یادوں کے جھروکوں سے
✍️ارشاد احمد ارشادؔ دہلوی
رمضان المبارک عبادت، ریاضت، رحمت، برکت، عظمت، کا مہینہ ہے۔ ہر مسلمان اس ماہِ مبارک میں بڑی لگن کے ساتھ مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں سر بسجود ہوکر اپنی عاجزی انکساری اور اپنی بندگی کا دل سے برملا اظہار کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے پڑوسیوں، رشتے داروں، دوست واحباب کامالی مدد (چاہے وہ زکوۃ کی شکل میں ہو یا کہ صدقات کی صورت میں) کے ذریعے بھرپور خیال رکھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ پروردگار اس سے راضی ہو جائے ۔ مگر بچپن ان تمام باتوں سے مبرا ہے۔ وہ تو ایک بہتا پانی ہے جس کو اگر روکنے کی کوشش کی جائے تو وہ اپنا راستہ بدل لیتا ہے۔ بچپن پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتا ہے۔ یہی آزادی اس کی بھرپور نشو نما میں معاون ثابت ہوتی ہے۔ بچپن گناہ و ثواب کے اجر سے آزاد ہوتا ہے وہ ان لفظوں سے واقف تو ہو سکتا ہے مگر ان کے اثرات سے نابلد ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے مسجد میں بھی شرارت کرنے سے باز نہیں آتے جہاں کچھ بچے جمع ہوئے بس ان کی رگِ شرارت پھڑک اٹھتی ہے ۔ ان کی کتنی ہی صف بندی کی جائے مگر وہ ایک دوسرے کو چھیڑنے سے باز نہیں آتے ۔ اپنے برابر کھڑے ساتھی کو چھیڑنا ان کا پیدائشی حق ہے۔ کبھی اس کی ٹوپی اچھال دیں گے کبھی کُہنی مار دیں گے بس یہیں سے ان کا جھگڑا شروع انہیں یہ خیال نہیں ہوتا کہ نماز ہو رہی ہے وہ مالک حقیقی کے حضور حاضر ہیں۔ یہاں انھیں لڑنا یا شرارت کرنا نہیں چاہیے۔ مگر صاحب اگر وہ یہ بات جان جائیں گے تو پھر بچپن کی حد سے نکل کر شعور کی حد میں داخل ہو جائیں گے بچپن شعور کی پابندی کو تسلیم نہیں کرتا وہ تو بس آزاد رہنا چاہتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ ہم بھی بچے تھے۔ اور شرارتیں بھی کیا کرتے تھے۔ یہ شرارتیں کبھی انفرادی ہوا کرتی تھیں۔ کبھی اجتماعی ہوا کرتی تھیں۔ بچپن کی شرارتیں رمضان المبارک میں بھی کم نہیں ہوتیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سحر ہو یا افطار سارے محلے کے بچے جمع ہوجاتے تھے۔ سحری کھانے کے بعد فجر کی نماز مسجد میں ادا کرتے مسجد سے آتے وقت غبارے والا کھڑا ہوا ملتا تھا۔ وہ دس پیسے کا چھوٹا غبارہ اور بیس پیسے کا بڑا غبارہ جس کا وہ سیب بنا کر دیتا تھا خرید لیا کرتے تھے ۔ پھر یہ ٹولی گلی میں اس غبارے کو اچھال اچھال کر کھیلا کرتی تھی۔ پورے محلے کے بچے ایک جگہ جمع ہوکر شور مچایا کرتے تھے جب تک محلے کا کوئی بزرگ ڈانٹ کر نہیں بھگاتا تھا تب تک یہ ٹولی اسی طرح ادھم مچاتی رہتی تھی۔ مگر مجال کہ کسی بزرگ کے ڈانٹنے پر کوئی بچہ بد تمیزی کر جائے یا وہاں بے غیرتی سے رک جائے اگر کوئی ایسا کر جائے تو آفت آجاتی تھی۔ پھر تو گھر والے بھی نہیں چھوڑتے تھے۔ اخلاقیات کی پاسداری کی جاتی تھی۔ بچے محلے کے بزرگوں سے بھی ڈرتے تھے۔ ان میں وہی احترام ہوا کرتا تھا جو اپنے گھر کے بزرگوں کا ہوا کرتا تھا۔
چھٹی کے دن گلی ڈنڈا کھیلنے رام لیلا گراؤنڈ جایا کرتے تھے۔ فجر کی نماز کے بعد محلہ قبرستان میں ایک بڑھئی کا گھر تھا جو فجر کے بعد گلی ڈنڈا بیچا کرتے تھے۔ دس پندرہ پیسے کی گلی اور چار آنے کا ڈنڈا۔ آپ کو ایک مزے کی بات اور بتا دوں کہ ان تمام چیزوں کو خریدنے کے لیے بھی پتّی ملائی جاتی تھی۔ پانچ پانچ پیسے سب ملا کر وہ چاہے غبارے کا سیب ہو یا گلی ڈنڈا خریدا جاتا۔ اس سب سے بے پروا کہ کھیل کود میں تھوڑی دیر بعد ہی روزے میں زیادہ پیاس لگنے لگے گی۔ مگر صاحب عجب زمانہ تھا۔ پیاس کا احساس بھی کم ہوتا تھا۔ فجر کی نماز کے بعد پورا رام لیلا گراؤنڈ بچوں سے بھرا رہتا تھا۔ ہر طرف گلی ڈنڈا کھیلتے ہوئے لڑکے ہوتے تھے۔ جب تک دھوپ تیز نہ ہو جاتی یہ کھیل جاری رہتا تھا گھر آکر ایسے سوتے کہ ظہر کی خبر لاتے۔
تراویح میں قرآن پورا ہونے کا دن بھی بڑا پُر رونق ہوا کرتا تھا۔ آج قرآن کہاں پورا ہورہا ہے یا ہونے والا ہے اس کی خبر بھی رکھتے تھے۔ جس مسجد میں قرآن پورا ہونے والا ہوتا اس کی خبر پہلے لے لی جاتی تھی عشاء میں پوری کی پوری ٹولی اس مسجد میں پہنچ جاتی اور شیرنی لینے میں سب سے پیش پیش ہوتی اور یہ شیرنی بھی ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ لینے کی کوشش کی جاتی تھی ۔ اس زمانے میں شیرنی میں زیادہ تر کھانڈ کے بتاشے کجھوریں ہی بٹا کرتی تھیں۔ کہیں کسی مسجد میں کھجلا، پھینی، میٹھی بریڈ ، بن وغیرہ بھی بٹا کرتے تھے۔ کھانڈ کے بتاشے اور کھجوریں عام تھیں اور دوسری مذکورہ شیرنیاں خاص تھیں۔ یہ سب حافظ کی مالی حیثیت پر منحصر تھا۔ کیونکہ دہلی میں جو حافظ قرآن سناتا تھا وہی شیرنی بھی تقسیم کروایا کرتا تھا۔ دو بتاشے، ایک کھجلا، ایک پھینی یا ایک بن اس کے لیے کس قدر جدو جہد کرنا پڑتی تھی یہ تو اس زمانے کے بچوں سے پوچھو۔ مگر اس جدوجہد میں کیا لطف آتا تھا بیان سے باہر ہے۔ اس دن مسجد میں وہ لوگ بھی نظر آتے تھے۔ جو تراویح نہیں پڑھتے تھے۔
کبھی کبھی جامع مسجد بھی جایا کرتے تھے ۔ وہاں کئی حافظ الگ الگ جماعتوں میں قرآن کریم سنایا کرتے تھے۔ جس حافظ کو مسجد کا مصلّٰی نہیں ملتا تھا وہ حافظ جامع مسجد کے صحن میں قرآن سنایا کرتا تھا۔ جامع مسجد کے صحن میں کبوتروں کے لیے کونڈوں میں پانی بھر کر رکھا جاتا تھا ۔ جب مقتدی سجدے میں جاتا تو بچے وہ پانی کا بھرا ہوا کونڈا نیچے رکھ دیا کرتے تھے جب مقتدی سجدے سے اٹھتا وہ اس کونڈے میں بیٹھ جاتا تھا بے چارہ سارا گیلا ہوجاتا تھا اور بچے تھے وہ کسی بھی حافظ کے پیچھے نیت باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ سحری میں ٹولیاں بنا بنا کر گلی، محلے میں آواز لگاتے پھرتے تھے۔ " سحری والو سحری کھالو " یا کوئی نعت یا کلمے پڑھتے پھرتے تھے۔
کبھی کبھی جامع مسجد بھی جایا کرتے تھے ۔ وہاں کئی حافظ الگ الگ جماعتوں میں قرآن کریم سنایا کرتے تھے۔ جس حافظ کو مسجد کا مصلّٰی نہیں ملتا تھا وہ حافظ جامع مسجد کے صحن میں قرآن سنایا کرتا تھا۔ جامع مسجد کے صحن میں کبوتروں کے لیے کونڈوں میں پانی بھر کر رکھا جاتا تھا ۔ جب مقتدی سجدے میں جاتا تو بچے وہ پانی کا بھرا ہوا کونڈا نیچے رکھ دیا کرتے تھے جب مقتدی سجدے سے اٹھتا وہ اس کونڈے میں بیٹھ جاتا تھا بے چارہ سارا گیلا ہوجاتا تھا اور بچے تھے وہ کسی بھی حافظ کے پیچھے نیت باندھ کر کھڑے ہوجاتے تھے۔ سحری میں ٹولیاں بنا بنا کر گلی، محلے میں آواز لگاتے پھرتے تھے۔ " سحری والو سحری کھالو " یا کوئی نعت یا کلمے پڑھتے پھرتے تھے۔
آج کا بچہ ان سب باتوں سے نا بلد ہے اس کو نہ شیرنی میں دلچسپی ہے نہ وہ کسی شرارت میں حصہ لینا پسند کرتا ہے اسے صرف موبائل سے سروکار ہے اس کا سارا بچپن موبائل کی نذر ہو رہا ہے۔ ہمیں ہر رمضان المبارک میں بچپن کی وہ سب باتیں وہ سب شرارتیں خوب یاد آتی ہیں۔
0 Comments