاب بینم' اور 'تحریر پسِ تحریر' قابل ذکر ہیں۔
زیر نظر کتاب یادوں کی روشنی' محسن ساحل کی مرتبہ پانچویں کتاب ہے جس میں بزرگ شاعر' امجد علی سرور' کی منتخبہ غزلیں شامل ہیں۔ اس کتاب کی شاعت کے لیےانھیں بے شمار مبارکباد۔
اب تک ان کی چار کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ جن میں 'ہمہ آفتاب بینم' اور 'تحریر پسِ تحریر' قابل ذکر ہیں۔
زیر نظر کتاب یادوں کی روشنی' محسن ساحل کی مرتبہ پانچویں کتاب ہے جس میں بزرگ شاعر' امجد علی سرور' کی منتخبہ غزلیں شامل ہیں۔ اس کتاب کی شاعت کے لیےانھیں بے شمار مبارکباد۔
مقدمہ
محسن ساحلؔ
اردو شاعری کی اگر بات کریں تودیگر تمام اصناف کے مقابلے میں غزل نے جس درجہ سرعت کے ساتھ اپنی گرفت بنائی وہ فقید المثال ہے۔ اپنے تعارف کے بعد ہی سے غزل کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا ہے۔ غزل کے موضوعات اور شاعری کے پیمانوں میں تبدیلیاں زمانے اور گردشِ حالات کی دین ہیں ۔لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہر دور میں غزل نے اپنی اہمیت اور حیثیت برقرار رکھی ہے۔موجودہ دور میں کسی حد تک غزل کے وقار میں ابتذال ضرور آیا ہے لیکن یہ ابتذال بھی گاہے گاہے آتا رہتا ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ جب بھونڈے طریقے سے تجربات کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تواس کا یہی نتیجہ نکلتا ہے۔ البتہ ان کوششوں کے باوجود آج بھی غزل کی روشنی کے بغیر دنیائے ادب تاریک دکھائی دیتی ہے۔غزل نہایت نازک طبیعت کی حامل صنف ہے۔ غزل کی اسی نزاکت کو قائم رکھنے کے لیے شعرانے تلخ سے تلخ،اور سخت سے سخت موضوع کوبھی اس مہارت سے پیش کیاہے کہ اردو شاعری میں غزل کا مقام بلند سے بلند تر ہوتا چلا گیا۔یہی وہ شعرا ہیں جنھوں نے بے حد سنجیدگی سے غزل کے گیسوؤں کو سنوارا اور عمر بھر اس کی زلفوں کے اسیر بنے رہے۔فی زمانہ صنفِ غزل کی مشاطگی کرنے والے اور اس کی زلف گرہ گیر کو سنوارنے والے شاعروں میں ایک شاعر ہیں جناب امجد علی سرورؔ۔ یہ مختصر سی تحریر اسی شاعر کے مجموعۂ غزلیات ’یادوں کی روشنی ‘سے متعلق ایک چھوٹی سی تمہید ہے جسے مقدمہ کہنے کا تکلف برتا جاسکتاہے۔قبل از یں کہ میں اس کتاب اور صاحب کتاب کے شعری قد سے متعلق کچھ عرض کروں ،مناسب ہوگا کہ امجد علی سرورؔ کے حیات نامے پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے۔
امجد علی سرور ؔکا اصل نام میر امجد علی ولدمیر معین الحق عرف ہارون ہے۔ان کی پیدائش ۹ ستمبر ۱۹۵۵ء بمطابق یکم شوال لمکرم، بہار کے ایک علاقے برواہا وایا کمنول دربھنگہ میں ہوئی۔شرافت اور ایمانداری امجدؔ علی سر کو وراثت میں ملی۔ابتدائی تعلیم مقامی اردو مدارس سے حاصل کی۔وہیں سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور جامعہ اردو علی گڑھ بورڈ سے ادیب کا کورس مکمل کیا جو ان کی ادبی شناخت میں کافی معاون ثابت ہوا۔امجد علی سرورؔ کی والدہ حفصہ خاتون بنت منشی عبدالرحیم نے دینی ماحول میں ان کی تربیت کی۔والدین کی شرافت اور تہذیبی خانوادے کے اثرات بچپن ہی سے ان میں نمایاں ہونے لگے۔ وہ نہایت مستقل مزاج شخصیت کے مالک ہیں ۔ خدائے تعالیٰ نے انھیں معاشی طورپر مستحکم رکھا۔ معاشی استحکام کے باوجودوہ خودداری، وفا شعاری، عاجزی و انکساری کو اپنی دولت سمجھتے ہیں ۔
امجد علی سرورؔ نے حصول معاش اور شکم پری کے تکلفات نبھانے کے لیے اپنی عمر عزیز کا ایک بڑا حصہ یعنی چار دہائیوں سے زائد عرصہ دوحہ قطر میں گزارا۔تمام عمر ایمانداری سے ملازمت کی اور اردو ادب کی تبلیغ و ترویج کو اپنا مشغلہ بنایا۔خوش قسمتی سے انھیں پردیس میں ایسے رفقائے کار ملے جن کی صحبت سے ان کے تخلیقی باغ میں غزلوں اور نعتوں کے پھول کھلتے رہے۔۲۰۰۴ء میں ان کی نعتوں کا مجموعہ ’ ضیائے حرمین ‘ منظر عام پر آیا جس نے بطور شاعر امجد علی سر ورؔ کی ادبی شناخت کو ادبی دنیا میں متعارف کروایا۔ بعد از آں ان کی حمدوں اور نعتوں پر مشتمل کتاب ’ ندائے حرمین‘ ( ۲۰۱۴ء)نے انھیں مقبولیت عطا کی۔ ملازمت اور ادب میں متحرک رہنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے خاندان کی تمام ذمہ داریاں بخوبی انجام دیں ۔رشتوں ناتوں کی کشمکش میں کبھی انا کو مداخلت کرنے کا موقع نہیں دیا۔
ملازمت،ادب اور خاندان، ان تینوں زاویوں کا مثلث تشکیل دیتے ہوئے پتہ ہی نہ چلا کہ کب ان کے بالوں میں چاندی بکھر گئی۔جب اولاد اپنے پیروں پر کھڑی ہوچکی تو نہایت احترام کے ساتھ دوحہ قطر کو خیرآباد کہا اور ممبئی میں سکونت اختیار کرلی۔ اس کے بعد خانگی امور اور ادبی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے۔ شریک حیات قمرالنساء نے زندگی کے ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیا۔
’ندائے حرمین‘ اور ’ ضیائے حرمین‘ کے علاوہ انھوں نے تین کتابیں مرتب کی ہیں جن میں ’کرن کرن آفتاب‘، لاٹھی چارج‘ اور نغمہ ھای شادی‘ شامل ہیں۔زیر نظر کتاب’یادوں کی روشنی‘ امجد علی سرورؔ کی غزلوں کا اولین مجموعہ ہے۔
امجد علی سرورؔ کا تخلیقی سفرنصف صدی کے طویل عرصے پر محیط ہے۔ ان پچاس برسوں میں برصغیر کے تقریباًہر بڑے چھوٹے شاعر و ادیب سے ان کے مراسم رہے۔ امجد علی سرورؔ کے فن اور شخصیت پر چند ارباب ادب کی مختصر اور اہم آراء ملاحظہ کرنے سے ہمیں ان کی شخصیت کو سمجھنے میں یقینا مدد ملے گی۔
برصغیر کی معروف شخصیت تابش مہدی رقم طراز ہیں :
’’جناب امجد علی سرورؔ ہندوستان کے ایک سنجیدہ و متین اور متدین و باوقار شخصیت ہیں ۔شرافت و نجابت اور تہذیب وتمدن کا ظہار ان کے طور طریقوں سے بھی ہوتا ہے اور چہرے بشرے سے بھی۔اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کی جملہ شخصی و خاندانی اوصاف و خصوصیات کے ساتھ شعر گوئی و سخنوری کی پاکیزہ صلاحیتوں سے بھی سرفراز کیا ہے۔شعر و ادب کا ذوق کسی زمانے میں شرفاء اور متمدن لوگوں کا ہی حصہ تھا۔اسی سے ان کی پہچان ہوتی تھی۔اب تو اس پر ایساپیمبری وقت آگیا ہے کہ بس اللہ کی پناہ۔ایسے لوگ شاعری و ادب پروری کے علمبردار و مدّعی ہوگئے ہیں ،جنہیں تہذیب و تمدن اور شرافت ونجابت کی ہوا بھی نہیں لگی ہے۔میرے لیے قطعیت کے ساتھ یہ بتانا تو مشکل ہے کہ جناب امجد علی سرورؔ کی صحیح عمر کیا ہے؟ انہوں نے کس عمر میں وادئ سخن میں قدم رکھایا ان کی سخن وری کے کیا عوامل رہے ہیں ، البتہ مختلف ملاقاتوں اور مستقل برادرانہ مراسم سے میں نے یہی جانا ہے کہ وہ ایک تعمیری فکر رکھنے والے شاعر ہیں ۔وہ اپنی شاعری کو سماج یا معاشرے کے تابع سمجھتے ہیں اور اس کی اصلاح و تعمیر ان کی شاعری کا اہم مقصد ہے۔ بقول نصراللہ خاں عزیز:
مری زندگی کا مقصد ترے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں ، میں اسی لیے نمازی
دنیائے ادب میں تابش مہدی کو کون نہیں جانتا۔موصوف امج علی سرورؔ سے متعلق رقمطراز ہیں :
’’جناب امجد علی سرورؔ کا آبائی وطن صوبئہ بہار ہے۔لیکن ان کی زندگی کا بڑا حصہ عروس البلاد بمبئی میں گزرا ہے۔وہیں انہیں شعری و ادبی ماحول ملا اور ان کے اندر تخلیقی ذوق پروان چڑھا۔شاعری میں انھیں اپنے دور کے نامور استاذ شاعر حضرت کیفؔ پرتاب گڑھی سے شرفِ تلمذ حاصل ہے۔اب گزشتہ کئی برس سے وہ دوحہ (قطر) میں مقیم ہیں ۔وہاں انھوں نے اپنی سعی و کاوش سے تعمیری شعرو ادب کا چراغ روشن کر رکھا ہے اور متعدد نوجوان شعراء ان سے کسبِ فیض کر رہے ہیں اور وہ سب انہیں استاد تسلیم کرتے ہیں ۔‘‘
وہیں دوسری جانب سرورؔ کے دوست اور شاعر ڈاکٹر خلیل الرحمن رازؔ ان کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’امجدعلی سرورؔ شاعری کا ستھرا ذوق رکھتے ہیں اور انہیں شعر کہنے کا عمدہ سلیقہ ہے۔ جس طرح وہ کشیدہ کاری کے ماہر ہیں اسی طرح شاعری کی مرصع کاری بھی ان کا خاص فن ہے۔راقم سے ان کی ایک عرصہ کی وابستگی ہے۔ اسلامی لٹریچر اور تعلیمات سے بھی ان کا پرانا آبائی رشتہ ہے۔دوحہ کی ادبی محفلوں کے شانہ بشانہ دینی تقریبات میں بھی بالعموم شریک رہتے ہیں ۔ ‘‘
ایک اور علمی اور ادبی شخصیت صفدر امام قادری امجد علی سرورؔ کے تعلق سے اپنی رائے کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں :
’’جناب امجد علی سرورؔ کی شاعری اور ان کے مزاج کو کلاسیکی اقدار سے بہ کمال نسبت ہے۔قطر اور خلیج کے ممالک میں تقریباً چاردہائیوں تک انھوں نے ہماری زبان کا چراغ کچھ اس طرح سے روشن رکھا جیسے زبان کی دولت انھیں اسلاف سے حاصل ہوئی تھی۔انھوں نے رسمی اور غیر رسمی دونوں جہات سے خلیج کے ممالک بالخصوص قطر میں ابھرنے والی نئی نسل کی ادبی تربیت میں اپنا خونِ جگر صرف کیا۔ان کی شاعری میں استادانہ رکھ رکھاؤ اور ادبی زبان و بیان کا ستھرا ذوق ہے۔‘‘
( صفدر امام قادری(
ان تمام ممتاز ادبی شخصیات کی موقر آراء کے بعدہم سرورؔ کی شاعری اور بالخصوص ان کی غزل گوئی پر ایک اجمالی نظر ڈالتے ہیں ۔
اردو غزل میں عشق وعاشقی،زندگی اور موت،ہجر ووصال،درد والم وغیرہ جیسے موضوعات پر بے شمار اشعار کہے گئے ہیں ۔امجد علی سرورؔ کی غزلوں میں بھی ان روایتی موضوعات پربہت سارے اشعار مل جاتے ہیں لیکن انھوں نے ان خیالات کو کچھ نئے انداز سے پیش کرنے کی کوشش کی اور وہ اس کوشش میں کافی حد تک کامیاب بھی رہے۔
سرور ؔکی شاعری میں ان تمام عوامل اور خصوصیات کی آمیزش ہے جن سے عمومی طور پر معاصر اردو شاعری کے پیمانوں کا تعین کیا جاتا ہے۔انھوں نے اپنی شاعری میں ہمیشہ مثبت خیالات اور حوصلہ مندی کو ترجیح دی ہے۔اس کی اہم وجہ ان کی صالح فکر اور دین سے خصوصی رغبت ہے۔ ہر غزل میں ایسے اشعار مل جاتے ہیں جنھیں عمدہ شاعری کے عالمی انتخاب میں شامل کیا جا سکتا ہے۔حالانکہ انھوں نے گاہے بگاہے گل و بلبل کا ذکر بھی اپنی شاعری میں کیا ہے لیکن یہ ان کی غزلوں کا اصل رنگ نہیں ہے۔ مجموعی طور پر بات کی جائے توسرورؔ کی شاعری مکمل طور پر صالح فکرکااستعارہ ثابت ہوتی ہے۔
چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔
لوگ جس کو پڑھ کے سرورؔ کچھ سبق حاصل کریں
ایسا کوئی شعر بھی ہے آپ کے دیوان میں
قبل اس کے آپ لوگوں پر اٹھائیں انگلیاں
تولیے خود کو ضمیر وظرف کی میزان میں
خودداری واحساس کو رکھنا ہے سلامت
دولت یہ کوئی شاہی و سلطانی سے کم ہے
یہ سچ ہے کہ تقدیر بھی ہوتی ہے کوئی چیز
پر دوستو! تدبیر بھی ہوتی ہے کوئی چیز
سوزِ غمِ حیات رگِ جاں میں پالیے
خوشیاں کسی غریب کی جھولی میں ڈالیے
شمعِ یقیں جو رکھتے ہیں روشن گمان سے
دنیا میں ایسے لوگ ہی جیتے ہیں شان سے
سرورؔ کادل غمِ جاناں اور غمِ دوراں سے بھرا ہوا ہے اور وہ اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔جب جذبات کا لا وا پھوٹ پڑ تا ہے تووہ اپنی شاعری میں رنج و الم کا اظہار اتنی چابک دستی سے کرتے ہیں کہ دلی جذبات کاا ظہار بھی ہوجاتا ہے اور کہیں مایوسی یانا امیدی بھی نظر نہیں آتی۔وہ اپنے ہر غم اور ہر مشکل کو خدا کی آزمائش سمجھ کر صبر کا دامن تھام لیتے ہیں ۔ اتنی سکت وہی شخص رکھ سکتا ہے جس کا حوصلہ چٹان سے بھی زیادہ مضبوط ہو۔
اس پیش منظر کے ساتھ یہ چند اشعار دیکھیں ۔
میرے ہونٹوں پہ ہنسی کھیل رہی ہے لیکن
کرب و آلام کا خیمہ ہے مری آنکھوں میں
حوادث پنکھ پھیلائے ہوئے ہیں
مرے دیکھے مرے سمجھے ہوئے ہیں
تواضع کیوں نہ ہو رنج والم کی
یہ مہما ں میرے گھر آئے ہوئے ہیں
شہرِ دل پر ہیں گھٹا ٹوپ غموں کے سائے
دل سمجھتا ہے انھیں گیسوئے لیلیٰ کی طرح
عزم و یقین و صبر کا دامن نہ چھوڑیئے
گھبراکے زندگی سے کبھی منہ نہ موڑئیے
زہرِ حیات پیجئے یوں کہ عیاں نہ ہو
دل میں غموں کی آگ ہو چہرہ دھواں نہ ہو
دستورِ صبر و ضبط کی عظمت کا گر ہے پاس
آنکھوں سے خون ٹپکے لبوں پر فغاں نہ ہو
سرورؔ کی غزلوں میں ایسے بے شمار اشعار موجود ہیں جن سے متاثر ہوئے بغیر قاری آگے نہیں بڑھ سکتا۔چند اشعار اس تناظر میں ۔
روشن ہیں جن سے رنگ مہ آفتاب کے
تابندہ باب ہیں وہ ہماری کتاب کے
وہ مانگتا بھی ہے تو بڑے رکھ رکھاؤ سے
شاید بڑھا پلا ہے شریفوں کے درمیاں
جو سرِ ساحل تھے محوِ شادماں ان کی تو خیر
بادبانوں کو بھی طغیانی کا اندازہ نہ تھا
لباس پارسائی میں سیہ کاری بھی ہوتی ہے
بُری عادت کسی میں ہو بہ آسانی نہیں جاتی
میں رنگ و نسل کی حد سے گزرنے والا ہوں
بلا سے ہوتا ہے ہوجائے خاندان خفا
سرورؔایک اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ اور نفیس انسان بھی ہیں ۔ انھوں نے ہمیشہ چراغ سے چراغ جلانے پر یقین رکھا ہے۔اسی لیے وہ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود کچھ نئے شعراء جو ان کے دامنِ تلمذ میں پناہ چاہتے تھے، انھیں فن کی باریکیوں سے روشناس کراتے رہے۔سینہ بہ سینہ علم و فن کی ترسیل ہوتی رہی اور آج ان کے بہت سے شاگرد برصغیر میں اپنی ادبی شناخت قائم کر چکے ہیں ۔
ان کے ایک شاگرد منصور اعظمی اپنے استاد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ میرا تعلق مبارک پور اعظم گڑھ سے ہے۔ پیدائش قصبہ مبارک پور کے پاس ایک چھوٹے سے گاؤں ’سیہیں ‘ میں ہوئی۔شاعری کا شوق بچپن سے ہے۔ لیکن باضابطہ طور پر قطر میں استاد محترم امجد علی سرورؔ صاحب کی قربت حاصل ہونے کے بعد یا یوں کہہ لیجئے استاد محترم امجد علی سرورؔ صاحب کی بارگاہِ ادب میں زانوئے تلمذ تہہ کرنے کے بعد میری شاعری میں نکھار آیا۔ چونکہ میں اردو کا طالب علم نہیں تھا، ہندی سے ہائی اسکول تک کا طالب علمی کا سفر طے کر کے اردو کا شاعر بنا۔ کبیر داس رحیم داس تلسی داس جیسے مہان کوی کو میں پڑھا۔ چونکہ مادری زبان اردو تھی اس لئے اردو کی شاعری تخلیق کرنے میں کوئی دشواری نہیں ہوتی اور خوش نصیبی سے استاد محترم امجد علی سرورؔ جیسی شخصیت کی قربت میں مجھے شعر گوئی کا ہنر عطا ہوا۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ اگر امجد علی سرورؔ صاحب کی سرپرستی نہ حاصل ہوتی تو میں جس مقام پر ہوں شاید ممکن نہیں تھا۔ امجد علی سرورؔ صاحب کے ایسے لاکھوں احسانات اور کرم فرمائیاں ہیں جنھیں بھلایا نہیں جا سکتا۔ امجد علی سرور ؔزود گو شاعر تو ہیں ہی، آپ جیسی سراپا خلوص، نرم طبیعت اور استادی کے فن میں مہارت رکھنے والی شخصیت میں نے کہیں نہیں پائی۔
اساتذہ دو طرح کے ہوتے ہیں ۔ ایک استاذ وہ ہوتا ہے جس نے اپنے شاگرد کے شعر کو پڑھا اور اسے کاٹ کر اپنا مصرع لگا دیا۔شاگرد سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ اس نے کیا اور کہاں غلطی کی۔ میرا خیال ہے وہ شاگرد عمر بھر بیساکھی کے سہارے رہ جاتا ہے۔ اورایک استاد وہ ہوتا ہے کہ مصرعے میں جہاں بھی کچھ کمی ہوتی ہے اس کی نشاندہی کر دیتا ہے۔ شاگرد ان اصلاحی پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح جد و جہد کر کے خوبصورت غزل مکمل کر لیتا ہے۔ قطر میں یہ ہنر میں نے استاد امجد علی سرورؔ صاحب میں پایا۔‘‘
امجد علی سرورؔ کو اللہ تعالی نے آل و اولاد کی انمول نعمت سے سرفراز کیا ہے۔ ان کے اہلیان خانہ میں شریک حیات قمرالنساء، دخترنیک اختر فاطمہ نوشین، چارفرزندان اول کلیم اللہ نوشاد،دوم ذکااللہ دلشاد،سوم ثنا اللہ ارشاد اور چہارم علیم اللہ بہزاد اور ان چاروں کی زوجات اور پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں شامل ہیں ۔ سرورؔ ایک ایسا درخت ہیں جس کی جڑیں جتنی گہری ہیں اس کی اونچائی بھی اتنی ہی بلند و بالا۔
امجد علی سرورؔ سے میرا تعلق بہت قریبی یا بہت دیرینہ نہیں رہا۔تقریباً چار پانچ برس قبل ادارہ ادب اسلامی کی ایک شعری نشست میں ان سے ملاقات ہوئی۔اس کے بعداخبارات، رسائل اور واٹس ایپ گروپ کے ذریعے ان کاکلام گاہے بگاہے نظروں سے گزرتا رہا۔گزشتہ ایک دو سال سے وہ شدید علالت کا سامنا کرتے رہے۔خوش قسمتی اور اولاد کی خصوصی دیکھ بھال کے سبب ان دنوں صحت یاب ہوئے ہیں ۔لاک ڈاؤن اور علالت کے سبب کافی عرصہ وطن عزیز میں بسر کیا۔ممبئی لوٹے تو عبداللہ مسرور کے ہمراہ نیاز مند نے بھی عیادت کی۔تبھی سے ان کی شعری کاوشوں کوکتابی شکل دینے کا ذکر شروع ہوا۔ جب امجد علی سرورؔ نے اپنی شعری کاوشوں کو کتابی شکل دینے کا فیصلہ کیا تو راقم الحروف کی ادبی سرگرمیوں سے متاثر ہوکر اس مجموعہ کی ترتیب و اشاعت کی ذمہ داری مجھ کم علم کے کمزور کندھو ں پر ڈال دی۔ بہت اصرار کے بعد بھی میں نے انکار یا اقرار کرنے سے قبل تمام غزلوں کا مطالعہ کیا۔مکمل طور پر اطمینان محسوس کرنے کے بعد کتاب کی ترتیب کے لیے اقرار کیا۔ بہر حال یہ ان کا خلوص ہے کہ مجھ جیسے کم علم قلمکار کو اس کتاب کا مقدمہ تحریر کرنے اورکتاب کی ترتیب و تدوین کا موقع عنایت کیا۔ ورنہ او کجا من کجا!
’یادوں کی روشنی‘ میں امجد علی سرورؔ کی سو سے زائدمنتخبہ غزلیں شامل ہیں ۔ رام الحروف نے بساط بھر کوشش کی ہے کہ نت نئے موضوعات کی حامل غزلوں کو فہرست میں ترجیحی طور پر پیش کیا جاسکے۔لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ باقی غزلیں شعری معیار کے لحاظ سے کہیں پست ہیں ۔ سرورؔصاحب کی ہر غزل شعری توانائی سے بھرپور ہے۔ سرورؔ صاحب کی شاعری پر خان حسنین عاقبؔ،خلیق الزماں نصرت،اشفاق احمد جیسے مستند و معروف شعراء کے تاثرات بھی اس کتاب کا اہم حصہ ہے۔ ناچیز نے ایک ادنیٰ سی کوشش کی ہے کہ امجد علی سرورؔ کی غزلوں کو عمدہ طریقے سے پیش کرے۔ اس کے باوجود کتاب میں جو خامیاں اور گنجائشیں راہ پا گئیں وہ میری اپنی علمی کمزوری اور تجربے کے فقدان کے باعث ہیں ۔’یادوں کی روشنی‘ کی اشاعت میں عبداللہ مسرورؔصاحب اورذکااللہ دلشادصاحب نے خصوصی تعاون پیش کیا اور ہر وقت مجھے حوصلہ دیتے رہے، جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں ۔ساتھ ہی عمر علی انورصاحب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوں نے اس کتاب کی اشاعت میں دلچسپی ظاہر کی۔ لیجیے کتاب آپ کی خدمت میں پیش ہے اور آپ کے مطالعے و مشورے کی متقاضی بھی۔
0 Comments