ـــــــــــــــــــــــــــــــ
مقدمہ
نسیم سعید
معلم، ادیب و خطاط
حاجی نگر، کامٹی
بے شک رب کو نین ہی دوجہان کا حقیقی معبود ہے۔ اُسی خالق ِکائنات نے انسانوں کو اپنی عبادت کے لیے اس دُنیا ئے فانی میں بھیجا۔تاکہ اپنی بندگی کے بہانے انسانوں کو دُنیا کے راز کے بارے میں وقت بوقت آگاہ و متنبیٰ کرتا رہے۔ اپنی صفات اور اپنی وحدانیت کا اقرار اس سے کراتارہے۔ اپنی موجودگی کااحساس نیک صفت انسانوں کے اعمال سے ظاہر ہوتی رہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ دُنیا کبھی اُس کے محبوب بندوں سے خالی نہیں رہی۔ اُن بھلے انسانوں کے طفیل اس دُنیا کے قائم رہنے اور اُس کے نظام کو چلانے کا راستہ طے ہوتارہا۔ انسانوں کو راہِ راست پر لانے کے لیے نبیوں اور رسولوں کے مبعوث ہونے کا ایک طویل سلسلہ چلتا رہا۔اورآخری نبی حضرت محمد ؑ کو سارے عالم کے لیے رحمت اللعالمین بناکر بھیجا گیا۔ولیوں اور بزرگانِ دین کا سلسلہ بھی جاری رہااوررہے گا۔ اچھے اور نیک کاموں کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اعمالِ صالحہ اور تقوی و پرہیز گاری کو منتخب کیاگیا اور اُس کی اشاعت کی خاطر دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ قلم کے استعمال کوبھی مخصوص قرارریا گیا۔ یہی وجہ ہے شروع زمانے سے ہی ہراچھا ئی وبرائی کے پرورش پانے کانسخہ بزور قلم صفحہ ہستی پر موجو دہے۔اور دینوی ودنیاوی علوم کے بہترین خزانے کے وجود کے ذریعے سے عالمِ دوجہان کی رہنمائی ممکن ہوتی رہی ہے۔اس دُنیامیں علوم وفنون کی کثرت، سائنسی و تکنیکی مہارت، سماجی ومعاشرتی صورت،تہذیب و ثقاقت کے بنتے بکھرتے نقوش، مذاہب کی اشاعت، قوم وملت کے نکھرتے بکھرتے وجود، سیاسی و اقتصادی صورت کے تقاضے، غرض آج کی اس دوڑتی بھاگتی تیز رفتار زندگی کے ہرشعبے میں دینوی علوم کے ساتھ ہی دنیاوی علوم و فنون کا زبردست کرداررہا ہے۔اورنشرواشاعت کے ہرممکن ذرائع کی بنیاد وفروغ میں قلم کے استعمال کا کلیدی رول رہاہے۔
ہم جانتے ہیں دین ودنیا کے تمام شعبوں میں علاقائی، ملکی اور عالمی سطحوں کا بھی اپنا ایک الگ مقام رہاہے۔اوراسی سے وابستہ ہر سطحی صورت پر سماجی، معاشرتی، سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور ادبی شعبوں کاوجود قائم ہوتا رہا ہے اور اپنا مرکزی کردار اداکرتے ہوئے کائنات ِعالم کی ترقی وعروج کی داستانیں بنتی و بگڑتی رہی ہیں۔زندگی کے ان تمام شعبہ جات کے پس منظرمیں قلم نے اپنا کردار خوب اچھی طرح نبھایا۔ اور تاقیامت اُس کے وجود سے انکار انسانوں کے بس کی بات نہیں ہے۔شکلیں بدلتی رہے مگر اصل بنیاد قائم رہے، یہی قلم کی فطرت ہے۔
قلم کے استعمالات کی بدولت زندگی کاایک اہم شعبہ زبان وادب کا قائم ہوا۔یہی زبان وادب قوم وملت کی تہذیب و تمدن کی میراث بنی۔اسی زبان وادب کے عروج و زوال کی بناء پر قوموں کے نشیب و فراز طے ہوتے رہے۔ دُنیا کے تمام مذاہب کے وجود میں زبان وادب نے بھی اپنا مقام طے کیا۔ بلکہ میں تو یہاں تک کیوں گاکہ زبان وادب کی معیاریت اور مذاہب کے وجود کا چولی دامن کا ساتھ رہاہے۔ نشیب و فراز اورعروج وزوال ایک ہی سکے کے ہمیشہ دو پہلو رہے ہیں۔یادرہے دُنیا کی تمام زبان وادب کا قلم سے براہ راست تعلق ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بزورِ قلم دُنیاکے تمام زبان وادب کا اپنا وجود قائم ہے۔اُردو زبان وادب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔
اُردو خالص ہندوستانی زبان ہے اور ہندوستان ہی اُس کی جائے پیدائش ہے۔ ہندوستان کے وجود میں پیوست تمام زبانوں کی جڑوں میں اس کی رگ بھی شامل ہے۔ اوراُردو تمام ہندوستانی زبانوں کے علاوہ غیر ملکی زبانوں کی باہمی اشتراک سے وجود میں آئی ہے۔گویا اُردو مشترکہ تہذیب و تمدن کی سنگمی زبان ہے۔اس زبان کو خالص ہندوستانی زبان ہونے کا درجہ بھی حاصل ہے۔ اُس کی وجہ یہ ہے کہ ہر ہندوستانی منظر عام پر آکر ایک مشترکہ زبان ہی استعمال کرتاہے۔
بہرحال اُردو کم وقتوں میں ہی دُنیا کے اُفق پراپنے عروج کی داستانیں بناتی رہی۔ ہر طرف اُس کی شہرت اور شیرین گفتاری کے درجے میں اضافہ ہوتارہا۔ ہندوستان کی زمین پر کئی علاقے خالص اُردو زبان وادب کے گڑھ کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ہر ہندوستانی بھی اس کے الفاظ وجملو ں کابرجستہ استعمال کرتاہے۔حکومتی ایوانوں میں بھی اس زبان وادب کی ترقی وعروج کے افسانوں کی گونج ہے۔صرف اتنا ہی نہیں حکومت کی سرپرستی میں کئی ادارے اُردو کی ترقی واشاعت میں اپنا کلیدی رول ادا کرکے اُس کے تئیں اپنی دل لگی، محبت وانسیت، اپنی زبان اور خالص ہندوستانی زبان ہونے کابرملا اظہار ہی نہیں کررہے ہیں بلکہ اُس کی نشرواشاعت میں بھی دل وجان سے ہرممکن طریقے سے حکومت کی سرپرستی میں فروغ ِاردو ادب کو خوب پروان چڑھا رہے ہیں۔اور ہونا بھی یہی چاہیے۔صرف شکوہ وشکایت اور طنزو تنقید سے اس کی خدمت نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے ہرشعبے میں براہ راست اُس کا استعمال کرکے،اُس کی نشرواشاعت کے اداروں کو قائم کرکے، عوام کے دلوں میں اُس کی محبت اُتارنے سے ہوتی ہے۔لائبریریوں اور کتب خانوں کو قائم کرنے کے ساتھ ہی اُس میں موجود قارئین کی حقیقی تعداد سے ہوتی ہے۔اُردو کے نام پرمدارس ومکاتب اور اسکولوں کو بنا کر موٹی موٹی تنخواہیں حاصل کرنے سے نہیں، بلکہ وہاں موجود طالب علموں کو اُس کے رَس کا چسکا لگا کر اپنی تہذیب و تمدن اور وراثت کی حفاظت کرنے سے ہوتی ہے۔نہ صرف ذریعہ معاش بناتے ہوئے بلکہ اُس زبان وادب کے ذریعے حصولِ علم کے مقاصد کو حاصل کرنے سے ہوتی ہے۔میرے ان متعلقہ مقاصد کی سطحوں سے بہت اوپر جاکر قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان،نئی دہلی اور ملک بھر میں ریاستی سطحوں پر قائم حکومت کی سرپرستی میں اُردو کی اکادمیاں یہ کام انجام دے رہی ہیں۔مہاراشٹر اسٹیٹ اُردو ساہتیہ اکادمی ممبئی اوراتر پردیش اُردو ساہتیہ اکادمی لکھنو کی طرح دوسری کادمیوں کی خدمات کو بھی یکسر فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
اُردو کی بے لوث خدمات انجام دینے والے سرکاری اداروں کی وجہ سے ملک بھر کے اُردو ادیبوں، مصنفوں وشاعروں اورتخلیقی کاروں کوخوب فروغ حاصل ہوا۔ تصانیف کی اشاعت میں ان اداروں کے مالی اعانت کے ساتھ انعامات کے سلسلوں نے بھی اُردو کلچر کے فروغ میں نمایاں کردار اداکیا۔
صرف ریاست مہاراشٹر کے علاقے ودربھ سے خصوصاً ناگپور و کامٹی کی بات کروں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہاں گزشتہ چند سالوں سے اُردو کتابوں کی اشاعت کی کثرت دیکھنے کو ملتی ہے۔ناگپور سے سولہ کلومیٹر دور شہرکامٹی ویسے بھی اُردو کا قلعہ ہے۔یہ اُردو ادیبوں کا شہر ہے۔یہاں کی ہرگلی کوچے میں ایک عددشاعر ضرور مل جائے گا یا پھر ہر بستی میں ایک ادیب۔بے شک اُردو کی پرورش میں اس شہر کے نام کو فر اموش کردینا ناانصافی ہوگی۔ یہاں اُردو ذریعہ تعلیم کے کئی ادارے ملکی وعالمی سطح پر نامور ہیں۔جس میں ایم۔ایم۔ربانی ہائی اسکول وجونیر کالج اورحجیانی خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول سرفہرست ہیں۔ اتنا ہی نہیں ان ہی اداروں کی عطاکردہ تعلیم کے ذریعے اُردو کے کئی شاعر وادیب اپنا عالمی مقام بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔
بہرحال کامٹی اُردو ادب کاگہوارہ ہے۔یہاں اُردو کے پرستاروں کی کثرت ہے۔اُردو زبان وادب کے فروغ میں اس شہر کے وجود سے انکار نہیں ہے۔خاص بات یہ بھی رہی ہے کہ جب سے گذشتہ چندسالوں سے یہاں بکثرت تصانیف کی اشاعت ہورہی ہے۔ نئے نئے قلم کار اپنی تخلیقیت کے جلوے بکھیررہے ہیں۔ دُنیائے اُردو کے افق پر ستارہ نو کی کثرت کی بہار اپنی تابناکی سے علم وادب کے گہوارے کو منور کررہی ہے۔
الفاظِ ہند جیسا مقبول ترین اُردو کا ماہ نامہ رسالہ یہاں سے نکلتاہے۔الفاظ پبلیکیشن اور آئیڈیل پبلیکیشن جیسے اشاعتی ادارے یہاں اُردو کی نشرواشاعت کے لیے ہر وقت موجود ہیں۔عالمی سطح پر اُردو دنیائے ادب میں نامور کئی شخصیات یہاں موجود ہیں۔ جن میں بال بھارتی کے رکن ریحان کوثر،محمد حفظ الرحمن،ڈاکٹریاسین قدوسی، ڈاکٹر محمد رفیق اے۔ایس،محمداسرار،محمد ایوب، ڈاکٹرارشد جمال وغیرہ شامل ہیں۔کئی ابھرتے قلم کاروں میں پرویز احمد یعقوبی، پرویز انیس،وسیم سعید،شاہد اجمل،نقی جعفری، سہیل عالم وغیرہ کا نام لیا جاسکتاہے۔
خاکسارکا تعلق بھی اسی شہر سے ہے۔میرے آباؤاجداد غدر ہند کے دوران اترپردیش کے ضلع مبارک پور سے نقل مکانی کرکے کامٹی آبسے اور اُسی پیشے کو جاری رکھا۔ اوراُسی اُردو زبان کو مادری زبان کا درجہ عطا کیا۔یہاں آباد ہونے کے بعد چھٹی یا ساتویں نسل میں میراشمار ہوتاہے۔دراصل میرے والدمحترم محمد سعید کے زمانے میں اس خاندان کو استحکامیت نصیب ہوئی۔پارچہ بافی میں اس خاندان نے اپنا نام روشن کیا۔چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش کے مختلف شہروں خصوصاً رائے گڑھ،رائے پور،بھاٹا پارا، بلو دا بازار،چھندواڑہ وغیرہ میں ہمارے کارخانوں میں تیار ساڑیاں ’ اصلی نسیم چھاپ ساڑی‘ کے نام سے خوب مقبولیت حاصل کی۔ اور تجارتی فرمیں اس لیبل کی مونوپال کرنے میں بھی پیچھے نہیں ہٹی۔تعلیم کے شعبے میں بھی اس خاندان کے افراد آگے آتے گئے۔دینی علوم کے علاوہ دنیاوی اعلیٰ تعلیم کے حصول کو اپنا مقصدِ حیات بنایا گیا۔ اب اُس کی شناخت ’ خاندان ِ آل سعید‘ سے ہونے لگی۔دراصل اپنا وجود اپنی شناخت ہمیں قید کردیتی ہے کہ تمہارانام کس خاندان سے منسلک ہے اور یہیں سے نسلیں سنورنے لگتی ہیں۔ ترقی وعروج کی داستانیں بننے لگتی ہیں۔
میں اس شہر کے اپنے مجبوب ادارے ایم۔ایم۔ربانی ہائی اسکول میں بحیثیت ایک معلم گزشتہ ستائیس سالوں سے اپنے فرائض انجام دے رہاہوں۔میری مادرعلمی بھی رہا یہ ادارہ۔دورانِ تعلیم ڈرائنگ اور خوش نویسی جیسے فنون میں مہارت حاصل کی اوراُسی فن نے مجھے شہرت دلانے میں نمایاں کردار اداکیا۔ لکھنے کافن بھی اسی ادارے کی دین ہے۔ اُردو زبان وادب سے دلچسپی لگانے کا پیمانہ بھی یہی ادارہ رہا۔ طلب علمی کے زمانے سے مختلف نئے عنوانات پر تخلیقیت کا جنون طاری تھا۔ مگراُس صلاحیت کو منظر عام پر لانے کا موقع چند سالوں قبل ریحان کوثر اور ڈاکٹر نسیم اختر کے توسط سے حاصل ہوا۔میری پہلی تصنیف’ یہ ہماری قوم‘ تھی۔اس کے بعدکئی کتابیں لکھیں۔جن میں سائنس بک، تحریرِسعید، ریشمی رشتے، آثار ِصغرا، عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبدیلی، ہماری سائنس، فنون لطیفہ اور انسان کی تخلیقی صلاحیتیں شامل ہیں۔ میرے مضامین ملک کے نامور رسالوں خصوصاًاُردو دُنیا، روشن ستارے، بچوں کی دُنیا، سماچارپالیکا، خواتین کی دُنیا،الفاظ ہند،امنگ وغیرہ میں موقع ومحل سے شائع ہوتے رہے۔آکاش وانی ناگپور سے بھی کئی تعلیمی سرگرمیوں میں حصہ لیا ہوں۔
میری اُن تصانیف پر ناگپو وکامٹی اطراف واکناف کے کئی قلم کاروں، معلمین ومعلمات نے اپنا تبصرہ پیش کیا۔ اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اُن مخلص ادب کے پرستاروں کی تخلیقات میں نے‘ نقوشِ سعید ‘ عنوان سے خود مرتب کرنے کوشش کی ہے۔ اس تصنیف میں صرف پانچ کتابوں ریشمی رشتے، عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبدیلی، ہماری سائنس، آثار ِصغرا اورفون لطیفہ اورانسان کی تخلیقی صلاحیتیں پر صرف سال رواں ۲۰۲۲میں جن قلم کاروں، معلمین و معلمات اور میرے مشفق اساتذہ کرام نے اپنے خیالات مجھے تحریر کرکے دیئے ہیں، انھیں کی تخلیقات کا اس کتاب میں احاطہ کیاجارہاہے۔
نقوش ِ سعید ُ کا مقدمہ خود طالبِ دعا نسیم سعید نے تحریرکیا ہے۔ قارئین کے زیر گوش کے دوران عرض کردوں کہ’ تعارف و تبصرہ ‘میرے استادِمحترم عالی وقار محمدحفظ الرحمن صاحب کا تحریر کردہ ہے۔ اُن کا نام لینا ہی میرے لیے اورمیرے ادبی جنون کے لیے کافی ہے۔
رونق جمال افسانچہ نگاری کے بانی ہیں۔ سال ۲۰۲۱ میں چھتیس گڑھ کی ریاستی حکومت نے اُردو کے فروغ میں اُن کے نمایاں کارناموں کو نظر میں رکھتے ہوئے ریاستی ایوارڈ سے نوازہ تھا۔ اُن کے تحریر کردہ مضمون’ رونق کی نظر سعید کے جمال پر‘کے مطالعے سے ہی میرے اور اُن کے درمیان رابطے کی گنجائش کے راستے عیاں ہوجائیں گے۔میرے بڑے بھائی کی حیثیت سے انھوں نے میری ہر قدم پر ادب کی دُنیا میں رہنمائی کی ہے اور آگے بھی بفضل ِ خدا کرتے رہیں گے۔اُن کا دوسراتحریر کردہ مضمون ’ماحولیاتی مطالعہ اور نسیم سعید ‘ ہے۔اس تبصرے میں انھوں نے میری تصنیف ’ عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبدیلی‘ پرخوب روشنی ڈالی ہے۔مضمون کی جڑ میں پیوست اُن کے نظریات و خیالات لائق ستائش ہیں۔
’رونق کی نظر سعید کی جمال پر‘اس مضمون میں ایک جگہ وہ میری خطاطی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ وہ اکثر واٹس ایپ پر اپنے خوش نویسی کے نمونے ارسال کرتے رہتے ہیں۔کبھی کبھی اس تعلق سے یوٹیوب پر موجود اپنے ویڈیوز بھی ارسال کرتے ہیں۔ ویڈیوز میں جب انھیں خوش نویسی کرتے دیکھتا ہو ں تو ایسا لگتا ہے، جیسے تختہ سیاہ پر رنگین چاک سے بنیں اُن کی انگلیوں سے تحریر تختہ سیاہ پر نکل کر مچلتے لگتی ہے۔ میں اکثر اُن کے ویڈیوز دیکھ کر حیران ہوجاتاہوں کہ کس طرح سے اُن کی انگلیاں تختہ سیاہ پر ستارے ٹاکنے کاکام کرتی ہیں۔ ان کی خوش نویسی کی ویڈیوز دیکھ کر میں نے ان سے کہا تھا’’ واہ نسیم سعید صاحب بہت خوب ‘اگر میں کامٹی میں آپ کے سامنے موجود ہوتا تو آپ کے ہاتھ چوم لیتا۔!‘‘ ان کی خطاطی بھی غضب کی ہے۔ جب کہ آج یہ فن کمپیوٹرکی زد میں آکرتقریباً ختم ہونے کے قریب ہے۔ لیکن میرا دعواہ ہے کہ جب تک اس سرزمین پر نسیم سعید جیسے فن کار آتے رہیں گے خوش نویسی اورفن خطاطی پوری شان کے ساتھ اپنے مقام پر برقرار رہے گی۔ میں نے اُن سے ایک بار دوران گفتگو پوچھا کہ بھائی آپ نے یہ فن کس سے سیکھا۔!؟ کب سیکھا!!؟ میرے اس سوال کا جواب نسیم سعید صاحب نے نہایت ہی فخر سے دیا جس میں استاد کا احترام بھی تھا، احسان کی خوشی بھی تھی، سیکھنے کا سلیقہ بھی تھا، جستجو کا پیمانہ بھی تھا۔ آج کے دور میں اُستاد کا ذکر اس انداز میں کرنے والے اب کہاں ملتے ہیں ‘‘۔
’ماحولیاتی مطالعہ اور نسیم سعید ‘عنوان سے تو انھوں نے میری کتاب ’ عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبدیلی‘ کا خلاصہ ہی تحریرکردیاہے۔وہ لکھتے ہیں کہ ’’آج موسم کے تعلق سے سارے عالم میں جو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں وہ کسی کی نظر سے پوشیدہ نہیں ہے۔کسی بھی وقت اوراچانک موسم کا مزاج بگڑ جانا، گلیشیئر کا بہت تیزی سے پگھلنا، سردیوں میں درجہ حرارت انتہائی کم ہوجانا، گرمیوں میں درجہ حرارت اپنی حد سے بہت اوپر چلے جانا، گرمیوں کے ایاّم میں اضافہ، سردیوں کے ایاّم میں کمی، طرح طرح کی نئی بیماریوں کا جنم لینا، انسانی قوتِ مدافعت میں کمی ہوتے جانا، انسانی عمر کا بتدریج گھٹتے جانا، حفظان ِصحت سے متعلق ہر وقت ہوشیار رہنے کی ضرورت پڑنا، آمدورفت میں بے تحاشہ اضافہ، مختلف آلودگیوں میں اضافہ اور اُس کے ہونے والے اثرات سے بیزارگی،ساحل سمندر پر آباد شہروں کے غرق ہونے کا خطرہ، مختلف اقسام کے طوفانوں کی بہتات، سطح سمندر میں اضافے کا ڈر، غذائی اجناس کی قلت، میٹھے اور پینے کے پانی کے ذرائع کا دن بدن محدود ہوتے جانا، گھٹن اور اُمس بھرے ماحول میں اضافہ ہونا، ندیوں کا آلودہ ہوجانا، کچروں اور دیگر آلودگیوں میں اضافہ ہونا،تابکارعناصر اور اُس کے انشقاق کے مضر اثرات مرتب ہونا، قہرآلود بارش کا ہونا، آگ زنی میں اضافہ ہونا، جنگلات کا نذر آتش ہونا، شجرکاری میں کمی، فصلوں کی بربادی، کاشتکاری کے لئے موسم کا ٹھیک نہ ہونا جیسے اَن گنت مسائل آج عالمی برادری کے نزدیک سوچنے سمجھنے، ہوشیار ہونے اور ضروری اقدامات اُٹھانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ مگر انسان اقتدار، انا اور خود غرضی کے نشے میں اس قدر ملوث ہے کہ اُسے پتہ ہی نہیں ہے کہ تباہی اُس کے دروازے منہ کھولے کھڑی ہے اور چند لمحات میں ہی اپنا شکار بنانے کی منتظر ہے۔ اندھا دھند معاشی ترقی، جائزو ناجائز خواہشات کی تکمیل میں اور حرص و طمع کے علاوہ اپنی انا،ضد، نفسانی چاہت، عیش و عشرت اور دوسروں کو کمتر، حقیر ثابت کرنے کی گردش میں فطرت اور قدرت کے وسائل و ذخائز کا غلط اور بے تحاشہ استعمال کرنے سے گریز نہیں کررہاہے۔جس کا نتیجہ عالمی برادری کے سامنے موجودہے۔ ماحولیات بنام عالمی حرارت اور آب وہوا میں تبدیلی بذریعہ انسانی سر گرمیاں اوراس کے نتائج آج ہمارے سامنے موجود ہیں۔ یہی فکر کرنے کا مقام ہے۔ اس کتاب کے ذریعے اُسی موضوع سے متعلق حقائق کی احاطہ بندی کی گئی ہے۔جس میں برف کے تودوں کے پگھلنے اور جوہری دھماکوں سے اُس کا تعلق نامی عنوان کے تحت بحث کی گئی ہے۔ آلودگی کے اثرات عالمی آبادی پر اور قدرتی آفات سے اُس کا تعلق، ہوائی آلودگی کا ہمارے شہرپراثر، جیسے عنوان پر بھی تفصیلی بحث موجو دہے۔ عالمی حرارت، اُس کے اثرات، شجرکاری اور زراعت پر اس کے پڑنے والے اثرات کے علاوہ آب وہوا میں تبدیلی اور سیلاب و زلزلے کے متعلق سیر حاصل تفصیل موجود ہے۔ یہی نہیں انسانی اعمال اور اُس کی قدرت میں بے جا مداخلت سے معدوم ہوتے جانداروں کو بھی شامل ِکتاب کیا گیا ہے‘‘۔
ڈاکٹر محمد شرف الدین ساحل صاحب اُردو زبان وادب کے عالم افق پر کسی تعارف کے زیر سایہ نہیں ہیں۔ اُن کی تخلیق بعنوان’نسیم سعید کی فکری جہت‘ اس کتاب میں شامل ہے جو کہ میرے لیے لمحہ فخریہ ہے۔ آپ وقت کے مورخ بھی ہیں اور ماہر تعلیم بھی۔انھوں نے اس مضمون میں ’ خاندان آل سعید‘ کے حوالے سے میرے حسب و نسب اورخاندااں کے حالات اور میرے متعلق کافی معلومات بہم پہنچائی ہیں۔میں اُن کی شخصیت و کارناموں کا تہہ دل سے شکر گزاہوں کہ انھوں نے میرے وجود کی پاسداری اس انداز سے کی جیسے ایک مشفق پدر اپنے بیٹے سے۔ انھوں نے میری کتاب ’ فنون لطیفہ اور انسان کی تخلیقی صلاحیتیں ‘ پر خوب توجہ مرکوز کی۔میرے اس خیال کی تردید کے لیے اُن کی تحریر ملاخطہ فرمائیں۔’’ان کی کتاب’ فنونِ لطیفہ اورانسان کی تخلیقی صلاحیتیں ‘بھی اسی جذبے کے تحت معرضِ وجود میں آئی ہے۔ فنونِ لطیفہ میں شاعری، موسیقی، مصوری اور سنگ تراشی وغیرہ کا فن شامل ہے۔ یہ وہ فنون ہیں جو لوگوں کے دلوں کو براہ راست متاثر کرتے ہیں۔ یہ جسم پر نہیں روح پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ظاہر سے نہیں بلکہ باطن سے تعلق رکھتے ہیں۔اس لئے ان کا خیر سے مزین ہونا لازمی ہے۔ تاکہ سماج ان کے ذریعہ مثبت فکر کا اکتساب کر سکے۔ اس حقیقت کے دائرے میں رہ کر ہی نسیم سعید نے فنون ِلطیفہ کا جائزہ لیا ہے، اُن کی اہمیت کو اُجاگر کیا ہے اوراُس تعلق سے چھوٹے بڑے۵۰مضامین سپرد قلم کیے ہیں۔ ان میں سے چند کے عنوان یہ ہیں :فنونِ لطیفہ اور انسان کی تخلیقی صلاحیت، ہندوستانی موسیقی، نصب کردہ مجسمے، کلاسیکی رقص، غاروں پر نقاشی، مجسمے اور پینٹنگ جمہوری اقدارکے فروغ کا ذریعہ، بولتا فن مصوری، فن بصورت موسیقی وغیرہ۔اس کے علاوہ انھوں نے پکاسو، رام کمار، غلام حسین، فیروزدیوان، ایڈ ورڈ مونک وغیرہ کے فن پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ نسیم سعید فنونِ لطیفہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
تاریخی اعتبار سے غورکریں تو پانچ طرح کے بنیادی فنونِ لطیفہ کا ذکر ملتاہے۔ ان میں مجسمہ سازی، رنگ آمیزی، فن تعمیر، موسیقی اور شاعری قابل ِ ستائش ہیں۔ آج قلم سازی، رقص وسرور کی محفلیں اور گیت بھی اس میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ تصویر کشی، ویڈیوکا ری، ترمیم کاری، نقش و نگاری، تخکر مک آرٹ، تصوراتی آرٹ، چربہ سازی کے عمل کا شمار بھی اس زمرے میں ہوتاہے۔ فن تعمیر، مجسمہ سازی، رنگ آمیزی، موسیقی، شاعری اور رقص دراصل روایتی فنون ہیں۔ قواعد زبان، منطقی، بیان بازی، علم الحساب، علم ہندسہ، علم فلکیات، گیت وغیرہ فنون ِ عامہ میں شمار ہیں۔
یہی وہ فنونِ لطیفہ اور دیگر فنون ہیں جو حیطہء تحریرمیں آتے ہیں۔نسیم سعید نے اس سلسلے میں کافی معلومات بہم پہنچائی ہے۔ان کا انداز ِ تحریرسادہ، سلیس اور عام فہم ہے۔ ان کی کتابیں شاہدہیں کہ ان کی معلومات عصری تقاضوں کے لحاظ سے وسیع ہیں۔ان کے سوچنے کا انداز منفرد ہے۔وہ زندگی کے کئی شعبوں کوا پنی گرفت میں لیتے ہیں اوران کو اپنی فکر کے ذریعہ سماجیاتی اعتبار سے مفید بناتے ہیں۔ اگر وہ زبان وبیان پر زیادہ توجہ دیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہوگا۔ امید ہے کہ ان کی سوچ کو مقبولیت کی سند ملے گی‘‘۔
محمد ایوب ( ایئرانڈیا) خود اپنے آپ میں اُردو ادب کاایک حصہ ہیں۔ اُن کی قلم کی روانی اور تسلسل بیان کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔صرف ’ فنونِ لطیفہ اور نسیم سعید ‘ عنوان سے شامل اس مضمون کا درج ذیل اقتباس ملاحظہ فرماناہی شاید قارئین کے
لیے کافی ہو۔
’’نسیم سعید صاحب نئی نسل کے نوجوان ہیں۔پیشے سے معلم ہیں۔اپنے پیشے سے انھیں انسیت ہے۔اس لگاؤ کے سبب انھوں نے فنی اور درسی عمل میں مہارت حاصل کی ہے۔ اس کا ثبوت وہ بے شمار اسناد اور پیشہ ورانہ نصاب کی تفصیلات ہیں، جو انھوں نے اپنی دلچسپی،لگن اور محنت سے حاصل کی ہیں۔ بلاشبہ پیشۂ تدریس میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انھوں نے سائنسی مزاج کے ہوتے ہوئے فنون لطیفہ جیسے نازک اور حساس موضوعات پر سوچا ہے اوراس پر تحقیق کی ہے۔بے شک ان کی تحریروں میں سائنسی مزاج بھی شامل ہے۔ ان کی کتابوں پر انھیں ایوارڈ سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ فَنِّ کتابت اور خطّاطی سے آپ کو گہرا لگاؤہے۔سائنس، ماحولیات، ادب، تہذیب و ثقافت آپ کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔ سائنس،کلچر، ماحولیات اور ادب پر آپ کے متعدد مضامین معیاری رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں۔ سائنس اور اصلاح معاشرہ پر آپ کی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ سماجیات سے لے کر ثقافت، ماحولیات سب پر آپ کی نظر رہتی ہے۔ سائنس، گھریلو سائنس، کلچر، شخصیات اور کچھ حد تک ادب پر ان کی نگارشات منظر عام پر آچکی ہیں۔ سائنس کے موضوع پر ان کی تحریریں تو ان کی شناخت بن گئی ہیں۔ انسانی رشتوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ان کی کتاب ریشمی رشتے جس کابیّن ثبوت ہے۔ زیرنظرکتاب ’’فنونِ لطیفہ اور انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ ‘‘ میں بھی انھوں نے نہ صرف قدیم بلکہ جدید اور جدید ترین فنون لطیفہ کابھی سیر حاصل جائزہ لیا ہے۔ نودریافت موضوعات اور نئے نئے گوشوں پر بھی ان کی نظر ہے، جس کا ثبوت اکل و شرب پر جدید خیالات سے ان کا استفادہ اور تحقیق ہے۔اسی طرح جدید ٹکنالوجی کے فنون لطیفہ پر جو دیر پا اثرات مرتب ہوئے ہیں اس کا بھی انھوں نے جائزہ لیا ہے۔ فنونِ لطیفہ پر اردو زبان میں بہت کم کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ اس کتاب میں انھوں نے حتی الامکان سبھی موضوعات کا، کامیابی سے احاطہ کیا ہے۔ اس طرح یہ کتاب اس موضوع پر ایک اہم کتاب ہے۔ زبان و بیان کے لحاظ سے ان کی تحریریں مزید محنت اور توجہ کی متقاضی ہیں۔کہیں کہیں جملوں کی تکرار اور ژولیدہ بیانی سے نفس مضمون متاثرنظر آتا ہے۔امید ہے آئندہ ان نکات کو وہ ملحوظ خاطر رکھیں گے کیوں کہ قلم کار کے لئے زبان و بیان پر دسترس اور عبور لازمی ہے۔ ان سب کے باوجود اپنے مواد اور معلومات کے لحاظ سے یقینا یہ ایک قیمتی کتاب ہے جس کی پذیرائی ہونی چاہیے‘‘۔
’نقوشِ سعید ‘میں ڈاکٹر نصرت مینو صاحبہ کے بھی دو مضامین شامل ہیں۔ محترمہ وسنت راؤ نائک گورنمنٹ انسٹی ٹیوٹ آف آرٹس اینڈسوشل سائنسز، ناگپور میں شعبہ اُردو کی اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔اُردو ادبی حلقوں کے لیے ایک نامور ہستی ہیں اور ہر وقت اُردو ادب کی اشاعت و فروغ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہیں۔ان کی کئی تصانیف بھی منظر عام پر آچکی ہیں۔میری تصنیف ’عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبد یلی‘ پر اپنے اظہار خیال بعنوان’حرارت ارضی اور موسمی اثرات‘ کے ماتحت لکھتی ہیں کہ ’’زلزلے پر سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ ایسے جانور جو معدوم ہو تے جا رہے ہیں ان کے تحفظ اور بقا پر زور دیاگیاہے۔ ’’آب و ہوا میں تبدیلی اور سیلاب کے اثرات ‘‘، ’’ نشان تحفظِ ارض۔ گریٹاتھن برگ‘‘اچھے مضامین ہیں۔کتاب ماحولیات کے میدان میں گلیشیر، فضائی آلودگی سے متعلق اہم معلومات کی حامل ہے۔ کتاب کی زبان سادہ سلیس اور عام فہم ہے۔ ہر بات کو مثالوں کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسلوب بیان دلکش ہے جو قاری کی توجہ کو بر قرار رکھتا ہے۔اردو قارئین کے لیے یہ کتاب ایک گرانقدر تحفہ ہے‘‘۔اُن کے اس نظریات سے ہی مجھے حوصلہ ملتاہے۔
صدرِجمہوریہ ایوارڈ یافتہ ڈاکٹر محمد یاسین قدوسی صاحب شعبہ کتبات محکمہ آثارقدیمہ حکومت ہند کے سابق ناظم ہیں۔ ’فنون لطیفہ اور انسانی کی تخلیقی صلاحیتیں ‘ اس کتاب کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں کہ’’جناب نسیم سعید نے اس کتاب میں مختلف عنوانات جو فنونِ لطیفہ سے متعلق ہیں اور جن لوگوں نے بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے اور اپنا نام روشن کیا۔ اُن کے متعلق اجمالاًحقائق پیش کئے ہیں۔ ہندوستان کی تاریخ و تمدن اور فنونِ لطیفہ کی تاریخ بھی بہت قدیم ہے۔ آپ نے ان تمام باتوں کا جائزہ لیا ہے۔ عہد قدیم سے آج تک فنونِ لطیفہ کے حقائق بڑے دلچسپ اندا زمیں پیش کئے ہیں۔اپنی نوعیت کی یہ کتاب بڑی معلوماتی ہے۔ آپ کا طرزِ اظہار منفرد اور محققانہ ہے۔آپ نے اس کتاب کے ذریعہ اپنی فنی، تحقیقی،تاریخی اور خصوصاً فنون لطیفہ پر اپنی پکڑ کو جگ ظاہر کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ فنونِ لطیفہ سے متعلق وراثت کو اپنی مادری زبان اُردو میں محفوظ بھی کردیا ہے۔کتاب شاندار ہے اور اس کا مطالعہ ضروری ہے۔ مجھے امید ہے کہ یہ کتاب علمی وادبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھی اور پڑھی جائے گی‘‘۔ ان کا یہ پیراگراف ہی میری ادبی زندگی میں تغیرات لانے کا باعث ہے۔
سیٹھ کیسری مل پوروال کالج کامٹی کے شعبہ اُردو کے اسسٹنٹ پروفیسر محمد اسرار صاحب کامٹی کی ادبی فضا کے بارے میں اس کتاب میں شامل اُن کی تخلیق ’ نسیم سعید بحیثیت معلم فنون کا مجموعہ‘میں لکھتے ہیں کہ’’کامٹی کی فضاادبی کاموں کے لیے کافی ساز گار ہے۔آپ کسی سے کوئی مددمانگ لیجیے، وہ حاضر ہوجائے گا۔ کم از کم مجھے تو اسی بات کا تجربہ ہے۔کوئی مشورہ ہو بلا تکلف کسی سے بات کر لیجیے۔ محمد ایوب صاحب، ماسٹر توحید الحق صاحب یا نسیم سعید، یہ تمام آپ کو بہترین مشوروں سے نوازیں گے۔ ایسے حالت میں کام کرنا نہ صرف آسان ہوجاتاہے بلکہ اچھا بھی محسوس ہوتاہے۔ نسیم سعید رفتہ رفتہ ایک پختہ مصنف ہوتے جارہے ہیں۔موضوع کو لفظوں میں سمیٹ لینا اانھیں بخوبی آتاہے۔ کسی عنوان کو کس طرح سے گرفت میں لینا، اس کے لیے کیا معلومات درکار ہوگی، یہ سب وہ سمجھ چکے ہیں۔اب وہ بے تھکان لکھنے لگے ہیں۔ انھوں نے ابتدائی تجربات سے بہت کچھ سیکھا ہے۔قومی سطح پر بھی ان کی تحریروں کی پذیر ائی ہونے لگی ہے۔اُردو دُنیا،بچوں کی دُنیا،خواتین کی دُنیا، بچوں کا ماہنامہ امنگ اور دیگر رسالوں کے علاوہ ممبئی سے نکلنے والے اخبارت میں بھی ان کے مضامین اہتمام سے شائع ہوتے ہیں۔یہ سلسلہ پچھلے کئی برسوں سے جاری ہے۔مسلسل شائع ہونے کے سبب ملک کے مختلف علاقوں میں ان کا نام جانا پہچانا ہوچکا ہے‘‘۔
ضلع امراؤتی کے شہر اچل پور سے تعلق رکھنے والے صدرجمہوریہ ایوارڈ یافتہ مدرس شاعر اطفال متین اچل پوری صاحب کی بھی ’پیتل کے بھاؤ سونا‘ عنوان سے تحریریں اس کتاب میں شامل ہیں۔ جس میں ’ ہماری سائنس‘ اور ’ عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبدیلی‘ پر اُن کے فیصلہ کن تاثرات موجود ہیں۔اُس کے فوراً بعد ڈاکٹر نصرت مینو کاایک اورشاہکار نسیم سعید کی تخلیقی صلاحیتیں اورفنون ِلطیفہ ‘ میں شامل ان کا ذیل کا اقتباس قابلِ غور ہے۔
’’حرکی فنون ‘‘ ایک دلچسپ اور معلوماتی مضمون ہے۔ حرکی (Kinematics) فن پر اس مضمون میں مفصل تبصرہ کیا گیا ہے۔اس فن کے ضمن میں مختلف حرکات پر مبنی فنون شامل ہوتے ہیں جیسے رقص، ڈراما، موسیقی، جادوئی کرتب، کٹھ پتلی کا کھیل، سرکس، گونگا رقص وغیرہ۔ اس مضمون کے تحت ہندوستان کے شاستری رقص کی آٹھ مختلف قسمیں بھرت ناٹیم، کتھک، کچی پڑی، اڈیسی، ستریہ، منی پوری، موہنی، آٹم، کتھا کلی لوک ناچ کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ صاحب تصنیف کا مطالعہ وسیع و عمیق ہے۔ یہ تصنیف ان کی انتھک محنت و کاوش کا نتیجہ ہے۔ فنون لطیفہ کی مختلف اقسام اور متنوع موضوعات کو انھوں نے اس کتاب میں بڑی عرق ریزی سے یکجا کیا ہے جو قابل تعریف ہے۔اسی طرح مضمون’’ آرٹ کوڈنگ ‘‘ میں کوڈنگ اور فن کے درمیان تعلق پر غور کیا ہے۔ مضمون ’’ فن اور شاعری ‘‘ میں بتایا ہے کہ شاعری اظہار خیال کا مؤثر طریقہ ہے۔ فنونِ لطیفہ کی ایک شاخ شاعری بھی ہے۔ اس فن کے ذریعے پرواز تخیل کو انسان نے کینوس پر تحریر کیا۔ ہر فن کے لیے ایک خالی کینوس درکار ہوتا ہے۔ جس میں فن کار اپنے فن کا جادو دکھاتا ہے۔انسان کا تخیل ہی اس کے فن کے وجود میں لانے کا محرک ہے‘‘۔
استاد محترم محمد اقبال قریشی صاحب نے’ نسیم سعید کی سائنسی ادب نگاری‘ موضوع پرایک مکمل جامع نظریہ پیش کیاہے۔میرے وہ تمام مضامین جو سال ۲۰۱۸ اور۲۰۱۹ کے دوران ملک کے مختلف نامور رسالوں میں شائع ہوتے رہے،’ہماری سائنس‘ نامی کتاب میں شامل ہے۔اسے چھوٹے بھائی وسیم سعید نے مرتب کیا ہے۔محترم کی تخلیق کردہ ہر سطریں قابلِ غور اور باعثِ مسرت ہیں۔
رفیعہ شہناز حجیانی خدیجہ بائی گرلس ہائی اسکول کامٹی کی صد رمعلمہ اور میری اہلیہ ہیں۔ میرے مضامین جوشائع ہونے سے رہ گئے اورآکاش وانی ناگپور سے میرے جوپروگرام نشرہوتے رہے اُن تمام موضوعات پر مشتمل کتاب’ آثارِصغرا‘ کو ترتیب دینے والی صدرمعلمہ ادبی و تعلیمی حلقوں میں محتاج تعارف نہیں ہیں۔
اُن کی حسب ذیل سطور سے اُن کی ذہنی بالیدگی کااندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’ہم اپنی روزانہ کی زندگی میں ’سوبکا ایک لکھا ‘ اس فقرے کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یہاں بھی ہمیں لکھنے یعنی قلم کے ذریعے اپنی متعلقہ زبان میں مطلوبہ خیال کو عملی جامع پہنانے سے مرادہے۔بہر حال فن ِ تحریر پر دسترس حاصل کرنا یہ بھی انسان کی بلندترین تخلیقی صلاحیتوں میں سے ایک ہے۔ جوکہ ہردور کی ایک مہذب وراثت بھی ہے‘‘۔
’کاوش نسیم سعید ‘’ریشمی رشتے ایک مطالعہ۔۔ نسیم سعید کے تفکرات ‘ موضوعات
سے پرویز احمد یعقوبی کے دو مضامین’ نقوشِ سعید ‘ میں شامل ہیں۔مصنف بہترین کہانی نگار، ناقد اور مقالہ خواں ہیں۔اُن کی کئی کتابیں منظر ِعام پر آکر خوب پذیرائی حاصل کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’نسیم سعید پیشہ سے سائنس ٹیچر ہیں، اس کے ساتھ ہی ایک ادیب ایک خطاط وفن کار بھی ہیں۔فنون لطیفہ ان کا جنون ہے،ان کی تحریر ورق کی زینت ہوتی ہے اور فن لطیف اپنی زبان آپ بولتاہے۔ جس طرح ایک پینٹر اپنی سوچ و فکر کا مظاہرہ پینٹ اور برش کے ذریعے کینوس پرکرتاہے۔ اسی طرح نسیم سعید صاحب بھی اسکول کے بلیک بورڈ پر مختلف مواقع پر فن خطاطی کے ذریعہ اپنے فکر وفن کا مظاہرہ کرنہ صرف بچوں بلکہ ہر عمر کے لوگوں کے لیے پیغام مرتب کرتے ہیں۔ جسے سوشل میڈیا، فیس بک وغیرہ پر بھی دیکھاجاسکتاہے۔مہاراشٹر اُردو ساہتیہ اکادمی، ممبئی کی جانب سے انہیں مثالی مدرس کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے۔۔۔دلی مبارکباد‘‘۔
ڈاکٹر محمد رفیق اے۔ ایس کا ذکر اگر یہاں نہ کروں تو کامٹی کی اردو ادب کی تاریخ نامکمل رہے گی۔ آپ ہی کے ذریعے اور ان کے رفقاء میں شامل ریحان کوثر کی بدولت عصر ِحاضر میں کامٹی کی سرزمین پر اردو کی بہاریں گزشتہ دو دہائیوں سے دوبارہ اپنے عروج پر ہیں۔ ’ فنونِ لطیفہ اور نسیم سعید ‘ موضوع سے اس کتاب میں شامل ان کے مضمون کا درج ذیل اقتباس قارئین کی توجہ کا ضرور مرکز بنے گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’انہوں نے دور جدید کے نئے فنون کا بھی احاطہ کیا ہے۔جو سائنس اور ٹیکنالوجی کی دین ہے۔ بلکہ انہوں نے ان فنون پر خاصی مشقت کرکے ان کی معلومات کا خزانہ قارئین کے روبرو پیش کردیا ہے۔ یہ طرز تحریر اور ادائیگی خون جگر کی طالب ہے جسے نسیم سعید صاحب جیسے، جیالے مصنف ہی پورا کرسکتے ہیں۔ کتاب کی زبان سلیس ہے، پڑھنے میں روانی اوردلچسپی کا اظہارہوتاہے۔جسب ِضرورت اصطلات اورنکات کو برموقع برمحل واضح بھی کرتے چلے گئے ہیں۔ تاکہ قاری کوسمجھنے میں الجھن کااحساس نہ ہو۔ جہاں مناسب معلوم ہو وہاں اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعہ اضافہ بھی کرتے چلے گئے ہیں۔ ‘
اُسی طرح ریحان کوثر اور میرے ہر دل عزیز ساتھی پرویز انیس بھی اردو کی دنیا میں ابھرتا ایک نیا ستارہ ہے۔ آپ ایک بہترین افسانہ نگار ہیں۔ افسانچوں کی عصری دنیا کے افق پر آپ کا نام قابلِ قدر نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ اُن کا ایک مضمون ’ فنونِ لطیفہ، فنونِ لطیفہ کی بہترین نمونہ ہے ‘ اس کتاب کے عمدہ تبصروں میں شمار کیا جاتا ہے لکھتے ہیں، ’نسیم سعید صاحب کی کتاب فنون لطیفہ موصول ہوئی اور اس نے مجھ پر حیرتوں کے دروازے کھول دیے۔فنون لطیفہ جیسے وسیع موضوع کو نسیم سعید صاحب نے جس مہارت اور خوبصورتی سے قلمبند کیا ہے وہ نہ صرف قابل تعریف ہے بلکہ ان کے ادبی ذوق اور مہارت کی گواہی دیتا ہے۔ ‘
ڈاکٹرمعراج الحق ’ فنون ِلطیفہ اور انسان کی تخلیقی صلاحیتیں ‘ میں بطورمبصر لکھتے ہیں کہ’ ’انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کی بنیاد پر دُنیا میں خوبصورتی کا تصور اور اس کا وجود دریا کی روانی، جھرنوں اور آبشاروں کی کلکلاہت، صبح و شام کی رنگینیاں، پھلوں اور پھولوں کی مہک اور خوشبو ئیں اپنی بے پناہ خوبصورتی کا مظاہرہ کرتی ہیں۔ اسی طرح ڈرائنگ، پینٹنگ، ڈیزائن،مجسمہ سازی، حرکت پزیری،کھیل کود کا عمل، فن تعمیر، موسیقی، شاعری، تصویر کشی، رقص، فن و فروخت، خوش خطی، فیشن ڈیزائننگ، وارلی آرٹ، مہندی آرٹ، طنزیہ نمائش، فن پارہ، ٹیٹو آرٹس جیسے موضوعات قابل تعریف انداز میں پیش کئے ہیں۔ وہیں موجودہ زمانے کی نسلوں پر خود کو ظاہر کرنے کے لیے مخصوص اسٹیج کی ضرورتوں اور انسانی ارتقاء کی اہمیت کو سمجھایاہے۔فنون لطیفہ کی ترغیب انسان کو قدرت اور اس کی روزمرہ زندگی سے ملتی ہے۔اسی لیے اس کے اردگرد سماجی ماحول اور واقعات کی باز گشت اس کے ہر فن پر اثر انداز ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اسی سے ہر فن مختلف خیالات سامنے آتے ہیں۔عوامی فنون ِلطیفہ میں میتھیلی مصوری، وارلی مصوری، گونڈ طرز مصوری، تنجاور طرز مصوری، طرز مصوری رنگولی وہیں حرکی فنون میں شاستری، لوک نوچ، آزاد رقص، بھرت ناٹیم، کتھیل کچی پڑی، اڈیسی،ستریہ، منی پوری، موہنی اٹم، کتھا کلی لوک ناچ، ڈرامے اور مختلف علاقوں کے تہواروں، تقریبات اور غموں کے موقعوں پر مختلف قسم کے رقص اور ان کی خصوصیات کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے‘‘۔
چھوٹے بھائی وسیم سعید جوکہ لائبریرین ہیں، اپنے مضمون ’فنون لطیفہ اورتحریک ِ زندگی‘ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ’ ’نسیم سعید صاحب ایک سادہ لوح، خاموش مزاج، ملنسار شخصیت کے مالک ہیں۔آپ میں خداداد صلاحیت اتم درجہ موجود ہیں۔ ہمیشہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں محورہنا ان کی زندگی کے لائحہ عمل کا خاصہ ہے۔ان کا ہر طرزِعمل میرے لیے ایک درس اور پیغام کا باعث ہوتاہے۔اسی مناسب سے ان کی تصنیف ’فنون لطیفہ اور انسانی تخلیقی صلاحیتیں ‘ بھی سماج ومعاشرے کے لیے ایک خاموش درس اور پیغام دیتی ہے کہ زندگی قدرت کاعطاکردہ بہترین اثاثہ اور سرمایہ ہے جو ایک بار ہی عطاہوتی ہے۔ قدرت کی اس نعمت کی قدر کرکے اپنی پوشیدہ صلاحیتوں اور خوبیوں کو اُجاگر کرکے اپنی زندگی کو دلکش اور نایاب بنانے کا درس دیتے ہیں۔ مختلف عنوانات کے تحت آپ نے اپنی کتاب میں استاد فن پکاسو،رام کمار، فیروز دیوان، ایڈورڈمونک، غلام شیخ، جین ڈائچ، چارلی چپلی کی حالات زندگی کو بطور مثال کے طور پر پیش کرکے بتایا ہے۔ اور معاشرے کے عام و خاص لوگوں کو ایک تحریکی پیغام کے طورپر پیش کیاہے۔ جو لوگ اپنی زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں اور زندگی کو بے معنی، بے مزہ اوربے لذت محسوس کرتے ہیں، ان کے سامنے زندگی جینے کا کوئی مقصد باقی نہیں رہتا، زندگی سے وہ ہارچکے ہوتے ہیں، ان لوگوں کو اپنی فنی صلاحیت تلاش کرنے کا درس دے کر نئی حیات بخشنے کی کوشش کی ہے‘‘۔
ایم۔ایم۔ربانی ہائی اسکول کے کئی معلمین ومعلمات نے بھی میری تصانیف پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ان میں سے ایک خدیجہ بانو صاحبہ اپنے تبصرے میں لکھتی ہیں کہ ’’آثار ِصغرا کی ایک اہم بات جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا۔وہ یہ ہے کہ موصوف نے اپنی یہ کتاب اپنی والدہ محترمہ صغرا بی کے نام منسوب کیا ہے انسان کی تربیت میں سب سے اہم کردار ماں کا ہوتاہے اور اس طرح نسیم سعید صاحب نے ایک سعادت مند فرزند کی طرح اپنی والدہ محترمہ کی قدردانی کا ثبوت دیاہے۔الغرض آثار ِصغرا اپنے مواد اور معلومات کے لحاظ سے ایک قیمتی کتاب ہے۔ جس کی پذیرائی ہونی چاہیے۔ اپنی اس کتاب میں انھوں نے حتی الامکان سبھی موضوعات کا کامیابی سے احاطہ کیا ہے‘‘۔
عائشہ بیگم نے’ ریشمی رشتے ‘کو’ نونہاں کی نفسیات کومجموعہ‘ کہاہے اور’ فکر نسیم بحیثیت معلم‘ کہہ کر معلم کے پیشے سے وابستہ ہوکر ’ عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبدیلی‘ کے حوالے سے ماحولیات سے متعلق فکر مند انسان بھی کہا ہے۔
ظفر اقبال بھی اسی اسکول کے لائق اور قابل احترام استادہیں۔’ عالمی حرارت اور موجودہ آب وہوا میں تبدیلی‘ کے حوالے سے آپ تحریر کرتے ہیں کہ’ ’ہر بات اپنے موزوں کے اعتبار سے لائق، مطالعہ اور سبق آموز ہے، میں استاد ِمحترم نسیم سعید صاحب کو ان کی پانچویں تصنیف کے لیے دلی مبارک باد پیش کرتاہوں۔اور دعاگو ہوکہ اﷲ انھیں صحت و تنددستی کے ساتھ عمر طویل عطا فرمائیں ‘‘۔
مفتی انیق ذکی فلاحی صاحب مسجد ابراھیم کامٹی کے امام و خطیب ہیں۔حالاں کہ دُنیاوی علوم خصوصاً سائنس و ماحولیات وتکنیک وغیرہ ان کی تعلیمی حدود سے کافی دور شمار کئے جاتے ہیں۔پھر بھی وہ لکھتے ہیں کہ’’ماشاء اﷲ !کتاب اپنے موضوع پر نہایت ہی بصیرت افروز اور معلومات افزا ہے سنجیدگی سے پُر اور دلائل سے مزین ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ مجھ جیسے بے ذوق کے نزدیک یہ موضوع خشک تھا لیکن موصوف کے طرز ِتحریر دلائل و شواہد کی پختگی اور سہل اندازی نے اسے پُر لطف بنادیا۔سائنس کے ایک ماہر استاذ ہونے کے ناطے جناب نسیم سعید صاحب ہی کو یہ زیب دیتاہے کہ وہ مزید اس موضوع پر قلم اٹھائیں اور پوری دُنیا کو باخبر کردیں کہ انسانوں ہی کے ذریعہ آب وہوا میں پھیلائی جانے والی آلودگی کس طرح انسانی سماج کو غیر محسوس رفتار سے تباہی کی طرف ڈھکیل رہی ہے‘‘۔
اس کتاب میں شامل مولانا ابوالکلام آزاد جونیر کالج ناگپور کے ٹیچر محمد عامر آفاق کا تخلیق کردہ مضمون بعنوان ’ فنونِ لطیفہ اور انسان کی تخلیقی صلاحیتیں۔ایک گرانقد تصنیف ‘شاید میرے خیال میں اس کتاب میں شامل میرے تمام مواد کا حاصل ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دُنیائے اُردو کے آسمان پر یہ ابھرتاستارہ نو ہے جو کہ اپنی قلم کاری میں تابناکی کے جوہر دکھانے کے لیے میدان تلاش رہاہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ اُس نوجوان قلم کار کی قلم اُسے عرش سے فرش پر پہنچانے میں ضرور ساز گار ثابت ہوگی۔
صوفی نگر کامٹی میں قیام پذیر اُردو کے مشہور شاعر عمران آصف کی تحریر کو بھی نظر انداز ہرگز نہیں کیا جاسکتا۔آپ جناب میرے شاگرد رہے ہیں۔فنون ِلطیفہ اور انسان کی تخلیقی صلاحیتیں ‘ پر اپنے نظریات اور تاثرات کا اظہارکرتے وقت تبصرہ کا موضوع’ استادِ گرامی نسیم سعید صاحب کی ادبی و فنی تخلیقیت ‘ رکھتے ہیں۔ اور لکھتے ہیں کہ ’’نسیم سعید سر نہایت سادہ مزاج انسان ہیں۔ اُن کی طبیعت میں سنجیدگی و عاجزی اور انکساری موجود ہے۔آپ ایک علمی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔اور درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہیں اور کامٹی کے مشہور و معروف ادارے ایم۔ ایم۔ربانی ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج میں زیر ِملازمت ہیں۔آپ کا پرانا آبائی مکان اسماعیل پورہ کامٹی میں واقع ہے۔ابھی آپ اپنے نئے مکان حاجی نگر، ایرکھیڑا،کسوم تائی منگل کاریالے کامٹی کے پیچھے رہتے ہیں۔ میرا تعلق اُن سے ۱۹۹۴ میں ہوا، جب میں آٹھویں جماعت میں تھا۔ مین روڈ پویس اسٹیشن کے سامنے نگر پریشدہائی اسکول واقع تھی، جہاں صبح ۷ سے۱۲ بجے تک اُردو کلاس ہوا کرتی تھی اور۱۲ سے ۵ بجے تک ہندی میڈیم کی کلاس ہواکرتی تھی۔ وہاں آپ بطور Trainer پڑھانے جایا کرتے تھے۔ میرا بچپن کا زمانہ تھا۔ ہم لوگ اسکول میں بہت شور و غل مچاتے تھے اور بہت شرارت بھی کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود سر نہ کبھی ڈانتے، نہ ہی کسی کو مارتے، بلکہ بہت پیار ومحبت سے سمجھایا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کی شخصیت میرے ذہن و دل پر نقش ہوکررہ گئی۔ اس کے بعد پہلی مرتبہ اسٹیج پرکامٹی کی مشہور و معروف شخصیت اورماہرِتعلیم جناب ڈاکٹر رفیق اے۔ ایس۔ صاحب کی کتاب ’ مٹی کی آلودگی‘ کے اجراء کے موقع پر دیکھا۔ اس اجراء کے موقع پر سر نے مٹی کی آلودگی پر ایک جامع مقالہ پیش کیا تھا۔جسے لوگوں نے بہت پسند کیا‘‘۔اس کے علاوہ انھوں نے فنون ِ لطیفہ پر ایک مختصر سی جامع پرمغز نظم بھی تخلیق کی ہے۔چند اشعار ملاحظہ کیجیے۔
ہے یوں تو ہراک فن فنونِ لطیفہ
ہے خوابوں کا مسکن فنونِ لطیفہ
دلوں کوجو تسکین و راحت بھی بخشے
کرے دور الجھن فنون ِلطیفہ
نقوشِ سعید ‘ میں شامل پانچ کتابوں کے پس پشت پرجن مصنفوں وادیبوں کے تاثرات شائع ہوکر اپنی رعنائیوں کے جلوے بکھیررہے ہیں اُن میں ماہر تعلیم وماحولیات ڈاکٹرمحمد رفیق اے۔ایس، پرویز احمد یعقوبی، محمد عامر آٖفاق اورمحمد اسرار صاحب کی محنتوں کے صلے کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔اس کتاب میں یسیرہ جمال،تحمینہ کوثر، محمد اسلم تنویر کے بھی متعلقہ تبصرے شامل ہیں۔ سہیل عالم ( شاعر) اور عارف جمالی(شاعر) کے بھی تصورات وخیالات کو تحریری شکل میں پیش کیاگیا ہے۔
شاہد اجمل کامٹی کی ادبی زمین پر ابھرتے ایک نوجوان قلم کار ہیں۔ اُن کا مضمون’ نسیم سعید ہمہ جہت شخصیت کے مالک‘ اُن کی نظر سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اُن کی طرزِ تحریر داد دینے کے قابل ہے۔ایک جگہ لکھتے ہیں کہ’ ’حالاں کہ نسیم سعید صاحب مجھ سے عمر میں بہت زیادہ بڑے نہیں ہے۔ بہت زیادہ ہوتومشکل سے مجھ سے دو سال ہی بڑے ہونگے۔مگر ان کی قابلیت اور ان کا معیار دیکھ کر مجھے اور میرے تمام ہم جماعت گروپ کو یہ احساس ضرور ہوتاہے۔کاش نسیم سعید صاحب بھی ہمارے اساتذہ ہوتے۔کیونکہ ہمارے زمانے میں بھی ایسے ہی معیاری اور کامیاب اساتذہ ہو اکرتے تھے۔ آج کے دور میں بھی نسیم سعید صاحب جیسے محنتی اور اپنے طالب علموں پر ہر اعتبار سے دل وجان سے محنت کرنے والی صلاحیت رکھنے والے شخصیت موجود ہے۔ صرف مجھے ہی نہیں بلکہ میرے گروپ ایم ایم آر ۸۷ کوایسے اساتذہ پر فخر ہے۔میں سمجھتا ہوں ایسی ہی شخصیات کی وجہ سے ہمارے ادارے کا ہر زمانے میں نام روشن رہاہے۔آج بھی روشن ہے۔ اور انشاء اﷲقیامت تک روشن رہے گا‘‘۔
۱۴ مئی ۲۰۲۲ کو میرے اعزاز میں منعقدہ اعزازی تقریب بنام نسیم سعید ( مثالی معلم ایوارڈ یافتہ ) کے موقع خاکسار کی تقریر بھی اس کتاب کاحصہ ہے اور اُردو ٹائمز ممبئی میں شائع یکم مئی ۲۰۲۲ کو شائع خبر’نسیم سعید کو مہاراشٹر اسٹیٹ اُرد و ساہتیہ اکادمی ممبئی کا مثالی معلم ایوارڈ‘بھی اس کتاب میں شامل ہے۔
اس کتاب کی تیاری میں الفاظ ِ ہند کے مدیر اور بال بھارتی کے رکن ریحان کوثر صاحب کی خدمات اور دلچسپی کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ساتھ ہی الفاظ پبلی کیشن اور ان کے اراکین کا بھی کتاب کی تیاری میں بھرپور تعاون حاصل رہا۔
امید ہے کہ نقوشِ سعید ‘ نامی میری مرتبہ کتاب قارئین کی مقبول نظر بنیں گی۔ ادبی حلقوں اور ادبی و تعلیمی اداروں میں گراں قدر تصنیف کے طور پر جانی جائے گی۔اﷲ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ اس کتاب میں شامل تمام مبصروں، ادیبوں، شاعروں اورناقد نگاروں کی دعاؤں کے طفیل مجھ ناچیز کو بھی اُردو کے ادبی میدان میں سربلندی و سرخروئی عطا فرمائے۔اس کتاب میں شامل تمام ادبی حضرات، معلم ومعلمات کو صحت وتندرستی کے ساتھ طویل عمری عطا فرمائے۔امین
0 Comments